Items filtered by date: الإثنين, 01 كانون2/يناير 2018

 چھِنال

 (ایک بے باک افسانہ)

 مہتاب عالم پرویزؔ  (کویت)

                                                    

          ٭  چننئی سینٹرل کالج کے با لکل سامنے وسیع و عریض پارک میں وہ خوبصورت سی لڑکی خوبصورت سفید بالوں والے ایک کتے کو سیر کروا رہی تھی۔وہ چھوٹا سا کُتا جس کے سفید اور خوبصورت لمبے لمبے گھنے بال اُس کے چہرے کو چُھپائے ہوئے تھے اور اُس کے گلے میں پڑا ہوا وہ خوبصورت سا رنگین پٹہ اُسے اور بھی خوبصورت بنا رہا تھا۔کُتے کے گلے میں پڑے ہوئے رنگین پٹے سے جُڑے ہوئے زنجیر کا دوسرا سرا اُس خوبصورت سی لڑکی کے کیوٹ سے مہندی لگے ہوئے ہاتھوں میں تھا۔

                ایک لمحے کے لئے میرے ذہن میں یہ باتیں کوند سی گئیں کہ کاش یہ کُتے کا رنگین پٹہ میری گردن پہ لگا ہوتااور اس سے جُڑے ہوئے زنجیر کا دوسرا  سرا اُس خوبصورت سی لڑکی کے کیوٹ سے مہندی لگے ہاتھوں میں ہوتا۔

                یہ الگ سی بات ہے کہ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ میں بیوی کے پلوُسے بندھا  ہوا ہوں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ حقیقت تو کچھ اور ہی ہے جس کی گہرائی تک پہنچ پانا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں۔

                لیکن اُس کُتے کو اُس خوبصورت سی لڑکی کے ساتھ دیکھ کر میں بے چین ہو اُٹھا تھا۔اور یہ احساس میرے دل ودماغ پہ چھاسا گیا تھا جیسے کوئی لمحہ کسی انسان کی زندگی میں کتنا فرحت بخش ہوتا ہے اور کتنا پیارا لگنے لگتا ہے۔

                بیوی کے پلوُسے بندھے ہوئے شاید میں اب اُوب چُکا ہوں اور مجھے اب ایسے ہی پٹے کی تلاش ہے۔

                میں سوچ کی دُنیا میں گُم تھا کہ کُتے کے بھونکنے کی آواز نے میرے خیالات کا سلسلہ منتشر کر دیا۔

                وہ خوبصورت سی لڑکی جس کے کیوٹ سے مہندی لگے ہاتھوں میں کُتے کی زنجیر تھی کُتا اُس میلی کچیلی کُتیا کی طرف متوجہ تھا۔اور بے چین ہو ہو کرٹانگ اُٹھا اُٹھا کر وقتاََ فوقتاََ پیشاب کر رہا تھا۔

                کُتے نے جب زنجیر کو جھٹکا دیا اور اُس میلی کُچیلی کُتیا کی طرف جانے لگا تو اُس خوبصورت سی لڑکی نے مزید اُس زنجیر کو اپنی طرف کھینچ لیااور بڑبڑانے لگی......

                جیسے وہ اُس کُتے سے کہہ رہی ہو کہ جب تمہارے سامنے ایک خوبصورت سی کُتیا پہلے سے ہی موجود ہے تو کیوں اُس میلی کچیلی کُتیا کی طرف دیکھ رہے ہو۔

                تم نے دیکھا نہیں مُحلے کے اُن آوارہ کُتوں کو جو  اس میلی کُچیلی کُتیا کے پیچھے لگے رہتے ہیں اور کُتیا ہمیشہ اپنی دُم دبائے  رہتی ہے۔

                حالات کے زیر اثر میں بھی اُس خوبصورت سی ماڈرن لڑکی کے بالکل قریب آگیا تھا اور اتنا قریب کہ میں اُس کی آوازیں صاف سُن سکتا تھا۔ جب اُس خوبصورت سی ماڈرن لڑکی کی نظر مجھ پہ پڑی تو وہ اپنے کُتے سے مخاطب ہو کر اور بھی بولنے لگی تھی......

                ان دنوں میں یہ دیکھ رہی ہوں جب سے تم انسانوں کی اس بھیڑ میں آنے لگے ہو تمہاری عادتیں بھی ان انسانوں جیسی ہونے لگی ہیں۔اور پھر اُس نے اُس خوبصورت کُتے کو اپنی گود میں اُٹھا لیااور بے تحاشا اُسے چومنے لگی ایسا کرتے وقت میں اُس لڑکی کے بے حد قریب تھا۔

                کُتے کو اس طرح بے تحاشا چومنے کا احساس میں اپنے گالوں پہ محسوس کر رہا تھا......

              اور دور کھڑی وہ میلی کُچیلی کُتیا بھونک بھونک کر نہ جانے کس جذبے کا اظہار کر رہی تھی۔ اور میں یہ سوچنے پہ مجبور تھا کہ لڑکی کا اس طرح اُس کُتے کو گود میں اُٹھا

لینا اور اُس کے چہرے کو اس طرح سے چُومنا محلے کی اس میلی کُچیلی کُتیا کو بھی بُرا لگ رہا تھا۔اس لئے وہ بھونک بھونک کر احتجاج کر رہی تھی۔

                وہ میلی کُچیلی سی کُتیا مسلسل بھونکتی رہی.........اور وہ خوبصورت سی لڑکی اپنے کُتے کو اپنی گُود میں اُٹھائے اپنی ایمپورٹڈ کار کی طرٖف لوٹ رہی تھی....جو پہلے سے ہی پارک کے مین گیٹ کے سامنے کھڑی تھی۔

وہ خوبصورت سی لڑکی ابھی کار تک پہنچی بھی نہیں تھی کہ کار کے ڈرائیور نے دروازہ کھول دیا تھا۔وہ خوبصورت سی لڑکی کار کی پچھلی سیٹ پہ جا  دھنسی تھی۔ وہ خوبصورت سا کُتا اب بھی اُس کی گودمیں تھا جسے وہ اور بھی زور سے دبوچے ہوئے تھی اور سرگوشیاں کر رہی تھی اُس کے ساتھ ہی کار کا دروازہ ڈرائیور نے بند کر دیا تھا جس پہ کالا شیشہ چڑھا ہوا تھا اور دبیز پردہ بھی جُھول رہا تھا.......

                اور میری جواں آنکھوں میں وہ قوت کہاں تھی کہ میں کالے شیشے اور دبیز پردے کے اُس پار کے منظر کو اپنی جواں آنکھوں میں قید کر سکوں، لیکن میری سوچ کی دشاؤں کا رُخ کچھ اور ہی تھا۔  اور میری سوچ  میرے اندر کسی گوشے میں جذب ہو کر نئی بے شمار کہانیوں کو جنم دے رہی تھی۔ کہانیاں تو اسی سماج کی پیداوار ہیں اسی معاشرے سے اس کا وجود ہوتا ہے۔ کہانی کار بھلا کیا کر سکتا ہے۔

                .میں کافی دور تک اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا......

                کُتیا کے بھونکنے کی آوازیں اب بھی میری سماعت سے ٹکرا رہی تھیں........

                میں بھی اپنے کمرے میں لوٹ آیا تھا۔

             اُس رات میں سو نہیں سکا  بلکہ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا اور یہی سوچتا رہا کہ کاش میں بیوی کے پلوسے نہ بندھا ہوتا.......

                یہاں آئے ہوئے مجھے تقریباً سات یا آ ٹھ روز ہوگئے تھے۔ ان سات آٹھ دنوں میں وہ خوبصورت سی لڑکی مجھ سے کافی گُھل مل گئی تھی ۔ دو چار ملاقاتوں میں ہی مجھے اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ وہ لڑکی کافی ماڈرن ہے اور نیلم نام سن کر میں یہی سوچ سکا کہ اس حسین لڑکی کا اتنا ہی حسین نام ہونا چاہئے تھا۔

 

                نیلم کی ایمپورٹڈ چمچماتی گاڑی.......صبح وشام نئے نئے ڈیزائین کے مغربی لباس..... جونیلم کے دلکش وجودکے مخصوص حصوں کو چُھپانے کی کوشش میں مصروف مگر ناکام رہتے تھے......اُس کے وجودسے اُٹھتی  ہُوئی تیز پرفیوم کی خوشبوئیں..... پنسل ہل کے استعمال کی وجہ سے اُس کے جسم کے نشیب و فراز کی تھرکنیں.......

                 نہ جانے کیوں میں اُس کی طرف کھنچتا چلا گیا.......یا پھر اس کی کشش مجھے خودبخود اس کے سحر میں مبتلا کرنے لگی تھی۔

                لیکن یہاں آتے وقت بیوی کی کہی ہوئی وہ ساری باتیں مجھے یاد آتی رہیں....

                آپ جا تو رہے ہیں،لیکن اپنا خیال رکھیں گے۔کہیں ا دھر اُدھر آنا جانا نہیں کریں گے۔کالج جائیں گے اور اپنے کمرے میں واپس لوٹ آئیں گے۔اپنی نگاہوں کو جُھکائے رکھیں گے۔جب بھی کوئی لڑکی آپ کو اپنی طرف متوجہ کرے آپ پہلے ہی کہہ دیں گے کہ میں شادی شدہ ہوں،ایک خوبصورت سی بیوی ہے جو مجھ سے بے انتہا پیار کرتی ہے جو مجھ سے بے پناہ محبت کرتی ہے اور تم سے بھی زیادہ خوبصورت اور حسین ہے اور وہ میرا بہت زیادہ خیال رکھتی ہے۔بس آپ اتنا کہہ دیں گے وہ یقینا آپ سے دور رہنے لگے گی پھر دوبارہ آپ کے قریب بھی نہیں آئے گی۔

                میں نے ایسا ہی کیا....

                میری  بیوی کی کہی ہوئی ساری باتیں نیلم بغور سُنتی رہی اور آخر میں اُس نے سرد آہ بھر کر کہا۔”کہ تم اب بھی بیوی کے پلو سے بندھے ہوئے ہو۔“

                               

                ”کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ میں بھی تمہیں اپنے پلو سے باندھ لوں۔“

                ”چاہتا توہوں ِِ،لیکن.......“

                ”لیکن کیا؟ “

                ”مجھے تمہارے کُتے سے بہت ڈر لگتا ہے۔“

                ”اگر ایسا ہے تو لو تمہاری خاطرمیں اس کُتے کو آزاد کرتی ہوں۔“یہ کہتے ہوئے نیلم نے کُتے کا رنگین پٹہ اُس کی گردن سے کھول دیا۔

                کُتا نہ جانے کہاں انسانوں کی اس بھیڑ میں گُم ہو گیا...... جہاں انسان اس پوری بھیڑ میں اپنی پہچان کی تلاش میں بھٹک رہا ہے بھیڑ موجود ہے لیکن اُس کا چہرہ....... گردنوں کے اوپر جانوروں کے خوفناک چہرے ٹکائے لوگ ایک دوسرے کو بھنبھوڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔

                 لیکن میں خوش تھابہت خوش تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب میں اپنا مقام بنا لوں گا۔

                ”چلو اب گھر چلتی ہوں۔“

                ”کہاں؟ “

               ”وہ دیکھو وہ سامنے جو خوبصورت سی حویلی ہے، وہ میری ہے۔پاپا ان دنوں ممی کے علاج کے لئے امریکہ گئے ہوئے ہیں۔ بڑے بھائی لندن میں پڑھتے ہیں۔اور میں بالکل تنہا ہوں۔ ویسے میری حویلی میں ڈھیر سارے نوکر چاکر ہیں لیکن پھر بھی میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتی ہوں، کاش کہ تم میرے جذبات و احساسات کو سمجھ پاتے.....“

                میں نے دل ہی دل میں کہا کاش کہ تم بھی میرے جذبات واحساسات کو سمجھ پاتیں۔

             ”لیکن نیلم میں نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں شادی شدہ  ہوں اور ایگزام کے سلسلے میں تمہارے شہر میں کُچھ دنوں کے لئے آیا ہوا ہوں.....“

                یہ تو او ر بھی اچھی بات ہے کہ تم شادی شدہ ہو مجھے بھی تم سے بہت کُچھ سیکھنے کو مل جائے گا اور رہی ایگزام کی بات تو وہ تم مجھ پہ چھوڑ دو،  بس تم اتنا کرو،  میرے کورے وجودمیں اپنے نفس کے قلم کی ساری رنگینیاں اُنڈیل دو جس کے جرثومے میرے وجود میں سرایت کر کے ایک نیاطوفان اُٹھا دیں گے اور تم پاس ہو جاؤ گے۔ 

                  اور پھرنیلم کے مہندی لگے خوبصورت ہاتھوں نے کُتے کا وہ رنگین پٹہ میر ی گردن میں ڈال دیا تھا،اور میں خوش تھا بہت خوش تھا جیسے میرے خیالات کی تکمیل ہو رہی ہو،جیسے میرے خواب حقیقت کا کفن اُوڑھ رہے ہوں...

                لیکن میں یہ اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ خواب کبھی حقیقت کا کفن نہیں اُوڑھتے اور زندگی بے لباس ہو جاتی ہے۔

                نیلم باتوں ہی باتوں میں مجھے اپنی حویلی کے باہروسیع اور عریض لان تک لے آئی تھی۔

                 حویلی کے مین گیٹ پہ جلی حروف میں لکھا تھا۔ (BEWARE  OF  DOG)               

                ایک لمحے کے لئے میں چونکا اور خوف سے تھرّا گیا لیکن جب میری نگاہ میری ہی گردن  پہ جُھولتے ہوئے  رنگین پٹے پہ پڑی تو فوراََ سنبھل بھی گیا اور فخر محسوس کرنے لگا کہ کُتے کا رنگین پٹہ تو میری گردن میں جُھول رہا ہے تو پھر کس کُتے کا ڈر،سامنے آویزاں قدآدم میرر  پر جب میری نگا ہ پڑی میں خود کو پہچاننے سے قاصر تھا۔میری گردن کے اوپر میرا چہرہ گولڈن بالوں والے  کُتے کی شکل میں تبدیل ہو چُکا تھااور میری گردن میں رنگین پٹہ جُھول رہا تھا اور میں مسکرا رہا تھااور میری پُشت پہ نیلم بھی مسکرا رہی تھی۔                                       

             سفید بالوں والے اُس کُتے کو نیلم نے اُس وقت ہی آزاد کر دیا تھا جب وہ پہلی بارمیری شخصیت سے متاثر ہوئی تھی اور پھر میری سُرخ ہوتی ہوئی آنکھوں میں خوشیوں کے سانپ ناچنے لگے تھے.......

                حویلی میں مکمل سکوت چھایا ہوا تھا۔ مالی پھولوں کی کیاریوں کی آبپاشی کر رہا تھا حویلی کے سارے نوکر چاکر اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔کسی کا بھی دھیان میری طرف نہیں تھا،جیسے میرا یہاں آنا کوئی نئی بات نہیں ہو۔

                ”اب اندر آؤ گے بھی یا  وہیں کھڑے کھڑے لوٹ جاؤ گے۔“

                نیلم مجھے حویلی میں لے آئی تھی۔

              شام  ڈھلنے لگی تھی۔اور سورج کی لالی نیلم کی آنکھوں میں اُتر آئی تھی،اُس کی آنکھیں سُرخ ہونے لگی تھیں، جیسے وہ نشے کی عادی ہو۔جب وہ کمرے میں دوبارہ واپس لوٹی تو حویلی کا نوکر اُس کی  پُشت پہ موجود تھا اُس کے ہاتھوں میں خوبصورت سے ٹرے میں رنگین مشروب کے دو گلاس سجے ہوئے تھے  اُسی ٹرے میں ایک مرغ مسلم کچھ اس انداز سے سجا یا گیا تھا کہ مجھے محسوس ہو رہا تھا جیسے نیلم مکمل  برہنہ بستر پہ دراز ہے اور ا س کی دونوں ٹانگیں اوپر اُٹھی ہوئی ہیں۔ نوکر ٹرے سینٹر ٹیبل پہ رکھ کر جا چُکا تھا۔ نیلم نے ایک گلاس میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا آج کی شام تمہارے نام۔

                اوردوسرے گلاس کا وہ رنگین مشروب اُس نے  ایک ہی سانس میں اپنے اندراُتار لیا۔ اندرون میں اُترتا ہوا  رنگین مشروب اُس کی آنکھوں میں چڑھنے لگا تھا  اور آنکھیں اور بھی سُرخ ہونے لگی تھیں اور اُس کے ساتھ ہی  اُس کی آنکھیں کافی نشیلی ہو گئی تھیں۔ مغربی لباس جو پہلے سے ہی اُس کے خوبصورت جسم کے نشیب و

فراز کوعیاں کر رہے تھے شراب کے نشے نے اُسے اور بھی دوبالا کر دیا

تھا

۔                O MAN WHAT ARE YOU THINKING.DRINK  IT          

                ”میں...... میں شراب نہیں پیتا “  

                شراب نہیں پییو گے تو شباب کا مزہ کیسے لو گے۔ اتنا کہتے ہوئے نیلم میرے بالکل قریب آ گئی تھی، اتنا قریب کہ میں اُس کی گرم ہوتی ہوئی سانسوں کو اپنے چہرے پہ محسوس کر رہا تھا۔ پھر میری سانسیں نیلم کی گرم ہوتی ہوئی سانسوں میں گُڈ مُڈ ہونے لگی تھیں۔ شراب کا گلاس اب بھی میرے ہاتھ میں تھا اُس کے خوبصورت جسم سے اُٹھتی ہوئی تیز پر فیوم کی خوشبومجھے  مد ہوش کئے جارہی تھی کہ اچانک کُتے کے غُرانے اور بھونکنے کی ملی جُلی آواز نے مجھے ہوش میں لا دیا، کُتے کی بھونکنے کی مسلسل آوازیں میرے کانوں میں بازگشت بن کر گونجنے لگیں میرے ہاتھ سے شراب کا گلاس چُھوٹ کر فرش پہ جاگرا اور ٹوٹ کر  چُور چُورہو گیا جیسے میرے خواب ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئے ہوں، بکھربکھر گئے ہوں۔ 

                 میں کافی گھبرا گیا تھا۔

                پھراچانک وہ منظر مجھے پاگل کر دینے کے لئے کافی تھا وہ سفید بالوں والا کُتا کافی غُصیلے انداز میں ہم دونوں کی طرف غُراتا ہوا دیکھ رہا تھا اور زور زور سے بھونک بھی رہا تھا۔اُس کے جبڑے سے رال ٹپک رہا تھا۔

                دفعتاَ وہ جھپٹا اور نیلم کے خوبصورت جسم کو بھنبھوڑنے لگا۔ نیلم کی چیخیں پوری حویلی میں گونجنے لگیں۔سارے نوکر چاکر دوڑکر اکٹھاہوگئے تھے ۔

                کُتا اب میری طرف دیکھ کر بھونک رہا تھا۔اور میں نوکروں کی بھیڑمیں گُم ہوجانے کی کوشش میں سرگرداں تھا  لیکن میری گردن کے اوپر میرا چہرہ گولڈن بالوں والے کُتے کی شکل میں تبدیل ہو چُکا تھا اور انسانوں کی اس بھیڑ میں،میں اپنی پہچان کی تلاش میں بھٹک رہا تھا۔ کُتا اب بھی بھونک رہا تھا۔

                اُسے اس طرح بھونکتا دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ وہ کہہ رہا ہو کہ جب میں پہلے سے یہاں موجود ہوں تو تمہیں آنے کی ضرورت کیا تھی۔

                ایک لمحے کے لئے خاموش رہ کر کُتا اچانک زور سے بھونکا میں گھبرا گیا۔اسی گھبراہٹ میں میری گردن پہ پڑا ہوا پٹہ فرش پہ جا گرا۔کُتے نے اُس پٹے کو اپنے جبڑے میں دبا کر نیلم کے زخمی ہاتھوں پہ رکھ دیا اور اُس کی گود میں سر رکھ کر کُوں کُوں کرنے لگا۔

 

مہتاب عالم پرویزؔ

(کویت)

Published in افسانے

شعبہ اردو،میرٹھ یونیورسٹی اوریو نائٹیڈ پرو گریسیو تھیٹر ایسو سی ایشنکے مشترکہ اہتمام میں ڈراما فیسٹول اور ایوارڈ فنکشن کا انعقاد
ڈاکٹر سپریا پاہوجا،جے پی سنگھ(جئے وردھن)، اور ہیمنت کمار گویل کو اُپٹا نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا
(پریس ریلیز)
میر ٹھ 31/دسمبر2017ء
آج یہاں نیتا جی سبھاش چندر بوس آڈیٹوریم،واقع چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں شعبہ اردو اور یو نائٹیڈ پرو گریسیو تھیٹر ایسو سی ایشن(UPTA) کے مشترکہ اہتمام میں ڈرا ما فیسٹول میں بعنوان”مایا رام کی مایا“ اور درپن کلا کیندر کا ڈرامہ”گدھ“پیش کیا گیا جس کو نا ظرین نے خوب پسند کیا اور تالیوں کی گڑ گڑا ہٹ سے ارا کین ڈرامہ اور اداکاروں کو حوصلہ بخشا۔ڈرامہ ”گدھ“ونود کمار بے چین کا تحریر کردہ ڈرا ما ہے جس کا ڈا ئریکشن انل شرما نے کیا۔ جب کہ یو نائٹیڈ پرو گریسیو تھیٹر ایسو سی ایشن کی پیش کش ”مایا رام کی ما یا“کو جے وردھن نے تحریر کیا تھا اور اس کا ڈائریکشن بھا رت بھو شن شرما نے کیا۔
اُپٹا نے ہر سال کی طرح امسال بھی اسٹیج اورڈراما نگاری کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے وا لوں کو ایوارڈ سے سر فراز کیا۔ معروف ڈرامہ نویس اور اداکار جے پی سنگھ(جئے وردھن) کواپٹا بھارتیندو ہریش چندر نیشنل ایوارڈ2017ء”اُپٹانیلو کپور اچیور ایوارڈ2017ء ڈاکٹر سپریا پاہوجا(معروف اسٹیج اداکارہ) کو اور اپٹا اتکرشٹتا ایوارڈ2017ء ہیمنت کمار گویل کو پیش کیے گئے۔
اس مو قع پر(UPTA) کے سر پرست اور صدر شعبہ اردو،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی ڈاکٹر اسلم جمشید پوریؔ نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا”شعبہ اردو کی کوشش رہتی ہے کہ میرٹھ میں ادبی ماحول بنے اور نئی نسل ادب اور تہذیب و ثقافت سے رو بہ رو ہو سکے“۔مہمان مکرم کے بطور ڈاکٹر آر کے بھٹنا گر(سابق آئی اے ایس)، ڈاکٹر معراج الدین(سابق وزیر حکو مت اتر پردیش)، ڈا کٹر بی ایس یادو(پرنسپل، ڈی این کالج، میرٹھ) اور نیرج شرما (ادا کار و ہدایت کار، دور درشن) موجود رتھے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آ غاز پروفیسر وائی وملا(ڈی ایس ڈبلیو،چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی)اور ڈاکٹر اسلم جمشید پوریؔ(صدر شعبہ اردو) نے شمع افروز کر کے کیا۔ بعد ازاں مہمانان کا پھولوں کے ذریعے استقبال کیا گیا اور اُپٹاکے صدربھارت بھوشن شرما نے مہمانوں کا استقبال اور یو نائٹیڈ پرو گریسیو تھیٹر ایسو سی ایشن، میرٹھ کا تعارف پیش کرتے ہو ئے کہا کہ اُپٹا نے اپنے آٹھ سالہ کامیاب سفر کے دوران شہر کے متعدد مقامات پر سماجی مسائل پر مبنی مختلف ڈرامے پیش کر کے تہذیبی وراثت اور اخلا قی قدروں کو فروغ دینے کا کار نامہ انجام دیا ہے۔جسے شہر کے غیور عوام نے خوب سرا ہا ہے۔اب ہمیں اور محنت کر کے اور دیگر تنظیموں کو بھی اس میں شامل کر کے بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی شناخت قائم کرنی ہوگی اور سماج میں پا ؤں پسار نے وا لی فرقہ پرست قوتوں سے ہر سطح پر مقا بلہ کر نا ہو گا۔ ادیب، ادا کار اور دوسرے فن کار اپنی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔ سماج کے باقی افراد بھی اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور ملک سے فر قہ پرستی کے زہر کو ختم کر نے کی طرف اقدام کریں۔
یو نائٹیڈ پرو گریسیو تھیٹر ایسو سی ایشن، میرٹھ نے اپنے آٹھ سالہ سفر کے دوران شہر کے متعدد مقامات پر سماجی مسائل پر مبنی مختلف ڈرامے پیش کر کے تہذیبی وراثت اور اخلا قی قدروں کو فروغ دینے کا کار نامہ انجام دیا ہے۔جسے شہر کے غیور عوام کے ذریعے خوب سرا ہا بھی گیا ہے۔عوام کی اس پسنددیدگی نے ہمیں حو صلہ عطا کرنے کے ساتھ اس تحریک کو جا ری رکھنے کی ترغیب دی ہے۔
یو نائٹیڈ پرو گریسیو تھیٹر ایسو سی ایشن،میرٹھ کی ان کامیاب پیش کشوں نے،میرٹھ کی بکھرتی رنگ منچ کی دنیا کو کامیابی سے ہمکنار کر نے کی سعی بلیغ کی ہے۔ اُپٹا کی کامیاب ترین پیش کشوں میں ”’کالی رات کے ہم سفر“،’بیٹی ایک وردان“،”پیمنٹ اتھارٹی“، ”دل کی دکان“،”مادہ کیکٹس“”لڑائی جاری ہے“،”اندھیر نگری“،”یہ سنگھا سن ہے“ اور ”جس لاہور نئیں دیکھیاں وہ جنما نئیں“وغیرہ بطور خاص قابل ذکرہیں۔
پروگرام میں کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات اور شہر کے معززین نے شر کت کی۔

 

Published in مضامین

ڈاکٹر اسلم جمشید پوریؔ

 

  جدید ٹکنالوجی کی طرف تیزی سے بڑھتے اردو کے قدم

فیس بک کے بعد،وھاٹس ایپ پر اردو کی سر گرمیاں قابلِ ستائش

آج سے بیس برس قبل اردو کے حوا لے سے یہی مشہور تھا کہ اردو جدید ٹکنا لوجی کے استعمال کے معا ملے میں دیگر زبانوں سے بہت پیچھے ہے۔ بہت سے لوگوں کو اس میں بھی شک تھا کہ اردو میں کمپیوٹر کا استعمال بخو بی ہو پائے گا۔ لیکن اردو جیسی ہر دل عزیز، سخت جان اور پیاری زبان نے ثا بت کردیا کہ وہ جدید ٹکنا لوجی کے استعمال میں کسی زبان سے پیچھے نہیں ہے۔
یوں تو اردو میں کمپیوٹر بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں ہی آگیا تھا، لیکن نئی صدی کی ابتدا نے تو اردو میں کمپیوٹر کے بہترین استعمال اور شاندار نتا ئج پر مہر لگا دی تھی۔ اکیسویں صدی نے زندگی کے ہر شعبے کو متا ثر کیا۔ زبان و ادب میں نئے تصورات، نئے رجحانات سامنے آ ئے۔ ادب سے لے کر سیاست تک ایک نئے دور کا آ غاز ہوا۔ نفرت، فرقہ پرستی، آ تنک واد، ظلم و ستم، نئے نئے روپ میں سامنے آ ئے۔ اکثریت اور اقلیت کے درمیان کی خلیج مزید وسیع ہوئی۔ ایسے میں دیگر زبانوں کے کردار سے الگ اردو صحا فت نے سچ کو سچ کہا اور ایک بالکل نئے روپ میں ہمارے سامنے آ ئی۔
اکیسویں صدی جوں جوں آ گے بڑھتی گئی، اردو کے نئے منظر نامے سامنے آ تے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اردو بعض علا قوں میں کمزور بھی ہوئی لیکن بعض علاقوں میں مزید مقبو لیت حاصل کی۔گذشتہ چار پانچ برسوں میں اردو نے کمپیوٹر، ویب سائٹس، انٹر نیٹ سے مزید آگے بڑھتے ہوئے فیس بک پر مستحکم انداز میں اپنے قدم جمائے۔ اردو فونٹUnicode نے اردو کو جدید ٹکنا لوجی سے ہم آہنگ کر نے میں انقلاب آ فریں اقدام کیا۔اردو کمپوٹر کے علاوہ گوگل، مو بائل فون، ٹیبلیٹس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی بہ آ سانی لکھی اور پڑھی جانے لگی۔ فیس بک پر اردو نے ہنگامہ بپاکردیا۔اردو سائٹس کی باڑھ سی آگئی۔ اردو ادب، اردو افسا نہ فورم، اردو پوائنٹ، اردو شاعری، اردو اکا دمی دہلی، اردو ریسرچ فورم، اسلام آ باد، اردو فکشن، اردو شاعری بزم، عالمی افسا نہ فورم، عالمی افسا نوی کارواں، عالمی اردو مرکز،عالمی اردو کانفرنس، عالمی اردو ادب،بزم اردو، بزم اردو انڈیا، بزم صدف، قصہ کہانیاں، اردو دوست، آواز دوست، بزم امکان، اردو سخنوراں، دریچے،عالمی پروازڈاٹ کوم، اردو اسکالرز، اردو لغت جیسے ہزاروں اداروں نے فیس بک کا استعمال شروع کیا۔یہی نہیں دیگر معروف اردو پورٹل یعنی اردو سخن، شعرو سخن، اردو نیٹ جا پان جیسے سینکڑوں اداروں، اخبا رات، ایجنسیوں نے فیس بک پر بھی اپنے اکا ؤنٹ شروع کیے۔ یہی نہیں شعبہ ہائے اردو میں بھی کئی نے مثلا دہلی یو نیورسٹی، مولانا آزاد یو نیورسٹی، چو دھری چرن سنگھ یونیورسٹی، الہ آ باد یو نیورسٹی کےPages بھی فیس بک پر شروع ہوئے۔ ان تمام سائٹس پر اردو زبا ن و ادب، اردو رسم خط میں لوڈ کیا جاتا ہے۔
گذشتہ کئی برسوں سے سوشل میڈیا میں وہاٹس ایپ بھی سر گرم ہے۔ جہاں تک اردو کا سوال ہے تو یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے کہ اردو میں وہاٹس ایپ کا استعمال گذشتہ دو تین برسوں سے شروع ہوا ہے۔ لیکن 2017ء اردو میں وہاٹس ایپ کے استعمال کے عروج کا زمانہ ہے۔ یہ بات اردو کی مقبو لیت میں چار چاند لگاتی ہے۔ آج وہاٹس ایپ متعدد معاملا ت میں دیگر سو شل میڈیا سے کافی آ گے نکل گیا ہے۔ یہ ہما ری زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ عوام سے لے کر حکومت تک وہاٹس ایپ کے استعمال سے فا ئدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں ہماری زبان اردو کیسے پیچھے رہتی۔2017ء میں وہاٹس ایپ پر اردو نے ایسا دھمال مچایا ہے کہ حیرا نی اور خوشی ہو تی ہے۔ متعدد گروپس اور افراد وہاٹس ایپ کے ذریعے اردو کے فروغ میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ اردو اسکالرز گروپ، عالمی اردو پرو فیسر ز گروپ، اردو فکشن، صرف ادبی خبریں، داستان تک، ادب سلسلہ، جدید معاشرہ، ضیائے حق اردو اسکالرز گروپ، دربھنگہ ٹا ئمز، جہا نگیر نیوز، د ستک ادبی فورم بی ایچ یو، اردو چینل، وغیرہ کے علاوہ انتظار عالم سیفی ردا، سہیل وحید نیا دور، انیس امروہوی، قمر صدیقی علیم نانڈیز اردو کے فروغ میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ یہی نہیں وہاٹس ایپ پر ہزاروں اردو والے سر گرم ہیں۔ ان تمام میں اب تصاویر، مبارک باد کی خبریں، نایاب اور قدیم تصا ویر، نشستوں، محفلوں، سیمیناروں کی تصا ویر، خبریں، مضا مین، افسانے، غزلیں، نئی شائع ہونے والی کتابوں کے سر ورق، کتا بوں کی پی ڈی ایف فائلس، اخبارات و رسائل میں شائع شدہ تحاریر کی کا پیاں، رسائل کی پی ڈی ایف، یوم پیدا ئش کے پیغا مات، خراج عقیدت، وصال کی خبریں۔الغرض زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات اور واقعات آج کل وہاٹس ایپ پر اردو میں لکھے اور پڑھے جارہے ہیں۔
وہاٹس ایپ کے ذریعے بعض ایسی باتیں ممکن ہوئی ہیں جنہیں ناممکنات مانا جاتا تھا۔یعنی گذشتہ دنوں علا مہ اقبال کی آواز میں ’شکوہ‘ کا ایک آڈیو سب تک پہنچا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں شک ہے کہ کیا یہ واقعی اقبال کی آ واز ہے؟اسی طرح پروین شاکر کو کلام پڑھتے ہوئے دیکھنا، فیض کو سننا، ساتھ ہی ساتھ یوم اقبال، آزاد و غا لب پر ان کی تحریروں کا وہاٹس ایپ پر ایک سیلاب سا دکھائی دیتا ہے۔
وہاٹس ایپ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس سے اردو ریسرچ اسکالرز کو زبردست فائدہ پہنچ رہا ہے۔ کسی مضمون کتاب یا دیگر حوا لے کے تعلق سے ریسرچ اسکالرز وہاٹس ایپ پر اپنا سوال لکھ دیتے ہیں اور بہت کم وقت میں انہیں ان کے جواب مل جاتے ہیں۔
اردو چینل اور قمر صدیقی کا میں خاص طور پر ذکر کرنا چا ہوں گا کہ وہ وہاٹس ایپ پر اردو ادب کی اصل خدمت انجام دے رہے ہیں۔ معروف شعرا و ادبا کی یوم پیدا ئش اور یوم وفات کے مو اقع پر خصوصی مضمون شا ئع کرنا، قدیم ادب سے انتخاب، مو قع بہ موقع خصوصی مضامین کی اشاعت اور پوری پوری کتاب اپ لوڈ کر نے اور دیگر ضروری معلو مات کے ذریعہ وہاٹس ایپ کے قارئین کو بہت سیراب کیا ہے۔
وہاٹس ایپ پر ایک اور دھماکہ ہوا ہے۔ اب خبروں کے ویڈیوز بہت وائرل ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ای ٹی وی اردو کی خبروں کے ویڈیوز خوب لوڈ ہورہے ہیں اور پسند کیے جا رہے ہیں۔وہاٹس ایپ پر مذہبی مواد بھی اس قدر موجود ہے کہ ہر طرح کے قاری کی ضرورت پوری ہوتی رہتی ہے۔ مشاعروں کے مقبول شعرا کی غزلوں، نظموں اور گیتوں کے ان آواز میں ویڈیوز خوب دیکھے اور سنے جارہے ہیں۔
2017ء اردو میں وہاٹس ایپ کے دھما کوں کے لیے یاد کیا جائے گا۔ سال کے گذر نے پر ہمیں اپنا احتساب ضرور کرنا چاہئے کہ ہم نے اس سال اردو کے لیے کیا کیا اور آئندہ سال ہمیں اپنی زبان کے لیے کیا کرنا چا ہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت سب سے ضروری نئی نسل کو اردو سے واقف کرانا ہے تاکہ نسل در نسل اردو کی آبیاری جاری رہے۔
٭٭٭
Dr. Aslam Jamshedpuri
HOD, Urdu, CCS University, Meerut
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
09456259850

 

Published in مضامین

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com