Items filtered by date: الإثنين, 18 حزيران/يونيو 2018

 

    شاک تھراپی

  SHOCK THERAPY 

  مہتاب عالم پرویزؔ 

  MAHTAB ALAM PERVEZ 

  کویت                                                                                                        

    E - mail عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.                             

                                                 

                                                                             

                                ٭ ”ڈیڈکاش! آپ میری باتوں کوسمجھنے کی کوشش کرتے، ایسا نہیں ہے کہ میں تعلیم حاصل کرنا نہیں چاہتی یا تعلیم کے  زیور کو آراستہ کرنا نہیں چاہتی میری بھی خواہشیں ہیں کہ میں بھی اعلی سے اعلی تعلیم حاصل کروں لیکن میں بھی مجبور ہوں میں ممی کو اس حالت میں چھوڑ کر کیسے اپنے شہر سے دور جاؤں گی۔ اور ابھی میری عمر ہی کیا ہوئی ہے۔؟ پڑھنے کے لئے ابھی میری ساری زندگی پڑی ہے۔“

                                آپ اپنی ممی کی فکر نہ کریں آپ کی ممی کی دیکھ ریکھ کے لئے میں ہوں نا۔آ پ کو اپنی ممی سے جتنا پیا ر ہے اُس سے بھی کہیں زیادہ میں اُن سے محبت کرتا ہوں اس بات کا یقین آپ کو یقینا ہوگا۔ میں نے ڈاکٹر زین سے ان تمام سلسلوں میں باتیں کر لی ہیں۔ ڈاکٹر زین نے کہا ہے کہ خاص طور پر اپنے میڈیکل کے تعلقات کی بنیاد پر ایک بہت ہی مشہور اور قابل   PHYSIOTHERAPIST   کا انتظام کر دیں گے اُن کے آ جانے کے بعد آپ کی ممی کو نہ ہی کوئی تکلیف ہو گی اور نہ ہی آپ کی پڑھائی کی راہوں میں کوئی بھی پریشانیاں حائل  ہوں گی۔

                                واقعی ڈاکٹر انکل نے ایسا کہا ہے تو میں ضرور گرلس ہاسٹل میں ایڈمیشن لے لوں گی۔

 

                                دوسرے روز ہی ڈاکٹر انکل آنے والے تھے اور اُن کے ساتھ ہی  PHYSIOTHERAPIST   شیلا اگروال بھی آئیں گی ایسا ہی کچھ ڈیڈنے بتا یا تھا۔

                                صبح ہوتے ہی گھر کے نوکر چاکر اپنے اپنے کام میں مصروف ہو گئے تھے صدر دروازے سے لے کر اندر کے تمام دروازے اور کھڑکیوں کا ایک ایک پردہ تبدیل کیا جارہا تھا۔ بستر کی تمام چادروں کی جگہ سفید رنگ کی چادریں بچھائی جا رہی تھیں۔

                                سفید رنگ کی چادروں پر جب میری نظر پڑی تونہ جانے کیوں میرے دل میں یہ خیال آیا کہ ممی شاید اب اس دُنیا میں نہیں رہیں ایک عجیب سی بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا،ڈورتی ہوئی جب میں ممی کے کمرے میں پہنچی تو دیکھا ڈیڈ،ممی کو  اپنی بانہوں میں لئے اپنے ہاتھوں سے انگور کھلا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مسکرائے بھی جا رہے ہیں۔اور ایسے میں،میں ڈیڈ کی بانہوں میں جھول گئی  اور بے اختیار میری آنکھیں نم ہوگئیں۔ تھوری دیر ٹھہر کر میں وہاں سے لوٹ آئی تھی۔ اور میرے لوٹ آنے کے بعد ڈیڈ بھی لان میں لوٹ آئے تھے۔ جہاں گھر کے نوکر چاکر اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے...........

                                ہال اور کمروں میں بچھی ہوئی کارپیٹ کو لپیٹ کر اُس کی جگہ نئی نئی کارپیٹ بچھائی جا رہی تھیں۔ لان میں پھیلے ہوئے  ڈھیر سارے پھولوں کے پودوں کو ادھر سے اُدھر منتقل کیا جا رہا تھا۔ کوئی پھولوں کے پودوں کی آبیاری کر رہا تھا تو کوئی  پرانے گملوں کو لال رنگوں سے رنگ رہا تھا  اور کوئی درختوں کی شاخوں سے لے کر اُن درختوں کے نچلے حصّوں تک پانی کے پھوہاروں سے اُن تمام جگہوں تک پانی پہنچا دینے کی کوشش کررہا تھا جہاں وقت کی دھول نے اپنی موٹی سی پرت جما دی تھی۔ اور اُس کے ساتھ ہی ڈیڈ بھی اُن تمام نوکروں کو ڈائریکشن دے رہے تھے۔اور ساتھ ہی ساتھ مسکراتے بھی جاتے تھے آج برسوں بعد میں نے ڈیڈ کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی تھی۔

                                 ” ڈیڈ کیا بات ہے آج آپ بہت خوش ہیں۔؟“

                                ”خوش کیوں نہ رہوں۔ آپ کی ممی کے لئے میں نے   PHYSIOTHERAPIST  شیلا اگروال کا انتظام جو کر لیا ہے۔

                                لیکن آج گھر کے نظام میں کافی تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ اور اُس کے ساتھ آپ بھی آج بدلے بدلے سے دکھائی  دے رہے ہیں۔؟ ڈیڈ میں سچ کہہ رہی ہوں نا۔؟؟

                                آپ یہ اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ آج آپ کے ڈاکٹر انکل آنے والے ہیں اور اُس کے ساتھ ہی   PHYSIOTHERAPIST   شیلا اگروال بھی آ رہی ہیں۔ اور جیسا کہ ڈاکٹر زین نے بتایا ہے کہ شیلا اگروال کافی صفائی پسند ہیں۔اور میں یہ نہیں چاہتا کہ اُن کے آنے کے بعد کسی بھی طرح کی پریشانی ہو اور بعد میں ہمیں مایوسیوں کاسامنا کرنا پڑے۔

                                 ”اوکے ڈیڈ یو آر رائٹ، بٹ۔؟“

                                ”بٹ.... منس...... وہاٹ آر یو سیئنگ۔؟“

                                ”شیلا اگروال واقعی ایک کامیاب   PHYSIOTHERAPIST    ہیں تو میں بھی یہ دیکھنا چاہوں گی کہ میری ممی کتنے دنوں میں وہیل چیئر سے آزاد ہو جائیں گی اور وہ دن میری زندگی کا ایک خوشیوں بھرا دن ہوگا۔“

                                میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی ممی یقینا چلنے پھرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔

                               

                                شام ہونے تک گھر کا سارا کام مکمل ہوچُکا تھا  ڈیڈ نے آنے والے لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے کھانے کے ڈھیر سارے ڈش بھی تیار کروا لئے تھے۔ اور اب ڈاکٹر زین اور شیلا اگروال کے آنے کا انتظار کیا جا رہا تھا کہ لان میں رینگتی ہوئی تیز روشنی قریب آتی ہوئی محسوس ہوئی۔

                                ڈیڈ نے کہا کہ شاید وہ لوگ آگئے اور وہ اُٹھ کر باہر جانے لگے میں بھی اُن کے پیچھے پیچھے صدر دروازے تک چلی آئی تھی۔

                                ڈاکٹر زین کو میں اچھی طرح سے پہچانتی تھی کیونکہ اُن کا آنا جانا یہاں پہلے بھی کئی بار ہوچکاتھا جب سے ممی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا  ڈاکٹر زین  اس گھر کے لئے ڈاکٹر انکل بن کر رہ گئے تھے۔

                                میں ابھی ڈاکٹر انکل سے مخاطب ہونا چاہ ہی رہی تھی کہ اُن کے ساتھ آئی ہوئی شیلا اگروال نے مجھے اپنی گود میں اُٹھا لیا تھا۔

                                ”آپ شیلا آنٹی ہیں نا۔؟“

                                ”آپ کو کیسے معلوم کہ میں ہی شیلا آنٹی ہوں۔؟“

                                ڈیڈی ان دنوں آپ کا ذکر کچھ اس طرح سے کرنے لگے تھے کہ آپ کو پہچاننے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ آپ بہت اچھی ہیں۔

                                ”وہ تومیں ہوں لیکن آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں اچھی ہوں۔؟“ ”آپ کے جوڑے سے اُٹھتی ہوئی یاسمین اور بیلے کی ملی جُلی خوشبوؤں نے مجھے یہ احساس دلایا کہ آپ واقعی بہت اچھی ہیں۔ آئیے میں آپ کو اپنی ممی کے پاس لے چلتی ہوں۔ آپ میری ممی کو ٹھیک کر دیں گی نا۔؟“

                                ”کیوں نہیں۔ میں آئی ہوں اسی کام کے لئے۔؟“

                                ”ممی دیکھیں کون آئی ہیں۔“

                                ”کون۔“

                                ”ہیلو۔“

                ”میں شیلا اگروال ہوں PHYSIOTHERAPIST  شیلا اگروال۔“

                                آپ آگئیں.......روز ہی آپ کی ڈھیر ساری باتیں  مجھے سمن کے ڈیڈی سُنایا کرتے تھے۔ میں بھی آپ سے ملنے کے لئے بے تاب تھی،لیکن میں اس قابل کہاں کہ دو قدم بھی چل سکوں۔میں اپنی زندگی میں اپنے ان قدموں سے چل بھی پاؤں گی یا نہیں۔؟“

                                ”کیوں نہیں چل پائیں گی آپ کو کچھ بھی نہیں ہوا ہے آپ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گی میں نے آپ کے سارے رپورٹ دیکھ لئے ہیں اور تب ہی میں نے اس کیس میں ہاتھ ڈالا ہے۔ آج ہی سے آپ کا TREATMENT  شروع  ہوجائے گااور کل صبح سے PHYSIOTHERAPY کا کورس بھی، ساری    MEDICINE بھی میں اپنے ساتھ لے آئی ہوں۔     DONT CARE ABOUT IT

                                صبح ہوتے ہی ممی کو ہاف بوائل واٹر سے نہلاکر فریش کردیا گیا تھا۔ اٹیچ باتھ روم سے فریش ہوکر ممی جب سفید کپڑوں میں ملبوس بیڈ روم میں لائی گئیں تومیں بھی اُن کے ساتھ ساتھ تھی اس بیچ ڈیڈی کے ایڈوائز پر گھر کے نوکروں نے  PHYSIOTHERAPY  کے سارے لوازمات جو بیڈ روم میں رکھے جانے کے لائق تھے ترتیب کر دئے  تھے اور باقی کے انسٹرومنٹس باہر لان میں لگا دئے تھے۔

                                ممی ناشتے سے فارغ ہو چُکی تھیں۔ دوائیاں اور انجکشن کا DOSE  بھی دیا جارہا تھا۔ اُس وقت ممی کا بیڈروم کسی اسپتال کے کمرے سے کم نہیں لگ رہا تھا ان ساری تیاریوں کو دیکھ کر میں بے حد خوش تھی اور بار بار کبھی ممی کی طرف تو کبھی شیلا اگروال کی طرف دیکھتی اور پھر ڈیڈ کی بانہوں میں جھول جاتی جو بیڈروم میں لگے ہوئے صوفے پر بیٹھے ہوئے شیلا اگروال کی  PHYSIOTHERAPY  کو دیکھ رہے تھے۔

                                ڈیڈ نے مجھے اپنی گود میں بیٹھا لیا اور بڑے ہی پیار بھرے انداز میں پوچھا۔”سمن بیٹا کیسی ہیں آپ کی شیلااگروال۔؟“

                                ”ویری نائس ڈیڈ۔“

                                اگر آپ اپنی ممی کو چلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہیں تو، بس اس بات کا خیال رکھیں گی کی آپ شیلا اگروال کو فولو کریں گی۔

                                اوکے ڈیڈ، اور جب ممی چلنے لگیں گی تو میں ممی اور آپ کے ساتھ ٹور پر چننئی سمندری ساحلی علاقوں پر گھومنے جاؤں گی اور ایسے موقعے پر شیلا اگروال بھی ہوں گی آپ پرومس کریں ڈیڈ کے آپ ہم سبھوں کو چننئی لے جائیں گے۔

                                ”پرومس۔“

                                شیلا اگروال کے آجانے سے گھر کا ماحول ایک دم تبدیل ہوگیا تھا۔ جیسے ہر طرف خوشیاں  ہی خوشیاں بکھری پڑی ہوں۔ پورا گھر پہلے سے کہیں زیادہ صاف ستھرا رہنے لگا تھا ڈیڈ، ممی سے اور بھی زیادہ پیار کرنے لگے تھے۔ لان میں پھولوں کی کیاریوں میں نئے نئے ڈیزائین کے پھول کھل آئے تھے جیسے ہر طرف بہاریں مسکرا رہی ہوں۔

                                لیکن یہ خوشیاں زیادہ دنوں تک اپنا وقار قائم نہ رکھ سکیں۔ میرے اندر بہت اندر سوالوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا جارہا تھاجو کبھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتااور میرے اندر تجسس بڑھتا ہی جا رہا تھا، میرے اندرون میں اُٹھنے والا ہر سوال ڈیڈی کے دلوں میں ایک طوفان اُٹھا دیتا تھا۔

                                رات گئے جب ممی کو کھانسی ہونے لگی تھی اور میری آنکھیں کھل گئی تھیں اور ایسے وقت میں جب میری بانہوں نے آپ کو تلاش کیا تھا اُس وقت آپ اپنے بستر پر موجودنہیں تھے اور جب میں نے آپ کو آوازیں دیں تو  مجھے مایوسی ہوئی۔اور جب ممی کو پانی پلا کر میں نے آپ کو تلاش کیا تو شیلا اگروال کے کمرے میں سے آتی ہوئی سرگوشیوں نے میرے قدم روک لئے تھے۔ اور جب میں نے سرگوشیوں کا تعاقب کیا تو دیکھا شیلا اگروال بالکل نیوڈ ہیں اور آپ........

                                آخر اتنی رات گئے آپ اُن کے کمرے میں کیا کر رہے تھے۔

                                ”وہ بیٹا میں اپنی  PHYSIOTHERAPY  کروا رہا تھا۔“

                                لیکن جب ممی کی  PHYSIOTHERAPY   ہوتی ہے تو شیلا اگروال کپڑوں میں ہوتی ہیں اور ممی بھی.......

                                ڈیڈی آپ اپنی  PHYSIOTHERAPY  کے لئے ڈاکٹر انکل سے کہہ کر کوئی  ( MALE )  PHYSIOTHERAPIST   کاانتظام کیوں نہیں کر لیتے۔؟

                ہاں بیٹے میں ایسا ہی کروں گا۔

                                یہ ساری باتیں جب میں نے ممی کو بتائیں تو اُن کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔

                                ممی ڈیڈی تو چلتے ہیں پھر وہ شیلا اگروال سے  PHYSIOTHERAPY کیوں کروا رہے تھے۔

                                 اورممی نے کہا تھا کہ ہاں بیٹے آپ کے ڈیڈ کو بھی بیک پین ہوتا ہے۔

                                ان دنوں میں یہ محسوس کر رہی تھی کہ ڈیڈ کے چہرے پر غصے کے آثار صاف دکھائی دیتے تھے اور شیلا اگروال مجھے پہلے سے زیادہ پیار کرنے لگی تھیں۔

                                شیلا آنٹی اپنے ڈیڈ تو چلتے پھرتے ہیں تو پھر آپ ڈیڈکی  PHYSIOTHERAPY  کیوں کرتی ہیں۔

                                آپ سے یہ کس نے کہا کہ میں آپ کے ڈیڈکی  PHYSIOTHERAPY  کرتی ہوں۔

                                ڈیڈ نے، اور پھر میں نے کی ہول سے دیکھا تھا کہ آپ  ڈیڈی کی PHYSIOTHERAPY   کر رہی تھیں اور آپ بالکل نیوڈ تھیں اور ڈیڈ بھی.......لیکن جب آپ ممی کی PHYSIOTHERAPY  کرتی ہیں تو آپ کپڑوں میں ہوتی ہیں ایسا کیوں.......

                                شیلا اگروال  ایک دم خاموش تھیں.....

                                ممی نے مجھے اپنے پاس بلا لیا اور کہا کہ میں نے کہا تھا نہ کہ آپ کے ڈیڈکو بیک پین ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ بھی اپنی

PHYSIOTHERAPY  کرواتے ہیں۔

                                لیکن ایسا کہتے کہتے ممی نے اپنا چہرہ تکیے میں چھپا لیا تھا اور کافی دیر تک رونے اور سسکنے کی آوازیں کمرے کے اُداس  ماحول کو اور بھی اُداس کرنے لگی تھیں۔      

                                شیلا اگروال کو یہاں آئے تقریباََ تین ماہ ہونے جا رہے تھے اس تین ماہ میں آج میں نے ممی کو کافی افسردہ دیکھا تھا اور ویسے بھی وہ ان دو چار دنوں میں پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہوگئی تھیں اُنہوں نے ڈیڈکی طرف پلٹ کر دیکھنا بھی چھوڑ دیا تھا              ۔

                                شیلا اگروال جب بھی اُن کے پاس آتیں تو وہ یہی کہتیں مجھے اپنی  PHYSIOTHERAPY  نہیں کروانی ہے۔جاؤ تم جس مقصد کے لئے یہاں آئی ہو اور جس نے تمہیں یہاں آنے پر مجبور کیا ہے جاؤ اُس شخص کی  PHYSIOTHERAPY   کرو، تمہیں شرم نہیں آئی کہ وہ شخص شادی شدہ ہے اور ایک بیٹی کا باپ بھی ہے۔ تم چلی کیوں نہیں جاتی یہاں سے۔ اور اُس کے ساتھ ہی وہ زارو قطار رونے لگیں.......

                                لیکن شیلا اگروال ایک دم خاموش تھیں..........

                                یہ سب کچھ جس وقت ہو رہا تھا  اُس وقت رات کے تقریباََ ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ اور اُن کی سسکیاں تھیں کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔

                                نہ جانے کب میری آنکھیں لگ گئیں........

                                اچانک کھانسی کی مسلسل آوازوں نے مجھے اُٹھنے پر مجبور کر دیا  میں نے جب آنکھیں کھولیں اور میری بانہوں نے اپنے ڈیڈ کو تلاش کیا ڈیڈ اپنے بستر پر موجود نہیں تھے میں نے کمرے کا لائٹ آن کردیا تو دیکھا ساری دوائیاں کمرے کے فرش پر پھیلی ہو ئی تھیں  میں نے جب گھڑی کی طرف دیکھا رات کے ڈھائی بج رہے تھے اُس وقت تک ممی بستر پر بیٹھیں مسلسل کھانس رہی تھیں اور جب میں پانی کا گلاس لے کر کمرے میں لوٹی،لیکن ممی کمرے میں موجود نہیں تھیں اور اُن کا وہیل چیئر کمرے میں ہی پڑا ہوا تھا میں اُنہیں تلاش کرتی ہوئی جب شیلا اگروال کے کمرے کے پاس پہنچی تو میں یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ ممی دیوار کے سہارے چل کر جارہی ہیں  شیلا اگروال کے دروازے کے قریب پہنچ کر انہوں نے کی ہول سے اندر جھانکنے کی کوشش کی اور جب مطمئن نہیں ہوئیں تودو قدم اور چل کر کھڑکی کے قریب آگئیں اور کھڑ کی کے پردے کو سرکا کر اندر دیکھنے لگیں اور چیخنے چلانے لگیں......

                                لیکن وہاں کمرے کے اندر کوئی بھی تونہ تھا۔

                                اور میں برآمدے میں موجود PHYSIOTHERAPIST   شیلا اگروال کی بانہوں میں جھولی اپنے ڈیڈکے ساتھ ممی کی مووی تیار کر رہی تھی.........

 

 

                                                                           ()()()()()

  مہتاب عالم پرویزؔ  (کویت)                                                                                              

 E – mail  عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.   

 

                        

                       

 

 

Published in افسانے
الإثنين, 18 حزيران/يونيو 2018 20:13

ایک نظم: اپنے بیٹے کے نام! ڈاکٹر زین رامشؔ

                                                              ایک نظم: اپنے بیٹے کے نام!

                                                                                                                                                                                           ڈاکٹر زین رامشؔ

 

                                مرے بیٹے!                                                                                              

                                تمہارا چہرہ پر نور                                                          

                                میرے دل میں بستا ہے                                                                               

                                تمہاری مسکراہٹ ذہن کی تاریکیوں میں                          

                                نور بنتی ہے                                                                                

                                مری راتیں تمہاری خواب کی تعبیر چنتی ہیں                     

                                محبت کی                                                                                                    

                                لطافت کی                                                                  

                                صباحت کی                                                                 

                                عجب تصویر بنتی ہے                                                                     

                                میں اس تصویر کو                                                                        

                                آنکھوں میں پھر محفوظ کرتا ہوں                                   

                                تصور کی نگاہوں سے                                                                   

                                اسی تصویر میں پھر رنگ بھرتا ہوں

                                حسیں رنگوں کی آمیزش

                                نئے منظر سجاتی ہے

                                وہی منظر دل و جاں کو

                                متاع سرفرازی بخش دیتا ہے

                                 مرے بیٹے!

                                تمہارا چہرہ پر نور                          

                                میرے دل میں بستا ہے

                                تمہاری ہر ادا

                                مجھ کو بہت مسرور کرتی ہے

                                تمہاری قامت زیبا

                                نگاہوں کو سحر انگیز کرتی ہے

                                عجب ایک کیف کی لذت

                                مرے باطن کا حصہ بنتی جاتی ہے

                                اٹھا تا ہوں دعا کو ہاتھ جب 

                                تم مسکراتے ہو                                                                           

                                مری معصومیت پر

                                بے قراری پر

                                مرے جذبات پر،بے اعتباری پر

                                مگر میرے لئے تو عظمت رفتہ

                                متاع زندگی ہے نا؟

                                مرے بیٹے!

                                تمہارا چہرہ پر نور

                                میرے دل میں بستا ہے

                                تمہاری زندگی کی ساعت مسعود

                                میری عافیت کا ایک ذریعہ ہے

                                مجھے رغبت نہیں ہے مال وزر سے

                                شہرت ومقبولیت سے،دنیا داری سے

                                مرے بیٹے!

                                طریق زندگی کو اور بھی شفاف کرنا ہے

                                دلوں کو جیتنا،گرد کدورت صاف کرنا ہے

                                اگر اسلاف کی تقدیس بس محفوظ ہو جائے

                                تو لازم ہے کہ میرا ذہن ودل مسرور ہو جائے

                                مرے بیٹے!

                                تمہارا چہرہ  پر نور

                                مرے دل میں بستا ہے

                                دعا ہے کہ خدا تم کو

                                متاع عہد رفتہ کا امیں کردے

                                تمہاری زندگی کو پھر

                                شعاع علم وحکمت سے فزوں کردے

                                تمہارے بخت کی طاقوں پہ شمع علم روشن ہو 

                               تمہارے گھر کی دیواروں پہ جو بھی نقش ہوں

                                علم وہنر کے ہوں

                                تمہاری شخصیت اور علم گویا

                                لازم وملزوم ہوجائے 

                                ---------------------------------

Published in شعر و سخن

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com