Items filtered by date: الأحد, 07 نيسان/أبريل 2019

(افسانہ) 

نائٹ پارٹی

محمد اسلم آزاد
اسسٹنٹ ٹیچر 2+ہائی اسکول ہنوارہ گڈا
8210994074



           شیوانی نے گھر آکر اپنا اسکول بیگ ٹیبل پر رکھا اور جا کر ماں سے بولی.....
مما: تین ہزار روپے دو نا پلیز......
تم نے کھانا کھایا؟شیوانی کی ماں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا..... 
مماآج میں گھر سے باہر کھا کر آئی ہوں......
شیوانی تمہاری یہ روز روز باہر کھانے کی عادت بالکل ٹھیک نہیں ہے یا تو ٹفن لے جایاکر یا واپس گھر آ کر کھانا کھایا کرو سمجھ گئ؛اور یہ تجھے اچانک تین ہزارروپیہ کی کون سی ضرورت آن پڑی؟ شیوانی کی ماں رجنی ملہوترا نے بیٹی کو وارننگ دیتے ہوئے سخت لہجے میں پوچھا....
اپنی ماں کے کڑے تیور دیکھ کر شیوانی کا چہرہ اتر ایا اور وہ روٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئ.کچھ دیر بعد شوانی کے والد سومناتھ ملہوترا بھی گھر میں داخل ہوگئے وہ شہر کے ایک بڑی ٹیکسٹائلس کمپنی کے مالک تھے انہوں نے آتے ہی شوانی کو آواز دی
شیوانی.... اوشیوانی؟
بیٹی شیوانی کہاں ہو تم؟بیٹی کی طرف سے کوئی ردعمل نہ پانے پر وہ نہایت حیران و پریشان ہوئے کیونکہ شیوانی سومناتھ کی اکلوتی اولاد تھی جسے دونوں نے بڑے لاڈ اور پیار سے پالا تھا اور جب بھی وہ اپنی بیٹی کو آواز دیتے وہ بغیر کسی تاخیر کے فورا اپنے ابا کے حضور حاضر ہوا کرتی تھی۔پر آج اس نے خلاف معمول کام کیا تھا جس سے سومناتھ نہایت متحیر تھے 
اس نے فورا مسز ملہوترا کو آواز دی اور پوچھا:۔ کیا کہا تم نے بیٹی شیوانی سے؟
رجنی:۔ بیٹی سے ہی پوچھ لیں جاکر اوپر ہے اپنے کمرے میں۔
سومناتھ:۔ اوہو! اب بتاو بھی کیا بات ہے۔
تم بھی نہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر ڈانٹتی رہتی ہوں اسے۔ ارے ایک ہی تو اولاد ہے ہماری جی لینے دو اسے بھی اپنی مرضی سے
رجنی:۔ اس لئے تو ڈر تی ہوں اس کی مرضی سے کیو نکہ ہماری ایک ہی اولاد ہے اگر اسے کچھ ہوگیا؟ تو رجنی کی آنکھیں اشکبار ہو چکی تھیں۔
سومناتھ نے رجنی کی آنکھوں سے آنسو پوچھتے ہوئے اسے دلاسا دیا اور کہا:۔اچھا اب دل چھوٹا نہ کرو۔کچھ نہیں ہوگا ہماری لاڈلی کو بھگوان پر بھروسہ رکھو-
اب جاؤ اسے بلا لاؤ.....
رجنی اوپر شیوانی کے کمرے میں گئ اور اسے بلا لائی وہ بالکل اداس اور خاموش چہرہ لے کر اپنے والد صاحب کے پاس جا کر صوفے پر بیٹھ گئ اور ٹی وی آن کرکے سیریل دیکھنے لگی.سومناتھ نے اخبار کا ورق الٹتے ہوئے پوچھا
آگئ بیٹی؟ کیسا رہا تمہارا آج کا پیپر؟
اچھا رہا ڈیڈی شیوانی نے دھیرے سے جواب دیاـ
ویری گڈ
اچھا بیٹی، بتاؤ کیا بات ہے؟
کیا چاہیے تمہیں؟
کچھ نہیں ڈیڈی بس یونہی ـ۔
اوہو۔ بیٹی ضد نہیں کرتے بتا کتنے روپیوں کی ضرورت ہے تمہیں ـ؟
تین ہزار، شیوانی نے نظر یں جھکاتے ہوئے کہا ـ 
بس۔ اور اتنی سی بات کے لئے تم روٹھ گئ؟یہ لو.پانچ ہزار ہیں سومناتھ نے پاس رکھے بیگ سے پیسے نکال کرشیوانی کو دیتے ہوئے پوچھا:۔پر بیٹی شیوانی؟ تم ان روپیوں کا کرو گی کیاـ؟تمہارے کالج کی ساری فیس تو میں نے بھر دی ہے اور ایگزام فیس بھی میں نے دے ہی دیا تھا تمھیں ـ؟
ڈیڈی آج دوستوں کے ساتھ نائٹ پارٹی میں جانا ہے۔
اوہ۔ اچھا اب چلو کھانا کھا لو۔ سومناتھ نے کہا تو شیوانی کھانے کے ٹیبل پر جا بیٹھیں. روپئے پاکر شیوانی کے چہرے کی مسکراہٹ واپس لوٹ آئی تھی،بیٹی کو خوش دیکھ کر سومناتھ ملہوتراخو ش تھے پر رجنی ملہوترا مسلسل اپنی بیٹی کو تاک رہی تھی، اسکے چہرے پر اب بھی اداسی قائم تھی، وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی بیٹی رات کو گھر سے باہر نکلے، اسکے چہرے پر عجیب کیفیت برپا تھی اور ذہن میں کئ طرح کے سوالات اٹھ رہے تھے پر وہ خاموش تھی۔
شوانی جلدی جلدی آدھا ادھورا کھا کر واپس اپنے کمرے میں چلی گئ آج وہ بہت خوش تھی ـ 
رجنی۔ کیا سوچ رہی ہو تم؟ یہی ناکہ رات میں اسے پارٹی میں نہیں بھیجنا چاہئے؟
ارے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ جارہی ہے اکیلے تو نہیں جارہی ہے؟ اور پھر اسی شہر میں تو ہے، اور رجنی اب وہ بڑی ہوگئ ہے، بچی نہیں رہی کہ ہم اس کے ہر کام میں روک لگائیں۔ اب وہ سمجھدار ہوگئ ہے. اسے اچھے برے اور صحیح غلط کی تمیز ہوگئ ہے. وہ ایک پڑھی لکھی لڑکی ہے اس کو حق ہے اپنی مرضی کے مطابق زندگی جینے کا. ہم بھلا کیسے اس کی آزادی چھین سکتے ہیں؟
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں.ہم اسکی آزادی بالکل نہیں چھین سکتے اور نہ ہی اسے قید کر کے رکھ سکتے ہیں.........پر وہ بیٹی ہے ہماری...... مجھے تو سمجھ میں نہیں آرہاہے آپ نے اسے کیوں اور کیسے اجازت دے دی ۔
میں بالکل متفق نہیں ہوں آپ کے اس فیصلے سے ایسے بھی شہر کا ماحول بہت خراب ہے ہر روز عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی حادثات پیش آتے رہتے ہیں، اور پھر...... جہاں دن میں بھی لوگ محفوظ نہیں ہیں وہاں بھلا رات میں کوئی کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ اور کیسے کوئی حفاظت کی ذمہ داری لے سکتا ہے؟
رجنی نے اپنے بات مکمل کرتے ہوئے کھانے کی ٹیبل پر پڑے برتن کو اٹھا کر کچن میں رکھ آئی، سومناتھ رجنی کی باتیں سن کر خاموش رہے، اور واپس صوفے پر آکر اخبار پڑھنے میں مصروف ہوگئے کچھ دیر بعد رجنی بھی کچن سے واپس آکر سوفے پر بیٹھ گئی، وہ اب بھی اداس تھی اسے رہ رہ کر اپنی بیٹی کی فکر ستا رہی تھی اسکے من میں طرح طرح کے خیالات امڈ رہے تھے اور ایک ماں ہونے کے ناطے رجنی کی یہ فکر بھی جائز تھی اسکا پریشان ہونا بھی لازمی تھاـ
گھڑی کی سوئی شام کے سات بجے کا وقت بتارہی تھی،تبھی شیوانی سیڑھیوں سے اترتی نظر آئی وہ نہایت خوبصورت لگ رہی تھی اس نے مغربی تہذیب والی شارٹ اور چست کپڑے پہنے تھے جس میں اسکے جسم کی بناوٹ صاف نظر آرہی تھی،کاندھے میں پرس،کھلے بال اور پیروں میں ہائی ہل اسکے حسن میں چار چاند لگا رہے تھے۔
اپنی بیٹی کو مغربی کلچر میں ملبوس دیکھ کر رجنی کی آنکھیں لال ہوگئیں پر وہ خاموش رہی اور اپنا سارا غصہ پی گئ۔
رجنی جیسے آج خود پر ہی شرمندہ تھی کہ کیوں اسکی ایک ہی اولاد ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اولاد کے آگے مجبور ہے۔
رجنی مزید فکر میں مبتلا ہوگئ وہ ایک ذہنی پریشانی سے گذر رہی تھی۔ شیوانی اپنے والد کے قریب آکر بولی:۔جاؤں پاپاـ؟ ہاں بیٹا جاؤ۔
اور سنو! بیٹی گھر جلدی واپس آجانا اور اپنا فون آن رکھنا، اوکے ـ؟اوکے ڈیڈی۔ بائی مما بائی ڈیڈی.... بولتے ہوئے شیوانی گھر سے باہر نکل گئ 
رات کے ۹ بج چکے تھے۔ رجنی اپنے بیڈ پر محض اپنے لخت جگر کے بارے میں سوچ رہی تھی نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی اس نے سومناتھ ملہوترا کو جگایا اور شیوانی کو فون کر جلدی گھر بلانے کے لئے کہا۔
سومناتھ نے بغیر کسی تاخیر کے بیٹی کو فون ملا یا۔
ہیلو۔ بیٹا شیوانی -؟
ہاں پاپا۔ میں ایک گھنٹہ میں آجاؤں گی پاپا اوکے کہتے ہوئے شیوانی نے فون کاٹ دیا. اپنی بیٹی سے تسلی بخش بات نہیں کر پانے کی وجہ سے سومناتھ بھی پریشان ہوگئے رات کے ۱۱ بج چکے تھے، شیوانی اب بھی واپس نہیں آئی تھی اور اب اسکا فون بھی بند تھا۔ رجنی اور سومناتھ ملہوترا مزید ذہنی پریشانی کا شکار ہورہے تھے.ہر لمحہ ان کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی؛
انہوں نے شیوانی کی ڈائری نکال کر اسکے مختلف دوستوں کو فون کیا پر سب نے اپنے اپنے گھر میں ہونے کی بات کہی، انہوں نے شہر کے اپنے کئ جاننے والوں کو بھی فون کیا پر کہیں سے شیوانی کی خبر نہ ملی صبح ہوتے ہی سومناتھ نزدیکی پولیس اسٹیشن پہنچے اور بیٹی کے گمشدہ ہونے کی خبر پولیس کو دی۔ادھر رجنی کا رات سے ہی رو رو کر برا حال تھ وہ ان تمام باتوں کیلئے اپنے شوہر سومناتھ کو ہی ذمہ دار ٹھہرا رہی تھی،اس کی آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
سومناتھ اسے بار بار چپ کرارہاتھا اور شیوانی کو کچھ نہ ہونے اور محفوظ گھر لوٹنے کا دلاسابھی دے رہاتھا پر رجنی پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہورہاتھا،شام کے سات بچ چکے تھے اور شیوانی کو گھر سے نکلے اب چوبیس گھنٹے بیت چکے تھے پر ابھی تک ان کے والدین کو کوئی سراغ حاصل نہیں ہوپایا تھا۔سومناتھ نے دن بھر میں چار بار پولیس اسٹیشن کا چکر بھی لگایا پر ہر بار انہوں نے تفتیش جاری ہے کہہ کر اسے واپس بھیج دیا.
رجنی اب بھی رو رہی تھی اور اپنی بیٹی کے لئے سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی، اچانک رات کے گیارہ بجے گھر کے موبائل کی گھنٹی بجی تو سومناتھ نے فورا ہی فون کو کان سے لگاتے ہوئے پوچھا کون؟
سومناتھ ملہوترا بات کر رہے ہیں؟
ادھر سے کسی نے سوال کیا تو اس نے ہاں میں جواب دیا آپ فورا ً بیس لاکھ لیکر کانپور شہر کے باہر پرانی کالی مندر کے پاس جو کھنڈر ہے وہیں چلے آئیں اور ہاں اس بات کی خبر کسی کو ہوئی تو آپ اپنی اکلوتی اولاد سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔۔۔ یہ سن کر فون ان کے ہاتھ سے نیچے گرا اور آنکھوں میں بے ساختہ آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ پڑا۔۔

 

 

Published in افسانے

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com