الإثنين, 07 تموز/يوليو 2014 19:06

چیخ....گلفشاں شبّیر : CHIKH : GULFASHAN SHABBIR

Rate this item
(0 votes)


افسانہ
گلفشاں شبّیر

چیخ........

 


                    ٭ وہ ایک چیخ تھی .......
                    ایک ایسی چیخ کہ جس کی بازگشت اور اُس کی گونج آج بھی میرے کا نوں میں گونج رہی ہے وہ میری زندگی کا ایک ایسا سانحہ تھا جسے میں شاید ہی بھول پاؤں ......
                   رات بھر موسلا دھار بارش ہو تی رہی تھی صبح بستر سے اُٹھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔جنوری کامہینہ اور یہ با رش، دل چا ہ رہا تھا گرما گرم کافی پیتا رہوں اور بستر سے لپٹا رہوں میں نے جب گھڑی پر نگاہ ڈالی تو دیکھا صبح کے نو بج چُکے تھے اور کھڑکی کے باہر سے ہلکی ہلکی دھوپ نظر آ رہی تھی میں اُٹھا اور ٹیرس پر آگیا میری نظر سامنے پارک پر پڑی،جہاں بلا کی ایک خو بصورت لڑکی تتلیوں سے کھیل رہی تھی گلابی گلابی اُس کے گال، گلاب کی پنکھڑیوں سے اُس کے عنابی ہونٹ، سُنہرے بال اور بڑی بڑی نیلی جھیل سی بیکراں آنکھیں اور اُس کے چہرے کو بار بار چھوتی ہوئی اُس کی بالوں کی ایک ضدی لٹ اُس کے حُسن میں اور اضافہ کر رہی تھی اور میں اُسے دیکھتا ہی رہ گیا نہ جانے کیوں میں اُس لڑکی کی خو بصورتی پرمیں مر مٹا بلکہ یوں کہا جائے ایک ہی نظر میں مجھے اُس لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیااور جب میں نے اپنی نظر اُس کے پورے سراپے پرڈالی تو مجھے بڑی حیرت ہوئی اُس لڑکی کے کپڑے سے ایسے لگ رہا تھا جیسے برسوں پُرانے ہیں اور کئی جگہ سے پھٹے بھی ہوئے ہیں جہاں سے جھانکتا ہوا اُس کا گورا گورا جسم.........
نہ جانے کیوں میری آنکھیں اُس کے وجود پر ثبت ہو کر رہ گئیں .......یا پھر اس کی کشش مجھے خودبخود اس کے سحر میں مبتلا کرنے لگی تھی۔
اور جب میں اس سحر سے آزاد ہوا تو مجھے ایسا لگا شاید غُربت نے اُسے بے حال کردیا ہے یاواقعی یہ غریب گھرانے کی ہو لیکن میری نظراُس کے کپڑوں پر نہیں، اُس کی بے بسی پر نہیں اُس لڑکی پر ہی ٹکی رہی اُسے دیکھنے کے بعد میری ٹھنڈک بھی غائب ہو گی جیسے میرے اندر کوئی طوفان اُٹھنے لگا ہو.......
تھوڑی ہی دیر میں وہ وہاں سے چلی گئی اور میں کافی دیر تک اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور اُسی کے بارے میں سوچتا رہادوسرے دن پھر میں نے اُسے دیکھا اُس انجان لڑکی کے انتظار میں، میں پہلے سے ہی ٹیرس پر موجود تھا۔ آج وہ اُس پارک میں ایک پیڑ کے گول گول چکر لگا رہی تھی آج بھی اُس نے کل والا ہی کپڑا پہن رکھا تھا جو ڈوپٹے سے بے نیاز تھا۔ گول گول گھومنے کی وجہ سے اُس کے جسم کے نشیب و فراز تھرک رہے تھے۔ اور جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے کپڑوں سے جھانکتا ہوا اُس کا گورا گورا جسم اور اُس کے دلکش وجودکے مخصوص حصے کو کبھی روپوش اور کبھی عیاں کررہے تھے۔میں اُس کے اس کھیل سے حیران تھا مگر مجھے مزا بھی آرہا تھا وہ پیڑ کے چکر لگاتے لگاتے پیڑ کے نیچے بیٹھ گئی اور تھوری ہی دیر میں وہ پھر اُٹھی اور دوڑ کر سڑک پر آگئی اور محلے کی طرف جانے لگی......
میں نے اُسے آواز دی۔
” سُنیے ......“
اُس نے پلٹ کر میری طرف بھی نہیں دیکھا اور نہ ہی اُس نے کوئی جواب دیا میری بے چینی اور بھی بڑھ گئی۔
آج صبح جب وہ لڑکی مجھے نظر نہیں آئی تو میری بے چینیاں مجھ سے سوال کرنے لگیں اور میں خاموش تھا۔
آخر وہ کیوں نہیں آئی......؟
اور پھر میرے قدم خودبخود محلے کی طرف اُٹھ گئے اُن راستوں کی طرف جن راستوں سے میں نے اُسے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔
راستے بھر طرح طرح کے سوالوں میں گھرا خود سے ہی اُلجھتا رہا...... وہ پاس کے ہی محلے کی لڑکی تھی کئی گھر والوں سے میں نے پوچھا کسی نے کچھ نہیں بتایا بلکہ لوگ خاموشی سے میرا منھ تکنے لگتے یالوگ جان بوجھ کر اُس لڑکی کے بارے میں بتانا نہیں چاہتے تھے....... کیوں آخر کیا بات ہے۔
اُس لڑکی کے لئے میری چاہت اور زیادہ بڑھنے لگی میں نے ایک عورت سے کہا میں جلد سے جلد اُس لڑکی کے گھروالوں سے ملنا چاہتا ہوں تا کہ اُن لوگوں سے اس پیاری سی لڑکی کا ہاتھ مانگ سکوں۔
اُس عورت نے بلا جھجھک کہا تم پا گل ہو کیا .......؟
نہیں تو۔
دراصل میں اُس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں آپ اُس کے گھر کا پتہ بتادیں ....
وہ عورت مجھے حیرت سے دیکھنے لگی اور پھر کہاتم یہاں نئے آئے ہو کیا .....؟
میں نے کہا ہاں۔ میں یہاں گھومنے آیا ہوں۔
اس لئے تمہیں کچھ نہیں پتہ اُس عورت نے کہا تم اُس سے شادی کیسے کر سکتے ہو بلکہ کوئی بھی لڑکا اس لڑکی سے شادی نہیں کرے گا۔
لیکن کیوں۔؟میں نے اُ س عو رت سے کہا۔
وہ عورت مجھے اُس لڑکی کے گھر لے گئی لڑکی کا ٹوٹااور جلا ہواگھر تھا وہ لڑکی اپنے گھر میں ایک چار پائی پر لیٹی ہوئی تھی میں بہت حیران تھا جوان لڑکی اور اس طرح بالکل اکیلی اور ایسی حالت میں .... اس کے گھر والے کہاں ہیں۔؟میں نے اُس عورت سے پوچھا۔
اس عورت نے کہا وہ لوگ اب اس دُنیا میں نہیں رہے تم اس کی داستان سُن کر واپس چلے جاؤ گئے بابو۔
میں نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اب میں اس کے بغیر واپس لوٹ جاؤں۔ بتائیں تو ایسی کیا بات ہے۔
اُس عورت نے کہا کچھ مہینے پہلے یہاں دہشت پھیلی ہوئی تھی دہشت گرد گھروں میں گھس کر لوٹ مچاتے اور لڑکیوں کی آبروکے ساتھ کھلواڑ کرتے ایک دن اُن لوگوں کی نظر اس لڑکی پر پڑی اور وہ لوگ ایک رات اس لڑکی کے گھر میں گھس کر بہت بد سلوکی کرنے لگے اس لڑکی کے ماں باپ نے اُسے بچانے کی بہت کوششیں کی لیکن خود کو بچا نہ سکے دہشت گردوں نے بہت بے مروتی کے ساتھ اُس لڑکی کے ماں باپ کو ایک کوٹھری میں بند کر کے اُس کوٹھری میں آگ لگاکراُنہیں زندہ جلنے پر مجبور کر دیا اور پھرلڑکی کو بے آبرو کیا دہشت گردوں نے اُس لڑکی کے ساتھ حوس کا ایک ایسا ننگا کھیل کھیلا کہ اس لڑکی کی عزت تار تار ہوگئی اور یہ صدمہ برداشت نہیں کرسکی اور پاگل ہوگئی۔
یہ لڑکی پاگل ہے، میری چیخ نکل گئی یہ اتنی پیاری لڑکی پاگل ہے۔؟
ہاں بابو۔
پاگل ہی نہیں یہ ماں بھی بنے والی ہے۔ اُس کالی رات کی دہشت گردی کا ہی پاپ ہے اس کی پیٹ میں اور جب یہ پیدا ہوگا اس محلے کی سر زمین میں تو دہشت گردی گلیوں گلیوں ننگی گھومے گی اب بتاو کیا تم کرو گئے اس لڑکی سے شادی۔؟
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اور واپس آگیا۔
لیکن میرے اندراتنی بے چینی تھی کہ رات ٹہلتے ٹہلتے گز گئی.......
میں اُس لڑکی سے واقعی بے پناہ محبت کرنے لگا تھا اُ س کی ساری سچائی جاننے کے بعد بھی میری محبت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی بلکہ میری محبت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا اور میں اب بھی اس سے شادی کرنا چاہتا تھا اور صبح ہوتے ہی میں پھر اس کے محلے میں گیا اور اُس عورت سے ملا اور کہا میں اب بھی اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں لوگ حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ لیکن کسی نے کچھ نہیں کہا۔
اور ایک شام.......
میں نے اس لڑکی سے شادی کر لی اور اُسی محلے میں اُس لڑکی کے ساتھ ہی رہنے لگا....
وہ صرف اس لئے کہ میرا بھی اس دُنیا میں کوئی بھی نہیں تھا میں جاتا بھی تو کہاں جاتا میرے ماں باپ بھی شہر کے ایک فساد میں مارے گئے تھے اور میری زندگی بھی اُس رات کے بعد سے کالی اور سیاہ ہوگئی تھی۔ ویسے میں نے سُنا تھا کہ ہر رات کے بعد سویرا ہوتا ہے اور ورشا کو پاکر میری زندگی میں ایک سویرا ہی تو آگیاتھا جہاں سے میں نے اپنی زندگی میں ڈھیر ساری تبدیلیاں دیکھی تھیں۔ اور پھر میرے اس سفر میں جو بھی پریشانیاں حائل تھیں میں اُن تمام پریشانیوں سے ہر لمحہ لڑنے کے لئے تیار تھا۔
میں نے شہر کے مشہور سائیکیاٹرسٹ سے و رشاؔ کا علاج بھی شروع کروادیا تھا ایسے بھی وہ حمل سے تھی ورشا کے ساتھ ہوئے حادثے کی ساری داستان میں ڈاکٹر کو پہلے سُنا چکا تھا اور پھر ڈاکٹر نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ اس بچے کی پیدائش کے بعد یقین سے کہتا ہوں کہ ورشاٹھیک ہو جائے گی تھوڑا وقت ضرور لگے گا اور رفتہ رفتہ سب ٹھیک ہو جائے گا اور ویسے بھی وقت ہر زخم کو مندمل کر دیتا ہے۔
لیکن لوگوں کی کچھ باتیں ہر روز میرے دل پر ایک نئے زخم کا اضافہ کرتی تھیں۔ میں جب بھی ورشا کو لے کر ڈاکٹر کے پاس جاتا اور وہاں سے لوٹتا تو میں یہ محسوس کرتا کہ محلے والے مجھے کن آنکھیوں سے دیکھ رہے ہیں اُس میں سے زیادہ تر آنکھیں لڑکیوں کی ہوتیں اور ان کن آنکھیوں کے ساتھ ان ہی لڑکیوں کی تیکھی تیکھی باتیں میرے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتیں ......
”ورشا تو پاگل تھی ہی اور دوسرا بھی اس کی محبت میں پاگل ہو گیا ہے ہم لوگ مر گئے تھے کیا.....؟ جو اس پاگل نے اس پاگل لڑکی سے شادی کر لی۔“
”ٹھیک ہی کہا ہے کسی نے کہ محبت اندھی ہوتی ہے۔“
”یہ بھی کوئی محبت ہے۔؟“
”ہاں اسی کو اندھی محبت کہتے ہیں۔“
لوگوں کی تیکھی تیکھی باتیں میرے دل و دماغ پر نشتر چبھوتی رہیں .......
اور
اسی حالت میں ایک رات ورشا نے ایک پھول سی بیٹی کو جنم دیا بیٹی بالکل ورشا کی طرح پیاری تھی جسے وہ ہر وقت اپنے آغوش میں لئے رہتی تھی میں نے اس کے علاج میں کوئی کمی نہیں کی تھی لیکن کبھی فائدہ دکھائی بھی دیتا تھا اور کبھی نہیں بھی میں ہمیشہ یہی سوچا کرتا ورشا ٹھیک بھی ہو گی یا نہیں۔؟

دیکھتے ہی دیکھتے پنکی دوماہ کی ہوگئی تھی اور ان دنوں ورشا کے اندر بھی ڈھیر ساری تبدیلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔
مجھے بڑی خوشی ہوئی اور میں نے سوچا کہ میری محنت رائیگاں نہیں گئیں۔
بیٹی کی پیدائش کے بعد ورشا پہلے سے کہیں اور زیادہ خوبصورت ہوگئی تھی۔
اور پھر ایک رات مجھ سے رہا نہیں گیا.....
وہ بے خبر بستر پر سوئی ہوئی تھی اور اُس کے پہلو میں پنکی بھی گہری نیند میں تھی میں بھی اُس کے دوسرے پہلو میں جاکر لیٹ گیا یہ پہلا اتفاق تھا کہ میں شادی کے بعد ورشا کے پہلو میں اس طرح سے لیٹا ہوا تھا میں اُسے اپنے وجود میں سمو لینا چاہتا تھا کہ اچانک وہ ایک چیخ کے ساتھ اُٹھی اور میری طرف نفرت کی نگاہ سے دیکھا اُس نے جب تک پنکی کو اپنی گود میں اُٹھا لیا تھا اور چیخ چیخ کہہ رہی تھی نہیں تم ایسا نہیں کرسکتے ........

٭٭٭٭
گلفشاں شبّیر

Read 2767 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com