جبِلَّت
از ......ابوفہد
ایسا لگ رہاتھا جیسے ہر شخص ایمرجنسی کی حالت میں ہے۔ جیسے سب کو ایک ہی ٹرین پکڑنی ہے یا جیسے بیک وقت سب کے نانا مر گئے ہیں اور انہیں مٹی میں شرکت کرنی ہے اور اس لیے ہر شخص کو جلدی ہے۔ جیسے شہر کے تمام مکانوں نے اپنے اپنے مکینوں کو بیک وقت روڈ پراُگل دیا ہے۔ جس طرح آتش فشاں اپنے پیٹ کی غلاظت اگلتا ہے اورپھرسب کو بیک وقت صدر بازار چوک کی طرف ہانک دیا ہے۔سائیکل رکشا، آٹو رکشا،کار، بس اورٹرک سے لے کر بڑی سے بڑی دیو ہیکل گاڑیوں تک جسے دیکھو وہ اِدھر ہی کومنہ اٹھائے چلی آرہی ہے۔چیختی چلاتی ہوئی اوربلا وجہ پُووووں پُووووں کرتی ہوئی۔
انہی جلد باز اورپریشان حال لوگوں میں سب انسپیکٹرجاویداختر بھی تھے۔وہ صدر بازارکی طرف جارہے تھے۔ مگر جب صدربازار کے چوک پر بے ہنگم ٹریفک میں پھنس گئے اور نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہ آئی تواپنی موٹر سائیکل کنارے لگائی اور محض جذبہ خیر سگالی کے طور پر ٹریفک کنٹرول کرنے لگے۔حالانکہ وہ جانتے تھے کہ بے ہنگم ٹریفک کو کنٹرول کرنا کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے۔
اس چوک پر حکومت اور عوام کی پیدا کردہ مشکلات کراس (+)کا نشان بناتی تھیں بالکل اسی طرح، جس طرح شمال اور مشرق کی طرف سے آتی ہوئی خستہ حال سڑکیں ایک دوسری کو قطع کرتی ہوئی کراس کا نشان بنا رہی تھیں۔ یہاں حکومت کی طرف سے ٹریفک کو کنٹرول کرنے کا کچھ انتظام نہ تھا یہاں تک کہ ریڈ لائٹ بھی نہیں تھی اور عوام کے پاس اس مشکل کا سامنا کرنے کا کچھ ذریعہ نہ تھا یہاں تک راہ چلنے کے عام اصولوں کی پاسداری بھی گویا ان کی شانِ خانویت کے خلاف تھی۔اس طرح یہاں کی مشکلات دو طرفہ تھیں۔اور جب وہ صدر بازار کے اس چوک پر باہم ملتی تھیں تو کراس کا نشان بناتی تھیں۔شہر کے اس الگ تھلگ حصے کانام خان پور اس لیے رکھا گیا تھا کہ یہاں خان برادری بڑی تعداد میں آباد تھی۔
جاوید صاحب سول ڈریس میں تھے، اور پسینے میں شرابور ہورہے تھے۔ابتدا میں ان کی آواز دھیمی تھی، لہجہ نرم تھااور زبان پر شائشتہ الفاظ تھے۔ بھائی صاحب ذرا پیچھے ہوجاو، اس لاری کو نکلنے دو تھوڑا صبر کرو ایک منٹ،ایک منٹ ...ہاں آپ آجاو۔ وہ اپنی طرح دار اور نستعلیق شخصیت کے فام میں رہنا چاہتے تھے۔جو ان کی عوامی پہچان تھی۔
جاوید صاحب جب چھٹی پر ہوتے تھے تو بالکل ہی الگ شخصیت کے مالک ہوتے تھے، نستعلیق اور طرح دار شخصیت کے مالک۔ لوگ یقین ہی نہیں کرپاتے تھے کہ یہ وہی جاوید صاحب ہیں جنہیں وہ تھانے میں گرجتے برستے سنا اور دیکھا کرتے ہیں۔انہوں نے اپنی شخصیت کو اِس طرح دولخت کرلیا تھا کہ ان کی شخصیت کے دونوں متضاد پہلو ایک دوسرے سے اسی طرح جدا رہتے تھے جس طرح ایک ہی سمندر میں کھارا اور میٹھا پانی ایک دوسرے بالکل جدا اور الگ رہتا ہے کہ یہ اُس میں شیرینی نہیں گھولتا اور وہ اِسے نمکین نہیں بناتا۔
تقریبا آدھاگھنٹہ گزر چکا تھا اور وہ ابھی تک اپنی شخصیت کے اسی پہلو سے کام چلا رہے تھے، دفعتاً ایک نوجوان لڑکے نے اپنی موٹر سائیکل آگے بڑھادی اور لاری کا راستہ رک گیا، لاری نے ابھی ایک دو قدم ہی بڑھائے تھے کہ اس لڑکے کی جلد بازی نے ایک بار پھر اس کا راستہ روک لیا۔ جاوید صاحب نے اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔ مگر لڑکے پر جیسے کچھ اثرہی نہ ہوا، وہ لا پرواہی کے ساتھ اسی جگہ پر کھڑاکاندھے اچکاتا رہا۔
جاویدصاحب اند رہی اندر تاو کھاکر رہ گئے، انہیں لگا کہ ان کی جون بدل رہی ہے، جیسے وہ اپنی تھانے والی جون میں آرہے ہوں۔ پر ایک دم انہیں خیال آیا کہ اِس وقت وہ تھانے میں نہیں ہیں اورنہ ہی ڈیوٹی پر ہیں، سو اپنی طرح داری اور نستعلیقیت کو باقی رکھنا ضروری ہے، انہوں نے غصہ تھوک دیا اور لڑکے کو جانے کی اجازت دیدی۔لڑکا بدستور اسی طرح بے پرواہ بنا ہوا تھا۔
”آپ آجائیں میڈم۔“جاوید صاحب لاری کو نکالنے کے بعد دوسری سمت میں سب سے آگے موجود ایک فربہ رو عورت سے مخاطب ہوئے۔ میڈم نے اسکوٹی اسٹارٹ کی، لبوں پر مسکان سجائی اور جاوید صاحب کے پہلو سے سن سے نکل گئیں۔انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی جام سے نکل سکیں گی مگر جاوید صاحب کی کوشش سے ایسا ممکن ہوگیا تھا۔ ایسے میں ایک مسکان تو بنتی تھی۔
اسکوٹی اسٹارٹ ہونے اور زن سے گزرجانے تک کا سارامنظر ابھی جاوید صاحب کی آنکھوں میں اپنی ڈوبتی ابھرتی کیفیت میں تھا کہ ان کے عقب سے ایک لمبی سی کالی ہونڈا سٹی نے دوسری طرف جمع بھیڑ کے اندر سے منہ چمکایا۔ جاوید صاحب اپنے عقب میں گاڑی کی آہٹ محسوس کرکے اس طرح پلٹے جس طرح کنفو ماسٹر عقب سے حملے کو روکنے کے لئے پلٹتا ہے۔جاوید صاحب نکلتے ہوئے قد کاٹھ کے مالک تھے۔اور ابھی ان کی عمر ہی کتنی تھی، یہی کوئی پینتیس، اڑتیس کے آس پاس رہی ہوگی۔ان کے جسم میں بلا کی پھرتی تھی، وہ اپنے شکار پر عقاب کی طرح گرتے تھے۔
کالی ہونڈا سٹی کی ڈرائیونگ سیٹ میں ہاتھی کے بچے جیسا ایک کالا بھجنگ آدمی اس طرح پھنسا ہوا تھا جیسے کوئی وھیل مچھلی ساحلی دلدل میں پھنس گئی ہو۔اس کے کالے، موٹے ہونٹوں کے درمیان اس کے دانت اس طرح چمک رہے تھے جس طرح اندھیرے کمرے میں ریڈیم کی تسبیح کے دانے چمکتے ہیں۔وہ بالکل بے پرواہ دکھائی دے رہا تھا، جیسے وہ کسی دوسرے علاقے کا ہو اوروہ ان کی تھانے والی جون سے واقف نہ ہو۔جاوید صاحب کی آنکھوں میں خون اتر آیاتھا،انہیں لگا جیسے یکا یک ان کا وجود تھانے والی جون میں تبدیل ہورہا ہے۔انہوں نے ایک لمبا اور گہرا سانس لیااور کچھ دیر دم سادھے کھڑے رہے۔ایسا کرکے وہ بدلتی جون پر قابو پانا چاہتے تھے کیونکہ ایسے وقت جون کا بدلنا خود ان کے لیے بھی مصیبت کھڑی کرسکتا تھا۔
جب وہ عام آدمی کی جون سے تھانے والی جون میں بدلنے لگتے تھے تو ان کے اندر ایک پلک چھپکنے کے وقفے میں بے شمار تبدیلیاں پیدا ہوجاتی تھیں۔ دورانِ خون تیزہوجاتا تھا،جسم کے رونگٹھے کھڑے ہوجاتے تھے، آنکھوں میں شعلے اتر آتے تھے اور پنڈلیوں اور بازوں کے پٹھے تن جاتے تھے۔ جب کبھی یہ حالت پیش آتی تھی تو وہ اس لائق نہیں رہ پاتے تھے کہ کسی اور چیز کے بارے میں سوچ سکیں، وہ اِ س صورت میں نہ تو کالی رات میں ٹپکتی اولتیوں کے بارے میں سوچ سکتے تھے،نہ گھر کے چمن میں کھلے ہو ئے سرخ گلاب کے بارے میں،نہ ہی خوبصورت چہروں پر تاحد نگاہ پھیلی ہوئی مسکان کے بارے میں، یہاں تک کے جنت کے بارے میں بھی نہیں۔ اور تو اور، اس حالت میں وہ اپنی شادی کی پہلی رات کے بارے میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔حالانکہ اس رات کے سب سے زیادہ خوبصورت پلوں کو انہوں نے اپنے دل کے نہاں خانے میں بڑے قرینے سے سجا کر رکھا ہواتھا، کہ وقت بے وقت کام آیا کرتے تھے،خاص کر تنہائیوں کے کرب انگیز وقتوں میں۔ یہ خوبصورت پل راعینہ کی عدم موجودگی میں راعینہ کا نعم البدل تھے۔ان کا یہی خیال تھا گرچہ خیال حقیقت کے مثل نہیں ہوسکتا۔آگ کا تصور کسی بھی انسان کے وجود کو خاکستر نہیں کرسکتا یہاں تک کہ خود آگ کے اِس تصور کو بھی نہیں۔ مگر جاوید صاحب ایسا خیال کرتے تھے کہ راعینہ کا خیال راعنیہ کا وجودِ ثانی ہے۔
اور جب جون پوری طرح بدل جاتی تھی تو ان کے بیشتر حواس خواب آور کیفیت میں چلے جاتے تھے۔اُس وقت جو اعضائکام کرتے تھے وہ بس ان کے ہاتھ اور پیرتھے اور ان کی شعلہ بار آنکھیں۔اُس وقت ان کا منہ صرف جھاگ اگلنے کے کام آتا تھا۔
”ایک کلو آلو، دو کلو پیاز، پانچ روپے کا ہرا دھنیا اور پانچ کی ہری مرچیں۔ہری مرچیں چاہے مت لانا۔۔۔۔اُوووں۔۔۔اچھا لے آنا تھوڑی سی،پانچ کی ملتی ہی کتنی سی ہیں؟؟ اور ہاں ایک کلو گوشت اور آدھا کلو لہسن بھی لیتے آنا۔اور جلدی آجانا، کبھی دوستوں میں بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگو۔“راعینہ کے لہجے میں شوخی تھی اور آواز میں خاص قسم کی ترنگ۔حالانکہ وہ انتیس، تیس کے آس پاس کی دھان پان سی عورت تھی مگر جب وہ ترنگ میں آکر بولا کرتی تھی تو اس کی آوازمیں شعلے سے لپکتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔اس کی آواز تلوار کی دھار کی طرح باریک تھی، جیسے دیاسلائی کے مثل کسی عورت کی ہوتی ہے۔
”بیگم! تمہیں خیال رہنا چاہئے کہ تم ایک تھانے دار سے مخاطب ہو۔“ جاوید صاحب نے اپنے چہرے پر مصنوعی رعب پیدا کرنے کی کوشش کی مگر ان کے ہونٹوں پرنادانستہ نمودار ہونے والا تبسم ان کے تصنع آمیز رعب کی چغلی کھا رہا تھا۔ایسے موقع پر جاوید صاحب چڑھ بھی جاتے تھے محض یہ سوچ کرکہ وہ نوٹنکی باز کیوں نہیں ہیں۔
”ایسا ہے کہ اپنی اِس تھانے داری کو تھانے تک ہی رکھا کروسرپر سوار کرکے گھر تک مت لایا کرو۔“
جس دن جاوید صاحب چھٹی پر ہوتے تھے راعینہ کی طبیعت بڑی کھلی کھلی رہتی تھی، و ہ اس روز جی بھر کر نہاتی تھی، نئے کپڑے زیب تن کرتی تھی اور جاوید صاحب کا من پسند کھانا بناتی تھی، اس دن اس کی شوخیاں بلند فشارِ دم کی طرح جوش وترنگ سے بھری ہوئی ہوتی تھیں۔اس باعث اس کا گندمی رنگ سرخی مائل رنگ میں تبدیل ہوجاتا تھا۔جاوید صاحب کو یہ رنگ بہت بھاتا تھا اور ان کے من میں نوٹنکی باز بننے کی خواہش جاگتی تھی۔
آج جاوید صاحب چھٹی پر تھے اور آج بھی وہ جی بھرکر نہائی تھی، بنارسی ساڑی زیب تن کی تھی اور آج وہ گوشت کی کوئی لذیذ ڈش بنانا چاہتی تھی۔وہ کافی دیر سے جاوید صاحب کو کہہ رہی تھی مگر وہ تھے کہ ٹل کرہی نہ دیتے تھے۔
”اچھا! تو اب یہ بھی بتادو کہ کون کون سی چیزکہاں کہاںتک رکھا کروں۔“ راعینہ کے سرخی مائل رنگ نے انہیں آج پھر نوٹنکی باز بننے پر آمادہ کیا۔
”اچھا اب جاو گے بھی یا۔“راعینہ کو کھانا بنانے کے لیے دیر ہورہی تھی اور وہ اس وقت مستی کے موڈ میں نہیں تھی۔
”ویسے تم اس ساڑی میں بہت اچھی لگ رہی ہو۔“
”حضور! میری تعریف کے لیے ساری رات پڑی ہے، مجھے پہلے یہ سامان لادیجئے۔“ راعینہ نے اپنے دونوں ہاتھ اس طرح جوڑے جیسے پجاری مورتیوں کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں۔
اِس وقت خلاف معمول گھر سے نکلتے وقت کا یہ منظر ان کے دماغ پر چھاگیا۔ پر یہ اچھا ہی ہوا کہ اس سے بدلتی ہوئی جون کو روکنے میں کافی مدد ملی۔وہ اسی لئے راعینہ کے خیال کو اس کا نعم البدل کہتے تھے کیونکہ اکثر اوقات راعینہ کا خیال بھی خود اس کے سالم گرم وجود کی طرح ان کے فیصلے لینے کی قوتوں پر اثر انداز ہوجایا کرتا تھا۔
”چل تو نکل پہلے تجھے زیادہ جلدی ہے نا“ انہوں نے سادھا ہوا دم چھوڑا اور بدقت تمام بدلتی جون پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ کالی گاڑی میں حرکت ہوئی اور ایک چھوٹے ہاتھی اِتنا بوجھ اٹھائے بھیڑ کے درمیان سے زن سے نکل گئی۔
مزید آدھے گھنٹے کی محنت سے انہوں نے بھیڑ پر قابو پالیا تھا پر چوک پر ٹریفک کو پوری طرح بحال کرنے کے لئے ابھی تقریبا اتنا ہی وقت اور درکار تھااور جاوید صاحب کو جلدی تھی۔
”جلدی آجانا، کبھی دوستوں میں بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگو۔“راعینہ کے الفاظ ان کے کانوں میں گونج رہے تھے، مگریہ ان کی بری عادت تھی کہ وہ جس کام پر ہاتھ ڈالتے تھے اسے پورا ہی کرکے چھوڑتے تھے۔اس وقت بھی وہ ٹریفک کو پوری طرح بحال کرنا چاہتے تھے حالانکہ یہ ان کے فرائض میں نہیں تھا۔
انہی ایمرجنسی کے مارے ہوئے لوگوں میں ایک بنگالی بھی تھا جوخان پورکی غریب بستی کی طرف جانے کے لیے صدر بازار کے چورک پر جاوید صاحب کی طرف سے اجازت ملنے کے انتظار میں بڑی دیر سے چپ چاپ کھڑا تھا، اس کی بچی بیمار تھی اوراسے گھر جانے کی جلدی تھی اس لیے اس نے سواری نہیں اٹھائی تھی۔حالانکہ ابھی شام کا دھندلکا ہی تھا۔دوسرے دنوں میں وہ دیر رات تک سواریاں ڈھویاکرتا تھا، مگر آج وہ وقت سے پہلے گھر پہونچنا چاہتا تھا۔اسے اپنی بچی کو ڈاکٹرکے پاس لے کر جانا تھا۔
اس کے برابر میں کھڑے ہوئے ایک نوجوان نے دیکھا کہ راستہ صاف ہے اور جاوید صاحب اس کی طرف نہیں دیکھ رہے ہیں تو اس نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بائک دوڑادی اور ذرا دیر میں یہ جا وہ جا۔۔۔۔نوجوان کو اس طرح چوری چھپے نکلتے دیکھ بنگالی کے من میں بھی اسی طرح چوری چھپے نکلنے کا خیال گزرا مگر پھر جاوید صاحب کے اچانک پیچھے مڑ کر دیکھ لینے کے ڈر سے ایسا کرنے سے باز رہااسے جاوید صاحب کی دوسری جون کے بارے میں اچھی طرح معلوم تھا۔ ویسے اس کی بستی کا تقریبا ہر آدم زاد خواہ وہ مرد ہو یاعورت یا کوئی معصوم بچہ،جاوید صاحب کی ہر دوجون کے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا۔اور بنگالی اس با ت سے بھی ناواقف نہیں تھا کہ ان کی جون بدلنے میں ایک پلک چھپکنے بھر کا وقت لگتا ہے۔جون نہیں بدلتی تو دنوں اور ہفتوں تک نہیں بدلتی مگر جب بدلتی ہے تو ایک سکنڈ کے ہزارویں حصے میں بدل جاتی ہے، اب چاہے وہ گھر میں ہوں یا شاہراہ عام پر۔
جس طرف وہ کھڑا ہوا تھا اس طرف کا ٹریفک کافی دیر سے رکا ہوا تھااور جاوید صاحب اپنے من میں یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اب اِس طرف کے لوگوں کو بھی جانے دیں۔مگر بنگالی ان کے دل کی بات کیسے جان سکتا تھا بھلا۔وہ تو دوسرے لوگوں کی طرح یہی سوچ سکتا تھاکہ جاوید صاحب بلا وجہ ادھر کے ٹریفک کو روکے ہوئے ہیں۔ بنگالی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ اس پرایک ایک پل گراں گزررہاتھا، نہ جانے بٹیا کا کیا حال ہوگا،اس کی ماں اوپر تلے کے پانچ بچوں کی موجودگی میں اس پر دھیان بھی نہیں دے پارہی ہوگی اس نے کئی بار سوچا کہ اُسے بھی دیگر لوگوں کی طرح موقع کا فائدہ اٹھانا چاہئے اور جاوید صاحب کے عقب سے چوری چھپے کھسک لینا چاہئے۔ مگر پتہ نہیں اس وقت وہ اپنی کونسی افتادِ طبع کے باعث ضرورت سے زیادہ شریف بنا ہوا تھا۔ حالانکہ وہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، اس نے اپنی عمر کا ایک زمانہ اُلّھڑ بازیوں میں گزارا تھا، جب وہ کسی طُرّم خاں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔
پھر یکا یک جانے ایسا کیا ہوا کہ بنگالی کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا۔ اس نے اپنی تمام تر ہمت جمع کی، سینے میں خوب ساری ہوابھر کر سینے کو چوڑا کیااور پھر رکشا کے پینڈل پر اپنے پورے وزن کے ساتھ کھڑا ہوگیا عین اُسی لمحے میں جب بنگالی نے اگلے اور پچھلے بریک پراپنے مضبوط ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی کی، جاوید صاحب نے ایک قدم پیچھے ہٹایااور پھر پورے جسم کے ساتھ اس کی طرف گھومیرکشا بھی اپنی جگہ چھوڑ چکا تھااور جاوید صاحب بھی۔۔۔۔بنگالی کے پسینے چھوٹ گئے، اس نے پوری طاقت سے بریک لگائے، مگر تب تک جاوید صاحب رکشا سے ٹکرا چکے تھے، ایک لمحے کو انہیں لگا کہ وہ ہوامیں اچھال دئے گیے ہیں۔مگر ان کے مضبوط اعصاب اوربلا کی پھرتی نے انہیں گرنے سے بچالیا۔انہوں نے بنگالی کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا، اس کے پسینے چھوٹ رہے تھے، پہاڑ جیسے ڈیل ڈول والا آدمی جاوید صاحب کی ہیبت سے سمٹ کر رائی بن گیا تھا۔بنگالی بھول چکا تھا کہ اس کی کوئی بٹیا بھی ہے اور اسے بخار بھی ہے۔اور اس کی بیوی اس کی راہ دیکھ رہی ہے۔اِس وقت تواس کے کاسہ سر میں جاوید صاحب کی تھانے والی جون دھماچوکڑی مچائے پھررہی تھی۔
”معاف کردو صاب غلطی ہوگئی۔“بنگالی اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکاکہ اس کا موقع بھی کہاں تھا۔اس کے ہاتھ پیر کاکپکپا رہے تھے اور حلق سوکھ کر کانٹا ہوگیا تھا۔
بنگالی کی یہ حالت دیکھ کر جاوید صاحب کے سوکھے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور پھر اچانک جانے ایسا کیا ہوا کہ یکایک ان کی جون بدل گئی ان کے سارے حواس خواب آور کیفیت میں چلے گئے،جس طرح کمپیوٹر سلیپنگ موڈ میں چلا جاتا ہے۔طرح داری اور نستعلیقیت نے چولا بدل لیا اورعقل پر تاریکی کا پردہ پڑ گیا اب بس ان کے ہاتھ تھے جو غریب وجود پر ہتھوڑوں کی طرح اندھا دھند برس رہے تھے۔ ایک زبان تھی جس پرمغلظات کی سلسبیل لگی ہوئی تھی حرامی کی اولاد۔۔سوو ر کے بچے۔۔۔ میں کیا تمہارے باپ کا نوکر ہوں،جو یہاں ایسی تیسی کروارہا ہوں دکھائی نہیں دیتا عقل کوکیا گھاس چرنے کے لیے چھوڑدیا ہیاورایک عدد منہ تھا جو صرف جھاگ اگلنے کے کام آرہاتھا۔
ابھی وہ اسی تھانے والی جون ہی میں تھے، ہاتھ پیر گو تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے مگر زبان پر مغلظات کی سلسبیل بدستورلگی ہوئی تھی کہ اچانک ایک لال بتی والی گاڑی آگے پیچھے دو گاڑیوں کے جلو میں زناٹے بھرتی ہوئی نمودار ہوئی اور جاوید صاحب ایک پلک چھپکنے کے عرصہ میں یا اس سے بھی بہت کم وقت میں پتھر کی مورتی میں تبدیل ہوگئے اور جب تک ان گاڑیوں سے اڑنے والی دھول بیٹھ نہیں گئی جاوید صاحب اسی طرح بت بنے کھڑے رہے، نہ ان کا وہ ہاتھ جس کے ذریعہ وہ انسپیکٹر تیج پال چوہان کو سیلیوٹ مارا کرتے تھے، پیشانی سے ہٹ سکا اور نہ ان کی آنکھوں کی پتلیاں اِدھر اُدھر گھوم سکیں۔
دیر رات گئے جاوید صاحب گھر پہونچے تو راعینہ جلی بھنی کھڑی تھی دیکھتے ہی شروع ہوگئی۔
”دیکھا!! وہی ہوا نا جس کا مجھے ڈر تھا۔ لگ گئے ناگپیں ہانکنیکم از کم ٹائم تو دیکھ لیا ہوتا۔“
جاوید صاحب کے لب سلے ہوئے تھے، انہوں نے خالی تھیلا ایک طرف پھینگا اور باہر آنگن میں پڑی چارپائی پر دراز ہوگئے۔ راعنیہ نے جلد ہی تھانے والی جون کی آہٹ محسوس کرلی اور پھر اس نے بھی اِس طرح لب سی لئے جیسے ان کے درمیان کبھی دَہن تھا ہی نہیں۔