خواتین کے احکام ومسائل قرآن وحدیث کی روشنی میں: تحریر مولانا غیور احمد قاسمی
عورت معاشرہ کا انتہائی اہم حصہ ہےاس کے بغیر زندگی کی گاڑی چلانا بہت مشکل ہے اسلام واحد مذہب ہے جس نے سب سے پہلے عورت کی عظمت احترام اور صحیح مقام کا واضح تصور دنیا کے سامنے پیش کیا اور ان تمام جاہلانہ جابرانہ اور وحشیانہ رسومات کا قلع قمع کیا جو عورت کی عزت اور اس کے انسانی منصب کے خلاف تھی شریعت مطہرہ نے عورت کی تکریم عزت او راحترام کو ضروری قرار دیا مذہب اسلام نے ہر روپ میں اس کی عزت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں مستقبل ایک سورہ نساء نازل فرمائی اس میں خصوصیت کے ساتھ عورتوں کے حقوق بیان فرمائے یتیم بچیوں کے حقوق بیوہ خواتین کے حقوق کو بیان کیا جن سے ان کی زندگی ان کی عزت وآبرو محفوظ ہو اسی طرح مہر اور میراث کے معاملہ عورتوں کے ساتھ انصاف حسن سلوک اور حسن معاشرت کی ترغیب دی گئی ازدواجی تعلقات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایاگیا کہ یہ جسم جسم کا تعلق نہیں بلکہ انسانیت نواز عزت وشرافت سے بھرپو راور کریمانہ تعلق ہے باہمی ہمدردی اور تعاون ہی حیات انسانی کی اصل بنیاد ہے اس کو اختیار کر کے انسان خوشگوار زندگی گذار سکتا ہے شریعت کا حکم ہے کہ ہر معاملہ میں احسان اور بہتر سلوک کیاجائے اور یہ بات ملحوظ رہے کہ احسان کی بنیاد باہمی ہمدردی وتعاون ایک دوسرے کے ساتھ جذبہ تعاون خیر خواہی وہمدردی امانت ودیانت اور عدل وانصاف پر قائم ہے او راسی صورت میں ایک صحت مند معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔
اسلام کی آمد سے قبل زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا عورتوں وک عزت ومقام حاصل نہیں تھا البتہ یہ رسم عام نہیں تھی کچھ قبیلے او ربڑی شخصیتیں اس کام کی مخالف تھی ان میں جناب عبد المطلب جو نبی پاک کے دادا تھے اس کام کے شدید مخالف تھے لیکن واقعات گواہ ہیں یہ رسم بڑی حد تک لوگوں میں پھیلی ہوئی تھی صعصعہ بن ناجیہ کی فطری بتدا سے سلیم تھی چنانچہ زمانہ جاہلیت میں جبکہ دختر کشی عام تھی اور لوگ لڑکیوں کو ننگ قرابت اور فقر وفاقہ کے خوف سے زندہ دفن کردیتے تھے صعصعہ بن ناجیہ کی آغوش محبت لڑکیوں کی پرورش کے لئے کھلی تھی اور وہ دوسروں کی لڑکیو ں کو خرید کر پرورش کرتے تھے اسلام کی آمد کے بعد وفد تمیم کے ساتھ مدینہ آئے او راسلام قبول کیا نبی پاکؐ سے کچھ آیات قرآنی سکھی پھر پوچھا یا رسول میں نے زمانہ جاہلیت میں جو اچھے کام کئے ہیں وہ قبول ہوں گے اور مجھ کو ان کا اجر ملے گا فرمایا کون سے اعمال کئے ہیں عرض کیا ایک مرتبہ میری دس ماہ دو حاملہ اونٹنیاں گم ہوگئی ہیں اونٹ پر سوار ہوکر ان کو تلاشی کرنے کے لئے نکلا راستہ میں دومکان دکھائی دئے میں ان میں گیا ایک مکان میں ایک شخص نظر آیا میری اس سے باتیں ہونے لگی اتنے میں گھر سے آواز آئی کہ اس کے گھر میں ولادت ہوئی، اس نے پوچھا کون بچہ ہوا، معلوم ہوا لڑکی اس نے کہا اس کو دفن کردو، میں نے کہا دفن نہ کرو، میں اس کو خریدتا ہوں، چنانچہ میں نے اس کو دو اونٹنیاں بچوں سمیت اور اپنی سواری کا اونٹ دیکر لڑکی لے لی، اس طریقہ سے ظہور اسلام تک میں نے تین سوساٹھ دفن ہونے والی لڑکیوں کو فی لڑکی دس دس مہینہ کی دو دو حاملہ اونٹنیاں اور ایک ایک اونٹ دیکر خریدا، اس کا مجھے کوئی اجر ملے گا؟ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ تم کو خدانے اسلام کے شرف سے سرفراز کیا ہے، اس لئے ان تمام نیکیوں کا اجر ملے گا۔ صعصعہ کے اعمال حسنہ محض لڑکیوں کو بچانے تک محدود نہ تھے بلکہ وہ غربا پرور بھی تھے اور غریبوں اور محتاجوں کے لئے ان کا دست کرم ہمیشہ دراز رہتا تھا، ضروریات سے جو کچھ بچتا تھا، اس کو پڑوسیوں او رمسافروں میں تقسیم کردیتے تھے، ایک مرتبہ رسول اللہؐ سے عرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس ضروریات سے زیادہ جو کچھ بچتا ہے، اس کو میں پڑوسیوں اور مسافروں کے لئے رکھ چھوڑتا ہوں، فرمایا پہلے ماں، باپ، بھائی، بہن اور قریبی رشتہ داروں کو یاد کرو۔
عورت کی عزت ومنزلت ثابت کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ اسلام نے اس کے تمام اخراجات کا ذمہ دار، اگر وہ غیرشادی شدہ یا بیوہ ہو تو اس کے باپ یا سرپرست کو بنایا ہے اور اگر وہ شادی شدہ ہو تو اس کے شوہر کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد خاتونِ خانہ کی عصمت کی حفاظت اور سماجی اقدار کی سلامتی ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
یعنی: ذرا ان لوگوں کو تو دیکھیں جنہیں کچھ شرعی علم عطا کر دیاگیا (مگر پھر بھی) وہ گمراہی مول لیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ (حق) سے بھٹک جاؤ۔
نیز فرمایا:
یعنی: مال دار کو چاہئے کہ اپنے مال میں سے دیا کرے اور کسی کو تنگی رزق ہو تو بھی جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس میں سے دیا کرے، اللہ تعالیٰ کسی کو اتنا ہی پابند کرتا ہے جتنا اسے دیا ہے، اللہ تنگی کے بعد آسانی کر دے گا۔
نان نفقہ کے ضمن میں مناسب رہائش کی فراہمی بھی شامل ہے، اسی لئے حکم ہوا:
یعنی: جہاں تک ہو سکے (اپنی طلاق یافتہ) بیویوں کو (عدت پوری ہونے تک) وہیں رہائش دو جہاں تم خود رہتے ہو اور ان پر تنگی کر کے انہیں پریشان نہ کرو اور اگر وہ حمل سے ہوں تو اس وقت تک ان کا خرچہ اٹھاؤ جب تک وہ جَن نہ دیں اور اگر وہ تمہارے بچے کو دودھ پلائیں تو انہیں اس کا صلہ بھی دو اور آپس کے معاملات خوش اسلوبی سے طے کرو اور اگر تمہاری آپس میں نہ بنے تو (باپ) بچے کو کسی دوسری عورت سے دودھ پلوائے۔
سنن ابو داود میں نبی کریم علیہ الصلاۃ السلام سے اس حکم کی تشریح یوں مروی ہے: حکیم بن معاویہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم علیہ الصلاۃ السلام سے دریافت کیا کہ بیوی کا شوہر پر کیا حق ہے؟ فرمایا: جیسا خود کھاؤ اسے بھی کھلاؤ، جس معیار کا کپڑا خود پہنو اْسے بھی پہناؤ،چہرے پر نہ مارو اور نہ ہی بْرا بھلا کہو اور اگر بول چال بند کرو تب بھی گھر میں ہی رکھو۔
معلوم ہوا کہ شوہر کو بیوی کے ساتھ معاملات کی بنیاد اپنائیت پر رکھنی چاہئے تاکہ وہ اس کی روحانی و نفسیاتی سکون کا باعث ہو یوں بھی ان کا باہمی رشتہ محبت و شفقت پر ہی قائم رہ سکتا ہے اور یہ رشتہ اس قانونی بندھن سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہے جو شوہر کو محض بیوی کی مالی یا مادی ضروریات کو پورا کرنے کا پابند کرتا ہے … اور جب کوئی شوہر اپنی شریکِ حیات کو اس دلکش پیرائے میں اپناتا ہے تو ازدواجی زندگی کے راستہ میں حائل ساری رکاوٹیں اور کانٹے دور ہوتے چلے جاتے ہیں بصورتِ دیگر نتیجہ طلاق یا قطع تعلق کی شکل میں سامنے آتاہے جوکہ دونوں میاں بیوی کی زندگی میں زہر گھول دیتا ہے۔(اخلاقنا الاجتماعی، ص 148، تالیف: مصطفی السباع)
حقِ ملکیت:
اسلام نے خواتین کو میراث میں حصہ دیا جبکہ اس سے پہلے اْسے محروم رکھا جاتا تھا، فرمانِ ربِّ کریم ہے:
یعنی: (جس طرح) والدین اور رشتہ داروں کے ورثہ میں سے مردوں کا حصہ ہے (اسی طرح) والدین اور رشتہ داروں کے ورثہ میں عورتوں کا (بھی) حصہ ہے، ایک مقرر کردہ حصہ جو تھوڑا ہو یا زیادہ۔علاوہ ازیں اسلام نے خواتین کو اپنی زیرِ ملکیت اشیاء میں ہر طرح مکمل تصرّف کا اختیار دیا ہے یعنی وہ خرید وفرخت کرے یا کرایہ پر لین دین کرے یا تحفہ دے، وصیت کرے، وقف کرے، صدقہ کردے، ادھار دے، رہن رکھوائے، ضمانت دے یا اپنے مال سے سرمایہ کاری کرے وغیرہ وغیرہ (عمل المرأۃ وموقف الاسلام منہ، تالیف: عبد الرب آل نواب، ص۔ 135)۔ غرضیکہ اسلام کی رو سے خواتین اپنے مالی معاملات و معاہدے خود کر سکتی ہیں وہ ہر قسم کی جائیداد اور مال واسباب کی مالک ہو سکتی ہیں وہ ہر قسم کی جائز تجارت اور روزی کمانے کے طریقے بھی اپنا سکتی ہیں انہیں اختیار ہے کہ جس کی چاہیں ضمانت دیں اور وارثوں کے علاوہ جس کے لئے چاہیں وصیت کریں اور ضرورت پڑنے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں یہ سارے کام وہ اپنے شوہر یا سرپرست کی نگرانی کے بغیر بھی کر سکتی ہیں۔
خواتین کی عزت ومرتبت ثابت کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ اسلام نے انہیں بحیثیت ماں وہ اعلیٰ مقام عطا کیا ہے جو انہیں کہیں اور حاصل نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر اپنی عبادت کے ساتھ ہی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، جیسا کہ فرمایا:
یعنی: آپ کے رب نے یہ طے کر دیا ہے کہ تم سب صرف اسی کی عبادت کرو اور والدین سے حسنِ سلوک کرو۔
نیز یہ کہ ان پر شفقت و رحمت کی تاکید کی ہے: یعنی: جب ان (والدین) میں سے کوئی ایک یا دونوں عمر رسیدہ ہو جائیں تو ان کی کسی بات پر پریشانی کا اظہار بھی نہ کرو اور نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان کے ساتھ نرمی سے بات کرو۔
اسلام ہی ہے جس نے ان کے لئے سب سے بہتر سلوک اور دیکھ بھال فرض کی ہے، جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم علیہ الصلاۃ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ وہ کون ہے جو میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حقدار ہے؟ فرمایا: تمہاری ماں! پوچھا: اْن کے بعد؟ فرمایا: پھر بھی تمہاری ماں!، پھر پوچھا: اْن کے بعد؟ فرمایا: پھر بھی تمہاری ماں! پوچھا پھر کون؟ فرمایا: تمہارا باپ! (بخاری)
اور یہ اسلام ہی ہے جس نے ماں کے ساتھ بھلائی اور قرابت داری نبھانے کا حکم دیا اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، اس سلسلہ میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ ایک بار، جبکہ قریش نبی کریم علیہ الصلاۃ السلام کے ساتھ مدّتِ معاہدہ میں تھے، میری مشرکہ ماں اپنے باپ کے ساتھ مجھ سے ملنے آئی، میں نے رسول اللہ علیہ الصلاۃ و السلام سے مسئلہ پوچھا کہ میری ماں مجھ سے ملنا چاہتی ہے کیا میں اس کے ساتھ قرابت داری نبھاؤں؟ فرمایا: ضرور! (بخاری)
خواتین پر اسلام کی نوازشوں کا یہ ایک دل آویز انداز ہے کہ ماں اگرچہ کافر ہی ہو تب بھی اس کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے، یہ تو سمندر میں سے ایک قطرہ سمجھیں کیونکہ اسلام نے خواتین کو جس قدر حقوق عنایت کئے ہیں اور جنہیں مغربی دنیا کسبِ معاش، شراکت داری اور مساوات کے نام پر چھیننے کے درپے ہے، وہ بہت زیادہ ہیں۔ فی الحال یہاں ان حقوق کو گِنوانا مقصد نہیں بلکہ غور و فکر کے لئے اشارہ کرنا ہی کافی ہے۔
تمام قارئین سے صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ وہ صرف ماؤں کی نہیں بلکہ تمام خواتین کی عزت کریں‘ وہ بیٹیاں ہوں‘ بہنیں‘ بیویاں‘ ساتھ کام کرنے والی خواتین ہوں یا پھر سر راہ کسی بھی حوالے سے نظر آنے والی خواتین۔ خواتین کو نمبروں میں تقسیم نہ کریں‘ جس طرح اپنی بہن اور بیٹی کی عزت کو مقدم رکھتے ہیں اسی طرح سے ہر عورت کی عزت کا احترام کریں۔یقین کریں کہ خواتین نہ آزادی چاہتی ہیں اور نہ ہی آوارگی‘ وہ چاہتی ہیں تو صرف اور صرف عزت۔ اپنے گھر سے‘ اپنے لوگوں سے اور ہر اس جگہ جہاں وہ جاسکتی ہے۔
میں کہنا چاہتی ہوں کہ اپنی عورتوں سے کہ وہ اپنے بیٹوں اور بھائیوں کی تربیت کچھ اس انداز میں کریں کہ وہ خواتین کا ویسا ہی احترام کریں جیسا کہ ہمارے پیارے رسول اپنی زوجات اور بیٹی کا کیا کرتے تھے موجودہ معاشرے میں عورتوں کے ساتھ عزت و احترام کا معاملہ کرے انکے حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں انکو اسلامی تعلیمات سے واقف کرانے نظم سر پرست حضرات پر لازم ہے اسلامی تعلیمات کا گھر میں اھتمام ھو تلاوت قرآن پاک کا ماحول پیدا کرنے کے لیے خود نماز فجر کے بعد تلاوت کا التزام کرین بچوں کے عقائد کی نگرانی کرین شوسل میڈیا پر بچوں کو مصروف نہ ہونے دین بقدرِ ضرورت استعمال کی اجازت دے لڑکیوں کو سماجی حالات سے آگاہ کریں اگر وقت رہتے توجہ نہیں دی تو اس کا خمیازہ کبھی غیر مسلم سے شادی کی شکل یاارتداد والحاد کی صورت میں بہگتنا پڑ سکتا ہے اپنے اہل خانہ پر مکمل اعتماد کرتے خصوصی توجہ دے انکو نفع و نقصان سے واقف اور روشناس کروایا جائے رسوائی وذلت کا سامنا کرنے سے پہلے ہی اپنے آپ کو اور اہل خانہ کو بری عادتون اور پراگندہ ماحول سے تحفظ فراہم کرنے کا مضبوط انتظام کریں انکیے دوست اور متعلقین کے انداز واطوار پر گہری نظر رکھے کلاس اور ٹیوشن کے اوقات معلوم کرے گاہے بگاہے دونوں جگہوں پر تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے پارٹیوں اور خاندانی تقریب میں اپنے بچوں کو اجنبی لوگوں سے دور رہنے کی ہدایت کریں اور تنہا دور دراز کے سفر پر روانہ نہ کریں اسلامی شریعت نے گھر کے سربراہ کو جواب دہ بنایا ہے اپنی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار نہ کریں اللہ تعالیٰ ہمارے گھر میں خوشگوار ماحول عطا فرمائے آمین اور ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی توفیق وھدایت سے نوازے۔
معاشرتی وسماجی طور پر بھی بیٹی کو بلند مقام عطا کیا- بیٹیاں آتشِ دوزخ سے نجات اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہیں۔
بہن کے روپ میں عورت ایک بہت خوبصورت اور پاکیزہ رشتہ ہے- بہن، خواہ بڑی ہو یا چھوٹی، باعثِ رحمت ہوتی ہے- بہن کا مْقام بھی بیٹی ہی کی مانند ہے- وہ حقوق جو ایک بیٹی کو حاصل ہیں، وہ تمام حقوق بہن کے لیے بھی مقرر کیے گئے ہیں۔
نیک بیوی دْنیا کی بہت بڑی نعمت ہے۔ وہ دْکھ سْکھ کی ساتھی ہوتی ہے اور ہر مشکل وقت میں نہ صِرف ساتھ کھڑی ہوتی ہے بلکہ حسبِ موقع مفید مشورے بھی دیتی ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ بھی بہت سے معاملات میں ازواجِ مطہرات سے مشاورت کیا کرتے تھے۔ اِسلام نے بیوی کو بہت سے حقوق سے نوازا ہے اور اْن تمام حقوق کو ادا کرنا مرد کے لیے لازم قرار دیا ہے جن میں اْس کے ساتھ اچھے طریقے، حسنِ سلوک، نرمی اور عزّت واحترام سے پیش آنا بھی شامل ہے، غرض یہ کہ عورت کا ہر روپ ہی بہت خوبصورت اور قابلِ احترام ہے۔
ہمارے معاشرے میں عورت کا ایک رْوپ ایسا بھی ہے جو تمام مْقدس رشتوں کو پامال کرتا ہے، وہ ہے ایک عورت کا مرد کے ساتھ بغیر کسی جائز رشتے کے تعلق قائم کرنا- عورت گھر کی ملکہ اور زینت بنا کر پیدا کی گئی ہے نا کہ گلیوں اور بازاروں کی رونق بننے کے لیے- عورت اگر شرم وحیا کی چادر اْتار پھینکے تو وہ سب کی نظروں میں گِر جاتی ہے اور معاشرے میں اْس کا احترام اور تقدّس بھی ختم ہو کر رہ جاتا ہے-
بعض جگہوں پر آج بھی عورت کے ساتھ زمانہ جاہلیت کی طرح ہی سلوک کیا جاتا ہے- اولاد ماں کے احترام، اْس کی قربانیوں اور ایثار کو بالکل ہی بْھلا دیتی ہے اور اْس کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتی ہے جیسے وہ اْن کی خادمہ ہو- بیوی کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے گو کہ وہ کوئی زر خرید غلام ہو- بیٹیوں اور بہنوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے- جب اِسلام نے اِن کے حقوق مقرر کیے ہیں تو اْن حقوق کا احترام کرتے ہوئے ہمیں اْن کے ساتھ محبّت اور شفقت سے پیش آنا چاہئیے-
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عورتوں کا احترام کرنے اور اْن کے حقوق اچھے طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین
ارشاد ربانی ہے:
وہ لوگ بہت ہی خسارہ میں ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو نادانی میں بے بنیاد قتل کیا اور جو انہیں اللہ نے نصیب کررکھا تھا اسے اپنے اوپر حرام کرلیا اللہ پر افترا کرتے ہوئے۔
امام قطبیؒ نے اپنی تفسیر میں ایک حیرت انگیز واقعہ نقل کیاہے جو زمانہئ جاہلیت کے مشرکین کی انتہائی سفاہت وحماقت کا مظہر ہے کہ ایک صحابیؓ رسول ہمیشہ غمزدہ اور افسردہ طبیعت رہتے تھے آپؐ نے دریافت فرمایا کہ تم ہمیشہ مغموم کیوں رہتے ہو؟ عرض کیا یا رسول اللہ! زمانہئ جاہلیت میں میں نے ایک جرم کا ارتکاب کیاتھا جس کی وجہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ خداتعالیٰ میری مغفرت نہیں فرمائیں گے اگرچہ میں اسلام کے حلقہ بگوش ہوگیا ہوں! آپ نے فرمایا وہ کونسا گناہ بتلائیے؟ عرص کیا یا رسول اللہ! میں ان لوگوں میں سے ہوں جو زمانہئ جاہلیت میں اپنی لڑکیوں کو قتل کردیتے تھے، میرے یہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی، میری بیوی نے درخواست کی کہ یہ لڑکی مجھے دیدی جائے، میں نے اس کے سپرد کردی یہاں تک وہ جوان اور سمجھدار ہوگئی وہ لڑکی انتہائی خوبصورت تھی اس لئے بہت سے لوگوں نے پیغام نکاح دیا جس کے نتیجہ میں مجھ پر غیرت وحمیت کا بھوت سوار ہوگیا اور میں اس بات کو برداشت نہ کرسکا کہ میں اس کی کسی سے شادی کروں یا اس کو گھر میں غیر شادی شدہ ہی رہنے دوں، اس لئے میں نے ایک روز بیوی سے کہا کہ میں اپنے عزیز واقربا سے ملنے جارہاہوں تم اس لڑکی کو میرے ساتھ بھیج دو میری بیوی نے بخوشی اس کو کپڑے پہنائے اور زیورات سے آراستہ کردیا، میں اس کو شہر کے باہر ایک کنویں کی مینڈ پرلے گیا میں نے کنویں میں جھانکا تو لڑکی سمجھ گئی کہ میں اس کو کنویں میں ڈالنا چاہتا ہوں وہ مجھ سے لپٹ گئی او راس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے مجھے اس پر ترس آگیا، پھر میں نے کنویں کی طرف دوبارہ دیکھا تو غیرت وحمیت نے پھر مجھے جکڑ لیا اور شیطان نے مجھ پر اپنا پورا تسلط قائم کرلیا چنانچہ میں نے اس کو منھ کے بل کنویں میں ڈال دیا اور جب تک اس کی آواز بند نہیں ہوگئی اس وقت تک میں وہیں رہا اس کے بعد گھر واپس لوٹا یہ سن کر آپؐ او رآپ کے اصحاب روپڑے او رااپ نے فرمایا کہ ”اگر میں زمانہ جاہلیت کے کسی فعل پر کسی کو سزا دیتاتو تمہیں دیتا۔ (الجامع لا حکام القرآن للامام القرطبی،7/97)
لڑکیوں کے زندہ درگور کرنے کا سبب:
گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین قریش کی بعض حماقتوں، گمراہیوں اور ان کے بعض شرمناک جرائم کا تذکرہ فرمایا جن میں اولاد کا قتل او رلڑکیوں کا زندہ درگور کر دینا بھی شامل ہے، اس ظلم وستم کا پہاڑ ان پر اس لئے نہیں ٹوٹتاتھا کہ انہو ں نے کسی جرم میں اپنے ہاتھ رنگ لئے ہوتے بلکہ یہ ظلم محض ان
کی حماقت وگمراہی اور ان کی اس جاہلی عصبیت کی بناپر ہوتا ہے جس پر وہ پروان چڑھے تھے، وہ لڑکیوں کو اپنے لئے نحوست اور باعث ننگ وعار سمجھتے تھے جس سے چھٹکارا پانا ان کے نزدیک ضروری تھا، اس لئے وہ ان کو زندہ ہی دفن کردیتے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
او رجب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جائے تو سارے دن اس کا چہرہ بے رونق رہتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹتا رہتا ہے جس چیز کی خبر دی ہے اس کی عار سے لوگوں سے چھپا پھرے یا اس کو ذلت پر لئے رہے یا اس کو مٹی میں گاڑدے خوب سن لو ان کی یہ تجویز بہت ہی بری ہے۔
اس طرح ان کی جہالت وحماقت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ مردننگ وعار کے باعث یا فقر وفاقہ کے اندیشہ سے لڑکی کو زندہ ہی دفن کردیتے یہ سب سا لئے ہوتا چونکہ شیطان نے ان تمام جرائم اور قباحتوں کو ان کی نظر میں خوشنما بنادیاتھا یہاں تک کہ وہ ان چیزوں کو فخر ومباہات کا ذریعہ اور مدح وستائش کے حصوں کا وسیلہ خیال کرتے تھے۔
ان آیات بینات میں قرآن کریم نے ہمارے عرب آباء واجداد کی خرافات اور گمراہیوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا:
اور اسی طرح ان دیوتاؤں نے بہت سے مشرکوں کی نظر میں ان کی اولاد کے قتل کو خوشنما بنارکھا ہے تاکہ انہیں برباد کرڈالیں اور ان کے دین کو ان پر رلا ملادیں اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو آپ ان کو اور ان کی افترا پر دازی کو ان پر چھوڑدیجئے۔ آیت کریمہ کا آخری جز تہدید آمیز ہے۔