السبت, 16 تشرين2/نوفمبر 2013 20:06

مو جو دہ عہد کے ر ضو انؔ وا سطی میں ثا نی امیر خسروکی روح ہے۔ جہانگیر محمد

Rate this item
(0 votes)

مو جو دہ عہد کے ر ضو انؔ وا سطی میں ثا نی امیر خسروکی روح ہے۔


جہانگیر محمد

                   آ ہنی شہر میں سیدرضو ان وا سطی کا شمار عصر حا ضر کے ممتاز و معروف شاعروں اوراد یبو ں میں ہو تا ہے ۔آپ وا سطی خاندان کے مشہور علمی خا ندان سے تعلق ر کھتے ہیں ۔یہ خا ندان جمشید پو ر میں عز ت وا حترام کی نگا ہو ں سے دیکھا جا تا ہے ۔ آ پ کی پیدائش ۱۰ جون ۱۹۴۶ جمشید پور میں ہوئی ۔ر ضو ان وا سطی اقلیم نثرکے شہر یا ر توقا در الکلا می شا عر ی کے تا جدا رہیں۔ز با ن و بیان پر ان کو د سترس حاصل ہے ۔ان کی کئی نگار شا ت اردو ادب نیز ہندی وانگر یزی میں بھی اپنا جلو ہ دکھا چکی ہیں ۔ان کی حا لیہ تصنیف ’’سچ ‘‘ اور ’’آ ٹو گر اف ‘‘ اردو ادب کا پیش قیمت سر ما یہ ہے ۔ٖصاف ستھری زبان ، عمدہ اسلو ب بیان ،معنو ئیت اور افکار سے لبر یز۔ان کے کئی ادبی ثہ پا رے منظر عا م پر آ چکے ہیں ۔اردو کے با ذوق اور ذہین قا ری کو دعو ت سخن دیتے ہیں ۔ان کی سحر انگیز ی او ردلاآو یزی ان کی حد درجہ کو شش اور ر یاضت کا ثمرہ ہے ۔انگریزی میںEssence of Ghazal اور’’کر نیں سہیل کی ‘‘(سہیل وا سطی کا د یو ان ) آپ کی گر انقدر تصا نیف ہیں۔’شا ن اردو‘ بچو ں کی نفسیات کے پیش نظر لکھاہوا اردو کا قاعدہ ہے ۔خا کسا ری اور عا جز ی آپ کی شخصیت کی پہچا ن ہے ۔ایسی شاعر ی آج کے عہد میں کم یا ب ہو ئی جا رہی ہے، جو آپ کی انفرادیت ہے ۔میں آپ کی شا عر ی کی مثال آپ کے سا منے ر کھتا جا تا ہو ں فیصلہ تو آپ کر یں گے ۔سو رہ فاتحہ کو آپ نے کس سلیقے سے منظو م کیا ہے غور کر یں گے ۔
ہا تھ پھیلا ئے کھڑ ے تھے ما نگنا آ تا نہ تھا ۔تب ز با ن تو نے عطا کی اور سکھا ئی یہ دعا
’’ نام سے اﷲکے جو رحمن ہے اور ہے رحیم ۔سب جہا نو ں کا تو رب تیر ی ہے حمد و ثنا 
ر حمتو ں والا بھی تو اور ر حم وا لا بھی تو ، فیصلے کے دن کاتو ما لک جزا دے یاسز ا
کر تے ہیں کر تے ر ہیں گے ہم عبا دت بس تیر ی،اور مدد ما نگیں گے تجھی سے جب مدد ہو ما نگنا
راستہ سیدھا دکھا ہم کو اور ایسا راستہ، جس پہ چلنے والوں کو انعام ہے تیرا ملا
ہاں مگر ان کا نہیں نازل ہوا جن پر عتاب، جو بھٹک کر ہوگئے گمراہیوں میں مبتلا‘‘
نعتیہ اشعاریوں تو تلو ار پر چلنے کے مصدا ق ہے اک طر ف تو حید اور دوسر ی طر ف ر سالت ... بیچ میں ہے پل صر اط ۔آپ کتنا محتاط اور مشاق ہیں ملا خط فر مائیں ۔
نا ز قسمت یہ جتنا کر یں ہم ہے کم ،شکر الحمدﷲاس کا کر م 
کلمہ طیبہ پڑ ھنے وا لے ہیں ہم اور مو لا کا پیارا ہما رانبی ؐ
آپ کی عا دات واطوار بھی خسر وانہ ہے۔ بے شمارعلو م فنو ن کے درواز ے بھی آپ پر کھلتے ہیں ۔ہا ر مونیم، گٹا ر ،ما و تھ آر گن، بانسری ، موسیقی ،را گ ،ڈ را مہ ،ادا کا ری ،فو ٹو گر افی اور پا مسڑ ییا جواہرات شناسی ایک طرف تو دوسری طرف شاعر ی ، افسا نہ نگا ری ،خا کہ نگاری ،جد ید عہد میں کمپیو ٹر انڑ نیٹ ،جد ید عہد کو جا معیت کے سا تھ اپنی شخصیت کا آئینہ بنا یا ۔اس لئے اپنے تما م ہمعصر و ں میں آپ (شش جہت ) منفر دا ور فعا ل سمجھے جا تے ہیں ۔آپ کی شا عر ی دردوسو ز کے سا تھ بڑ ی خو بصو ر تی اور ر عنا ئی کا مظہر ہو ئی۔سا دگی و عا جزی آپ کا شعا رہے۔ امیر خسر و پر آپ کی گہر ی نظر ہے ۔بندہ گسیو درا زؒ پر بھی آپ تحقیقی مقا لہ لکھ چکے ہیں۔امیر خسر و کی مشہو ر غزل کو کس طر ح تضمین میں ا لفا ظ کا جا مہ پہنایا ہے ۔آپ بھی د یکھیں ۔
تضمین بر غزلِ خسروؔ 
کجا نہ دانم تبسّمِ گل،بچھی ہوئی کیوں ہیں سوکھی پتیاں
کسے نشنود ایں نالۂ شب، سناؤں دل کی کسے مِنتیاں
منم کہ اِستادہ دست بستہ، معاف کردو مری غلطیاں
زحالِ مسکیں مکن تغافل دورائے نینا بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
نمی شناسم کہ چیست منزل، منم مسافر کسے نہ ہمراہ
کبھی نہ دیکھی ہے جس کی صورت،ہے من میں میرے اسی کی کیوں چاہ؟ 
دلم زیادش سکون یابد، مگر میں سوچوں تو نکلے بس آہ
شبانِ ہجراں دراز چو زلف و روزِوصلت چو عمرِکوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں 
اگرنہ یابم محبتِ آں، چہ مال و دولت چہ تاجِ زرِّیں
مری وفاؤں نے بدلے رشتے، تواس نے کیوں اپنی انکھیاں بدلیں
ز ہرسو خوشبوئے یار آید تو کیسے نہ دل کی کلیاں کھلتیں 
یکایک از دل دوچشم جادو بصدفریبم ببرد تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں 
چہ دشت و قریہ چہ کوہ و دریا، کجا کجا من تلاشم آخر
میں ٹوٹوں کب ٓتک؟ میں بکھروں کب تک؟یہ سلسلہ ہو کبھی کم آخر؟
زبالیں برخاستند اطبّأ، نکل نہ جائے مرا دم آخر
چو شمع سوزاں چو ذرہ حیراں، زبہر آں ماہ گشتم آخر
نہ نیند نیناں ،نہ انگ چیناں نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں
گزاشتم عمر بے معانی، بہ ایں فراز و نشیب خسرو 
میں آئینہ ریزہ ریزہ بکھروں تو دے گاکیا مجھ کو زیب خسرو؟ؔ 
ترا چہ گویم؟ چہ گونہ گویم ؟ مجھی میں شاید ہو عیب خسروؔ 
بحقِّ روزِوصالِ دلبر کہ داد مارا فریب خسروؔ 
سپیت منکے دورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
جب بھی میں نے اس جامع شخصیت کے با رے میں سو چا تو ہز ارو ں ر نگ کے پیکر آ ئے ۔دراز قد ،رو شن آ نکھیں مسکرا تا ہوا چہرہ ہو نٹوں پر تبسم کشا دہ پیشا نی او رزلف کی دولٹکتی ہو ئی لٹیں ان کی ذ ہا نت و عزمیت کے گہر ے نقو ش چہرہ پر نما یا ں کر تی ہیں گفتگو میں تری ۔علم وحلم سے بھر ی با تیں ۔تو اضع وا نکسا ری بڑے سے بڑے علمی گتھیوں کو تا ر یخی حوالے کے پس منظر میں فو ر احل کر دیتے ہیں۔کبھی میں نے غصہ کر تے نہیں د یکھا ۔یہ خاکسا ری اور عا جزی خا ند انی و صف کا حصہ ر ہا ہے ۔جن کی شا عر ی صر ف کتا بو ں اور حو الو ں کی ز ینت نہیں بنی بلکہ جیتی جا گتی وا ردا تو ں ،اور روز مرہ کے مشا ہدات اور تجربات کا ا ظہا ر ہے جس سے جا م و جم کھنکتے ہیں اور آئینہ دل پگھلتا ہے ۔
کتنے ہی اس کی کھو ج میں گم ہو گئے کہا ں کہا ں 
شہ ر گ کے جو قر یب ہے ڈ ھو نڈ یں اسے کہا ں کہا ں 
وہ ناخدا کبھی بنے، کشتی کبھی ڈُبوگئے 
ان کی شناخت کیسے ہو،کس شکل کے کہاں کہاں
ٹو تا ہوا پتا ہو ں کب جا ئے کد ھر جا ؤں ۔ اڑ جا ؤں ہواؤں میں یا جھیل میں تر جا ؤں
آتی ہیں بہا ر یں تو میں سو چتا ر ہتا ہو ں ۔ پھو لو ں کی طر ح کھل کر خو شبومیں بکھر جا ؤں 

با غ و بہا ر جا ن تمنا ر ہے ہیں ہم ۔ اے عکس تو نہ جا نے گا کیا کیا ر ہے ہیں ہم 
ہم ارتقا ئی دا ئرے نقطے میں قید ہیں ۔ گتھی عجیب ہے جسے سلجھار ہے میں ہم 

کئی ز بان پر آپ کو د ستر س حا صل ہے ۔ فا رسی ،عربی ،بنگا لی انگر یزی، ہند ی وغیرہ کا علم تو ہے ہی، اور اردو تو آپ کی ما دری زبا ن ہے ۔ ادب فلسفہ و تصوف پر بھی آپ کی گہری نظر ہے ۔ نفسیا ت اور تا ر یخ کا بھی گہرا مطالعہ ہے ۔ ایسی ہمہ جہت شخصیت اور حیرت انگیزخو بیو ں کے حا صل جو اپنے ملی افکا ر اور تعلیمی ادبی خد مات کے حو الے سے اردو کے عظیم اسکا لر ر ہے ہیں ۔ بلا کی کشش ہے اس شخص میں وہ جو شا عر ی کا سبب ہوا ۔
خشک اک روز ہر سانس کا دریاہو گا ۔ آپ نے تو ٹتے تا روں کو تو د یکھا ہو گا 
آپ ر ضو اں کے تبسم کو سمجھے کیا ہیں بیتے موسم کا کوئی ز خم سا تڑ پاہو گا 
ایک بھو نر ے نے بس گنگنایا ذ را ہر کلی کو مسکنے کا فن آگیا 
غنچے انگڑائی لے کر جو ان ہو گئے پھو ل کو بھی مہکنے کا فن آگیا 
منز لو ں کے نشا ں دھند میں کھو گئے ، را ستے کچھ ادھر سے اد ھر ہو گئے 
عشق کی ر ہنمائی ملی جب ہمیں ہر قد م کو بھٹکنے کا فن آگیا 
بن کے گھنگھور بادل برسنے لگے، صرف رضواں نے یہ آپ سے کہہ دیا
آپ کی زلف جب سے گھٹا بن گئی،چاندنی کو چمکنے کا فن آگیا
ر ضوان وا سطی بے شما ر فنو ن کے ز مزشنا س کا نا م ہے ۔جما لیا تی حس اور تغز ل کے ر نگ میں جب آ پ نے ڈ و ب کرلکھا تو پھر ہنگامہ آرا ئی اور سحر انگیز ی کا طو فان کھڑ اکر تے ہیں آپ بھی محظوظ ہو ں ان کی قا درالکلا می سے لطف اُٹھائیں ۔
پہاڑ پر جو تھا با دل ہُوا ہَو ا کیسے
ہوا چلی نہیں آ نچل سرک گیا کیسے 
اُبل پڑ ے گا ابھی دودھ ایسا لگتا تھا 
چھو ا نہ ہا تھ لگایا تو میں چلا کیسے
دل نے نہ ما نی ،ذہن نے منت ہز ارکی 
لے ڈوبی ز ند گی کو یہی ایک انا ر کی 
بیبا ک لمحے چھپنے پہ مجبور کر نہ دیں
تم کو نہ ڈھونڈنے لگے خو شبو اچا رکی 
اک بہتر ین استا د ہو نا ۔ہمہ و قت مقصد تعلیم کو پیش نظر ر کھنا اپنے شا گر دو ں کے اند ر و ہی کما لا ت جلا لت شا ن پیدا کر نا ۔یہ آپ ہی کا حصہ ہے ۔سبک دوشی کے بعد بھی آپ کر یم سیٹی کا لج (بی ایڈ)میں بحیثیت مہمان لکچررر درس و تد ر یس سے وا بستہ ہیں ۔گھا ٹ شیلا کاج اور پھرٹاٹا اسٹیل( شعبۂ تعلیم) کے صحرا میں بھٹکتے ر ہے ہیں یہ بھی اک سر بستہ را ز ہے ۔بھٹکنے کے نا م پر جو آپ نے قر با نی دی ٹھو کر یں کھا ئی ہیں یہ ہمیشہ دو سر و ں کو عا لی منصب پر فا ئز کر نا تھا ۔یہ آپ کی شخصیت کا ایسا حسین المیہ ہے جس کی نظیرملنی مشکل ہے ۔مگر کچھ عا قبت اند یش یہا ں بھی آپ کی قر با نی کو دو سر ی نگا ہ سے د یکھتے ہیں ۔یہ لطا فت بھی آپ کی شا عر ی کا قا بل دید ر مز ہے جو آپ کی شا عر ی میں جا بجا با نسر ی کی مد ھر آواز کی طر ح سنیے کو چھید کر اور فن کے اعلی قدرو ں سے سج اور سنو ر کر نکلا ہے ۔
خشک ہو نٹو ں یہ تبسم کی جلا رہنے دو ۔تیزآند ھی ہے کو ئی د یپ جلا ر ہنے دو 
حادثے اتنے ہو ئے حادثہ کو ئی نہ بچا ۔ ز ند گی مشغل�ۂ کر ب و بلا ر ہنے دو 
لا ش رسو انہ ہو خو ابو ں کا کفن ر ہنے دو ۔ دل میں امید کی ہلکی سی کر ن ر ہنے دو 
ہے اد کاری یہ جینے کی ادا بھی ر ضواں ۔ رو تے ہو نٹو ں یہ بھی ہنسنے فن ر ہنے دو 

لا کھ غر بت میں کٹی یو ں تو انا کے با عث ۔ میر ی عزت ر ہی محفوظ د عا کے با عث
میر ی غلطی تھی اسے آئینہ دل میں ر کھا ۔عکس ٹو ٹا میرا اس ہو ش ربا کے با عث
رضو ان وا سطی ایک جا مع الکمالا ت شخص وا قع ہو ئے ہیں ۔وہ ایسی مختلف خصو صیا ت کے حا مل میں کہ اک شخص میں یہ سا ری باتیں کم ہی مجتمع ہو تی ہیں ۔ان کا سب سے بڑ اامتیازی و صف ان کی جا معیت ہے۔ جس کی خو شبو انکے اشعا رسے چھلکتی ہیں ۔روز مر ہ کے مشا ہدات سے با لکل ہم آ ہنگ ۔
ہر گا م ،ہجو م انسا ں ہے ڈ ھونڈ و تو ملے انسا ن کہا ں 
غیر وں سے ملتے عمر کٹی اپنو ں کی ہو ئی پہچا ن کہا ں 
دعو ے کر نا ،لڑنا مر نا اب د ھر م ایمان کا مقصد ہے 
ہم جس کے نام پہ لڑ تے ہیں وہ دھر م کہا ں ایما ں کہا ں 
ز مین کو سخت کر نا آسماں کو دور کر نا کیا ۔میں بندہ ہو ں تر ا تو بندے کو مجبو ر کر نا کیا 
فقط اک لن تر انی ہی تھی کا فی رب ارنی کو ۔ جھلک د کھلا کے منظر کو جلا کر طو ر کر نا کیا 
یہ ایک گتھی ہے فلسفہ کی از ل کہا ں تھا مآ ل کیا ہے ؟ الجھ گیا ہے دما غ اسی میں جواب کیا دو ں سو ال کیا ہے ؟
کیا ہے تخلیق آدمی کو خو داپنی صو رت پہ جس خدا نے ۔جمیل ہے ذات اس کی بے شک تو پھر یُحِبُّ ا لْجَمَا ل کیا ہے ؟
آپ کی سا ری عمر لکھنے پڑ ھنے درس تد ر یس میں گز ری ہے ۔آپ کے بے شما ر شا گر دہیں ... آپ نے جس پر بھی نگا ہ ڈ الی علم و فضل کے میدان کا شا ہکا ر بن کر چمکا ۔آپ ہمہ و قت اپنے شا گر دو ں کے کر دا رسازی ،علمی گہر ائی کے حصو ل تکمیل کیلئے جا نفشانی کے سا تھ لگے ر ہے ہیں ۔اسلئے آپ کے شا گر دو ں کا دا ئرہ ہندو ستا ن سے لے کر بیر ون تک پھیلاہے ۔ آج بھی انڑ نیٹ پر آپ سو الو ں کے جو اب دیتے ر ہتے ہیں ۔بین لااقو امی ادبی سطح پر اس کا سا مناکرنے کی آپ کے اندر ر بے با کی و جرأت وحو صلہ مندی ہے’’ سِن کو ےئن ‘‘ایک نئی صنف سخن ہے ۔ذرا غو ر کر یں ۔
’’وہ کیا ہے۔ ؟
جو سب سے بڑا ہے ۔؟
نہ ہو گا نہ اس سا ہوا ہے ۔
نہ ہی ابتدا ہے ،نہ ہی انتہا ہے ۔
خدا ہے ‘‘
آپ نے مختلف مو ضا عا ت پر قلم اٹھا یا ۔غز لیں نظمیں،ر با عیا یات ،قطعات دو ہے ۔جد ید غز ل ،آزاد غزل ،جد ید نظم ،آزاد نظم،سانیٹ،جیسے اصناف پربے شما ر تجربے کر تے رہتے ہیں ۔پھر اردو کے شا ئقین حضرات سے مطا لعہ کی درخوا ست کر تے ہیں پیش ہے۔چندربا عیات:
کا نٹے کی چبھن میں گلا ب ہے پنہاں۔جس طر ح لڑ کپن میں شبا ب ہے پنہا ں
ر و شن ہو بصیرت کی نگاہیں بھی اگر۔ہر ذرے میں اک آ فتا ب ہے پنہاں
تعبیرخزا ں سَیربہا را ں کیا ہے ۔کیا ہے غم دور ا ں غم جانا ں کیاہے
آغو ش تمدن میں نہ کھیلا ہے جو ۔ وہ کیسے سمجھ پاتاکہ انسا ں کیا ہے 
قطعات۔
وہ مجھ سے کب ملا تھا مجھے یا د بھی نہیں ۔بس عمر بچھڑنے کا احسا س رہ گیا 
خو شیاں سمیٹنے کی توفر صت ہی کب ملی ۔جو اس نے غم دیا تھا و ہی یا درہ گیا 

آزاد نظم ’’ و قت گو اہ ہے‘‘ 
وہ کیا سمجھتے ہیں جن کے ہا تھو ں میں نیو کلیا ئی ۔ہتھیا رو ں کے ز خیرے ہیں ۔
جن کے قبضے میں دینا کا امن کدہ ہے ۔امن کی با تیں ان سے سیکھیں ؟
جو اک جانب ہر طو فان کھڑاکر تے ہیں ۔دو سر ی جا نب ،اپنے ہتھیاروں کے ز خیر ے بیچ کر ،اپنی جیب بھرتے ہیں
میں جھوٹ فر یب اور مکا ری ۔جسے چاہیں فر و غ دے لیں
ذ را ئع ابلاغ جو ان کے قبضے میں ہے ۔بے ایما نی ور مکا ری کے اشتہا ر ہے 
نئی نئی سر حد یں بناکر ۔نا م بہار د ہشت گر دو ں پر پا بند ی عا ئد کرتے ہیں
بھو لی بھالی د نیا کو یہ بے و قو ف ۔جب چا ہیں بنا لیں ۔جس سے جسکو جب لڑ و الیں 
جنگ کے حال تو ہی بنتے ہیں ۔یہی ان کے ٹھیکید ا ر ہیں ۔امن کی با تیں ان سے سیکھیں ؟ ان سے ؟
بڑ ے بڑ ے فر عو ن کشن را ون اور نمر ود 
کہا ں کھو لئے ۔فنا ہو گئے۔یہ بھی د ھند میں کھو جا ئیں گے ۔یہ بھی فانی ہو جا ئیں گے ۔
سیکھا ہے تو و قت سے سیکھیں ۔
و قت گو اہ ہے 
بے شک انسا ن صر ف سراسر گھا ٹے میں ہے 
سوائے ان کے جن کو یقین کا مل ہے 
اور جنہوں نے اچھے کام کئے 
جنہو ں نے حق سے کا م لیا
اور صبر سے کام لیا ۔
جہا ں آپ نے نظم کے اختتا م پر قر آن شریف کی ’’وا لعصر سو رہ ‘‘کو منظوم کیا ہے اک بڑا فن ہے ظا ہر ہے یہ کہنہ مشق شا عر ی کی شنا خت ہے ۔جو قا بل ر شک ہے اور ار دو شا عر ی میں گر انقدر ا ضا فہ ہے ویسے آپ ا گر تسلیم کر یں تو ر ضو اں ؔ وا سطی اس عہدکے ثا نی امیر خسر و ہیں ۔
حا لا ت ہو ئے جا تے ہیں میر ے بد خو اہ ۔مسدود ہو ئی جا تی ہے جیسے ہر را ہ 
اب کو ئی سہا را ہی کہا ں ہے با قی ۔بس یا دہے لا تقنظو امن الر حمتہ اﷲ
’’عالمی پرواز . کوم ‘‘ کے توسط سے تمام قارئین تک ترسیل وابلاغ کے تمام رابطے روشن وعیاں ہوتے رہے ہیں ۔ بہت کم مدت میں روز بروز ’’ عالمی پرواز .کوم ‘‘ کے دائرے وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں ۔ ادبی حلقوں کی گہما گہمی بڑھتی جا رہی ہے۔ ان تمام کاوشوں میں مہتاب عالم پرویز ؔ اور نغمہ ناز مکتومی ؔ کی ادبی خدمات ، جدوجہد ، حد درجہ ، لگن اور کوشش کا جلوہ پورے طور پر نمایاں دکھائی دیتا ہے ۔
آج ’’ عالمی پرواز . کوم ‘‘ کو بین الاقوامی سطح پر لانے کے لئے مہتاب عالم پرویزؔ نے جس خلوص کا اظہار کیا ہے وہ قابلِ توجہ ہے ۔ اردو کے تمام مفکر و احباب سے گُذارش ہے کہ اتحاد کی فضا کو قائم رکھیں تو انشا اللہ بہت جلدکامیابی ہمارے قدم چومے گی اور پھر اردو دُنیا کی مقبول زُبان ہوگی۔
ابرار مجیب ،منظر کاظمی اوررضواں واسطی کے بعدبہت سارے لوگ ہماری فہرست میں موجود ہیں اُن پر ہم کو کام کرنا ہے۔ گاہے گاہے اُن کی شخصیت سے آپ روشناس ہو جائیں گے۔
میں نے بھی یادوں کے جھروکے کو ان تمام ادبی ہستیوں کے لئے دل میں سجا رکھا ہے۔ اللہ تعالی سے دُعا گو ہوں کہ اللہ ’’عالمی پرواز . کوم ‘‘ اور مہتاب عالم پرویز ؔ کو روز افزوں ترقی کی معراج عطا فرمائے۔ 

****

جہانگیر محمد

Read 3702 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com