ڈاکٹر اسلم جمشید پوری
’’جاٹ ریزرویشن‘‘ کا خواب شرمندۂ تعبیر، مسلم ریزرویشن تا ہنوز خواب
آزادی کے64سال بعد بھی ہندوستان ریزرویشن کے جنجال سے با ہر نہیں آ پا یا ہے۔ ایس سی،ایس ٹی کو اب تک ریزرویشن مل رہا ہے۔اوبی سی کے نام پر مختلف ذات برادریوں میں ریزرویشن کی ریوڑی تقسیم کی جاتی رہی ہے۔27% او بی سی ریزرویشن میں ہی اب جاٹوں کو بھی کو ٹا مختص کیا گیا ہے۔ اس سے کچھ قبل2009ء کے عام انتخابات کے وقت مرکزی سرکار نے مسلم ریزرویشن، کا کارڈ کھیلا تھا اور مسلمانوں کو او بی سی کوٹے سے5% ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا تھا۔جو شر مندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ آندھرا پردیش میں کانگریس حکو مت نے5% ریزرویشن پاس کر کے دیا تھا جسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور معاملہ التویٰ میں چلا گیا۔ در اصل مرکزی سرکار نے حقیقت میں مسلم ریزرویشن کے تئیں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔کسی بھی طبقے، ذات ،برادری کو ریزرویشن دینے سے قبل کچھ ضروری اقدا مات کرنے ہوتے ہیں۔مثلا
کسی بھی طبقے کو ریزرویشن دینے سے قبل اس سماجی،معاشی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ہو نے کا سر وے ہونا چاہیے تاکہ اس کا پسماندہ ہو نا ثا بت ہو۔
سرکاری ملازمتوں میں ان کی نمائندگی اطمینان بخش نہ ہو۔
کسی بھی حال میں کل ریزرویشن50%سے زائد نہ ہو۔
مرکزی سرکار نے مسلم ریزرویشن کے لیے سچر کمیٹی سفارشات کو بنیاد تو بنایا لیکن عدا لتوں کے لیے پہلے سے کوئی منصوبہ نہیں تھا۔بلکہ مرکز کا مقصد مسلم ریزرویشن کا اعلان کر نے سے مسلمانوں کو حسیں خواب دکھانا ہی تھا۔تقریباً چار سال گذرجانے کے بعد بھی مرکز نے مسلم ریزرویشن کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا۔ مرکزی سرکار کے کئی وزراء الگ الگ بیان دیتے رہے۔ مرکزی وزیر سلمان خورشید مسلمانوں کو12% ریزرویشن کی بات کرتے رہے۔
’جاٹ ریزرویشن‘ کے اعلان سے ایک بار پھر ملک کی سیاست میں کھلبلی مچ گئی ہے۔کیا وا قعی سر کار جا ٹوں کو مرکزی سر کاری کوٹے میں ریزرویشن دے پائے گی؟ یا پھر یہ بھی مسلم ریزرویشن کے اعلان کی طرح کا ہی پانسہ ہو گا جو جاٹوں کو راضی کرنے کے لیے پھینکا گیا ہے۔۔لیکن دو نوں معاملات میں خا صا فرق ہے۔ جاٹ ریزرویشن کے لیے جدو جہد کی پوری تاریخ ہے۔ یہ معا ملہ 1999ء سے ہی اٹھایا جاتا رہا ہے۔ اس کے لیے کئی بار ملک گیر احتجاج ہو چکے ہیں۔کئی سیا سی جما عتیں اس تحریک میں شا نہ بہ شانہ شریک رہی ہیں۔ خصوصاً راشٹریہ لوک دل، بھارتیہ کسان دل، کسام مو رچہ وغیرہ۔ چو دھری چرن سنگھ، دیوی لال سے لے کر چو دھری اجیت سنگھ اور مہندر سنگھ ٹکیت تک اس سلسلے میں خاصی جدو جہد کر چکے ہیں۔ 1999ء میں چودھری اجیت سنگھ کی رہنمائی میں131 ایم پی نے جاٹ ریزرویشن کی حمایت میں ایک تجویز اس وقت کے وزیر اعظم کو دی تھی۔اسی دوران1999ء میں دہلی اور راجستھان میں جاٹوں کو او بی سی کوٹے میں ریزرویشن دیا گیا۔ اگلے ہی سال یعنی2000ء میں اتر پردیش میں بھی او بی سی ریزوریشن ملا۔2002ء میں کل ہند جاٹ مہا سبھا نے ریزیرویشن کی جدو جہد کو تیز کرنے کے لیے کل ہند جاٹ ریزرویشن سنگھرش سمیتی کی تشکیل کی۔ 2009ء میں اسی سمیتی کے بینر تلے ۱۲ ریاستوں کے لاکھوں جاٹ میرٹھ میں جمع ہو ئے۔2009ء میں اجیت سنگھ کی مانگ پر مرکزی سرکار نے جاٹ ریزرویشن کا وعدہ کیا۔2010ء میں سنگھرش سمیتی نے ریزرویشن کو لے کر پنجاب، ہر یانہ، یو پی، راجستھان میں ایک ساتھ تقریباً63 مقامات پر جام اور جلوس کا اہتمام کیا۔ ایک کسان کی پولس گو لی سے موت بھی ہو ئی۔ 2010ء میں ہی سمیتی نے کامن ویلتھ گیمس کا انعقاد نہ ہونے دینے کی دھمکی بھی دی۔ 2011ء میں اسی سمیتی نے جے پی نگر، حصار اور متھرا میں ریلوے ٹریک پر قبضہ جمایا۔اس شاندار جدو جہد کے نتیجے میں مرکزی سرکار نے جاٹ ریزرویشن کو کیش کرنے کا منصو بہ بنا لیا تھا۔2013ء کے پانچ ریا ستوں کے انتخابات سے قبل اس کا اعلان کیا جانا تھا تا کہ ان ریاستوں میں کانگریس کو فائدہ پہنچ سکے۔ لیکن الیکشن کمیشن کے اعلامیہ کے بعد یہ بروقت نہیں ہو سکا۔ اسی دوران مظفر نگر کا فساد رو نما ہو گیا جس میں جاٹ اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فساد نے پو رے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ سیا سی اعتبار سے مظفر نگر کا سب سے زیا دہ نقصان راشٹریہ لوک دل اور سماج وادی پارٹی کو ہوا۔ سماج وادی پارٹی یو پی میں حکمراں کی حیثیت میں ہے اس لیے اس نے پہلے مسلمانوں کو منانے کا کام کیا اور پھر جاٹوں اور ٹھا کروں کو ہموار کر نے کی پالیسیاں بنائیں۔ فساد متاثرین کو5،5؍لاکھ رو پے دیے گئے۔کیمپوں میں بھی راحت کا سامان فراہم کیا۔کئی مسلم رہنماؤں کو لال بتی دے کر مسلمانوں کے زخموں پر مر ہم رکھنے کی کوشش کی۔ وہیں جاٹوں کو بھی ہموار کرنے کے لیے جاٹ، رہنما ؤں کے قد بڑھا ئے گئے۔ وزیر اعلیٰ اکھلیش یا دو جاٹوں کی امداد کو خود آگے آگے23؍ دسمبر چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے یوم پیدا ئش کے دن تعطیل کا اعلان اور23 کو چو دھری چرن سنگھ کی یاد میں ہونے وا لے جلسے میں وزیر اعلیٰ کی شرکت بھی اسی طرف قدم ہے۔ دوسری طرف راشٹریہ لوک دل نے مظفر نگر فساد کے بعد ہونے والے نقصان کو کم کرنے کی کوشش تیز کردی۔ اجیت سنگھ کئی بڑی میٹنگوں کو خطاب کر چکے ہیں۔جینت چو دھری بھی میدان میں آ کر زیا دہ سر گرم ہو گئے ہیں۔ راشٹریے لوک دل کی پریشا نی یہ تھی کہ ان سے جاٹ بھی ناراض ہو ئے اور مسلم بھی۔ ان کی جیت میں جاٹ مسلم گٹھ جوڑ ہی اہم کردار ادا کرتا تھا۔ پھر سماج وا دی پا رٹی نے چودھری اجیت سنگھ کے قلعے باغپت میں ان کے مخا لف مسلم امید وار(سوال خاص کے ایم ایل اے، غلام محمد) کھڑا کر کے انہیں گھیرنے کی کوشش کی تو اجیت کوئی بڑا داؤ لگانے کی تاک میں تھے اور وہ مرکزی سرکار کو ’’جاٹ ریزرویشن‘‘ کے لیے تیار کر کے یہ داؤ پر کامیابی سے کھیل گئے۔ اب جاٹ ریزرویشن کے اعلان کے بعد، اس کا سیا سی فائدہ اور کریڈٹ لینے کی ہوڑ لگ گئی ہے۔ راشٹریہ لوک دل اسے اپنی بڑی کا میابی مان رہا ہے اور اسے سماج وا دی کو کرارا جواب بھی مان رہا ہے جب کہ کانگریس اسے کیش کرنے میں لگی ہے۔ اسے آئندہ عام انتخابات کی فکر ہے۔ وہ ہر یانہ، اتر پردیش، راجستھان، پنجاب، مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش کے جاٹوں کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی ہے۔ اتر پردیش میں کانگریس گذشتہ20؍ برسوں سے انتہائی خستہ حا لت میں ہے۔ جاٹ ریزرویشن سے وہ مغربی اتر پردیش میں اپنی کھو ئی زمینوں کو دوبارہ پالینا چا ہتی ہے۔
اس کے بر خلاف’’ مسلم ریزرویشن‘‘ کی بات کی جائے تو معاملہ خا صا مختلف نظر آ تا ہے۔ مسلم ریزرویشن کے لیے’جاٹوں‘ کی طرح منظم تحریک کا ہمیشہ فقدان رہا۔اس کی سب سے بڑی وجہ مسلم ریزرویشن پر مسلما نوں کا متحد نہ ہو نا ہے۔ بعض اعلیٰ مسلمانوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو ریزرویشن کی ضرورت نہیں۔ مسلمانوں کا یہی طبقہ اعلیٰ عہدوں اور وزراتوں پر فائز ہے۔ دوسری جانب مسلمانوں میں پسماندہ طبقات، جن کی تعداد خاصی ہے اور جنہیں ریزرویشن کی سخت ضرورت بھی ہے،لیکن یہ طبقہ سیا سی ،سماجی، معا شی اور تعلیمی اعتبار سے اتنا پسماندہ ہے کہ اپنے حقوق کی لڑا ئی کو منظم طریقے سے لڑ سکیں۔ یہی باعث ہے کہ آج تک مسلم ریزرویشن کی حمایت میں کوئی بڑی تحریک، جلسہ یاجلوس منعقد نہیں ہو سکا۔ قومی سطح کی بات تو در کنار، صو بائی اور علا قائی سطحوں پر بھی مسلم ریزرویشن کے لیے کوئی یاد گار تحریک سامنے نہیں آ ئی۔ اس کے با وجود مسلم ووٹوں کی خاطر قو می اور علا قائی سیا سی جما عتوں نے’’ مسلم ریزرویشن‘‘ کا شوشہ چھو ڑا۔ مرکزی سرکار متعدد بار یہ موضوع اٹھا تی رہی ہے۔ اتر پردیش میں سماج وا دی پارٹی نے2012ء کے اسمبلی انتخا بات کے وقت مسلم ریزرویشن کا وعدہ کیا تھا۔ سر کار بنانے کے بعد اب تک اس موضوع پر کوئی کام نہیں کیا۔ ہاں بہلا وے کے لیے سر کار نے ریاستی محکموں میں سے20 محکموں میں مسلمانوں کو چھوٹ دیے جانے کا منصوبہ بنایا، اعلان کیا ۔لیکن بات اعلان سے آگے نہیں بڑھی۔
اب ’’جاٹ ریزرویشن‘‘ کے اعلان کے بعد مسلم ریزرویشن اور گو جرریزرویشن کی مانگ بھی مضبوطی سے سامنے آنے کی امید ہے۔باقی آگے آگے دیکھنا ہو گا کہ آیا’’ جاٹ ریزرویشن‘‘ عمل میں آ پا تا ہے یا نہیں اور اب اسی کے سہارے سماج میں نئی توا نائی کی امیدیں زندہ رہیں گی۔ مسلم ریزرویشن کا خواب بھی شا ید نئی انگڑا ئی لے کر بے دار ہو جائے
آ گے آگے دیکھئے ہو تا ہے کیا
***
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.