الإثنين, 13 تشرين1/أكتوير 2014 08:02

کون فرقہ پرست ہے ا ور کون سیکو لر۔۔۔۔؟ : ممتاز شارق

Rate this item
(0 votes)

  کون فرقہ پرست ہے ا ور کون سیکو لر۔۔۔۔؟


  تحریر : ممتاز شارق ، جمشیدپور

 

                            عام طور پر ہندوستان میں دو طرح کی سیاسی تنظمیں پائی جاتی ہیں۔کچھ ایسی ہیں جو فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول پیدا کرکے سیاسی مفاد کی حصولیابی میں لگی ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ اپنے عروج سے بھی آگے نکل چکا ہے۔دوسری طرف بہت ساری ایسی جماعتیں بھی ہیں جو خود کو سیکولر کہتی ہیں۔جسکا مطلب ان کے کہنے کے مطابق مذہب،ذات،برادری،علاقائیت سے اُپر اُٹھ کر صرف اور صرف ملک کی سا لمیت کے لئے کام کرنا مقصد ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقتاایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔کیوں کہ گذشتہ ساٹھ برسوں سے اکثر انتخابات میں مخصوص مذہبی طبقہ کو اولیّت دیتے ہوئے، ذات،برادری، اہل ثروت اور علاقائیت کو نظر میں رکھ کر ہی ٹکٹ تقسیم کی جاتی ہے۔
                          دوسری طرف انہیں خودساختہ سیکولر جماعتوں سے ہی نکل کرکچھ لوگ فرقہ پرست جماعتوں میں نظر آرہے ہیں۔ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ مذہبی فرقہ پرست سیاسی جماعت میں اسمبلی یا پارلیمانی انتخابی ٹکٹ نہیں ملنے یا حسب خواہش عہدہ نہیں ملنے پر وہاں سے واپس آکر پھر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے خود کو سیکولر کہنے لگتے ہیں۔سیکولر یا مذہبی فرقہ پرست ہونے یا نا ہونے کا فرق بہت ہی معمولی سا ہے جسکا تعلق براہ راست مسلمانوں سے ہے۔ جو اکشر نظر بھی نہیں آتا۔ملک کی سب سے بڑی سیکولر سیاسی پارٹی کے گذشتہ ساٹھ برسوں سے زائدعرصے کے طویل طرز عمل کو دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ صرف انتخابات جیتنے تک خود کو سیکولر دیکھاتی ہے اوراقتدار کے اعلی منصب پر فائز ہوتے ہی اسکیتمام تر فیصلے سیکولر کے خلاف اور باخصوص مسلم طبقہ کے لئے نقصان دہ ہی ثابت ہوئے ہیں۔مسلمان انکے دور اقتدار میں پستی کی عمیق گہرائی میں جاگرے جس کا جیتا جاگتا اقرارنامہ سچر کمیٹی کی رپورٹ ہے۔دراصل خود کو سیکولر کہنے والی پارٹی میں وہی چہرے ہیں جو کسی مجبوری کے سبب فرقہ پرست تنظیم کاحصہّ نہیں بن سکتے۔مگر نظر یاتی طور پر پس پر دہ سبھی فرقہ پرست تنظیموں کے حامی ہیں۔جس کا ثبوت حالیہ پارلیامانی انتخات میں کامیابی ہے۔اس کامیابی کے سہرے کا صحیح حقدار یہ خودساختہ سیکولر تنظیمیں ہیں۔ جسکی اندرونی نا اتفاقی اور ناہلی نے فرقہ پرست تنظیموں کو اگے بڑھنے کا موقع دیا۔
                          اگر ایک سخت گیر ہندو تنظیم صبح و شام صرف ہندو،ہندو راشٹر اور ہندو کہتا نظر آئے تو اُسے ہم بے جھجھک فرقہ پرست کہتے ہیں۔ سیکولر کہلانے والی تنظیم کے ذریعہ کوئی ایک بھی ایسا کام نہیں کیا گیا ہو جس سے مسلم طبقہ کو عملی طور پر کچھ راحت ملی ہو یا مسلمانوں کے جائز حقوق کی حصولیابی ہوئی ہو۔خود کو سیکولر کہنے والی سیاسی تنظیمیں صرف وعدوں کی بیساکھی سے مسلمانوں کو گھسیٹنے کا کام کر رہی ہیں۔صرف اقلیت،مسلمان اور مسلمان کی ما لا جپنے والی خود ساختہ سیکولر تنظیموں میں اور دیگر مذہبی فرقہ پرست تنظیموں میں کیا فرق ہے؟ اس طرح کی دونوں جماعتوں سے ملک کی امن و شانتی اور بھائی چارے کو شدید خطرہ لاحق ہے۔خود کو سیکولر کہنے والی بے عمل تنظیموں سے اس ملک کے مسلمانوں اور بھی زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ عملی طور پر یہی لوگ فرقہ پرست تنظیموں کے الہئ کار بنتے ہیں۔
                        جمشیدپور میں ایک سیاسی جماعت کے اقلیتی کمیٹی سے تعلق رکھنے والے ناکام سیاسی رہنما جس کا ایک پیر ہندوستان میں تو دوسرا پیر غیرملک میں رہتا ہے۔جسکے بچّے یورپ میں جا بسے ہیں۔وہ خود کس ملک کے شہری ہیں پتہ نہیں؟الیکشن کازمانہ آتے ہی ملک کی یاد ستاتی ہے اور واپس آکر پھر وہی اقلیت اور مسلمان کی سیاست کرتے نظر آتے ہیں۔جس سے مسلمانوں کو کئی فائدہ تو نہیں پہنچتا، ہاں نْقصان تو ضرور ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے اس طرح کے مسلم سیاسی رہنما دراصل ببول کے کانٹے دار جھاڑیوں سے زیادہ اور کچھ نہیں، جس سے ان کے پاس پروس‘محلہ ‘علاقے اور بستی کے لوگوں کی مصیبتوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ان سے دوسروں کے مسائل کا سدباب ممکن نہیں اور ساتھ ہی ملک کی سا لمیت اور آپسی اتحادکو شدیدخطرہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسطرح کے لوگوں کے لئے کسی بھی سیاسی جماعت کے مین اسٹریم میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس لئے اپنا روپیہ خرچ کرکے اقلیتی مورچہ، اقیلتی کمیٹی یا اقلیتی سیل جیسے شعبہ میں رہنے پر مجبور ہیں تاکہ انکا کاروبار، انکی فیکٹریاں چلتی رہیں۔مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے ٹھیکہ سے ہی انکی سیاسی زندگی کی سانسیں قائم ود ائم ہیں۔حالیہ دنوں اس طرح کے ایک خود ساختہ اقیلتی رہنما نے تمام تر فرقہ پرستی کے حد کو پار کرتے ہوئے اپنے گھر پر صرف اور صرف مسلم صحافیوں کو قوم وملّت کے حالات پر آنسو بہانے کے لئے مدعو کیا۔اگر وہ ذی شعورسیاستدانوں میں شمار ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ صحافی صرف صحافی ہوتا ہے وہ کسی مذہب کا نمائندہ نہیں بلکہ وہ سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔
اگرچہ سماج کے دوسرے شعبہ کے ساتھ ساتھ صحافت کے میدان میں بھی کہیں نہ کہیں جوکچھ آلودگی نظر آتی ہے اسکے ذمہ دار بھی کچھ با رسوخ دولت مند سیاست داں ہی ہیں۔ اس کے باوجود مجموعی طور پر موجودہ ملکی سطح پرصحافت کی دیانتداری، ذمہ داری اور غیر جانبداری کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔جسکا فوری رد عمل یہ ہوا کہ تمام الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے اُردو اور ہندی کے مسلم صحافیوں، فوٹوگرافروں اور نامہ نگاروں نے اُنکے پروگرام کا خاموشی سے بائیکاب کیا سوائے دو مسلم رپورٹر کے(جو صرف لذیذ پکوان کے لئے گئے تھے، جیسا کہ انکی رپورٹ میں اس کا ذکر ہے)۔
                    افسوس ہیمسلم سیاسی رہنماؤں کی سوچ کا ہے۔خود کو مسلم کہتے ہیں اور ذہنمشرکانہ ۔ غیروں کی طرح انہیں بھی مسلمانوں سے عملی طور پر کوئی ہمدردی نہیں، ’ہندو مسلم اتحاد‘ سیقطعا کوئی دلچسپینہیں۔ کیوں کہ ”ہندو مسلم اتحاد“سے تو دونوں طرح کی سیاسی بازی گری ختم ہوجائے گی۔ فرقہ پرست سیاست اور نام نہاد سیکولر سیاست کیبساط ہی بکھر کر رہ جائے گی۔ اسلئے ہندو مسلم یکجہتی کے حقیقی علمبرداروں کو فرقہ پرست طاقتوں کے ساتھ ساتھ نام نہاد سیکولر اور اقلیت کی سیاست کرنے والوں پر سخت نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔٭٭٭


عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.

Read 2470 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com