السبت, 05 أيار 2018 20:25

تخلیقی تنقید کی نئی بولیاں : سلمان عبد الصمد

Rate this item
(0 votes)

 

● تخلیقی تنقید کی نئی بولیاں !

■ سلمان عبد الصمد

○ آزاد الفاظ بولتے ہیں اور اس طرح بولتے ہیں کہ تقریر وتحریر کی دیواریں ایک دوسرے سے گلے ملتی دکھائ دیتی ہیں۔ تخلیق و تنقید کی سرحدیں مدغم ہوجا تی ہیں۔ خورشید حیات کے یہاں بھی ا لفاظ بولتے ہیں ۔ تخلیق وتنقید کی سرحدیں مل جاتی ہیں۔ حالانکہ الفاظ ان کے ہاتھوں میں محبوس ہیں۔ حبس کے ماحول میں زبانیں تو گونگ ہوجاتی ہیں۔فکری سوتے خشک ہوجاتے ہیں ، مگر ان کے یہاں محبوس لفظوں میں قوتِ گویائی کیوں باقی رہتی ہے؟ اس سوال و تضاد پر شاید خود خورشید حیات بھی حیرت کناں ہیں۔ اس لیے پوچھتے ہیں ’لفظ تم بولتے کیوں ہو؟‘۔ ’تجسیمِ لفظ ‘ کے پنڈتوں نے بتایا ہے کہ جو ش ملیح آبادی کے سا منے الفاظ ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے تھے اور ان کی فکر کی غلامی لفظوں کے لیے باعث افتخار تھی۔جوش کے شاعرانہ پیکر اور نثری ساخت میں قید ہو کر بھی الفاظ بولتے تھے،خورشید حیات کے یہاں بھی الفاظ اسی حدتک غلام ہیں کہ بولنے کی آزادی سلب نہیں ہوئی۔ خورشید کے یہاں لفظوں کو حیاتِ نو کا جام ملتا ہے اوریہ الفاظ ابولکلا م کے ہم کلام ہوجاتے ہیں کہ قید ہیں تو کیا ہوا ، یہاں بھی تو روشنی کی بارش ہوتی ہے ۔ ہم بولتے ہیں اور سوچتے ہیں ۔ خورشید حیات کے تنقید ی مضامین میں تخلیقی ابال، غنائیت ونغمگی کا احساس بسا ہوا ہے۔ یہی احساس ہمیں ان کے افسانوں تک پہنچا دیتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ خورشید کی تنقید خود ان کی تخلیقات کو پڑھنے پر بھی ابھارتی ہے۔ امید ہے کہ ان کے تنقیدی مضامین پڑھنے والوں کو ان کے افسانوں کی جستجو بھی رہے گی۔یہاں اس پہلو کی جانب اشارہ بھی شاید مناسب ہوگا کہ تخلیقات کی تنقید میں،دیگرخالص ناقدوں سے بیش تر تخلیق کار ناقدین بہتر تنقیدی فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔تاہم ہماراعجیب المیہ ہے کہ اب تک تنقید وتخلیق کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کا کوئی عام رجحان نہیں ہے۔تخلیق وتنقید کی اوّلیت کے لیے مناقشے تو ہوئے،تاہم ان کے درمیان قربت پیدا کرنے کی کوئی سنجیدہ مہم نہ چلی۔ یہی وجہ ہے کہ لا تعداد نرے ناقدین شور وغوغا کرتے ہیں کہ تخلیقی اعتبار سے ہم قلاش ہیں۔ افلاس کے شکار ہیں۔ دوسری جانب تخلیق کار چہ بہ جبیں ہیں کہ ناقدین کے اندر تخلیقی فہم نہیں۔ اِس کش مکش سے نجات پانے کے لیے تنقید ی فراست اور تخلیقی مزاولت کے مہم جوؤں کو بہ نظرِتحسین دیکھنا ضروری ہے، تاکہ تنقیدی چنبیلی اور تخلیقی یاسمین سے ادبِ اردو معطر ہوجائے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہم ’لفظ تم بولتے کیوں ہو‘کے ہر لفظ سے اتفاق کریں اور یہ کہہ دیں کہ ’تخلیقی تنقید‘تنقید کا ایک نیا مکتب فکر ہے۔کیوں کہ اس کتاب میں نہ صرف تخلیق کو پرکھنے اور اس پر تلازمے کا نیا رویہ سامنے آتا ہے ، بلکہ لفظوں کے ساختیاتی نظام میں بھی تبدُّل کی کیفیت پائی جاتی ہے،اس لیے تخلیقی تنقید کے اس مکتبہ فکر کو ساختیات واسلوبیات سے گفت وشنید کرنا ابھی باقی ہے۔ البتہ خورشید حیات کی یہ کتاب دو وجوہ بھی باعث کشش ہے۔ اول ، یہ کہ وہ تخلیق کار ہیں ۔ دوم ، فقط تنقید نگار ہی نہیں تخلیقی ناقد ہیں۔ خورشید حیات کی تنقید میں پائے جانے والے تخلیقی رویوں سے اتنی بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی راہ کے تن تنہا مسافر ہیں۔ کیوں کہ تجزیہ وتنقید کا منطقی انداز بدلا ہوا ہے ۔ وہ مکالماتی اور ڈرامائی ا نداز بدرجۂ اتم موجود ہے ، جو مسلمہ طور پر تخلیق کاہے، مگرا نھوں نے تنقید کو بھی ڈرامائی حسیت اوراندازِ تخاطب سے مالا مالا کیا ہے۔اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خورشید حیات کی تخلیقی تنقید سے ، تخلیق آشنا ذہن اور تخلیق آشنا قاری ہی مکمل طور پرلذت یاب ہوں گے ۔ کیوں کہ ان کی تشبیہات واستعارات کی خوشبووں سے ایسے ہی قارئین کے مشامِ جان معطر ہو ں گے۔ ساتھ ہی ، ا ن کے لیے اور بھی زیادہ باعث کشش ہے ، جن کا ذہن دیسی لفظ آشنا ہو ۔ ’لفظ تم بولتے کیوں ہو؟‘میں تنقید کا رویہ مکمل طو ر یکساں نہیں ہے۔ جس طرح تخلیق کار کے مختلف شیڈس ہوتے ہیں اور مختلف رنگ آمیزیاں ہوتی ہیں ، اسی طرح خورشید کے یہاں بھی تنقید اپنا رنگ بدلتی ہے۔ انھوں نے 352 صفحات پر مشتمل اپنی اس کتاب کو بنیادی طور پر تین زمروں میں منقسم کیا ہے ؛ تعبیر ، تفہیم اور تکلیم۔ ان تینوں زمروں پر نگاہ ڈالنے سے یہ بات پایۂ وثوق تک پہنچتی ہے کہ ان کا تنقیدی رنگ، رنگیلا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے تجزیے کے دوران کسی مضمون میں کسی فن کی ارتقائی جھلکیاں سامنے رکھی ہیں، جیسے ناول: روحانیت سے رومانیت تک ۔ کسی میں تعارفی رنگ بھی ابھارا ہے ، جیسے قصہ اردو ناول کے درویش کا ۔ کبھی ڈرامائی اندازِ تخاطب پر توجہ مبذول کی ، جیسے" صندلی کہانی کشتی پر سوار :شائستہ فاخری" ۔ الغرض خورشید حیات کی تنقید ، تخلیق گزیدہ متعدد رنگوں کی عکاس ہے اور اِن رنگوں میں چار رنگ انتہائی چوکھا ہے؛تخلیق اُبال ، غنائیت ونغمگی کا اظہار ، مکالمے و ڈرامے کا احساس اور دیسی لفظوں کی مٹھاس ۔

■ سلمان عبد الصمد

■ رابطہ :نمبر9810318692

Read 1181 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com