پروفیسر اسلم جمشید پوری
میرٹھ
نئے سال 2020ء کا استقبال
2019ء کے اُردو زبا ن و ادب کا سرسری جائزہ
زمانہ ایک قدم اور آگے بڑھ گیا ہے۔ 2020ء دبے قدموں آگیاہے۔ 2019ء تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، مگر جاتے جاتے اپنے بہت سے نشانات نقش کر گیا ہے۔ نئے سال کا استقبال کرتے ہوئے گذشتہ سال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اُردو ادب کے تعلق سے یہ سال خاصا یاد گار رہا ہے۔ اسی سال پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں اُردو کو غیر ملکی زبان کے خانے میں رکھا گیا جس پر خاصا ہنگامہ بپاہوا تو بعد میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس غلطی کی اصلاح کی۔ اسی سال دہلی کورٹ نے محکمہ ئ پولس کو اردو فارسی کے مختلف الفاظ استعمال نہ کرنے کا حکم جاری کیا۔ جس کے خلاف اردو والوں میں خاموشی چھائی رہی اور تا ہنوزیہ حکم کا لعدم نہیں ہوا۔ اتر پردیش اردو اکادمی کی ایوارڈ کمیٹی کے اُس فیصلے کی خاصی مخالفت ہوئی، جس میں انعامات کمیٹی کے چیئر مین اور دو ممبران کو بھی انعامات کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ نہ صرف اتر پردیش بلکہ ہندگیر سطح پر اس فیصلے کی کافی مذمت ہوئی اور اتر پردیش حکومت نے فیصلے پر روک لگادی۔ جو آج تک لگی ہوئی ہے۔
2019ء اس لیے بھی یادگار ہے کہ اس سال کئی نئے رسالے منظر عام پر آئے۔ اتر پردیش اردو اکادمی نے بچوں کے لیے ایک بے حد دیدہ زیب ماہانہ رسالہ ”باغیچہ“ جاری کیا۔ اس کا پہلا شمارہ جنوری 2019ء میں منظر عام پر آیا، اور اس کا اجراء 12/ فروری 2019ء کو اتر پردیش اردو اکادمی کی چیر پرسن پروفیسر آصفہ زمانی، سکریڑی سید رضوان، مدیر اعزازی ڈاکٹر شمیم احمد صدیقی، مخمورکاکوری وغیرہ کے ہاتھوں اکادمی کے آڈیٹوریم میں ہوا۔ رسالے کی خوبی یہ ہے کہ یہ ملٹی کلر اور دبیز چکنے کاغذ پر 60 صفحات میں پھیلا ہوا ہے۔ مضامین، کہانیاں، منطومات کے علاوہ سائنس، طب، ماحولیات، لذید پکوان۔ دنیا جہاں (سیر سپاٹا) کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذ ہنی ورزش کے لیے کئی سلسلے بھی ہیں۔ سب سے آخرمیں پورے شمارے میں استعمال ہونے والے بعض ثقیل الفاظ کے معنی درج ہیں۔ بہت دنوں بعد اردو میں ایک بہت کار آمد رسالہ بچوں کے لیے منظر عام پر آیا ہے۔ رسالے کو تیار کرنے کی ذمہ داری خصوصی طور پر ڈاکٹر شمیم احمد صدیقی کے سپرد کی گئی ہے۔ جو خود بچوں کے اچھے ادیب ہیں۔رسالے کی اشاعت تسلسل اور وقت کی پابندی کے ساتھ جاری ہے۔
پٹنہ سے واہی اکیڈمی نے ایک بامقصد اور خوبصورت ماہانہ رسالے ”سفیرادب“ کی اشاعت اگست 2019ء سے شروع کی ہے۔ دراصل یہ اکیڈمی معروف مزاحیہ و طنز یہ شاعر رضا نقوی واہی کی یاد میں قائم ہے۔ جس کے صدر رضا نقوی واہی کے صاحبزادے عابد نقوی ہیں۔ عابد صاحب رسالے کے مدیر اعلیٰ بھی ہیں۔ رضا نقوی واہی کے دوست، افسانہ نگار، صحافی ڈاکٹر شاہد جمیل رسالے کے مدیر ہیں۔ رسالہ اب تک ماہانہ پابندی سے شائع ہو رہا ہے اور اپنی منفرد شناخت قائم کر رہا ہے۔ رسالہ گلیز پیپر پر خوبصورتی سے شائع ہوتاہے۔ تحقیقی و تنقیدی مضامین، افسانے، شاعری، تبصرے کے ساتھ ساتھ ہر شمارے میں ”خزائن ادب“ کے تحت مشاہیر کی تخلیقات شائع ہوتی ہیں ”ثمرِ کوہ کنی“ کے تحت تحقیقی مقالات شائع کیے جاتے ہیں۔
ممبئی سے نیوز ٹاؤن پبلشر کے زیراہتمام ایک سہ ماہی رسالہ ”ادب گاؤں“ کا پہلا شمارہ (اپریل تا جون 2019ء)شائع ہوا ہے۔ ڈاکٹر عبدالباری ایم کے، کی ادارت اور اشتیاق سعید کی ترتیب و تہذیب میں ادب گاؤں نے بہت جلد مقبولیت حاصل کی ہے۔رسالے کا عنوان اور گاؤں سے متعلق تخلیقات کے سبب رسالہ اردو والوں میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہے۔ رسالے نے برسوں سے چلے آرہے مفروضے، کو بھی ختم کیا ہے کہ رسائل میں صرف نئی تخلیقات ہی شائع ہوتی ہیں۔ رسالے کے پہلے ہی شمارے کے اداریے میں یہ جملے ”ادب گاؤں،میں غیر مطبوعہ تخلیقات کا قطعی گذر نہیں۔ اس میں صرف مطبوعہ چیز یں ہی شائع ہوں گی۔“ شائع ہوئے تو پوری اردو دنیا میں حیرانی کے سلسلے قائم ہوگئے۔ یہ سچ بھی ہے کہ ’ادب گاؤں‘نے مطبوعہ، معیاری تخلیقات کو دوبارہ اس طرح شائع کیا ہے کہ جواب نہیں۔ رسالہ خوب پڑھا جا رہا ہے۔ اب تک رسالے کے تین شمارے اپنی وقت پر منظر عام پر آچکے ہیں۔
جب سے یوجی سی کے ذریعہ API کا فرمان جاری ہوا۔ اردو میں یونیورسٹی، کالجز کے علاوہ متعدد سہ ماہی رسائل شائع ہونے لگے ہیں۔ ان میں زیادہ تر اساتذہ اور نوجوان اسکالرز کے تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک بامقصد تحقیقی پئیر ریویوڈ اُردو جرنل ”سہ ماہی ساغرِ ادب“ مظفر پورسے ڈاکٹر سید آل ظفر کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا ہے جس پہلا شمارہ اپریل تاجون 2019 کی شکل میں شائع ہواہے۔ رسالے میں اساتذاہ اور اسکالرز کے علاوہ ریسرچ اسکالرز کے مقالات بھی خاصی تعداد میں شامل ہیں۔ ایک بہت ہی کار آمد رسالہ جو اب تک تسلسل اور پابندی سے شائع ہورہا ہے۔
جلگاؤں، مہاراشٹر سے سہ ماہی رسالہ ”صحیفہئ محبت“ کا اجراء بھی عمل میں آیا۔ اس کا پہلا شمارہ اپریل تاجون2019ء ہے۔ اس کے مدیر معروف شاعر ہارون عثمانی اور معاون مدیر جاوید انصاری ہیں۔ یہ ایک عام رسالہ ہے۔ ابھی تک اس کے دو شمارے اتہائی پابندی سے شائع ہوئے ہیں۔ اس برس انعامات کا سلسلہ بھی پورے زور شور سے جاری رہا۔سا ہتیہ
اکادمی، دہلی نے 2019ء میں معروف انگریزی اردو ادیب اور شعبہء ماس کمیونی کیشن، اے ایم یو کے پروفیسر شافع قدوائی کی کتاب ”سوانح سر سید: ایک باز دید“ پر انہیں ساہتیہ اکادمی نے انعام دیے جانے کے لیے منتخب کیا ہے۔اردو کے ادبی حلقوں میں اسکی مخالفت بھی ہو رہی ہے۔دہلی اردو اکادمی نے 2018 کے لیے پروفیسر شارب ردولوی کو کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ اور پروفیسر عتیق اللہ کو پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی ایوارڈ (دونوں کی رقم 2.51 لاکھ روپے) ساتھ ہی پروفیسر وہاج الدین علوی ایوارڈ برائے تحقیقی و تنقید، جناب اظہار عثمانی کو تخلیقی نثر، ڈاکٹر جی آر کنول کو برائے شاعری، جناب شکیل حسن شمسی کو برائے صحافت پروفیسر انیس الرحمن کو برائے ترجمہ نگاری (سبھی کی رقم 1.01 لاکھ روپے) ایوارڈ ز سے نوازا ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ نے غالب یوارڈز 2019 ء کے اعلان میں پروفیسر علیم اللہ حالی کو اردو تحقیقی و تنقید، پروفیسر شہپر رسول کو برائے شاعری، پروفیسر خالد محمود کو برائے اردو نثر، ڈاکٹر نریش کو برائے اردو خدمات، جناب مظفر علی کو برائے اردو ڈراما اور پروفیسر بلقس فاطمہ حسینی کو برائے فارسی تحقیقی و تنقید ایوارڈ (سبھی ایوارڈکے ساتھ 75 ہزار روپے نقد رقم) دینا طے کیا ہے۔ملک کے حالات کے پیشِ نظر غالب انسٹی ٹیوٹ نے اپنا عالمی سیمینار اور جلسہ تقسیم ِ انعاماتملتوی کر دیا۔ اتر پردیش اردو اکادمی نے 2018 کے لیے اپنے اعلان میں معروف فکشن نگار محترمہ ذکیہ مشہدی(پٹنہ) کو مولانا ابولکلام آزادایوارڈبرائے مجموعی ادبی خدمات (5 لاکھ روپے نقد)، ساتھ ہی ایک ایک لاکھ روپے کے ایوارڈ ز میں جناب ظفر اقبال (فتح پور) کو برائے شاعری، جناب غضنفر(علی گڑھ) کو برائے فکشن، جناب الیاس اعظمی(اعظم گڈھ) کو برائے تحقیق، جناب شفیق اشرفی (لکھنؤ)کو برائے تنقید، ڈاکٹرعاکف سنبھلی کو برائے ادب اطفال جناب اطہر نبی کو برائے اردو خدمات، اورڈاکٹر شمیم احمد صدیقی (مدیر اعزازی، باغیچہ) کو سائنس، ترجمہ اور دیگر امور کے لیے، ایوارڈ دینا طے کیا ہے۔ایوارڈز کو حکومت کے حکم نامے کا انتظار ہے۔ کلچرل ڈپارٹمنٹ،حکومتِ مدھیہ پردیش نے گذشتہ برس اپنے تین سال کے ’اقبال سمان‘ کا اعلان کیا۔ یہ ایوارڈز پروفیسر عقیق اللہ، پروفیسر شافع قدوائی اور جناب شمس الرحمن فاروقی کو دیے گئے۔ مہاراشٹرا سٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی نے 2019ء کے لیے مرزا غالب ایوارڈ(قومی سطح پر) پروفیسرشمیم حنفی، ولی دکنی ایوارڈ (ریاستی سطح پر) ڈاکٹر یحییٰ نشیط، نیو ٹیلینٹ ایوارڈ شیخ ا سیداشہر اور عبید حارث کو اور صحافتی انعامات کے لیے مختار عدیل، مسلم کبیر، قمرالایمان اورعقیل خاں کا انتخاب کیا گیا۔بزم صدف بین الاقوامی ایوارڈ 2019ء پروفیسر مظفرحنفی اور بزم صدف نوجوان ادیب ایوارڈ 2019ء ڈاکٹرثروت زہرا (دوبئی) کو دیا گیا۔شعبہء اردو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کی طرف ہرسال دیا جانے ولا ڈاکٹر منظر کاظمی نیشنل فکشن ایوارڈ 2019ء محترم دیپک بُدکی اور ڈاکٹڑ منظر کاظمی نیشنل ایوارڈ برائے فکشن تنقید 2019ء پروفیسر ارتضیٰ کریم کو پیش کیا گیا۔
پورے سال سیمیناروں،کانفرنسوں،ورکشاپس کا دور رہا۔ متعدد قومی اور بین الا قوامی پروگرام منعقد ہوئے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو نئی دہلی کے زیر اہتمام 18 تا20/ مارچ 2019ء چھٹی عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد ہوپ آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔”آج کے عالمی تناظر مین اُردو کا تحفظ و فروغ“ کے موضوع پر منعقد عالم یکانفرنس میں تقریباً ۰۲/ ممالک اور پورے ہندوستان سے مندوبین نے شرکت کی۔ کانفرنس کا کلیدی خطبہ معروف اسکالر ڈاکٹرتقی عابدی (کناڈا)نے پیش کیا۔ خطبہ استقبالیہ کاؤنسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے پیش کیا۔مہمان کے طور پر راشٹریہ مسلم منچ کے صدر محترم اندر یش کمار نے شرکت کی اور اردو زبان کے فروغ کے لیے مرکزی سرکار کے تعاون کا ہمیشہ کی طرح یقین دلایا۔
ورلڈ اردو الیوسی ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام دو روزہ بین الاقوامی سیمینار بعنوان ”اردو فارسی اور عربی میں رزمیہ شاعری: صلح و جنگ کی داستان“ جو اہرلعل نہرو یونیورسٹی میں ۱۳-۰۳/ جنوری 2019ء کو پروفیسر خواجہ اکرام الدین کی چیئرمین شب میں منعقد ہوا۔ ہندوستان کے علاوہ بنگلہ دیش، ماریشش، مصر، ایران، انگلینڈ وغیرہ ممالک کے اسکالزز کی شرکت نے سیمینار کو نیا مقام عطا کیا۔
بچوں کا رسالہ ”گل بوٹے“ ممبئی کے سلور جبلی کے موقع پر دہلی میں ایک چہار روزہ بین الاقوامی کانفرنس۳۲/ تا۶۲/ ستمبر۹۱۰۲ء منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا موضوع ”ادب اِطفال: سمت ورفتار“ تھا کانفرنس کی خوبی یہ تھی کہ دہلی کی تینوں یونیورسٹیز جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور غالب انسٹی ٹیوٹ میں ایک ایک دن سیمینار کا انعقاد عمل میں آیا۔ آزاد ہندوستان میں بچوں کے ادب پر یہ اپنی نوعیت کی منفرد کانفرنس تھی۔اس موقع پر بچوں کے لیے لکھی گئی متعدد مقبول کتب کے نئے ایڈیشن شائع کیے گئے۔ گل بوٹے کے مدیر فاروق سید کی رہنمائی میں تقریباً سو سوا سواردو ادیب و شاعر اور اسکالرز کا ایک قافلہ ممبئی سے دہلی گیا اور ایک بے حد کامیاب کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔
خواتین کی نوزائدہ تنظیم ’بنات‘ دہلی کا ایک یادگاریک روزہ سیمینار حج کمیٹی آف انڈیا ممبئی کے آڈیوؤیم میں ۱۳/ اکتوبر کو بعنوان ”نسائی ادب: سمت و رفتار“ منعقد ہوا۔ سیمینار میں پروفیسررفیعہ شبنم عابدی نے شاندار کلیدی خطبہ، ڈاکٹر نگار عظیم (صدر، بنات)نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ نظامت کی ذمہ داری تسنیم کو ثر(سکریڑی: بنات) نے انجام دی۔
2019ء میں اردو کے متعدد نامور ادیب، شاعر، تنقید نگار ہم سے رخصت ہو گئے۔جن کی جگہ پرہونا بہت مشکل ہے۔اردو زبان وادب کو ان کے جانے سے نا قابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ معروف ترقی پسند ناقد پروفیسر سید عقیل رضوی 20/ دسمبر کو ہم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئے۔ ان کے ساتھ ترقی پسند تحریک کے ایک دور کا خاتمہ ہوا۔ ہندوستان کے معروف شاعرعلقمہ شبلی بھی دار فانی کو الودع کہہ گئے۔ اردو شاعری خصوصاً بنگال کی اردو شعری روایت کا ایک اہم ستون گر گیا۔ مشترکہ تہذیب کے علمبردار اردو فکشن نگار نند کشور وکرم نے 27/ اگست کو آخری سانس لی۔ عالمی اردو ادب کے بانی مدیر نند کشور وکرم نے اردو ادب کا ایک عالمی انتخاب تسلسل کے ساتھ سائع کیا۔ اردو معاشرتی ناول کا معتبر نام معروف ناول نگار افسانہ نگار مسرور جہاں نے بھی22 ستمبرمیں ہم سے منھ موڑ لیا۔اردو نے ایک بے باک،نڈر اور باوقار فکشن نگار کھو دیا۔ سہ ماہی”رنگ“دھنباد کے مدیر، اچھے شاعر شان بھارتی بھی ہمیں روتا چھوڑ گئے۔ پاکستان کے ہر دل عزیز افسانہ نگار،ناول نگار حامدسراج اور ادب لطیف،کی مدیر، صدیقہ بیگم نے بھی دسمبر میں ملک عدم کی راہ لی.۔جدید افسانہ نگار،ناول نگار انور سجاد بھی”خوشیوں کا باغ‘ چھوڑگئے۔انور سجاد کے ساتھ جدید افسانے کا آخری قلعہ بھی مسمارہوا۔
2019ء رخصت ہو چکا ہے۔ ہم نے نئے سال کو خوش آمدید بھی کہہ لیا ہے۔ اب سنجیدگی سے اُردو کے حوالے سے غور و فکر کر نے اور اس سال اردو کے فروغ کے منصوبوں پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ بہت زیادہ نہیں صرف اتنا کر لیں کہ اُردو کے حقوق کی پامالی اور ناانصافی کے خلاف کم از کم ہم آواز ضرور اُٹھائیں۔ ساتھ ہی اپنی اپنی ریاستی حکومتوں کو اُردو کے لیے کچھ منصوبے بنانے اور عمل میں لانے کا دباؤ بنائیں،۔لیکن ان سب سے پہلے ہم خود اردو کا استعمال کریں۔ اخبارات و رسائل خرید کر پڑھیں، اور رسم الخط کی حفاظت یعنی زیادہ سے زیادہ اردو لکھنے کی کو شش کریں۔
۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔
Prof.AslamJamshedpuri
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته./08279907070