واپسی
سالک جمیل براڑ
بی اے،جرنلزم،اولیول،پی جی ڈی سی اے،ایم ایس سی(آئی ٹی)
*شہر بھر کی خاک چھاننے کے بعد رنگی رام کے ہاتھ کچھ نہیں لگاتھا۔اب وہ چند لوہے کے ٹکڑے اور گتے اٹھائے لنگڑاتا ہوا آہستہ آہستہ ہزاری پرشاد کے کباڑ خانے کی طرف بڑھ رہا تھا۔اس کی دائیں ٹانگ میں درد ہو رہا تھا۔وہ بڑی مشکل سے لنگڑا کر چل رہا تھا۔ دوپہر تک کوئی قیمتی چیز ہاتھ نہ لگنے پر رنگی رام چوری کرنے کے لیے ایک گھر میں داخل ہوا تھا۔ لیکن اس گھر میں موجود اکیلی عورت نے اس کی خوب پٹائی کی تھی ۔بے تحاشا مار کھانے بعد وہ بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگا۔رنگی کو بہت چوٹیں لگی تھیں۔ساتھ ہی اس کی دائیں ٹانگ میں بھی بہت گہری چوٹ آئی تھی۔
رنگی کو آج زندگی میں پہلی بار عورت کی طاقت کا احساس ہوا تھا۔ورنہ اس کے لیے عورت ربڑ کی گڑیا کی طرح تھی۔ جسے جب چاہے ،جیسے چاہے توڑا مروڑا جاسکتا تھا۔ اس کی بیوی مالا بالکل اسی طرح کی عورت تھی ۔ جو پچھلے بیس سالوں سے مار کھانے ،گندی گندی گالیاں سننے کے بعد بھی روزانہ رات کو اپنا جسم رنگی کے حوالے کر دیتی تھی۔لیکن آج وہ عورت کایہ روپ دیکھ کر حیران رہ گیاآخر رنگی ،ہزاری پرشاد کے کباڑ خانے تک پہنچ گیا۔اس نے آگے بڑھ کر لوہے کے ٹکڑے ترازو میں رکھ دیئے ۔مختلف قسم کے کباڑ سے بھری دکان میں ایک طرف بیٹھے ہزاری نے بیڑی کاایک لمبا کش لیا اور ادھ جلی بیڑی ہوا میں اچھال دی۔ جو سڑک کے درمیان جاگری۔ لوہے اور گتے کا وزن کرکے ہزاری نے دس کا نوٹ رنگی کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ رنگی ،ہزاری کو اس امید سے تکتارہا کہ شاید اسے اور روپے ملیں گے۔
’’ سالے ........ایسے کیوں گھور رہے ہو...... سات کا لوہا اور تین کا گتا ........چل بھاگ یہاں سے ........‘‘ ہزاری نے رنگی کو اپنے طریقے سے حساب سمجھایا۔
ہزاری کے سوائے کوئی کباڑیا جلدی رنگی کو سے مال نہیں خریدتا تھا ۔اس لیے اس نے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور دس کا نوٹ لے کر تھکے قدموں سے چل دیا۔
رنگی کو شدت سے نشے کی طلب محسوس ہورہی تھی۔اس کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔دس روپے میں اسے افیم ، پوست وغیرہ تو نہیں مل سکتے تھے۔البتہ صرف کیپسول ہی مل سکتے تھے۔وہ وقت ضائع کئے بغیر ایک میڈیکل اسٹور کی طرف بڑھا ۔ کچھ کہے بغیر دس کا نوٹ دکاندارکی طرف بڑھادیا۔دکاندار نے نوٹ پکڑتے ہوئے اردگرد دیکھا اور تیزی سے تین کیپسول رنگی کے ہاتھ پر رکھ دیئے ۔
’’ دس روپے کے تین....... ! ‘‘ رنگی رام نے حیرت سے پوچھا۔
’’د یکھو........بحث مت کرو........بہت سخت چیکنگ چل رہی ہے اگر کوئی بیچتا اور خریدتا ہوا پکڑاگیا تو بڑی سخت سزا ہے جلدی یہاں سے نکلو......اگر نہیں لینے تو پکڑو اپنا نوٹ۔ ‘‘ دکاندار نے دس کا نوٹ رنگی کی طرف بڑھا دیا۔
وہ کیپسول مٹھی میں دباکر چل دیا ۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ اسٹور والے نہ جانے کس کس کی مٹھی گرم کرکے یہ کاروبار چلاتے ہیں۔
تین کیپسول اندر جاتے ہی رنگی کے انگ انگ میں جان آگئی۔ کیپسولوں نے فوری طور پر تو اس کے نشے کی طلب کو پورا کر دیا تھا۔لیکن اسے پتہ تھا کہ یہ نشہ دیر تک اس کاساتھ نہیں دے گا۔ اب اسے اپنی مزید نشے کی طلب کو پورا کرنے کے لیے سوروپے یا کم سے کم پچاس روپے کی ضرورت تھی۔لیکن اب سوال یہ تھا کہ روپے کہاں سے حاصل کئے جائیں۔آج دوپہر ٹانگ میں لگی چوٹ کی وجہ سے وہ چوری کرنے کے قابل نہ تھا۔رات کے دس بجے تک وہ بنسی کی چائے کی دکان پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا گپیں ہانکتا رہا۔ساتھ ہی ساتھ وہ روپیوں کے بارے سوچتا رہا۔ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے موہن داس سے پچاس روپے کی ادھار افیم مانگی ۔لیکن ہمیشہ کی طرح اس نے صاف انکار کردیا۔
رات کے تقریباً گیارہ بج رہے تھے ۔رنگی کا نشہ اترنے لگا تھا۔ اسے مزید نشے کی طلب محسوس ہو نے لگی تھی ۔لیکن اس کی جیب خالی تھی اور نشے کی طلب ابال پر ۔بس اب اس کا گھر ہی اس کے لیے امید کی آخری کرن تھا۔ قسمت آزمائی کے لئے وہ لنگڑاتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔
پورا محلہ اندھیرے اور سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا ۔اس کی بیوی اور بچے آرام سے سکون کی نیند سو رہے تھے۔ رنگی نے دروازے پر دستک دی اور چند لمحوں بعد اس کی بیوی نے دروازہ کھولا اور کوئی بات کئے بغیر واپس چلی گئی ۔
رنگی کا چھوٹا سا خستہ حال گھر دو کمروں پر مشتمل تھا۔ ایک کمرے میں اس کے دو بیٹے اور دوسرے میں بیوی اور تین بیٹیاں سو رہی تھیں کمروں کے آگے چھوٹا سا صحن سا رے گھر کو مکمل کرتا تھا۔رنگی نے کمرے میں ہلکی روشنی کا بلب روشن کیا اور کمرے کی سامنے والی دیوار سے ٹیک لگا کر فرش پر پاؤں پھیلا کر بیٹھ گیا۔ پاس ہی چارپائی پر لیٹی مالا نے کروٹ بدلی اور دوسری طرف منہ کر لیا ۔
مالا کی عمر مشکل سے ۴۵ سال ہوگئی۔لیکن شکل وصورت سے ۶۰ کی لگتی تھی ۔ سر کے بال تقریباً سفید ہوچکے تھے ۔گالوں اور جسم کی ہڈیاں بغیر گوشت کے تھیں ۔مالا کی یہ حالت روزانہ کے لڑائی جھگڑے ،مار پیٹ اور دن رات کی محنت کی وجہ سے ہوئی تھی ۔وہ صبح سے شام تک لوگوں کے گھروں میں جھاڑو پونچھے کا کام کرتی اور دیر رات تک سلائی کا کام کرتی تھی ۔ مالا نے دن رات خون پسینہ ایک کرکے اپنی اولاد کی پرورش کی تھی ۔عام طور پر تو رنگی کوچوری اور ٹھگی کے علاوہ کوئی کام کرتانہیں تھا۔اگر کبھی کبھار کوئی کام کر بھی لیتا تو اپنے لیے ذخیرہ جمع کر لیتا تھا۔مالا کی صحت خراب ہوئی تو اس کے جوانی میں قدم رکھ رہے دو بیٹوں نے گھر کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ۔پچھلے دو ماہ سے رنگی کی سب سے چھوٹی بیٹی بہت بیمار تھی ۔اس کا علاج ایک سماج سیوک تنظیم کررہی تھی۔
رنگی کو اپنے گھر میں کوئی بھی ایسی چیز دکھائی نہیں دے رہی تھی۔جسے وہ بیچ سکتا ۔پچھلے بیس سالوں میں وہ ایک ایک چیز بیچ چکا تھااور پھر مہینے کی آخری تاریخیں چل رہی ہیں۔مالا اور اس کے بیٹوں سے کچھ ملنا ناممکن تھا۔ویسے بھی مالا لوگوں سے ادھار مانگ کر اپنی بیٹی کا علاج کروا رہی تھی۔
اچانک رنگی کو اپنی بیمار بیٹی کی چارپائی کے قریب ایک لفافہ پڑا نظر آیا۔ وہ بڑے احتیاط سے بغیر آہٹ کئے اٹھااور آہستہ آہستہ، مالا کی چارپائی کی طرف بڑھا ۔ جھک کر دیکھا کہ مالا سو رہی تھی۔رنگی نے سکھ کی سانس لی اور اسی طرح خاموشی سے وہ اپنی بیمار بیٹی کی چارپائی کی طرف بڑھااور لفافہ اٹھالیا۔کھولا تو اس میں کئی قسم کی گولیوں،کیپسولوں کے پتے اور مختلف قسم کی دوایؤں کی شیشیاں تھیں۔جیسے ہی وہ لفافہ اٹھا کرپیچھے مڑا،اس نے مالاکو اپنے آگے کھڑا پایا۔
بی اے،جرنلزم،اولیول،پی جی ڈی سی اے،ایم ایس سی(آئی ٹی)
Add: Salik Jamil Brar
W-14/594,Hazrat Sheikh Road,Maler,Malerkotla-148023(Punjab)
Ph.no:01675-264467,M:092560-33695