الثلاثاء, 30 نيسان/أبريل 2013 16:13

دن کے اندھیرے ،رات کے اجالے : ڈاکٹر اسلم جمشید پوری Featured

Rate this item
(0 votes)

 افسانہ

 ڈاکٹر اسلم جمشید پوری 
 میرٹھ

 دن کے اندھیرے ،رات کے اجالے



   میں قبرستان ہوں۔ آپ مجھے ضرور جانتے پہچانتے ہوں گے۔ کبھی نہ کبھی آپ ضرور یہاں آئے ہوں گے۔ آپ کسی جنازے کے ساتھ میرے احاطے میں آئے ہوں گے، شب برات میں تو ضرور کسی قبر پر فاتحہ پڑھنے یا چراغاں کرنے آئے ہوں گے ۔ میری ویرانی کو دیکھ کر آپ کو ڈر بھی لگا ہوگا۔ موت یاد آئی ہوگی۔ آپ نے گناہوں سے توبہ کے لئے استغفار کیا ہوگا۔ لیکن مجھے پتہ ہے کہ مجھ سے دور ہونے پر آپ نے ساری قسمیں اور وعدے، توڑ ڈالے ہوں گے۔ کوئی بات نہیں، یہ دنیا اور زندگی تو عمل کی جگہ ہے۔ آپ جیسا عمل کریں گے، بعد میں ویسا ہی اجر پائیں گے۔ ایک راز کی بات بتاؤں۔ غور سے سننا۔ اچھا پہلے میں اپنا تفصیلی تعارف کرادوں۔ میں بلند شہر کے گاؤں دھنورا کا قبرستان ہوں۔ میری عمر یہی کوئی ۴۰۰؍ سال ہوگی۔ ابھی کم عمری ہی میں، میرا سینہ فخر سے بلند ہے کہ میرے سینے میں ہزاروں راز دفن ہیں۔ میں گاؤں کے مغربی کنارے پر آباد ہوں۔ ویسے تو میرا سینہ اندرونی طو پرمسلمانوں سے آباد ہے لیکن باہری سطح پر مسلم اور غیر مسلم دونوں نے میری ظاہری ویرانی کو کم کر رکھا ہے۔ صدیوں سے گاؤں کے لوگ میرے سینے پر مونگ دلتے۔۔۔ نہ۔۔۔نا ۔۔۔میری زبان پھسل گئی، گاؤں کے لوگ اپنے روز مرہ کے کام کاج کرتے آرہے ہیں۔ میں انہیں کھیلتا کودتا دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہوں کہ چلو کچھ دن کھیل لو، پھر تو میرے سینے میں ہی ہمیشگی کی زندگی گذارنی ہے۔ 
ہاں تو، لو آج میں تمھیں اپنی داستان سناتا ہوں۔ غور سے سنو! کوئی درمیان میں نہیں بولے گا۔ جب تک میں خود ہی آپ کو مخاطب نہ کروں۔
سبھی خاموش ہو گئے۔ زمین، آسمان۔ ہوائیں گھٹائیں، چرند، پرند، انسان ۔۔۔سب خاموش اور ہمہ تن گوش ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یو دوال میری لاش پر بنے گی۔‘‘
عزیز بھائی کی آواز پر پورا مجمع چونک کر انھیں دیکھنے لگا تھا۔ وہ غصہ سے آگ ببولا، اپنی دھوتی کو گھٹنے سے اوپر کئے۔ دیوار کی کھدی ہوئی بنیاد میں کھڑے تھے۔ ان کے تیور اور بزرگی کو دیکھتے ہوئے ،بابوجی نے بھیڑ کو روکا، پھر پیچھے گھوم کر دیوار بنارہے مزدوروں سے بولے۔
’’بھئی کام روک لو۔ذرا دیر سانس لے لو۔‘‘
کام رک گیا تھا۔ سب حیرانی سے بنیاد کی نالی میں کھڑے عزیز بھائی کو دیکھ رہے تھے۔ دراصل دھنورا کے قبرستان کی چہار دیواری کا کام چل رہا تھا۔ زمانے سے قبرستان کی اراضی یوں ہی پڑی تھی۔ ایک کونے میں قبریں بنائی جا؂تیں، برسوں بعد دوسرے کونے کی باری آتی۔ قبرستان کی زمین دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ قبریں بہت کم تھیں۔ زیادہ تر قبریں کچی مٹی کی تھیں اسی لئے جلد برابر ہوجاتی تھیں۔ قبرستان میں صرف ایک پختہ قبر تھی۔ یہ گاؤں کے منشی سجادحسین کی قبر تھی۔ سنا ہے کہ بہت پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ پاس کے قصبہ کے اسکول میں مدرس تھے۔ بڑے نیک دل اور خدا ترس انسان تھے۔ بے شمار شاگردوں کو پڑھالکھا کر زندگی گذارنے کے لائق بنا دیا۔ ان کی قبر کے چاروں طرف نو؍ انچ کی اینٹوں کی دیوار تھی اور ایک طرف لوہے کا گیٹ لگا تھا۔ اندر بیلا کے پیڑ تھے۔جن پر بارہ مہینے سفید پھول کھلا کرتے تھے۔ لوگ صبح صبح قبرستان آتے تو منشی جی کی قبر سے پھول ضرور لے کر جاتے۔ قبرستان، دھنوراکے لوگوں کے دلوں کی طرح کشادہ تھا۔ قبرستان میں لوگوں نے اپنے اپنے بونگے، بٹورے، کوڑیاں بنا رکھی تھیں قبرستان مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے بھی استعمال میں آتا تھا۔ بیساکھ آتا تو گیہوں کی پولیوں کے انبار قبرستان میں ہر طرف دکھائی دیتے۔ کیا ہندو، کیا مسلمان۔ سب کے لانک(فصل کے انبار) قبرستان میں رکھے جاتے۔ پہلے تو بیلوں سے لانک سے گیہوں نکلوانے کا کام کیا جاتا تھا۔ کئی کئی دن کی دائیں(بیلوں کے ذریعہ اناج نکالنے کا عمل) کے بعد بیلوں کے پیروں سے گیہوں کی سوکھی پولیوں کا چورا ہوجاتا تھا پھر اسے تیز ہوا کے رخ پر برساکر بھس اور گیہوں کو الگ کیا جاتا ۔ قبرستان کے پورب میں گاؤں کے گڈریے رہتے تھے، اتر کی طرف دگڑا (کچا راستہ) اور اس کے بعد مسلمان لوہار، بڑھیوں کے مکان تھے۔ دکھن کی طرف گوجروں کے کھیت تھے۔ جبکہ پچھم کی طرف گسائیوں آباد تھے۔ صدیوں سے قبرستان گاؤں کی خوشحالی کا ذریعہ بنا ہوا تھا۔ کسی کی موت ہوتی تو ضرور غم کا ماحول چھا جاتا۔ خود ہی قبر کھودتے اور مردے دفناتے۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ لیکن خدا سیاست دانوں کو غارت کرے۔ فرقہ پرستی کا ایسا زہر گھولا کہ نفرتوں کی فصل ہر طرف لہلہانے لگی۔ صدیوں سے آپسی میل جول سے رہتے آرہے گاؤں کے سیدھے سچے لوگوں میں بھی نفرت ، خوف ڈر، دہشت، مذہبی جنون اور فرقہ پرستی کے سنپولیے پلنے لگے۔
’’بابوجی اب کیا ہوئے گو؟‘‘
کنور پال نے بابوجی کو آواز لگائی تو وہ خیالات کے دھندلکے سے باہر آئے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے عزیز بھائی کی طرف بڑھے۔ ان کے پیچھے پیچھے چاچا ملکھان، سری گر چاچا، رام چندرکے علاوہ دس بارہ ہٹے کٹے نوجوان لاٹھی بلم لیے ساتھ ہو لیے۔ رام چندر نے لاٹھی کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے بڑے غصے سے کہا۔
’’بابو جی۔ آپ اک اور کو ہوجاؤ۔ میں ابھی گرا دن گو،یا کی لاش۔۔۔۔۔۔دوا ل تو بن کر رے گی۔‘‘
ایک ہاتھ سے رام پال کی لاٹھی پکڑتے ہوئے بابوجی نے رام پال کو ڈانٹا۔
’’پاگل نہ بنو۔ خون خرابے سے کوئی فائدہ نہیں۔ ‘‘پھر وہ عزیز بھائی سے مخاطب ہوئے۔
’’ہاں بھئی کیا بات ہے؟ جب تمہیں سمجھا دیا تھا تو پھر کیا آفت آ گئی۔ دیکھو یہ قبرستان کا کام ہے۔ ثواب کے بدلے میں گناہ نہ کما۔‘‘
عزیز بھائی اب بھی بنیاد کی نالی میں کھڑے تھے۔
’’پہلے میری کوڑی کو کوئی انتجام کرو۔ جب بنن دن گو۔‘‘
عزیز بھائی کی بات پر ایسے اور بھی مسلمان سامنے آ گئے تھے جن کے کام قبرستان میں ہوا کرتے تھے۔ غریب مسلمانوں کے پاس تھوڑی سی زمینیں تھیں۔ کچھ دوسروں کے کھیتوں پر کام کرکے اپنا پیٹ پالتے تھے۔چہار دیواری نہ ہونے سے قبرستان کی زمین سب کا سہارا بنی ہوئی تھی۔ دو بٹیا بھی قبرستان کے بیچوں بیچ سے گذرتی تھیں۔ شادی بیاہ ہوتے تو قبرستان کی زمین کا استعمال کیا جاتا۔
گاؤں دھنورا ضلع بلند شہر کا ایک ہندو اکثریتی گاؤں تھا۔ یوں تو گاؤں میں گوجر، گسائیں، گڈریے، ہریجن، ٹھاکر، شیخ، لوہار، بڑھئی، دھوبی سبھی رہتے تھے لیکن گاؤں میں گوجروں کا دبدبہ تھا۔ ایک تو گوجر تعداد میں زیادہ تھے دوسرے مال و دولت، زمین جائیدار کے معاملے میں وہ دوسری قوموں سے کہیں آگے تھے۔ اسی سبب دھنورا، آس پاس کے علاقے میں گوجروں کے گاؤں کے نام سے بھی مشہور تھا۔
دھنورا میں مسلمان کم تعداد میں تھے۔ یہاں کے آبائی مسلم باشندے شیخ، لوہار اور بڑھئی تھے۔ شیخ خاندان کے لوگ سوانگ، نوٹنکی، گانے بجائے اور حقہ کے نہچے بنانے کا کام کرتے تھے۔ جبکہ لوہار اور بڑھئی گاؤں والوں کے کھیتی کے اوزار اور روز مرہ کے سامان بناتے تھے۔ یہ کام دو طرح کی اجرت پر ہوتے تھے۔ زیادہ تر کسان سال بھر اپنا سامان بنواتے اور فصل کے وقت دو من یا چار من اناج بطور اجرت دیا کرتے۔ اناج کے علاوہ بھس،ہرا چارہ، اور دیگر سامان بھی کسان کبھی کبھار بھیج دیا کرتے تھے۔ دوسرے چھوٹے موٹے کام، بہت سے لوگ نقد بنوا لیتے۔ جن کے بدلے فوری طور پر اناج یا کوئی دوسرا سامان دے جاتے ۔
گاؤں میں آپسی میل جول بہت تھا۔ صدیوں سے ہندو مسلم شیر و شکر کی طرح رہتے آئے تھے۔ شادی بیاہ میں ایسی شرکت کرتے کہ لگتا ہی نہیں دو ہیں۔ گاؤں کے دامادوں کی یکساں خاطر ہوتی۔ مسلمانوں کی بیٹی اور داماد آتے تو غیر مسلم اپنے بیٹی داماد جیسا سلوک کرتے۔ مسلمان کسی گاؤں میں جاتے تو وہاں گاؤں کی بیاہی بہن۔بیٹی کو تحفے اور نذرانے دے کر آتے۔ بچے گاؤں کے سبھی بڑوں کو چاچا، تاؤ، بابا کہہ کر پکارتے۔ گاؤں میں کسی کے ایکھ بونے کا وقت ہو تاتوپورے گاؤں میں چہل پہل ہوتی۔ کچھ دن قبل ہی کی بات ہے ترکھا بابا کے یہاں ایکھ بوئی جانے والی تھی۔ ایک دن پہلے ہی گاؤں میں خبر کردی گئی۔
’’بھئی کل، باگ والے کھیت میں ایکھ بووئے گی۔ جرور آئیو۔‘‘
اور اگلے دن صبح صبح بابا ترکھا کے کھیت پرخاصی بھیڑ موجود تھی ، کئی لوگ مل کر گانڈے (گنے) کے ایک ایک فٹ کے ٹکڑے، بیج کیلئے کاٹ کر ڈھیر لگا رہے تھے۔ بیلوں کی چار جوڑیاں کھیت جوت رہی تھیں۔ ان کے پیچھے پیچھے چار لوگ گانڈے کے ٹکڑے ڈالتے اور پیر سے دابتے چلے جاتے۔ کچھ لوگ گانڈے کے ڈھیر سے ،ایکھ بونے والوں کو گانڈے لالاکر دے رہے تھے۔ چار بیگھہ کھیت میں ایکھ بونے کا کام دس بجے تک پورا ہو گیا تھا۔ آخر میں کھیت میں بکھرے کوڑ کباڑ اور اوزاروں کو اکٹھا کیا گیا۔ اتنے میں ترکھا بابا کی آواز گونجی۔
’’سب گھر چلن گے۔ کھیر پوری کی دعوت ہے۔‘‘
بس پھر کیا تھا۔ بچے بوڑھے مرد عورتیں سب اپنا اپنا سامان سمیٹ کر گاؤں کی طرف چل پڑے۔ ترکھابابا کے گھر ایک دن پہلے ہی سے ایکھ کی دعوت کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں۔ کئی گھروں سے دودھ ، رات ہی میں جمع کر لیا گیا تھا۔ صبح صبح گاؤں کی عورتیں اور ترکھا بابا کی بہوویں کھیر اور پوری کی تیاری میں لگ گئی تھیں۔ بیٹھک کی زمین کو ایک دن پہلے ہی گوبر اور مٹی سے اچھی طرح لیپ دیا گیا تھا۔ بیٹھک کا فرش ایسا لگ رہا تھا گویا پورے فرش پر سونے کا پانی چڑھا دیا گیا ہو۔ جلد جلدی لوگ آمنے سامنے قطاروں میں اکڑوں بیٹھ گئے تھے۔ تھوڑی دیر میں کھانا کھلانے والے آ گئے تھے۔ کوئی پتل بچھا رہا تھا۔ کوئی بالٹی سے کھیر نکال کر پتل پر انڈیل رہا تھا۔ اس کے پیچھے پوریاں دینے والے تھے۔ مٹی کے سکوروں میں پانی رکھ دیا گیا تھا۔
بابوجی کی گرج دار آواز سنائی دی۔
’’جس کے پاس نہ آیا ہو وہ مانگ لے۔ باقی پڑھو بسم اللہ۔‘‘
سب نے کھانا شروع کردیا تھا۔ یہ نظارہ شادی کے کھانوں کے وقت بھی نظر آتا تھا۔ 
گاؤں میں کسی ہندو کی موت ہوجاتی تو مسلمان ہندو سب مل کر ارتھی تیار کرتے اور کاندھا دیتے ہوئے شمشان گھاٹ جاتے۔ عجیب اتفاق تھا کہ گاؤں میں شمشان گھاٹ کی زمین پر آس پاس کے ہندوؤں نے ہی آہستہ آہستہ قبضہ کر لیا تھا۔ اب کھڑنجے پر انتم سنسکار ہوا کرتا تھا۔ بہت کوششوں کے بعد بھی شمشان کی زمین نہیں مل پائی تھی۔ گاؤں میں دو مندر تھے، مسجد نہیں تھی۔ لیکن قبرستان بہت پہلے سے تھا۔ کسی مسلم کی موت ہوتی تو ہندو مسلم مل کر قبر کھودتے۔ قبرستان کے ہی درختوں کی موٹی شاخیں کاٹی جاتیں، ان کے موٹے موٹے ٹکڑوں کو میت کے اوپر قبر کے بگدے میں لگایا جاتا، پھر گھاس پھوس سے لکڑیوں کے درمیان کی درج کو بھرا جاتا اور مٹی ڈالی جاتی۔ سرہانے کسی سائے دار پیڑ کی ٹہنی لگا دی جاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔
قبرستان کی چہار دیواری کا سلسلہ بوباجی نے اٹھایا تھا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو ملک کا ماحول خراب ہوتا جارہا تھا، ایسے میں قبرستانوں اور مساجد کی حفاظت بہت ضروری ہو گئی تھی۔دوسرے قبرستان کے دکھن میں گوجروں کے کھیت تھے۔ جن میں کئی نے اپنے گھیر اور گھر بنانا شروع کردئے تھے۔ اس بات کا خطرہ بڑھ گیا تھا کہ دکھن کی طرف سے آہستہ آہستہ قبرستان سکڑنے نہ لگے۔ لیکن قبرستان کی چہار دیواری کی بات پر گاؤں میں نئی قسم کی ہلچل شرو ہو گئی تھی۔ کچھ مسلمانوں نے ہی اس کی مخالفت شروع کردی تھی۔ گاؤں کے بزرگ اور سمجھدار مسلمانوں کو بابوجی نے اس بات کی اہمیت سمجھائی۔
’’دیکھو بھئی۔۔۔ ملک کے حلات روز بروز بگڑ تے جا رہے ہیں۔ہندو مسلم منافرت پھیلتی جا رہی ہے۔ گاؤں میں تو خیر ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ پھر بھی قبرستان کو آگے تک بچانا ہے تو اس کی چار دیواری کرانی ہوگی۔‘‘
’’بات تو سہی کہو ہو بابوجی۔‘ بابا بشیر بولے۔
’’دھرم ویرنے قبرستان کی پلی اور اپنا گھیر بھی بنوالیو ہے۔ موئے تو واکی نیت پر شک ہوے ہے۔‘‘ چاچا نثار دور کی کوڑی لائے تھے۔
’’ٹھیک ہے تو یا کام کو جلد شروع کرواؤ باؤجی۔‘‘ نئی عمر کے مشتاق بھائی نے جوش میں آتے ہوئے کہا۔
بابوجی گاؤں کے پہلے ایسے شخص تھے جنہوں نے دسویں پاس کی تھی،ہندی کے ساتھ ساتھ اردو بھی جانتے تھے۔ وہ دور شہر میں چالیس برس نوکری کرنے کے بعد اب گاوءں میں رہنے لگے تھے۔ ان کے بیٹے بھی دلی میں اپنے اپنے پیروں پر کھڑے تھے۔ بابوجی ہروقت گاؤں کی خدمت میں لگے رہتے۔ زمین کی پیمائش کا کام تو بابوجی کے علاوہ کوئی نہیں کرپا تاتھا۔ ادھر بابوجی نے انجکشن لگانا بھی سیکھ لیا تھا۔ اب وہ گاؤں کے بیماروں کے انجکشن بھی لگا دیا کرتے تھے۔ لڑائی جھگڑوں کے فیصلے کے لئے گاؤں والے بابوجی کے پاس ہی جاتے۔ سب ان کے فیصلے کا احترام کرتے تھے۔ وہ بہت دور رس تھے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد انھیں محسوس ہونے لگا تھا کہ دراصل نئی نسل کے ذہنوں کو سیاسی جماعت والے جلدی متاثر کر لیتے ہیں۔ ویسے تو گاؤں میں ماحول ٹھیک ہی تھا لیکن مستقبل کا کیا پتہ۔ بابوجی نے حکمت سے گاؤں کے ہندوؤں کو بھی قبرستان کی چار دیواری کے لئے تیار کرلیا تھا۔ بلکہ ان میں سے کئی تو اس کام کے لئے ہروقت بابوجی کے ساتھ تھے۔ انہوں نے قبرستان کا استعمال کرنے والے ناراض ہندوؤں کو بھی قبرستان خالی کرنے کے لئے راضی کرلیا تھا۔ لیکن معاملہ اس وقت بہت نازک ہوگیا تھا جب قبرستان کا ذاتی استعمال کرنے والے کچھ مسلمانوں نے قبرستان خالی کرنے سے بالکل انکار کردیا تھا۔ 
’’باؤجی۔۔۔کچھ بھی ہوجائے ہم چار دواری نہ بنن دن گے۔‘‘ عزیز بھائی نے بابوجی سے انتہائی غصہ کی حالت میں کہا۔ 
’’ہم اپنے جانور کہاں باندھین گے؟ کوڑی کہاں ڈلے گی؟ ناج کہاں نکلے گو؟‘‘ 
’’ہاں ہاں عزیز بھائی۔ میں بھی تمہارے سنگ ہوں۔‘‘ الیاس بیچ میں ہی بول پڑا۔
پھر تو کئی آوازیں ایک ساتھ مخالفت میں بلند ہونے لگی تھیں۔ بابوجی کو اپنی محنت پر پانی پھرتا دکھائی دیا۔ انہوں نے ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کی۔
’’بھئی دیکھو۔ یہ کوئی میرا ذاتی کام تو نہیں۔ یہ تو ثواب کا کام ہے۔ خود سوچو ہم برسوں سے قبرستان کی بے حرمتی کرتے آرہے ہیں۔ یہاں ہمارے بزرگ دفن ہیں اور ہم قبروں پر نہ صرف چلتے پھرتے ہیں بلکہ جانور گندگی بھی کرتے ہیں۔ موت تو برحق ہے۔ سب کو آنی ہے۔ قبرستان نہیں رہے گا تو دفن کے لئے کہاں جاؤگے؟ سمشان گھاٹ کے بغیر مردے سڑک پر جلائے جا سکتے ہیں لیکن قبرستان کے بغیر۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘
۔۔۔۔۔
آواز رک گئی تھی۔ خاموشی۔۔۔۔۔۔ ہر طرف خاموشی۔
سناٹا طویل ہوتا گیا تھا۔ اس سے قبل کہ چہ مے گوئیاں شروع ہوتیں، قصہ گو کی آواز پھر بلند ہوئی۔
’’داستان درمیان میں روکنے کا بھی ایک سبب ہے۔
میں کئی صدی سے اس گاؤں میں آباد ہوں۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ پہلے لوگ میرے نام سے ہی ڈرتے تھے۔ میرے آس پاس کوئی آبادی نہیں تھی۔ ویرانی، وحشت، خاموشی، تنہائی، سناٹے میرے گہرے دوست ہوا کرتے تھے۔میں ان کے ساتھ بہت خوش تھا۔ کوئی قبر کھودی جاتی تو مجھے مسرت کا احساس ہوتا۔ جنازہ لئے جب لوگ میرے دامن میں آتے ، مجھے خوشی ہوتی، ہر طرف سے لا ا لٰہ الا اللہ اور اللہ اکبر کے کلمات بلند ہوتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے گئے۔ گاؤں میں امیبا کی طرح جب خاندان بڑھنے لگے تو مکانات، قدموں قدموں،چلتے گاؤں کے باہر بھی نکل آئے تھے۔ میرے آس پاس بھی گھر آباد ہونے لگے۔ ہندو اور مسلم دونوں نے اپنی زندگی آمیز حرکات و سکنات سے میرے احباب ویرانی، وحشت، خاموشی، تنہائی اور سناٹے کو یکے بعد دیگرے اپنی موت آپ مرنے پر مجبور کردیا تھا۔ لوگو ں نے میرے اوپر سے راستے بنا لیے۔ اپنے بونگے، بٹورے، کوڑی بنانا اور دوسرے کام شروع کردئے۔ جانور باندھے جانے لگے۔ کھیت سے فصل کٹتی اور میرے اوپر کھلیان بنائے جاتے۔ حتی کہ شادی بیاہ میں بھی میرا استعمال ہونے لگا۔ میں کیا کرتا؟ کس سے شکایت کرتا؟ ان سب کے باوجود مجھے سب سے اچھا گاؤں کا اتفاق و اتحاد لگتا تھا۔ میں اپنی بے عزتی بے حرمتی اور پامالی پر خون کے گھونٹ پی کر یہی سوچتا رہ جاتا کہ خدا نہیں کبھی تو عقل و فہم دے گا اور انہیں کبھی تو میرا خیال آئے گا۔
سنو! ذرا غور سے سنو!
میری داستان میں اب عروج آنے والا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’ہمیں کچھ نہ پتو، جب مرن گے جب دیکھن گے۔‘‘
عزیز بھائی اپنے موقف پر اٹل تھے۔ بابوجی کے سمجھانے سے بہت سے مخالفین مان گئے تھے لیکن دیوار کے سلسلہ میں کوئی چندہ یا مدد دینے سے انکار کردیا تھا۔ بابوجی نے گاؤں اور شہروں سے چندہ جمع کرکے اینٹیں منگوا لی تھیں۔ سیمنٹ بھی آ گیا تھا۔ پوری تیاریاں ہونے کے بعد چہار دیواری کے لئے جمعہ کا دن منتخب ہوا تھا۔ گاؤں کے سمجھ دار قسم کے ہندو بھی بابوجی کے ساتھ تھے۔
’’باؤجی آپ پھکر نہ کرو۔ کام جوڑو۔ پھر دیکھن گے کس میں کتنو دم ہے۔‘‘
’’چار دیواری کا کام دکھن کی طرف سے شروع ہو گیا تھا۔ جہاں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔ لیکن گاؤں میں آہستہ آہستہ افواہیں گرم تھیں کہ عزیز بھائی اور ان کے بیٹے بلم اورکٹے وغیرہ کا انتظام کر رہے ہیں ،ان کے گھر کے سامنے خون خرابہ ہو سکتا ہے۔
بابوجی اور عزیز بھائی ایک ہی خاندان کے افراد تھے۔ دو بھائیوں کی اولادیں تھیں۔ بڑے بھائی کے پانچ اور چھوٹے کے تین بیٹے تھے۔ بڑے بھائی کے پانچوں بیٹوں کے بیٹے، پوتے ،پو تیاں تقریباً پچاس لوگوں کا کنبہ تھا جو قبرستان کی مخالفت پر آمادہ عزیز بھائی کا طرف دار ہوسکتا تھا۔ سب ایک ہی تھے۔ ایک ساتھ کھاتے پیتے۔ کام کرتے۔ بڑا سا آنگن تھا جس کے چاروں طرف مکانات تھے۔ ہر کام ایک ساتھ۔ دانت کاٹی روٹی، ایک اپنے گھر کھانا کھاتا تو بابوجی کے یہاں پانی پیتا۔ رشتہ داریوں میں جاتے تو بابوجی خود بڑھ کر سب کا کرایہ ادا کرتے۔ کوئی معاملہ الجھ جاتا تو بابوجی منٹوں میں سلجھا دیتے۔ دور دور تک لوگ بابوجی کو احترام کی نظر سے دیکھتے۔ بابوجی کہہ کر پکارتے ۔
ایک بار کا ذکر ہے ۔ قبرستان اور دگڑے کے بیچ میں ایک کوئیاں تھی۔ چھوٹی سی کوئیاں۔ بیس بائیس فٹ گہری اور چار فٹ گولائی والی۔ کوئیاں کی صفائی چل رہی تھی کہ اچانک بابا صدیق کا بڑا بیٹا اختر نجانے کیسے کوئیاں میں گرپڑا۔ پاس ہی بابوجی کھڑے تھے۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ خود کوئیاں میں چھلانگ لگا دی اور اس سے قبل کہ کوئیاں کا پانی بچے کو نقصان پہنچاتا، بابوجی نے بچے کو بچا لیا۔ بعد میں اوپر سے ٹوکرا، رسی سے باندھ کر لٹکایا گیا اور بچے کو صحیح سلامت نکالا گیا۔ سب نے بابوجی کی بہت تعریف کی تھی۔ ایسے سینکڑوں معاملات و واقعات تھے جب بابوجی نے اپنی عزت داؤ پر لگاکر گاؤں کی عزت بچائی تھی۔بڑے بابا کے بچوں کا بٹوارہ ہوا تو بابا صدیق کو انھوں نے زمین جائیداد سے الگ کردیا تھا۔ اس وقت بابا صدیق گاؤں چھوڑ کر جانے کو تیار تھے۔
’’میں تو گاؤں چھوڈ کر جارا اوں۔‘‘
بابا صدیق کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اسمٰعیل بابا نے بہت سمجھایا تھا۔ لیکن وہ کسی قیمت پر رکنے کو تیار نہ تھے۔ ایسے میں بابوجی نے اپنی قربانی دے کر معاملے کو سنبھالا تھا۔
’’صدیق بھائی تم گاؤں نہیں چھوڑ و گے۔ زمین کی ہی بات ہے نا۔ لومیرے حصے کی اس زمین میں گھر بنالو۔ ‘‘ اور انہوں نے اپنے حصے کی زمین پر بابا صدیق کا گھر بنوایا دیا تھا۔ 
قبرستان کی چار دیواری کے معاملے کو تین سال ہو گئے تھے۔ پتھر کی سلوں کی طرح مضبوط و مستحکم دلوں میں شگاف پڑ گئے تھے۔ ذاتی مفاد، تعلقات کی زمین کھود رہے تھے۔ لیکن کہتے ہیں نا ہوتا وہی ہے جو قدت کو منظور ہوتا ہے۔ عزیز بھائی کو لاکھ سمجھایا گیا لیکن وہ نہیں مانے۔ 
’’نا میں نا بنن دن گو۔۔۔‘‘
گاؤں کے غیر مسلم بزرگوں اور نوجوانوں نے عزیز بھائی کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور مزدوروں نے جلدی جلدی دیوار چن دی تھی۔ کچھ دیر بعد عزیز بھائی نے بھی ہارے ہوئے جواری کی طرح سپر ڈال دی تھی۔ انہیں اپنی شکست کا اتنا زبردست صدمہ پہنچا تھا کہ انہوں نے چار پائی پکڑ لی تھی اور کچھ دن بعد چار پائی نے ڈولے کی شکل اختیار کرلی ۔ ان کی وصیت کے مطابق انہیں اپنے کھیت کے ایک کونے میں دفنایا گیا۔ آپسی محبتیں نفرتوں، بغض و عداوت اور دشمنی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ وقت کے ساتھ سب کچھ بدلتا چلا گیا۔چہار دیواری کرانے والے بزرگ اللہ کے یہاں چلے گئے تھے اور ان کی اولادیں زیادہ تر شہروں میں جا بسی تھیں۔اُدھر عزیز بھائی کے کھیت کا کونا وسیع ہو تا گیا......... اور..........
آواز بند ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔
خاموشی نے مارشل لا لگا دیا تھا۔
اچانک کسی کے سسکنے کی آواز بلند ہوئی۔
میں۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔پھر ویران ہو گیا ہوں۔
اب یہاں کوئی نہیں آتا۔ کوئی میرے آنسو پونچھنے والا بھی نہیں۔
جنازے میرے پاس سے گزر کر کھیتوں والے علاقے کو آباد کرتے ہیں میرے دامن کی قبریں اپنا ظاہری وجود بھی کھو چکی ہیں۔چار دیواری کی اینٹیں لوگ حسبِ ضرورت اپنے گھروں میں لے جا چکے ہیں۔ میں ایک چٹیل میدان ہوگیا ہوں۔کبھی کبھار بچے کرکٹ کھیلنے آجاتے ہیں۔میری شناخت ختم ہو گئی ہے ۔شاید یہ میرا آخری وقت ہے۔ ہرشئے کو موت آتی ہے۔ لیکن شاید مجھے آسانی سے موت نہیں آئے گی ۔ وقت ابھی پورا نہیں ہوا ہے مجھے انتظار ہے، خاندان کے اس وسیع عریض آنگن والے مکان میں اٹھنے والی دیواروں کی طرح اپنے قریے اور خطے میں اگنے والی دیواروں کا۔ جب مجھے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے بلند و بالا عمارتوں کی آماجگاہ بنادیا جائے گا۔ وہ شاید میری داستان کا آخری صفحہ ہو۔ 
۔۔۔۔۔۔۔
مرکزی حکومت کے منصوبے کے مطابق این سی آر میں آس پاس کے علاقے کو شامل کرتے ہی خالی پڑی زمینوں کی قسمت جاگ اٹھی۔ صدیوں سے مردہ پڑی دھنورا قبرستان کی زمین ،آس پاس کی زمینوں کے ساتھ ایک بڑے Power Plant کے لئے منتخب کی جا چکی تھی۔ اندھیرے دن کے اجالے میں ضم ہوکر رات کی کوکھ سے نئی روشنی کی شکل میں نمودار ہو رہے تھے۔

***

Din ke andhere,Raat ke ujaale
By :
Dr Aslam Jamshedpuri
HOD,URDU,CCSU,MEERUT
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
09456259850

Read 2440 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com