الأربعاء, 15 أيار 2013 13:49

ہم بستر : تنضیر انصار Featured

Rate this item
(0 votes)


 تنضیر انصار


 ہم بستر

  دسمبر کی وہ شدید سردی مجھے آج بھی یاد ہے جب سو رج کو دیکھے ہو ئے پندرہ دن بیت چکے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا گویاہر طرف سفیدی کی دبیز چادر بچھا دی گئی ہو۔زمین سے آسمان تک سفید بادلوں کا قبضہ تھا۔تعلیم گا ہوں میں چھٹی کا سر کاری حکم جاری کردیا گیا تھا۔ الاؤ اور رضا ئی کو چھوڑ کر باہر نکلنا جنگ پر جانے سے کم نہ تھا اور میرا دل یہ سوچ سوچ کر بیٹھا جا رہا تھا کہ آج مجھے لکھنؤ کا سفر کر نا ہے اور وہ بھی رات کی ٹرین سے۔ دن کے اپنے تمام کام نپٹا نے کے بعد میں نے اپنے دوستوں انیس اور اطہر کو فون لگایا۔ہم تینوں کو لکھنؤ جانا تھا اور ہم تینو ں لکھنؤ میں کو چنگ کررہے تھے اور ایک سا تھ رہ رہے تھے۔ٹرین رات ساڑھے آٹھ بجے کی تھی۔بریلی جنکشن سے ہی بن کر چلنے کی وجہ سے لیٹ ہو نے کے امکانات کم ہی تھے پھر ہمارا گھر بھی اسٹیشن سے آٹھ دس کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔اس لیے ہمیں سات بجے تک گھر سے نکل جانا تھا۔ دوستوں کے ساتھ سا را پرو گرام طے کر نے کے بعد میں نے اپنا سا مان باندھنا شروع کیا ،ادھر امی بھی ایک ایک چیز یاد دلا کر رکھوا تی جارہی تھیں۔گھر کا گھی اور اچار الگ سے خاص تاکید کے ساتھ رکھ دیا گیا تھا کہ کھانے میں کو تا ہی مت کرنا،صحت کا خیال رکھنا۔
گھڑی نے سات بجنے کا اشارہ دیا اور ابو نے امی کو ٹو کنا شروع کردیا کہ مجھے جلدی نکل کر اسٹیشن پہنچ جانا چا ہیے کہیں میری لیٹ لطیفی میں ٹرین نہ چھوٹ جائے۔ ابو امی سے خدا حافظ کہہ کر میں با ہر آ یا ،گھر سے کچھ فاصلے پر ہی رکشہ اور سا ئیکل رکشہ مل جاتے ہیں لیکن یہ کیا؟آج ایک بھی رکشہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ کچھ دیر انتظار کر نے کے بعد میری دھڑکن بڑھنے لگی اور میں بے چین ہو نے لگا۔ سڑک کے دو نوں طرف گہرے سناٹے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا،گھبراہٹ اور بڑھ گئی جب میں نے گھڑی پر نگاہ ڈا لی،سوئیاں پونے آٹھ کا اشارہ کررہی تھیں۔ اسٹیشن پہنچنے کا خیال آتے ہی کلیجہ منہ کو آگیا۔ سناٹے کو چیرتی ہوئی اسی وقت دور سے کسی کے آ نے کی آہٹ سنائی دی۔آنے والے نے سنبھلتے ہو ئے ایک ہی سانس میں اپنی ساری گھبرا ہٹ بیان کر ڈا لی۔ میری قسمت اچھی تھی کہ وہ بھی اسٹیشن کے قریب منڈی تک جارہاتھا۔ بنا اجا زت لیے میں اچک کر اس کی سا ئیکل کے پیچھے کیرئیرپر سوار ہو گیا کہ وہ ہی اب میرا آخری سہارا تھا۔ سائیکل جوں جوں آگے بڑھتی گئی میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی گئیں۔دل میں خیال کرتا رہا کہ کاش سائیکل اڑ کر اسٹیشن پہنچ جائے۔
اللہ اللہ کرتے ہوئے ہم اسٹیشن چو راہے پر پہنچے۔میں نے گھڑی پر نظر دوڑائی تو سانس رک سی گئی۔آٹھ بج کر پچیس منٹ ہو چکے تھے اور ابھی اسٹیشن دور تھا ۔میں نے آ ؤ دیکھا نہ تاؤ اور پو ری طاقت سے اسٹیشن کی طرف دوڑنے لگا۔ دل اللہ سے منتیں مانگنے میں مصروف ہو گیا۔’’ اے اللہ ٹرین پکڑ وادے،دس رکعت نماز پڑھوں گا۔‘‘ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے میں اسٹیشن پہنچ گیا۔ادھر انیس اور اطہر میرے اوپر دانت پیس رہے تھے،وہ تو اچھا ہوا کہ اطہر نے ٹکٹ پہلے سے ہی لے رکھے تھے۔ اسٹیشن پر لائٹ کے نام پر چند بلب ہی چمک رہے تھے جن کی رو شنی کہرے کی دھند سے لڑ نے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔دھند اور اندھیرے میں رو شنی کا ایک گو لا ہماری طرف بڑھتا نظر آ یا تو احساس ہوا کہ یہ انجن ہے۔ ریل پلیٹ فارم پر رینگ چکی تھی۔ ہم لوگ دوڑتے ہو ئے ریل کی بو گی کے نزدیک پہنچے اور کود کر سامنے وا لے ڈبے میں چڑھ گئے،باہر چل رہی ہواؤں کی سنسناہٹ کے علاوہ اور کوئی آواز اس ڈبے میں نہیں تھی۔کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ ہم لوگ لگیج کمپارٹمنٹ میں چڑھ گئے تھے۔
ٹرین چل پڑی تھی۔رات کے اندھیرے میں اگلے اسٹیشن پر اتر کر ڈبہ بدلنے کی ہمت ہم میں سے کسی میں نہیں تھی ۔میں آ گے بڑھ کر جگہ تلاشنے لگا تو میری ٹا نگ سے کوئی چیز ٹکرائی اور مجھے احساس ہوا کہ نیچے کچھ پڑا ہے ۔جھک کر دیکھا تو کچھ لوگ بے خبر سو رہے تھے۔ پاس کی جگہ خالی تھی ۔ہم نے بھی ان کو بنا تکلیف دیے اپنی چا در بچھائی اور لیٹ گئے۔پوری طرح کھلے دروا زے سے اندر آنے والی برفیلی ہواؤں سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کی بانہوں کا قرب کے ہمیں گرمی کا ہلکا احساس کرا رہا تھا ۔دوستی کے رشتے کی گرمی نے برفیلے احساس کو کچھ دیر کے لیے ہی سہی مگر پگھلا ضرور دیا تھا۔آگے کئی اسٹیشنوں پر چائے والوں کی آوازیں چائے.........چائے........ہمارے کا نوں سے ٹکرا تی رہیں۔ ہم سمٹ کر لیٹ گئے اور کچھ ہی دیر میں ہمیں نیند نے آ گھیرا۔دیر رات جب مجھے تیز ٹھنڈ کا احساس ہوا تو میری نیند ٹوٹ گئی،دیکھا تو انیس پو را کمبل اکیلے ہی لپیٹ کر سو رہا تھا۔کاہلیت کی وجہ سے میں نے بھی اسے جگایا نہیں اور اپنے برا بر میں سو ئے ہو ئے شخص کی ہی چادر میں پاؤں ڈال دیے۔وہ شخص بھی شا ید گہری نیند میں تھا ،میری موجودگی کا اسے احساس بھی نہیں ہوا۔میں نے تقریباً دو گھنٹے کی نیند اور لی،میری آنکھ قریب تین بجے اس وقت کھلی جب ہمارے ڈبے میں ہلچل شروع ہو ئی۔ٹارچ سے پیلی رو شنی بکھیرتے ہوئے دو لوگ ڈبے کے اندر داخل ہوئے اور ان کے پیچھے قریب آٹھ دس اور بھی۔ ایک شور سنائی دیا۔’’اٹھا ؤ بھائی اٹھاؤ۔ سبھی لاشوں کو نیچے اتارو ۔‘‘ لاش جملہ سنتے ہی میری نیند فاختہ ہو گئی۔ اب تک اطہر اور انیس بھی جاگ چکے تھے۔معاملہ سمجھ میں آ تا اس سے پہلے ہی ایک پو لیس والے نے ہمیں باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔شدید ٹھنڈ میں ہم با ہر کھڑے تھے اور ہمارے بدن سے پسینے ایسے چھوٹ رہے تھے گویا جیٹھ کی گرمی میں کپڑے تر بتر ہو گئے ہوں۔اب تک ہم سمجھ چکے تھے کہ جو لوگ ہماری بغل میں سو ئے سے لگ رہے تھے وہ در اصل ان لوگوں کی لاشیں تھیں جو کسی حادثہ کا شکار ہو گئے تھے اور پوسٹ مارٹم کے بعد ان کی لاشیں یہاں لائی جارہی تھیں۔
اس واقعے کو کئی سال گذر گئے لیکن آج بھی میں یہ سوچ کر کانپ جاتا ہوں۔خوف کی ایک لہر لہو میں سرایت کرجاتی ہے کہ میں اس رات میں ایک لاش کے ساتھ ہم بستر تھا۔

***
تنضیر انصار
میرٹھ

Read 2308 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com