الأربعاء, 05 تشرين2/نوفمبر 2014 00:00

یہ تیرے پُر اسرار بندے : نورالحسنین

Rate this item
(0 votes)

                           یہ تیرے پُر اسرار بندے

                                                    نورالحسنین 

 

                                مسیح نے کہا تھا، ” بدن میں ایک ہی عضو نہیں، بلکہ بہت سے ہیں، اگر پاؤں کہے چونکہ میں ہاتھ نہیں اس لیے  بدن کا نہیں، تو وہ اس سبب سے بدن سے خارج  تونہیں، اور گر کان کہے چونکہ میں آنکھ نہیں اس لیے بدن کا نہیں،  تو کیا وہ بدن سے خارج ہوگیا؟  نہیں،  اگر سارا بدن آنکھ ہی ہوتا تو سُننا کہاں سے ہوتا؟ اگر سُننا ہی سُننا ہوتا تو سونگھنا کہاں ہوتا؟ مگر فی الواقع خدا نے ہر ایک عضو کو بدن میں اپنی مر ضی کے موافق رکھا ہے۔ اگر وہ سب ایک ہی عضو ہوتے تو بدن کہاں ہوتا؟ مگر  دیکھو ،  اعضا تو بہت ہیں لیکن بدن ایک ہی ہے۔ پس آنکھ ہاتھ سے نہیں کہہ سکتی کہ میں تیری محتاج نہیں، اور نہ سر پاوں سے کہہ سکتا کہ میں تمہارا  محتاج، بلکہ بدن کے وہ اعضا جو اوروں سے کمزور ہوتے ہیں، بہت ضروری ہوتے ہیں، اور بدن کے وہ اعضا جنھیں ہم اوروں کی نسبت ذلیل جانتے ہیں اُن ہی کو زیادہ عزت دیتے ہیں اور ہمارے نا زیبا اعضا بہت زیادہ زیبا ہوجاتے ہیں حالانکہ  ہمارے  زیبا اعضا  محتاج نہیں، مگر خدا نے بدن کو اس طرح مرکب کیا ہے کہ جو عضو  محتاج ہے اُسی کو زیادہ عزت دی جائے، تاکہ بدن میں تفرقہ نہ پڑ ے، بلکہ اعضا ایک دوسرے کی برابر فکر رکھیں۔“

                                اُس نے ایک بار اپنے آپ کا جائزہ لیا، آسمان کی طرف دیکھا، یہ دُنیا نہ صرف بچوں سے ہے، نہ صرف نوجوانوں سے، نہ صرف بوڑھوں سے، نہ مردوں سے، نہ عورتوں سے۔ یہ سب بھی ایک طرح کا جسم ہیں۔ پھر بڑھاپا نازیبا کیوں؟

                                وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھا رہا تھا۔ چاروں طرف  اندھیرا پھیلا ہوا تھا، اور سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ اُس نے نظریں سامنے کیں، اُس کی طرح بہت سارے افراد بھی مارننگ واک کے لیے نکلے ہوئے تھے۔ کوئی سست قدم تھا۔ کوئی تیز تیز چل رہا تھا۔ کچھ عمر رسیدہ لوگ تھے۔ جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں اور وہ کچوے کی چال سے مارننگ واک کا لطف اُٹھا رہے تھے۔ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ ایک مہینہ پہلے ہی کلکٹر کے باوقار عہدے سے سبکدوش ہوا تھا، اور اُس کے دماغ میں اُس کی ملازمت کا پہلا دن تھا جب وہ اپنے آفیس کو جانے سے پہلے چرچ گیا تھا اور انجیل ِ مقدس پر ہاتھ رکھے فادر کہے رہے تھے، ”تم زمین کا نمک ہو، لیکن اگر نمک کا مزہ جاتا رہا تو وہ کس چیز سے نمکین کیا جائے گا؟ پھر وہ کسی کام کا نہیں، سوائے اس کے کہ اُسے باہر پھینکا جائے اور آدمیوں کے پاؤں کے نیچے روندا جائے۔ تم دُنیا کا نور ہو، جو شہر پہاڑ پر بسا ہو وہ چھپ نہیں سکتا، اور چراغ جلاکر پیمانے کے نیچے نہیں بلکہ چراغ دان کے اوپر رکھتے ہیں تو اس سے گھر کے سب لوگوں کو روشنی پہنچتی ہے۔ اسی طرح تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے، تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمانوں پر ہے تمجید کریں۔“

                                یہی وہ عہد نامہ تھا، جو اُس نے ملازمت کے پہلے ہی دن سے اُس پر عمل کرنا شروع کردیا تھا۔ ساری زندگی اِسے ہی حکم کی طرح بجا لایا۔ نہ کبھی اپنے قلم سے کسی کو نقصان پہنچایا، نہ کبھی رشوت لی، نہ زبان سے کبھی کوئی ایسا لفظ نکالا جس سے کسی کی دل آزاری ہو، لیکن ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے ایک ہی مہینے کے اندر۔۔۔۔

                                طنزیہ ہنسی اُس کے چہرے پر پھیل گئی، اُس کا بیٹا اُسے مشورہ دے رہا تھا، ” ڈیڈ اب آپ کو بھی مارننگ واک کرنا مانگتا !“

                                اُس نے سوالیہ نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھا، تو کیا ہم ریٹائرڈ ہوتے ہی بوڑھا ہوگیا؟ لیکن آواز اُس کے حلق سے نکلی ہی نہیں۔

                                ” آپ واکننگ کرے گا تو آپ کا ہیلتھ بھی اچھا رہے گا۔“

                                ”ہوں!“  اُس نے ہنکاری بھری اور بیٹے کی طرف دیکھا، جو اپنی ٹائی کی ناٹ کو درست کر رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ ریٹائرڈ ہوتے ہی ہمارا ہیلتھ بھی ڈاؤن ہوگیا؟

                                ”ڈیوڈ۔۔!“  اُس نے بیٹے کو آواز دی۔ جو بیگ اُٹھا کر اپنے آفیس کے لیے نکل رہا تھا۔

                                ” ڈیڈ۔۔۔ شام کو بات کرے گا۔ یو نو۔۔ ابھی ہم کتنا لیٹ ہوگیا ہے۔“ اور پھر وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔ وہ بھی اپنی جگہ سے اُٹھا اور دروازے پر آکر کھڑا ہوگیا۔ ڈیوڈ نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ اُس کی جانب دیکھا، ہاتھ ہلایا اور پھر زن سے اُس کی کار گیٹ سے باہر نکل گئی۔

                                 اُس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔مارننگ واک کرنے والوں کا ایک ریلا تیزی سے چلتا ہوا اُس سے آگے نکل گیا۔

                                ” ہیلو مسٹر جان۔!“

                                اُس نے پلٹ کر دیکھا، ”ہیلو مسٹر پرشوتم !  ہاؤ ڈو یو ڈو؟“

                                ”فائن سر!“  پرشوتم کے چہرے پر بڑی تازگی تھی۔

                                ” مسٹرپرشوتم۔۔۔!“  اُس نے اُسے نیچے سے اوپر تک دیکھا، ” تم بھی مارننگ واک کے لیے نکلا ہے؟“

                                ”نو سر!“ اُس کے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ تھی، ”مجھے کیا ضرورت؟  نو بی پی، نو شوگر۔۔ أئی یم کوئیٹ ویل سر۔!“

                                جان کا سر جھک گیا۔ بی پی تو ہم کو بھی نہیں ہوا، شوگر بھی نہیں، پھر ڈیوڈ ہم کو مارننگ واک کا کیوں بولا؟  وہ سوچنے لگا۔

                                ”کیا سوچ رہے ہو سر؟“

                                ”اوہ۔۔ نو۔۔ کچھ بھی نہیں۔“

                                جان نے قدم آگے بڑھایا، لیکن اُس کا دماغ ابھی تک اُسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ پرشوتم کا عمر ہم سے صرف چھ مہینے ہی کم ہے۔ چھ مہینے بعد یہ بھی ریٹائرڈ ہوجائے گا۔ پوز کرتا ہے سالا، جیسے چھ برس چھوٹا ہے۔

                                ”سر بُرا نہیں ماننا، مگر آپ کے بھلے کے لیے کہتا ہوں۔“

                                جان نے اُس کی طرف دیکھا۔

                                ” آپ کو غصہ بہت جلد آتا ہے، مگر اب کنٹرول کرنا چاہیے ورنہ نقصان آپ ہی اُٹھائیں گے۔“

                                ”اوکے۔۔ اوکے۔۔۔!“ اُس نے لاپرواہی سے جواب دیا اور تیزی سے آگے نکل گیا۔ اُس کے دماغ میں اب بھی وہی جملے گونج رہے تھے۔ وہ پھر سوچنے لگا، یہ لوگ ایسا کیوں سوچتا ہے کہ آدمی ریٹائرڈ ہوتے ہی بیمار ہوجاتا ہے۔؟ کمزور ہوجاتا ہے؟ اُس کو مارننگ واک کرنا چاہیے؟ ہم تو ابھی پوری طرح فٹ ہے۔ سب کے برابر شام کو دو پیگ شراب بھی پیتا ہے۔ اُس کی نظریں سڑک پر پھینکے ہوئے کوک کے خالی ٹین پر پڑی اور اُس نے حقارت سے پوری قوت کے ساتھ اُسے لات ماری، لیکن عجلت میں پیر لچک گیا اور پیر کی اُنگلیاں جھنجھنا اُٹھیں۔ وہ سڑک کے کنارے لگے میل اسٹون پر بیٹھ گیا اور تکلیف سے کراہنے لگا۔ سورج نکل چکا تھا۔ روپہری سنہری کرنیں زمین پر پھیل رہی تھیں۔ جب ذرا تکلیف کم ہوئی تو اُس نے جھک کر دیکھا، اسٹون پر لکھا تھا، حیات پور ساٹھ میل۔۔۔ اُسے ہنسی آگئی، وہ بیٹھا بھی تو اُس اسٹون پر جو حیات کے ساٹھ برسوں ہی کا حوالہ دے رہا تھا۔ اُس نے پھر ایک بار نظریں سامنے کیں، مارننگ واک کے متوالے خوف کی چادر اوڑھے آگے پیچھے قدم اُٹھا رہے تھے۔ اُس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔

                                ”اور یسوع مسیح کو پکڑھنے والے اُسے کائفا نامی کاہن سردار کے پاس لے گئے۔ جہاں فقیہ اور بزرگ جمع ہو گئے تھے اور کاہن سرداراورصدر عدالت یسوع مسیح کو مار ڈالنے کے لیے اُس کے خلاف جھوٹی گواہیاں ڈھونڈھنے لگے تھے۔“

                                وہ نڈھال قدموں سے گھر پہنچا

اب اُس کا روز کا یہی معمول بن گیا تھا۔ برسرِ روزگار احباب کے گھر اُس نے آنا جانا چھوڑ دیا تھا حالانکہ اُن میں سے کئی ایک ایسے تھے جو اُس کی وجہ سے ابھی تک اسی شہر میں ٹِکے ہوئے تھے۔ کئی لوگوں کے نجی معاملات اُس نے ہی سلجھائے تھے۔ روپیوں پیسوں سے کتنے ہی لوگوں کی مدد کی تھی، اپنے سرکاری اثر و رسوخ کی وجہ سے اُس نے ہمیشہ ہی دوسروں کی بھلائی کا کام کیا تھا۔ لیکن اب وہ سب کے لیے غیر ضروری ہوگیا تھا۔ وہ بھی گھر کے باہر نہیں نکلتا تھاکیونکہ اب اُس کا گرم جوشی سے استقبال کوئی بھی نہیں کرتا تھا۔ جو بھی سامنے آتا، دعا سلام کے بعد یہی ایک سوال کرتا،طبیعت کیسی ہے؟ حالانکہ ریٹائرڈمنٹ کے بعد شاید ہی اُس نے بستر پکڑا ہو،  یا پھر بنا مانگے مشورے شروع ہوجاتے، کھانے پینے کی ہدائتیں، یوگا کی تلقین، گھرہی میں آرام کرنے کی باتیں ، ٹریفک کی بد انتظامیوں کے گلے شکوے، جبکہ اُسی سڑک پر یہ سب بھی تو چلتے پھرتے ہیں۔ بیٹا کار کو ہاتھ نہیں لگانے دیتا، ڈرتا ہے کہ کہیں اُسکاایکسیڈنٹ نہ ہوجائے، جبکہ برسوں سے وہ خود ہی کار ڈرائیو کرتا آیا ہے۔ بلکہ ریٹائرڈمنٹ کے آخری دن بھی وہ اپنے آفیس سے گھر تک خود ہی کار ڈرائیو کرتا ہوا آیا تھا۔ لیکن اِس کے دوسرے ہی دن سے یہ فیصلہ ہوگیا کہ اب اُسے بریک اور ایکسیلٹر میں فرق محسوس نہیں ہوتا۔

                                ”ڈیڈ۔۔ ہم کھانا لگا دیا ہے۔ تم بھی ہمارے ساتھ ہی کھائے گا؟“

                                بہو کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اُس نے اخبار کو تپائی پر رکھا اور اُٹھتا ہوا بولا، ”اوہ۔۔ یس۔۔ چلو، کیا بنایا ہے؟“

                                ”بنایا تو بہت کچھ ہے۔ بٹ ڈیڈ وہ ڈیوڈ بولا آپ کے کولسٹرال کو بڑھنا نہیں مانگتا، اس لیے ہم آپ کے لیے۔۔۔“

                                ”اوکے۔ اوکے۔۔!“  اُس نے جملہ پورا ہونے نہیں دیا۔

                                ”ڈیوڈ بولتا تھا، کولسٹرال ہائی ہوجائے تو ہارٹ اٹیک آتا ہے، اور ڈیڈ یو نو۔۔ اِدھر سے اسپتال کتنی دور ہے!“

                                ”یو اینڈ یور ہسبنڈ آر جینیس  “  اُس نے تعریفی  طنزیہ انداز میں آنکھیں مٹکائیں، ” ہم کو اٹیک آیا تو ہم مر ہی تو جائے گا؟“ وہ اُس کے پیچھے پیچھے قدم اُٹھانے لگا، ”اسی لیے تو روزی تمہارا ہسبنڈ اور ہمارا اکلوتا بیٹا ہمارے اکاؤنٹ سے سارا روپیہ نکال لیا ہے کہ بعد میں کون جھنجھنٹ اُٹھائے گا؟“

                                روزی کے چہرے پر کھسیانی ہنسی تھی لیکن اُس کے گلے کا سونے کا  لاکٹ اصلی چمک دکھا رہا تھا۔

                                وہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گیا اور بد مزہ کھانوں کے نوالے توڑنے لگا اور اُس کے نتھنوں میں مرغن کھانوں کی سوندھی سوندھی خوشبو مہک رہی تھی۔ اُس نے نظریں اُٹھائیں، کھڑکی کے باہر دیکھا، تیز دھوپ میں ہر چیز چمک رہی تھی۔ اشوک کے اونچے اونچے درختوں اور چنبیلی کے منڈوے سے بلند ہوتے ہوئے آنکھوں کے دائرے وسیع ہوتے جارہے تھے۔ یہاں تک کہ ناریل کے درختوں کے جھنڈ سے پرے فٹ بال گراؤنڈ آگیا، اور گراؤنڈ کی دوسری جانب جھیل تھی۔ جھیل میں لہریں اُٹھ رہی تھیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ڈبکیاں لگا رہے تھے۔ آسمان میں پرندے اُڑ رہے تھے، اور گیند اُس کے پیروں میں ایسی تھی جیسے مقناطیس سے لوہا چپک جاتا ہے۔ وہ بہت تیزی سے مخالف ٹیم کے گول پول کی طرف بڑھ رہا تھا۔ پہلے جوزف نے اُس کے پیروں سے گیند لینا چاہا اور ڈاچ کھاکر پیچھے رہ گیا۔ پھر وکرم پوری طاقت کے ساتھ اُس کے مقابل آیا لیکن گیند کو اُس کے پیروں سے جدا نہ کر سکا، ایک جھکائی کے ساتھ ہی وہ چھوٹی ڈی میں داخل ہوگیا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے گول کیپر مستعید تھا۔ بس ایک کک، اور ٹیم کی فتح تھی، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کِک لگاتا اور گیند گول کیپر کو ڈاچ دیتے ہوئے گول پول میں داخل ہوتی، ایک زنانی چیخ اُبھری۔۔ شبیر۔۔۔۔!

                                اور شبیر میری اُٹھی ہوئی کِک کو نیچے آنے سے پہلے ہی گیند کو لے اُڑا، اور وہ پھر ایک بار سینٹر پر ٹپ کھاتے ہوئے اُس کے گول پول کی طرف چلی جا رہی تھی۔ اُس نے رُک کر مخالف ٹیم کے گول پول کی طرف دیکھا۔ بہت سارے لوگوں کے درمیان ایک لڑکی کھڑی تھی۔ سفید لباس میں وہ فرشتوں کی طرح نظر آرہی تھی۔ اُس کے سنہرے بال ہوا میں اُڑ رہے تھے، اور وہ اب بھی شبیر کے لیے تالیاں بجارہی تھی۔

                                اُس کی ٹیم ہار گئی تھی۔ شبیر اُس کا بھی دوست تھا۔ بچپن کا دوست۔ میچ کے بعد جب اُس نے اُس لڑکی کی طرف اشارہ کیا تو شبیر نے زور سے قہقہ لگاتے ہوئے اُسے بتایا وہ اُس کی پچھلے دو برس سے  پڑوسن ہے۔ بہت اچھی لڑکی ہے۔ اُس کی بے تکلف دوست ہے۔ پھر اُس نے اچانک اُس کی طرف غور سے دیکھا تھا اور پوچھا تھا، ”جان تو بھی تو کرسچین ہے۔ چل میں تیرے کو اُس سے انٹرڈیوس کراتا ہوں۔

 

                                پنکی لنڈا سے وہ اُس کی پہلی ملاقات تھی۔ میچ ہار کر بھی اُس نے زندگی کا سب سے بڑا انعام جیت لیا تھا۔ زندگی کے چالیس برس دونوں نے میاں بیوی بن کر گزارے۔اس نے زندگی میں اُس کے ہاتھوں کبھی بد مزہ کھانا نہیں کھایا تھا۔بات بات پر ہنسنے مسکرانے والی پنکی لنڈا،ہر مشکل گھڑی میں ڈھال بن کر ڈٹ جانے والی پنکی لنڈا،اپنے سکھ تیاگ کر اس کے دکھ درد بانٹنے والی پنکی لنڈا ہنستے ہنستے ہی اس کی زندگی سے اچانک چلی گئی۔تابوت میں لٹاتے ہوئے بھی اسے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ سچ مچ ہمیشہ کے لئے چلی گئی۔ اس کے بعد اس نے کسی دوسری عورت کا چہرہ نہیں دیکھا۔ اپنی ساری زندگی اپنے دونوں بچوں کے لئے وقف کردیا۔ پہلے روزی کی شادی کی اور بعد میں بیٹے کی۔

                ”ڈیڈ آپ کیا سوچتا ہے؟ پلیز کھانا ٹھنڈا ہوتا ہے!“

                ”اوہ سوری!“اور وہ پھر چکھتے مکھتے نوالے حلق سے نیچے اتارنے لگا۔

                                روز و شب اسی طرح گزر رہے تھے۔بیماریوں کی صفائی دیتے دیتے اب اسے بھی احساس ہونے لگا تھا کہ واقعی وہ کمزور ہو گیا ہے۔مشوروں نے اسے بہت حد تک اپنا اسیر بنالیا تھا۔ اس میں تبدیلیاں آنا شروع ہو گئی تھی۔ اب جب بھی وہ مارننگ واک کے لیے نکلتا۔ اس کے جسم پر اوورکوٹ،  سر پر ہیٹ اور گلے میں مفلر پھنسا ہوا ہوتا، اس کے مزاج میں عجیب سی سنجیدگی آگئی تھی۔ اس نے لوگوں سے ملنا جلنا تو ترک کر ہی دیا تھااب گھر کے لوگوں سے بھی بات چیت بہت کم کرتا تھا۔ مارننگ واک کے بعد یا تو وہ گھرمین اخبار پڑھتا  رہتا،یا پھر بستر پر لیٹا رہتا اور اپنی ہی سوچوں میں گم رہتا۔عجیب عجیب بیماریوں کی علامتیں اُسے اپنے اندر دیکھائی دینے لگتیں اور گھبراہٹ کے مارے اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں۔

                                ”ڈیڈ...... تم کو اب پابندی سے چرچ بھی جانا منگتا!“ اس کا بیٹا پھر ایک بار اس کے مقابل بیٹھا تھا۔

                                ”چرچ___وہ تو ہم پہلے روز جاتا تھا۔“

                                ”ڈیڈاب آپ کو روزجانا منگتا۔“

                                ”او کے کل سے ضرور جائے گا۔“اس کی آواز بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔

                                ”گڈ ڈیڈ! موت تو سب کو آئیگا بٹ جب آپ یسوع مسیح سے ملے گا تو وہ آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوگا۔“

                                اُسے اچانک محسوس ہوا جیسے موت کا فرشتہ دروازے پر کھڑا ہے۔

                                ”اور جب یہ فانی جسم بقاء کا جامہ پہن چکے گا، تو وہ قول پورا ہوگا، جو لکھا ہے کہ موت فتح کا نغمہ ہوگی، مگر خدا کا شکر ہے جو ہمارے خدا وند یسوع مسیح  کے وسیلے سے  ہم کو فتح بخشتا ہے۔ بس ائے میرے عزیز بھائیوں ثابت قدم اور قائم رہو، اور خدا وند کے کام میں ہمیشہ افزائش کرتے رہو کیونکہ یہ جانتے ہوکہ تمہاری محنت خداوند میں بے فائدہ نہیں ہے۔“

                                دوسرے ہی دن وہ چرچ کی طرف جا رہا تھا۔ چرچ تک پہنچنے کے لیے اُسے مین سڑک کو چھوڑ کر اُس پگڈنڈی پر بھی چلنا تھا جو جو چھوٹی سی پہاڑی پر واقع چرچ تک پہنچاتی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھا رہا تھا۔ پہاڑی پر چرچ کی عظیم الشان عمارت کھڑی تھی۔ چاروں کونوں پر بڑے بڑے بُرج بنے ہوئے تھے۔ اُن پر مثلث نما گنبد تھے۔ اور گنبدوں کے اوپر صلیبیں استادہ تھیں۔ چرچ کا عالی شان بلند دروازہ کھلا ہوا تھا۔ لوگ عقیدتوں میں ڈوبے ہوئے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔

                                آج کچھ بھیڑ زیادہ ہی تھی۔ اُس نے دل میں سوچا اور جلدی جلدی قدم اُٹھانے لگا۔ پہاڑی کی بلندی پر پہنچ کر اُس نے نیچے کی طرف دیکھا، ڈھلان پر غریبوں کی بے شمار جھونپڑیاں تھیں اور اُن کے ننگ دھڑنگ بچے ادھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ اُس نے جھونپڑیوں سے نظریں اُٹھاکر چرچ کی عالیشان عمارت کی طرف دیکھا۔ چرچ کے بلند دروازے پر ایک خوبصورت حلقہ بنا ہوا تھا۔ اور اُس میں ماں مریم کی نہایت خوبصورت سنگ مرمر کی مورتی تھی۔ بے اختیار وہ دل ہی دل میں بدبدایا، مدر یہ غریب لوگ ہی اب تک تیرے سے جڑا ہوا ہے۔ جیسے مسیح کے ٹائم پر بھی وہ مسیح کے ساتھ تھا۔ تم اُن کے واسطے کچھ کیوں نہیں کرتا،ہم سمجھ گیا، کیونکہ اگر یہ خوش حال ہوگیا تو یہ جگہ چھوڑ دے گا اور بلڈنگوں میں آباد ہوجائے گا۔ تم اکیلا رہ جائے گا۔ بٹ مدر ہم تم کو بتاتا ہے، یہ انڈیا ہے۔ یہ جب تک دُنیا کے میپ پر رہے گا اِدھر سے غریبی نہیں جائے گا۔ تمہارا پڑوسی ہمیشہ باقی رہے گا۔

                                وہ چرچ میں داخل ہوا۔ اندر کی جگمگاہٹ دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ چھت پر لٹکے ہوئے بڑے بڑے فانوس روشن تھے۔روشنی سے ہر چیز جگمگا رہی تھی۔  عالیشان فرنیچر تھا۔ معبد مقدس کے چبوترے پر بے شمار موم بتیاں روشن تھیں۔ اُس پر ایک چھوٹی سی سنگی تپائی تھی، اور اُس پر انجیل ِ مقدس رکھی ہوئی تھی۔لوگ دو  رویہ  بینچوں پر بیٹھے ہوئے تھے، اور رئیس شہر کا انتظار کر رہے تھے۔ جو حال ہی میں منتخب ہوا تھا۔ وہ بھی ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔سامنے کی دیوار پر یسوع مسیح کا نہایت خوبصورت پورٹریٹ بنا ہوا تھا۔ وہ اب بھی صلیب پر موجود تھے۔ چرچ کے کا رندے،نن اورپادری کا نصاب مکمل کرنے والے طلباء کے ہم آہنگ گیتوں اور گھنٹیوں کی آوازوں سے ساری فضا گونج رہی تھی۔ پورے ماحول پر تقدس کی فضا چھائی ہوئی تھی۔  اچانک پچھلے راستے سے رئیس شہر،پادریوں کے جھرمٹ میں چرچ میں داخل ہوا۔ سب لوگ اُس کے استقبال کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ حمد کی لئے تیز ہوگئی۔ گھنٹیوں کے بجنے کی رفتار میں اضافہ ہوگیا۔

                                بڑے پادری نے اُسے معبد ِ مقدس کے چبوترے کی طرف لے کر گیا۔ چرچ کے اُصولوں کے مطابق اُسے لباس ِ فاخرہ عطا کیا گیا۔ روشنی پوری شدت کے ساتھ رئیس کلیسا کے چہرے پر پڑی اور جان حیران نظروں سے اُسے دیکھنے لگا۔ پادری نے اُس کے ہاتھوں میں عصائے کلیسا تھما دیا تھا۔ وہ سب معبد مقدس کے چبوترے کے اطراف چکر لگانے لگے۔ اُن کے پیچھے پیچھے بہت سارے پادری تھے۔ جن کے ہاتھوں میں شمعدان تھے۔ اُن میں سے بعض نے جلتے ہوئے لوبان کے تھال اُٹھا رکھے تھے۔

                                جان اُس وقت پھٹی پھٹی آنکھوں سے سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ یہ پیٹر بلیک مارکیٹر رئیس ِ شہر کیسے بن گیا؟ مدر مریم تم دیکھ رہا ہے۔ پادری معبد خاص کے چبوترے سے لگ کر  حمد و ثنا میں مصروف تھا، اور جان کے دل و دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے۔ ائے مقدس مسیح تم ادھر فانوسوں کی جھوٹی روشنیوں میں جگمگاتا ہے۔ چوتھے آسمان سے زمین کو نہیں دیکھتا، دیکھ تیرے چاہنے والے آج بھی جھونپڑیوں ہی میں بستا ہے۔ ائے عظیم الشان چرواہے تیری اُس بھیڑ کو ان بلیک مارکٹیوں نے پھاڑ ڈالا ہے۔ ائے ہمیشہ زندہ رہنے والے  مقدس باپ کے مقدس بیٹے  تم کو ایک بار پھر زمین پر آنا مانگتا۔۔۔۔۔

                                دکھ اور غصے سے اُس کا سر پھٹا جا رہا تھا۔ وہ خاموشی سے چرچ سے باہر نکل گیا اور بنا سوچے سمجھے اُس کے قدم اُٹھ رہے تھے۔ اچانک اُسے احساس ہوا کہ غصے کے باعث اُس کی دھڑکن تیز ہوگئی  ہے ۔  اُس کے پیر کپکپانے لگے ہیں، ”مسیح ہم ساری زندگی تیرے عہد نامہ سے بندھا رہا، تیرے بتائے ہوئے راستوں پر چلتا رہا، تم ہم کو کیا دیا؟ ایک کمزور بدن، اور جیتے جی وہ غذا جس میں کوئی لذت نہیں؟  تم اُن کو وہ سب  دیا جو تمہارے راستے پر کبھی چلا ہی نہیں، رشوت خور، بلیک مارکیٹر، کالا روپیہ جمع کرنے والا معبد ِ خاص تک پہنچ گیا اور ہم۔۔۔۔ ہم چرچ سے باہر۔۔۔

                                وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھا رہا تھا۔ دھوپ میں تیزی آنا شروع ہو گئی تھی۔ سڑکوں پر ٹریفک بڑھ گئی تھی۔ چاروں طرف ایک شور تھا۔ اُسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب جھیل کے قریب پہنچ گیا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے تا اُفق جھیل کا پانی پھیلا ہوا تھا۔ آسمان میں پرندے اُڑ رہے تھے۔ وہ جھیل کے کنارے بنی ہوئی سنگی بینچوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا، اور جھیل کے اُس حصّے کی طرف دیکھنے لگا جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تیر رہے تھے۔ ایک دوسرے کو چھیڑ رہے تھے۔ ایک دوسرے پر پانی اُچھال رہے تھے۔اِدھر اُدھر اور بھی لوگ تھے جو سنگی بینچوں پر بیٹھے جھیل کا نظارہ کر رہے تھے۔ناریل کے درختوں کے جھنڈ سے پرے وہی فٹبال کا میدان تھا اور غالباً اب بھی کوئی میچ کھیلا جارہاتھا۔وقفے وقفے سے سیٹیاں گونج رہی تھیں۔ اس نے ایک طائرانہ نظر گراونڈ پر ڈالی اور پھر سوچوں میں گم ہو گیا۔اُس کا دل اب بھی عجیب عجیب وسوسوں سے گھِرا ہواتھا۔پتہ نہیں وہ کب تلک سوچتا رہا۔اُس نے اپنی آنکھیں بھی موندلیں تھیں۔شاید وہ اپنی ہی سوچوں سے نبرد آزما تھا کہ ٹھیک اسی وقت کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، اُس نے فوراً آنکھیں کھول دیں اور پلٹ کر دیکھا۔نیلی جینس پینٹ اور پیلی جرسی میں ملبوس کوئی جانی پہچانی صورت دکھائی دے رہی تھی۔

                                ”جان۔۔۔میرے کو نہیں پہچانا___؟یار۔۔۔۔ میں شبیر ہوں۔تیرے بچپن کا دوست!“

                                ”شبیر___“ وہ اُچھل کر کھڑا ہو گیا اور اس کے گلے لگ گیا،”کدھر تھا تم مین اتنے دنوں سے؟“

                                ”گوا میں۔۔۔وہاں میرا فشیری کا بزنس ہے۔“وہ اسے لے کر دوبارہ بینچ پر بیٹھتا ہوا بولا”اور تم___“یہ کیا سونگ اُٹھایا ہے بوڑھے کی مانند،یہ اوور کوٹ،گلے میں بیماروں کی طرح مفلر،آنکھوں میں اس قدراُداسیاں ......میرے یار کیا ہو گیا ہے تم کو__؟“

                                ”کچھ نہیں یار۔۔۔ابھی ہم اِدھر اپنی ڈیوٹی سے ریٹائرڈ ہو گیا ہے۔“جان کے لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ تھی۔

                                 اُس نے اُس کی مایوسیوں کو پڑھ لیا تھا۔ اُسے جان پر ترس آنے لگا،  ”جان___! تم صرف ڈیوٹی سے ریٹائرڈ ہوئے ہو،زندگی سے نہیں۔“اُس نے اپنی چھاتی کو پُھلایا،”مجھے دیکھ عمر تو میری بھی بڑی ہے۔لیکن میں بوڑھا نہیں ہوا۔ وہ......وہ اُدھر اپنا فٹبال کا گراؤنڈ تھانا......ارے اب بھی ہے،میں وہیں پر تھا۔لڑکے میچ کھیل رہے تھے اور میرا دل باربار اُچھل رہاتھا کہ میں بھی کھیل میں شامل ہوجاؤں ......“ وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور جان کے مقابل کھڑا ہوتے ہوئے گویا ہوا،”تم کو یاد ہے نا۔ہم دونوں اسی گراؤنڈ پر تو کھیلا کرتے تھے۔“

                                ”ہوں __“ جان کے لبوں سے آہستہ سے نکلا۔

                                ”اور جان! کھیل کے بعد یہی جھیل تھی جس میں ہم دونوں گھنٹوں تیرا کرتے تھے؟یاد آیا نا۔“

                                جان کی آنکھوں میں لمحہ بھر کے لئے چمک پیدا ہوئی۔”شبیر تم سالا بالکل بوڑھا نہیں ہوا۔“

                                ”ہوتا بھی کیسے__؟“  شبیر نے قہقہہ لگایا،”میں تمہاری طرح گورنمنٹ جاب میں تھوڑا ہی تھا جو ریٹائرڈ ہو کر بوڑھا ہوجاتا؟ دیکھ......اب بھی فٹ ہوں!“اس نے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بنائیں اور ہاتھوں کو ہوا میں لہرایا،”مگر تم گورنمنٹ کے غلام ریٹائرڈ ہوتے ہی اپنے آپ کو خود ہی بوڑھا بنالیتے ہو، یار جیو جی بھر کر جیو! زندگی ایک  ہی بار ملتی ہے......“وہ پھر بینچ پر بیٹھ گیا،”چل جان میرے کو بتا تیرے کو بلڈ پریشر ہے؟“

                                ”نہیں تو.......!“ جان نے فوراً جواب دیا۔

                                ”میرے کو بھی نہیں ہے اور شوگر___؟“

                                ”وہ بھی نہیں ہوا ابھی تک!“

                                ”گڈ! لیکن تم پھربھی احتیاط کا کھانا کھاتے ہونگے۔لوگوں کے ڈراؤنے مشوروں کو سچ سمجھتے ہونگے.......جان! اس بکواس سے باہر نکلو،یہ کیا بیماروں کی طرح بیٹھے ہو، چلو آج ہم دونوں پھر ایک بار اس جھیل میں نہاتے ہیں، اور دیکھتے ہیں  اُس ٹارگیٹ  تک پہلے کون پہنچتا ہے؟ ‘‘

                                جان نے حیرت سے کبھی شبیر کی طرف اور کبھی جھیل کی طرف دیکھا۔ پھر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ کِھل اُٹھی۔ اُس نے گلے سے مفلر کو نکال پھینکا اور اوورکوٹ کو اتارتے ہوئے شبیر کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا،”ہوجائے.......ابھی دیکھیں گا، کس میں ہے کتنا دم!“

                شبیر کا قہقہہ جھیل کی لہروں پر اُچھلتا ہو افٹ بال کے گراؤنڈ سے ہوتا ہوا آسمانوں میں گونجنے لگا۔

 

٭٭٭

 

 

Noor ul Hasnain                   

1-12-31 pargati colony ghati

Aurangabad      

431001(M.S)     

 mob: 09890849736

 

 

 

 

 

                 

 

 

 

 

 

                  

Read 2557 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com