الإثنين, 10 تشرين2/نوفمبر 2014 08:17

بھید : جمیل عباسی - سندھ،پاکستان

Rate this item
(0 votes)

  بھید
  جمیل عباسی 
  سندھ،پاکستان


                               سعیداﷲ صاحب جیسا انسان میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔ میٹھی طبیعت، ٹھنڈے ٹھار شخص، پر سکون چہرہ اور صلح کل کے علمبردار۔ جب بھی مجھے وہ راستے میں نظر آتے بھاگ کر ان سے لپٹ جانے کا جی کرتا تھا مگر لڑکیوں کی دوری بنائے رکھنے والی مجبوری آڑے آجاتی۔ صبح کو اسکول جاتے وقت وہ اکثر راہ میں روبرو ہوجاتے۔ اس وقت وہ اپنی بک شاپ کی طرف جارہے ہوتے جو شہر کی مرکزی بازار میں قائم تھی۔ مجھے دیکھتے تو قریب آکر سر پر ہاتھ پھیرتے اورابا کا احوال پوچھتے ۔ ابا ایک رسالے میں سب ایڈیٹر تھے اور مطالعے سے دل رکھتے تھے اس لئے سعیداﷲ صاحب سے اچھی دوستی اور قربت تھی۔ اکثر ان کی شاپ پر جاتے رہتے تھے۔ کبھی کبھار میں بھی ساتھ چلی جاتی تھی ۔ شاپ پر میرے پہنچتے ہی سعیداﷲ صاحب میرے سر پر ہاتھ پھیرنے کے بعد بک شاپ میں کام کرنے والے لڑکے امتیاز سے کہتے 
                              ”صاحب ذرا ثمینہ بیٹی کواس کی مرضی کی بکس نکال کر دو تب تک میں ندیم میاں سے دو ہاتھ کرلوں۔“ سعیداﷲ صاحب امتیاز کو ہمیشہ ”صاحب“ کہتے تھے اور آنے والوں کو بتاتے ”بھئی ہم تودکھاوے کے لئے ہیں۔ اصل مالک تو امتیاز صاحب ہیں۔ وہی سارا کام کرتے ہیں، دیکھتے ہیں۔ ان کی مہربانی ہے کہ خود کھڑے ہوکر ہمیں کرسی پر بٹھا رکھا ہے۔“ امتیاز مجھے کتابیں نکال کر دیتا اور میں کرسی پر بیٹھ کر انہیں الٹنا پلٹنا شروع کردیتی۔ ادھر ابا اور سعیداﷲ صاحب کی باتیں چلتی رہتیں جو ایک مباحثہ سے ذرا کم درجے پر ہوتیں۔ ابا لیفٹیسٹ، ہر بات اور واقعے کو عقل سے پرکھنے کے عادی، ادھر سعید اﷲ صاحب اپنے ہی مزاج کے تھے۔ کسی بات میں شبہ رکھنا، کسی کو غلط جاننا ان کے مسلک میں ہی نہیں تھا۔ ابا جب کبھی ان سے کسی انسان کی غلط کاری،افسر کی کرپشن یا سیٹھ کو ذخیرہ اندوزی کی خبر کرتے اور اس شخص کے بارے میں کچھ بولنے لگتے تو سعیداﷲ صاحب اس بات کی تسلیمیت سے منکر ہوجاتے۔ وہ بڑی ہی رس بھری زبان سے ابا سے کہتے 
”ندیم صاحب آپ نے اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت پالی ہے یا بھیدوں کو جاننے کا عمل سیکھ لیا ہے؟ چیزیں جیسی نظر آتی ہیں وہیں تک ان کو دیکھا کرو، تم باطن تک پہنچنے کی کوشش کیوں لگاتے ہو؟“ 
                              ”سعیداﷲ صاحب آپ نے آنکھوں پر کھوپے چڑھا کر رکھے ہیں اور آپ کو روز روشن میں بھی دیکھنا پسند نہیں تو کوئی کیا کرے“ ابا ان کی بات پر چڑ جاتے۔
                                ”ندیم صاحب بات یہ ہے آپ باطن کو جاننے کی آرزو رکھتے ہیں اورہم ظاہر تک پہنچنے کے قابل بھی نہیں ہوئے۔ سو ہم کو یہ ظاہر ہی بھاتا ہے اور پسند ہے۔ “ اور پھر ان کے معصوم چہرے پر شوخی کے نرم تاثرات ابھرتے ”بھئی وہ کہتے ہیں نا پسند اپنی اپنی۔“ سعیداﷲ صاحب یہ کہہ کر درمیانہ آواز میں قہقہہ لگاتے اور اسے اس وقت تک جاری رکھتے جب ابا بھی ان کے قہقہے میں شریک ہوجاتے۔
ان دنوں جب میں نویں کلاس میں تھی اور میرا جسم جسمانی تبدیلیوں کی زد میں تھا ، ایک دن میں نے اماں کی اباسے کی ہوئی باتیں سن لیں۔ اماں ابا کو سعیداﷲ صاحب کی بیگم زینت کے بارے میں خبر کر رہی تھیں۔ زینت جو ایک اسکول میں پڑھاتی تھیں بقول اماں کہ اسکول کے ہی ایک ماسٹرداؤد احمد کے ساتھ ان کے بارے میں کچھ ناصحیح قسم کی باتیں ہورہی ہیں ۔
                              ”شہربانو تم کب سے ایسے خیال رکھنے لگی ہو کہ کسی کے کردار کے بارے میں ناشائستہ سوچو؟“ شایدابا کو اماں کی بات بالکل نہ بھائی تھی ۔
                                 ”اے ہے میں کیوں ایسے کہنے لگی؟؟ پچھلے چھے ماہ سے ہر طرف یہی باتیں ہورہی ہیں۔ تمہیں اس لئے بتا رہی ہوں کہ اپنے دوست کو بتادو کہ وہ اپنی بیوی پر کچھ نظر تو رکھے۔“دو دن بعد جب ابا سعیداﷲ صاحب کے ہاں جانے لگے تو میں بھی ساتھ ہولی۔ ابا نے کنی کترانے کی بہت کوشش کی مگر میں بھی اپنے ہٹ کی پکی تھی۔ ساتھ جاکر ہی دم لیا۔ بک شاپ میں پہنچ کر سعیداﷲ صاحب سے پیار لے کر میں قدرے لاتعلق ہوکہ راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کی بک اٹھاکر پڑھنے لگی۔ ابا نے مجھے لاتعلق محسوس کرکے سعیداﷲ صاحب سے بات چیت شروع کی۔ میرے تمام تر حسیات کا دائرہ ان دونوں کی طرف لگا ہوا تھا۔ رات سے ہی مجھے کھوج لگی ہوئی تھی کہ اس معاملے پر کیا باتیں ہوتی ہیں اور کیا حل نکلتا ہے۔ شاید یہ کھوجی طبیعت ابا سے مجھ میں آئی تھی۔ ابا نے شروعات ادھر ادھر کے واقعات سے کی اور پھر جب اصل بات پر آئے تو ان کے لہجے میں جھجھک آنے لگی۔
                                   ”سعیداﷲ صاحب وہ ایسے ہے کہ بات کچھ مناسب نہیں اور ابھی تک میں خود بھی بات کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کر پایا۔ مگر یوں بھی ہے کہ نہ بتانا زیادہ نامناسب لگتا ہے۔“ ابا کی زبان سے اٹک اٹک کر جملہ پورا ہوا۔
”ندیم صاحب نامناسب بات کچھ نہیں ہوتی۔ بات صرف بات ہی ہوتی ہے اور اس کی کوئی شکل تھوڑی ہوتی ہے کہ مناسب یا نامناسب ہو۔“ 
”سعید بھائی وہ بھابھی زینت اور داؤد احمد کے بارے میں کچھ غلط باتیں سننے میں آ ئیں۔ مجھے تو بہت برا لگا۔ پھر جب معلومات لیں تو تصدیق ہوئی کہ واقعی ایسے ہی ہے۔ تو آپ ذرا بھابھی کو سمجھائیں اور خیال رکھیں۔“ ابا نے بات ختم کی تو سعیداﷲ صاحب کے روشن چہرےپر معصومانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
”ندیم صاحب زینت خود سمجھدار ہے اور میں بھلا اس کا کیوں خیال رکھوں گا۔ وہ خود اپنا بہتر خیال رکھ سکتی ہے۔“
”سعید بھائی آپ مجھے اپنے سگوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ آپ کی عزت میری اپنی عزت ہے۔ داؤد کا کردار اچھا نہیں۔ وہ بھابھی کو بہکابھی سکتا ہے۔“
”کیا بہکائے گا ندیم صاحب؟“
                                        ”مجھے ایسے الفاظ کہنے پر معاف کیجئے گا مگر بشیر چپڑاسی کا کہنا ہے کہ زینت بھابھی داؤد کے ساتھ بھاگ جانے والی ہے۔“ یہ کہتے ہوئے شرمندگی اور افسردگی سے ابا کی پیشانی پر پسینے میں بھیگنے لگی۔
”ندیم صاحب مجھے آپ کی محبت اور تعلق میں خلوص کے سوا کچھ نہیں لیکن بھاگتے تو جانور اور غلام ہیں۔ زینت نہ تو جانور ہے نہ غلام۔ “ اتنا کہہ کر ہنس پڑے۔ پھر بات کو جوڑے ہوئے کہنے لگے”زینت ایک آزاد انسان ہے۔ اپنی مختار کل ہے۔ بالفرض محال اگر وہ جانا بھی چاہے تو میں کون ہوتا ہوں اسے روکنے والا؟ اگر وہ میرے ساتھ رہنے میں خوش نہیں ہے تو اسے حق ہے کہ وہ اپنی خوشی تلاش کرے۔ اور اگر وہ اسے کہیں بھی حاصل ہوتی ہے تو مجھے اس کی خوشی میں خوش ہونا چاہے۔ مجھے اس کی مرضی کے خلاف اس کا میرے ساتھ رہنا ٹھیک نہیں لگتا۔“ یہ کہتے ہوئے بھی ان کے چہرے پر نرم مسکراہٹ دھری تھی۔ ابا کے پاس کہنے کے لےے شاید کچھ نہ تھا۔ کچھ دیر خاموشی ہوگئی۔ پھر سعیداﷲ صاحب بولنے لگے
                                     ”ندیم صاحب اگرچہ جب میں سوچتا ہوں جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ زینت واقعی مجھے چھوڑ کر کسی کے ساتھ چلی جائے تو دل میں پتا نہیں کیوں ایک عجیب زخم زخم کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ مگر میرا خیال ہے میرے اندر ایسی کیفیت کا ہوجانا ٹھیک نہیں ہے۔ شاید جو کچھ میں زبان سے کہہ رہا اس میں مخلص نہیں۔ لیکن میں کوشش کروں گا کہ اپنے آپ کو درست کرلوں۔“ سعیداﷲ صاحب نے بات ختم کی تو ابا اٹھ کھڑے ہوئے اور سعیداﷲ صاحب کو کھینچ کر اپنے گلے سے بھینچ لیا
                                     ”یار پتا نہیں تم کہاں سے یہاں آگئے ہو؟“ بات ختم کرکے ابا جلدی سے بک شاپ سے اتر گئے۔ اتنی جلدی میں تھے کہ مجھے بھی بھول گئے۔ میں دوڑ کر جب ان کے ساتھ جا ملی تو دیکھا اباآنکھیں پونچھتے جارہے تھے۔ مہینہ ایک ہی گذرا کہ زینت سعیداﷲ صاحب کو چھوڑ کر چلی گئیں۔ رات کو ابا اماں سے باتیں کرتے ہوئے بار بار وقفے لیتے اپنی حالت پر قابو کرتے جاتے تھے
                                       ”شہربانو کیا بتاؤں مجھے جیسے ہی زینت کے جانے کا پتہ لگا میں اسی وقت سعیداﷲ کے پاس جا پہنچا۔ کیا عجیب آدمی ہے۔ مجھے کہنے لگا”ندیم صاحب اگر زینت مجھے کبھی زبان سے کہتی تو میں خود اسے وہاں چھوڑ آتا۔ لیکن زینت کی زندگی ہے، اس کی مرضی ہے۔ میں نے طلاق نامہ لکھواکر اسے پہنچوادیا ہے۔ اور ہاں مجھے اس کے جانے پر تکلیف تو ہوئی پراب کم ہے۔ میرا خیال ہے میں ابھی تک خود درست نہیں کرپایا۔“ سنا تم نے شہربانو۔؟ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ سعیداﷲ اس دنیا کا باسی ہی نہیں۔ وہ جیسے ہم سنتے ہیں نا کہ فرشتوں جیسی معصومیت ،تو بس سمجھو کہ ایسا ہی ہے۔“ 
”اے میاں اب بس بھی کرو۔ ہر وقت سعیداﷲ کے گن گائے جارہے ہو۔ یہ تو بے حیائی کی حد ہی ہے کہ کہتے میں اپنی بیوی کو خود وہاں چھوڑ آتا۔ تم بھی حد کرتے ہو کہ اس بے غیرتی کو فرشتوں کی سی معصومیت کہے جارہے ہو۔“ اماں ابا کی باتوں جلال میں آگئی تھیں۔
                                        ”یہ تمہارے اندرتمہارے ملا والد کا اثر گھسا ہوا ہے۔ او کم عقل جب خود ہی کہتے ہو کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے تو اسے آزادی سے اپنی زندگی گذارنے کا حق بھی تو دو۔ اگر زینت سعیداﷲ کے ساتھ زندگی بتانے میں خوش نہیں ہے تو اسے اختیار حاصل ہونا چاہے وہ جہاں چاہے، جس کے ساتھ چاہے اپنی زندگی گذاردے۔ اور مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ لوگ اپنا ان چاہا ہونا جاننے کے بعد بھی زندگی اکٹھے گذارنے پر یقین کیوں رکھتے ہیں؟ دراصل ہم لوگ انسان سے نہیں جانور سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ جو پالتو کی طرح ہو ۔اس کی خوشی غمی اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا حتیٰ کہ اس کے غیر اختیاری احساسات کی رسی بھی ہمارے قبضے میں ہو۔ وہ ہر گھڑی ہر پل وہی کرے جو ہماری سوچ اور خواہش کے عین مطابق ہو۔ شہربانو شاید یہ باتیں تمہیں سمجھ نہ آئیںگی لیکن ہم لوگ شادی بھی اس لئے کرتے ہیں تاکہ ایک اور انسان کی زندگی خود گذار سکیں۔“
                                        ”اے میاں تمہاری باتیں مجھے پہلے سمجھ آئی ہیں جو اب آئیں گی؟ اب میں نے چپ کرکے سب سن لیا نا؟۔ اور کوئی بات رہ گئی ہو تو وہ بھی سنا ڈالو تاکہ پھر میں آرام سے سو سکوں۔ نہیں تو پھر نیند سے اٹھا کر سناتے رہو گے۔“ اماں کو ابا کی بات پر تاؤ آرہا تھا۔ اس کے بعد خاموشی ہوگئی۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ ابا اب کچھ دن کم ہی بات کریں گے۔ زینت کے جانے کے چند دن بعد تک سعیداﷲ صاحب اکیلے رہے پھر ان کے ہاں ان کی بہن رضیہ خاتون رہنے کو آگئیں۔ رضیہ خاتون کے بارے میں عجیب عجیب کہانیاں محلے کے گھروں میں سفر کرتی رہتی تھیں۔ ان کی پہلی شادی ایک دیہاتی زمیندار کریم خان سے ہوئی تھی۔ شادی کے کچھ ماہ بعد ہی وہ اپنے شوہر کو دیہات میں سے اٹھا کر شہر میں آبسیں۔ چند سال بعد کریم خان کی فوتگی کے بعد انہوں نے اپنے سے کم عمر اور کریم خان کے بھانجے ذوالفقار سے بیاہ کرلیا۔ اسی بنا پر لوگ کریم خان کی بے وقت موت، اس کی دولت ہتھیالینے اور ذوالفقار سے اس کے تعلقات کے بارے میں عجیب عجیب باتیں پھیلاتے تھے۔ مگر ہمارے ہاں ایسے تذکرے کم ہی ہوتے کہ ابا کو ایسی باتیں متوحش کردیتی تھیں۔ خیر میں وقت کے ساتھ میٹرک میں جا پہنچی اور ان دنوں امتحانوں کی سخت تیاریوں میں دن گذارتی تھی کہ ایک شام اچانک ابا پریشانی و بدحواسی کے ساتھ گھر آئے گھر میں رکھے پیسے اماں سے لئے اور اسی طرح بغیر کچھ کہے سنے رخصت ہوگئے۔ اماں کو فکر مندی نے گھیرلیا کیونکہ ابا نے ان کے پوچھے جانے والے سوالات کا کچھ جواب نہ دیا تھا اور نہ ہی ایک لمحے کے لےے گھر میں رکے تھے۔ اماں وضو کر کے چوکی پر جابیٹھیں اور دافع بلیات کا وظیفہ کرنے لگیں۔ مجھے بھی ابا کی عجلت اور ہراساں صورت نے بے چینی میں ڈال دیا۔ میں ممکنہ پریشانیوں کے اندازہ لگاتی صحن میں گھومتی رہی۔ رات کو محلے کی مسجد کے لا ؤڈ اسپیکر سے اعلان سنائی دیا”سعیدﷲ صاحب انتقال کرگئے ہیں، جنازہ نماز کل صبح دس بجے عیدگاہ ادا کی جائے گی“۔ سن کر مجھے یقین نہیں آیا۔ جسم گویا تمام حواسوں سے خالی ہوگیا۔ عجیب سنسناتی کیفیت محسوس ہورہی تھی۔ یہ تب تک مجھ پر طاری رہی جب تک اگلے دن ابا سعیداﷲ صاحب کی تدفین سے فارغ ہوکر گھر نہیں آگئے۔ ابا کے آنے کے بعد میں ان سے لپٹ کر بہت روئی۔ ابا میری کیا ڈھارس بندھاتے خود ان کو آنسوؤں پر قابو نہ تھا۔ کافی دنوں بعد ابا جاکر سعیداﷲ صاحب کی موت پر بولنے کے قابل ہوئے۔ اس رات میں ان کی باتیں سن رہی تھی۔
                                    ”رضیہ جب سے اپنا گھر چھوڑ کر سعیداﷲ کے ہاں آٹھہری تھی مجھے تب سے ہی یہ خیال رہتا تھا کہ وجہ کیا ہے؟ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس کا شوہر اس کے لئے اچھی خاصی جائیداد چھوڑ کر گیا ہےاور موجودہ میاں ذوالفقار کی بھی تھوڑی بہت زمینداری ہے تو پھر اپنا بنگلہ چھوڑ کر سعیداﷲ کے گھر رہنا؟ یہ بات میرے ذہن میں سوالات پیدا کرتی تھی اور پھر مجھے سوالوں کا جواب مل گیا۔“ ابا نے اتنی بات کہی پھر ہچکیوں نے ان کی باتوں کا دم گھونٹ دیا۔ ”اور اچھا ہوا کہ سعیداﷲ مر گیا ۔ اگر ایسے الزام کے بعد وہ زندہ رہتا تو میرے اندر اسکے زندہ رہنے پر سوالات پیدا ہوجاتے۔رضیہ نے صرف دوکان اور جگہ پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے معصوم بھائی پر ایسا گندہ الزام لگادیا کہ اس کا دل سہار نہ سکا اور پھٹ گیا۔ میں آفیس میں تھا جب مجھے فون آئی کہ سعیداﷲ کو دل کا دورہ پڑا ہے اور وہ ہسپتال میں تمہیں یاد کر رہا ہے میں بھاگم بھاگ پیسے اٹھا کر وہاں پہنچا۔ سعیداﷲ مشینوں میں جکڑا ہوا تھا دوتین ڈاکٹر اس کے گرد کھڑے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا کہ میرے پاس وقت نہیں۔ ڈاکٹروں کی کوششیں کچھ کام نہ آئیں گی۔ میری بات سن لو ۔میں اب زندہ نہیں بچنے والا۔ پھر میرے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے اپنے قریب ہونے کو کہا اور اپنی نحیف آواز میں کہنے لگا”ندیم میاں میں ہمیشہ تمہیں کہتا تھا کہ چیزوں کو ان کے ظاہر سے دیکھا کرو۔ ان کے بھید اور باطن تک نہ جایا کرو مگر میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اس بات کے ظاہر تک نہ رہنا، اس پر اعتبار مت کرلینا۔ رضیہ نے مجھ پر اپنے ساتھ زنا کا الزام لگایا ہے۔ ندیم میاں تم جانتے ہو کہ میں اتنا نیچ اور کمینہ نہیں ہوسکتا۔“ شہر بانو اس جملے کے بعد بھی سعید الله بولتا رہا مگر میں کچھ سمجھ نہیں پایااور پھر بولتے بولتے اس کی ڈوبتی ابھرتی آواز خاموش ہو گئی۔ اتنا کہہ کر ابا ہچکیاں لے کے رونے لگے۔ مجھے اماں کی سسکیاں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ 
                              ”شہربانو مگر ایک اور بات بھی ہے جب کا بھید میری سمجھ سے باہر ہے۔ آج شام قبرستان گیا اور فاتحہ پڑھ کر واپس ہونے لگا تو گورکن نے آکر راستہ روکا۔ کہنے لگا کہ بابو جی ایک عجب بات روز دیکھتا ہوں مجھ ان پڑھ کو سمجھ میں نہیں آتی۔ رات کے آخری پہر میں کتے آکر اس قبر کے گرد بیٹھ جاتے ہیں اور پھر پو پھوٹنے تک تھوتھنیاں آسمان کر طرف اٹھائے روتے رہتے ہیں۔“ٍٍ

Read 2807 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com