السبت, 03 كانون2/يناير 2015 12:28

شجر تنہا : الحاج محمد بشیر شاد

Rate this item
(0 votes)

الحاج محمد بشیر شاد

Athens, Greece


شجر تنہا


                               سرسبز پہاڑی سلسلوں میں وادیوں کی پہچان ان کے باسیوں سے ہوتی ہے۔ وہاں کے رہنے والے اپنی اور اہل و عیال کی بودوباش اپنی بساط کے مطابق کرتے ہیں۔ کھلی معطر آب و ہوا میں آلودگی کی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ پہاڑوں کی چوٹیوں سے پھسلتا پانی کا ریلا ڈھلوان تک رسائی کرنے سے پہلے پہلے آبشار کی صورت اختیار کر لیتا ہے ،ترنم کی راحتیں میسر آتی ہیں اور انمول گیتوں کی دھنیں تیار کرنے والے وہاں نوتخیلاتی ماحول سے لامتناہی مسرتیں حاصل کرتے ہیں وہ اپنی دھنوں کو آبشار تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ بلند و بالا چیڑ و چنار کی لہلہاتی اور سائیں سائیں کرتی آوازوں کو بھی خود میں سمو لیتے ہیں۔ پرندوں کے چہچہانے اور رب العزت کے گیت گانے والے خوش الہانوں سے بھی بہت کچھ مل جاتا ہے ۔ آنکھیں بند کئے کسی پہاڑی کے دامن میں کچھ دیر کے لئے دنیا و مافیا کے فانی دھندوں سے ہٹ کر صرف اور صرف اس پاکیزہ ماحول میں خود کو مدغم کر کے دیکھیں دلی راحتیں میسر آئیں گی۔ 
                             شہری زندگی میں محدود ذرائع اور لامتناہی خواہشات انسانی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہیں لیکن اس کے برعکس صاف و شفاف وادیوں کے مکین اپنی سادگی کے لمحات کو مشکلات سے مبرا رکھتے ہیں ۔ ان سب کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ معمولات زندگی کی ہر بنیادی شے وہیں سے میسر آ جائے وہ کسی دوسرے کا محتاج ہونا پسند نہیں کرتے۔ چھوٹے چھوٹے مکانوں میں پلنے والے نومولود قدرتی نعمتوں سے استفادہ کر کے پروان چڑھتے ہیں اور یہی قدرتی رنگت ان کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے ۔ ننھے منے بچوں کے کھیل کود کے انداز بھی ماحول کے مطابق ہوتے ہیں ٹھنڈی آب وہوا کی تاثیر گرم علاقوں کی نسبت مختلف عہوتی ہے اور ایسے موسم جغرافیائی خدوخال کی اقدار بھی الگ سے ترتیب دیتے ہوئے ہر ذی روح پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ انسان تو انسان یہاں کے طویل قامت شجرات باوجود سخت چٹانوں اور اجسام کو شل کرنے والی سخت سردی کے یہاں پھلنے پھولنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
گردوں کو چھونے والی چوٹیوں پر سے نیچے نظر دوڑائی جائے تو ایک سڑک ٹیڑھی ترچھی اس طرح لگتی ہے جیسے پگڈنڈی ہو جس کی کوئی طرف سیدھی نہیں ، صبح آنے والی بس بمشکل اس پہاڑی علاقے میں دوپہر تک اپنا سفر جاری رکھتی ہے ۔ اونچائی پر پہلے دوسرے گیئر کے علاوہ تیسرے گیئر کی ضرورت ہی نہیں رہتی اور جہاں انجن گرم ہوا وہیں پچھلے ٹائروں کے نیچے پتھر رکھ کر گاڑی کھڑی کر کے اس کے انجن کو قدرے آرام دینا ڈرائیور کنڈیکٹر کا فرض اولین بن جاتا ہے اور بس میں سوار ہر مسافر اس کی وجہ تسمیہ بخوبی جانتا ہے اور زیادہ تر مسافر بس سے نیچے اتر آتے ہیں اس وقت ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے بس پر زیادہ بوجھ تھا اور مسافرین نے کل پرزوں کی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے ایسا قدم اٹھایا ہو بس آخری منازل طے کرتے ہوئے ایسے مقام پر جا پہنچی جہاں راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ 
                            نصف گھنٹے کے بعد بس پھر سے رواں دواں ہو گئی ۔ مسافرین کی کثیر تعداد بس میں سوار ہو گئی اور ڈھلوانی سفر پھر سے شروع ہو گیا ۔ راستے میں مزید مسافرین بس پہ سوار ہوئے اور چند ایک مسافروں کو بس کی چھت پر مجبوراً اپنا سفری جاری رکھنا پڑا۔ دوپہر اپنے جوبن پر تھی ۔ سورج کی شعاعیں اپنی گرمائش بے شک ہر سو پھیلا رہی تھیں لیکن موسم میں خنکی کی بناءپر میدانی علاقوں جیسی گرمی نہیں تھی۔ سڑک کے کنارے دوطرفہ چیڑ و چنار سرگوشیوں میں مشغول بس کی چھت پر موجود مسافرین کو کبھی کبھار اپنی آزاد شاخوں سے مس کرنے کی سعی کرتے تو مسافرین جھکتے ہوئے ان کے والہانہ پیار کا جواب دینے پر خود کو چوکس رکھے ہوئے تھے۔ یہ کھیل چلتا رہا اور خاص کر میدانی علاقے کے ایک دیہاتی کی مائع لگی پگڑی کا اونچا شملہ اس پیار بھرے کھیل کا کچھ زیادہ مستحق رہا چیڑ کی دو شاخوں کے بیج شرارت پہ اتر آئے ۔ ایک نے دوسرے سے سرگوشی کی ، کیا خیال ہے کریں سفر اس پگڑی میں اور ہوا کے جھونکے نے ایک شاخ کے بیج کو پگڑی کی تہوں میں سو دیا۔ دوسری شاخ کا بیج وہیں زمین بوس ہو گیا، دونوں بیجوں کی جدائی کا سفر شروع ہو گیا پگڑی کی تہووں سے خدا حافظ کی آواز ہوا میں تحلیل ہو کر پوری وادی میں بکھر گئی لیکن اس کا کوئی پرسان ِ حال نہ ہوا سفر جاری رہا
                               سہ پہر ہو چکی تھی بس ایک جگہ رکی مسافرین نے نیچے اتر کر استراحت کے لئے چہل قدمی بھی کی۔ بہت سے مسافرین نے چائے کے مزے بھی لوٹے، بس کی چھت پر سوار چند مسافرین میں سے ایک دو نے نیچے آنے کی زحمت کی مبادا کوئی مسافر یہاں اتر جائے تو ان کو بس کے اندر جگہ میسر آ جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ پگڑی والا مسافر چند لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے آنکھیں موندھے آرام کرنے لگا بیج تڑپ اٹھا، نجانے یہ مذاق کتنا مہنگا پڑے گا وہ سوچ کی عمیق گہرائی میں ڈوبا ایک تمنا لئے اسی انتظار میں مستغرق تھا کہ کب یہ دیہاتی سر سے پگڑی اتار کر الٹی سیدھی کرے گا اور اس کی جان چھوٹے گی ایسا نہ ہو سکا، بس کے ڈرائیور نے اسے پھر سے متحرک کر دیا اور اونچی چٹانوں کے خدوخال معدودے چند رہ گئے۔ درمیانی پہاڑی سلسلوں کو بس پھلانگ رہی تھی ، گرمی کا تاثر بھی محسوس ہونے لگا تھا اور پگڑی کی تہووں میں بیج کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی تھی۔ اپنے ماحول کو چھوڑنے کا قلق، ساتھیوں سے علیحدگی اور پگڑی میں مقید زندگی پر اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ وہ بے یارومددگار ایک انجانے سفر پر گامزن تھا، جس کی منزل کہاں ہو گی اور اس کا کیا بنے گا۔ یہ سب کچھ اسے چیخنے کے لئے مجبور کر رہاتھا لیکن اس کی پکار اور واویلا کون سنے گا کس ناکردہ گناہ کی سزا اسے بھگتنا ہوگی۔ دیہاتی نے پگڑی کو دونوں ہاتھوں سے تھاما اور بیج کا اندرونی خلفشار خوشی میں تحلیل ہوتے ہوتے رہ گیا جب اس نے پگڑی اتارنے کی بجائے اسے مزید مضبوطی سے سر پر مسلط رکھا۔ 
                                بس ایک جھٹکے سے رکی اور مسافرین کی تعداد میں قدرے کمی واقع ہو گئی ۔ کنڈیکٹر نے چھت پر موجود تمام مسافروں سے درخواست کی کہ وہ بس کے اندر سیٹوں پر تشریف لے آئیں ، چھت کے مسافرین سیٹوں کی خوشی میں جلدی جلدی نیچے اتر رہے تھے ۔ پگڑی والے دیہاتی کا چھت سے نیچے اترتے اترتے سیڑھی کے ڈنڈے سے پاؤں پھسلا بھی لیکن پگڑی وہیں کی وہیں رہی اور اونچے شملے کا وقار برقرار رہا۔ بے چارہ بیج اس نادر موقع سے بھی محروم رہا بس کے اندر گرمی زیادہ تھی ، میدانی علاقے کی آب و ہوا اجسام کو پسینے میں شرابور کئے ہوئے تھی کچھ نازک اندام اپنے ہاتھ کے پنکھوں سے گرمی کی حرارت کو کم کرنے کی پوری کوشش میں مصروف تھیں اور باقی ماندہ بس کی کھڑکیوں کے شیشے مکمل کھولے باہر کی ہوا سے پسینے کو خشک کرنے میں محو تھے ۔ آب و ہوا کی تبدیلی بیج پر ہتھوڑے برسا رہی تھی۔ وہ نیم بیہوشی کے عالم میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہا اور بالآخر وہ مقام آ پہنچا جہاں دیہاتی کا گاؤں نزدیک آ گیا، چند ہی لمحوں میں دیہاتی کے قدم بس سے اترتے ہوئے زمین پر آ لگے، زمین کی تپش سے درجہ حرارت واضح تھا بس چلی گئی اور دیہاتی نے اپنے کپڑوں کی جھاڑ پونچھ کر کے پگڑی کو سر سے اتار کر اپنا حلیہ ٹھیک کرتے ہوئے پگڑی کے بل کھول دیئے۔ بیج ریتیلی تپتی زمین کی سطح پر آ گرا، یہاں یقینا اس کا اختتام ہو جائے گا۔ اسے رہ رہ کر پہاڑی سلسلوں کی بودوباش کا خیال بڑی شدت سے آ رہا تھا ، گرم گرم چلنے والی لو کی رو اس کی قوت برداشت سے باہر ہو رہی تھی۔ دیہاتی نے پھر سے پگڑی کے بل بڑی ترتیب سے سر پہ سجائے اور جھٹک کر تولئے کو پھر سے کندھے پر سجایا لیکن بیج کے لئے اب کوئی امید کی کرن باقی نہ رہ گئی۔ وہ ٹھنڈی رتوں سے بہت دور ایک ایسی جگہ پر آن گرا تھا جہاں اس کی بہاریں خزاں کے تھپڑوں سے نبردآزما تھیں۔ دیہاتی کے پاؤں میں پڑی چمڑے کی وہ جوتی بیج پر اس قدر بوجھ بن گئی کہ اس کی آہیں تک جھلسی زمین میں دھنس گئیں۔ تپتی ریت کی تہووں میں بیج کا وجود آگ کی سختی سے دوچار ہو گیا۔ دیہاتی اپنے گاؤں کی جانب قدم بڑھا چکا تھا اور بیج کو تنہا اس مقام پر قید تنہائی کی لمبی سزا سنا گیا جہاں کسی دوسرے منصف کا گذر تک نہ ہو۔ بیج کے خول کی توڑ پھوڑ گرمی کی وجہ سے شروع ہو چکی تھی۔ 
                        ایک بڑے ٹرک کا ڈرائیور اسی راستے کا راہی تھا وہ اپنے سفر کی تھکان اسی مقام پر کیا کرتا تھا جونہی ٹرک کا بھاری بھرکم ٹائر اس پر سے گذر کر سیدھا ہوا تو بیج آدھے فٹ سے نیچے اترا اور اس نے پانی کے کین سے منہ ہاتھ عین اسی مقام پر دھویا جہاں بیج کو پانی کی نعمت مل گئی۔ گرمی اور ہلکی نمی کے اس تغیر میں بیج کا اندرونی حصہ پھٹ پڑا ، جسم کے خول کی دراڑیں مزید اپنا منہ کھولے قدرت کی تخیل کا انتظار رنے لگیں۔ جوں جوں رات کا سناٹا ہرسو پھیلتا گیا توں توں بیج کا خوف و ہراس مزید بڑھتا رہا۔ ڈرائیور لمبی تان کر خوب استراحت کے مزے لوٹ رہا تھا اور بیج اپنے دوستوں کی سہانی محفل کو یاد کر کے مستقبل کی تنہائی کو گلے لگائے افسردہ پریشان حال اپنی غلطی کا خمیازہ بھگت رہا تھا ۔ زمین کی سطح ہموار تھی ۔ رات کا پچھلا پہلر کافی حد تک ٹھنڈک کی نوید سنا رہا تھا۔ بیج کی ملائمت کھردرے پن میں تحلیل ہو گئی اور ایک ننھی سی کنوپل نے جنم لیا۔ ایک بالشت ریتیلی تہہ کے نیچے سر اٹھانے والی نرم و نازک پود نے سرکنا شروع کر دیا۔ بیج کے اس جز کی پیدائش نو اگرچہ اسے اچھی لگ رہی تھی لیکن اس کی بدوباش مقام اصل سے کوسوں دور کیسے ہو گی، اس غمناک کہانی کے سیاق و اسباق میں سوچوں کا انبار لگ گیا۔ 
                     صبح کی سپیدی نمودار ہوئی ۔ سورج کی پہلی کرن ہرسو روشنی کا اظہار کر رہی تھی لیکن آبشاروں کی دھنیں سنائی نہ دیں۔ پرندوں نے بھی وہ گیت نہ سنائے جو بلند چوٹیوں کے اشجار پر بسیرا کرنے والے سنایا کرتے ہیں ۔ ڈرائیور سڑک کے چھت کی سیڑھی کو استعمال میں لاتے ہوئے نیچے قدم بوس ہوا اس نے پھر سے اپنے سفر کی تیاری پہلے پانی کے چھینٹے منہ پر مارتے ہوئے قلی کی ، رات کی نسبت اس وقت پانی کا استعمال پہلے سے دوگنا تھا۔ پانی زمین کی تہووں میں دھنستا گیا اور کونپل نو کی پیاس بجھی ۔ بیج نے زمین کے خلیوں سے خوراک حاصل کی او ر پوری قوت سے خوراک کونپل میں سمودی۔ کنوپل نے اپنا قد مزید بڑھایا اور ٹرک کے اسٹارٹ ہونے سے بیج اس قدر رنجیدہ ہو گیا کہ اب کیا ہوگا اسے جس بات کی فکر لاحق تھی وہ ٹرک ڈرائیور کا بچھڑنا تھا وہ جا چکا اب کون ہمیں پانی مہیا کرے گا۔ کونپل نے اپنے پیدائی محرک سے پریشانی کا سبب پوچھا تو بیج نے مسکراتے ہوئے اسے تسلی دی کہ تمہاری پرورش یقینا ہوگی وہ سب کا کارساز اور مسبب الاسباب ہے جہاں تک میرا تعلق تم سے ہے میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ زمین کو پھاڑ کر تمہارا سر اونچا کروں گا تم اوپر کی آب و ہوا کا مقابلہ کرنا اور میں اندرونی خلفشار کو متوازی کرنے میں شب و روز نبردآزما رہوں گا، گھبرانا بالکل نہیں۔ ہر مرحلہ اتفاق کی بدولت حل ہو جائے گا تم بلندیوں میں پروان چڑھنے والے ایک تن آور شجر ہو اور یہاں دور و نزد یک تمہارے جیسے اور کوئی نہ ہوگا بس ہمت سے کام لینا اور یہ بنیادی مشکلات خود بخود آسان ہو جائیں گی۔ 
                          تحت الفلک آوارہ بادلوں کے ٹکڑے یکساں ہونے لگے روئی کے سفید گالوں میں مٹیالی رنگت کی شمولیت نمی کی رطوبت کو بھاری کر گئی۔ بارش کے پہلے قطرے نے زمین کی تہہ پر بسیرا کیاتو لگا تار دوسرے قطروں نے بھی تجدید وفا دُہراتے ہوئے بادلوں کا بوجھ ہلکا کر دیا ۔ زمین کی تہیں سیراب ہو گئیں ۔ بیج کے لئے قدرت کا یہ عمل انتہائی حوصلہ افزاءٹھہرا۔ اب کونپل کو سر اٹھانے میں دِقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لگاتار کوششوں سے بالآخر کونپل نے ا
                         اپنے پیدائشی عمل کوپایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ قرب و جوار کسی دوسرے پودے کا وجود نہ پا کر اسے مایوسی تو ہوئی لیکن بیج نے حوصلہ دیا کہ ہم باہمی ربط سے اپنی شاخوں سے مزید پیداوار کر کے اس زمین پر اپنا وجود منوا لیں گے۔ اس نئے خیال کی قوت کونپل میں عود کر آئی اور اس نے اپنا قد مزید بڑھانا شروع کر دیا ۔ گاؤں سے آنے والے لوگ سڑک تک آتے رہے لیکن راستے سے کونپل دور تھی ۔ اس طرح پاؤں کی سختیوں سے اس کی مزید آزمائش نہ ہوئی۔ 
دو دن گزر گئے تیسرے دن شام ڈھلے وہی مونس ہجراں ٹرک ڈرائیور عین اسی مقام پر استراحت کے لئے ٹرک روک کر نیچے اترا تو اس کی نگاہیں نئی نویلی نرم و نازک کونپل پر ٹک گئیں ۔ مستقبل میں یہی کنوپل تن آور درخت بنے گی اور اس کے لئے چھاؤں کا اہتمام ہو جائے گا۔ وہ مدتوں سے اسی جگہ آرام کرتا چلا آ رہا تھا۔ اس نے ہاتھوں کی پوروں سے کونپل کے ارد گرد ایک دائرہ سا بنا کر مٹی کی منڈیریں اونچی کر کے اس میں پانی بھر دیا۔ گردونواح سے چند ایک لکڑی کی شاخیں اکٹھی کر کے منڈیر کے ارد گرد زمین میں متعین کیں۔ وہ ٹرک میں چلا گیا اور چند ہی لمحوں میں اس نے لوہے کی تاروں کو لکڑی کے ڈنڈوں کے ارد گرد لپیٹ کر کونپل کی نشاندہی کر کے دوسرے گزرنے والوں کے لئے احتیاطی تدابیر کر ڈالیں۔ٹرک ڈرائیور کی رغبت اور حفاظتی عمل پر بیج کی امیدیں بھروسے میں بدل گئیں۔ اسے ٹرک ڈرائیور پر والہانہ پیار آ گیا ۔ کونپل نے ہوا کے جھونکے سے لہلہاتے ہوئے ڈرائیور کو جھک کر سلام کیا اور اس کے سفر بخیر کے لئے دل سے دعا مانگی۔ رات کا نصف حصہ گزرنے والا تھا ڈرائیور گہری نیند سویا ہوا تھا اور کونپل کا دل مچل اٹھا کہ چشم زدن میں وہ اپنا قد اتنا طویل کر لے کہ اپنے محسن کو سوتے ہوئے دیکھ سکے اور پوری شب اس کی رکھوالی پر مامور رہے ۔ کوشش کے باوجود قد میں قدرے پیش رفت ہوئی لیکن طوالت کا وہ خیال بام عروج تک رسائی نہ کر سکا۔ 
                         بیج نے کونپل کی کاوشوں پر گہری نظر رکھی اور مزید تقویت حاصل کر کے اس کے ریشوں میں بھر دی ، رات کی تاریکی صبح کاذب میں تبدیل ہو کر ایک نئے سویرے کا روپ دھارگئی۔ ڈھیروں دعائیں بیج او ر کونپل کے دل سے اپنے محسن عظیم کے لئے نکلیں اور دور تک کونپل نے اسے جاتے ہوئے حدِنگاہ پیار بھری چاہتوں سے دیکھا ۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل وہ جا چکا تھا لیکن یہاں اس کا انتظار ہونے لگا ، گاؤں سے لوگ حسب معمول وہاں سے گزرتے ہوئے اس نومولود پر سرسری نظر ڈالتے اور خصوصاً حفاظتی جنگلہ ان کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ 
                         سورج کی کرنوں سے قوت حاصل کر کے کونپل نے بیج کی حوصلہ افزائی کی ، چرواہا بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ بکریوں کی گردنوں میں بندھی گھنٹیوں کی آواز کو سنتے ہوئے اسی راہ کا تعین کئے ہوئے تھا۔ کونپل کی تو جان نکل گئی لیکن دوسرے ہی لمحے اسے ڈرائیور کی احتیاطی تدابیر کا خیال آ گیا جس نے اس کے نحیف ولاغر جسم کی حفاظت کے لئے آہنی جنگلہ تیار کر دیا۔ ایک آدھ بکری نے جنگلے کے اندر جھانکنے کی کوشش بھی کی لیکن ندارد ، اسے ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ تحت الارض بیج کونپل کی پریشانیوں کا بغور جائزہ لے رہا تھا اور برابر مستحکم حوصلے کی فضا قائم رکھے اس کی نشوونما میں مصروف رہا۔ 
                        سورج کی کرنیں آتش ِ نمرود تیز تر کر رہی تھیں لیکن زمین میں نمی کی رطوبت کونپل کے نرم و نازک جسم کی برابر حفاظت پہ مامور رہی۔ دوپہر پورے جوبن پر تھی گرم لو کا ہر طرف راج تھا، ہوا میں تیزی بڑھتی گئی لیکن جھک جانے والے اشجار ٹوٹنے کی بجائے اس سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اڑتی ہوئی مٹی اور ریت کے ذرات اس کی منڈیروں کو مزید اونچا کر گئے۔ یہ ننھا سا پودا پنے خیالوں کی دنیا بسائے کسی پہاڑی کے دامن میں جا پہنچا۔ اے کاش اس کی پیدائش اپنے ماحول میں ہو جاتی تو کتنا بہتر تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی معطر ہوائیں پانی کی فراوانی قدرتی غذا اور سب سے بڑھ کر اپنوں کا ساتھ کہنے والے سچ ہی تو کہتے ہیں ”کبوتر با کبوتر باز باباز“۔
                                    میدانی سڑک کے کنارے تن تنہا وہ کیسے پروان چڑھے گا اس کی شاخوں کے ساتھ مل کر کون گیت گائے گا۔ گڈریئے کی بانسری کیسے راگ الاپے گی۔ پہاڑی گیتوں کی دھنیں آبشاروں کی بجائے راہٹ کی مرہون منت ہوں گی ۔ پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کرنے والوں کی بجائے میلوں میں پہلوانی کے داؤد پیچ اور کبڈی کے رسیا نمایاں ہو گئے۔ پہاڑی رُتیں تو سرے سے مفقود ہوں گی طویل قامت درختوں کا ہوا کے تناسب سے جھومتے ہوئے ایک دوسرے کو مس کر کے سائیں سائیں کی میٹھی چھنکار ماحول میں پھیلانا جس سے غنودگی طاری ہوتی ہو یہاں اکیلے میں ایسا ماحول بنانے میں کس کو ساتھ ملاؤں گا۔ کوئی بھی تو نہیں ہاں اکیلا ہوں.... تن تنہا....
                             سڑک پر سے ایک بھاری ٹرک کے گزرنے سے تھرتھراہٹ سی پیدا ہوئی۔ اندھیری رات میں وہ اس کا جائزہ لینے لگا، لیکن اس کا محسن نہیں تھا بلکہ ا پنی لگن میں مگن کوئی اور راستہ ناپ رہا تھا۔ ایک لومڑی اس کے قریب سے گزری تو اسے ہنسی آ گئی، مکار کہیں کی جس جگہ بھی ہوگی اپنی چالاکی نہیں چھوڑے گی۔ چلی ہے کہیں شب خون مارنے، تھوڑی ہی دیر میں کسی مرغی کے بچے کو دبوچ لائے گی اور صبح چرچا ہو جائے گا کہ جنگلی بلی کے سب کرتب ہیں۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ شکاری کتوں کا جم غفیر آ حملہ آور ہوا ، لومڑی پر ۔ اس کی چالاکی سب دھری کی دھری رہ گئی، مرغن غذا کی بجائے جان کے لالے پڑ گئے ۔ بڑی مشکل سے بھاگ کر اس نے جان بچائی۔ پہلی دفعہ اس علاقے کا رخ کیا ہوگا۔ ان راہوں سے اسے کبھی واسطہ نہیں پڑا ہوگا شکاری کتے ابھی تک اس کی کھوج میں لگے ہوئے تھے ، سونگھتے سونگھتے وہ ایک ہی جگہ کا چکر بار بار کاٹ رہے تھے۔ لیکن شکار انہیں نہ مل سکا،لاچار واپس ہو لئے یہ سب تماشہ اس کے سامنے ہوا اور سوچوں کے دائرے مکڑی کے جال کی مانند پیچیدہ ہو گئے ۔ بیج نے مدہم سی آوازمیں کونپل کو آرام کرنے کو کہا تو فکری طلسم کی گرہیں ٹوٹیں۔ 
                          شب و روز شمار کرتے کرتے انتظار کا جان لیوا مرحلہ ختم ہوا اور ڈرائیور کی آمد کا دور ہی سے پتہ چل گیا۔ تیزی کی حالتوں کو کم رفتار میں تبدیل کرنے والوں کی مشینری کی آواز بدل جایا کرتی ہے اور ٹرک کا بتدریج اس کے پاس آ کر لگنا عید کی خوشیوں سے کم نہیں تھا وہ اپنی عادات کے عین مطابق نیچے اترا پھر پانی کا کین نکالا اور میرے ارد گرد کا جائزہ لیا واہ کیا بات ہے دو ہی دنوں میں قد کاٹھ کافی نکال لیا ہے۔ بھئی کس نسل سے ہو ، اتنی جلدی بڑے ہونے کی سوچ رہے ہو ، بیج کے کان میں ڈرائیور کی آواز سنائی دی تو وہ بہت خوش ہوا ۔ کونپل کا کم عمری میں ہی اتنا طویل ہو جانا اس کو بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ تنے میں پانی کی مقدار اوپر والی سطح سے اندرونی حصوں کو پیوست ہوئی جا رہی تھی۔ ڈرائیور کا یہ احسان اس کی شجرکاری کے عمل کو مؤثر بنانے کی لگن تھی جو ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ اس کے ہاتھ سے سینچے ہوئے اس پودے کی زندگی کا انحصار تھاوہ شجرکاری کی مہم پر کاربند تھا ۔ اس نے کھانا ٹرک کی چھت پر کھانے کی بجائے اس بار زمین پر ٹاٹ بچھا کر میرے بالکل قریب بیٹھ کر تناول فرمایا۔ الحمدللہ کہتے ہوئے دو تین ڈکاریں بھی مار دالیں۔ مونچھوں کو دیتے ہوئے انگڑائیوں سے دوچار ہوا۔ سامان سمیٹ کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ ٹرک کی چھت پر جا پہنچا ۔ تھکاوٹ دور کرنے کے لئے آرام کرنا ضروری تھا وہ گہری نیند سو گیا۔ کونپل اسے گہری نیند میں دیکھنا چاہتی تھی۔ لیکن اس کے لئے ابھی کافی وقت درکار تھا ، چند ایک خراٹوں کی گونج اس کے کانوں میں پڑی اور پھر کروٹ بدلنے کی آواز بھی سنائی دی ۔ تھکے ہارے انسان کو نیند میں جو سکون ملتا ہے وہ اس سے ابھی عاری تھا اسے ابھی رات دن محنت کرنے کی ضرورت تھی ، جب تک وہ اپنا سر اتنا اونچا نہ کر لیتا کہ سوتے میں اپنے محسن کا چہرہ دیکھ لے۔ 
                          ٹرک ڈرائیور معمول کے مطابق بیدار ہوا منہ ہاتھ دھو کر ٹرک اسٹارٹ کرنے سے پہلے کونپل کی زمین کو پانی سے سیراب کر کے اپنے سفر پر چل دیا ۔ننھے پودے نے لہلاتے ہوئے الوداع کیا او ر پھر انتظار کی جان لیوا گھڑیوں میں خود کو سمو لیا۔ گاؤں سے سکول کے بچے اسی راستے سے گذر کر جاتے تھے ، چند ایک نے جھانک کر دیکھا کہ جنگلے میں کیا ہے، ایک نے تو کونپل کو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے مس کر کے دوسروں کو بتایا کہ یہ پودا دیکھ لینا شیشم کا ہوگا، دوسرے کی رائے آم بھی ہو سکتا ہے، تیسرے نے اسی پر اکتفا کیا کہ یہ برگد بھی بنے گا اور اس کی گاڑھی چھاؤں تلے ہم دوپہر کو سستایا کریں گے۔ 
وہ اپنی اپنی بساط کے مطابق باتوں میں مشغول دور جا چکے اور تن تنہا پودا سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ جیسا دیس ویسا بھیس ۔ سچائی پر مبنی حقیقت ہے ان بچوں کو کیا معلوم کہ ہم کس طرح سفر کر کے ان کی حدود میں آ بسے ہیں اب میرا جنم یہاں ہوا وابستگی تو ہوگی جس زمین سے میرا خمیر اٹھا ہے ، اس کی بھلائی کے لئے مجھے پروان چڑھنا ہوگا اور یہاں کے باسیوں کو اپنی چھاؤں تلے چین و آرام دینا ہوگا۔ دن میں ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ میرے پتے اکٹھی کر کے ہر ذی روح کو آکسیجن فراہم کریں گے اور تازہ و معطر ہوا انسانی پھیپھڑوں میں تحلیل ہو کر انہیں تندرست و توانا رکھے گی ۔ میری شاخوں پر پرندوں کا بسیرا ہوگا ان کے گھونسلوں میں چو ں چوں کرتے ننھے منے بچے ہوں گے صبح سویرے پرندوں کی خوش الحانی اللہ رب العزت کے گن گانے میں مصروف ہوگی میرے وجود سے نکلی مزید ٹہنیوں پر سرسبز ہوگی۔ 
                      پودے کی کونپل سے فرط جذبات میں دو پتوں نے سر نکالا بدن میں ہلکی سی جھرجھری عود کر آئی۔ پیدائش سے پیدائش کا مرحلہ چل نکلا، زمین کی تہووں سے بیج کی بڑی مدہم سی آواز آئی ، مبارک ہو تمہارے جسم سے دو پتے نمودار ہو گئے یہں اب تم تنے کی حیثیت اختیار کرتے جاؤ گے میرے جسم کے نچلے حصے سے جڑیں نکلنا شروع ہو گئیں ہیں جونہی یہ مکمل ہو کر تمہاری مضبوطی کا پیغام دیں گی عین اسی وقت میرا وجود ختم ہو جائے گا۔
کیا کہا.... تمہارا وجود.... لیکن تم تو میرا سب کچھ ہو۔
                             ہاں ٹھیک کہا تم نے میرے ننھے سے پودے ایک بات یاد رکھنا جب کسی کا کام جو اسے سونپا جائے احسن طریقے سے اختتام پذیر ہو جاتا ہے تو اس کے وجود کی ضرورت باقی نہیں رہتی یہ نظام قدرت ہے اور ہر مرحلہ وقت کے عین مطابق چلتا ہے گھبرانا نہیں۔ جڑیں اپنی مضبوطی پکڑتی جا رہی ہیں اور ان کی گرفت تمہاری بقاءہے، آج سے تم ایک تنا ہوا ور اب تم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اسے اچھی طرح نبھانا کیونکہ تنا وہ قوت ہے جو اپنی شاخوں پہ لگے ہر پتے کو خوراک بہم پہنچاتا ہے۔ یہ لو جڑوں سے آنے والی خوراک سنبھالو اور جتنی ضرورت ان دو پتوں کو ہے دے کر خود کو توانا کرو، جب تمہاری شاخوں پر پھول اور پھر بیج لگ جائیں تو بیج کی وفاداری یاد رکھتے ہوئے مزید پیداوار بڑھا لینا۔ خدا حافظ۔
                                 نہیں نہیں ابھی میں طفل ِ ناتواں ہوں۔ مجھے مزید تمہاری اشد ضرورت ہے ۔ میں ابھی تک مضبو ط تنا نہیں بن سکا۔ وہ قوت جو تمہاری وجہ سے میری رگوں میں سر شار تھی اس کے بغیر میں کیسے چل سکوں گا۔ میں نرم و نازک سی کونپل تنا کیسے بن جاؤں۔ اُس کی تمام التجاؤں کا کوئی جواب نہ مل سکا۔ بیج کے آخری الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے اپنی سوچوں کو مجتمع کر کے اس نے اپنے وجود کو حرکت دی ، ہواؤں کے رخ اس کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتے رہے ، گرمی کی لو اس کے نوزائیدہ پتوں پر اثرانداز ہوتی رہی اور وہ بڑی تندہی سے ان کی حفاظت پر مامور رہا، وقت گزرتا گیا، شاخیں ابھرتی رہیں ۔ پتوں کی مزید افزائش قدوقامت میں اضافے کا موجب بنی ، پودے کے خدوخال نمایاں ہوتے چلے گئے۔ اپنے محسن ڈرائیور کی محبت، چاہت اور لگن میں اس کا لڑکپن گذرا، اپنے قد کاٹھ کی بدولت وہ ہر ایک کی نظروں میں آ گیا۔
                                پکی سڑک کی حدود میں لہلاتے سرسبز جوان درخت کی ملکیت قوانین کی مد میں آ گئی شاہراہوں کی مستند اتھارٹی رکھنے والے ادارے پی ڈبلیو ڈی نے ایک دن اپنے کارندے وہاں روانہ کر دیئے۔ایک کے ہاتھ میں تیسہ اور دوسرے کے ہاتھوں میں رنگوں کے ڈبے بمعہ برش دیکھ کر درخت کے تنے کو یہ سمجھ نہ آ سکی یہ لوگ اس کے قریب تر کن تیاریوں میں مصروف ہیں ، ابھی سوچوں کے دائرے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پائے تھے کہ اس کے بدن پر تیسہ چلنے لگا۔ تیسے کی تیز دھار نے ایک بالشت مربع اس کی اوپر والی جلد اتار پھینکی۔ درد کی دقیق ٹیسیں سر سے لے کرپاؤں تک اٹھتی رہیں لیکن وہ لوگ اپنے کام میں مصروف رہے جلد کے اتر جانے سے تنے کی رطوبت آنسوؤں کی صورت میں نمودار ہوئی لیکن سفید رنگ میں ملبوس برش نے رطوبت کے سوتے بند کرنے کے لئے اپنا رنگ جما دیا۔ تازہ تازہ زخم تھا جس پر سفید رنگ کا لیپ کر دیاگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں رنگ گرم ہواؤں کی حرارت سے سوکھ گیا ، اب رنگ کرنے والے نے تیسہ چلانے والے سے گفت و شنید کر کے ایک باریک برش کو کالے رنگ میں ڈبو کر 420 نمبر ثبت کر کے پی ڈبلیو ڈی کی ملکیت ظاہر کر دی۔ یہ نمبر جو اس کی زخم خوردہ جلد پر تحریر کیا گیا اس کی زندگی کا بدترین نمبر تھا یہ اس پر سراسر ظلم تھا۔ حقیقت کے بالکل برعکس اسے رہ رہ کر ایک ہی خیال آ رہا تھا کہ ایک ہلکے سے مذاق نے اس کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا ہے اپنی حدود سے تجاوز کر کے دوسری حدود میں داخل ہونا کتنا مہنگا پڑ رہا تھا جو بھی اس کے نزدیک سے گذرتا اس نئے نشان کو غور سے پڑھتا ، بار بار کم پڑھے لوگوں نے بھی اس کے ہجے کئے اور ہر کا قہقہہ جان لیوا بنتا جا رہا تھا دور و نزدیک اس نمبر کی بدولت یہ درخت کافی مشہور ہو گیا ۔ یہاں تک کہ اس گاؤں میں آنے والا ہر نیا مہمان اس درخت پر لکھے حروف پڑھتا اور پھر اپنی منزل کا تعین کر لیتا ایک ایک لمحہ اسے ستا رہا تھا رلا رہا تھا اتنے میں محسن ڈرائیور وہاں آ پہنچا، وہ حسب معمول سورج غروب ہونے کے بعد ہی آیا کرتا تھا اور آج شب بھی اندھیروں کی رونمائی کر رہی تھی فلک پر گہرے بادل تھے اور چاند بھی آخری پہر کا تھا ، ڈرائیور اپنی عادت کے مطابق ہر وہ عمل کر رہا تھا جو ہر بار وہ کرتا چلا آیاتھا۔تنے نے اپنی داستان سنانا چاہی لیکن کسی کا دھیان اس کی بے بسی پر نہ گیا وہ چاہتا تھا کہ یہ نمبر جو زبردستی ا س کی پیشانی پر عیاں کر دیاگیا ہے کسی سکول کے شرارتی بچے ہی کے ہاتھوں ملیا میٹ ہو جائے کوئی اس نمبر کو سبوتاژ کر دے ، کوئی آرٹسٹ اپنے برش پر گہرا رنگ چڑھا کے اپنی نئی تخلیق بنیاد بنا ڈالے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ 
صبح کاذب کی دھندلی رمق ہر سو پھیل رہی تھی ڈرائیوربیدار ہو چکا تھا نجانے کیوں اس نے جلدی جلدی ہاتھ منہ دھوکر اپنی راہیں استوار کر لیں اے کاش بادلوں کی جگہ چاند کی چاندنی اس کے بدن پر ثبت تحریر ڈرائیور کی توجہ مبذول کروا سکتی تو اس کے دل کا کرب مٹ جاتا یقینا اس کا محسن یہ برداشت نہ کر پاتا اور کوئی مثبت صورت بہرطور نکل آتی وہ تو جا چکا اب ہر روز پی ڈبلیو ڈی والے وہاں سے گزرتے ہوئے ایک نظر اس پر ضرور ڈالتے یہ کیا مذاق ہے نہ خوراک نہ پانی اور ان میں سے کوئی بھی اس کی حفاظت پر مامور نہ رہا اور آج اس پر اپنا حق جتا رہے ہیں۔

                             مہینوں گزر گئے اور اس کا محسن ڈرائیور نہ آیا اندر ہی اندر وہ کڑھتا رہا جلتا رہا اور اپنے محسن کی یاد میں آنسو بہاتا رہا ، اس کو فکر لاحق ہونے لگی کہ خدا نہ کرے اس کے محسن کو کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے یا وہ کسی اور سفر کی جانب راغب ہو چکا ہے آہ وہ ایک بار اس کے جسم پر ثبت غیر متوازن اور نامناسب نمبر دیکھ کر اپنی رائے سے نوازتا اور اس کا جو ردعمل ہوتا اس کا وہ بے حد منتظر تھا اپنی سوچوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ایک ٹرک کی مانوس آواز نزدیک سے نزدیک تر آئی ہاں اس کے محسن کی آمد تھی وہ بھی اداس لگ رہا تھا اس نے بریکیں لگا کر ٹرک کو جامد کر دیا اور فوراً نیچے اتر کر ارد گرد کا جائزہ لینے لگا ابھی سورج غروب ہوئے چند لمحات گزرے تھے اور ہر سو دیکھنے میں آسانی تھی اس کی آنکھوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ نمبر اور پی ڈبلیو ڈی اس نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے اس جگہ کو مس کیا جہاں جعلی حروف کنندہ تھے اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ اتھارٹی کی نفی کر رہے تھے اس نے ٹول بکس سے ایک تیز دھار چاقو نکالا اور ہر وہ نشان حذف کر دیا جو اس کے مزاج کو جھنجھوڑ رہا تھا اس بار تنے کو بالکل کوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی کیونکہ اس کے وہ گہرے زخم صفحہ ہستی سے نیست و نابود کئے جا رہے تھے تنے سے ابھری ہوئی ہر شاخ پر ہر پتے نے جھک کر سلام پیش کیا اس درخت کی آبیاری کرنے والا وہاں موجود تھا وہ کیسے برداشت کرتا کہ یہ آزادی کے گیت گاتا دوسروں کو سایہ مہیا کرتا ہوا طویل درخت کسی کی ملکیت بن جائے ہرگز نہیں ، یہ کسی کی جاگیر میں اُگا ہوا پودا نہیں ڈرائیور سارے دن کا تھکا ہارا سونے کی لاکھ کوشش کروٹ بدل بدل کر رہا تھا لیکن اسے سکون و راحت نہ مل سکی۔ چاندنی رات کا نظارہ آج اور بھی حسین و جمیل تھا کیونکہ ایک عظیم دوست وہاں موجود تھا اور شجر کی دیرینہ آرزو پوری ہو چکی تھی وہ پوری شب اپنے محسن کے چہرے پر اپنی نمی بکھیرتا ہوا اس کے پتوں کو چھوتی تو پتے اپنی حرکات و سکنات اس قدر دھیمی کر لیتے کہ وہ اپنی نیند کا تسلسل برقرار رکھ سکے۔ 

                             علی الصبح پیارا دوست الوداعی سلام کہہ رہا تھا اور شجر کارواں اس امید پر قائم و دائم ہو چکا تھا کہ پھر سے ملاقات ہوگی ، جانے والا اپنی راہوں کو ناپ چکا تھا لیکن گاؤں سے آنے والے لوگ درخت میں تبدیلی محسوس کرتے ہوئے اندازے لگا رہے تھے کہ کون ہو سکتا ہے جس نے تنے پر سے حروف مسخ کر دیئے ہیں عدالت میں گواہیاں دینے والے ایک ادھیڑ عمر کے دیہاتی نے کولہوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کچھ دیر سوچا اور پھر چٹکی بجاتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچ گیا۔
سچ کہتاہوں یہاں ہمیشہ ایک ٹرک ڈرائیور بسیرا کرتا آیا ہے یقینا وہی کل رات یہاں آیا ہوگا مجھے تو اس ٹرک کا نمبر تک یاد ہے بات آئی گئی ہو گئی اور بہت سے لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہمارے گاؤں کے نزدیک اس درخت پر نمبر 420 لگانا بھی ہمارے لئے کوئی عزت کا مقام نہیں اچھا کیا ، اگر کسی نے اس پر سے ہر لفظ مٹا دیا ہے کاموں پر جانے والے سب جا چکے لیکن عدالتی دماغ نئی شرارت کا پلان بنا کر پی ڈبلیو ڈی کے دفتر چلا گیا وہاں تمام کارروائی شب بھر کی کہہ کر ٹرک کا نمبر تک لکھوا دیا۔دفتر والوں نے دو اہلکاروں کو وہاں روان کیا تاکہ یہ تصدیق ہو سکے کہ کس نے قانون کو گرفت میں لے کر قانون شکنی کی ہے وہ درخت کے ارد گرد چکر لگا کر جائزہ لے رہے تھے ، ٹرک کے ٹائروں کے نشانات کی جانچ پڑتال کر کے وہ واپس چلے گئے ، درخت انتہائی افسردگی کی حالت میں اپنے وجود پر پنپنے والے تمام شاخوں اور پتوںسمیت محسن ڈرائیور کی سلامتی کے لئے دعائیں کر رہے تھے ، دو موٹر سائیکل سوار آوارد ہوئے پھر سے جلی حروف لکھنے کے لئے انہوں نے پھر سے قلمکاری کے جوہر دکھائے اور ایک بار پھر درخت اسی ادارے کی ملکیت بن گیا۔
                              سالہا سال بیت گئے ان کا ڈرائیور دوست پھر نہ آ سکا ایک گھٹن میں درخت کے اندرونی حصوں کو تپ دق سی لگ گئی تھی دیمک کی مانند انتظار کا غم اسے چاٹ رہا تھا پتوں پر ہریالی کی جگہ پژمردگی کا دور دور ہو چکا تھا بہاروں میں بھی خزاں کا تاثر اس درخت پر طاری ہو چکا تھا اس کی ٹہنیوں میں وہ جان نہ رہ سی آہستہ آہستہ وہ سوکھتا گیا اور پی ڈبلیو ڈی والے وہاں آ کر حصے بانٹنے کی باتیں کرنے لگے ، کبھی کبھار کوئی ٹہنی اپنے تن آور درخت کے وجود سے الگ ہو کر زمین بوس ہو جاتی تو آنا فاناعدالتوں میں گواہیاں دینے والا دیہاتی فوراً اس ٹہنی کو پتوں سمیت اپنے گھر لے جا کر بیوی سے کہتا اسے تنور میں جھونک کے دیکھو کتنی حرارت پیدا ہوگی۔
اس سوکھے درخت کو کاٹنے کے لئے احکامات جاری ہو چکے تھے دو آدمیوں کے پاس بھاری بھرکم دوکلہاڑے اس کی شہ رگ کو کاٹنے کے لئے آ چکے تھے ان کے ساتھ ایک ترکھان بھی آیا ہوا تھا دونوں اطراف سے پہ در پہ وار کر کے تن آور درخت کو زمین پر گرا دیاگیا ، ترکھان اپنے ناپ تول میں لگ گیا، گورنمنٹ کی گاڑیوں میں درخت کے تمام حصے کسی ایسے مقام کی جانب منتقل کئے جا رہے تھے جہاں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے منصفانہ تقسیم کی ترتیب دی جا چکی تھی ایک کھلے احاطے میں درخت کے سب ٹکڑوں کو اتار لیا گیا ، احاطے کو تالہ لگا کر سب جا چکے تھے، درخت کے الگ الگ ٹکڑے بے معنی ہو چکے تھے ان کی یکجہتی پارہ پارہ ہو چکی تھی وہ بہاروں کی روشن جوان کی رگوں میں موجزن تھی بکھر چکی تھی رات بھر چاندنی اس کے وجود پر خوشیوں کی بجائے پریشانی کا لبادہ اوڑھے رہی ، تنے کو وہ رات یاد آ گئی جب پیار کرنے والوں کا ایک جوڑا اس کے نیچے پوری رات گزار کر جدا ہوا تھا سسکیوں اور جدا ہونے کا وہ منظر آج ان پر بھی طاری تھا، صبح ہوتے ہی نہ جانے ان کے ٹکڑے کہاں کہاں جائیں گے یہی سوچ ان کی روح تک کو برباد کر رہی تھی وہ اکٹھا رہنا چاہتے تھے یاکہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں ، تنے نے اپنے پیدا کردہ بیج سے بہت معذرت چاہی کیونکہ دنیا والوں کی طلم کی داستانیں ان پر بھی قیامت بن کر ٹوٹی تھیں الگ کرنے والے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے تھے ، وہ وعدہ جو بیج نے خدا حافظ کہتے ہوئے بیج کی مزید افزائش کا تنے سے کیاتھا وہ پورا نہ ہو سکا اس کا قلق تنے کو ہمیشہ رہے گا۔ 
                               سورج کی کرنوں نے بہت سے کاریگروں کو احاطے میں جمع کر لیا وہ معتبر کاریگروں کو احکامات دے رہے تھے ایک بڑا میز ڈائریکٹر صاحب کے دفتر کے لئے بنانا اور دوسرا میز اسی طرز کا ڈائریکٹر صاحب کے دوست جو واپڈا میں ڈائریکٹر ہیں ان کے لئے تیار کر دینا۔ یاد رہے کہ دونوں میزوں میں ذرہ بھر فرق نہ آئے ۔ احکامات دینے والے جا چکے اور وہاں کاریگروں نے آرے چلا کر ہر لکڑی کو اپنے حساب میں چیر ڈالا اس چیرپھاڑ میں تنے کو سب سے پہلے رکھا گیا وہ اس مرحلے میں گزرنے سے پہلے اپنی شاخوں اور پتوں کو الوداعی سلام پیش کر چکا تو تنے کے تمام ٹکڑوں کو پھر نئے سرے سے جوڑ کر میز بنانے کی کاریگری نے رنگ جمایا، ٹکڑوں میں جونہی لمبے لمبے نوکیلے کیل ٹھونکے گئے باوجود تکلیف کے وہ مسرت و شادمانی کے گیت الاپ رہے تھے کہ وہ یکجا ہیں دونوں میزوں کو نامور کاریگروں نے جب بنا لیا تو ان پر پالش کی گئی کوئی ایسی کمی باقی نہ رہ گئی جہاں کاریگر کی نااہلی ثابت ہو ۔ میزوں میں ایک شاہانہ چمک آ گئی دونوں میزوں کو متعلقہ دفاتر میں سجا دیاگیا۔ ڈائریکٹر صاحبان کے دفاتر کے سامنے دربانوں نے اپنا الگ رعب جما رکھا تھا۔ ایک سائل جو گھر میں بجلی لگوانے کا خواہش مند تھا بڑی مشکل سے ایک عرصہ دراز کے بعد ڈائریکٹر صاحب کے دفتر تک رسائی حاصل کر سکا ، اس نے دربان سے پوچھا کہ صاحب دفتر میں موجود ہیں۔
                         موجود تو ہیں لیکن ایک لمبی میٹنگ چل رہی ہے ہاں بتا کیا کام ہے۔ 
                         جی کام تو انہی سے ہے۔
                         مجھے بتائے بغیر آپ ان سے کیا کام کروانا چاہتے ہیں ، جائیے کل آئیں ابھی وہ فارغ نہیں ہیں۔ 
                              جی یہ ایک لفافہ ہے آپ رکھ لیں اس میں میرے کاغذات بھی ہیں بجلی کا میٹر لگوانا تھا دربان نے لفافہ کھولا اور ایک سرسری نظر ڈال کر فوراً جیب میں رکھ لیا آپ ایسا کریں اس بنچ پر بیٹھ جائیں اور انتظار کریں کافی دور سے آئے ہو، میں ابھیاندر جا کے صاحب سے اجازت لیتا ہوں۔ اس درخواست پر دستخط ہی تو کرانے ہیں ، میں ابھی آتا ہوں کے ساتھ ہی وہ اندر گیا اور آنکھ جھپکتے ہی درخواست پر دستخط اور مہر لگوا کے آ بھی گیا ۔ سائل جا چکا اور میز کےدراز اندھی دولت سے بھرتے گئے۔ میز تھر تھر کانپ رہا تھا لیکن اس کے نیچے دبیز قالین اسے جنبش تک نہیں کرنے دے رہے تھے قائد کی تصویر پشت پر تھی کیونکہ راشی کو ان سے آنکھ ملانے کی سکت نہیں تھی۔ 

پی ڈبلیو ڈی کے ڈائریکٹر کی پرانی میز کو جب وہاں سے نکالا جا رہا تھا تو اس کا گزر نئے میز کے بالکل قریب سے ہوا ، نئے میز کے کانوں میں بڑی مردہ سی آواز سنائی دی۔
ٹوٹ جاؤ، بکھر جاؤ، خود کو تباہ کر لو اور چیخ چیخ کر دُہائی دو کہ تمہیں اوپر نہیں جانا، آخر بات کیا ہے بتاؤ ناں کے ساتھ ہی پرانی میز کو لوگ تبرک سمجھ کر اپنے گھر لے گئے اور نئی میز کی جگہ جہاں تجویز کی گئی تھی میز کو سجایا ، ہفتے بھر میں اس کی درازیں اس قدر لبالب بھر گئیں کہ لکڑی کو سانس لینے میں دشواری ہو گئی ، سامنے دفتر میں اس کے دوسرے حصے نہ جانے کس حال میں ہوں گے کہ وہاں کا دربان کسی کام کے لئے اِدھر آ نکلا صاحب نے یہ لفافہ صاحب کو دیا ہے جتنی جلدی ہو اس میں کاغذات پر دستخط کروا دیں مجھے واپس جانا ہے۔
یار بتاؤ ہفتے میں کتنا کما لیتے ہو؟
اللہ کا شکر ہے بہت کم ہو پھر بھی دس سے پندرہ ہزار تک معاملہ چلتا رہتا ہے اور چوتھا حصہ اپنا، تم بتاؤ تمہارا کیا حال ہے۔
یہ واپڈا ہے بابو یہاں تم سے زیادہ ہی ملے گا۔
دونوں ہنستے رہے اور میز کی اندرونی حالت فنا ہو کے رہ گئی کہاں گیاوہ پاکیزہ ماحول جہاں انسانوں کی خواہشات محدود ہیں ان کو کسی کے آگے پھیلا کر رشوت کی لعنت سے نبردآزما نہیں ہونا پڑتا۔
بچاؤ بچاؤ فائر بریگیڈ کو فون کرو، صاحب کے دفترسے اٹھنے والی آگ شعلوں میں تبدیل ہو چکی تھی اور وہ شان و شوکت جو صاحب کے دفتر کی تھی نئے میز سمیت خاک بن چکی تھی ۔ واپڈا کے ڈائریکٹر اور بہت سے رفقاءپی ڈبلیو ڈی کے ڈائریکٹر سے افسوس کا اظہار کر رہے تھے اتنے میں ہڑتال کرنے والے ہجوم نے واپڈا کے دفتر پر حملہ کر دیا اور وہ ڈائریکٹر کی بے انصافیوں پر بے حد نالاں ہو کر اس کے دفترکی اینٹ سے اینٹ بجا چکے تھے وہ میز جو کچھ دیر پہلے تک اپنی درازوں میں دولت کی فراوانی سے سخت شرم محسوس کر رہا تھا اس کی خوشیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بھی قائم و دائم رہیں کیونکہ وہ اس ماحول سے کسی بھی صورت میں الگ ہونا چاہتے تھے ۔ جب دوسرے دفتر سے میز کی خاک اٹھائی جا رہی تھی تو اس کی ہنسی نکل آئی۔ دیکھا میں تو خاک ہو کر زمین کے کسی ٹکڑے میں جذب ہو جاؤں گااور پیدائشی مراحل کو مزید تقویت دوں گا۔ لیکن اے ظالمو تمہارا حشر جو آگ کرے گی وہ دیکھنے والا ہوگا تمہیں زمین تک برداشت نہیں کرے گی۔

 

 

Read 2833 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com