السبت, 04 نيسان/أبريل 2015 08:12

بازگشت : مہتاب عالم پرویزؔ BAZGASHT BY MAHTAB ALAM PERVEZ

Rate this item
(0 votes)

   بازگشت

   مہتاب عالم پرویزؔ 
   مکان نمبر ۱۱ کروس روڈ نمبر ۶ ۔ بی 
   آزاد نگر ، مانگو ، جمشید پور ۸۳۲۱۱۰
    جھارکھنڈ انڈیا
  E - mail عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته. 



                 وہ شخص عجیب سی زندگی جی رہا ہے......... 
بیا باں کی گر م ہواؤں میں‘ بھٹکنے والے اُن مسافر وں کی طرح ‘ جس کے پاؤں سے لپٹی‘ تپتی رہگذر ‘ راہ گم کردہ منزلیں اور دور سُراب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو جیسے....... یاس اور آس کے ڈوبتے اُبھرتے صلیب پہ ٹنگا ہواوہ شخص‘ جس کی آنکھوں میں کبھی خواب ہی خواب تھے آج وہی آنکھیں اب کسی بھی ماحول کو سمجھنے سے قاصر ہیں........
                   وہ دیوار کی آڑ سے اپنی پُشت کو ٹکائے بالکل خاموش ہے۔اور یادوں میں گُمُ ہے......
                   اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس کی ڈیڑھ سالہ بیٹی ارپناؔ مسلسل رو رہی تھی لیکن اُس وقت ارپناؔ کے آنسوؤ ں کی قیمت ادا کرنے وا لا شایدکوئی نہیں تھا.......یا پھر یہ آنسو اپنی قیمت پہلے ہی کھوُ چکے تھے۔ 

                   اور......... 
وہ شخص جس کی آنکھو ں میں پریتیؔ کی چتا جل رہی تھی۔جس کی آگ کی لپٹوں میں فساد کا سارا منظر جھُلس رہا تھا........
ہر طرف چیخ و پکار .......آہیں.......دم توڑتی ہوئی سسکیاں......آگ کی لپٹوں میں گھری دُکانیں.......گھر کے ملبے میں دبے ہوئے لوگ.......اور وہیں مجبور و نڈھال‘ بے بس اپنی جواں بیو ی اور ہوس پرستوں کا کھلمُ کھلا کھیل دیکھ رہا تھا.........
                  پریتیؔ اُن ہوس پرستو ں کے آگے اپنی ننگی چھاتیا ں تھامے اپنی عزّت کی بھیک مانگ رہی تھی....

پھر یہ آنسو اپنی قے قیمت قیمت پہلے ہی کھو چکے تھے۔  اور......... وہ شخص جس کی آنکھو ں میں پریتیؔ کی چتا جل رہی تھی۔جس کی آگ کی لپٹوں میں فساد کا سارا منظر جھُلس رہا ہر طرف چیخ و پکار .......آہیں.......دم توڑتی ہوئی سسکیاں......آگ کی لپٹوں میں گھری دُکانیں.......گھر کے ملبے میں دبے ہوئے لوگ.......اور وہیں مجبور و نڈھال‘ بے بس اپنی جواں بیو ی اور ہوس پرستوں کا کھلمُ کھلا کھیل دیکھ رہا تھا.....
                 جب اُس شخص کی آنکھوں نے اُن ہوس پرستوں کی شریانوں سے نکلتی ہوئی آگ کی لپلپاتی ہوئی زُبان کو دیکھا تو احتجاج کیا.......
                 لیکن .......
                 آوازیں دم توڑنے لگیں......
                 وہ سوچنے لگا کہ شاید آج پھر ایک اور پریتیؔ کو ننگا کیا جائے گا......اور تب ہی بے رحم وقت کے رگ و جاں میں دوڑتے گرم لہو کی آگ سرد ہو گی ............. 
                 آخر کب تک یہ بیٹیاں اسی طرح ننگی کی جائیں گی.....اور کب اس بے رحم وقت کا خاتمہ ہو گا.......
                 پھر ایسا ہی ہوا.......
               پریتیؔ ننگی کر دی گئی‘ اور بے رحم وقت نے بار باراپنی شریانوں کی آگ کو پریتی ؔ کے ٹھنڈے وجود میں سرایت کر دیا۔جس کی لپٹو ں میں پریتیؔ کا سارا وجود جھُلس کر رہ گیا......اور وہ وہیں ڈھیر ہو گئی......
                 وہ رات اُس کی زندگی میں ایک کالی رات بن کر آئی اور پل بھر میں اُس کی خوبصورت سی دنیا نذر آتش ہو گئی......
                 اوروہ پتھر کی مورت بنا دیکھتا رہا......اور قہقہوں کی بارش کے ساتھ سبھی لوٹ گئے.......
                 وہ شخص خود بھی اس آ گ میں جل جانا چاہتا تھا‘ لیکن معصوم ارپناؔ کی چیخوں نے اُسے زندگی کا احساس دلایا‘کہ زندگی بڑی انمول شے ہے.....اُس نے ایک پل اُسے دیکھا اور اپنے سینے سے بھینچ لیا‘ پھر پاگلوں کی طرح بے تحاشا اُسے چومنے لگا........
                جب آگ کی لپٹوں نے اُس کے وجود کو متاشر کیا تو وہ فرار کی راہیں ڈھونڈنے لگا.....اس لئے نہیں کہ اُسے آگ سے جل جانے کا خطرہ لاحق ہو‘ بلکہ اس وقت ارپناؔ ایک سوال بن گئی تھی......
                وہ بھاگنے لگا.......بھاگتے‘بھاگتے اس کے پاؤں شل ہوگئے‘ لیکن وہ پھر بھی بھاگتا رہا...
                باہر ایک شور تھا .......
                ہر طرف دھواں........ دھواں منظر...........گھر سے نکلتی ہوئی آ گ کی لپٹیں........چیخیں ..... ...سسکیاں .........آہیں........ اور دم تو ڑتی ہوئی زندگی.......اور اُس کے وجود سے چپکی معصوم ارپناؔ جو مسلسل روئے جا رہی تھی.......اور وہ شخص مسلسل بھاگ رہا تھا........اُس کی نگاہیں دور بہت دورکوئی ٹھکانہ تلاش کر رہی تھیں‘کوئی محفوظ سی جگہ جہاں وہ اپنی معصوم سی ارپناؔ کو چھپا سکے۔وہ معصوم ارپناؔ کواپنے سینے سے بھینچے بھاگ رہا تھا...... ہانپتا‘ کانپتا‘گرتا ‘ پڑتا.........اور پیچھے قد موں کی اُبھر تی ہوئی آوازیں لگا تار اُس کا پیچھا کر رہی تھیں ۔ ہرطرف زندہ گوشت کے جلنے کی بو بکھری ہوئی تھی۔ جس کے تعفن نے اُس کے اعصاب کو شل کر دیا تھا۔
               وہ بھاگتا رہا......... بھاگتے بھاگتے وہ شہر سے کچھ دور نکل آیا.........ہر طرف گھنگھور تاریکی تھی جو بوند بوند اُس کے نس نس میں اُترنے لگی تھی۔ویران اور اندھیرے کھڈ میں ارپنا ؔ کو اپنے سینے سے لگا ئے اُ سے چپُ کرانے کی مسلسل کوشش کر رہا تھا........
              چاروں طرف فضا میں ایک پُر اسرار آواز کی باز گشت آوارگی میں مبتلا تھی.........
              دفعتا دھماکے کی آواز ہوئی اور بے شمار پرندے آکاش کی وسعتوں میں پھیل گئے پھر سارا آکاش سرُخ ہو گیا۔جیسے ساری کائنات آگ کی لپٹوں میں سسک رہی ہو۔اُس نے ارپناؔ کو اور بھی کس کر اپنے سینے سے لگا لیا جیسے وہ اُسے ساری کائنات سے چھپا لینا چاہتا ہو۔پھروہ اُسے بے تحاشا چومنے لگا۔ بے تحا شا چومنے کے اس عمل میں اُس کی آنکھیں بھی پُر نم ہو گئیں۔ 
              وہ سوچنے لگا کہ یہ کیسی آگ ہے .....؟
              کیا آج ساری دنیا راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے گی۔؟
              کیا گیتا کے اشلوک اب درد کی کہانیاں بیان کریں گے۔؟
              کیا بائبیل کی مقد س کتاب کے سارے الفاظ حرف حرف مٹا دئیے جائیں گے......
              اچانک ایک معصوم اور نازک ہاتھ کا لمس اُس نے اپنے کندھوں پہ محسوس کیا‘ یہ کوئی اور نہیں اُس کی معصوم ارپناؔ تھی جو روتے روتے اب سو چکی تھی.......
              بے اختیار اُس کے ہونٹوں سے نکلا ارپناؔ میری اپنی ارپناؔ اب میں تمہارے بغیر کیسے جی سکوں گا یا تو میرے بن یہ جلتی ‘ سُلگتی راتیں کیسے کاٹ سکے گی.......
              چیخ و پُکار......آہیں......اوردم تو ڑتی ہوئی آوازوں کاسلسلہ اب بھی جاری تھا......
              ا ور و ہ ایک اندھیرے ویران کھڈ میں معصوم ارپناؔ کو اپنے سینے سے لگائے سبکتا رہا......او ر سوچتا رہا سوچتے سوچتے اُس کی آنکھیں بھر آئیں اور دل آنسوؤں کے سیلاب میں ڈوبا ایک جزیرہ بن گیا..... 
ہائے.......یہ کیسی اجیرن سی زندگی ہے ۔شاید انسانیت زوال کے دہانے پر کھڑی ہے۔یا انسان نے حیوانیت ،درندگی اوربر بریت کے نقش پا کو ڈھونڈ لیا ہے۔
اُف یہ رات ہے یا ماتمی لباس میں میرے ہی ارماں۔؟
              یہ رات اُس کی بہت بے چینی میں گذری......کسی طرح آخر صبح ہو گئی.....اور گئی رات کی اس تاریکی میں اُس کا سب کچھ ختم ہو کر رہ گیا بس تھی تو اُس کی معصو م ارپناؔ جس کی آنکھیں اب بھی رو رہی تھیں.......جو شدید بخُار میں مبتلاء تھی....... 
             فساد پر بہت جلد قابو پا لیا گیا تھا ۔سیاسی پارٹیوں نے جگہ بہ جگہ کیمپ لگا رکھے تھے۔ شہر کے ہر چھوٹے اور بڑے اسپتال میں فساد سے متاثر ہونے والے لوگوں کا جمگھٹ لگا ہوا تھا........
پولیس والو ں کی گشت جاری تھی.......
            لوگ باگ اپنے اپنے دلوں میں ایک عجیب سا خوف لئے ہوئے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے.....جیسے ہر چہرہ ایک دوسرے سے خوف زدہ ہو۔پر وہی چہرہ مدد کا متمنی بھی تھا۔اور معصوم سی ارپناؔ کو دودھ کی بوند بوند نے رونے کا سلیقہ سکھا دیا تھا۔وہ اپنی خواہشات کا اظہار رو کر ہی کر رہی تھی.......
        معصوم ارپناؔ کے رونے کی آوازیں جب اسپتال کے ماحول میں گونجیں تو نادرہ ؔ کی دودھ بھری چھاتی میں درد ہونے لگا ۔چھاتی سے دودھ رسنے کی وجہ سے نادرہ ؔ کے بلاوز بھیگ گئے تھے۔
معصوم ارپناؔ کو مسلسل روتا دیکھ کر آخر نادرہؔ کا دل بھی رو پڑا۔نہ جانے کن جذبوں کی تسکین کی خاطر اُس نے ارپناؔ کو اپنے دودھ بھری چھاتی سے لگا لیا۔ارپناؔ اُس کی دودھ بھری چھاتی میں اپنا منھ لگائے بے تحاشا دودھ پی رہی تھی۔اُس وقت اُس عورت کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں آنسووءں کی نمی اُس کے غم زدہ اور مر جھائے ہوئے چہرے کو بھگوتی رہیں........اور اُداسیوں میں مزیداضافہ ہوتا رہا۔
           یہ عورت کوئی اور نہیں اُس شخص کے پڑوس کی نادرہؔ تھی جو ان دنوں اسپتال میں زیر علاج تھی....اُس نے روتے ہوئے اُس شخص کو بتایا کہ گذشتہ شب میرے شوہر اور میرے معصو م بچے بھی فساد کی نذر ہوگئے۔اس وقت نادرہ اپنی چھاتی میں عجیب سا درد محسوس کر رہی تھی۔رات بھر دودھ رسنے کی وجہ سے ا’س کے بلاوز بھیگے ہوئے تھے اور آنکھیں تھیں کہ مسلسل روئے جا رہی تھیں۔ایسے میں ارپنا ؔ کو دودھ پلا کروہ نہ جانے کن جذبوں کی تکمیل کر رہی تھی۔
            اُسے روتا دیکھ کر اُس شخص کی آنکھیں بھی پُر نم ہو گئیں۔لیکن اس نمی کے اندر پریتیؔ کی چتا کی چنگاریاں بھی موجزن تھیں۔اُس شخص کی آنکھوں سے گرم گرم آنسوؤں کے قطرے ایسے اُمڈ رہے تھے جیسے اس کا وجود‘ وجود نہ ہوبلکہ ایک جوار بھاٹا ہوجو پھٹ کر کسی دہانے کی شکل میں اس کی آنکھوں کے ذریعے آنسوؤں میں تحلیل ہو رہا ہو۔
            اس شخص کے دماغ کے اندر توڑ پھوڑ کا عمل جاری تھا۔اور باہر مکمل سکوت چھایا ہوا تھا۔اس شخص کی آنکھوں سے اُمڈتے ہوئے گرم گرم آنسوؤں کا احساس پریتی ؔ کی یادیں اور ارپناؔ کی معصو میت اُسے زندگی کا احساس دلا رہی تھیں............
            وقت کے زخموں پرنادرہؔ کی ممتا بھری لوریاں مرہم بن کر وقتا فوقتا اُن زخموں کو مندمل کرتی رہیں ..................اور اُس کے دودھ بھری چھاتیوں کامیٹھا رس پی کر ارپناؔ سیراب ہوتی رہی۔شایدوہ دونوں ایک دوسرے کے لئے زندگی کا جواز بن گئے ہوں۔
             اور ادھر وہ شخص پاگلوں کی طرح مارا مارا پھرتارہا۔
             وہ شخص جس کی آنکھوں میں کبھی خواب ہی خواب تھے آج وہ شخص مر کز کی تلاش میں دائروں کا چکر لگا رہا تھا۔ 
             بیاباں کی گرم ہواؤں میں بھٹکنے والے ان مسافروں کی طرح جن کے پاؤں سے لپٹی تپتی رہگذرراہ گم کردہ منزلیں،اور دور سُراب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوجیسے۔ 

             یاس اور آس کے ڈوبتے اُبھرتے صلیب پہ ٹنگا ہوا وہ شخص جس نے اپنی زندگی کے۱۷ سال اُن المناک حادثوں کے بعد یوں ہی کاٹ لئے تھے اچانک ارپناؔ کو دیکھ کر وہ تھم جاتا تھاجیسے دائروں کا سفر مکمل ہو گیا ہو۔ وہ شخص جب بھی ارپناؔ کو دیکھتا اُس کی آنکھیں سلگ اُٹھتیں،گھور گھور کر ارپناؔ کے سارے خدوخال کو دیکھتا اور دیکھتا ہی رہتا۔ 
             ارپناؔ سہم سی جاتی۔پر نادرہؔ اس کے اس ڈر کو یہ کہہ کر ختم کر دیتی کہ تم اُن کی ہی بیٹی ہو زیباؔ ..........
             اور یہ بات ایک زندہ حقیقت بھی تھی..........
             لیکن ...........نہ جانے کیوں اُس شخص کی آنکھیں زیباؔ کو کسی اور ہی خوف کا احساس دلایا کرتی تھیں..........
             زیباؔ اب یہ محسوس کرنے لگی تھی کہ اُس شخص کی آنکھیں بارہا میرا تعاقب کیا کرتی ہیں........... اکثر راتوں کو زیباؔ کی نیندیں اُچٹ جایا کرتیں۔اور وہ ایک چیخ کے ساتھ اُٹھ جاتی۔
             ایسے وقت میں نادرہؔ اُسے اپنے سینے سے لگا لیتی اور اُسے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی۔
             نادرہؔ ، ارپناؔ کو زیباؔ کہہ کر پکارا کرتی تھی۔ اُس نے اپنی چھاتیوں سے ایک ایک بوند پلا کر ہی تو سیراب کیا تھا۔اور آج بھی اُسے اپنے سینے سے لگا کر کہتی زیباؔ بیٹے اس طرح نہیں ڈرا کرتے میں تو تمہارے پاس ہی ہوں۔
             لیکن ...........ماں............دیکھ باپو کی آنکھیں کتنی سلگ رہی ہیں............
             میں تم سے کتنی بار کہہ چکی ہوں۔وہ تمہارا باپو ہے۔اور بھلا کوئی اپنے باپو سے بھی ڈرتا ہے۔اس طرح نہیں ڈرا کرتے بیٹے.............
             اور ............ادھر وہ شخص اب ویرانوں کی بجائے آس پاس کی تنگ گلیوں میں،اور سڑکوں میں پھرنے لگا تھا............
           اب زیادہ تر اُس کی راتیں نادرہ ؔ کی ہی گلیوں میں گذرنے لگی تھیں...............
             ان ہی گلیوں سے اُس کی ڈھیر ساری یادیں وابستہ تھیں.................
             گذشتہ اُ س کی بے خواب سی کئی راتیں کسی کے انتظار کی طرح کٹ رہی تھیں...........آنکھیں لگتیں اور کھل جاتیں.......جیسے خواب بنتے بنتے بکھر گئے ہوں...........اُسے کئی دنوں سے یہ محسوس ہو رہا تھاجیسے اُس کی کوئی چیز کہیں کھو گئی ہو۔ جس کی کمی کا احساس ایک خلاء کی طرح اُس کے اندر.........بہت اندر تک پھیل گیا تھا..........اُس کی آنکھیں سلگ رہی تھیں۔جیسے وہ مسلسل کئی راتوں سے جاگ رہا ہو 
نادرہ ؔ بھی محسوس کرنے لگی تھی کہ ان سترہ سالوں میں وہ شخص اب کچھ تبدیل ہوتا جا رہا ہے........اُس کی ویراں ویراں سی آنکھیں شاید کسی کو تلاش کرتی ہیں........زیبا ؔ کے چہرے کو دیکھ کر وہ اپنے اندر کیا محسوس کیا کرتا ہے۔ جس کی گہرائی تک پہنچ پانا نادرہؔ کے لئے بھی مشکل ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔
          ادھر زیبا ؔ بھی اپنے اندر خوف کا ایک طوفان لئے بیٹھی تھی۔وہ بارہا نادرہؔ سے اُس شخص کی گھورتی اورسلگتی ہوئی آنکھوں کا ذکر کیا کرتی......
اور نادرہؔ اُ س کے اس خوف کو اس ڈر کو باپ اور بیٹی کے رشتوں کا احترام کہہ کر ختم کر دیتی.........
باتیں ہوئیں اور ختم ہو گئیں..................
            لیکن اُ س شخص کی بڑھتی ہوئی تبدیلیوں نے سب سے پہلے اُس کی سوچ کو متاثر کیا تھا ۔ زیبا ؔ کا چہرہ اسے پریتیؔ کی یاد دلایا کرتا تھا ۔ اور وہ اضطرابی کیفیت سے دوچار ہو جاتا ۔ زیبا ؔ کو دیکھ کر اسے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے کوئی گناہ اس سے سرزد ہو جائے گا ۔ 
            پر ایک بات اور تھی جس کا اثر اس کے ذہن پر اُ ن سانحوں سے زیادہ المیہ انگیز تھا ۔ وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ نادرہؔ کے مذہبی ماحول کی چھاپ زیبا ؔ کو اثر انداز کر رہی ہے زیبا ؔ کے طور طریقے پریتی ؔ سے بالکل مختلف تھے اس کی یہ تبدیلی اس کے اندر ہی اندر اترنے لگی تھی ۔ 
        نادرہ ؔ کے مذہبی رسم ورواج ..... مذہبی باتیں اور اسلامی پابندیاں ۔ ارپنا ؔ کو زیباؔ کہہ کر پکارا جانا ..... 
دفعتااس کے اندر کا جوار بھاٹا پھٹ پڑا ۔ میں ایسا ہر گزہونے نہیں دوں گا ۔ اور وہ وحشی شخص جس کی آنکھوں میں سترہ سالوں سے پریتیؔ کی چتا کی چنگاریاں موجزن تھیں۔آج پھر سلگ اٹھی تھیں۔
          اور پھریہ رات نادرہ ؔ کی زندگی میں اُن کالی راتوں سے کہیں زیادہ المیہ انگیز ہو گئی۔ 
            وہ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ایک رات تھی.........
دفعتاوہ شخص نادرہ ؔ کے وجود پر چھاتا چلا گیا ۔ رات کے اندھیرے میں جب اُ س شخص کے سانسوں کی رفتار نارمل ہوئی تو زیبا ؔ کی چیخیں رات کی پر اسرار شاہراہوں کو اور بھی پر اسرار کر گئیں ۔ جس کے ساتھ ہی بے شمار پرندے               آکاش کی گھنگھور تاریکیوں میں پھڑ پھڑانے لگے ۔ 
          وہ اپنے مقدس رشتے اور خدا کے خوف کا احساس دلاتی رہی مگر جب زیبا ؔ کی چیخیں اور سسکیاں اس شخص کی سماعت سے ٹکرائیں تو وہ شخص اور بھی و حشی، درندہ ہو اٹھا ۔ 
            پھر دور جیسے کسی بھیڑےئے کے قہقہوں کا شور بلند ہوا۔ قہقہوں کے اس شور میں وہ شخص چلا چلا کر کہہ رہا تھا دیکھو ،دیکھو آخرمیں نے انتقام لے ہی لیا ۔ 

           دور بہت دور سے کہیں گیتا کے اشلوک درد کی کہانیاں بیان کر رہے تھے ۔ شاید بائبیل کی مقدس کتاب کے سارے الفاظ حرف حرف مٹ گئے تھے ۔آکاش پھرپھڑاتے ہوئے پرندوں سے ڈھک چکا تھا ۔ .
تو کیا اب کل کا سورج کبھی طلوع نہیں ہو گا۔؟

()()()()()

مہتاب عالم پرویزؔ 
مکان نمبر ۱۱ کروس روڈ نمبر ۶ ۔ بی 
آزاد نگر ، مانگو ، جمشید پور ۸۳۲۱۱۰
جھارکھنڈ انڈیا
E - mail عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.

Read 2866 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com