افسانہ
ایک سمپورن انسان کی گاتھا
ڈاکٹراختر آزاد ؔ
جمشید پور، انڈیا
اس نے کمر سے ایک ہی جھٹکے میں اپنا وہی پُرانا خون آلوددھار دار چاقو نکالا اور پاگلوں کی طرح اپنے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے لگا ۔
وہ سمپورن انسان بننا چاہتا تھا ۔ ایک ایسا انسان جس کے اندر دُنیا کی ساری خوبیاں موجود ہوں ۔ لیکن اس روئے زمین پر آدم و حوّا کے حسین امتزاج سے جتنے بھی انسانوں کی تخلیق کی گئی ہے ان میں ایک بھی ایسا انسان نہیں جسے ’سمپورن ‘کہا جا سکے۔ خالقِ کائنات کے پاس کیا کچھ نہیں ہے؟ پھر بھی اُس نے سب کے اندر سب ہی کچھ کیوں نہ ودیعت کیا؟ ایسا بھی کیا کہ ایک دو ہی خوبیاں کچھ کے حصّے میں آئیں ، اور وہ بے چارہ ، کم عقل انسان اسی میں بہل گیا ۔
لیکن وہ........؟
وہ دوسروں انسانوں کی طرح بہلنے والا نہیں تھا، کیوں کہ اس کے اندر ایک طرح کا جنون تھا ۔ اور وہ سارے کارنامے جو دنیا کے الگ الگ انسانوں نے الگ الگ میدانوں میں انجام دِیے ہوں گے ، وہ سارے کے سارے آناً فاناً خود ہی انجام دے لینا چاہتا تھا ۔
اس مقصود کو حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے اُس نے دُنیا کے سارے مہاپُرشوں اور مختلف میدانوں میں عالمی ریکارڈ قائم کرنے والوں کی زندگیوں کا بغور مطالعہ کیا ۔ اور وہ ساری خوبیاں جو الگ الگ انسانوں میں اُسے نظر آئیں ، اُن کی زندگی کے اوراق کو تراش کر اپنی زندگی کا ایک نیا فائل کھول لیا ۔ فائل کے مکمل ہوتے ہی اس کا دل خوشی کے مارے بلّیوں اُچھلنے لگا کہ اب دُنیا کے سارے مہا پُرشوں اور عالمی ریکارڈ قائم کرنے والوں کے اہم انگوں کے نئے جوڑ سے اُس کے نئے جسم کا نرمان ہوگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دُنیا کے سارے ریکارڈ اُس کے دامن میں آ گریں گے۔
وہ سوچ کے پتھّر پر بیٹھا اپنے خاندانی زنگ آلود چاقو کو بہت دیر تک رگڑتا رہا ۔ کُند چاقو کی سخت دھار کو رگڑتے رگڑتے اُس کی آنکھوں سے لہو ٹپکنے لگا ۔ اس کا جسم لرزنے لگا ۔ چاقو کی دھار تھی کہ تیز ہونے ہی میں نہ آتی تھی ۔ اس کی ذہنی کیفیت اُس وقت پاگلوں جیسی ہو کر رہ گئی تھی ۔ چاقو کی دھار کو بار بار آزمانے کے چکّر میں اُس نے اپنے جسم کے کئی حصّوں کو کانٹ چھانٹ کر اور گود گود کر بُری طرح سے زخمی کر دیا تھا ۔ جب تک اُس کا جسم پوری طرح خون سے نہا نہیں گیا ، وہ سوچ کے پتھّر پر بیٹھا اپنے پرانے چاقو کی دھار تیز کرتا رہا ۔
آخر کار چاقو کی دھار اس کی حسبِ منشا تیز ہو گئی ۔ پھر وہ چاقو کو کمر میں گھونس کر ، اور بغل میں اپنی فائل دبائے ، مہاپرشوں اور عالمی ریکارڈ کے حاملوں کی تلاش میں زمین و آسمان کو کھنگالنے کا تہیّہ کر کے گھر سے نکل پڑا ۔ سب سے پہلے اس نے سوچا کہ اپنے پاؤں کو دنیا کے سب سے تیز دوڑنے والے پاؤں سے بدل لیا جائے۔ تو اُس نے ٹریک اینڈ فیلڈ سے تعلق رکھنے والی دُنیا کے مہان کارگزاروں ، جیسے لن فورڈ کرسٹی، ڈونون بیلی، کار لوئس ، بن جانسن اور مائکل جانسن کی زندگی کے اوراق اُلٹے۔ اُس کی نظرِ انتخاب بن جانسن پر پڑی ۔ وہ دوڑ کے ویڈیو کیسٹ کو ری وائنڈ کر کے سول اولمپک اسٹیڈیم کی بھیڑ میں شامل ہو گیا ۔
دوڑ کی شروعات ہوئی اور بن جانسن نے کارلوئس کو پچھاڑتے ہوئے ۷۹ء۹ سیکنڈ میں سو میٹر کی دوری طے کر کے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ۔ تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ جہاں سارا اسٹیڈیم گونج رہا تھا ، وہیں دوسری طرف ڈوپ ٹیسٹ کے لئے بن جانسن کو لیباریٹری لے جایا جا رہا تھا ۔ لیکن اس سے پہلے ہی وہ لاکھوں شائقین کی بھیڑ کو چیرتا ہوا ٹریک پر پہنچ گیا ۔ اور وہاں پہنچتے ہی اس نے جھٹ پٹ کمر سے وہی دھار دار چاقو نکال کر بن جانسن کے دونوں پاؤں کو کاٹ کر انھیں اپنے پیروں کی جگہ پر جوڑ کر ایک جست لگائی۔ ہاتھ میں فائل اور دوسرے ہاتھ میں چاقو پکڑے وہ برق اسپ کی طرح اسٹیڈیم سے باہر نکل گیا ۔ باہر نکلتے ہی وہ ایک بار پھر مہا پرشوں اور عالمی ریکارڈ والوں کی فائلوں کو تیزی سے پلٹنے لگا ۔ محمّد علی کلے، دارا سنگھ، برسلی اور ٹائسن میں سے اس نے اپنا فیصلہ جیسے ہی برسلی کے حق میں سُنایا ، اس کی آنکھوں کی اسکرین پر فلم برسلی کا ایک ایک سین اپنا جلوہ دکھانے لگا ۔ برسلی کو سینکڑوں آدمی گھیرے ہوئے ہیں اور وہ بجلی کی طرح چاروں طرف اُچھلتا اور ناچتا ہوا انگلی کے صرف ایک اشارے سے دشمن کو موت کے گھاٹ اُتار رہا ہے ۔ پھر دوسرے ہی منظر میں اُس نے دیکھا کہ وہ برق رفتاری کے ساتھ نائن چاقو گھُما رہا ہے اور لوگ اُس پر چاروں طرف سے گولیاں چلا رہے ہیں ۔ لیکن ایک بھی گولی اُس کے جسم کو گزند نہیں پہنچا رہی ہے، سب کی سب اُس کے نائن چاقو سے ٹکرا کر لوٹ جا رہی ہیں ۔
اپنے سارے حریف کاصفایا کرنے کے بعد جب برسلی آہستہ آہستہ اپنے گھر کی سمت بڑھنے لگا تو شیر کی سی پھرتی کے ساتھ پیچھے سے اُس نے خون آلود دھار دار چاقو سے برسلی کے دوونوں ہاتھوں کو کاٹ لیا ، اور انھیں اپنے ہاتھوں کی جگہ جوڑ کر خون آلود چاقو کو اُسی طرح کمر میں کھونس کر ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر سائیں سائیں کرتا وہاں سے آگے بڑھ گیا ۔
ایک بار پھر مہا پرشوں اور عالمی ریکاڈ قائم کرنے والوں کی فائلوں کو پلٹتے پلٹتے اُس کا خون سے سنا ہوا وہی ہاتھ کمر کی طرف گیا اور آن کی آن میں خون آولوددھار دار چاقو اس کے ہاتھ میں لہرانے لگا ۔ وہ تو سن تخیّل کی سی تیزی کے ساتھ مہابھارت کی سرحدوں کو پھلانگتا ہوا جھپٹا اور درونا چاریہ کے شکچھا استھان میں بغیر اجازت پرویش کر گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ درونا چاریہ اپنے شِشیوں کی پرکچھا لے رہے ہیں ، پوچھتے ہیں ۔
’’تمہیں اس پیڑمیں کیا دکھائی دے رہا ہے ۔؟‘‘
جواب میں کسی نے پیڑ کہا تو کسی نے پتّی ۔ کسی کو چڑیا نظر آئی تو کسی کو دروناچاریہ کے سوا کچھ بھی دکھائی نہ دیا ۔ لیکن سب سے آخر میں ارجن کی باری آئی تو اس نے کہا ۔
’’ مہاراج ! مجھے تو صرف چڑیا کی بائیں آنکھ دکھائی دے رہی ہے ۔ ‘‘
اور پھر اس نے نشانہ لگایا اور تیر سیدھا چڑیا کی بائیں آنکھ میں جا لگا ۔ دروناچاریہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے فرمایا :
’’ارجن ہی میرا سب سے پِریہ شِشیہ ہے۔‘‘
درونا چاریہ کے وہاں سے ہٹتے ہی اس نے ارجن کی باز جیسی چمکیلی تیز آنکھوں کی گولیوں کو اپنے دھار دار چاقو سے نکال کر اپنی آنکھوں کی کٹوریوں میں فٹ کر لیا اور خوشی سے جھوم اُٹھا کہ اب وہ ان آنکھوں سے پاتال کے اندر کی چھُپی ہوئی چیزوں کو دیکھ سکتا ہے ۔
لیکن وہ اپنے اندر اب بھی بہت ساری کمیاں محسوس کر رہا تھا ۔ وہ ایک بار پھر مہا پرشوں اور عالمی ریکارڈ کے حامل جیالوں کی فائلوں کے اوراق تیزی سے اُلٹنے لگا ۔ شاطر دماغ انسانوں میں شرلاک ہومز، ہرشد مہتہ، نٹور لال ، جیمس بانڈ اور ان کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سارے نام کمپیوٹر کی اسکرین پر نمودار ہوئے ۔ اُس نے خوب سوچ بچار کر خون آلود دھار دار چاقو کی نوک سے کی بورڈ کا بٹن دبایا اور جیمس بانڈ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے خون آلود دھار دار چاقو سے بانڈ کی کھوپڑی کھول دی اور اس کا دماغ نکال کر اپنے دماغ میں فٹ کر لیا ۔
ایک بار پھر وہ مہا پرشوں اور عالمی ریکارڈ کے مالکوں کی فائل اپنے خون آلود دھار دار چاقو سے پلٹ رہا تھا ۔ اب اسے دُنیا کے سب سے مضبوط دل کی تلاش تھی ۔ ایک ایسے دل کی جو نہ کبھی کسی کے آگے جھکا ہو اور نہ ہی اُسے کوئی جھکا پایا ہو ۔ سکندر اعظم، سمراٹ اشوک، نپولین، رانگا سانگا سے لے کر صدّام حسین تک سب پر اُس کی نظریں تیزی سے پھسلتی رہیں ۔ آخر کار اُس نے انتخاب کی مہر ہٹلر کے سینے پہ لگا دی۔ مہر لگتے ہی اس نے خود کو جرمنی کی سرزمین پر پایا ۔ کیا دیکھتا ہے کہ ناتسی دیوانہ ہٹلر ایک پارک میں کھڑا ہے ، اس کے سامنے سمنٹ اور لوہے کا بنا ہوا ایک بھاری گلوب ہے ۔ساری دنیا کو فتح کرنے کا خونی ارادہ کرنے والا دیوانہ ہٹلر کسی ہذیانی کیفیت میں گرفتار لوہے کی ایک موٹی زنجیر سے گلوب کو باندھنے کی کوشش کر رہا ہے اور خود ہی مسکرائے دیتا ہے کہ بس اب ساری دُنیا میری مٹھّی میں ہو گی ۔ زنجیر سے بندھے ہوئے گلوب کو جیسے ہی ہٹلر نے اپنے سر پر لاد کر فاتحانہ مسکراہٹ سے ساری دنیا کو دیکھنا چاہا ، خون آلود دھار دار چاقو سے اُس نے اُس کا سینہ چیر کر اُس کا دل نکال لیا اور فوراً اُسے اپنے سینے میں اڑس لیا ۔ اتنے کے بعد بھی اُسے وہ نصیب نہ ہوا جس کی اُسے تمنّا تھی ۔ اب بھی اُسے بہت ساری کمیاں اپنے اندر محسوس ہو رہی تھیں ۔ سمپورن انسان کا وہ خواب اب بھی اُس کی آنکھوں میں کروٹیں لے رہا تھا ۔ سمپورن بننے کی چاہت میں اِدھر وہ دھڑا دھڑ فائلوں کے اوراق اُلٹتا رہا اور اُس کا دھار دار خون آلود زچاقو ایک ایک کر کے اپناکام کرتا رہا ۔ یعنی جس کا جو انگ اچھّا لگا اُس نے بے جھجھک وہ انگ کاٹ کر خود اپنے جسم میں جوڑ لیا ۔ اس طرح آہستہ آہستہ اُس کے جسم کا ایک بھی انگ اُس کا اپنا نہ رہا ۔ اپنے جسم کے سارے انگوں کو بدل کر کے اُس نے ساری دُنیا کو حیرت زدہ کر دیا تھا ۔
اب اُس کے انگ انگ میں بجلی ناچ رہی تھی ۔
دماغ کمپیوٹر کی اسکرین کی طرح روشن تھا ۔
آنکھوں سے روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں ۔
دونوں پیروں میں ہوائی جہاز کے پنکھے سے لگ گئے تھے۔
دونوں ہاتھ مشینی انداز میں اُوپر نیچے ہو رہے تھے۔
دل میں ساری دنیا کی قوّت بل کھا رہی تھی ، کروٹیں بدل رہی تھی اور وہ غرور کے پتھّر پر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ دنیا کے وہ سارے کارنامے جو دوسروں کے نام ہیں، آن کی آن میں اُس کے دامن میں آگریں گے ۔ پھر دُنیا اُس کے قدموں تلے ہو گی ، اور آسمان اُس کے ہاتھوں میں ۔اس لئے وہ آج بہت خوش تھا ، کیوں کہ وہ خواب جو اُس نے دیکھا تھا پورا ہو گیا تھا ۔ اُس کا اپنا کچھ نہ تھا تو نہ سہی ، ہزاروں انسانوں کے انگوں کو اپنے اندر جوڑ کر وہ ’’سمپورن انسان ‘‘ بن ہی گیا تھا ۔
سمپورن انسان کا لبادہ اوڑھتے ہی اس نے میڈیائی ہواؤں کے ذریعہ ساری دُنیا میں اپنے کارناموں کی تشہیر کر دی ۔ آج کروڑوں لوگ اس کے کارناموں کو دیکھنے کے لئے دُنیا کے سب سے وسیع میدان میں جمع ہوئے تھے ۔
شروعات ٹریک اینڈ فیلڈ سے ہونی تھی ۔
جب ساری تیّاریاں ہو گئیں تب وہ وارم اپ کرتے ہوئے لائن نمبر ایک پر آ کر کھڑا ہو گیا۔
’’آن یورک مارک!‘‘
’’گیٹ سیٹ!‘‘
اور پھر ’’گو‘‘ کی آواز پر اس نے اپنا دایاں ہاتھ ، پھر بایاں ہاتھ زمین سے اُٹھایا ۔ اس کے فوراً بعد آگے پیر سے اسٹارٹنگ بلاک کو تیزی سے دبا کر آگے بڑھتے ہوئے اُس نے پچھلے پیر کے گھٹنے کو تیزی سے آگے بڑھانے کی کوشش کی تو جسم کے دوسرے حصّے بھی حرکت میں آ گئے ۔ ’’گو‘‘ کی آواز پر اُس کے دونوں پاؤں برق رفتاری کے ساتھ آگے تو بڑھ گئے ، لیکن کمر سے اُوپر کے وہ حصّے جو دوڑ کے اس فن سے ناآشنا تھے ، ساکت رہ گئے اور وہ لڑکھڑاتا ہوا دھڑام سے پیچھے کی طرف گر پڑا۔
اور پھر جب اُس نے اپنے جسم کی گرد جھاڑتے ہوئے رِنگ میں نائن چاقو گھُما کر گولی کے رُخ کو موڑنے کا دل دہلا دینے والا مظاہرہ دکھانا چاہا تو اُس کی آنکھیں گھنے پیڑکی پتّیوں کے درمیان مہا بھارتی چڑیا کی بائیں آنکھ سے اُلجھ کر رہ گئیں ۔
اور جب اُس کے جسم کے کسی بھی انگ کا رشتہ جسم کے کسی بھی دوسرے انگ سے استوار نہیں ہو پایا ، تب درد اُس کے لہو میں گھُل کر اُس کے انگ انگ میں گرم گرم شیشے کی طرح بہنے لگا۔اوراندر ہی اندر ہڈّیوں کی جڑ تک پہنچنے لگا ۔
اور جب درد کے اس بے رحمانہ وار سے اس کے جسم کی ہڈّی جگہ جگہ سے چٹخنے لگی ، تب کروڑوں تماشائیوں کے بیچ اکیلا کھڑا وہ اُسی پرانے خون آلود دھار دار چاقو سے اپنے’ سمپورن جسم ‘کے ٹکرے ٹکڑے کرنے لگا ۔
***
Add:
DR.AKHTAR AZAD
,HOUSE NO 38, ROAD NO-1
AZADNAGAR , JAMSHEDPUR- 832110 - JHARKHAND
Mob- 09572683122
E.mail: عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.