الجمعة, 07 آب/أغسطس 2015 15:46

پولیوشن: ڈاکٹر ریاض توحیدیؔ

Rate this item
(0 votes)

 پولیوشن
 ڈاکٹر ریاض توحیدیؔ
 وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر123221


                                      بائیک اسی کی رفتار پر دوڑ رہی تھی۔شہر پہنچنے تک ابھی تیس میل کا فاصلہ تھا۔دن ڈھل رہا تھا اور دن ڈھلنے کے ساتھ ساتھ اُس کا تناؤ بھی بڑھ رہا تھا۔ایک تو اسے ماں کی دوا لانے کی فکر تھی اور دوسراوقت پر گھر وآپس لوٹنے کی پریشانی تھی۔اس کا علاقہ شہر سے تقریباََستر میل کی مسافت پر تھا۔خراب حالات کی وجہ سے رات کو چلنا پھرناتھوڑا بہت مشکل ہوتا تھا۔وہ ایک پرائیوٹ کمپنی میں رنر کا کام کرتا تھا۔کمپنی کی طرف سے اُسے پانچ ہزارتنخواہ ملتی تھی‘جسے وہ گھر کے اخراجات چلاتا رہتا تھا۔کمپنی نے اُسے ایک بائیک بھی استعمال کے لئے دے رکھی تھی تاکہ وہ کمپنی کے کام کو وقت پر انجام دے سکے۔وہ جب شام پانچ بجے گھر میں داخل ہوا تو ماں چائے کی پیالی سامنے رکھتے ہوئے کہنے لگی: ”میری دواختم ہوئی ہے۔“ ”صبح بتایا ہوتا تومیں ساتھ لے کر آتا۔“وہ ماں کی بات سن کر کہنے لگا۔”اب تو دیر ہورہی ہے اور دوا شہر میں ہی ملتی ہے۔“ ”صبح کو یادنہیں رہا وہ تو دوپہر کو تب خیال آیا جب میں دوا کھانے لگی۔“ما ں اسے پریشان ہوتے دیکھ کر بول پڑی۔”اچھا چھوڑو‘پریشان مت ہوجا صبح کو دیکھیں گے۔“
”صبح کیا دیکھیں گے۔“وہ چائے پینے کے بعد کھڑا ہوکر کہنے لگا۔”ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کے مطابق اگربھول سے بھی کبھی
دوا کھانے سے رہ گیا تو پھر سے تین مہینے کا کورس شروع کرنا پڑے گا۔“
اس نے جلد ی بائیک اسٹارٹ کی اور شہر کی جانب نکل پڑا۔بائیک تیز رفتاری سے چل رہی تھی۔ٹریفک پولیس پر نظر پڑتے ہی اس نے بائیک کی رفتار کم کردی۔نزدیک پہنچنے پر پولیس مین نے اُسے رکنے کا اشارہ کردیا۔اس نے اشارہ پاتے ہی بائیک سائیڈ میں لگادی۔ پولیس مین نے اسٹک سے اشارہ کرکے کاغذات دکھانے کو کہا۔اس نے کاغذات اور لائسنس نکال کر پولیس والے کے ہاتھ میں تھما دیئے۔پولیس مین کاغذات چک کرنے لگا۔ٹریفک اہلکار ایک خوبصورت نوجوان تھا‘شاید نیانیا بھرتی ہوا تھا۔وہ کاغذات چک کرنے کے بعداُسے مسکراتے ہوئے سمجھانے لگا کہ ہیلمٹ کے بغیر بائیک چلانا خطرے سے خالی نہیں ہوتا ہے اور اوپر سے جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔یہ سمجھانے کے بعد پولیس والا جونہی اسے کاغذات وآپس دینے لگاتو اسی وقت پاس والی گاڑی میں بیٹھے افسر کی آواز آئی کہ اسے یہاں بھیج دو۔یہ سنتے ہی پولیس اہلکار اسے افسر کے پاس لے گیا اور کاغذات افسر کو دے کر دوبارہ گاڑیوں کی چکینگ کرنے لگا۔افسر ادھیڑ عمر کا ایک موٹا تازہ شخص تھا۔وہ سگرٹ کا ایک کش لیکر کاغذات چیک کرنے لگا۔ ”اچھا تمہارا نام انعام دارہے۔“کاغذات چیک کرتے کرتے وہ بھدی سی ناک سکیڑتے ہوئے پوچھ بیٹھا۔ ”ہیلمٹ کے بغیربائیک کیوں چلا رہا تھا؟“
”سوری سر“وہ عاجزی سے کہنے لگا۔”دراصل میں جلدی میں گھر سے نکل پڑا اور ہیلمٹ لگانا بھول گیا۔“
”لیکن قانون جلدی اور صبر نہیں دیکھتا ہے۔“پولیس افسرتیور بدلتے ہوئے بول پڑا۔”قانون کا کام غلطی پکڑنا ہوتا ہے‘جو تم نے کی ہے۔پھربھی آج کل تمہارے جیسے سر پھیرے نوجوان فلمی اسٹائل میں بغیر ہیلمٹ کے بائیک رائیڈنگ کا کرتب دکھاتے رہتے ہو۔“
”نہیں سر۔“وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔”میں تو ماں کی دوا لانے کے لئے شہر جارہا ہوں۔اسے میری لاپرواہی ہی سمجھیں کہ میں ہیلمٹ لگانا بھول گیا۔“
”پھر بھول کا بہانہ۔“افسرسر ہلاتے ہوئے کہنے لگا۔”اچھا اپنی بھول کا ثبوت پیش کرو۔“
”بھول کا ثبوت.....!“
”ہاں بھول کا ثبوت یعنی ڈاکٹر کا نسخہ۔“
”ہاں سر۔“ وہ جیب سے نسخہ نکالتے ہوئے بول پڑا۔”یہ ہے دوا کا نسخہ۔“
”نسخہ تو ہے۔“افسر نسخہ وآپس دیتے ہوئے بول پڑا.”لیکن قانون تو قانون ہے۔جلدی سے جرمانے کے طور پر پانچ سو نکالو۔“
”پانچ سو.....“وہ حیران ہوکر کہنے لگا۔
”ہاں پانچ سو.“افسرچالان بک کھولتے ہوئے کہنے لگا۔”نہیں تو کورٹ چلان کرونگا۔“
”پلیز سر‘چالان مت کیجیے .“وہ منت سماجت کرنے لگا.”اورمیں صرف سو روپے دے سکتا ہوں کیونکہ میرے پاس صرف سات سو روپے ہیں۔پانچ سو کی تودوائی آتی ہے‘سو کا تیل ڈالنا ہے اور باقی سو روپیہ بچتا ہے۔“
”دیکھوں ناٹک بازی مت کرو.“
”سر میں سچ کہتا ہوں۔“
”یہاں سچ اور جھوٹ کا مسئلہ نہیں ہے۔“پولیس افسر رعب دارآواز میں گرجنے لگا۔”یہاں قانون کا مسئلہ ہے اور ہم قانون کے رکھوالے ہیں۔اگر ہم ہی قانون توڑیں گے توپھر قانون کو کون جوڑ کر رکھے گا۔“
”جی سر آپ کاکہنا بجا ہے.“وہ پھرگزارش کرنے لگا۔”لیکن اس وقت میں بھی مجبور ہوں‘اگراس قابل معاف غلطی پر بھی
آپ مجھ سے پیسے لینگے تومیں ماں کی دوائی خریدنے سے رہ گیا۔“
”تو پھر کورٹ کچہری کے چکر کاٹو۔“افسر اس پر ترچھی نظرڈالتے ہوئے کہہ اٹھا”اچھا چار سو ہی دے دو‘کام چل جائے گا۔“
”لیکن سر۔“
”لیکن ویکن کچھ نہیں‘جلدی کرو۔“
انعام دار کچھ لمحے سوچنے لگا کہ اگر وہ اس افسر کوقابل معاف غلطی پر بھی غلط طریقے سے پیسے دیگا تو ماں کی دوا کہاں سے آئیگی‘اور اگر پیسے نہیں دیگا تو چالان ہونے کے بعد پتہ نہیں کورٹ کچہری کے کتنے چکر کاٹنے پڑینگے۔وہ ابھی اسی شش و پنج میں تھاکہ پولیس مین نے ایک اور نوجوان کو افسر کے سامنے یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ سر‘اس کے پاس نہ تو لائسنس ہے اور نہ ہی پولیوشن سرٹفکیٹ ہے اور اوپر سے رعب جما رہا ہے کہ یہ وزیر ٹرانسپورٹ کا بھانجا ہے۔
”بھانجا ہے۔“افسر کے منہ سے زور دار ہنسی نکل گئی۔”اگر یہ وزیر ٹرانسپورٹ کا بھانجاہے تو میں بھی محکمہ ٹرانسپورٹ کا
دادا ہوں۔“
”لائسنس کے بغیرگاڑی ڈرائیو کررہا ہے۔“افسر اُس کے حلیے کا میجر منٹ لیتے ہوئے بول پڑا۔”چل ایک ہزار روپے نکال نہیں تو گاڑی بھی سیز ہوسکتی ہے۔“
”آپ گاڑی سیز کریں گے.....؟“وہ لڑکا بڑے کروفر کے ساتھ بول پڑا۔”پھر خود ہی گاڑی کے ساتھ معافی کا کھاتہ لیکر ماموں جان کے پاس دوڑتے دوڑتے چلے آئینگے۔“
”اچھا تیرے پاس کیا ثبوت ہے کہ تومنسٹر صاحب کا بھانجا ہے۔“پولیس افسر لڑکے کی اکڑ دیکھ کرپوچھ بیٹھا۔
”میں مامی جان سے موبائل پر بات کرکے دکھا ؤں۔“لڑکا موبائل پر کال ملاتے ہوئے بول پڑا۔
”ہاں‘ہاں کال ملا دو۔“افسر جلدی میں بول پڑا.
”ہیلو! مامی جان۔۔۔“
”ہیلو بیٹا‘ ٹھیک ہو۔“
”مامی جان‘ میں گلمرگ کی سیر کرکے وآپس آرہا تھا کہ ہائی وے پر ٹرافک پولیس نے روکے رکھا ہے۔‘‘
”ذرا ان کو فون دینا۔“
”ہیلو میڈم“پولیس افسر خوش ہوکر بول پڑا.
”کیا پروبلم ہے؟“
”کچھ نہیں میڈم بس تھوڑا سا کاغذات چک ہورہے تھے۔“افسر میٹھی زبان میں کہنے لگا.“ ”اب۔۔۔!“ ”اس کے پاس لائسنس اور پولیوشن سرٹفکیٹ نہیں تھی اس لئے اب اسے سمجھا رہے تھے کہ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانا قانوناََ جرم ہے۔“
”اچھا ٹھیک کیا‘میں اُسے گھر پر بھی سمجھا دونگی۔“
”ٹھیک ہے میڈم‘میں اسے ابھی چھوڑ دیتا ہوں۔“افسر چند قدم چل کر کہنے لگا.”اگر آپ اجازت دیں
تو میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔“
”ہاں بولو بولو۔“
”میں یہاں سے ٹرانسفر ہونا چاہتا ہوں .“افسر مودئبانہ لہجے میں کہنے لگا۔”اگر آپ منسٹر صاحب سے کہہ دیں گے
تو میرایہ پرابلم جلد ہی حل ہوسکتا ہے.“
”اچھا ٹھیک ہے‘ تم اپنانام پتہ لکھ کر بھیجو۔“
افسر نے بڑے خوشگوار موڈ میں لڑکے کو اپنا موبائل وآپس کردیااور گاڑی میں دوبارہ جاکر کاغذ قلم سنبھالا۔
انعام دار بے سی کے عالم میں اس گرگٹ کے بدلتے رنگ دیکھ کر زہر کے گھونٹ پیتا رہا۔
”تم نے کیا مشورہ کیا...؟“افسر انعام دار کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھ بیٹھا۔
”سر‘میر ی بھول سے قانون میں جھول پڑ رہاہے۔“انعام دار افسر کو پیسے دیتے ہوئے کہنے لگا .”اسلئے آپ ایک مجبور کی جیب خالی کر کے اپنے ٹوٹے پھوٹے قانون کو جوڑنے کی کوشش کیجئے۔“
”مذاق کرنے کا فن خوب جانتے ہو۔“افسر پیسے جیب میں ڈالتے ہوئے کہنے لگا۔”اچھا اب یہاں سے جلدی جلدی بائیک لے کر چلے جاو‘کیونکہ تمہیں دور جانا ہے۔“
پولیس افسر کاغذپر منسٹر کیلئے اپنا نام وپتہ لکھنے میں مشغول ہوگیا اور انعام دارمایوس ہوکر بائیک پر چڑھ گیا۔بائیک کو کِک مارتے ہی اُس نے پولیس افسر کو حقارت بھری نظر سے دیکھا اورمنہ سے پولیوشن کا لفظ نکالتے ہوئے وہاں سے چل پڑا۔


mob:9906834877
E.mail:عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.

Read 3959 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com