بھرم
ناصر ملک
"بابا!رات ہو گئی ہے اور پانی بہت چڑھ آیا ہے۔ کسی بھی وقت مکان ٹھاہ ٹھاہ گرنے لگیں گے۔ کچھ کر۔" "کیا کروں؟ وہی جو تم سب گائوں والے کہتے ہو؟نہیں۔میں ایسا نہیں کر سکتا۔بھرم بھی کوئی شئے ہوتی ہے۔ " "کیا ہم سب کو مارنے کا اِرادہ ہے تیرا؟ " "تو کیا میں تم لوگوں کو پچھلا بند توڑنے کی اجازت دے دوں؟دنیا کیا کہے گی کہ اپنے آپ کو بچاتے ہوئے میں نے فریدن کو لوڑھ دیا؟ نہیں گودا! بھرم بھی کوئی شئے ہوتی ہے۔" "ہاں بابا! ورنہ سارا گائوں ڈھیہہ جائے گا۔" "اور بے چارے فریدن اور اس کے خاندان کا کیا بنے گا جو بند کے سامنے بیٹھے ہیں؟ وہ چاروں طرف سے پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ مال ڈنگر لے کر نکل بھی نہیں سکتے۔ بند توڑا تو پانی کا ریلا ان کو آنکھ جھپکتے میں بہا لے جائے گا۔" "بابا! اپنے سالے کی خیر نہ مانگ، اپنے گھر اور گائوں کا بھلا سوچ۔پورا گائوں باتیں بنا رہا ہے۔ تیرے خلاف بولتا نہیں اور تو الٹے سیدھے حکم چلاتا رہتا ہے۔" "نہیں! کوئی اور حل سوچو تم لوگ۔ پچھلا بند میرے جیتے جی نہیں توڑا جائے گا۔" وہ پھنکارتا ہوا چلا گیا۔ اس کے ساتھ آئے ہوئے سبھی رخصت ہو گئے۔ بابا پلٹا اور گھر داخل ہوا۔ ڈیوڑھی میں اس کی بیوی منتظر تھی۔ اس کی آنکھوں میں اپنے تاجدار کیلئے فخر اور ستائش بھری ہوئی تھی۔ "ہاہ! اب میں گائوں والوں کے پیچھے لگ کر فریدن کا گھر ڈھاہ دوں؟بھائیوں کا بھرم بھی کوئی شئے ہوتی ہے۔" اس نے گردن اکڑا کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور تیز تیز قدموں سے اپنے کمرے میں داخل ہو گیا۔ گائوں والے رات بھر جاگتے رہے مگر ان کی توقع کے مطابق پانی گائوں میں داخل نہیں ہوا تھا۔ خوشی آمیز تعجب آنکھوں میں لیے فجرکے نمازیوں نے گائوں کی نم گلیوں کو اخیر تک دیکھا۔ پانی گائوں میں داخل نہیں ہوا تھا۔ گائوں والے اپنا گائوں سنبھال رہے تھے جبکہ بابا پچھلے بند کی طرف منہ کیے مغموم کھڑا تھا۔ اس کے تھکے چہرے کی جھریوں میں شکست کے ساتھ ساتھ اس چوری کا کھرا بھی موجود تھا جو اس نے رات کے پچھلے پہر کی تھی۔ رات کو چوروں کی طرح بند پر کسی چلاتے ہوئے اس کے کانوں میں بپھرے ہوئے پانی کا غیظ ناک شور بھر گیا تھا جبکہ اب ا س کے کانوں میں اس کی اپنی ہی آواز گونج رہی تھی، "فریدن! میکوں معاف کر چھوڑیں۔۔۔۔"