افسانہ
سانپ اور پرندے -SANP AUR PARINDE
مہتاب عالم پرویزؔ - MAHTAB ALAM PERVEZ
کویت -KUWAIT
٭گُذشتہ شب میری پانچ سالہ بیٹی نوشینؔ نے JUBILEE PARK جانے کا پروگرام بنایا تھا۔
جب میں ساڑھے چھ بجے سائبر بند کر کے اپنے گھر لوٹا، میری بیوی میری منتظر تھی اور میرا چار سالہ بیٹا فرازؔ مجھے دیکھ کر کافی خوش ہوگیا تھا لیکن میری آنکھیں اپنی پیاری سی بیٹی نوشین ؔکو تلاش کر رہی تھیں ......
سمرنؔ نے بتا یا کہ آپ کی پیاری بیٹی تو آپ کا انتظار کرتے کرتے تھک سی گئی تھی پھر آپ نے فون کر کے جب یہ بتایا کہ میں ساڑھے چھ بجے آرہا ہوں جب آپ کا فون آیا تھا اُس وقت شام کے پانچ بجے تھے اور پھر ایسے حالات میں اُس کے اندر اتنا PATIENCE کہاں کہ وہ آپ کا انتظار کرے وہ تحسین ؔکے ساتھ جا چُکی ہے۔ تحسین ؔکے مّمی اور ڈیڈی جا رہے تھے۔ اس سے اچھا موقع اُس کے لئے اور کیا ہو سکتا تھا۔
”اور جب وہ جا ہی چُکی ہے تو اب JUBILEE PARK جانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔“ سمرنؔ نے اظہارِ خیال کیا۔ ”آپ تو یہ اچّھی طرح سے جانتے ہیں کہ مجھے بھیڑ بھاڑ سے شدید نفرت ہے۔“ لیکن میرا چار سالہ بیٹا فرازؔ شور مچانے لگا۔اور اپنی توتلی زبان سے کہنے لگا ”ام بی پالک جا للا......“
ویسے پارک جانے کامیرا بھی ارادہ نہیں تھا لیکن فراز ؔ کی وجہ سے مجبورا جانا پڑا۔
پارک کے جانے والے راستوں سے ہی فرازؔ کی نگاہیں اپنی بہن نوشین ؔ کو تلاش کر رہی تھیں اور وہ بار بار اپنی توتلی بولی سے کہہ رہا تھا۔ ”امی نوشینؔ کہاں لللا۔“ کیونکہ یہ دونوں معصوم بھائی بہن ایک دوسرے سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔
پارک کے مین گیٹ سے ہی لوگوں کی افرا تفری شروع ہوگئی تھی، بھیڑ کافی تھی۔ ایک لمحے کے لئے میں نے سوچا کہ واپس لوٹ چلوں، اور سمرنؔ بھی واپس لوٹ جانے کا اصرار کرنے لگی تھی لیکن فرازؔ نے شور مچانا شروع کر دیا۔ ”نہیں میں گُھوم لللا.....“ اور خوب زور زور سے رونے لگا، آخر تھک ہار کرہم لوگوں کو، لوگوں کے اس ہجوم میں شامل ہو نا پڑا۔
گاؤں کے پُرسکون ماحول کی پروردہ میری بیوی نے جب لوگوں کی اس بھیڑ میں، اپنے آپ کو دیکھا تو کہنے لگی۔ ”یہ ا ٓپ مجھے کہاں لے آئے ہیں ۔؟“
”آپ یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مجھے بھیڑ بھاڑ سے شدید نفرت ہے۔ اور یہ باتیں آپ کو میں نے پہلے بھی بتائی تھیں۔“
”جانتا تو ہوں۔“
”اُس کے باوجود آپ مجھے یہاں لے آئے ہیں۔“
”میں نہیں۔“
”ہمارے صاحب زادے نے ہمیں یہاں آنے پہ مجبور کیا ہے۔ او رمجبوریاں انسان سے کیا کُچھ نہیں کرواتی ہیں۔آپ تو یہ اچّھی طرح سے جانتی ہیں کہ میں خودتنہائی پسند ہوں، بھیڑ بھاڑ سے مجھے بھی اتنی ہی نفرت ہے جتنی نفرت آپ کرتی ہیں ۔“
بھیڑ اتنی بڑھ گئی تھی کہ میرا چار سالہ بیٹا اپنے آس پاس کے کسی بھی ماحول کو سوچنے سمجھنے سے قاصر تھا آخر میں نے اُسے اپنے کاندھے پہ اُٹھا لیا۔ میرا بیٹا کافی خوش تھا کیوں کہ وہ خود کو میرے کاندھے پہ سوار کر کے مجھے گھولاکہہ رہا تھا اور اپنی توتلی زبان سے مجھے کہہ رہا تھا۔ ”چل میلے گھولے تک تک تک......“
”چل میلے گھولے تک تک تک .“....... سُن کر......
میری بیوی کافی خوش تھی کہ میرا بیٹا آج اپنے باپ کو صحیح طرح سے پہچان پایا ہے۔یہ الگ سی باتیں ہیں کہ رات کے ہر پچھلے پہر گھوڑے کے ہنہنانے کی آوازیں وہ اپنے پہلو میں محسوس کرتی ہے۔ اور پھر وہ اُسے رام کرنا بھی جانتی ہے۔
میں بھی کافی خوش تھا۔
اچانک میری بیوی نے دوبارہ کہا کہ ”آپ مجھے کہاں لے آئے ہیں آپ کا بیٹا آپ کو گھوڑا کہہ رہا ہے اور میری آنکھیں لوگوں کی اس بھیڑ میں انسان کو تلاش کر رہی ہیں۔ لوگوں کی بھیڑ موجود ہے لیکن میں خوف زدہ ہوں، نہ جانے کیوں۔؟“
ایک لمحے کے لئے میں بھی چونکا اور بھیڑ کا باریک بین نگاہوں سے جائزہ لینے لگااور پھر میری آنکھیں پھیلتی ہی چلی گئیں۔
میں نے دیکھالوگوں کے سارے چہرے جانوروں کے خوفناک صورت اختیار کر چُکے تھے۔ اور کالج کی خوبصورت، خوبصورت سی لڑکیاں ریچھ کے سنگ گُھوم رہی تھیں۔ ریچھ کے ناخونی پنجوں میں خوبصورت لڑکیوں کی مخروطی انگلیاں سموئی ہوئی تھیں۔بھیڑیا صفت لوگوں کے ہاتھ خوبصورت سی لڑکیوں کے شانوں پر تھے اور کینہ توز نگاہیں اُس کے جسم کے نشیب و فراز پہ رینگ رہی تھیں۔ کُتّے جیسی خصلت کا وہ آدمی اپنے منھ سے رال ٹپکا رہا تھا۔ اور کسی کے نوکیلے دانت کسی کے وجود کو چیڑ پھاڑ رہے تھے۔ کسی کی ننگی آنکھیں جسموں کو بے لباس کرنے میں مصروف تھیں۔
”چل میلے گھولے تک تک تک .....“
میں پھر چلنے لگا تھا.......
سارا پارک رنگ برنگے قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔سانپ جیسی بل کھاتی کالی لمبی سڑک ، بھیڑیے ، ریچھ ، کُتّے نما لوگوں کو اپنے وجود پہ سوار کئے رینگ رہی تھی۔ میں بھی گھوڑا بن کر اُس پہ سوار تھا۔اور میرا بیٹا گُھڑسواری کر رہا تھا۔ اور اُسے بڑا مزا آ رہا تھا لیکن سمرنؔ اس بھیڑ سے اُکتانے لگی تھی۔
؎ سمرنؔ نے کہا ”اب واپس چلیں۔ آج ہی شادی کی پارٹی میں بھی جانا ہے، واپسی پہ کافی تھکان ہو جاتی ہے۔“
میں بھی یہی چاہ رہا تھا۔
خیر کسی طرح سے میں اپنے گھر لوٹ آیا تھا۔ گھر کی واپسی کے وقت فرازؔ آئسکریم کے مزے لیتا رہا اور ہم لوگ جھال موڑھی کے ذائقے کے سنگ اپنی پیاری سی بیٹی نوشین ؔ کو یاد کرتے رہے۔ گھر پہنچتے ہی سمرنؔ نے گرما گرم چائے بنا کر اچّھی بیوی ہونے کاثبوت دیا۔
ہم دونوں نے چائے پی کر خود کو فریش محسوس کیا۔اور شادی کی پارٹی میں جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔
راجؔ گارڈن میں شادی کی شاندار پارٹی کا انتظام کیا گیا تھا پورا ہال رنگ برنگے قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں بکھری پڑی تھیں۔ ٹیڈی بیر کا جوڑا بچوں میں چاکلیٹ بانٹ رہا تھا۔ اور میں انسان کو اس جانوروں کے خول میں لپٹا دیکھ کر نئی کہانیوں کے ادھیر بُن میں گُم ہو گیا تھا کہ کہانیاں تو ایسی ہی سوسائٹی میں جواں ہوتی ہیں۔ یا پروان چڑھتی ہیں۔
میری بیٹی نوشینؔ بھی لوٹ آئی تھی اور پارٹی میں آئسکریم کے مزے لے رہی تھی۔
اور میں نہ جانے کیوں انسانوں کے اس ہجوم میں شامل اس انسان کی حرکتوں پہ نظر رکھے ہواتھا جو انسان ہو کر بھی ٹیڈی بیر کے خول میں لپٹا ہوا تھا۔اور میرا ذہن نئی کہانی کے اُدھیر بُن میں گُم ہوگیا تھا۔ ایک ایسے انسان کی کہانی جس کی مجبوریوں نے اُسے ٹیڈی بیر بننے پہ مجبور کر دیا تھا۔ اور میر ے ذہن میں جب تک کسی نئی کہانی کا CONCEPT مکمل تیار نہ ہو جائے زندگی اجیرن سی لگنے لگتی ہے۔ نوشینؔ نے آئسکریم کا کپ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”کیا سوچ رہے ہیں بابا جانی۔ آپ یہاں کب آئے ، JUBILEE PARK میں بھیڑ کی وجہ سے آپ لوگوں سے ملاقات بھی نہ ہو سکی پارک میں فراز ؔنے کیا کیا کھایا، میرے لئے کیا لائے۔آپ کہاں کہاں گُھومے۔ ہم لوگوں نے پارک کا پورا چکر لگایا، دہاڑتاہوا شیر دیکھا۔ جس کے دہاڑنے کی آوازیں سُن کر ہم سے چھوٹے بّچے اپنی اپنی ماں کے پیچھے چُھپ جایا کرتے تھے۔اور میں بھی ڈر سی جاتی تھی۔ اور ایسے وقت میں میری بانہیں آپ کو تلاش کرتی تھیں۔ شیر کی آنکھوں میں لال رنگ کا بلب روشن تھا، اپنے سونڈھ سے پانی پھینکتا ہوا ہاتھی کا ایک بچہ دیکھا بہت اچھا لگا، اسپائیڈرمین دیکھا اور جلتے بجھتے قمقموں کی ڈھیر ساری چیزیں دیکھیں۔“
اور پھر وہ اُداس ہوگئی۔ میں نے اُس کے اِس اُداسی کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو وہ پھر کہنے لگی......
”اور باباجانی ایک جگہ ایک پیڑ پہ سانپ لپٹا ہوا تھا۔ پیڑ کی اُونچی شاخ پر چڑ یوں کا گھونسلہ بنا ہوا تھا۔اُس میں چڑیوں کے بچّے چو ُں چوُں کر رہے تھے۔ سانپ رینگتا ہوا آتا ،اور گُھونسلے تک پہنچ جاتا پھر اُس کی لپلپاتی زبان باہر نکل آتی اور اُس کی سُرخ ہوتی ہوئی آنکھوں سے لال روشنی نکلنے لگتی اور پھر اُس سانپ کا بڑا جبڑا کُھل جاتا اور وہ زہریلا سانپ چڑیا کے سارے بچّوں کو کھا جاتا ایسے وقت میں، میں ڈر سی جاتی لیکن سلمان ؔاورحمد انؔ بھائی جان نے کہا کہ یہ سچ کاتھوڑے ہے
۔ پھر تحسین ؔآپی نے بتایا کہ یہ سب کُچھ چھوٹے چھوٹے بلب جس کو منی بلب کہتے ہیں اُسی سے بنا یاگیا ہے۔ میں اپنی پیاری سی بیٹی نوشینؔ کی ساری باتیں بغور سُنتا رہا۔
”آپ نے چڑیا کے بچّوں کو کھانے والا وہ زہریلاسانپ نہیں دیکھا بابا جانی۔؟“
”نہیں۔“
”کیوں۔؟“
”بھیڑ کافی تھی میں ........ میں وہاں تک پہنچ نہیں پایا۔“
”اچّھا ہوا آپ لوگ نہیں گئے۔“
”اگر آپ لوگ جاتے تو اپنا فرازؔ بھی آپ لوگوں کے ساتھ جاتا وہ ابھی بہت چھوٹا ہے کہیں وہ زہریلا سانپ اُسے بھی کھا لیتا۔ تو دوسرا بابو کہاں سے لاتے۔ اب آپ نے بھی باہر جانا چُھوڑ دیا ہے۔ امّی کہا کرتی ہیں کہ آپ دونوں کو بابا جانی نے باہر سے بھیجا ہے پارسل کے ذریعے........“
”فرازؔ تو کافی ضد کر رہا تھا۔ لیکن بھیڑ کی وجہ سے میں نے وہاں جانا مناسب نہیں سمجھا۔“
”ہاں بھیڑ تو کافی تھی ۔سبھی لوگ وہا ں پہ صرف تماشہ دیکھ رہے تھے کسی نے بھی سانپ کو نہیں بھگایا میرا تو دل کر رہا تھا کہ پتھر اُٹھا کر اُس سانپ کی آنکھ میں مار کر اُس کی آنکھیں ہی پھوڑ دوں جب سانپ اندھا ہو جائے گا تو وہ پیڑ پہ نہیں چڑھ سکے گا اور چڑیوں کے گھونسلے تک نہیں پہنچ سکے گا اور اندھا ہی مر جائے گا۔“
”میں نے وہاں بھیڑ ہونے کے باوجود پتھر بھی اُٹھا لیا تھا لیکن سلمانؔ ؔبھائی جان نے کہا تم پاگل ہو گئی ہو کیا ۔؟وہ سچ کا سانپ نہیں ہے، تم اگر پتھر سے مارو گی تو سارے بلب ٹوٹ جائیں گے۔اور سارا نظام کام کرنا چُھوڑ دے گا۔سارے لوگ تم سے ناراض ہو جائیں گے۔ اور وہاں دیکھو وہاں پولیس والے بھی کھڑے ہیں۔تمہیں پکڑکر جیل لے جائیں گے۔“
پولیس کو دیکھ کر میں سہم سی گئی تھی۔اور سلمانؔ بھائی جان نے پتھر میرے ہاتھ سے چھین کر سامنے کے نالے میں پھینک دیا تھا۔جہاں شہرکا گندہ پانی بہہ رہاتھا۔
”سلمان ؔبھائی جان اگر وہ سچ کا سانپ نہیں ہے تو وہ چڑیاکے بچّوں کو کیسے کھا لیتا ہے۔؟“
”ایسے ہی پروسس میں اس کو بنا یاگیا ہے۔“
”یہ پروسس کیا ہوتا ہے۔؟“
”اب میں تمہیں کیسے سمجھاؤں۔؟“
”پروسس آپ کو معلوم ہو گا تب ناآپ مجھے سمجھائیں گے۔“
یہ ساری باتیں وہ کہتی رہی اور میں سُنتا رہا صرف سُنتا ہی نہیں رہا بلکہ نوٹ کرتا رہا اپنے وجود کے اُن گوشوں میں ...... جہاں کہانیاں ہی کہانیاں تھیں ......
باتیں ہوئیں اور ختم بھی ہوگئیں۔ لیکن میرے اند ر وہیں سے ایک نئی کہانی کا جنم ہو گیا تھا۔ ایک ایسی کہانی جس کا انجام میں اپنی اِن آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن میرا CONCEPT کُچھ ا ور ہی تھا۔
کافی رات گئے میں شادی کی پارٹی سے لوٹا تھا۔ اور کافی بے چین بھی تھا۔ساری رات کہانیوں کے اُدھیر بُن میں گُم تھا۔نت نئی کہانیاں بنتیں اور تصور میں ہی گُم ہوجاتیں .....لیکن پارک کا وہ سانپ سر اُبھارتا رہا۔
رات کافی گہری ہو گئی تھی۔ نوشین ؔمیرے پہلو میں ہی سوئی ہوئی تھی۔ اچانک ایک تیز چیخ کے ساتھ وہ اُٹھ بیٹھی اور سانپ ، سانپ کہہ کر چلانے لگی۔ وہ کافی ڈری اور سہمی ہوئی تھی۔ایسے حالات میں، میں نے اُسے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا تھا۔ سمرنؔ نے بیڈ روم میں لائیٹ آن کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا۔ سارا بیڈ روم ٹیوب لائیٹ کی دودھیا روشنی میں نہایا ہوا تھا۔
سمرن ؔ نے نوشینؔ کو اپنی گُودمیں لیتے ہوئے کہا۔ ” اس طرح نہیں ڈرا کرتے ۔ آپ تو اپنے کمرے میں سوئی ہوئی ہیں۔ جہاں ایک MOSQUITO بھی نہیں آ سکتا ،COCKROACH بھی نہیں آ سکتا ایسی صورتوں میں سانپ کیسے اور کہاں سے آئے گا۔“
”میں ..... میں نے کمرے میں سانپ نہیں دیکھا تھا ۔ میں تو سوئی ہوئی تھی۔پھر میں پارک میں کیسے چلی گئی۔“
”اس کا مطلب آپ خواب دیکھ رہی تھیں۔“
”خواب ، نہیں میں سانپ دیکھ رہی تھی۔“
”آپ نے خواب میں کیا دیکھا۔؟“
”باباجانی ایک جگہ ایک پیڑ پہ سانپ لپٹا ہوا تھا۔ پیڑ کی اُونچی شاخ پہ چڑ یوں کا گُھونسلہ بنا ہوا تھا۔اُس میں چڑیوں کے بچّے چو ُں چوُں کر رہے تھے۔ سانپ رینگتا ہوا آتا ،اور گُھونسلے تک پہنچ جاتا پھر اُس کی لپلپاتی زبان باہر نکل آتی اور اُس کی سُرخ ہوتی ہوئی آنکھوں سے لال روشنی نکلنے لگتی۔ اور پھر اُس سانپ کا بڑا جبڑا کُھل جاتا۔ اور وہ زہریلا سانپ چڑیا کے سارے بچّوں کو کھا جاتا ہے،میں چیخنے لگی ہوں۔
”وہ سانپ چڑیا کے بّچوں کو کھا رہا تھا۔ میں نے جب پتھر اُٹھا کر اُسے مارنے کی کوشش کی تو وہ میری طرف آنے لگا تھا۔ اور میں ڈر سے چلانے لگی تھی......“
”بابا جانی آپ ابھی تک سوئے نہیں ۔؟ “
”پارک کے سانپ نے مجھے بھی پریشان کر رکھا ہے۔“
”ہاں بابا جانی۔“
”مجھے بھی سانپ کی اس حرکت پہ بہت غصّہ آیا تھا، لیکن میں، میں مجبور تھی کسی نے بھی میری مدد نہیں کی۔“
” آپ ایسا کیوں سوچتی ہیں۔میں آپ کی مدد کروں گاکل آپ کا اسکول ہے۔؟“
”نہیں۔“
”کل صبح آپ میرے سا تھ وہاں جانا پسند کریں گی۔“
”کیوں نہیں۔“
دوسری صبح پارک میں مکمل سکوت چھایا ہوا تھا، اکّا دکّا لوگ پارک کی سیر کر رہے تھے۔ پولیس والے بھی نہیں تھے میں نے اپنی بیٹی نوشینؔ کے ہاتھ میں پتھر دے دیا تھا۔ اور کہا تھا کہ جیسے ہی تمہیں موقع ملے پتھر سے اُس سانپ کی آنکھ کو پھوڑ دینا لیکن دھیان رہے کوئی دیکھے نہیں۔
میں نے نوشین ؔ کے کہنے کے مطابق بائیک کو پارک کر دیا تھا۔اور اُس جگہ کو تلاش کرنے لگے۔نوشینؔ ادھر اُدھر اپنی نگاہیں دوڑا رہی تھی۔ اچانک اُس مقام پہ پہنچ کر وہ کافی زور زور سے ہنسنے لگی۔ پتھر اُس کے ہاتھ سے چُھوٹ گیا تھا۔اور وہ تالی بجا رہی تھی۔
میں اُس کی اس حرکت پہ حیران تھا۔
اور اُس سے بھی زیادہ حیران میں اُس وقت ہوا جب میری نگاہ اُس پیڑ پہ پڑی.......
پیڑ پہ سانپ لپٹا ہوا تھا، اور ڈھیر سارے پرندوں نے ایک ساتھ اُس سانپ پہ حملہ کر دیا تھا۔اور سانپ کی دونوں آنکھیں پھوٹی ہوئی تھیں۔
()()()()()
مہتاب عالم پرویزؔ
کویت