الثلاثاء, 12 شباط/فبراير 2013 19:22

آسیب : شاہین خان

Rate this item
(0 votes)

کچھ دنوں پہلے جب مہتاب عالم پرویز نے یہ اطلاع دی تھی کہ’’عالمی پرواز‘‘کے نام سے میں ایک اردو پورٹل لاؤنچ کررہا ہوں تو میں نے اس خبر کو سرسری طور پر لیا تھا پر کچھ دنوں کے بعد ہی یہ بات حقیقت کا روپ دھار کر میرے سامنے مجسم ہو گئی اور میں اس وقت بھی جب میں نے اس خبر کو عام سمجھاتھا کہیں نہ کہیں میرے دل کے نہاں خانوں میں یہ بات ضرور تھی کے یہ مہتاب عالم پرویز ہیں جو اپنی ضد سے راہ میں آنے والی ساری مشکلوں کو ،رکاوٹوں کو ہموارکرکے اپناایک الگ مقام بنانا جانتے ہیں..............۔
مہتاب عالم پرویز ایک منجھے ہوئے افسانہ نگارہیں جنہوں نے جھارکھنڈ میں محترم جناب اسلم بدر کے ذاتی ویب سائٹ کے بعد پہلی بار اردو ادب کی خدمت کے لئے اپنا اردو پورٹل لاؤنچ کیا ہے.......منزل کبھی بھی کسی کو اتنی آسانی سے نہیں ملتی ہر راہ پر لوگوں کی تمسخرانہ نگاہیں، طنزیہ باتیں قدموں کو ڈگمگانے کے لئے تیار رہتی ہیں پر جس کے دل میں منزل کو پانے کی سچی لگن اور جس کی فطرت میں جدوجہد کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہو وہ اپنی معراج کو پا ہی لیتا ہے۔ 
میری دعا ہے کہ مہتاب عالم پرویز کامیابیوں کی ساری منزلیں اسی طرح سے طے کرتے رہیں،اور ان کی ادب کی یہ خدمت ہمیشہ جاری رہے.........انشااللہ......۔

شاہین خان

آسیب
شاہین خان
روڈ نمبر ۱۳، مکان نمبر ۱۶ ، آزاد نگر مانگو ، جمشید پور ۔۸۳۲۱۱۰




ماحول میں پھیلے اندھیرے کو جھینگروں کی آواز کے ارتعاش نے کچھ اور بھیانک بنا دیا تھا۔روشنی کی ایک ہلکی سی لکیر بھی نہیں تھی۔ارقم طاہر نے ایک بار پھرموبائیل کو الٹ پلٹ کر دیکھا تھا نجانے یہ چھوٹی سی جادو کی ڈبیا کیسے بند ہو گئی تھی اور روشنی کرنے کا ہلکا سا آسرا بھی ختم ہو گیا تھا۔
’’پلیز کوئی ہے،کوئی ہے،پلیز لائیٹ جلاؤ۔‘‘وہ چلایا تھا،وہ بزدل ہرگز نہیں تھا پر آج جس طرح کا ماحول وہ دیکھ رہا تھا اس نے اسے خوفزدہ کر دیا تھا،وہ پچھلے پندرہ دنوں سے اس قدیم طرز کی بنی ہوئی حویلی میں قیام کئے ہوئے تھاپر اماں بی،بھائی جان،بھابی،ابو اور تین بچوں کے درمیان کبھی بھی ہلکی سی خوف بھی اس نے محسوس نہیں کی تھی اور آج جب سب لوگ خاندان کی ایک خاص شادی میں شرکت کے لئے جارہے تھے تو اسے بھی سب نے کتنا کہا تھاپر وہ خود تو اس راز کوجاننا چاہتا تھااس لئے جان بوجھ کر نہیں گیا تھا۔
’’پر ارقم تم اکیلے کیسے رہوگے‘‘۔اماں بی پریشانی سی بولیں۔
’’میں رہ لوں گا،آپ لوگ آرام سے جائیں۔‘‘وہ جلدی سے بولا۔
’’ہر گز نہیں تم اکیلے نہیں رہ سکتے۔‘‘وہ قطعیت سے بولیں۔
’’ٹھیک ہے میں پاس ہی اسلم ماسٹر کے گھر میں رہ لوں گا پر خاندان کی اس بورنگ شادی میں نہیں جاؤں گا۔‘‘وہ جلدی سے بولا وہ کسی طرح سے بھی یہ موقع چھوڑنا نہیں چاہتا تھا،پر پھر بھی کافی حجت کے بعد ہی اسے اجازت ملی تھی۔
’’جب ہم لوگ کل آئیں گے تب ہی گھر آنا۔‘‘اماں بی کی تاکید تھی،اور وہ فرمانبردار بنااثبات میں سر ہلا رہا تھا،پر جیسے ہی سورج نے اپنا رخت سفر باندھا وہ بھی اسلم ماسٹر کو چکمہ دے کر حویلی کے پاس آگیا تھا،بڑے سے آہنی گیٹ پر تالا لگا ہوا تھاپر چار فٹ اونچی دیوار کودنا کچھ مشکل نہیں تھااور دوسرے ہی پل وہ اندر تھا،باقی کچن کی ٹوٹی جالی سے وہ گھر کے اندر پہنچ گیا تھاپر اندرپھیلے گھپ اندھیرے نے اس کے اوسان خطا کر دئے تھے،وہ پچھلے دس سالوں سے اسٹیٹ میں رہ رہاتھا،جب اس نے میٹرک کیا تھا تب ہی اس کے ماموں باقی کی پڑھائی کے لئے اسے لے گئے تھے ان دس سالوں وہ صرف تین دفعہ گھر آیا تھا پہلے دو بار دونوں بھائیوں کی شادی اور پھر تین سال پہلے منجھلے بھیا کی حادثاتی موت پر آیا تھا۔پر اس بار جب وہ ہمیشہ کے لئے گھر آگیا تھا تو اسے اپنا گھر بہت الگ سا لگ رہا تھا،
’’اماں طوبی بھابی کہاں ہیں۔؟‘‘تین دن بعد اس نے پوچھا تھا۔
’’وہ اپنے میکے میں رہتی ہیں۔‘‘انہوں نے بتایا،پھر وہ چپ ہوگیا،طوبی بھابھی کو جب ارقم نے پہلی بار دیکھا تھا تو حیران رہ گیا تھاایک نازک سی کلی کی طرح وہ کمسن سی دوشیزہ بامشکل سولہ سال کی لگ رہی تھی۔
’’اتنی چھوٹی.......‘‘وہ بیساختہ بولا۔
’’ہاں تیرا بھائی دیوانہ ہوگیا تھا‘‘اماں نے بتایا۔اسے دیکھ کر میرا بھائی تو کیا کوئی بھی دیوانہ ہو سکتا ہے اس وقت ارقم یہی سوچ رہاتھا۔
’’وہاں پر کوئی ہے کیا.....‘‘اندھیرے میں کسی کی آواز گونجی تھی اور ارقم جیسے حال میں واپس آگیا تھا اور اس کے رہے سہے 

اوسان بھی گم ہونے لگے تھے۔وہ ڈرا تھا تو کیا سب سچ کہتے ہیں،بھابی،اماں بی سب نے ہی تو کہا تھا کی اوپر والے کمرے میں آسیب کا سایہ آگیا ہے۔
’’واٹ نان سینس آسیب مائی فٹ‘‘۔وہ سر جھٹک کربولا تھا۔
’’ارقم ہر بات مذاق نہیں ہوتی،میں تم سے کہہ رہی ہوں بس اوپر اس کمرے کی طرف تمہیں دیکھنا بھی نہیں ہے۔‘‘اماں بی کی آواز بے لچک تھی،وہ دل میں نہ ماننے کے باوجود اس وقت خاموش ہوگیا تھا۔پھر اسے اپنے گھر کیا ہر رشتہ دار اورگاؤں کے ہر شخص نے اس آسیب سے جوڑی ایک کہانی تو سنائی ہی تھی،اور وہ ان کی جاہلیت پر ہنس دیا تھابھلا اس الکٹرانک زمانے میں آسیب وغیرہ کچھ ہوتا ہے کیا نان سینس..........................
پر اب وہ خود اکیسویں صدی کا ایک پڑھا لکھا ماڈرن لڑکا پسینے میں بھیگا تھر تھر کانپ رہا تھا،ہلکی سی موم بتی کی مدھم سی روشنی کا گول ہالہ دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھ رہا تھااور ویسے ہی اس کی سانس گھٹ رہی تھی...................وہ چیخنا چاہتا تھا پر آواز اندر ہی کہیں گھٹ کر رہ گئی تھی...................اس کی نظر فرش پر ساکت تھی جب کوئی بالکل اس کے سامنے آکر رکا تھا.....................سفید ساری میں مومی مجسمے کی طرح کھلے بالوں کے ساتھ کھڑی وہ لڑکی اس کی موت بن کر آئی تھی............................اس نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لی تھیں اور دل میں استغفار کا ورد کرنا چاہا تھا پر ہر لفظ غلط ہورہا تھا..........................۔
’’ارقم.......‘‘تب ہی آسیب نے اسے پکارا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ بے ہوش ہوجاتا نجانے کون سی انجانی قوت نے اسے آنکھیں کھولنے کی طاقت بخشی تھی شاید اسے اپنی موت کا یقین ہوگیا تھا اور ایک بار وہ اپنی موت کو دیکھنا چاہتا تھاپر سامنے جو چہرہ تھا وہ اسے ششدر کر گیا۔
’’ارقم کیا ہوا‘‘وہ ہولے سے بولی۔
’’طو .....طوبی..........بھ......بھا.......بی‘‘اس کے ہونٹ ہلے تھے۔اور آنکھیں پھٹ گئی تھیں۔
’’ہاں۔‘‘وہ مسکائی اور آگے بڑھ کر سینٹر ٹیبل پر رکھے کینڈل اسٹینڈ کے سارے کینڈلز جلادئے اب کافی روشنی ہو گئی تھی اور ارقم طاہر آنکھیں پھاڑے طوبی کو دیکھ رہا تھا..........۔
’’و.....وہ.........آ..........آسیب...........‘‘وہ بولا۔
’’آسیب دیکھ لو میں ہی ہوں وہ آسیب جس کے قصے آپ نے سنے ہیں۔میں ایک آسیب ہی تو ہوں۔وہ مسکراہٹ کے ساتھ بولی پر اس کی مسکان بڑی درد بھری تھی’’ہاں ارقم ایک بیوہ ایک آسیب ہی ہوتی ہے،میں وہ منحوس ہوں جس نے محض نو مہینے میں اپنے شوہر کو مار دیا،ہاں وہ حادثہ نہیں تھا بلکہ میری منحوسیت کا سایہ تھا جس کی وجہ سے اس کی موت ہوئی.‘‘...............وہ سسک رہی تھی اور ارقم حیرانی سے سن رہا تھا جب وہ مزید بولی’’جانتے ہو میں خود کتنی بزدل تھی،میں کبھی بھی اکیلے گھر میں نہیں رہ سکتی تھی پر جب میں بیوہ ہوئی سب نے مجھے اچھوت سمجھ لیااور اوپر والے اس کمرے میں قید کردیا،خاندان کے بہت سے لڑکے میرے حسن کی وجہ سے مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے پر نہیں میں سب کوپھانس رہی ہوں اور میری منحوسیت سب کو کھا نہ جائے یہی سوچ کر مجھے آسیب مشہور کر کے قیدی بنادیا گیا...........بتاؤ کوئی انسان کسی کو مارنے کی طاقت رکھتا ہے،پہلے میں بہت روتی تھی ،بے انتہا ڈر بھی لگتا تھاپر اب نہیں کیونکہ کوئی بھوت پریت یا آسیب انسان سے بھیانک نہیں ہوسکتا کیونکہ انسان روح کو زخمی کرتا ہے اور یہ صلاحیت کسی میں نہیں ہے ،میں انسانوں سے ڈرتی ہوں..........یہ اچھے لوگ جو اپنے چہروں پر ماسک لگائے گھومتے ہیں میں ان سے ڈ رتی ہوں‘‘طوبی بھابی کی سسکیاں اس کی سماعتوں پر عجیب سا اثر کر رہی تھی،ان کی کرب میں ڈوبی وہ مسکان اس کی پتلیوں میں قید ہو گئی تھی،اتنی کم سنی میں ایسا دکھ.............................وہ ان کے چہرے کو یک ٹک دیکھ رہا تھااور پھر اچانک اس نے طوبی کا ہاتھ پکڑ لیا تھا وہ رونا بھول کر اسے حیرانی 

سے حیرانی سے تکنے لگی تھی۔
’’ارقم‘‘اس کے ہونٹ ہلے۔
’’آپ سے کوئی بھی بات یا وعدہ نہیں کرنا چاہتا ہوں بس اتنا جان لیں ارقم اپنے فیصلے تبدیل نہیں کرتا‘‘اس کے ہونٹ بھینچے ہوئے تھے اور لہجہ میں چٹانوں سی مضبوطی تھی۔
ارقم کون سے فیصلے کی بات کررہا ہے کہیں مجھے پھر سے طنز کے تیروں سے لہولہان نہ ہونا پڑے آخر میں نے ارقم کو ساری باتیں کیوں بتائیں شاید میرے ضبط کا پیمانہ بھر گیا تھا پر اب کیا کوئی طوفان آئے گا ................؟طوبی تشویش سے سوچ رہی تھی جبکہ ارقم طاہر جیسے کوئی فیصلہ کرکے مطمئن ہو چکا تھا.................

...................................

’’کیا ہو رہا ہے اماں بی............؟‘‘گھر میں ہو رہی غیر معمولی ہلچل کودیکھ کر وہ بولا تھا۔
’’وہ..........وہ...........اوپر.........کمرے..........‘‘اماں بی کچھ کہتے کہتے رک گئی تھیں۔
’’کیا اماں بی اوپر کمرے والا آسیب کہیں فرار ہو گیا کیا.......؟.‘‘وہ بولا۔
’’ہاں.........وہ..........یہ.........تم...کیا........کہہ رہے ہو‘‘وہ بوکھلائیں جب کہ حقیقت یہی تھی ،جس طوبی کو انہوں نے آسیب مشہور کرکے رکھا تھا وہ غائب تھی۔
’’ہاں اماں بی سچ یہی ہے..........کہیں آپ اس آسیب کو تونہیں ڈھونڈ رہی ہیں..........؟‘‘ہاتھ بڑھا کر اس نے کمرے سے طوبی کو کھینچ لیا تھا اور اماں بی تو کیا سارا گھر ششدر رہ گیا تھا کہ طوبی کا حلیہ ہی کچھ ایسا تھا..........لال سرخ کامدانی سوٹ میں وہ سجی سنوری ارقم کے بازو میں کھڑی تھی۔
’’میں جانتا ہوں آپ سب حیران ہیں،ہاں میں نے طوبی سے شادی کر لی ہے‘‘۔وہ آرام سے ان سب کے سر پر دھماکہ کر رہا تھا۔
’’شادی؟‘‘اماں بی کا سکتہ ٹوٹا تھا’’تم پاگل تو نہیں ہو گئے،یہ لڑکی میرے ایک بیٹے کو کھا چکی ہے اور اب تم؟یہ تو آسیب ہے،تمہیں بھی کھا جائے گی،میں اسے ابھی نکالتی ہوں...........‘‘وہ تیزی سے طوبی کی طرف بڑھی تھیں جب ارقم سامنے آگیا۔
’’یہ آسیب ہے تو آپ لوگ کیا ہیں؟آپ لوگ وحشی ہیں.............ایک جیتی جاگتی کمسن لڑکی کو آسیب مشہور کر کے قید کر دینا جانتی ہیں کتنا بڑا ظلم ہے...........اور آپ کو کیا اللہ پر بھروسہ نہیں؟موت اور حیات سوائے اس پاک ذات کے کسی کے بس کی بات نہیں................اور بیوہ کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھنا چاہئے کیا آپ نہیں جانتی؟یہ بے چاری تو خود ہی باعث ہمدردی تھی اور آپ نے اس پر ظلم کیا کیوں................؟ ‘‘وہ ایک لمحہ کے لئے رکا تھا اور پھر دوبارہ سے ان کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا مزید کہنے لگا۔
’’اگر کوئی عورت چار پانچ بچوں کی ماں بن کر بیوہ ہوتی ہے تو اسے منحوس نہیں سمجھا جاتا اور اگر یہ کمسن لڑکی بیوہ ہوگئی تو یہ منحوس..........آسیب.......اور نجانے کیا کیا ہوگئی..........جب کہ کمسن بیوہ کی شادی کرانا کتنا ضروری ہے آپ کو نہیں معلوم؟کیوں اماں بی کیوں آپ نے ایسا کیا...........؟یہ کیسا سماج کا رواج ہے اور اگرہے تو میں نہیں مانتا......طوبی آج سے میری بیوی ہے ............چاہے آپ مانے یا نہ مانے..........‘‘وہ اپنی بات ختم کرکے رکا نہیں تھا بلکہ طوبی کا ہاتھ تھامے سیڑھیاں چڑھ گیا تھا....................۔
اور نیچے کھڑے سارے لوگ خاموش تھے پر سب کی سماعتوں میں ارقم کے اٹھائے گئے سارے سوالیہ نشان گونج رہے تھے.........شاید سب کو سمجھ آگئی تھی کہ بیوہ ہونا طوبی کی غلطی نہیں بلکہ اس کی قسمت تھی اور ہم بھلا بشر خاک قسمت کو کیسے نہیں مان سکتے کہ قسمت تو صرف اللہ ہی بناتے ہیں.............۔

***
شاہین خان
روڈ نمبر ۱۳ ، مکان نمبر ۱۶ ، آزاد نگر مانگو، جمشید پور ۔۸۳۲۱۱۰

Read 2382 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com