الخميس, 28 شباط/فبراير 2013 22:01

طنزیہ شاعری کا نقطۂ آ غاز : جعفر زٹلی......... فرح ناز

Rate this item
(3 votes)

طنزیہ شاعری کا نقطۂ آ غاز : جعفر زٹلی

فرح ناز

طنزو مزاح تخلیقی ادب کا وہ حسن ہے جس کی بنیاد ان لطیف اشا روں پر مبنی ہو تی ہے جو اس ماحول کی دین ہے۔طنزو مزاح کے رنگوں کے مناسب استعمال سے کسی بھی تحریر کو دلکش و دلفریب بنایا جا سکتا ہے۔ جس کی عمدہ مثالیں ہمارے ادب میں جگہ جگہ بکھری ہوئی نظر آ تی ہیں۔جس کا استعمال ادیب یا مصنف نے اپنی بات کو پر اثر اور با وزن بنانے کے لیے خوب سے خوب تر کیا ہے۔
اگر ہم طنز یہ و مزاحیہ ادب کے نقوش کی نشاندہی کریں تو اس کے ابتدا ئی رنگ ہمیں امیر خسروؔ کی کہہ مکرنیاں،دوسخنے اور النمل میں ہی نظر آ تے ہیں۔جن میں بے ربط و بے جوڑ الفاظ کے ذریعے مزاح کے عنصر وجود پاتے ہیں۔دکن میں یہ رنگ ہمیں قلی قطب شاہ اور ولی دکنی کے یہاں ملتا ہے۔’’اودھ پنچ‘‘ اردو طنز ومزاح کی تعمیر میں ایک بنیا دی حیثیت کا حا مل ہے جس میں اس صنف کے ذریعے سجاد حسین، احمدعلی شوق، پنڈت تربھون ناتھ ہجر، مولوی سید عبد الغفور شاہ باز اور اکبر الہ آ بادی جیسے سماجی مفکروں نے سیا سی و سماجی تنقید و ارتقا کا بہترین کام لیا اور اس صنف کے سہارے دو مخالف تہذیبوں میں توازن پیدا کر نے کی بھر پور سعی کی۔ ’’اودھ پنچ‘‘ سے پہلے بھی سینکڑوں برس پر پھیلا ایک طویل دور جو لوٹ مار ،حادثات اور حملوں کا دور رہا ہے۔ان میں بھی شعرا کرام کی ایک ایسی ابھرتی ہوئی رو نظر آتی ہے جو فرار اور قنوطیت سے مخالفت کرتے ہیں اور طنز و ہجو کا سہارا لے کر ان حا لات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ اودھ پنچ سے پہلے طنزو مزاح نگاری کی اس راہ میں سوداؔ ،فائزؔ دہلوی، حاتمؔ ، انشاءؔ ،مصحفیؔ ، رنگینؔ ،نظیر ؔ اکبر آدی اور غالبؔ وغیرہ کے نام پیش پیش ہیں۔ 
مگر جب ہم طنز ومزاح کی اس ابتدا ئی روا یت میں طنز و ہجو نگاری کے اول اور بھر پور نمو نے تلاش کرتے ہیں تو اس پوری روا یت میں نقطہ آ غاز کے طور پر جو نام ابھر کر ہمارے سا منے آ تا ہے وہ اٹھا رہویں صدی کا اشہر شاعرجعفر زٹلی کا ہے ،جنہوں نے پہلی بار اپنی شاعری میں اس صنف کا’بطریق ٹالم ٹولہ‘ استعمال کیا ہے۔
جعفر زٹلی کا پو را نام مرزا محمد جعفر تھا۔مگر تیز مزاج اور حا ضر جواب ہونے کی وجہ سے ہزل کہا کرتے تھے۔ اسی لیے جعفر زٹلی کے نام سے عوام میں مشہور ہوئے۔ زٹل کے معنی بکواس،جھک اور لغو کے ہیں۔ اس طرح زٹلی کا مطلب بھی بکواسی اور بکّی ہوا۔لیکن جعفر نے کبھی اپنے نام کے آ گے زٹلی لگانے میں کوئی حرج نہ سمجھا بلکہ وہ وہ خود زٹل کو اپنے نام کے ساتھ جوڑتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں ؂
کشتیِ جعفر زٹلی در بھنور افتادہ است
ڈبکوں ڈبکوں می کند از یک توجہ پار کن
غریب،عاجزِ مسکیں زٹلی ام جعفر
ہزار شکر کہ زورو نہ زہرہ دارم من
تاریخی اوراق کا مطالعہ کرنے پر ہمیں جعفر زٹلی کی زندگی کے حالات کے متعلق معلومات میں خاصی تشنگی کا احساس ہو تا ہے اور مختصر طور پر اس بات کا علم ہو تا ہے کہ جعفر زٹلی نار نول کے رہنے وا لے تھے۔ لیکن اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ دہلی میں گذارا۔ اگر شاعری میں زٹل کو اہمیت نہ دیتے تو ملک الشعراء بن جاتے۔کیونکہ آپ نے فرّخ سیر بادشاہ کا دور اور اس میں میر جملہ کے کہنے پر ہو ئے خوف ناک مظالم کی بھیانک صورتوں(جس میں بہت سے لوگ قتل کروا دیے گئے،ان کی زبانیں کاٹ دی گئیں اور انہیں اندھا کردیا گیا) کو اپنی آ نکھو ں سے دیکھا اور دل سے محسوس کیا تھا۔اس لیے جب فرّخ سیر کے نام کا سکہ مسکوک ہوا تو ان کی تعریف میں یہ شعر لکھا گیا ؂
سکہ زد از فضل حق بر سیم و زر
پادشاہِ بحر و بر فرخ سیر
جب یہ شعر جعفر زٹلی کے علم میں آ یا تو آپ اپنا دل مسوس کر رہ گئے اور بغیر بادشاہ کے رعب، دبدبے سے بے خوف ہو کر اور اعتدال پسندی سے عاری ہو کر اپنے کاٹ دار مزاج سے بادشاہ کی تضحیک میں یہ شعر کہا ؂
سکہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر
بادشاہے تسمہ کش فرّخ سیر
جعفر زٹلی کا یہ شعر جب منظر عام پر آ یا تو عوام نے اس شعر کی خوب پذیرا ئی کی اور عوام کی یہ پذیرائی ہی جعفر زٹلی کی موت کا سبب بھی بنی ۔کیونکہ با دشاہ وقت کو اس شعر کے دور رس نتائج نظر آ نے لگے اور اس نے جعفر زٹلی کی موت کا فر مان جاری کر دیا۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ نئی طرز ادا اور منفرد لب و لہجے کے مالک جعفر زٹلی کی شاعری اپنے وقت اور زمانہ رائج تہذیب کی بھر پور عکاسی کرتی ہے۔انہوں نے پہلی بار اپنی شاعری میں دہلی کی تباہی و بربادی کی بہترین تصویر کشی کی اور روایت سے بغا وت کرتے ہو ئے وہ پہلی بار سیاسی و سماجی مکاریوں ،عیاریوں، پریشانیوں اور بد حالیوں کا بڑے تیکھے طور پر عوام سے تعارف کراتے ہیں۔جس کی وضاحت کرتے ہو ئے ڈاکٹر محمد فیروز دہلوی لکھتے ہیں:
’’اردو میں جعفر زٹلی ایسے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے ورنگ زیب کے بعد سلطنت مغلیہ کی بکھری ہوئی مرکزیت ،حاکموں کی بے انصا فی، ظلم و ستم، معاشی بدحالی، ہنر مندوں کی رسوا ئی ،بگڑتے ہوئے اخلاق و کردار کو طنزیہ اور انتہائی جارحانہ انداز میں نظم کیا۔ایسا جارحانہ انداز جسے برہنہ گفتاری ہی کہا جاسکتا ہے......
جعفر زٹلی نے اپنے احتجاج اور اعتراضات کے لیے جس برہنہ گفتاری یا بد گفتاری کا سہارا لیا ہے وہ طنز کا انتہائی تیز اور تیکھا پن ہے۔ مگر ہم اس رنگ کو نظر انداز بھی نہیں کرسکتے۔ شمالی ہند میں اسی آشوبیہ کلام سے اردو شاعری کا آغاز ہوا۔‘‘
[اردو ادب میں طنزو مزاح کی روا یت، مرتب ڈا کٹر خالد محمود، ص 177-178،اردو اکادمی، دہلی2005]
وہ جس چیز کو جس طرح دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اس کے حقائق کو اپنے شوخ و شنگ لب ولہجے میں دو ٹوک انداز میں بیان کردیتے ہیں جس سے طنز وجود میں آتا ہے۔ در اصل طنز حقیقت نگاری پر مبنی اس حساس اور با شعور انسانی ذہن کی اُپج ہے جو سو سائٹی میں در آئے نا سوروں پر نشتر چلانے کا خواہش مند ہو۔جعفر زٹلی کے نشتروں کی چبھن بڑی کاٹ دار اور پُر درد ہے جو ان کے اپنے ما حول کی دین ہے اور زمانہ زوال کی بے حد تکلیف دہ حقائق ہیں اور جو ہر طرح کے خوف و اور پابندیوں سے آزاد نظر آ تا ہے۔جس کی شہادت وہ خود اس طرح دیتے ہیں ؂
کپٹ کھوٹ میرے سخن میں نہیں
ان کے کلام میں حق گوئی اور جرأت گو ئی کے طنز کی تیزی دیکھئے کہ وہ اپنے وقت کے شہنشا ہوں پر بھی طنز کے گہرے وار چلا نے نہیں چو کتے اور مصیبت زدہ عوام کی خستہ حالت کا ذکر اس بے با کی سے کرتے ہیں ؂
ہنرمند ہرجائی پھریں در در پر سوائی
رذل قوموں کی بن آئی عجب یہ دور آیا ہے
نفر کی جب طلب ہو وے غریب عاجز کھڑا رووے
میاں گھر میں پڑا سووے عجب یہ دور آیا ہے
سپائی حق نہیں پا ویں نت اٹھ اٹھ چو کیاں جاویں
قرض بنیوں سے لے کھاویں عجب یہ دور آیا ہے
اس طرح وہ شاعری کا سہارا لے کر سماج کے ان مسائل کو ہدف طنز بناتے ہیں جنہیں ان سے پہلے شعرا نے بیان کر نے میں ہچکچا ہٹ محسوس کی۔ ان کے طنز کا رو ئے سخن خاص طور پر ان عالم گیر عیوب کی جانب ہے جو اپنے عہد کی تمام حدوں کو پار کرچکے ہیں۔ وہ مغرب زدہ مشرقی سماج کی ٹوٹتی پھوٹتی قدروں کو، ان کے اندر آئے انسا نی رشتوں کی حرمت و عظمت کی پا مالی اور عورت ذات سے رخصت ہوئی شرم و حیا کو اپنے طنز کا نشا نہ بنا تے ہو ئے اس طرح لکھتے ہیں ؂
نہ بولے را ستی کوئی، عمر سب جھوٹ میں کھوئی
اتاری شرم کی لوئی،عجب یہ دور آیا ہے
خصم کے جورو اٹھ مارے، گریباں باپ کا پھاڑے
زنوں سے مرد بھی ہارے ،عجب یہ دور آ یا ہے
چو نکہ جعفر زٹلی ایک ذی شعور اور مو زوں طبع کے حا می ہیں۔اس لیے انہوں نے دور حا ضر کے مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے سنجیدگی یا لفظی بازیگری کی جگہ اپنے طنز کو حا لات و خیالات کی بھٹی میں تپا کر نکھارا ہے ۔کیو نکہ وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ مو جودہ مسائل و حا لات سے کنارہ کشی کرنا یا اس منافقت بھری دنیا کے سُر میں سُر ملانا انسانیت محبت اور خلوص جیسے معتبر جذبات و احساسات کا خون کر نے کے برا بر ہے۔ اس لیے وہ طنز و ہجو کا لبا دہ اوڑھ کر عملی طور پر اپنی نفرت اور نا پسندگی کا اظہار کرتے ہیں۔لہٰذا وہ مذہب کے ان رہنما ؤں کی جانب بھی اپنے طنز کا پہلا قدم بڑھاتے ہیں جنہوں نے اس کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے۔ وہ ان کے اس بھیا نک روپ کی تصویر کشی کرتے ہو ئے اپنی نظم’’کچھوا نامہ‘‘ میں اس طرح پیش کرتے ہیں ؂
کی عرض شیخ جی نے دو نوں ہاتھ کر کے جوڑ
نازل ہوا خدا کا غضب شیخ پر کروڑ
ہم شیخ ہیں غریب نہیں ہو گے بندہ چھوڑ
دریا کے پار کر نے کی ہم سے نہ کر مروڑ
لے پیٹھ پر اتار کرم پنجتن سیتی
کچھوے نے کہا سن کے تم شیخ گو ہ ہو
ہر بات میں شرارت و حجت اٹھوہ ہو
مرگھٹ کے اور قبروں کے مردے نچوہ ہو
دنیا میں ملعون کے لڑکوں کے گوہ ہو
تم نے دغا کیا تھا امام حسن سیتی
پھر گرکے شیخ جی نے کہا ہم غلام ہیں
اور جان و دل سے ہم تو غلام امام ہیں
جلدی اتارو پار بہت ہم کو کام ہیں
ہم بندے تم سے فیض رساں کے مدام ہیں
کر نے لگے سلام و لیکن نہ من سیتی
وہ دور ایک ایسا انتشاری دور تھا جب معاشرہ مکرو فریب کے تیز تھپیڑوں کے بیچ ہچکو لے لے رہا تھا اور سماجی قدریں زمان ومکاں کے حدود توڑ چکی تھیں۔پھر اس کڑے وقت میں حقیقت کا جو آئینہ جعفر زٹلی نے ہمارے سا منے پیش کیا ہے وہ بھلا خوف ناک اور بدرنگ کیوں نہ ہو تا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کلام کو وقت و حا لات کی پھیلی ہو ئی زہر ناکی سے نہ بچا سکے اور اس زہر ناکی کو طنز و ہجو کے روپ میں ڈھال کر اس فن کے بانی بنے۔ڈا کٹر جمیل جالبی ان کے فن پر روشنی ڈا لتے ہو ئے یوں رقم طراز ہیں:
’’ شمال میں سترہویں صدی کے آ خر اور اٹھا رہویں صدی کے شروع کا پہلا بھر پور شاعر مرزا محمد جعفر ہے جو اپنی روا یت کا خود ہی خالق ہے اور خود ہی خا تم۔ جعفر نے طنز و ہجو سے اپنے دور کے روح و مزاج کی ایسی ترجمانی کی کہ پونے تین سو سال کا عرصہ گذر جانے کے با وجود اس کا نام آج بھی زندہ ہے۔‘‘
[تاریخ ادب اردو،جمیل جالبی،جلددوم حصہ اول، ص 90،ایجو کیشنل پبلشنگ ہا ؤس، دہلی6،2000ء]
اپنے عہد میں جعفر زٹلی کی آواز اس دور کی عکاسی تو کرتی ہی ہے ،ساتھ ہی وہ عوام کے جذبات و احساسات کے بہترین ترجمان کے طور پر بھی ابھرتی ہے۔ انہوں نے پہلی بار اپنی شاعری میں خواص کی جگہ عوام کو مخا طب کیا اور فارسی کے بجائے اردو کو وسیلۂ اظہار بنایا۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے غزل کے مقابلے نظم کو اہمیت دی تاکہ وہ اپنی بات کو کھول کر عوام کے سامنے پیش کر سکیں۔کیوں کہ ان کی شاعری ایک ایسے زمانے کی پیدا وار ہیں جو سماجی اقدار اور مجلسی و مذہبی ضوابط کی انتہا معلوم ہوتی ہے۔اس لیے وہ اپنے باغی ذہن اور منہ پھٹ طبیعت ہو نے کی وجہ سے اس زوال آ مادہ وقت میں در آ ئی برائیوں پر اپنے کاٹ دار لہجے سے طنز و ہجو کی کاری ضربیں لگاتے ہیں اور زبان کو ایک خاص معیار و توا نائی بخشتے ہیں۔ ان کا یہ فن تب اپنی انتہا ؤں پر پہنچا ہوا نظر آ تا ہے جب وہ خود اپنی ذا ت کو بھی طنز کے تیر سے گھائل کرتے نظر آتے ہیں ؂
جعفر زٹلی از لبِ تو جوت بہتر است
در آب داریِ سخنت موت بہتر است
در حقِ بندگانِ خدا آنچہ گفتہ ای
لا حولِ می کنم کہ ز تو بھوت بہتر است
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ طنز یہ و مزاحیہ فن میں جعفر زٹلی کا نام اس نقطۂ آ غاز کے طور پر ابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے جس نے بر سوں سے چلے آ رہے محدود ادبی دا ئرے کو اپنے طنز کی تیز تلوار سے کاٹ کر اسے وسیع سے وسیع تر بنادیا اور ادبی راہ پر ایسے نقوش چھوڑ دیے جن پر چل کر ہمیں طنز و مزاح کی ایک طویل،صحت مند روایت پروان چڑھتی ہوئی نظر آ تی ہے۔
***
Farha Naaz
110/ Kothi Atanas,Jali Kothi,
Near Dr. Majeed,Meerut City

Read 9999 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com