الجمعة, 01 آذار/مارس 2013 21:47

گور نر جھا ر کھنڈ کی کتاب ’’اردو شا عری کاانقلابی کر دار‘‘ : ڈاکٹر فہیمہ خا تون

Rate this item
(0 votes)

گور نر جھا ر کھنڈ کی کتاب ’’اردو شا عری کاانقلابی کر دار‘‘

ڈاکٹر فہیمہ خا تون، شعبۂ اردو ما روا ڑ ی کا لج’رانچی‘جھا ر کھنڈ 



              اس طرح مجھے یہ با ت بہت ا چھی لگتی ہے کہ قو میت کا تصور دراصل وطن پر ستی کے تصور کی تو سیعی شکل ہے’’عزت مآ ب جھار کھنڈ‘‘ کی کتا بوں کی سا ری با توں کو قلمبند کروں یہ ممکن نہیں، انکی کتا بوں کی کچھ مخصوص با توں کو میں بیان کر رہی ہوں۔ ’’اردوصرف مسلما نوں کی زبا ن نہیں ہے‘‘لیکن افسوس کے کچھ لو گوں نے اسی زبا ن کو تو ڑ نے کا کا م کیا ہے۔ پو رے ہندوستان میں اس زبا ن کوبو لنے اور سمجھنے والے مو جود ہیں لیکن تو ڑ نے وا لی طا قتوں نے نہ صرف یہ کہ زبان کو تو ڑ نے کی کو شش کی بلکہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو بھی مٹا نے کی کو شش کی یہ با ت ذہن نشیں کر لینی چا ہئے کہ اردو زبان ہندی سے رقا بت بھی کیسے کر سکتی ہے۔ اردو دستو رِ ہند میں تسلیم کی گئی زبا نوں میں ایک ہے اور جنگِ آزادی کے سپا ہیوں میں اکثر یت کی زبان اردو ہی تو تھی۔ تو پھر اس کے سا تھ سو تیلا پن کیوں۔
میں عزت مآب جھا ر کھنڈ ڈا کٹر سید احمد صاحب کے ذ ہنی انقلاب سے بے حد متا ثر ہوں اور میر اذہن بھی ان کے ذ ہن سے ہم آہنگ ہو کر یہ کہہ اٹھتا ہے
’’اگر ہمت کر ے تو کیا نہیں انسا ن کے بس میںیہ ہے کم ہمتی جو بے بسی معلوم ہو تی ہے جسے اور کر گزر نے پر ہر قلم کا ر مجبور ہو جا ئے اور انشا اللہ اسے عملی جا مہ پہنا یا جا ئے ’’گور نر جھا ر کھنڈ‘‘ سید احمد صا حب کی کتا ب دانشوروں کے لئے ایک قیمتی تحفہ ہے جس سے سبق حا صل کرکے زندگی کے کیڑ ا بن جا ئیں۔ نہ کہ صر ف تعر یفی کتا بی کیڑابنے۔ بلکہ وہ جز بہ پیدا کر یں۔
تصور کھینچ وہ نقشہ جس میں وہ صفائی ہو
ادھر شمشیر ئصینچی ہو ادھر گر دن جھکا ئی ہو 
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ہوا ؤ ں کو قید نہیں کیا جا سکتا اور وقت کو با ند ھ کرنہیں رکھا جا سکتا اسلئے میں بھی کہتی ہوں۔
وہ وقت تو کبھی آ ئے گا
جب دل کے کنول کھل جا ئیں گے
مر جا ؤ ں گی تو کیا مر نے سے
یہ خوا ب میرے مر جا ئیں گے 
یہ خوا ب ہی میر ے حصہ ہیں
یہ تمہیں دے جا ؤں گی
اس دہر میں جینے مر نے کا 
اندا ز تمہیں دے جا ؤں گی
ممکن ہے دنیا کی روش پل بھر میں
تمہا را سا تھ نہ دے
کا نٹوں ہی کا تحفہ نظر کر ے
پھو لوں کی کو ئی سو غا ت نہ دے
ایسے نہ گھٹ کر رہ جا نا
اشکوں سے نہ دا من بھر لینا
غم آ پ بڑ ی ایک طا قت ہے 
یہ طا قت بس میں کر لینا 
ہو عزم تو دے اٹھتا ہے
ہر زخم سلگتے سینے کا 
جو اپنا حق خود چھین سکے
ملتا ہے اسے حق جینے کا 
لیکن یہ ہمیشہ یا د رہے
اک فر د کی طا قت کچھ بھی نہیں
تنہا تمہیں جب پا ئیں گے
طا قت کے شکنجے جکڑ یں گے
سب ہا تھ اٹھیں گے جب مل کر 
ظا لم کا گر یباں پکڑیں گے
’’گو ر نر جھا ر کھنڈ ‘‘ڈا کٹر سید احمد صا حب کی کتا ب میں ظفر علی خاں کی نظم نو ید آ زادئی ہند، کا فی معنیٰ خیز ہے اس میں انہوں نے یہ لکھ کر ثا بت کر دیا ہے 
کہ دیوا نو ں کے دل میں آ زا دئی تڑپ کتنی ہے۔وہ کتنے بیقرار ہیں ان کے اندر اضطر اری کیفیت پا رہ کے ما نندمضمر ہے کہ ذ را سی چبھن جو ا لا مکھی کی 
ما نند پھو ٹ پڑ تا ہے یقیناً جو ایما ن کی قو ت رکھتا ہے وہ آ گ میں کو د پڑ تا ہے جس طر ح ’بے خطر کو د پڑ ا آتشِ نمر ود میں عشق ‘‘ اور کا غذی گھو ڑ ے انسا ن 
پر اس کاکچھ اثر نہیں ہو تا ۔ چو نکہ اس کی سوچ مر دہ ہے اس لئے یہ با ت سچ ہے کہ’’شیر کے پنجہ کو زندہ مغز چا ہئے،مر دہ ہا تھی نہیں‘‘
اس طرح میں دیکھتی ہو ں ڈا کٹر سید احمد صا حب نے دینی تعلیم بھی حا صل کی اور جد ید تعلیم سے بھی آ را ستہ ہو ئے۔ شا ید یہی وجہ ہے کہ اعتدال پسند
ان کی شخصیت کا اہم جز و ہے۔ دینی تعلیم نے ان کے ذہن کو محد ود نہیں کیا بلکہ کشا د گی عطا کی اور سیکو لر زم کو انہوں نے اپنا طر ز حیا ت بنا یا ۔ اور اپنے آپ کو
کسی ایک مسلک کے حصا ر میں قید نہیں کیا اور یہ بھی ان کی شخصیت کا ایک دلنو از پہلو ہے۔
مگر میں یہا ں پر
معذ رت چا ہوں گی اور ڈا کٹر سید احمد صا حب سے یہ کہنا چا ہوں گی کوئل کی کو ک سبھوں کو اپنی طرف متو جہ کر تی ہے اور سا رے لو گ
کو ں، کوں ، کوں کے دا یونے ہیں مگر اس طرح’’سید احمد صا حب ‘‘ کو کوں ، کوں ، کوں کی آ واز میں اللہ ہو ، ہو، ہو کی آ واز سنا ئی دے تب
جا نوں .........ان کے اندر خدا نے بے بہا یہ صفت نو ازی ہے
مخدوم یحیٰ منیر یؒ کی با ت پیش کر تی ہوں ۔
’’ظلم کا خا صہ یہ نہیں کہ اس سے با دشا ہت ملے ۔ انصا ف سے ملک حا صل ہو تا ہے با دشا ہت عقل سے تقو یت پا تی ہے تمہا رے 
کا م میں تمہا رے انصا ف ہی سے پا ئیدا ری آ ئے گی۔ انصا ف کر وعا لم سے ظلم کو نکا لو۔ تا کہ تمہا رے انصا ف کے ذ ر یعہ عا لم میں 
پا ئیدا ری آ ئے‘‘۔
یوں تو ہندو ستان کی ہمہ گیر تا ریخ اور یہا ں کی تہذ یبی شعو ر کی اہمیت سا ری د نیا میں مسلمہ حقیقت ہے۔ اسکی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے
کہ گزری ہو ئی کئی صد یو ں کی پر انی تا ریخ و تہذ یب کے اہم نقو ش کو ہما رے بز ر گوں نے محفو ظ کر رکھا ہے۔ کہیں یہ تہذ یب پتھروں پر
کندہ ملتی ہے تو کہیں مو ر تیو ں میں سجی ہو ئی ، کہیں مقبر وں اور مزاروں میں اس کے نشا ں ملتے ہیں تو کہیں آ ثا رِ قد یمہ کے کھنڈرات اسکا پتہ دیتے ہیں ، تو کہیں عا لیشا ن عما رتیں اپنی کھا ئیوں کو پیش کر تی ہو ئی نظر آ تی ہیں ۔
گورنر ڈا کٹر سید احمد صا حب نے فیض احمد فیضؔ کے نظم کو قلمبند کر کے اپنے انقلا بی جوش کا اظہار کیا ہے۔
یہ دا غ دا غ اجا لا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظا ر تھا جس کا وہ سحر تو نہیں
جگر کی آ گ ،نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی پہ چا رۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہا ں سے آ ئی نگا رِ صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
اس نظم کو عمیق نظر وں سے دیکھا جا ئے تو ایک وجدا نی کیفیت اور انقلا بی جوش پیدا ہو تا ہے۔ جو میٹھا میٹھا درددیتا ہے اور کہتا ہے کہ
’’چلے چلو ابھی وہ منزل نہیں آ ئی۔اس سے یہ ثا بت ہو تا ہے کہ’’گو ر نر جھار کھنڈ‘‘ کو ہیر ے کی تلا ش ہے گیہوں کی نہیں ۔ گیہوں 
مر غ کے لئے اور ہیر ا جو ہری کے لئے۔ ان کی کتا ب’’اردو شا عری کا انقلا بی کر دا ر ‘‘کا ہر لفظ حقیقت کا آ ئینہ ہے’’ انہوں نے ایک بہت 
اچھی بات کہی ہے شیر کو جب بھو ک لگتی ہے تب وہ حملہ کر تا ہے مگر چیتا بار بار حملہ کر تا ہے ‘‘اس طرح آ زا دی کے دیو ا نوں کو حملے کی ضرورت 
ہے مگر حو صلہ مندی سے، اور دا نشو ار انہ حکمت عملی سے، گو ر نر جھاکھنڈنے انگر یز وں کے سبھی راز و نیا ز سے وا قف کر ایا ہے۔ (جاری)

انگر یز وں کے اندر بے پنا ہ مکرو فریب بھر اہو ا تھا ۔ جن کو اردو کے عظیم شعر اء نے اپنی شا عری کے ذریعہ ان کی شا طر انہ چال کو بے نقاب کیا۔ اور عوام کو ان کے فریب سے آ گا ہ کرا تے رہے اس طرح دیکھا جا ئے تو ہر دور میں عظیم شعراؤں نے اپنی قلم کی قوت سے لو گو ں کو جگا یا ہے اس طرح میں ’’عزت مآ ب‘ کی ذہن سے متفق ہو کر یہ شعر عر ض کر تی ہوں ۔
بے معجزہ دنیا میں ابھر تی نہیں قو میں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر ہی کیا 
نہیں مقام کی خو گر طبیعت آ زاد 
ہوا ئے سیر مثا ل نسیم پیدا کر
ہزاروں چشمے تیرے سنگ راہ سے پھو ٹے
خودی میں ڈوب کر ضرب کلیم پیدا کر 
سب سے بڑی حقیقت نگاری جس کا تعلق اسلوبِ بیان جسے دوسرے حیات وکانئات اور ملک و ملت سے محبت جو شا عری کی رو ح ہے اس کے وجہ سے قا ری کے ذہن پر ایک نقش ابھر نے لگتا ہے۔ اور اس کے ذریعہ اس کے اندر عقا بی روح پیدا ہو جا تی ہے جو طو فان کا رخ موڑ تے ہو ئے ہوا ؤ ں کا سینہ چیر تے ہو ئے آگے بڑ ھنے کی اپنی اندر بے پنا ہ صلا حیت پیدا کر لیتا ہے ۔یہ سا ری با تیں آ ج کے ’’گورنرجھارکھنْد‘‘ڈاکٹر سید احمد صا حب کی کتاب اردو شا عری کاانقلا بی کر دا ر میں پا یا جاتا ہے میری نگا ہ میں یہ کتاب ایسی ہے جیسے ’’مٹی کے پتلے میں جان ڈال دی گئی ہو‘ان کے اس کتاب میں فن کار کھ رکھاؤ بھی ہے۔ اسلوب کی چا شنی بھی اور جذ با ت کی تپش تو مت پو چھئے آسمان کو چھو تی نظر آ تی ہے۔
جب میں گو نر جھا ر کھنڈ ڈا کٹر سید احمد صا حب سے رو برو گفتگو کر تی ہوں تو ان کے اندر ایک تڑپ پا تی ہوں۔ جسے وہ لفظوں میں بیان نہیں کر پا تے، 
مگر دیدہ ور نگا ہیں پہچان جا تی ہیں کہ انہیں اپنی ما ں ۔ کنبہ، خا ندان ریا ست کے عوام اور ہندوستان سے بے پنا ہ محبت ہے۔ ان کے اندر کچھ کر گزرنے کی کیفیت جو الا مکھی کی طرح مضمر ہے۔ خدا انہیں کا میا بی دے اور ان کی تر قی میں چا ر چا ند لگا دے۔ اور یہ سا ری با تیں ان کی کتا ب ’’اردو شا عری کا انقلابی کر دار میں بھی ملتی ہیں جو سچا ئی کی علمبر دار ہے میں بہت ہی صا حب قلم اور دانشوروں سے ملی ہوں ۔مگر انکے اندریہ جذبہء حق نہیں دیکھی ہوں ۔ میری نگا ہ میں ابھی تک ایک ہی صا حبِ قلم ہیں جو گور نر صا حب کے با لقا بل ہیں میں ان کی تہ دل سے قدرکرتی ہوں مگر یہ راز راز ہی رہے تو زیا دہ بہتر ہے۔ بصیرت بھری نگا ہیں انہیں فوراً پہچان جا ئیں گی۔ اور بصیرت بھری نگا ہیں خدا کے طرف سے عطیہ کی جا تی ہیں جو خدا داد صلا حیت ہے اور یہ صلا حیت ہما رے گورنر جھار کھنڈ‘‘کے اندر بے پنا ہ مو جود ہے۔ ان کی نگا ہیں بصیرت اسے پر واز کرتے ہو ئے شا ہین با ز تک ہے اس طرح میں دیکھتی ہوں کہ۔
’’گورنر جھا ر کھنڈ ‘‘ کو اپنے زبان و بیان پر بے حد قدرت حا صل ہے وہ صا حبِ نسبت ہیں ۔ صا حبِ قلم اور صا حبِ اخلاق ہیں اور وہ اپنے سینے میں زندہ دل رکھتے ہیں ۔ جس سے زندگی عبا رت ہے وہ زندگی سے زیا دہ موت کا تعا قب کر تے ہیں مگر مو ت ان سے کو سوں دور بھا گتی ہے۔
چو نکہ ان کے اندر بے پنا ہ ایما ن کی طا قت ہے‘‘۔
’’اردو شا عری کا انقلا بی کر دار‘‘ کی یہ بین شہا دت ہے چنا نچہ عرس ملسیا نی انقلا ب کی با ت کر تے ہیں تو شہیدا نِ وطن کی یا د میں آ ستین انقلا ب کو خون سے تر پا تے ہیں ۔ جاں نثاراختر ؔ ہمر یا ن قافلہ میں اسیاانقلا بی جذ بہ کی گرم ا فتادی کے آرزو مند ہیں اور خود کہتے ہیں۔
ظلمتیں میداں سے آ خر بھا گنے وا لی ہیں اب
دفعتاً منزل کی را ہیں جا گنے وا لی ہیں اب
اس طر ح ظلمتوں کو میدا ن سے بھگا نے کے لئے ہندو ستا ن چھو ڑو ’’کے فلک شگا ف نعرے بلند ہو ئے اور اسطرح مجا ز نے بدیسی مہمان سے کہا
مسا فر بھا گ وقت بے کسی ہے
تیرے سر پر اجل منڈ لا رہی ہے
یہ قول بھی صحیح ہے ’’ جو ابر یہا ں سے اٹھے گا وہ سارے جہا ں پربر سے گا ‘‘اس طرح میں بھی کہتی ہوں
’’وہ آ ہ کو ئی آ ہ ہے۔ لگ جائے نہ جس سے آ گ ۔ وہ اشک کو ئی اشک ہے۔جس میں لہو نہ ہو۔ فہمی نما ز یں عشق کی مقبو لیت محا ل ۔ جب تک کیاپنے خون جگر سے و ضو نہ ہو‘‘
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ
’’اردو ادب میں سیا ست کو ئی نئی چیز نہیں ہما رے ادب میں سیا ست اس وقت سے شامل ہو گئی جب سے زبا ن نے ادب کا درجہ حا صل کیا ہے۔ اور ہما رے گو ر نر جھا ر کھنڈ ڈ اکٹر سید احمد صا حب بھی ایک بہت بڑے سیا ست داں ہیں ۔ ان کے اندر ادب میں سیا ست اور ستاسے میں ادب چھپا ہے۔۔۔۔۔۔۔جو ایک جا مع شخصیت کے لئے فخر کی با ت ہے۔ خدا جسے جس چیز سے نو ا ز دے ۔ عزت مآ ب سید احمد صاحب کو اللہ نے باد شا ہت میں فقیری اور فقیری میں با دشا ہت سے نواز دیا ہے ان کے لئے ایک تصوفا نہ شعر عر ض کر تی ہوں۔
اک رات وہ پا ئی ہے جو کا ٹے نہیں کٹتی
اک درد وہ جا گا ہے جو سو نے نہیں دیتا 
خود دار طبیعت ہے جو جھکنے نہیں دیتی
غیرت کا تقا ضہ ہے کہ رو نے نہیں دیتا ‘‘
انہوں نے اپنی کتا ب میں اس با ت کا ذکر کیا ہے جو بہت معنیٰ خیز ہے
۱۔امرت اسے دیو تا ؤ ں نے پی لیا۔
۲۔لکشمی دیوی۔ ان پر وشنو جی نے قبضہ جما لیا
۳۔سر یعنی شراب۔ اسے دیتوں نے پی لیا
۴۔چاند۔ یہ شیو جی کے حصہ میں آ یا اور اسے انہوں نے اپنی پیشا نی پر لگا یا۔
۵۔دہن ون تری وید۔ یہ ایک ہا تھ میں جونک اور ایک ہا تھ میں بلیلہ لئے ہو ئے بر آ مد ہوا ۔
۶۔رامبھا ۔ایک حسین بہشتی حور تھی ۔ را جہ اندر کی ہو ئی ۔
۷۔کو نسیہ من۔ یہ ہیر ا تھا ۔ اسے و شنو جی نے اپنی کٹھ ما لا میں ڈال کر پہن لیا۔
۹۔پا ر جا ت۔ ایک بہشتی در خت تھا اس سے جو ما نگو مل جاتا۔
۱۰۔کام دھینو۔ اعلیٰ صفت گا ئے ، بر ہما جی نے لی۔
۱۱۔شنکھ ۔ اس کے پھو نکنے سے با دل کے گر جنے کی سی آواز پیدا ہو تی تھی و شنو جی اس کے حقدار۔
۱۲۔اہر اوت۔ نا یا ب ہا تھی۔ اندر دیوتا اس پتر بر اجمان ہو ئے۔
۱۳۔دھنش یا کمان۔ قو س و قزح اس کو انددرنے لیا۔
۱۴۔وش یعنی ز ہر ۔اسے شیو جی نے پی لیا اور اسی لئے ان کے حلق کے گر دا یک نیلا حلقہ پڑ گیا۔
ان تفصیلا ت سے انہوں نے ہندو ؤ ں کے منتر کو اجا گر کر دیا۔ جو آ ج کل کے انسا نوں کے اندر ان کے اس منتر کا اثر ذرا بھی نہیں جبکہ ہونا چاہئے چو نکہ انسا ن کے اندر سب سے بڑ ی طا قت قوتِ ظر ف ہے جوانسا ن کو اعلیٰ مقا م تک پہنچا تا ہے۔اس طرح’’ عزت مآب جھا ر کھنڈ ‘‘ نے اپنی کتاب میں چو دہ ر تن کا ذ کر کیا ہے۔ جو قا بل تعر یف ہے۔
جگت سمندر میتھو چتر ا ئی ر منی کر سنگار
پلکہ تیز دھن ر مبھا تیری لجیا لچھیں لینے او تا ر
کٹا چہ تر نگ سین انبر ت پکہ کا جر ینہ کو چندر کینی نا ر 
سو ہ سر اکو سبھ کپکے ڈور ی یا ر جا ت ہ ہملتا سنگ سیا ر
مدن بہت نر کھن دہتر
یکا م و ہیں سو و شٹ و ک پنو ار
اس طرح اس کا مطلب صاف ہے۔
نو جوان حسینہ نے کمال عیا ری سے اپنے سنگا ر کے لئے دنیا کے سمندر متھا ۔ اس کی پلکیں کم ن کی تیر ہیں ۔اس کی شرم وو حیا اپسر ا رمبھا جیسی ہے۔اس نے گو یا خود لکشمی دیو ی کا اوتا ر لیا ہے ۔ تر چھے ابر او گھو ڑ ے کی طرح بے تاب ہیں غمز ہ چشم حیا ت ہے۔ پلکو ں میں کا جل اگا ہے اور محبت کے جو ش نے اس کے چہر ے کو چا ند بنا دیا ہے ۔ اس کی محبت شرب
ہے۔ اس نے گلے میں ڈوری سے کو ستبھ ہیر ا پہن ر کھا ہے۔ اسکے بندپا ر جا ت پھو لا کی طرح ہے اور اس کا گلا سنکھ ، اس کا دیکھنا ویددہنت منتری کا اعجا زرکھتا ہے ۔ اس کی نظر دکھ کو دور کر نے وا لی کا م دھینو گا ئے ہے۔
اس رتن سے یہ با ت صاف ظا ہر ہو جا تی ہے کہ اس میں شا عر کو صرف حسن کا سر اپا کھینچنا مقصود نہیں تھا ۔ بلکہ اس نے ایک مکمل دیو ما لا ئی قصہ کو ا ستعمال کر دیا۔ اس طرح سے اس میں شعر یت کے تقا ضے بھی پو رے ہو ئے اور روح عصر سے میل کھا تا ہو اشا عر کا مز اج بھی جھلک گیا۔

یہ صر یحاً انقلا بی مز اج تھا ۔ ہندو دیو تا ؤ ں سے علی عا دل شا ہ کی عقیدت کی اہمیت کو یو ں سمجھئے کہ یہ کسی عا م آ دمی یا محکو مہ کی عقیدت نہیں تھی ۔ یہ کسی صو فی کے مشرب کا آ ئینہ دا ر عقیدت بھی نہیں تھی۔ بلکہ یہ با دشا ہِ وقت کی عقیدت تھی اس کے لئے کو ئی مجبو ری نہیں تھی اس کے سا منے کو ئی مشن نہیں تھا یہ عقیدت اس فکر ی ہم آ ہنگی کا لا ز می نتیجہ تھی جو اس عہد میں ہندو مسلم اشتر ا کی تمدن سے پیدا ہو ئی تھی ۔ علی عا دل شا ہ ثا نی نے اما م حسینؓ کی شہادت ت پر مر ثیے بھی لکھے ہیں لیکن اسکے مذہبی عقید ے نے کبھی دو سرے مذا ہب کے احترام سے اسے منع نہ رکھتے تھے، وہ مر تضیٰ کا غلام ہو کر بھی سر ی کر شن کے حسن کا مزا لے سکتا تھا۔
بہر کیف شا ہی کی و سیع انظر ی اور اس دو ر میں ہندو مسلم تہذ یبی اتحا د کو شا ہی کی شا عری نے جس طرح خود میں سمو لیا ہے یہ اس شا عری کے انقلا بی کر دار پر دلا لت کر تا ہے اور آ ج جب کہ تا ریخ اس صدا قت کے متعلق خا مو ش ہے تو شا ہی کی شا عری بو لتی ہے۔
اس طرح ہم اعجا ز حسین کے الفا ظ میں کہتے ہیں ۔ 
’’جہا ں تا ریخ خا مو ش ہو جا تی ہے حالات تا ر یکی کے پر دے میں آ جا تے ہیں وہا ں شا عری اپن چر ا غ رو شن کر کے جذ با ت و محسو سا ت کو رو ز رو شن کی طرح سا منے لا کر کھڑا کر دیتی ہے‘‘
اس طر ح میں کہہ سکتی ہو ں ’’اگر کسی بھی کتا ب میں مصنف کی اپنی کو ئی سو چ نہیں ہے تو وہ کتا ب بیکا ر ہے۔ مگر’’ اردو شاعری کا انقلا بی کردار ‘‘میں مصنف کی اپنی سوچ ہے اور مصنف کی یہ کتاب بہت ہی جامع ہے۔ 

****


ڈاکٹر فہیمہ خا تون، شعبۂ اردو ما روا ڑ ی کا لج رانچی‘جھا ر کھنڈ

Read 3293 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com