الجمعة, 15 آذار/مارس 2013 20:27

’’ہتھیلی‘‘ پر لکھی انمٹ تحریر کے نام : اعظم خاکوانی Featured

Rate this item
(0 votes)

’’ہتھیلی‘‘ پر لکھی انمٹ تحریر کے نام
تحریر: اعظم خاکوانی


                   *تھل محبت سے لبریز پیاسی ریگِ رواں کا نام تھا۔ اس میں رہنے والے تھلوچڑ جن کی اکثریت بلوچ اقوام پر مشتمل تھی، اپنے اونٹوں کو ساتھ لیے نئی چراگاہوں کی تلاش میں تھل کے اندر پیکارِ مسافت رہا کرتے تھے۔ پانی زندگی اور تہذیب کی نمو کرتا ہے اور تھل صدیوں پانی کے قحط کا شکار رہا ہے۔ یہاں کے پیاسے باسی گہرے بھورے بادلوں سے پیار کرتے تھے اور ان پانی بھرے آبگینوں کے تعاقب میں دوڑتے ہوئے ہمیشہ اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے تھے۔ جناح بیراج کے قیام کے بعد پیاسے تھل میں پانی سے بھری نہریں جال کی طرح تھل میں پھیلادی گئیں تو اس کے تہذیبی ارتقا کا عمل شروع ہو گیا۔ پانی کی تلاش میں تھلوچڑوں نے ٹھکانوں پر ٹھکانے بدلنا موقوف کر دیے۔ رب کائنات وقت کو لوگوں کے درمیان الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔ ہم نے تھل کے خشک ریگی ٹیلوں پر صبح کاذب کے بعد سنہری دھوپ کو پگھلتے ہوئے سونے کی طرح لہروں میں لپٹتا اور موج در موج بہتے دیکھا ہے۔ جب یہ دھوپ سردی سے ٹھٹھرے ہوئے کسی ہرن پر اپنی سنہری کرنیں بکھیرتی تھی تو ملگجا ہیولا اچانک کسی ماہر مورتی ساز کے ہاتھوں سے ڈھل کر سنہرا بت بن جاتا اور دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتا تھا۔ اسی تھل کے قلب میں ہم نے کسی زمانے میں ایک چھوٹا سا چوراستہ دیکھا تھا جسے آج چوک اعظم کے نام سے ملک کا طول و عرض جانتا ہے۔ یہاں محض چند دکانیں اور ایک آدھ چھپر ہوٹل تھا۔ مغرب کے بعد کسی ہوٹل پر کھانا نہیں ملتا تھا۔ کوئی دکان کھلی نہیں ملتی تھی۔ زندگی سرِشام اندھیرا اوڑھ کر سو جایا کرتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ چوراستہ ایک پررونق شہر بنا گیا اور اس شہر میں ٹھکانہ بنانے کیلئے زمین حاصل کرنا ملتان اور لاہور کے مقابلے میں دشوار تر ہو گیا۔ آج یہ شہر ناصر ملک کے نام سے اور ناصر ملک اس شہر کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ 
ناصر ملک ملتان سے شائع ہونے والے اخبار، روزنامہ نوائے وقت، جس میں ہم بھی کالم لکھا کرتے تھے، آج کل بھی کبھی کبھار ہماری معروضات اس میں پڑھنے کو ملتی ہیں، میں نے جب پہلی مرتبہ ناصر ملک کی تحریر پڑھی۔ پہلی مرتبہ ٹیلی فون پر ناصر ملک سے گفتگو کی تو پتہ چلا کہ وہ پنجابی بولنے والے ہیں لیکن ان کی گرفت سرائیکی پر بھی بڑی مضبوط اور غیر معمولی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم ابھی تک اپنے اس دوست کو ’’دریافت‘‘ کرنے میں مصروف ہیں کہ وہ کالم نگار ہیں، افسانہ نگار ہیں، کہانی نویس ہیں، شاعر ہیں یا اپنے ناکام عشق کے خمیازہ بھرے مراحل سے نبرد آزما قلم کار ہیں۔ ناصر ملک کی شخصیت میں بہت سے جوہر چھپے ہیں۔ ان کی ذات میں ہم نے جو کچھ دریافت کر لیا وہ اس کے علاوہ کیا ہیں؟۔۔۔ یقیناًابھی تعارف کے بہت سے مرحلے باقی ہیں۔ وہ سرِدست ہمارے لیے خاصے اجنبی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم جیسے ’’گنہ گار‘‘ ہیں۔ وہ ہمارے اسی عاصی قیبلے کا ایک فرد ہیں جس نے اس ملک اور قوم کے اندر رہتے ہوئے قلم پکڑنے کا ’’گناہ‘‘ سرزد کیا ہے۔ قلم کاری ہمارے معاشرے میں ایسی ناپسندیدہ جسارت ہے جسے کسی پہلو سے بھی درگزر اور معاف نہیں کیا جا سکتا۔ جہالت زدہ آنکھ روشن کرنوں کے سامنے آ کر بیمار ہو جاتی ہے۔ 
شاعری کی ہماری نگاہ میں کوئی جامع تعریف نہیں ہے۔ اسے کوئی اگر زبان کی موسیقی کہے تو زبان دانی ایک بحرِ لامحدود ہے۔ اس بے کنار سمندر میں شاعری کے سیپ سے گوہرِ مقصود تلاش کرنے کیلئے عمرِ نوح کی ضرورت ہے تو پھر شاعری کیا ہے؟۔۔۔ پرانے شعراء شاعری کی صرف ایک صنف غزل کی تشریح بس یوں کرتے ہیں کہ ایک چھوٹے بچے کی ماں ،ہرنی جب اپنے نوزائیدہ بچے کو کسی گھنی جھاڑی میں دشمنوں سے چھپا کر اور سلا کر اپنا پیٹ بھرنے کیلئے جنگل میں چرتے ہوئے بھیڑیوں کے غول میں گھر جائے، قابو میں آجائے اور باوجود کوشش کے خود کو درندوں سے نہ بچا سکے تو مرنے سے پہلے مایوس اور اپنے بچے کیلئے بے قرار ہرنی کے حلق سے جو زور دار آواز برآمد ہوتی ہے، اسی پردرد چیخ کو شاعر غزل کا نام دیتے ہیں۔ 
دھرتی کا دکھ اس کے بیٹوں کو زبان عطا کرتا ہے۔ تھل کے سلگتے ہوئے مسائل نے ناصر ملک کو قلم تھمایا۔ وہ اب اپنی تخلیق ’’ہتھیلی‘‘ پر یہ سندیسہ لیے پھرتا ہے کہ شاعری فردِ جرم ہے۔ جبکہ اس جرم کے پاک پانی سے معاشرے کو وضو کرانا اور اس کے گناہ دھونا ایک ایسا عمل ہے جو انسانیت کے ماتھے پر روشنی کا تاج بن کر چمکتا ہے۔ شاعری ساکت ہو جائے تو زندگی کا زیور یوں گم ہو جاتا ہے جیسے تھل کے خوب صورت صحرا سے ہرن غائب ہو گئے ہیں۔ اس لیے زندگی کا رنگ گھولنے کیلئے ضروری ہے کہ کوئی نہ کوئی انسان وسیب میں شاعری کا جرم کرتا رہے۔ کوئی نہ کوئی دیوانہ فرزانوں کی بستی میں موجود رہے۔ 
ناصر ملک نے اپنی نظم ’’ہتھیلی‘‘ میں وہی کیفیت بیان کی ہے جب اداس دھرتی کی یکسانیت سے دل گھبرا جاتا ہے تو مایوسی کے ساتھ ساتھ یہ حوصلہ بھی پہلو میں سنبھال رکھنا پڑتا ہے کہ وقت آخر بدل ہی جاتا ہے۔ خزاں کے بعد بہار بھی انسانی مقدر کا ضروری حصہ قرار پاتی ہے۔ 
اے لڑکی! اس ہتھیلی سے بغاوت ہو نہیں سکتی
اگر یہ روٹھ جائے تو محبت ہو نہیں سکتی
یہی تو لمس دیتی ہے شروعاتِ تعلق کو
سمندر ہے، سمندر سے عداوت ہو نہیں سکتی
اسی دھرتی پہ دریا ہیں، اسی پر پھول اگتے ہیں
درخشندہ رفاقت ہے شکایت ہو نہیں سکتی
یہ بحرِ بے کراں کی تلخیوں سے پرورش پا کر
رخِ ماہِ منور سے عبارت ہو نہیں سکتی
ایک ایسا معاشرہ جہاں جمود ہو، وہاں تبدیلی کے صرف دو راستے ہوتے ہیں۔ قلم یا تلوار۔۔۔ اللہ تبارک و تعالین نے قلم کے ذریعے انسان کو علم سکھایا اور علم نے دنیا کو سنگھار دیا۔ انسانوں میں امن کا حصول بھی قلم کے مرہونِ منت ہے۔ قلم کی لامحدود زبانیں ہیں۔ اس کی ہر زبان انسانی معاشرے کو راحت اور آسودگی کی طرف لے کر جاتی ہے۔ جو وسیب قلم کی زبان نہیں سمجھتا، اس کیلئے محض تلوار کا راستہ باقی بچتا ہے۔ تلوار کی ایک ہی زبان ہوتی ہے جو ہست کو نیست کر دیتی ہے۔ شاعر، ادیب، فلسفی، کہانی نویس، سنگ تراش اور قلم کار جو زبان بولتے ہیں، وہ بہت شائستہ ہوتی ہے۔ لہجے میں وہ خوشبو ہوتی ہے جو زندگی کے گلستان کے ہر پھول کو آراستہ و پیراستہ رکھتی ہے۔ ناصر ملک زندگی کا شاعر ہے۔ وہ اپنی دھرتی ماں پر قلم کی حکمرانی چاہتا ہے۔ وہ اس وسیب میں ظلم کے خلاف نعرہ زن ہے۔ وہ دھرتی ماں کو صرف شفیق اور معتبر دیکھنے کا خواہاں ہے۔ وہ ایک سائباں، ایک ماں کی شفقت بھری پناہ طلب کرتا ہے۔
چارہ گر! بس مجھے سائباں چاہیے
چند لقمے نہیں، لختِ جاں چاہیے
گھر کے سامان کا تذکرہ مت کرو
اور کچھ بھی نہیں، مجھ کو ماں چاہیے
ناصر ملک زبان و مکاں کی حدوں اور سرحدوں سے بے نیاز ہے۔ سیاست نے انسانوں کو جس انداز سے تقسیم کر رکھا ہے، ناصر ملک اس غیر فطری تقسیم سے نالاں اور بیزار دکھائی دیتا ہے۔ اس کی ماں وہی سرزمین ہے جس پر وہ رہتا ہے۔ وہ اسی کے گن گاتا ہے اور اس کی آبیاری میں جان و تن سے مشغول رہتا ہے۔ وہ یہ خواہش بھی دل میں آشکار رکھتا ہے کہ اسے سرائیکی اور پنجابی زبانوں کی گروہ بندیوں میں شامل کیے بغیر چوک اعظم کے بیٹے کی حیثیت سے ہی یاد رکھا جائے۔ ہم اس ’’تھلوچڑ شاعر‘‘ کو اس کے اپنے وسیب میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ وہ یہ بات سمجھے یا نہ سمجھے، لیکن ہم اپنے قلبی جذبات سے مغلوب ہو کر یہ ضرور کہیں گے:

پیار کے دیپ جلانے والے کچھ کچھ پاگل ہوتے ہیں
سچی بات بتانے والے کچھ کچھ پاگل ہوتے ہیں
***


اعظم خاکوانی
’’الممتاز‘‘ I۔ سبزہ زار کالونی، بوسن روڈ۔ ملتان
فون نمبر 0343-7114411 061-6503050

Read 2256 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com