السبت, 28 أيلول/سبتمبر 2013 10:17

ڈیمیج کنٹرول : متاثرین سے ہمدردی یا ووٹ بینک کی درستگی : ڈاکٹر اسلم جمشید پوری

Rate this item
(0 votes)

  ڈاکٹر اسلم جمشید پوری

  ڈیمیج کنٹرول : متاثرین سے ہمدردی یا ووٹ بینک کی درستگی

                     یہ زبان بھی کیا عجیب شئے ہے؟ الفاظ، وقت حا لات اور استعمال سے کیسے کیسے معنی دیتے ہیں۔ انگریزی سے دور دور رہنے وا لے اور ہندی اور اردو کا دم بھرنے وا لے بھی انگریزی کے بعض الفاظ کا دھڑ لے سے استعمال کر نے سے خود کو روک نہیں پاتے ہیں۔ سو شل انجینئرنگ سے تو آپ سب وا قف ہو ہی گئے ہو ں گے۔ اب ڈیمیج کنٹرول کا استعمال ہندی اور اردو رو زناموں میں تیزی سے ہو رہا ہے۔ مظفر نگر فساد کے بارے میں قیا فہ شناس بھی حیران ہیں کہ ایسا تو نہیں سو چا تھا۔ مجھے لگتا ہے منصو بہ بنا نے وا لوں کے بھی وہم و گمان میں نہیں ہو گا کہ اونٹ اس کروٹ بیٹھ جا ئے گا۔
بعض لو گوں کا ماننا ہے کہ چو را سی پریکرما کی طرح مظفر نگر فساد بھی بی جے پی اور سماج وا دی کا ایک منصو بہ بند ڈرامہ تھا۔کچھ لوگوں نے اسے’’فکسڈ‘‘ بھی قرار دیا۔ کچھ نے اسے دو پہلو انوں کی’نو را کشتی‘ سے بھی تعبیر کیا۔۔ چو را سی پریکرما اور مظفر نگر فساد کے ابتدا ئی کے دنوں کے حا لات سے قیاس کرنے وا لوں کی بات میں کچھ دم ضرور نظر آرہا تھا۔ لیکن رو ز بروز بدلتے منظر نامے نے مظفر نگر فساد کی تصویر کو خا صا تبدیل کر کے رکھ دیا ۔ فساد کے متا ثرین کے آ نسو، آہیں، بے دری، بھوک، پیاس، خوف، دہشت وغیرہ نے معمولی فساد سمجھ رہے لوگوں کی آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔ اب جو حقیقتیں سامنے آنے لگیں تو پتہ چلا کہ قتلِ عام ہوا ہے۔گھروں اور دکانوں میں آ تش زنی کی گئی ہے۔ عورتوں اور لڑکیوں کی عصمتیں بھی تار تار ہو ئی ہیں اور یہ سب حفاظت کے ذمہ داروں کے سا منے، ان کی شہ اور ان کی شمو لیت کے سا تھ ہوا۔معاملات کی نزاکت اور شدت نے سب کچھ تبدیل کردیا۔ گجرات کا منظر نامہ، نظروں میں زندہ ہو گیا۔ سماج وا دی پارٹی کی آ نکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اتر پردیش کو ہر طرح محفوظ رکھنے کا وعدہ کرنے وا لی سر کار اتنی ناکام کیسے ہو گئی۔ مانا نفرت کی آگ پھیلانے وا لے مخصوص جماعتوں کے تھے، ان کی نشاندہی بھی کی گئی لیکن کوئی بتائے کہ اس قدر بڑے پیمانے پر تبا ہی کیا ایک دو دن میں برپا ہو تی ہے۔ یہ تو مہینوں کی تیاری کا پیش خیمہ ہے۔ ایسے میں سر کاری انتظا میہ، پولس آ فیسران کیا کررہے تھے؟ ملزمین کو قابو میں کیوں نہیں کیا گیا؟ خدا کا شکر ہے کہ ڈی جی پی، اتر پردیش نے پولس افسران کی خامی کو قبول تو کیا لیکن وہ کون سے افسران تھے؟ ان کے خلاف کارروا ئی جلد ہو نی چا ہیے۔ مقدمے قائم ہوں اور ان کی گرفتاریاں ہونی چا ہییں۔ اس سے عوام میں اعتماد بحال ہوگا۔ اس وقت متاثرین کا اعتماد بحال کرنا اولین ضرورت ہے۔
سماجی ڈیمیج :
مظفر نگر میں تقریباً رو زانہ بڑے بڑے سیا سی رہنما ؤں کی آمد و رفت کا سلسلہ جا ری ہے۔ حکومت کے نما ئندہ سیا سی رہنما، بے گھروں کو بسا ئے جانے کا دلا سہ دے رہے ہیں۔ جلد از جلد انہیں اپنے گاؤں میں آباد کیا جائے یا پھر الگ سے بستیاں بسائی جا ئیں۔ پو را منصو بہ منظر عام پر آنا چا ہیے اور ایک ڈیڈ لائن بھی مقرر ہونی چاہیے۔ سر کار اس کا اعلان کرے کہ فلاں تاریخ کے بعد کوئی کیمپ میں نہیں رہے گا۔کیا کیمپوں کو ابھی اس لیے بحال رکھا جارہا ہے کہ آ قا ؤں کو آ نے پر کیا دکھائیں گے۔ سر کار کی دیکھ ریکھ میں ہندو۔ مسلم اور پو لس کے نو جوانوں پر مشتمل کمیٹیاں بنیں اور پناہ گزینوں کو آ باد کر نے کا کام تیزی سے ہو۔ معا وضہ فو راً دیا جائے، جو لوگ بے رو ز گار ہو ئے ہیں، ان کو روزگار کے لیے رقم مہیا کرا ئی جائے۔ اس طرح سماجی سطح پر ہو نے وا لے ڈیمیج کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس میں سر کار، دو نوں مذا ہب کی رفا حی تنظیموں کا سہا را بھی لے سکتی ہے۔پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بھی کچھ ذمہ دا ری سو نپی جا ئے۔ انہیں بھی ایک ایک گا ؤں سپرد کیے جائیں۔ گا ؤں میں چھوٹی چھوٹی چو کیاں بنا ئی جائیں۔ شا ہرا ہوں سے گا ؤں کو جوڑنے والی سڑکوں کو درست کیا جائے اور پیٹرو لنگ پو لس کی گشت بڑھا ئی جائے۔ آنے وا لے ایام میں بقر عید، دسہرہ اور دیوالی جیسے تہوار کی آمد آ مد ہے۔ ان سے پہلے آپسی نفرت کو بھا ئی چارے میں بدلنا ہو گا تا کہ ان تہوا روں کو ہم پھر سے مل کر منائیں۔ دلوں میں نفرت کا شا ئبہ تک نہ رہے۔ محبت اور اتحاد قائم رکھنے وا لے تہذیبی و ثقا فتی پرو گرام منعقد کرا ئے جائیں۔ حالات معمول پر آئیں گے۔ ہم ایک دوسرے سے مل کر رہیں گے۔ یہ ہما ری سرشت میں شامل ہے۔ ہم ہندوستانی مختلف ہو تے ہوئے بھی متحد ہیں۔یہی ہماری شناخت ہے اور اسے قائم رکھنا ہی ہماری شان ہے اور وقت کا تقاضا بھی۔
مظفر نگر فساد پر سیا ست :
فساد ہوا، خونی ہو لی کھیلی گئی۔ دکانوں کو نذر آتش کیا گیا۔ تبا ہی کی نئی داستان رقم کی گئی۔بچے کھچے لوگوں نے ادھر اُدھر بھاگ کر جان بچا ئی۔ متعدد مدارس میں لوگوں نے قیام کیا۔ عورتیں، بچے، بوڑھے، مریض، حاملائیں،چیختے، کراہتے لوگ، ہمیشہ کے لیے جدا ہو جانے وا لوں کے لیے آہ و بکا، علاج کے فقدان میں تڑپتے زخمی__ایک طرف تو یہ سب تھا دوسری طرف بی جے پی اس پورے معاملے کا سیا سی فا ئدہ اٹھانے کے لیے ہر وقت تیار۔ بی جے پی کے بڑے رہنماؤں کا بیان کہ فساد سماج وا دی کا سو چا سمجھا منصو بہ ہے۔ یہی نہیں ایک اسٹنگ آپریشن نے سماج وا دی کے بڑے مسلم لیڈر اعظم خاں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ بس پھر کیا تھا بی جے پی کے رہنماؤں نے محمد اعظم خاں کو فساد کا ذمہ دار قرار دے کر ان کی گرفتاری اور ان پر مقدمہ چلا ئے جانے کی مانگ زور و شور سے کی جانے لگی۔ کئی دن اخبارات کے سر ورق پر یہ خبر جلی حرفوں میں شا ئع ہوئی۔ دوسری طرف بی ایس پی کے رہنما ؤں نے بیان دیا کہ یہ بی جے پی اور سماج وا دی کی ملی جلی سا زش ہے۔ بی ایس پی کے ایک ایم پی پر بھی فساد بھڑ کانے کا الزام ہے۔ راشٹریہ لوک دل، جس کی زمین ہی جاٹ ۔مسلم ووٹ ہیں، اس فساد سے بہت زیا دہ متاثر ہیں۔ ان کے رہنما ؤں کا بیان ہے کہ مظفر نگر فساد سماج وادی کا مسلم ووٹوں پر قبضے کا ایک کھیل ہے اور سماج وا دی نے جاٹ۔ مسلم اتحاد کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ کانگریسی رہنماؤں کے بیان آ رہے ہیں کہ یہ بی جے پی کو فا ئدہ پہنچا نے کے لیے سماج وا دی کی چا ل ہے کہ ووٹ کہیں اور نہ جائے۔ صرف بی جے پی اور سماج وا دی میں ہی تقسیم ہو۔ خود سماج وا دی کے کئی لیڈران بیان دے چکے ہیں کہ یہ فا شسٹ طاقتوں کا کھیل ہے۔ ان بیان با زیوں کے درمیان تھوڑی دیر کے لیے یہ سو چیں کہ کس سیاسی جماعت نے حالات کو قابو میں کرنے، متاثرین کی امداد اور انہیں آباد کیے جانے کے لیے کیا کیا تو آپ کو علم ہوگا کہ یہ سب صرف زبان جمع خرچ کررہے ہیں۔ سر کار ہو یا حزب مخالف سب کے چہرے عوام کے سامنے ہیں۔
سیا سی ڈیمیج کنٹرول :
سماجی اعتبار سے تو ڈیمیج کنٹرول کی کوئی خاص کوشش اب تک نظر نہیںآرہی ہے۔ سماجی اور مذہبی تنظیمیں اپنی اپنی سطح پر امداد و تعاون میں لگی ہوئی ہیں۔ سماج وا دی پا رٹی کے تعلق سے شور ہوا کہ اس فساد کا منفی اثر سب سے سے زیا دہ سماج وا دی پر پڑے گا اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی کہ باغپت سے سماج وا دی امید وا ر سوم پال شاستری نے سماج وا دی کا دا من چھوڑ دیا جب کہ وہ ایسے قد آور رہنما تھے کہ وہ اجیت سنگھ کو ایک بار شکست بھی دے چکے ہیں دو بارہ بھی ان سے امید کی جاسکتی تھی۔ سماج وا دی نے راتوں رات سوال خاص کے ایم ایل اے حاجی غلام محمد کو امید وار بنا دیا۔ یہی نہیں کئی سال سے پارٹی سے خا رج عمران مسعود کو بھی نہ صرف پا رٹی میں شامل کیا گیا بلکہ ایم پی کے لیے سہا رنپور سے امید وار بنایا۔ سماج وا دی کے اس اقدام سے دو سری جماعتوں کی را توں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔غلام محمد مسلمانوں کے علا وہ جا ٹوں، گوجروں اور دوسرے طبقات میں بھی مقبول ہیں۔وہ اجیت سنگھ کو بھی ٹکر دے سکتے ہیں۔ عمران مسعود نو جوا نوں کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں۔ عمران مسعود کو مظفر نگر فساد میں نا راض مسلمانوں کو منانے کی ذمہ داری دی گئی ۔پھر شیو پال یا دو کو بھی سیا سی ڈیمیج کنٹرول کرنے کے لیے خصوصی طور پر بھیجا گیا ہے۔معاوضہ کا اعلان، آباد کیے جانے کا بھروسہ اور ملزمین کی گرفتاری سے سماج وا دی اپنے نقصان کو پو را کرنے میں لگی ہے۔ اس پورے معا ملے سے محمد اعظم خاں کو الگ رکھا جا رہا ہے۔ شاید سماج وا دی کے اندر کے ایک حلقے کی منشا یہی تھی۔ یہ وہ حلقہ ہے جو اندرونی طور پر محمد اعظم خاں کے خلاف تھا۔ ایسے میں بخا ری صا حب نے تو کھلم کھلا اعظم خاں کی مخا لفت کرتے ہو ئے انہیں پا رٹی سے بر خواست کرنے تک کی مانگ کی۔
مظفر نگر فساد سے زیادہ متا ثر ہو نے وا لی دوسری پا رٹی، را شٹریہ لوک دل ہے۔ اس کی مشکل یہ ہے کہ اس کی سیا ست کی بنیاد جاٹ۔مسلم اتحاد ہی پارہ پارہ ہو گیا ہے۔ اس سے مسلم بھی نا راض ہیں اور جاٹ بھی۔ مسلمانوں کی نا راضگی تو شاید اجیت سنگھ برداشت بھی کر لیں لیکن جاٹ نا را ضگی ان کے سیا سی کیرئیر کا زوال ہی ہو گا۔شاید یہی وجہ ہے کہ اجیت سنگھ نے باغپت میں ڈیمیج کنٹرول کے دوران ہی جاٹ ریزرویشن کا اشا رہ بھی عوام کو دیا۔
بی ایس پی اس پو رے معا ملے میں’ واچ اینڈ ویٹ‘س، کی پا لیسی اپنا رہی ہے۔ اس کے ایک ایم پی کی گرفتاری کا حکم نامہ جا ری ہو گیا ہے اور اب سپریمو کے اشا رے بھی مل گئے ہیں کہ گرفتار ہو جا ؤ۔ گرفتاری کا ایک سیا سی فا ئدہ بھی ہے کہ ہمدردی کی ایک لہر عوام میں سرا یت کر جا تی ہے۔ بی جے پی اسی لہر کو کیش کرنا بھی چا ہتی ہے۔ ان سب سے الگ کانگریس مسلم ووٹوں کو پھر سے اپنا نے کے حربے آزما رہی ہے۔ یہ سب یوں ہی چلتا رہے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈیمیج کنٹرول کے پردے میں کیا کیا گل کھلتے ہیں۔ لوگ فساد متا ثرین کے ڈیمیج کو ٹھیک کرتے ہیں یا پھر اپنے سیا سی نقصانات کی بھر پائی اور یہ بھی قابل غور ہے کہ پناہ گزینوں کے کیمپ کب تک اپنے وجود کے ساتھ بد نما دا غوں کے مصداق مغربی اتر پردیش کے دامن پر نظر آئیں گے اور کب ان بیچا روں کو امن و امان، سکون، گھر بار، کارو بار وغیرہ میسر ہوں گے۔
***
Dr. Aslam Jamshedpuri
HOD, Urdu CCS University, Meerut
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته..
09456259850

Read 2088 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com