بسم اللہ الرحمن الرحیم
عالمی پرواز کی ایک نئی اُڑان
بین الاقوامی اُردو ادب کا اُردوپورٹل
فکشن
کا
نیا
آسمان
ماہنامہ اُردو آپریشن جھارکھنڈ
فروری - جون 2014
سرپرست ڈاکٹراسلم جمشیدپوری
مدیر خصوصی رضوان واسطی
مدیر اعزازی جہانگیر محمد
مدیرہ نغمہ نازمکتومیؔ
ترتیب مہتاب عالم پرویزؔ
زیرِاہتمام ’’ عالمی پرواز .کوم
www.aalamiparwaz.com
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته. عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
افسانہ
" مامتا "
وحید احمد قمر
۔ فرینکفرٹ ۔ جرمنی
وہ کسی قسم کے شور کی آواز ہی تھی جس سے سعدیہ کی آنکھ کھل گئی ،کمرے میں اندھیرا تھا ۔ اس نے ھاتھ بڑھا کر میز پر پڑا لیمپ آن کیا اورساتھ پڑی گھڑی میں وقت دیکھا ۔ چار بج رھے تھے ۔ وہ یوں اچانک آنکھ کھل جانے پر حیران تھی کیونکہ کافی گہری نیند سوتی تھی ۔ عام طور پر رات کی سوئی صبح سے پہلے نہ اٹھتی تھی ۔ " شاید کسی ڈراؤنے خواب نے اٹھا دیا ھے " اس نے سوچا ، کچھ دیر خالی الذھنی کی کیفیت میں بیٹھی رھی پھر دوبارہ سونے کا ارادہ کرتے ھوئے روشنی بجھانے کے لیئے ھاتھ بڑھایا ہی تھا کہ فائر کی تیز آواز نے رات کے سکون کو تہ و بالا کر دیا ۔ وہ خوفزدہ ھو کر اٹھ بیٹھی ۔ آواز کافی قریب سے آئی تھی ، شاید قریبی سڑک سے ۔ چند منٹ کے وقفے سے دوسرا فائر ھوا ، پھر تیسرا ، چوتھا ۔ ۔ ۔۔ اور یہ سلسلہ چل نکلا ۔ باقاعدہ فائرنگ ھونے لگی ۔ یوں لگتا تھا جیسے دو متحارب گروہ آپس میں الجھ پڑے ھوں ، سعدیہ سہم کر دیوار سے جا لگی ، وہ بہت ڈر گئی تھی ۔ اس نے کل شام کو ہی ٹی وی کی خبروں میں سنا تھا کہ " چند خطرناک دھشت گرد حوالات سے فرار ھو گئے ہیں ۔ پولیس نے شہر نے شہر سے باہر جانے والے راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی ھے اور سرگرمی سے ان مجرموں کو تلاش کر رہی ہے ۔ عوام سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ گھروں کے دروازے ، کھڑکیاں اچھی طرح بند کر لیں اور کسی قسم کی غیر معمولی صورتحال پیش آنے پر پولیس کو فون کریں ۔ سعدیہ نے خبریں سنتے ہی کھڑکیاں اور دروازے اچھی طرح بند کر لیئے تھے اور رات سونے سے پہلے ایک دفعہ پھر انہیں اچھی طرح چیک کیا تھا ۔ اس وقت اس نے تصور بھی نہ کیا تھا کہ دھشت گرد اس طرف آ نکلیں گے کیونکہ ایک تو پولیس اسٹیشن یہاں سے کافی دور تھا دوسرے سعدیہ کا گھر کافی گنجان آباد علاقے میں تھا ۔ اور اس کے خیال میں مجرم فرار کے لیئے عموما" ویران راستوں کو ترجیح دیا کرتے ہیں مگر فائرنگ کی آوازیں اس کے اس خیال کی نفی کر رہی تھیں ۔ وہ کافی دیر تک ڈری سہمی بیٹھی رہی ، فائرنگ کی شدت میں اب کمی آ گئی تھی وقفے وقفے سے ایک ادھ فائر کی آواز سنائی دیتی اور پھر سناٹا چھا جاتا ۔ ان وقفوں کے دوران دوڑتے قدموں کی آوازیں اور کئی قسم کا ملا جلا شور بھی سنائی دیتا رہا ۔ پھر آہستہ آہستہ خاموشی چھا گئی ۔ سعدیہ کافی دیر تک انتظار کرتی رہی کہ شاید پھر کوئی فائر ہو مگر ماحول پر اک پرھول سا سناٹا چھا گیا ۔ اسطرح سکوت ھو گیا تھا جیسے کچھ ھوا ہی نہ ھو ۔
وہ کچھ دیر مزید خالی الزھنی کی کیفیت میں بیٹھی رہی ، پھر اٹھ کر کچن کی طرف چل دی ۔ پیاس سے اس کا گلا خشک ھو رھا تھا جبکہ دل زور زور سے دھڑک رھا تھا ۔ اس نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور ایک ہی سانس میں نصف بوتل خالی کر دی کچھ اوسان بحال ھوئے تو قریبی کرسی پر بیٹھ گئی اور چھوٹے چھوٹے گھونٹ لینے لگی ۔ پانی پینے کے بعد واش بیسن کے قریب آئی اور چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے لگی ۔ منہ دھونے کے بعد کچھ اوسان بحال ھوئے تھے ۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے چہرے پر بکھرے بالوں کو سمیٹا اور ھیئر کلپ سے باندھنے لگی ۔ ایسا کرتے وقت اچانک اس کی نگاہ کھڑکی کی طرف اٹھ گئی ۔ ایک سایہ سا کھڑکی کے آگے سے گزر گیا تھا ۔ وہ ایکدم ساکت ھو گئی ۔ اسی وقت کچن کی بیرونی دیوار کی طرف کھٹکا سا سنائی دیا ۔ اس نے کچن کے بیرونی دروازے کے ھینڈل کو گھومتے دیکھا ۔ مگر چونکہ دروازہ اندر سے بند تھا اس لیئے باھر سے کھولا نہ جا سکتا تھا ۔ تو گویا بالکونی میں کوئی موجود تھا ۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا ۔ چند لمحوں کے بعد سیاہ ھیولا پھر کھڑکی میں نطر آیا ۔ وہ شاید اب کھڑکی پر زور آزمائی کرنا چاہتا تھا مگر غنیمت یہ تھی کہ کھڑکی میں لوہے کی مضبوط گرل کے علاوہ ایسا موٹا شیشہ لگا ہوا تھا جس کے آر پار نہ دیکھا جا سکتا تھا ۔ مگر یہ بات ہی کافی دھشت ذدہ کر دینے والی تھی کہ بالکونی میں کوئی موجود تھا جو گھر کے اندر گھس آنا چاھتا تھا جبکہ زرا ہی دیر پہلے باہر سے ھولناک قسم کی فائرنگ کی آوازیں بھی آتی رہی تھیں ۔ سعدیہ کا دل بیٹھا جا رہا تھا ۔ اگر وہ شخص کسی طرح اندر آنے میں کامیاب ہو گیا تو ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ اس سے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی ۔ اس نے دوپٹے سے چہرے پر آئے پسینے کو پونچھا اور تیزی سے اندرونی کمرے کی طرف بڑھی ۔ تاکہ فون پر پولیس کو اطلاع دے سکے ۔ ابھی وہ راھداری میں ھی تھی کہ اسے کچن کا بیرونی دروازہ دھڑدھڑائے جانے کی آواز آئی ۔ آوازیں کافی اونچی اور مسلسل تھیں یوں لگتا تھا جیسے کوئی دروازے کو باھر سے کھولنے کے لیئے زور آزمائی کر رھا ھو ۔ وہ واپس کچن میں پلٹ آئی ۔
دروازے پر باھر سے ضربیں لگائی جا رھی تھیں ۔ سعدیہ نے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگائی کہ ضربیں اگر اسی شدت سے جاری رہیں تو دروازہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ھے ۔ کچن کی طرف والی بالکونی بالکل ویران رہتی تھی ۔ یہ عمارت کا پچھواڑا تھا ۔ یوں بھی کچھ دیر پہلے ھوئی فائرنگ کی وجہ سے سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے اگر کوئی یہ آوازیں سنتا بھی تو شاید ھی انکی طرف توجہ دیتا ۔ اور مدد کے لیئے اتا ۔ اسلیئے اپنی حفاظت کے لیئے جو کرنا تھا سعدیہ کو خود ہی کرنا تھا ۔ اس نے جلدی جلدی کھانے کی میز گھسیٹی اور کسی نہ کسی طرح دروازے کے آگے سرکا لائی ۔ میز کو دروازے کے اگے رکھنے کے بعد وہ برتنوں کی الماری کی طرف بڑہی ۔ الماری کے نیچے پہیئے لگے ھوئے تھے اس لیئے سعدیہ آسانی سے اسے بیرونی دروازے کے سامنے ٹکی میز کے آگے اس طرح لے آئی کہ اب اگر دروازہ ٹوٹ بھی جاتا تو میز اور الماری کے دباؤ کی وجہ سے اندر کو نہیں کھل سکتا تھا ۔ مزید احتیاط کے طور پر اس نے ایک چھوٹی میز الماری اور اندرونی دیوار کے درمیان پھنسا دی ۔ اب گویا اپنی دانست میں اس نے اندر آنے والے کی راہ میں مضبوط رکاوٹیں قائم کر دی تھیں دوسری طرف دروازے پر پڑنے والی ٹھوکروں اور ضربوں کی شدت میں اضافہ ھو گیا تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ کچھ ہی دیر میں دروازہ ٹوٹ جائے گا ۔ اور یہی ھوا چند لمحوں بعد دروازہ اکھڑ گیا تھا ۔
سعدیہ گھبرا اٹھی اور تیزی سے اندرونی راھداری کی طرف بھاگی اور کچن کے اندرونی دروازے کو بند کر کے چٹخنی چڑھا دی ۔ اسی وقت کچن سے کچھ گرنے کی آواز آئی ساتھ ہی برتنوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا شور بھی ، گویا برتنوں کی الماری اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکی تھی ۔ سعدیہ دروازے کے ساتھ لگی گہری گہری سانسیں لے رہی تھی اس کا سارا جسم پسینے میں شرابور تھا ۔ پھر اس دروازے کا ھینڈل گھومتا محسوس ھوا جس کے ساتھ وہ لگی کھڑی تھی ۔ خوف کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں سرایت کر گئی ۔ اس کی سمجھ میں نہ آ رھا تھا کہ اب کیا کرے ۔ لاشعوری طور پر وہ اس انتظار میں تھی کہ شاید اس دروازے پر بھی ضربیں پڑنی شروع ھوں مگر جب کچھ دیر گزر گئی اور کوئی آواز سنائی نہ دی تو اسے تعجب ھوا مگر اگلے ھی لمحے یہ تعجب دھشت میں بدل گیا ۔ شاید وہ شخص سٹور کی طرف بڑھ گیا ھو ۔ اگر ایسا ھوا ھے تو راھداری تک پہنچنا اس کے لیئے بالکل آسان ھو جائے گا ۔ سعدیہ کا دل بیٹھ گیا ۔ اس نے سہمے ھوئے انداز میں راھداری کے اس سرے کی طرف دیکھا جہاں سٹور تھا اور پھر ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ اس کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی ۔
وہ راھداری میں قدم رکھ رھا تھا ۔ سرتا پا سیاہ لباس میں ملبوس ۔ اس کے دائیں ھاتھ میں پستول دبا ھوا تھا ۔ وہ نپے تلے انداز میں قدم بڑھاتا سعدیہ کی طرف بڑھنے لگا ۔ جبکہ سعدیہ دیوار سے لگی اندرونی کمرے کی طرف کھسکنے لگی اس کے سارے جسم پر کپکپی طاری تھی ۔ بال ایکدفعہ پھر کھل کر چہرے پر بکھر گئے تھے جبکہ سینہ لوھار کی دھونکنی کی طرح چل رھا تھا ۔ جونہی وہ اندرونی کمرے کے دروازے پر پہنچی سیاہ پوش کی گرجدار آواز گونجی ۔
ٹھرو ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔
سعدیہ اپنی جگہ پر ساکت ھو گئی ۔ وہ ذرا ھی دیر میں سعدیہ کے سر پر آ پہنچا ۔ اس کے پستول کا رخ سعدیہ کے سینے کی طرف تھا ۔ سعدیہ کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا ۔
" شاید تم گھر میں اکیلی ھو۔"
اس بار سیاہ پوش کا لہجہ نسبتا" دھیما تھا ۔ سعدیہ کا سر اثبات میں ہل گیا ۔ پھر اچانک کسی خیال کے آتے ھی نفی میں سر ھلاتے ھوئے پھنسی پھنسی آواز میں بولی ۔
" اوپر میرے بچے سو رہے ھیں ۔ شور کی اواز سن کر شاید وہ جاگ اٹھے ھوں ۔ مجھے اوپر اپنے بچوں کے پاس جانے دو ۔ وہ ڈر رہے ھونگے ۔ " سعدیہ کے لہجے میں دنیا جہاں کا درد سمٹ آیا
" نہیں ، سیاہ پوش نے پستول کو جنبش دے کر کہا ۔ تم کہیں نہیں جاؤ گی ، اگر بچے اٹھے ھوتے تو ان میں سے کوئی نیچے ضرور آتا ۔ وہ اتنے چھوٹے بھی نہ ھونگے کہ سیڑھیوں سے نیچے نہ اتر سکیں ، کیوں ؟ "
ہاں ، سعدیہ کا سر اثبات میں ہل گیا ۔ یوں بھی میرے بچے کافی گہری نیند سوتے ھیں ۔"
" تمھارا خاوند کہاں ہے ۔ "
رات کی دیوٹی پر ۔وہ ڈاکٹر ہیں
سیاہ پوش کی آنکھوں میں چمک سی لہرائی ۔ " پھر تو گھر میں فرسٹ ایڈ کا سامان بھی ھو گا ۔"
ہاں ھے ۔ گھر میں ضروری استعمال کی تمام دوائیں ہر وقت موجود رہتی ھیں ۔ "
چلو ، فرسٹ ایڈ بکس لے کر آؤ ۔ فائرنگ کے تبادلے کے دوران ایک گولی میری ٹانگ کو چھو کر گزر گئی ھے ۔ معمولی زخم ھے مگر خون تھم نہیں رھا ۔
سعدیہ نے بے اختیار اس کی ٹانگوں کی طرف دیکھا ۔ دائیں ٹانگ پر گھٹنے سے ذرا نیچے خون رس رھا تھا ۔ سعدیہ کمرے میں داخل ھوئی اور الماری کی طرف بڑھی ۔ سیاہ پوش اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں چلا آیا تھا ۔ سعدیہ نے الماری کا پٹ کھولنے کے لیئے ھاتھ بڑھایا ہی تھا کہ سیاہ پوش بولا
ذرا ٹھرو ،
سعدیہ کا اٹھا ھوا ھاتھ رک گیا ۔ لیکن اس نے پلٹ کر نہ دیکھا تھا ۔
کیا فرسٹ ایڈ بکس الماری میں ھے ؟ سیاہ پوش اس کے برابر پہنچتا ھوا بولا
سعدیہ نے اثبات میں سر ھلایا
تم ٹھرو ، میں الماری سے بکس نکالتا ھوں ۔
سعدیہ ایک طویل سانس لے کر رہ گئی ، سیاہ پوش نے ایک جھٹکے سے الماری کھول دی
سامنے الماری کے اوپری خانے میں ایک ننھا سا پستول چمک رھا تھا ۔
سیاہ پوش نے معنی خیز نظروں سے سعدیہ کی طرف دیکھا اس کی سرخ آنکھوں میں سختی آ گئی تھی ۔ سعدیہ نظریں چرا کر دوسری سمت دیکھنے لگی
" تم بہت خطرناک لڑکی ھو ، اور دلیر بھی ۔ مگر میرے ساتھ کسی قسم کی چالاکی تمھارے لیئے سخت نقصان دہ ثابت ھو گی ۔
سعدیہ خاموشی سے ھونٹ کاٹتی رہی
دیکھو لڑکی ، تمھیں میرے ساتھ تعاون کرنا چاہیئے ، اسی میں تمھاری بھلائی ھے ،
سعدیہ نے اسکی طرف دیکھا ۔ وہ کہتا رھا ۔ اگر تم تعاون کرنے پر آمادہ نہیں ھو تو تمھاری موت پر مجھے ذرا بھی افسوس نہ ھو گا ۔اس کے لہجے میں سفاکی در آئی
" تم کیا چاہتے ھو ۔" سعدیہ نے تھکے تھکے لہجے میں کہا
سب سے پہلے اپنے زخم کی ڈریسنگ ، اور اس وقت تک تمھارے گھر میں قیام جب تک پولیس اس علاقے سے چلی نہیں جاتی ۔
" تمھارے زخم کی ڈریسنگ تو میں کر دونگی ۔ مگر ذیادہ یہاں ٹھرنا خود تمھارے لیئے نقصان دہ ثابت ھو سکتا ھے ۔ میرے شوھر علی الصبح ڈیوٹی سے واپس آ جاتے ھیں ۔
فی الحال میرے زخم کی ڈریسنگ ھونی چاہیئے ، بعد کا بعد میں دیکھا جائیگا ۔
اچھا ۔ ۔ ۔ ۔۔ الماری کے نچلے خانے میں فرسٹ ایڈ بکس پڑا ھے ۔ وہ نکالو ۔ سیاہ پوش نے بکس نکلا اورالماری میں پڑے پستول کو بھی اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیا ۔ جبکہ اپنے پستول کا رخ سعدیہ کی طرف کرتے ھوئے قریبی کرسی پر بیٹھ گیا
تم پستول جیب میں رکھ لو ۔ مجھے اس سے خوف محسوس ھوتا ھے ۔ اسکی موجودگی میں اچھی طرح زخم کی دیکھ بھال نہ کر سکونگی ۔
میں تم پر اعتبار نہیں کر سکتا ۔
دیکھو ۔ میں ایک نرس رہ چکی ھوں اور یہ بات میری تربیت میں شامل ھے کہ مریض کا علاج پوری دیانتداری سے کرنا ھے ۔
سیاہ پوش چند لمحے خاموشی سے سعدیہ کی طرف دیکھتا رہا جیسے اس کے لہجے کی صداقت کو پرکھنے کی کوشش کر رھا ھو ۔ پھر اس نے پستول جیب میں رکھتے ھوئے کہا
تم یہ نہ سمجھنا کہ پستول جیب میں رکھنے کے بعد تم کسی قسم کی کوئی حرکت کر سکو گی ۔ میں خالی ھاتھ سے بھی پلک جھپکنے میں تمھیں دبوچ سکتا ھوں ۔
سعدیہ خاموش رہی ۔ اس نے فرسٹ ایڈ بکس کھولا اور سیاہ پوش کا زخم دیکھنے لگی ۔
کچھ وقت زخم صاف کرنے اور مرھم پٹی میں گزر گیا ۔ جب سعدیہ اس کام سے فارغ ھوئی تو سیاہ پوش کے منہ سے بے اختیار نکلا
تم نے تو انتہائی ماھرانہ انداز میں ڈریسنگ کی ھے ۔
میں نے کہا نا کہ میں ایک نرس ھوں ۔ وہ تو بچوں کی پیدائش کے بعد جاب چھوڑ دی ۔ کہ بچوں کی دیکھ بھال ھی ایک کل وقتی جاب ھے ۔
تمھارے کتنے بچے ھیں ؟
دو، 4 سالہ جویریہ اور 6 سالہ احمد ۔ جسے میں پیار سے ساشا کہتی ھوں ۔
ساشا ، یہ تو رشین لفظ ھے شاید ؟ سیاہ پوش بولا ۔ میں تھوڑی بہت رشین جانتا ھوں ۔
ھاں ، ان دنوں میں ایک رشین سٹیٹ میں جاب کرتی تھی جب احمد پیدا ھوا تھا ۔وھاں بعض مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو اسی طرح کے ناموں سے پکارتی ہیں ۔ سعدیہ کے لہجے میں پیار سمٹ آیا
تم اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی ھو ؟
بہت ذیادہ ۔ ھر عورت کی طرح میرا خاوند اور بچے ھی میری کل زندگی کا سرمایہ ھیں ۔ مگر ھر عورت کی طرح نہیں کہنا چاہیئے میں نے کچھ عورتوں کو اپنے خاوند سے بے وفائی کرتے اور بچے چھوڑ کر کیریئر کے پیچھے بھاگتے دیکھا ھے ۔
مگر تم ان عورتوں میں سے نہیں ھو ۔ اپنے گھر کی حفاطت اور بچوں سے محبت کے اس جذبے سے میں بہت متاثر ھوا ھوں ۔ سیاہ پوش کا لہجہ بے حد نرم تھا
اسی وقت اطلاعی گھنٹی کی آواز سنائی دی
سیاہ پوش اچھل کر کھڑا ھو گیا ۔ اس نے دونوں پستول نکال کر ھاتھوں میں لے لیئے تھے
" کون ھو سکتا ھے ، تمھارا خاوند ۔۔؟" اس کی آواز میں غراھٹ تھی ذرا دیر پہلے والی نرمی کا لہجے میں شائبہ تک نہ تھا
سعدیہ نے نفی میں سر ھلایا ۔ " صہیب عموما" ساڑھے چھ سے پہلے نہیں آتے ، ابھی تو شاید 5 بجے ھونگے
" پھر ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ یہ کون آ گیا ۔ ۔ ۔ پولیس ۔ ۔۔ ۔ ۔ سیاہ پوش کے لہجے میں گھبراھٹ تھی
اطلاعی گھنٹی پھر بجی
سعدیہ بولی ۔ " دیکھو ۔۔۔ تم جس طرف سے آئے ھو اسی طرف سے نکل جاؤ ۔ اگر یہاں رھے تو کسی چوھے کی طرح پکڑے جاؤ گے "
تم ٹھیک کہتی ھو ۔ سیاہ پوش نے کہا اور کچن کی طرف بڑھ گیا جبکہ سعدیہ تیزی سے بیرونی دروازے کی طرف بڑھی ، گھنٹی اب مسلسل بج رھی تھی
" اے تم کہاں چلیں ۔ " سیاہ پوش کی درشت آواز نے اس کے قدم روک لیئے ۔ جلدی سے مرے آگے کچن کی طرف چلو ۔ اس نے دائیں ھاتھ میں دبے پستول سے اشارہ کیا ۔ سعدیہ خاموش کھڑی رہی
چلو ، وہ غرایا اور وہ کچن کی طرف چلدی ۔ سیاہ پوش اس کے پیچھے پیچھے آیا تھا ۔ اطلاعی گھنٹی کی آواز اب نہیں آ رہی تھی ۔ کچن کے فرش پر برتنوں کی الماری گری پڑی تھی اور برتن فرش پر بکھرے ھوئے تھے ۔ سعدیہ نے رک کر سیاہ پوش کو دیکھا ۔ وہ اسے پستول سے کور کرتا ھوا اکھڑے ھوئے دروازے کی جانب بڑھا اور سر نکال کر باھر جھانکا ۔ پھر سعدیہ کی طرف دیکھ کر پر تشویش لہجے میں بولا
" پچھلی گلی میں بھی پولیس موجود ھے ۔ چلو ، واپس کمرے میں " اس بار اس نے سختی سے سعدیہ کا بازو پکڑا اور اندر کمرے میں دھکیل لایا ۔ پستول کی نالی اس نے سعدیہ کی کنپٹی سے لگا دی تھی ۔
سعدیہ تھر تھر کانپنے لگی ۔ " تم کیا کرنے جا رہے ھو ۔ " اس نے لرزتی ھوئی آواز میں کہا
اب بیرونی دروازے کو کئی ھاتھوں سے پیٹا جا رھا تھا
یقینا" باھر پولیس ھے ۔ وہ شاید کچن کا اکھڑا ھوا دروازہ دیکھ کر اسطرف آئے ھیں ۔ اب میرے بچاؤ کی صرف ایک ھی صورت ھے کہ تمھیں یر غمال بنا لوں " سیاہ پوش سفاک لہجے میں بولا
سعدیہ کے بازو پر اسکی گرفت مزید سخت ھو گئی تھی
سعدیہ خوفزدہ سی اسے دیکھتی رہ گئی اس کے چہرے پر انتہائی کرختگی اور آنکھوں میں وحشت تھی ۔ سعدیہ نے ایک جھر جھری لی اس کا سارا جسم کانپ رھا تھا ۔ دوسری طرف دروازہ مسلسل دھڑ دھڑایا جا رھا تھا ۔ بلکہ اب دروازے پر ضربیں بھی لگنی شروع ھو گئی تھیں ۔
سیاہ پوش کہہ رھا تھا ۔ " دروازہ ٹوٹنے کی صورت میں پولیس سیدھی یہیں آئیگی ۔ شاید وہ لوگ کچن کی بالکونی سے بھی اوپر چڑھنے کی کوشش کر رھے ھونگے ۔ میں دونوں طرف سے گھر کر نہ رہ جاؤں ۔ چلو اوپر ۔" اس نے سعدیہ کو سیڑھیوں کی طرف دھکیلا
نہیں ، ۔ اوپر میرے بچے ھیں ۔ وہ تمھیں دیکھ کر ڈر جائیں گے ۔ میں تمھیں اوپر نہیں جانے دونگی ۔ " سعدیہ نے سخت لہجے میں کہا ۔ نہ جانے اس میں اتنی جرات کہاں سے آ گئی ۔ بیرونی دروازے پر پڑنے والی ضربیں شدید ھو گئی تھیں
" تم بہت ضدی ھو ۔ اور کسی بھی وقت میرے لیئے خطرناک ثابت ھو سکتی ھو ۔ لہذا اب میں تمھیں چھوڑ کر تمھارے بچوں کو ھی یرغمال بناونگا ۔
سیاہ پوش نے یہ کہہ کر سعدیہ کو صوفے پر دھکیلا اور تیزی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھا
سعدیہ صوفے پر گرتے ھی اٹھ کھڑی ھوئی ۔ اور دھاڑتی ھوئی بولی
" رک جاو ۔۔۔ اوپر مت جاؤ ۔ ۔۔ ۔ وھاں مرے بچے ھیں ۔ "
سیاہ پوش سنی ان سنی کیئے سیڑھیاں چڑھنے لگا
" رک جاو ، ورنہ میں تمھیں جان سے مار دونگی ۔ " سعدیہ نے چیختی ھوئی آواز میں کہا
پھر جیسے اس کے جسم میں بجلی بھر گئی ۔ اس نے چھوٹی میز پر پڑی پھل کاٹنے والی چھری اٹھائی اور بے تحاشا سیاہ پوش کی طرف لپکتے ھوئے اس کے سر پر جا پہنچی ، سیاہ پوش اسکی موجودگی محسوس کر کے پلٹا ۔ عین اسی وقت سعدیہ نے ھاتھ میں پکڑی چھری پوری قوت سے سیاہ پوش کے عین دل کے مقام میں پیوست کر دی ۔ اور پے در پے وار کرتی چلی گئی ۔ سیاہ پوش لڑکھڑایا اور تیورا کر گرا ۔ پھر سیڑھیوں پر نیچے کی طرف لڑھکتا چلا گیا ۔
عین اسی وقت کمرے میں پولیس گھس آئی ۔ سعدیہ نے دیکھا ساتھ اس کا شوھر بھی تھا ۔ وہ بھاگتا ھوا سیڑھیاں چڑھتا سعدیہ کے پاس پہنچا اور اسے سہارا دے کر نیچے اتار لایا ۔ سعدیہ نے کپکپاتی ھوئی آواز میں کہا۔
یہ شخص میرے بچوں کو نقصان پہنچانا چاھتا تھا صہیب ۔ پولیس کو بتاؤ میں قاتلہ نہیں ھوں ۔ میں نے اپنے بچوں کی جان بچانے کے لیئے اسے مارا ھے ۔ پھر وہ انسپکٹر کی طرف دیکھ کر بولی
" اوپر میرے بچے سو رھے ھیں ، میری جویریہ اور ساشا ۔۔اس کے حواس جواب دے رھے تھے اگلے ھی لمحے وہ اپنے خاوند کے بازوؤں میں جھول گئی ، صہیب نے آھستگی سے اسے صوفے پر لٹا دیا ۔
پولیس انسپکٹر سیاہ پوش کے قریب بیٹھ کر اسکی نبض دیکھ رھا تھا ۔
" یہ مر چکا ہے ۔ " انسپکٹر نے کہا اور اٹھ کر صہیب کے قریب آیا یہ بہت خطرناک دھشت گرد تھا ۔ اور اسکی گرفتاری پر انعام بھی مقرر تھا ۔ آپکی بیوی نے ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا ھے ۔" وہ کچھ دیر رکا ، ایک نظر دھشت گرد کی لاش پر ڈالی اور پھر بولا
ایک بات سمجھ میں نہیں آئی ۔ بقول آپکی بیوی کے اوپر آپکے بچے سو رھے ھیں جن کو بچانے کے لیئے انہوں نے مجرم پر وار کیا مگر حیرت کی بات ھے کہ اس شور شرابے اور ھنگامے نے بھی بچوں کی نیند میں خلل نہیں ڈالا ۔ "
صہیب نے آہ بھر کر کہا
" انسپکٹر ، کچھ عرصہ قبل میرے دونوں بچے سکول سے واپس آتے ہوئے بم دھماکے میں جاں بحق ھو گئے تھے ۔"
اختتام
..............................
تبصرہ جات
Khalid Sohail Malik
خالد سہیل ملک (پشاور)
چلو جی اب بات ہو ہی جائے تھوڑا سا سسپنس ڈلنا چاہتا تھا ۔سسپنس تو کہانی میں آپ نے خوب ڈالا۔دوست محسوس کریں گے کہ اس قسم کے افسانوں کو تیزی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے وجہ وہی سسپنس ہوتی ہے کہ آگے کیا ہوگا۔کہانی کی بنت اچھی ہے ۔جذیات مناسب ،مکمل اور اثرپذیر۔بیانیہ انداز میں لکھی گئ اس کہانی میں خوف کو پہلے رجسٹر کروایا گیا ہے اور پھر قاری تک منتقل کیا گیا ہے ۔سوال اٹھا ذہن میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں بچے کیوں نی جاگے تو جواب آخر میں اگیا۔اور وہی جواب اس کہانی کی پنچ لائن ٹھہرا ۔محاکات نگاری کا خوبصورت نمونہ ۔۔کہانی ذہن کے پردہ پر کسی فلم کی طرح چلتی ہے
افسانہ کبھی کبھی ڈرامہ س ے قریب تر ہوجاتا ہے ۔اویر افسانے میں ڈرامہ کے عناصر در آتے ہیں ۔ایسا اس کہانی کی ٹریٹمنیٹ کی وجہ سے ہوتا ہے ۔مامتا بھی ڈرامہ کے تکنیک میں لکھا گیا ہے ۔اس ٹکنیک میں اکثر کہانی کار ٹھوکر بھی کھاجاتے ہیں ۔وحید بھائی نے یہ ٹکنیک اچھی طرح نبھا لی ۔
۔یہ ہے حرف کا اعجاز بیان سے تصور کا ابھرنا۔شاباش وحید بھائی ۔۔۔۔ داد ۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ دادیں
Yousuf Aziz Zahid
یوسف عزیز ذاھد ( پشاور )
۔کمال کہانی انتخاب کی آپ نے وحید اور خوب ماحول بنایا جو افسانے کی بہت سی کمزوریوں کو چھپا گیا۔سعدیہ اپنے دونوں بچوں کے بم دھماکے میں جان بحق ہونے کے بعد زہنی طور پر "ابنارمل" ہے۔آپ کے افسانے کا اختتام اس بات کی دلیل بھی ہے۔سعدیہ کا شوہر ایک ڈاکٹر ہے اور اپنی بیوی کی اس ذہنی حالت سے با خبر بھی۔۔۔۔۔۔پھر وہ سعدیہ کو اس طرح اکیلا چھوڑ کر رات کی ڈیوٹی کرنے کیسے چلا جاتا ہے؟کچھ ہاتھ آپ نے زبان و بیان کے ساتھ بھی کیا اور ٹائپ کی غلطیاں تو میں اکیلا نہیں کرتا۔۔۔۔یہ سب کہنے کے بعد۔۔۔۔آپ اگر ایڈمن نہ ہوتے تب بھی یہ ہی الفاظ لکھتا کہ بہت اچھی کوشش ہے لیکن ہر وہ کہانی جو ذہن میں ہو کاغذ پر اترتے ہی افسانہ نہیں بن جاتی،اسے کمازکم ایک بار قاری کے زاویہء نظر سے بھی ضرور پڑھ لینا چاہیئے۔اور دوسری بار لکھنے میں سوائے کاغذ کے کچھ ضائع نہیں ہوتا۔آپ کی مصروفیات کا بھی علم ہے۔۔۔۔۔لیکن کہتے ہین ایک لفظ (shit) لکھنے کے لئے برسوں کا عرصہ لگا تھا۔اور آپ درخواست نہ بھی کرتے تب بھی ہم چھریاں چاقو تیز کئے بیٹھے تھے۔۔۔۔داد بہر حال دوں گا اس کاوش کی مگر رفو کا بہت کام نکلا ہے مامتا کی اس چادر میں
Kausar Jamal
ڈاکٹر کوثر جمال( سڈنی)
اوہ مائی گاڈ، یہ الفاظ افسانے کے اختتام پر میرے منہ سے نکلے۔ سارا افسانہ ایک نشست میں پڑھ لیا۔ تجسس اور روانی کی پینگ جھلاتا ہوا افسانہ آخر میں جس موڑ پر پہنچا وہاں سے آگے فکر و احساس کے کئی راستے نکل رہے ہیں۔ میں اس افسانے کے اثر کی گرفت میں ہوں اور پورے اعتماد سے کہہ سکتی ہوں یہ شاندار افسانہ میری یادداشت میں زندہ رہے گا۔ بہت سی داد!
Qurb E Abbas
قرب عباس (لاھور)
افسانہ پڑھ لیا وحید بھائی۔
بہت خوب لکھا ہے۔ افسانہ نے قاری کو کہیں بھی جانے نہیں دیا۔
آپ نے بہت خوبصورتی کے ساتھ مرکزی کرداروں کے تاثرات بیان کیے۔ جن کی وجہ سے افسانے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
کچھ مکالمے مجھے عجیب لگے۔ ڈر کی کیفیت میں اس طرح کی ڈیٹیل میں کوئی نہیں جاتا۔
"میں نے کہا نا کہ میں ایک نرس ھوں ۔ وہ تو بچوں کی پیدائش کے بعد جاب چھوڑ دی ۔ کہ بچوں کی دیکھ بھال ھی ایک کل وقتی جاب ھے ۔
تمھارے کتنے بچے ھیں ؟
دو، 4 سالہ جویریہ اور 6 سالہ احمد ۔ جسے میں پیار سے ساشا کہتی ھوں ۔
ساشا ، یہ تو رشین لفظ ھے شاید ؟ سیاہ پوش بولا ۔ میں تھوڑی بہت رشین جانتا ھوں ۔
ھاں ، ان دنوں میں ایک رشین سٹیٹ میں جاب کرتی تھی جب احمد پیدا ھوا تھا ۔وھاں بعض مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو اسی طرح کے ناموں سے پکارتی ہیں ۔ سعدیہ کے لہجے میں پیار سمٹ آیا
تم اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی ھو ؟
بہت ذیادہ ۔ ہرعورت کی طرح میرا خاوند اور بچے ہی میری کل زندگی کا سرمایہ ھیں ۔ مگر ہرعورت کی طرح نہیں کہنا چاہیئے میں نے کچھ عورتوں کو اپنے خاوند سے بے وفائی کرتے اور بچے چھوڑ کر کیریئر کے پیچھے بھاگتے دیکھا ھے ۔"
اس کے بعد پھر دوسری بات یہ ہے کہ اگر عورت ایک Illusionary کے ساتھ رہ رہی تھی (جو میں سمجھا ہوں) تو اس کردار کی نفسیات میں آپکو یہ پہلو دکھا دینا چاہیئے تھا۔ اسکی باتیں۔ اس کے دیکھنے سے۔ بول چال سے۔ ہمیں کچھ ان unusual لگنا چاہیئے تھا۔ کیوں کہ وہ نارمل کیفیت میں نہیں تھی۔
امید ہے کہ اگر کچھ غلط کہہ رہا ہوں تو اس کی تصحیح کی جائے گی۔
خوبصورت افسانے کے لیے مبارک باد
Eqbal Hasan Azad
ڈاکٹر اقبال حسن آزاد(مونگیر)
اس افسانے پر رائے دینے سے پہلے قارئین کو اسے کم از کم دو تین بار پڑھنا چاہیئے کیونکہ یہ افسانہ پہلی قرات میں پوری طرح نہیں کھل پائے گا۔سب سے پہلے تو آپ اس کے موضوع کو لیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردی آج ساری دنیا کے لئے سب سے بڑا مسئلہ بن گئی ہے اور مستقبل قریب میں اس کے خاتمے کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں کیونکہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ایک قلم کار کا پہلا فرض یہی ہے کہ وہ دنیا سے برائیوں کو ختم کرنے کے لئے اپنے قلم کو تلوار بنا لے۔اور اس کا سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ وہ برائیوں کی ایسی مکروہ تصویر پیش کرے کہ سماج کو ان برائیوں سے نفرت محسوس ہونے لگے۔وحید قمر نے اس افسانے میں اپنے قلم کا پورا پورا حق ادا کر دیا ہے۔اب آیئے اسلوب کی جانب۔ اسلوب مختصر افسانے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔موضوع اور اسلوب کو آپس میں اس طرح پیوست کر دینا چاہیئے کہ دونوں کو الگ کرنا ممکن نہ رہے یعنی افسانہ پڑھنے کے بعد قاری کو ایسا لگے کہ اس افسانے کے لئے اس سے بہتر اسلوب ہو ہی نہیں سکتا تھا۔یہی بات اس افسانے کے اسلوب کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔اس کے بعد کردار نگاری دیکھئے۔ہر ہر کردار کہانی کے فریم میں بالکل فٹ بیٹھا ہے۔جتنے کرداروں کی ضرورت تھی بس اتنے ہی لائے گئے ہیں۔کردار اور مکالمے لازم و ملزوم ہیں۔جیسے کردار ویسے مکالمے۔افسانہ نگار نے یہاں بھی اپنی فنکاری دکھائی ہے۔اور آخر میں کلائمکس جہاں افسانہ آپ کے سامنے کھلتا چلا جاتا ہے۔ اگر انجام سے پہلے انجام معلوم ہو جائے تو یہ افسانے کی خامی قرار دی جائے گی لیکن اس افسانے میں جب تک آپ آخری جملہ نہیں پڑھ لیتے تب تک انجام آپ کے سامنے نہیں آتا۔یہ اس افسانے کی بڑی خوبی ہے۔اب رہی بات سسپنس اور دلچسپی کی تو انہیں بونس سمجھنا چاہیئے۔بور افسانے کون پڑھنا پسند کرتا ہے۔بہت سی داد وحید قمر کے لئے۔
Naeem Baig
نعیم بیگ (لاھور)
بہت عمدہ وحید۔ شاندار۔۔۔۔۔۔
ویسے تو وحید قمر کی شہرت (کم از کم جتنی میں جانتا ھوں ) رومانوی افسانوں کے لیئے مخصوص تھی۔ اور آج کچھ ویسا ھی افسانہ مجھے اپنے تصور میں اسکے عنوان کو دیکھ کر ذھن میں آیا۔
لیکن وحید نے ایک نیا تجربہ کیا ۔ افسانہ کوایک نئے رنگ اور اسلوب سے پیش کیا۔ افسانے کو ڈرامہ تکنیک کے استعمال سے منظر نگاری سے آگے بڑھایا اور سچ یہ ھے کہ انتہائی مہارت سے قاری کے ذھن میں خوف کی لہر لاتے ھوئے تجسس کو برقرار رکھا اور اس خیال کو ’’مونولوگز‘‘ کے ذریعے قاری کو وھی رنگ دکھایا جو مصنف چاھتا ھے اور وہ ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ھوا جو اس طرح کی کہانیوں میں ھوتا ھے۔
یہی وہ کامیاب کوشش ھے جسے اس نے انجام میں ایک افسانوی رنگ دیتے ھوئے کہانی کو ایسا ٹوئسٹ دیا کہ قاری دیکھتا رہ گیا۔ اور اس سب میں شاندار بات یہ ھے کہ تاثر وحدت قائم رھا۔
اس تکنیک میں صرف ایک عنصر اور ھوتا ھے جو وحید نے استعمال نہیں کیا لیکن ڈرامہ لکھنے والے ادیب جانتے ھیں کہ ’’فلش بیک‘‘ کی عام طور پر یہاں ضرورت ھوتی ھے لیکن چونکہ اس افسانے میں مرکزی خیال ھی سیدھا ھے اور اپنے ’’فلش بیک ‘‘ میں وہ انجام کو پہنچتا ھے۔ لہذا میرا خیال ھے کہ وحید نے بالکل ٹھیک ٹریٹمنٹ کیا۔
اس بہترین تجربے کو میں شاندار اور کامیاب افسانہ کہوںگا۔ لیکن وحید توقع رکھیں تنقید ھو گی۔
پسِ تحریر۔
یہی تجربہ میں نے ’’ حلف‘‘ میں کیا تھا اور اس میں فلش بیک عنصر بھی شامل تھا۔۔۔۔۔
اس قسم کے افسانے میرے نقطہ نظر سے اب وقت کی ضرورت ھیں۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے یہ جاسوسی کہانیاں نہیں ھیں یہ افسانہ کا نیا جنم ھو رھا ھے۔۔۔۔۔
Iqbal Hasan
اقبال حسن( پاکستان)
میں نے یہ افسانہ دو دفعہ پڑھا ہے اور یہ تبصرہ کرکے تیسری مرتبہ پھر پڑھوں گا ۔ یہ درست ہے کہ یہ ایک بہت ہی شاندار ٹی وی ڈرامے کی کہانی ہے اور یہ تبصرہ ختم کرتے ہی میں کسی کو لاھور میں فون کروں گا اور یہ آئیڈیا ان کے سامنے بھی رکھوں گا ۔ اب افسانے پر کچھ بات ہو جائے ۔ آپ تو رومانی کہانیاں لکھتے ہیں تو پھر یہ ،،کرخت،، موضوع کیسے؟ لیکن نہیں میرے قریں یہ تو بہت بڑی محبت کی کہانی ہے ۔ ایسی محبت کی کہانی جس کے بارے میں قدرت اللہ شہاب نے جب اپنا افسانہ لکھا اور اختر شیرانی کو دکھایا تو وہ دو تین دن اس جملے کے سحر سے ہی نہیں نکل سکے تھے اور وہ جملہ یہ تھا کہ ،،جب ۔۔۔۔۔ کو مرے تیسرا دن تھا تو مجھے اُ س سے محبت ہوئی تھی،،۔ کیا شاندار محبت دکھائی ہے آپ نے؟ قاری کو افسانے کے اختتام پر ایک جھٹکا لگتا ہے ۔ اور جھٹکا مجھے بھی لگا ۔ مبارکباد وصول کریں اور اسی طرح لکھتے رہیں ۔ ھماری پوری کوشش ہوگی کہ اس افسانے پر ایک ٹیلی پلے لکھا جائے بلکہ مجھے انتہائی خوشی ہوگی کہ اگر آپ اسے خود لکھیں ۔ اس کے لئے آپ مجھ سے ان بکس میں رابطہ پر رہ سکتے ہیں ۔ ایک بار پھر ایک خوبصورت تحریر پر دلی داد ۔
Akhtar Azad
ڈاکٹر اختر آزاد ( نئی دہلی)
وحید قمر نے جس طرح سے کہانی کا تانا بانا بُنا وہ قابل تعریف ہے ۔بغیرکلائمکس تک پہنچے شاید ہی کوئی اس انجام کی امید کر سکتا ہے ۔ یہ ان کے فن کا کمال ہے ۔ویسے کہانی پڑھتے وقت وہاں جہاں سعدیہ سیاہ نقاب پوش سے کہتی ہے کہ اسے اوپر جانے دیا جائے کیوں کہ شور سے ان کے بچےجاگ اُٹھیں ہو ں گے۔اور ڈر رہے ہوں گے اس وقت پستول دکھا کر نقاب پوش نے کہا تھا کہ اگر اٹھے ہوتے تو نیچے ضرور آتے۔ اور اس کے جواب میں سر ہلا کر سعدیہ نے جو کہا تھا "۔ ہاں ۔یوں بھی میرے بچے کافی گہری نیند سوتے ھیں ۔"۔۔۔۔۔دراصل یہ وہ مقام ہے جہاں افسانہ نگار اپنی طرف سے ایک قلو ضرور دیتا ہے ۔ اور پڑھنے والا" کافی گہری نیند سوتے ہیں" والی بات پر تھوڑی دیر کے لئے رک بھی سکتا ہے کہ اگر کسی ایک کی بات ہو تو کسی وجہ سے ا سطرح سونے کی بات ہو سکتی ہے ۔ لیکن دو دو بچے کی گہری نیند سونے کی ایسی عادت؟۔۔۔۔۔۔ دہشت گردی میں اپنے دونوں بچوں کوکھونے کے بعدایک عورت کی نفسیات کیسی ہو سکتی ہے اس کی خوبصورت عکاسی یہ کہانی کرتی ہے۔جب تک اس کے شوہر کے ذریعہ وہ آخری جملہ ادا نہیں ہوتا۔ بالکل ایک عام سی کہانی ہے ۔ لیکن جیسے ہی وہ جملہ کہانی کے وجود کا حصہ بنتا ہے ،ایک عام سی کہانی کو خاص بن جاتی ہے۔دہشت گردی کے پسِ منظر میں عورت کی اس نفسیات کو جس میں بچہ کے ہونے اور نہیں ہونے کی کیفیت مدغم ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، اسے محور بناکرجس طرح سے وحید قمر نےپھل کاٹنے والی چھری کی نوک سےسیاہ پوش کے سینے میں سرخ لہو سےممتا کی ایک نئی کہانی لکھی ہے ۔ وہ ہنر کم کم افسانہ نگاروں کے یہاں دیکھا گیا ہے۔بہت خوب میرے بھائی۔
Afshan Malik
ڈاکٹر افشاں ملک( علی گڑھ)
آج میرا نیٹ بہت سلو چل رہا ہے ابھی کچھ سپیڈ بڑھی تو دیکھا وحید کا افسانہ پوسٹ ہو چکا ہے....! اور اب میں نے پڑھ بھی لیا ......افسانہ ختم ہوتے ہوتے دل کی دھڑکنیں مضطرب کر گیا ......کیا لاجواب افسانہ ہے .......میں تو وحید قمر کو ایک شاعرانہ نثر لکھنے والا رومانی ادیب سمجھے بیٹھی تھی لیکن "ثالث " میں ان کا افسانہ " پکڑ " جب میں نے پڑھا تو مجھے اپنا خیال بدلنے کے لئے مجبور ہونا پڑا ......اور اب یہ افسانہ "مامتا" تو مجھے حیران ہی کر گیا اور منہ سے بیساختہ واااااہ نکل گیا ......واقعہ ، اسلوب، زبان ،کردار نگاری ، منظر نگاری سب لاجواب .....تجسس نے انجام تک پہنچنے کے لئے بے چین کیا اور انجام نے تجسس بڑھا دیا ......! اور جو افسانہ قارئین پر سوچ کے در وا کر دے اور منفی انداز میں اداس نہ کرے وہ ایک کامیاب اور بہترین افسانہ مانا جاتا ہے اور میرے خیال سے یہ ایک بہترین افسانہ ہے ......! افسانے میں اختتام تک مرکزی کردار "سعدیہ " کے پاگل یا نیم پاگل ہونے کا کوئی اشارہ بظاہر نہیں ہے لیکن سعدیہ کا رویہ مکمل نارمل عورت کا بھی نہیں ہے ...... باورچی خانے میں جتنے وقت میں اس نے حفاظتی اقدام کیے ہیں اس سے بہت کم وقت میں ایک فون کال پولیس کو کر سکتی تھی .....یا کسی دہشت گرد کے گھر میں گھس آنے پر وہ اتنی خوف زدہ اور بیچین نہیں ہے جتنی اس کے چھت پر جانے کو لیکر ہے ..... اختر آزاد صاھب نے بھی بہت وضاحت سے کچھ اشارے کیے ہیں ......افسانے میں یہ تمام اشارے موجود تو ہیں لیکن اس وقت تک قاری کی رسائی مرکزی کردار کی ذہنی حالت تک نہیں ہونے دیتے جب تک اس کا ڈاکٹر شوہر یہ نہیں بتاتا ہے کہ اس کے دونوں بچے ایک بم دھماکے میں ختم ہو چکے ہیں ....! انجام سے قاری کو چونکا کر وحید قمر بہت سی داد سمیٹ کر لے گئے جو یقینن اں کا حق بھی بنتی ہے .....بہت سی داد ویرا کے لئے ......!
یوں تو اس افسانے پر میں اپنی رائے دے چکی ہوں لیکن اس کے سحر سے نکلنا میرے لئے مشکل ہو رہا ہے اس لئے سوچا کہ ایک بار اور اپنی کیفیت بیان کروں جو افسانہ پڑھ کر ہوئی یعنی کچھ اور بات کی جائے افسانے کی سحر انگیزی پر ............یہ حقیقت ہے کہ ہر قاری اپنی پسند ناپسند کا اظہار کرنے کے لئے آزاد ہے وہ اپنی فہم سے کسی تحریرکو جانچتا پرکھتا ہے اور اپنی رائے دیتا ہے سو مجھے بھی لگا جو دل میں ہے کہہ ہی دوں ......بات کچھ یوں ہے کہ کل جب میں نے وحید قمرکا افسانہ مامتا پڑھا تو اختتامی جملہ مجھے ساکت کر گیا بہت دیر تک میں سوچتی رہی کہ یہ انجام تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا اور اسی وقت مجھے 'احمد ندیم قاسمی ' کا افسانہ " رئیس خانہ " یاد آیا حالانکہ اس افسانے کا تھیم یہ نہیں تھا لیکن انجام ایسے ہی ساکت کر گیا تھا مجھے اور میں بہت دیر تک یوں ہی بیٹھی رہ گئی تھی اس بات کو ایک دہائی سے زیادہ وقت گزر گیا اس بیچ بہت افسانے پڑھے .....خوش کرنے والے ،بیچین کرنے والے ، سوچنے پر مجبور کرنے والے ،ہنسانے گدگدانے والے لیکن کل وحید قمر کا افسانہ مجھے اسی کیفیت میں چھوڑ گیا جو کیفیت احمد ندیم قاسمی کا افسانہ پڑھ کر ہوئی تھی ......! (یہاں خدانخواسطہ میرا مقصدوحید کے افسانے کو احمد ندیم قاسمی کے افسانے کے مقابلے میں رکھنا نہیں ہے )
پیغام آفاقی( نئی دہلی)
افسانہ اچھا ہے - لیکن اختتام میں افسانے کے بہائو میں ایک جھٹکا لگتا ہے - کہانی کو کسی ایک ڈائلاگ سے اس طرح ختم کرنا جس سے کہانی کو شعوری طور پر نپٹانے کا احساس ہو ایک خامی سی لگتی ہے - افسانے کی بنیادی حقیقت کو کہانی کی رو سے منکشف ہونا چاہئے تھا مثلا جب انسپکٹر جب بچوں کو نہیں پاتا تو شوہر وجہ بتاتا- بلا وجہ انسپکٹر کا بچوں کے نہ جاگنے پر سوال اٹھانا بے ربط سا لگتا ہے - مزید یہ کہ شوہر کے جملے سے جب یہ بات سامنے آتی ہے کہ بچے دحشت گردی سے ہی مرے تھے تو ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک دہشت گرد کو اپنے گھر میں پاکر عورت نے کیسا محسوس کیا - اگر عورت کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ اس کے بچے مرچکے ہیں تو یہ اپنے آپ میں ایک اہم پہلو ہے - اتنی بہت ساری باتوں کو ایک جملے کے ڈائیلاگ میں نپٹانا مجھے افسانے کے اڑتے ہوئے جہاز کے 'پائلٹ کی غیر پیشہ ورانہ' حرکت کی وجہ سے کریش کرنے جیسا لگا - اس آخری جملے سے پہلے تک پورے افسانے کا بیان انتہائی شاندار ہے -
فرخ ندیم(اسلام آباد)
وحید بھائی کا نہایت دلچسپ افسانہ پڑھ لیا ،
یہ افسانہ دوسرے افسانوں سے اتنا مختلف ہے جتنا ایدگر ایلن پو اور اس کا آرٹ دوسرے افسانہ نگاروں سے مختلف تھا۔
پہلی لائن سے آخری تک دلچسپی برقرار رہتی ہے، جو افسانے کی کامیابی کی دلیل ہے،،، وحید نے ایک مختلف تجربہ کیا،،وحید کے افسانے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں،،خاص طور پہ اس لڑکی کے شعور اور لا شعور میں اترنے کی کوشش جاری ہے،،کافی کمپلیکس کردار ہے یہ,
شیکسپئر کے مشہور ڈرامے ہیملٹ میں ہیملٹ کے کردار ولا معاملہ لگتا ہے،،،یہ نہین پکرائی دے رہا کہ متن کے مطابق وہ کب شعوری حالت میں ہے اور کب نہیں ہے،
وحید قمر کے افسانے میں سعدیہ کے کردار کا تحلیلِ نفسی کی رو سے مطالعہ کیا جائے تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کردار کے دو روپ ہیں، یا وہ ایک ہی وقت میں دو زندگیوں میں split ہے، traumatic experience سے پہلے اور اس کے بعد کی زندگی۔ شاک یا صدمے کی وجہ سے اس کی یاد داشت پہ اثر پڑتا ہے، یہ amnesia تھوڑے وقت کے لئے بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ وقت کے لئے بھی۔ اس افسانے میں متنی وقت تقریباً 30 سے 40 منٹ لگتا ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو اس لڑکی کا صدمہ اتنا گہرا ہے کہ وہ اپنے ماضی سے باہر نہیں آ سکی۔ یہاں سے ہم اس طرح بھی کہ سکتے ہین کہ وہ ممتا کی زندگی سے باہر نہیں نکل سکی۔ اس کی زندگی میں شوہر کی اتنی ہی جگہ ہے جتنی صہیب کی متن میں ہے۔ سعدیہ نے جو کچھ بھی کیا "ممتا" کے لئے کیا۔ جو احباب نفسیات میں صدمے کے اثرات سے واقف ہیں وہ بہتر انداز میں بتا سکیں گے کہ trauma and normality کی کشمکش میں ازہان یا لسان کس طرح متاثر ہوتے ہیں اور وہ عام یا خاص حالت میں کس طرح کا رویہ اپناتے ہیں۔ وحید نے اس کردار کو سوچ سمجھ کے ہی تراشا ہو گا۔ جو نتائج میں ابھی تک اخذ کر سکا ہوں ان کے مطابق سعدیہ کا کردار میں بیانوی وضاحت درکار ہے۔ اسے تھوڑا سا ابہام کے شکنجے سے باہر لانا پڑے گا تا کہ
Justify ہو سکے، شکریہ
قمر سبز واری(دبئی)
یہ افسانہ وحید قمر کے تخلیقی سفر کا ایک موڑ ثابت ہو گا۔ خالص رومانوی تحریروں سے نسبتا حقیقت نگاری کی طرف ایک واضع اور اہم پیش رفت ۔ اگر تقابل برائے فکر انگیزی و فہم رسائی کیا جائے تو وحید منٹو کی طرح کم سے کم کرداروں ، ،اختصار ، موضوع کے فقط ایک رخ کے احاطے اور شاک ٹریٹمنت کے اجزاء سے اپنے اسلوب کو ترتیب دے رہے ہیں۔ کہانی کی بنت اچھی رہی، کرداروں کی تحلیل نفسی کی نسبت کہانی کے تجسس اور ڈرامایت کو افسانے میں مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ جہاں تک مرکزی خیال کا تعلق ہے تو وہ بہت واضع ، جاندار اور اہم ہے کہ ، عورت بچوں کو جنم دیتی ہے تو قدرت اُس کے باطن میں مامتا کو بھی تخلیق کرتی ہے، بچے مر سکتے ہیں لیکن مامتا ایک بار تخلیق ہو کر کبھی نہیں مرتی۔۔۔۔۔۔عورت سے بچے چھینے جا سکتے ہیں مامتا نہیں۔۔۔۔ بم دھماکے انسانوں کو مار سکتے ہیں، جذبات کو ، اقدار کو اور محبت کو نہین۔۔۔۔۔۔۔رہ گیا پلاٹ کے ارتباط اور کرداروں کی نفسیات کا معاملہ تو سعدیہ کی مامتا بچوں کی موت کو قبول کرنے سے منکر ہے اور جب انسان سو رہا ہوتا ہے تو اُس کا شعور نہیں بلکہ لا شعور حاوی ہوتا ہے لٰہذا اُس کا حالت بیداری میں سویا ہوا پاگل پن نیند کی حالت میں جاگا ہوا ہوتا ہے ، جب وہ گولیوں کی آواز سنتی ہے تو اس سے پہلے اُس کی مامتا جاگتی ہے یہاں پر لکھاری افسانے کا تجسس بڑھانے یا اختتامی جملہ چھپانے کے لئے سعدیہ کو اوپر والے کمرے کے دروازے کے آگے الماری گھسینٹتا دکھانے کی بجائے کچن میں لے جاتا ہے ، سعدیہ کو جو پسینے آتے ہیں اُس کی سانس دھوکنی کی طرح چلتی ہے وہ کچن کی کھڑکی اور اوپر والے کمرے کے دروازے کے بار بار کے فلیش کے ساتھ منسلک ہونا چاہئے تھا نہ کہ سعدیہ کے اپنی ذات اور اپنے جسم کے خوف سے منسلک، دوسرے سعدیہ اگر لاشعوری ابنارملٹی کے دور میں تھی تو جب ایک رات پہلے ٹی وی پر انہیں دہشت گردوں کے بارے میں اطلاع سن چکی تھی جنہوں نے اُس کے بچوں کی جان لی تھی تو پھر اُس کا نیچے کے پورشن میں آرام کی نیند سونا بر محل نظر نہیں آتا ۔ بحر حال بحیثیت مجموعی یہ آپ کے کامیاب افسانوں میں سے ایک ہے۔
سبین علی (سعودی عرب)
وحید قمر صاحب آپ کے قلم سے ایک منفرد افسانہ جو بہت ہی عمدگی اور نفاست سے لکھا گیا ہے . کہانی میں سب سے اہم عنصر تجسس ہے جو قاری کو سانس روکے پورا افسانہ پڑھنے پر مجبور کرتا ہے . اور پھر ماں کی نفسیات کا بہترین تجزیہ . کہانی کے آغاز میں ہی کچھ اندازہ ہو جاتا ہے کہ ماں کی ذہنی حالات مضبوط نہیں .اور جہاں کچھ احباب نے یہ عتراض اٹھایا کہ اس حالت میں وہ اتنی گہری نیند کیوں سو رہی تھی تو ظاہر ہے اتنے گہرے صدمے کے بعد وہ مسکن دواؤں کے زیر اثر بھی ہو سکتی ہے .
سعدیہ کی دہشت گرد کو روکنے کی جدوجہد اور پھر اس کے قتل کے بعد اس کے احساسات بہت قدرتی لگے ،کوئی بھو انسان کسی دوسرے انسان جی جان لینا نہیں چاہتا ،ایک اور بہت اہم پہلو جس پر اکثر سطحوں نے گفتگو نہیں کی وہ یہ ہے سعدیہ کی ممتا جہاں بے قرار تھی مجروح تھی وہیں ایک اہم نکتہ یہ کہ کوئی بھی خوفزدہ انسان انتہائی حالات میں کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا لیتا ہے جیسے سعدیہ جیسی نرس جو زخموں پر مرہم رکھتی ہے ،چھری اٹھا لیتی ہے .
آپ کے جتنے بھی افسانے پڑھے یہ ان سب میں منفرد اور بہت محنت سے لکھا گیا ہے جس میں انسانی نفسیات کا بخوبی احاطہ کیا گیا ہے .آپ کو اس افسانے پر بہت سی داد
اور ہاں آپ نے کہا تھا کہ آپ کے افسانوں پر تنقید کیا کروں .مگر اب کیا کروں کہ کوئی کمزور پہلو نظر نہیں آیا ؟ روس میں رہنا یا روسی نام میرے خیال میں کوئی قابل اعتراض پہلو نہیں . ایک ماں ہمیشہ اپنے بچوں کی ہی بات کرتی ہے اور انہی کے گن گاتی رہتی ہے دہشت گرد کے ساتھ ان سب باتوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ماں اپنے بچوں کو کھونے کے بعد مامتا کے کس کرب سے گزر رہی ہو گی
محمد ظہیر بدر (لاھور)
Mohammed Zaheer Badar
چند جملے..... آغاز یون ! اس نے ہاتھ...... چار بجے تھے. و٥ کیسا شور تھا کہ مسکن دوا کھا کر گہری نیند سوتے ھوے و٥ ھربڑا کر جاگ اٹھی تھی.ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ باہر قریب ہی سے تڑ تڑ گولیاں چلنے کی آواز اس کے سوال کا جواب بن کر اس کی سماعتوں سے ٹکرا گیی.اس کے رگ وپے مین ایک سراسیمگی اور خوف کی لہر دوڑ گیی.اس نے کل شام ہی..بیرونی دیوار کی طرف کھٹکا سنای دیا!!.کہیں کچن کا درواز٥ کھلا نہ ھو. یہ خیال آتے ہی و٥ کچن کے دروازے کی طرف لپکی مگر دروازے کا ھینڈل گھومتا دیکھ کر ھیبت اور وہیں کھڑی ر٥ گیی.چند ثانیوں میں اس کا خیا ل درست ثابت ھو چکا تھا.سیا٥ پوش ھاتھ میں پستول لییے اس کے سر پر کھڑا تھا. و٥ چیخی مگر اس کی آواز شاید کہین حلق مین پھنس گیی .و٥ بالکل بے جان ساکت کھڑی تھی.خبردار..سیا٥ پوش نے گونجدار لہجے میں کہا.پستول کا رخ..............ماھرانہ انداز میں ڈریسنگ کی ھے
بہت قابل نرس رہی ھو گی.اس نے معترفانہ لہجے میں کہا. سعدیہ کوی جواب نہ دے پای.نوکری چھوڑ کیوں دی؟. بچوں کی وجہ سے. ابکے بار اس نے بادل نخواستہ جواب دی. عین اس وقت اطلاعی گھنٹی بجی...........بچوں کی نیند میں خلل نہیں ڈالا.
افسانے کے آخری پیراگراف میں خاوند کی وضاحت میں اس اعتراض کو تحلیل کیا جاسکتا ھے. بعض تفاصیل منظرنامہ ( منظر نگاری الگ خاصہ ھے )کے ذیل میں آتی ہیں طوالت سے پیدا ھونے والے تجسس کا غیر منطق اور غیر مدلل خاتمہ کاری کے ذہین میں کیی سوالوں کو جنم دیتا ھے. قمر سبزوای کا سوال بھی عین درست ھے.جملہ معروضات کے ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی کہنا ھے کہ افسانہ پڑھتے ھوے قاری کا گہری دلچسپی لینا وحید کی تحریر کا خاص وصف ھے.مگر افسانہ صرف پڑھنے کے لیے نہیں ما بعد تاثر کے لیے لکھا جاتا ھے.جو قاری پر گہرے اثرات مرتب کرتا ھے.
Nasim Syed
نسیم سید ( ٹورنٹو)
وحید اس لمبی غیر حا ضری کا سبب جا نتے مگر افسانے کی ایک جھلک دیکھی تھی تو بھلا تفصیلی ملا قات کو شو ق کیسے نہ ہوتا ۔ میں تمہارا افسا نہ پڑھ کے دنگ ہوں ۔۔کیوں ؟ بتا تی ہوں دراصل میں نے یہان کے ایک نفساتی ہوسپٹل کنگسٹن سا ئیکیا ٹرک ہو سپٹل کے ساتھ دس سا ل کام کیا ہے میرا ان مریضون سے مستقل رابطہ رہا ہے ۔ ایک تمہارے افسانے جیسی ماں کیتھی کا بالکل یہی حال تھا وہ اپنی بچی کی حا ثا تی مو ت کے سبب سپلٹ پرسنلٹی کا شکار ہو گئی ۔ نو کری پر جا تی معمول کی زندگی گزارتی مگر کسی بچے کی حادثا تی مو ت کی خبر اسکو ایک دوسری ہی دنیا میں لے جا تی اور وہ حا دثہ اسکو اپنی بچی کا حادثہ لگتا ۔۔ میں تمہاری کہانی میں کئی سوال کھڑے کر سکتی تھی اگر میں نے خود نہ دیکھا ہوتا یہ سب کچھ ۔ کس غضب کا مشا ہدہ ہے تمہارا ۔۔ ممکن ہے اتنے کا منٹ میں وہ سوال اٹھا یا گیا ہو جو میں بھی اٹھا تی اگر چشم دید گواہ نہ ہو تی ایسی ہی برباد ممتا کی ۔۔ ایک تو یہ قیامت کا مشا ہدہ پھر تجسس کو قدم قدم پر قائم رکھنا ۔۔ تحریر میں ایسی سببک روانی درد مند دل جو پا کستان میں نہیں ہے ہھر بھی سب کچھ خود پر بیتتا محسو س کررہا ہے ۔۔کیا کہنے وحید ۔ بہت داد کے سا تھ ایک بات پھر بھی اسی ذاتی تجربہ کی بنا پر کہونگی کہ ما ں کو دہشت گر د کی آ مد کے ساتھ ہی اپنے بچوں کی فکر میں مبتلا ہو جا نا چا ہئے تھا کہ ہی لمحہ ہوتا ہے جب شخصیت حقیقی دنیا سے کسی اپنے اندرون کی دنیا میں چلی جا تی ہے ایک خبر ایک بات ایک لفظ اسکو دوسری شخصیت میں تبدیل کر دیتا ہے ۔۔ اس کے لئے اسکی اندرونی سو چ کو بیان کرنا کچھ جملوں میں ضروری تھا
Aamer Ibrahim
عامر ابراھیم(پاکستان)
وحید قمر صاحب کا یہ افسانہ افسانہ نگار کے اپنے اندر کے سانچوں کو توڑ کے آگے بڑھنے کا طاقتور اشارہ ہے ۔ ۔ ۔ آپ نے فکشن کی ٹریٹمنٹ سے ایک نئی صورتحال کو کامیابی سے ایک ہی فقرے کی جست میں اسے معاشرتی المیے کی نشاندہی میں بدل دیا ہے۔ البتہ دہشت گرد کی تصویر کشی کرتے ہوئے آپ کی جرائم پیشہ دنیا سے آگاہی میں مزید گہرائی کا مطالبہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس افسانے کی اگر ایک سطر کو پڑھ لیا جائے تو افسانہ مکمل کئے بغیر چھوڑنا محال ہے۔ ڈرامائی صورتحال میں سچ تو یہ ہے قاری سانس روکے مکمل کئے بنا اس افسانے کو چھوڑ نہیں سکتا ۔ ۔ ۔ ۔ اس خوبصورت کاوش پہ بہت سی داد کہ افسانہ فورم کے ایڈمن سے کم از کم ایسے ہی شاندار افسانے کی توقع کی جانی چاہیے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈائن
افسانہ
پیغام آفاقی
جی، میں نے اپنے ڈاکٹری کے پیشے میں بہت سے لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا ہے۔ جی۔ ان میں چند اموات سے میں کافی متاثر بھی ہوا ہوں۔ جی۔ ان میں سب سے زیادہ ایک ایسی موت سے ہوا کہ وہ شخص تب تک نہیں مرا جبتک بیمار تھا لیکن جیسے ہی میں اس کے اندر کے زہر کو نکال لینے میں کامیاب ہوا ویسے ہی وہ ایک پرسکون حالت میں جاکر سرد ہوگیا۔ یہ کیسے؟ میڈیکل کے طلبا حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔ دھیان سے سنو کہ میں کہ کیا رہا ہوں۔ کچھ واقعات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جب وہ ماضی میں گم ہوجاتے ہیں تو ان کے بطن سے کہانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ کہانیاں اپنے صدموں، اپنی عجیب عجیب سچأیوں اور انکشافات کی وجہ سے انسان کے علم اور اس کے فطری ارتقا میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔اور جب تک وہ اپنے کو منوا نہیں لیتیں کہ وہ سچأیوں کا حصہ ہیں تب تک وہ اپنے دم پر ہمارے اجتمائی شعور میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی اس کے اندر اٹکی ہو ئی تھی۔کہانیاں دبانے سے ختم نہیں ہوجاتیں۔خبریں دب جاتی ہیں۔ کہانیاں نہیں۔ اسی ئے یہ اخباری رپورٹ ٹا ئپ کہانی دبی نہیں۔ یہ یہاں،ڈاکٹر نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا، کانٹے کی طرح موجود رہتی ہیں۔ اس أے بہتر یہ ہے کہ ان کو کھلے عام سنا جأے۔ وہ تہذیب یعنی دنیا کی سب سے بڑی عدالت کی وکیل ہوتی ہیں۔ اور انہیں کی قوکالت سے دنیا کے کئی بڑے مہذب ملکوں نے ماضی کی کئی کہانیوں پر افسوس اور شرمندگی ظاہر کرتے ہو ئے کھلے عام پوری دنیا کے سامنے معافی مانگی ہے۔ ڈاکٹر تلخی سے مسکرایا۔ اس مریض کی کہانی بھی ایسی ہی ایک کہانی تھی۔ اس مریض نے مجھے راتوں رات ایک ڈاکٹر سے فلسفی بنا دیا۔ مجھے لکھنا معلوم ہوتا تو میں کہانی کار ہوجاتا۔ اب تم لوگوں نے پوچھا ہے تو سنو کہ میں بھی سنانا چاہتا ہوں۔ میں یہ کہانی تم کو اسی ئے سنارہا ہوں کہ یہ کہانی منظر عام پر آئے اور اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ جو قومیں، حکومتیں اور اشخاص اس پر بھی تیار نہ ہوں وہ انسانی نسل کے چہرے پر بد تہذیبی کا بہترین نمونہ ہیں۔ میں نے اس کا علاج کیا تھا۔ میں دوا اور انجکشنوں سے تو اس کو ٹھیک نہیں کرپایا تھا لیکن جیسے ہی میں نے اس کی زہر بھری کہانی چوس کر پی لی وہ ٹھیک ہوگیا تھا اور اسے پہلی بار بغیر کسی انجکشن کے گہری نیند آئی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ مرگیا اور تب سے اب تک میری نیند ڈسٹرب رہتی ہے۔ تم اپنے تخیل میں اس کہانی کا تصور کرو۔ یہ کولمبو سے شمال کی جانب واقع ایک پاگل خانے کا منظر ہے۔ یہ کہ یہ منظر کتنی وسعتوں تک پھیلا ہوا ہے یہ کہنا میرے ئے مشکل ہے۔لیکن اس منظر میں رفتہ رفتہ کئی ملک شامل ہو گئے ہیں۔ میں نے اس مریض پر ہر ممکن دوا استعمال کرچکا تھا لیکن کسی دوا نے کام نہیں کیا۔ البتہ دوائیں دیتے دیتے میں اپنی گفتگو اور ہمدردی کی وجہ سے اس عرصہ میں اس مریض کے دل کے قریب ضرور ہوگیا تھا۔ اور آخر میں اچانک یہی بات مریض پر اثر کر گئی۔،وہ لوگ فوج کے تھے، پولیس کے تھے یا قوم پرستوں کا کا کوئی دستہ تھا؟ میں نے اس سے پوچھا۔ مریض کی گفتگو سے مجھے اتنا اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ مریض خاموشی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں جانتا ہوں کی تم کو کوئی بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے۔ میں نے تم کو ہر طرح کی دوا دے کر دیکھ لیا۔ لیکن تم ٹھیک نہیں ہورہے ہو۔ میں پریشان ہورہا ہوں۔ اب میرا اپنے آپ پر سے، اپنی صلاحیتوں پر سے بھروسہ اٹھ رہا ہے۔ اور اس کی وجہ تم ہو۔ تم مجھے بتاؤ کہ آخر ہوا کیا تھا۔ میں صرف تم کو ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔ میں ڈاکٹر ہوں۔ اور صرف ڈاکٹر ہوں۔ میں انٹیلیجنس کا کوئی آدمی نہیں ہوں۔ میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گا۔ اور پھر وہ ادھیڑ عمر کبڑے جیسا آدمی اچانک اتنی سلجھی ہوئی باتیں کرنے لگا کہ مجھے حیرت ہوئی۔ مریض اب اس منظر کو بیان کر رہا تھا جس کی پرچھائیں میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔ اس نے اس علاقے کا نام بتایا۔ چلو آگے کی باتیں بتاؤ۔ جگہ تو کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ میرا گھر وہیں ایک چوڑی سڑک سے منسلک گھنی آبادیوں کے بیچ تھا۔ اس دن میں ایک دوسرے شہر اپنی دکان کے أے کچھ مال خریدنے گیا ہوا تھا۔ کچھ دنوں سے میں بیمار بھی تھا اور موسم خراب ہونے کی وجہ سے مری طبیعت بہت ملول سی ہورہی تھی پھر بھی مجبورا جانا پڑا تھا۔ دن دو پہر سے کچھ پہلے اچانک تین چار بکتر بند گاڑیاں اور ایک ٹرک آکر میرے گھر کے سامنے رکے۔ گاڑیوں کے رکنے کا منظر دیکھتے ہی چاروں طرف سنسنی پھیل گئی، ایک سناٹا سا چھاگیا اور فضا میں موت کی آواز سنائی دینے لگی کیونک سب کو معلوم تھا کہ جب ایسی گاڑیاں آتی تھیں تو کیا ہوتا تھا۔ لوگ چھتوں اور کھڑکیوں سے جھانک کر دیکھنے لگے۔ گاڑیوں سے کچھ لوگ اترے اور سیدھے میرے گھر کے دروازے پر پہنچے اور دروازے کو کھٹکھٹاتے ہوئے دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔ میرے گھر کے کسی فرد نے دروازہ کھولا تو وہ لوگ گھر کے اندر گھس آئے۔ پھر ایک ایک کرکے سب کو گھر سے باہر نکالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بڑے بوڑھے سب کو باہر نکالا گیا۔ عورتیں دروازے تک آئیں تو ایک شخص نے جو گاڑی میں ہی بیٹھا تھا ان کو بھی بلاکر قطار میں کھڑا کرنے کا حکم دیا۔ چند لمحوں بعد دوتین نوجوان گھر کے تین چار چھوٹی عمر کے بچوں کو لے کر باہر آئے جس میں میرا ڈھیڑھ سال کا وہ بیٹا بھی تھاجس نے ابھی چند ہے روز پہلے اپنے قدموں ہر ہلتے ڈولتے چلنا سیکھا تھا۔انہوں نے بچوں کو لے کر آتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے شخص کے ھکم کے لئے اس کی طرف دیکھا۔ ہاں، ہاں، انہیں بھی لاؤ۔ اس شخص نے نظر پڑتے ہی حکم دیا۔ ایک اشارے پر گھر کی دیوار کے پاس سب کو کھڑا کردیا گیا۔ اور دوسرے ہی لمحے گولیوں کی بوچھار سے سب کو ڈھیر کردیا گیا۔ گاڑی میں آئے لوگ گاڑیوں میں بیٹھ کر چلے گئے۔ میں اسٹیشن سے اترا ہی تھا کہ اپنے محلے میں ہو ئے اس دل دہلا دینے والے واقعے کے بارے میں سنا۔ مجھے اپنے بھتیجے کی کارستانیوں کا خیال آیا اور دل میں خوف بھی پیدا ہو ا کہ ہونہ ہو یہ میرے کنبے کے بارے میں نہ ہو۔ باہر نکلا تو تیز ہواؤں کے جھکڑ سے دھول سی اڑ رہی تھی۔ کو ئی رکشا دکھائی نہیں دیا تو پیدل ہی تیز تیز چل پڑا۔ راستے میں یہ دیکھ کر میں اور بدحواس ہوا کہ وہی گاڑیاں کھڑی تھیں اور وہ سب کچھ کھاپی رہے تھے۔ ان میں ایک نے مجھے پہچان لیا اور وہ مجھے پکڑ کر لے گئے۔ گاڑی میں آگے بیٹھے آدمی سے پوچھا گیا کہ مجھے گاڑی میں ڈال لیا جائے کیونکہ وہاں دور تک کافی لوگ تھے اور سب کے سامنے مجھے ختم کرنا شاید انہیں مناسب نہیں لگا۔ لیکن اس آدمی نے ہنستے ہوئے کچھ سوچ کر کہا۔ نہیں اسے چھوڑ دو۔ بچ گیا تا بچ گیا۔ یہ کہانیاں ڈھوئے گا۔ گھر پہنچ کر میں نے جو منظر دیکھا اس سے میرے ہوش اڑ گئے تھے اور میں بے ہوش ہوگیا تھا۔ میرے گھر کے سامنے پڑی میرے گھر والوں کی لاشوں پر محلے والوں نے چادریں ڈال دی تھیں۔ میں دوڑا قریب پہنچا۔ ایک چھوٹی سی ہلکی چادر میری نونہال بیٹے کے اوپر بھی پڑی تھی۔ ہوا کے چلنے سے اس کے اوپر کی چادر ایسے ہلی کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ زندہ ہے۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس کی چادر ہٹائی تو جو دیکھا وہی میرے حافظے پر اب تک نقش ہے۔ اس کے جسم پر پیشانی، منھ، سینے اور ہاتھ پر گولیاں لگی تھیں۔ لوگوں نے بعد میں مجھے بتایا کہ میں کئی دنوں تک بے ہوش رہا تھا۔ اب میرے گھر کے افراد میں صرف ایک شخص زندہ بچ گیا تھا اور وہ تھا میرا بھتیجہ جو دہشت گردوں کے گروہ میں شامل تھا۔ اور گھر نہیں آتا تھا۔ لیکن انہیں تمہارے گھر کے اور لوگوں کو نہیں مارنا چاۂے تھا۔ میں نے ہمدردی کے لہجے میں کہا۔ جی ہاں۔ لیکن میں پوری بات بتاتا ہوں۔ اس نے سنجیدگی سے بتانا شروع کیا۔ واقعہ یہ تھا کہ اس بار دہشت گردوں کے ایک گروہ نے پولیس کالونی میں گھس کر گولیاں چلائی تھیں۔پولیس کالونی کی اس فائرنگ میں جو لوگ مرے تھے ان کی تصویریں بہت دلدوز تھیں۔ محکمہ پولیس میں کام کرنے والوں کے اہل کنبہ کو اس طرح سے گولیوں سے بھون ڈالنا۔ انتہائی درندگی تھی۔ نہیں۔ میں غلط کہ گیا۔ انتہائی انسانیت تھی۔ نہیں میں غلط کہ گیا۔ معاف کرنا ڈاکٹر مجھے لفظ نہیں مل رہا ہے۔ لیکن میں لفظ کی تلاش میں ہوں اور میں ضرور ڈھونڈ لوں گا۔ میں تب آپ کو بتاؤں گا۔ جی ہاں۔ میرا بھتیجہ بھی ان میں شامل تھا۔ ہاں ڈاکٹر وہ لفظ مل گیا۔ انتہائی درجہ کی حب الوطنی تھی۔ نہیں، وہ جو پولیس والوں کے گھر کے افراد کو مارا تھا وہ حب الوطنی نہیں تھی۔ وہ جو میرے گھر والوں کو مارا تھا وہ حب الوطنی تھی۔ دہشت گردوں کے گروہ میں شامل ہونے کے بعد میرا بھتیجہ کبھی گھر نہیں آیا۔ گھر والے اس کی وجہ سے پہلے سے ہی خوفزدہ تھے اور ہم سب کو پہلے سے ہی اس کا اندیشہ تھا کیونکہ اب ہر طرف ایسا ہی سننے کو مل رہا تھا۔ پولس کئی بار ہمارے گھر پر چھاپہ مار چکی تھی۔پولس ایک بار مجھے بھی لے گئی تھی۔ لیکن تب وہ دہشت گردی کے شروع کے دن تھے اور لڑائی دہشت گردوں اور پولیس و فوج کے درمیان ہوتی تھی۔ اس کے بعد پولیس کی گاڑیوں اور ٹھکانوں پرحملے ہونے لگے تھے۔ اور اس کے بعد پولس والوں کی سرکاری رہائش گاہوں پر حملے ہونے لگے۔ اور اس طرح ہوا گرم تر ہونے لگی۔ اب کسی کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اتنی پیچیدہ لڑائیوں کا حل کیا ہوسکتا تھا۔ لوگ یہی سوچتے تھے کہ اگر وہ خود پولیس یا فوج میں ہوتے یا سرکار چلارہے ہوتے تو کیا کرتے۔ یہ جنگ سنگین اور پیچیدہ ہوتی چلی گئی۔ ہوا تیز ہوتے ہوتے بگولوں کی شکل لینے لگی۔ اور ان بگولوں کے رقص میں ایک دن قانون کا دوپٹہ ایک جھونکے سے اڑ کر گرد و غبار میں تہس نہس ہوگیا۔ ہوا اتنی تیز ہوئی کہ یہ پہچاننا مشکل ہوگیا کی سڑک یا گلی میں چلتا ہوا کون سا شخص دہشت گر د تنظیموں سے وابستہ ہے اور کون پولیس کا آدمی ہے۔ کہ جابجا دہشت گرد پولیس کے یونیفارم میں اور پولس کے لوگ دہشت گردوں کے حلیوں میں گھوم رہے تھے۔ میرے خاندان کے ساتھ ہوئے اس سانحہ کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ پولیس کی انتقامی کاروائی تھی۔ کچھ دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ دہشت گرد ہی تھے جنہوں نے پولیس کے خلاف عوام میں نفرت اور غصہ پیدا کرنے کے لئے یہ حرکت کی تھی۔ سچ پوچھئے تو کافی دنوں تک میں تذبذب میں تھا۔ میں اپنی اسی ذہنی حالت میں ایک دن بھٹکتا بھٹکتا اپنے اس گھر کو دیکھنے چلا گیا تھا جو اب کھنڈر سا ویران ہوگیا تھا۔ میں وہاں دالان میں لکڑی کے تخت پر اپنے گھٹنوں پر سر ٹیکے اپنے پیاروں کو یاد کر رہا تھا کہ میرے دوتین پڑوسی آئے اور انہوں نے مجھے تنبیہ کی کہ میں فورا وہاں سے غائب ہوجاؤں۔ انہوں نے بہت اداس لہجے میں مجھے بتایا کہ پولیس مجھے ڈھونڈ رہی تھی کیونکہ ان کا خیا ل تھاکہ چونکہ میرے اندر انتقام کا زہر بھرا ہوا ہے اس أے میں حقیقتا ایک خطرناک دہشت گرد بن گیا ہوں۔ جب واقعہ تازہ تھا تب مجھے اتنی تکلیف نہیں تھی جتنی اب اس واقعے کے زہر بن جانے کی وجہ سے ہے۔ وہاں تو سب کچھ برابر ہوگیا لیکن یہاں سب کچھ باقی ہے۔وہ قہر کا دن میری زندگی کے لمحوں میں تحلیل ہوگیا۔ ڈاکٹر، مجھے چلتے، پھرتے، بیٹھتے ایسا لگتا ہے کہ میرے پاؤں کے نیچے زمین نہیں ہے۔ میں ڈر جاتا ہوں۔ میں نے کئی بار خواب میں دیکھا ہے کہ جیسے زمین اچانک قہقہ لگا کر مجھے نگل جانا چاہتی ہے۔لیکن میں ہوا میں پرواز کرکے بچ جاتا ہوں۔ کئی بار تو جب میں اڑتے اڑتے تھک گیا تو مجھے کسی پرندے نے بچالیا۔ ایک بار میں بادلوں پر جا بیٹھا۔ میں نے محسوس کیا کہ مریض پھر بے قابو ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر مجھے بار بار لگتا ہے کہ میری زمین مجھے پکڑ کر نیچے کھینچ رہی ہے اور مجھے جان سے مار دیگی۔ مریض پھر ہوش میں آنے لگا تھا۔ اس پورے عرصے میں میں ٹھیک سے سو نہیں پایا ہوں۔ میں سوؤں کہاں؟ زمین مجھے سوتے میں نگل لے گی۔ جھٹکے سے۔ اچانک۔ میں جانتا ہوں کہ وہ نگل لے گی۔ وہ میری جان کی بھوکی ہے۔ ڈاکٹر، تم کو پتہ ہے۔ ڈائنیں سب سے پہلے اپنے بچوں کی جان لیتی ہیں۔ میں شاید پاگل نہیں ہوں بلکہ نیند نہیں آنے کی وجہ سے میری یہ حالت ہوگئی ہے۔ تم کیسے میرا علاج کر پاؤگے۔ اس نے مجھ سے ایسے بات کی جیسے وہ پوری طرح ہوش میں ہو لیکن پھر فورا ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے اور وہ اس طرح بات کرنے لگا جیسے وہ ہوش و حواس میں نہیں ہو۔ وہ رک رک کر وقفوں کے بعد مجھ سے تخاطب کے انداز میں ہی کہتا رہا۔ ایک دن میں نے اڑتے ہوئے اچانک دیکھا کہ میری ماں کا منھ کھلا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میری طرف بڑھ رہے ہیں۔ میں نے ہمت کرکے سیدھے اس کے منھ کے اندر پراز کی اور اس کی زبان سے بچتا ہوا اسکے حلق کے راستے اس کے پیٹ میں گھس گیا۔ وہاں دیکھا میرے گھر والوں کے علاوہ اور بھی ہزاروں نوجوانوں اور بچوں کی ہڈیاں سڑ رہی تھیں۔ میں پھڑ پھڑا کر باہر اتنی سرعت سے نکلا کہ اوپر بادلوں پر جا بیٹھا۔ نیچے سے میری ماں مجھے بلارہی تھی۔ لیکن میں نیچے نہیں اترا۔ تب سے یہیں بیٹھا ہوں۔ پھر وہ اچانک کانپنے لگا جیسے موت کے قریب آنے پر کچھ مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ دیکھو۔ اب وہ گھڑیال جیسا منھ کھولے بادلوں تک پہنچ رہی ہے۔ مجھے یہاں سے بھی بھاگنا پڑے گا۔ ڈاکٹر۔ اب میں اڑوں گا۔ اور یہ کہنے کے بعدبستر پر بیٹھے بیٹھے اس کے دونوں بازو بالکل چڑیا کے ڈینوں کی طرح تیز تیز حرکت کرنے لگے جیسے وہ پرواز کر رہا ہو۔ یہ اس سے میری آخری گفتگو تھی۔
ختم شد۔
"ڈائن" کے تناظر میں "کہانی" اور " کہانی کار
کچھہ واقعات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جب وہ ماضی میں گم ہو جاتے ہیں تو ان کے بطن سے کہانیاں پیدا ہوتی ہیں "یہ کہانیاں اپنے صدموں, اپنی عجیب عجیب سچائیوں اور ?------------- انکشافات کی وجہ سے انسان کے علم اور اس کے فطری ارتقاء میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں اور جب تک وہ اپنے کو منوا نہیں لیتیں کہ وہ سچائیوں کا حصہ ہیں تب تک وہ اپنے دم پر ہمارے اجتماعی شعور میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی ہیں." ""میں یہ کہانی تم کو اسی لئے سنا رہا ہوں کہ یہ کہانی منظر عام پر آۓ اور اپنے منطقی انجام کو پہنچے". "جو قومیں , حکومتیں اور اشخاص اس پر بھی (ماننے کو) تیار نہ ہوں وہ انسانی نسل کے چہرے پر بدتہذیبی کا بہترین نمونہ ہیں." "میں دوا اور انجکشنوں سے تو اس کو ٹھیک نہیں کر پایا تھا لیکن جیسے ہی میں نے اس کی زہر بھری کہانی چوس کر پی لی , وہ ٹھیک ہو گیا تھا." "اور اسے پہلی بار بغیر کسی انجکشن کے گہری نیند آئی تھی . لیکن اس کے ساتھ ہی وہ مر گیا اور تب سے اب تک میری نیند ڈسٹرب رہتی ہے." مندرجہ بالا اقتباسات افسانہ "ڈائن" سے منقول ہیں. 'ڈائن' کا موضوع تو اجنبی نہیں ہے مگر اس میں جو تکنیک استعمال ہوا ہے , وہ اردو افسانے کے پس منظر میں انوکھا اور علیحدہ تجربہ ہے. گوکہ اس تکنیک کی وضاحت ان دنوں فیس بک میں کہانی کار جستہ جستہ نہایت چابکدستی کے ساتھ کرتے رہے ہیں. ڈائن ایک ایسا متحرک افسانہ ہے جس میں کہانی پن کے تقاضے کو مکمل طورپر برقرار رکھنے کے لئے ڈاکٹر اور مریض کے ساتھ ساتھ سامعین ناظرین کرداروں کو بھی پیش کیا گیا ہے. ہرایک کردار آشنا آشنا سا ہے ' یہاں تک کہ کہانی کار اپنے جذبات و افکار اور "کہانی" کے ہائپوتھیسس کے ساتھ خود بھی کہانی میں موجود ہے. افسانے میں پیش کیے گئے سچویشنس پژمردگی اور خوفزدگی میں بیداری کے مظہر ہیں. کہانی میں جو مسئله پیش کیا گیا ہے وہ بھی جگت آشنا ہے. لیکن ان تمام باتوں کی پیش کش نہایتفنکارانہ ہے- بذات خود کہانی کا نیچر ہے کہ کہانی انسانی ذہن میں مشاہدات و تجربات کے اشتراک سے وجود پاتی ہے , انکورتی ہے اور پروان چڑھتی ہے. کہانی جب پک کر تیار ہو جاتی ہے , تو ظہور کی راہ ڈھونڈتی ہے. راہ میں کسی طرح کی رکاوٹ ہوتی ہے پابندی لگتیتو وہ کہانی زہریلی ہونے لگتی ہے. بعض دفعہ وہ زہر ذہن و دل کو بری طرح متاثر کرتا ہے . سائنسی اصطلاح میں کہا جا سکتا ہے کہ "کہانی" کے ظہور پر بین لگنے سے اجنبی جرثومے کا دخول ہوتا ہے اور بائنریفکیشن کے ذریعے ان کا فروغ ہوتا ہے. پھر وہ جرثومے خلیوںخلیوں اور ٹسوز پر قابض ہو کر انہیں مفلوج کر دیتے ہیں. اس طرح کے سچویشن سے متاثر انسان الٹی سیدھی حرکتیں کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور معاشرہ اس کو پاگل گردانتا ہے . ڈاکٹر کا علاج اس کے لئے بیسود ہو جاتا ہے . اب ذرا اپنے سوچ کے زاویے کو دوسری جانب ٹوئسٹ کریں. کہانی کا مرکزی کردار ایک پاگل شخص ہے جو پاگل خانے میں زیر علاج رہتا ہے. جب اس کا علاج تکمیل کے مرحلے پر پہنچتا ہے تو وہ موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے. آخر کون ہے وہ پاگل مریض؟ وہ ڈآکٹر کون ہے جو اس پاگل مریض کا علاج کرنے میں پانی پانی ہے , کہانی میں ان سوالوں کے جواب موجود ہے. غورطلب امر کہانی میں استعمال شدہ تکنیک ہے جس میں مکان (پاگل خانہ) کولمبو سے پھیل کر متعدد ممالک کو اپنے احاطے میں لے لیتا ہے , نیز ایک فرد کا کردار متعدد معاشرے کو اپنے حصار میں محصور کر لیتا ہے.ہے , کہانی میں ان سوالوں کے جواب موجود ہے. غورطلب امر کہانی میں استعمال شدہ تکنیک ہے جس میں مکان (پاگل خانہ) کولمبو سے پھیل کر متعدد ممالک کو اپنے احاطے میں لے لیتا ہے , نیز ایک فرد کا کردار متعدد معاشرے کو اپنے حصار میں محصور کر لیتا ہے.المیہ فرد کا معاشرے میں اختلاط کا ہے. ڈائن کا مرکزی کردار جس مرض میں مبتلا ہے , اسی مرض میں تیسری دنیا کی آبادی کی اکثریت مبتلا ہے. سائکو انالسس بتاتا ہے کہ اوسط ذہنیت کے معاشرے کے افراد ایک دوسرے کی تکلیف اور تکلیف کی شدت سے عبرت نہیں لیتے ہیںبلکہ اپنی تکلیف کی شدت میں قدرے راحت محسوس کرتے ہیں. معاشرے کی اس ذہنیت کے طفیل انسانی قدریں اس درجہ انحطاط پذیر ہو چکی ہیں کہ دہشت گردی نے سپر پاور کی حیثیت اختیار کر لی ہے. دانشوری کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اظہار کے ہنر سے عاری ہے.اظہار کے کرب میں مریض , مظلوم یا ایک عام آدمی بھی مبتلا ہے اور ایک تعلیم یافتہ پریکٹکل ڈاکٹر , انجنیئر , افسر یا خاص آدمی بھی. لفظوں کی لغات پر منفی قدروں کی پرتیں جم چکی ہیں. انسانیت اور درندگی کی تمیز گم ہو چکی ہے. حب الوطنی کا سہرا نام نہادمحافظوں کے سر باندھا جائے یا شہرت یافتہ دہشت گردوں کے سر؟ "بھتیجا" اس تذبذب اور پیچیدگی کو مزید پختہ بنا دیتا ہے . اس صورتحال میں "کہانی کار" کی ذمہ داریاں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں. ڈائن کا تخلیق کار ان رموزِ سے پوری طرح واقف ہے. جس کا واضح اظہار افسانے میں ہوا ہے. ہرچند کہ اردو افسانے میں موقف کی وضاحت معیوب سمجھا جاتا رہا ہے اور اس عمل کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے اور جس کے سبب اردو افسانے کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا اور تخلیقی موقف کی وضاحت پر نام نہاد ناقدین کی اجارہ قائم رہی . اردو افسانہ اپنے ارتقائی مراحل میں حکایات اور رومانی کہانیوں سے آگے بڑھکر ترقی پسندی کے دور میں داخل ہوا تو ادبی مباحث کے سلسلے شروع ہوۓ . اردو زبان و ادب کے فروغ میں بحثوں کے مثبت نتائج برآمد ہونے کے بجائے عجیب و غریب ردعمل سامنے آۓ"جدیدیت کی اصطلاح رائج ہوئی. اور جدیدیت کی شان یہ ٹھہری کہ "کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی" . اور اگر کسی تخلیق پارے میں تخلیق کار کی جانب سے کسی بات کی وضاحت کرنے کی سہو سرزد ہو گئی تو اس پر " مقصدی" یا "ترقی پسندی" کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا تھا . اس رسہ کشی میں اردو ادب کا نقصان تو ہوا ہی , اردو فکشن خصوصاً اردو افسانے کے قارئین تو ایک طرح سے متنفر ہی ہو گئے- ڈائن پر اظہار خیال سے پہلے ڈائن کے کچھ اقتباسات جاری کئے گئے. ان اقتباسات سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ افسانہ نگار کی نگاہ میں کہانی کیا ہے , کہانی کا انکور کہاں پھوٹتا ہے , کہانی پروان کہاں چڑھتی ہے , کہانی کیسی ہونی چاہئیے، کہانی کے تقاضے کیا ہیں، خود کو منوا لینے والا نیچر کس طرح کی کہانی میں ہوتا ہے. اس قسم کے سوالوں کے جواب افسانے میں موجود ہیں , یہ زیادہ اہم نہیں ہے، اہمیت اس بات کی ہے کہ جواب نما فقرے اور جملے افسانے پر بار یا اضافی تاثر قائم نہیں کرتے بلکہ افسانے کے حسن اور معنویت کو دوبالا کرتے ہیں. المختصر مجموعی طورپر پیغام آفاقی کا یہ افسانہ اردو کا ایک بہترین افسانہ ہے، جس میں اس دور کی افسانہ نگاری کی نمائندگی کی صلاحیت موجود ہے.
Alif Alam
کالے دیوؤں کا سایہ
ڈاکٹر ریاض توحیدیؔ
وڈی پورہ ہندواراہ کشمیر 193221
غروب آفتاب کے ساتھ ہی کالے دیوؤں کا خوفناک سایہ بستی کی خاموش فضا پر آندھی بن کر چھا جاتا اور شل زدہ ذہنوں میں ماتم کی دھنیں بجنا شروع ہوجاتیں۔ خوف کا سائرن بجتے ہی خون آلودہ دلوں کی دہشت ناک لہروں سے غمگین سوچوں میں وحشت ناک ارتعا ش پیدا ہوجاتا۔ معصوم بچے رات بھر ماں کی چھاتی سے لپٹ جاتے اور والدین ساری رات آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹنے پر مجبور ہوجاتے۔
برفیلے پہاڑوں کے دامن میں بستی کے بیچوں بیچ کالے دیوؤں کی ویران گھاٹی کے پھاٹک کے سامنے برفیلے گالوں کے درمیان مرے ہوئے کتوں کا عفونت انگیز ڈھیر راہ چل رہے لوگوں پر وحشت طاری کررہا تھا۔ خون میں لت پت یہ کتے اپنی عادت نہ چھوڑ نے پر اپنی جان کھوبیٹھے تھے۔ رات کے اندھیر ے میں جب کالے دیوبستی میں گھسنے کی کوشش کر تے تو ان کے ناپاک عزائم کو بھانپتے ہی ان بے زبانوں کا احتجاج شروع ہو جاتا۔ ان بے زبانوں کا احتجاج جب کالے دیوؤں کی ناکامی کا سبب بنتا گیا تو انہوں نے ان کتوں کو بستی والوں کے وفادار محافظ سمجھ کر انہیں ہلاک کر نے کا آپریشن شروع کردیا اور اس بے زبان مخلوق کی نسل کشی کا سلسلہ شروع ہوا۔
کالے دیوؤں کا یہ منحوس سایہ کئی دہائیوں سے بستی کے اوپر چھایا ہوا تھا اس جنت نُما بستی کے روح پر ورمشک بار ماحول کو ان بدصورت کالے دیوؤں کی بد بودار سانسوں نے پلیگ زدہ بنائے رکھا تھا اور ان خبیث روحوں کی جابرانہ موجودگی کی وجہ سے بستی کے عنبر آگیں چمن زاروں، چَھر چَھر کرتے آبشاروں، پُر فریب کہساروں اورحُسن خیز سبزہ زاروں پر منحوسیت کے سیاہ سائے چھائے ہوئے تھے۔ پتہ نہیں یہ چنڈال فطرت بدصورت مخلوق کن بدتہذیب ویرانوں سے نکل کر ہاتھی کے دانت دکھائے بستی کے ریشم مزاج انسانوں کے سروں پر موت بن کر سوار ہوچکی تھی۔ چمنستان کے باغیرت باغبان لگاتار ان بے غیر ت حملہ آوروں کو بھگانے کے وظائف پڑھتے رہتے تھے، پربستی کا نصیب ہی جانے کہ یہ بد فطرت مخلوق وظائف کے اثر کو بے اثر بنانے کے لئے بستی کے ہی چند کالے بھیڑوں کی ناپاک نفسیات کو اپنے آسیبی حربوں سے متاثر کرجاتے اور وہ کم ظرف شعبد ہ بازاپنے کرتبوں سے ان کی موجودگی کو دوام بخشنے کی راہیں ہم وار کرنے میں اپنے کرتب دکھاتے رہتے۔
یہ بدفطرت کالے دیوبستی کے کسی بھی گھر میں بے دھڑک گھس جاتے اور اپنی خون خوار آنکھوں کا رعب جماتے ہوئے بستی کے مکینوں کی بے بسی اور بے کسی کے ساتھ جس طرح سے چاہتے کھلی اڑاتے رہتے۔ اگر کوئی انسان اپنی آن بچانے کے لئے ان درندوں سے اُلجھ پڑتا تو ان وحشیوں کے خونخوار پنجے اس مظلوم کو نوچ نوچ کر لہولہان کر جاتے اوران کے معصوموں کو پلک جھپکتے ہی جھپٹ کرلے جاتے۔ بستی کے لوگ ان آدم خوروں کے بجائے ان بے زبان کتوں کی وفاداری اور انسان دوستی کے شکر گزار نظر آتے تھے۔ جورات کے گھنے سائے میں اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر بستی کے لوگوں کو بھونکتے بھونکتے ان ظالموں کی آمد کا اشارہ کرتے رہتے۔
پھاٹک کے سامنے مارے گئے کتوں کی بدبو سے جب کالے دیو تنگ آگئے تو انہوں نے بستی کے لوگوں کو حکم جابری سنایا کہ وہ ان خون آلودہ کتوں کو اپنے اپنے کاندھوں پر اُٹھا کر دور کسی نالے میں پھینک دیں۔ بے بس لوگ حکم جابری کی تعمیل کرتے ہوئے کتوں کو کاندھوں پر اُٹھائے جارہے تھے کہ اچانک انہیں مردہ کتوں کے ڈھیر میں ایک خوبصورت نوجوان کی لاش پر نظر پڑی۔ وہ خوف زدہ ہو کر ڈھیرسے پیچھے ہٹنے لگے۔ انہیں پیچھے ہٹتے ہی کالے دیو آگ بگولہ ہو کر چلانے لگے:
”سالے ……! پیچھے کیوں ہٹے……؟ ان کتوں کو جلد ی جلدی یہاں سے ہٹاؤ، ہوا میں بدبو پھیل رہی ہے۔“
”ان …… ان میں ایک انسانی لاش بھی ہے۔“ ایک نوجوان لرزتی آواز میں بول پڑا۔
”اُس کو بھی یہاں سے دفع کر و اور ان کتوں کے ساتھ کسی نالے میں ڈال دو“ کالی غار سے ایک طنز آمیز آواز آئی۔
”لیکن……!“
”سوال مت کرو،نہیں تو تو بھی کُتے کی موت مرے گا۔، سالا“ ایک اور خوفناک آواز نوجوان کے کانوں سے ٹکرائی۔
کالے دیو”جشن زیتون“ منانے کا پروگرام بنا چکے تھے۔ بستی کے بچوں کو ہدایت ملی تھی کہ وہ رنگارنگ پروگرام بنانے کے ساتھ ساتھ ”شاخ زیتون“ کے موضوع پر بھی تقریر تیار
کریں۔ دوسرے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ معصوم الوقت نے بھی پروگرام میں شرکت کرنے کا ارادہ کرلیا اور ”شاخ زیتون“ کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے تمام سامعین سے داد تحسین پائی۔ کالے دیوؤں کا رہبر بھی معصوم الوقت کے امن پسند خیالات سے خوش ہوا اور وہ اپنے امن کے مہان دیوتا کے بنائے ہوئے خوشنما سفید رنگ کبوتر، جس کی چونچ میں ”شاخ زیتون“ رکھی ہوئی تھی، معصوم الوقت کو انعام میں دیتے ہوئے جشن شاستری پڑھنے لگا:
”ہمیں بے حد خوشی ہورہی ہے کہ بستی کے نوجوانوں میں امن کی روح جاگ اُٹھی ہے۔ اُن کی آنکھیں روشنی کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ میں آپ لوگوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ بستی کے اندر اب کسی قسم کا کالا سایہ نظر نہیں آئے گا۔ آپ لوگ صرف اپنی بستی میں زیتون کے پیڑاُگانے کا وعدہ کیجئے۔“
”جشنِ زیتون“ ختم ہوتے ہی معصوم الوقت خوشنما سفید رنگ کبوتر کو لے کر گھر کی جانب دوڑ پڑا۔ وہ گھر والوں کو اپنے انعام کی خوشخبری سنانے کے لئے بے قرار ہورہا تھا۔ وہ جونہی کالے دیوؤں کی پھاٹک کے قریب پہنچا تو اُسے رکنے کی آواز سنائی دی۔ چند منٹوں کے بعد اُسے دوسرے لوگوں کے ساتھ مردہ کُتے اُٹھانے کا حکم ملا۔ اُس کے انکار کرنے پر کالے دیوؤں کی آنکھوں میں خون پھیلنے لگا۔ اُس کے ہاتھ میں اپنے دیوتا کے خوش نما سفید رنگ کبوتر کو دیکھتے ہی ایک دیو پوچھ بیٹھا:
”یہ کبوتر تم کو کہا سے ملا؟“
”جشنِ زیتون والے پروگرام میں شاخِ زیتون سے متعلق میری تقریر سے خوش ہو کر آپ کے رہبر نے مجھے یہ کبوتر انعام میں دے دیا۔“ معصوم الوقت نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”ہمیں شاخِ زیتون کا فلسفہ سکھاتا ہے“یہ کہتے ہوئے کالے دیوؤں نے اُسے مردہ کتوں کے ڈھیر پر پھینک دیا۔
”نہیں ……! یہ سراسر ظلم ہے۔ تمہاری اس وحشت ناک حرکت سے مہان دیوتا کے امن پسند آدیشوں کا خون ہورہاہے۔ آپ صفائی کرم چاریوں کی مدد سے ان کتوں کو یہاں سے ہٹا سکتے ہیں۔“ معصوم الوقت کے منہ سے شاخ نبات کے میٹھے میٹھے الفاظ نکل رہے تھے۔
”ہمیں شنانتی کا منتر سکھا رہا ہے۔ سالا“ ایک بدصورت دیو اُس پر اپنے خونخوار پنجوں سے وار کرتے ہوئے بول پڑا۔
معصوم الوقت کے جسم سے خون کے فوارے نکل پڑے۔ چند ہی لمحوں کے اندر اندر شاخِ نبات کی مٹھاس اُس کی شریا نوں میں زہر بن کر دوڑ نے لگی۔ اور مہان دیوتا کا سفید کبوتر جھیل کے سُرخ پانی میں پھڑ پھڑاتے ہوئے سرخ مائل ہوتا گیا۔ کالے بادلوں کی خوفناک بجلیاں چار سو گرجنے لگیں۔ بے بس مخلوق بدحواسی کے عالم میں خون آلودہ کتوں کے ساتھ ساتھ معصوم الوقت کی خون ٹپکتی لاش کو بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھائے جارہے تھے اور کالی آندھی ان کے شل زدہ کانوں کو کالے دیوؤں کے سرہنگ کا قومی پیغام سُنا رہی تھی:
”اگر جنت کے وارثین، اپنے بچوں کے ہاتھوں میں شاخِ زیتون تھما دینگے تو انہیں شاخ نبات سے نوازا جائیگا۔“
email:عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
Mob.9906834877
V
کالے دیوؤں کا سایہ
پروفیسر قدوس جا وید (شعبہ اردو‘سنٹرل یونیورسٹی کشمیر)
اُردو میں شعر وادب کی تخلیق ....دنیا کی نہ جانے کتنی بستیوں میں ہورہی ہے‘لیکن کشمیر کے ادیبوں اور شاعروں کا امتیازیہ ہے کہ وہ صرف ادب نہیں لکھتے، ادب کے حوالے سے اہم عصری تناظرات کو جینے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور یہ تو ماننا ہو گا کہ ہر سچاقلم کار اپنے معاشرہ،اپنی ثقافت سے وابستہ رہ کرہی پوری ایمانداری کے ساتھ اپنی زمین میں اپنے ادب کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ چناچہ کشمیر کے ادیب خواہ وہ کشمیری میں لکھتے ہوں یا اُردو میں یا پنجابی، پہاڑی، گوجری اورلداخی کسی بھی زبان میں ان کی شناخت کا بنیادی نقطہ ہی یہ ہے کہ ان کی تحر یروں سے کسی نہ کسی زاوئے سے اپنی زمین اور تہذیب کی گنگناہٹ لازمی طور پر سنائی دیتی ہے۔ جب ہم کشمیر میں اُردو افسانہ کے مزاج کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے کہ نور شاہ، عمر مجید اور خالد حسین سے لے کر مشتاق مہدی،شیخ عبدالرشید‘غلام نبی شاہد، ایثار کشمیری اور ڈاکٹر نیلو فر ناز نحوی قادری تک اور اس کے ساتھ کی نسل کے ابھر تے ہو ئے افسانہ نگار ریاض تو حیدی ؔکے افسانوں میں بھی کشمیر کے عصری حالات و حقائق کو عمدہ فنی اور جمالیاتی دروبست کے ساتھ جینے کا عمل ملتا ہے۔ ریاض تو حیدیؔ کو تحقیق و تنقید سے بھی دلچسپی ہے۔ اب تک ان کے بیسوں مضامین اورافسانے معیاری رسائل اورنیٹ سائٹوں میں شائع ہو چکے ہیں۔
ریاض تو حیدی ؔکو اقبا لیات سے خصوصی شغف ہے۔ علاّمہ اقبالؔ ؔکے فکر و فن پر ان کی تصنیف 2010ء ”جہانِ اقبال‘ؔ‘ کے نام سے شائع ہو کر عوام و خواص سے داد ِتحسین حاصل کر چکی ہے۔ مشہور اقبالؔ شنا س ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے حوالے سے ریاض تو حیدی کا تا زہ تر ین تحقیقی و تنقیدی کا ر نامہ ”ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم بحیثیت اقبال ؔشنا س“ یقینی طور پر اقبالیات کے باب میں ایک اضافے کا حکم رکھتا ہے . ریاض تو حید ی ؔتخلیقی صلا حیتوں سے بھی ما لا مال ہیں جس کا اظہار انہوں نے صنف ِ افسانہ میں کمال پختگی کے ساتھ کیا ہے۔ ریاض تو حیدی ؔکے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”کالے پیڑوں کا جنگل“ (2011ء) میں شائع ہوا جس کی پذ یرائی اُردو حلقے میں بڑے پیما نے پر ہوئی۔ اب ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ”کالے دیووں کا سایہ“ شا ئع ہورہا ہے۔ اس مجموعے کا پیش ِلفظ کشمیر کے مشہور نقاد پر وفیسر حامدی کا شمیری نے لکھا ہے، حا مدی کا شمیری کے مطا بق:
”گر دو پیش کے ماحول میں لو گوں کو جس ظلم و تشد دسے گذرنا پڑا ہے اس کی تصو یر یں ریاض تو حیدی اپنے افسانوں میں پورے خلوص درد مندی اور دُکھ کے ساتھ پیش کر تے ہیں۔“
خود ریاض تو حیدی نے افسانہ میں حق گو ئی پر مبنی سماجی وابستگی کو لا زمی قرار دیا ہے۔ اپنے مجموعے ”کالے دیوؤں کا سایہ“ میں ’چند با تیں‘کے عنوان سے صنف افسانہ اور اپنی افسانہ نگاری کے فکری اور تخلیقی رویوں کی وضا حت کرتے ہو ئے خود لکھا ہے:
”میں سمجھتا ہوں کہ جب ظالم کا تیشہ مظلوم کے ننگے بدن پر وار کرتا ہے تووارسہتے سہتے مظلوم کے دل سے جو پر شور آواز نکلتی ہے وہ آواز ہمارے افسانوں میں بھی سنائی دینی چاہئے۔ افسانے میں اشاروں، کنا یوں میں بات کر نا تو ٹھیک ہے لیکن سچائی کو بیان کر تے ہوئے مصلحت پسند ی سے کام لینا میری فطرت کے خلاف ہے کیونکہ میں لنگو ر کو انگور بنا کر پیش نہیں کر سکتا۔“
”کالے دیوؤں کا سایہ“ میں اٹھا رہ افسانے ہیں۔ ان افسانوں کے موضوعات‘کشمیر کی خوں آشام صورتحال سے لیکرعالمی سطح کے خونچکاں واقعات پر مشتمل ہیں اور سبھی افسانوں کا مرکز توجہ ظالم وجابرہاتھوں کے کالے کارنامے ہیں .کسی بھی تخلیق میں تخلیق کار کے مقامی ماحول کی عکاسی ضرور نظر آتی ہے. توحیدیؔ کے افسانوں میں بھی وادی کے مختلف علاقوں میں رونما ہو نے والے خونچکاں واقعات اور عبرتناک مظالم و مسا ئل کی تصویر کشی اس طرح کی گئی ہے کہ یہ افسانے،گذشتہ دو ڈھا ئی دہا ئیوں میں کشمیر اور کشمیریوں پر گزرنے والے عذاب کے زندہ اور متحرک مرقعے ثابت ہو رہے ہیں۔ اس مجموعے کے پہلے افسانے ”چھوڑ دو“ میں کشمیر کے ان ہزاروں معصوم لوگوں کی بد نصیبی کی کہانی ستر سالہ ضعیف جبار چا چا کے حوالے سے بیان کی گئی ہے جس کا اکلوتانو جوان بیٹا نذیر خان اور اور اکلو تی نوجوان بیٹی شریفہ دونوں اپنے اپنے خوابوں کے ساتھ ظلم کا شکار ہو کر مو ت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جبار چا چا ان ہزاروں لو گو ں کی طرح تنہا ئی کی زندگی جینے پر مجبور ہیں، جن سے حالات نے ان کی اولاد کو چھین لیا ہے۔
اسی طرح ”گلہ قصائی“ میں افسانہ نگار نے بدی اور خود غر ضی اور انسان دوستی کے غلبہ کو ایک ان پڑھ قصا ئی گلہ کے حوالے سے کہانی بنی ہے اور افسانہ کے بین السطور سے یہ حقیقت جھا نکتی ہو ئی نظر آ تی ہے کہ وادی کے علیٰ تعلیم یا فتہ طبقہ کے ذمہ دار افراد خصوصاً ڈاکٹر وغیرہ اب اپنے فرائض منصبی کے تئیں نہ تو مخلص رہے نہ ذمہ دار‘جو کشمیر کی روایتی اخلاقی اور انسانی روایات کے یکسر خلاف ہے۔ لیکن کشمیر کا وہ طبقہ جنہیں ان پڑھ اور پست ذہن ما نا جاتا ہے ان کے دلوں میں کشمیر کی قابل ِ فخر انسان دوستی کے چراغ ابھی بھی روشن ہیں۔ اسی لئے گلہ قصا ئی ڈاکٹر کی خودغرضی کے سبب اپنی بیٹی کی موت کا انتقام ڈاکٹر کی بیٹی کو گوشت میں زہر ملا کر ہلاک کر لینا چاہتا ہے،لیکن پھر اس پر اس کی نفسیات میں مو جود انسا نیت، اس کے انتقام کے وقتی جذبے پر حاوی ہو جا تی ہے اور وہ زہر ملا گو شت واپس لے کر ضا ئع کر دیتا ہے۔
دراصل کشمیر سے با ہر کی دنیا کو آج بھی پو ری طرح معلوم نہیں کہ اس چمن میں صیادوں نے گل و بلبل کے شکار کے لئے ایسے ایسے ہتھکنڈھے استعمال کئے اور ایسی ایسی سازشیں رچی ہیں کہ کشمیر کے ایک طبقے کی سوچ اور فکر کی قوت جیسے سلب ہو کر رہ گئی ہے۔اس اندوہناک صورت حال کی منظر کشی ”گمشدہ قبرستان“اور’’خوف“وغیرہ افسانوں میں دکھائی دیتی ہے۔
ریاض تو حیدی ؔکے کلیدی افسانے ”کالے دیوؤں کا سایہ“ میں امن و شانتی قائم کر نے کے ذمہ دار افراد اور اداروں کی جانب سے عام لو گو ں کے ساتھ ہونے والے وحشیانہ سلوک کو بڑی سچائی سے استعاراتی انداز میں پیش کیا گیاہے اس افسانہ کے درج ذیل اقتباس پر غور کریں:
”پھا ٹک کے سامنے ما رے گئے کتوں کی بد بو سے جب کا لے دیو تنگ آ گئے تو انہوں نے بستی کے لو گوں کوحکم جا بری سنایا کہ وہ ان خون آ لودہ کتوں کو اپنے اپنے کا ندھوں پر اُ ٹھا کر دور کسی نالے میں پھینک دیں۔ بے بس لوگ حکم جا بری کی تعمیل کر تے ہو ئے کتوں کو کا ندھوں پر اُٹھا ئے جا رہے تھے کہ اچانک انہیں مردوہ کتوں کے ڈھیر میں ایک خوبصورت نو جوان کی لاش پر نظر پڑی۔ وہ خوف زدہ ہو کر ڈھیر سے پیچھے ہٹنے لگے۔ انہیں پیچھے ہٹے ہی کالے دیو آگ بگو لہ ہو کر چلانے لگے:
”سالے ……! پیچھے کیوں ہٹے ……؟ ان کتوں کو جلدی جلدی یہاں سے ہٹا ؤ، ہوا میں بد بو پھیل رہی ہے۔“
”ان …… ان میں ایک انسانی لاش بھی ہے۔“ ایک نو جوان لرزتی آواز میں بول پڑا۔
”اُس کو بھی یہاں سے دفع کرو اور ان کتوں کے ساتھ کسی نالے میں ڈال دو“ کالی غار سے ایک طنز آ میز آواز آ ئی۔“
”لیکن……!“
”سوال مت کرو، نہیں تو تو بھی گُتے کی موت مرے گا ، سالا“ ایک اور خوفناک آواز نو جوان کے کا نوں سے ٹکرائی۔“
ریاض توحیدی کے افسانے میں عالمی مسائل کی حیران کُن منظرکشی جلوہ گر ہے۔11 - 9کے بعد عالمی منظرنامے پر رونما ہورہے واقعات و حادثات کی تصویر کشی کرتے ہوئے موصوف”سفید تابوت“”مشنِ القّدس“ اور ”ہائی جیک“ جیسے افسانوں میں گہرے شعور اور وسیع مشاہدے کے بل پر تہذیبی تصادم کے سازشی محرکات کو علامتی اسلوب کے تو سط سے ایکسپوز کرتے نظرآرہے ہیں .افسانہ ”ہائی جیک“میں ایک عام انسان کے نفسیاتی تناؤ کو سوچ کی ہائی جیک قرار دیتے ہوئے افسانہ نگارجمہوریت کی آڑ میں حیوانیت برپا کرنے والے چہروں کے پردے چاک کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”دن بھر کی مصروفیات سے تھک ہار کر وہ رات کی تنہائی میں سچ اور جھوٹ کی جنگ کا نظارہ کرنا چاہتا ہے.نیوز چینل کا نمبر ریموٹ پر دباتے ہی اسکرین پر فلیش نیوز آتی ہے:
”ڈرون کے حملے میں اسکول تباہ‘درجنوں معصوم بچے موت کی آغوش میں .“
”یہ دشت گردی ہے‘حیوانیت کے شکار معصوم بچوں کے والدین کا احتجاج.“
”نہیں ...یہ اقدام دنیا میں امن بحال کرنے کے لئے ضروری ہے .“ سفیر امن کا بیان.
”ایک خوفناک دھماکے میں نیٹو کے درجن بھرفوجی ہلاک.“
”یہ دہشت گردی ہے.“سفیر امن کا بیان”جمہوریت کے دشمنوں سے ضرور بدلہ لیا جائیگا.“
ریاض تو حیدی ؔکو اُردو افسانہ کی روایت، شعریات اور موضو عا تی اور اسلو بیاتی رویوں کی آگہی ہے،انہیں نو رشاہ جیسے منجھے ہو ئے فکشن نگار کی سر پر ستی بھی حاصل ہے لیکن شاعری کی طرح افسانہ بھی مستقل مشق اور ریاضت چا ہتا ہے لہذا ریاض تو حیدی کو بھی اپنی سوچ اور فکر اور تخلیقیقت کے سرمایہ کو نہ صرف محفوظ رکھنا ہے بلکہ اسے اور زیادہ مضبوط و مستحکم بھی کر نا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو صرف کشمیر ہی نہیں اُردو کی عام بستیوں میں بھی بحیثیت افسانہ نگار ریاض تو حیدی اپنی شناخت قائم کرنے میں کا میاب ہو جا ئیں گے۔
mob.9419010472