نورالعین ساحرہ بطور افسانہ نگار اور نقاد:باسط آزر
نور العین ساحرہ دو الگ طرح کی معاشرت سے براہ ِ راست متعلق ایک لکھاری ہے اور جب بھی دو تہذیبیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہوتی ہیں ان میں انجذاب کا عمل شروع ہوتا ہے. یہی انجذاب جب ایک تخلیقی صورت میں سامنے آئے تو اس میں انفرادیت پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ۔
ایلیٹ جب لکھاری کو اپنے سے پہلے لکھا گیا پڑھنے کا مشورہ دیتا ہے اور روایت کے ساتھ تنوع اور جدید عمل کی طرف بڑھنے کا کہتا ہے ، تو وہ ایک تناظر پیش کرتا ہے ، جس میں انفرادی صلاحیت کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور خود ایلیٹ ایک ہی ثقافت یا کسی ملکی ادب کو پیش نہیں کرتا ، ہر تہذیب ہر جگہ لکھے جانے اور لکھنے والوں کو اپنی مٹی اور اپنے ادب سے جڑنے اور نئے ادبی ارتقا کی طرف دعوت دیتا ہے ۔
مارکسی تناظر آپ کو انسان پر ہونے والے ظلم اور ہر طرح کے جبر اور استحصال کا ادراک کرنے اور اسے تخلیقات میں پیش کرنے کی تحریک دیتا ہے جو قارئین تک جس حد تک ممکن ہو آسانی سے پہنچ سکے ۔۔
ساختیات لفظ اور علامت کے درمیان ربط کی طرف توجہ دلاتی ہے اور نئے سرے سے پرکھ اور تخلیق کو مہمیز کرتی ہیں ، اور پسِ ساختیات میں مصنف کی تخلیق سے علیحدگی تخلیق یا کام کے مکمل ہونے اور اشاعت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے ، اور صرف شناخت یا پہچان کی صورت باقی رہ جاتی ہے ۔
یہ تمام باتیں کوئی تمہید نہیں بلکہ نور العین ساحرہ کے بحیثیت لکھاری اور نقاد تعارف کا حصہ ہیں ۔ بحیثیت نقاد وہ اپنی تنقیدی صلاحیت سے تخلیق کو خود سے علیحدہ کر کے پرکھ سکتی ہیں ان کا ماضی کا مطالعہ اور ادب میں موجود عناصر اور لٹریری ڈیوائسز کا ادراک ان کے بہترین اور بخوبی استعمال کا فن عطا کرتا ہے ۔ ایک اور خوبصورتی اور انفرادیت کہ نور اپنی تخلیقات میں زمین سے وابستہ رہتی ہے اور شاید ہی کہیں میٹا فزیکل ہوتی ہو ۔ وہ اپنی اصل میں مارکسی ہے ، ساختیاتی اور پس ِ ساختیاتی ادراک کے باوجود علامت کے استعمال تک کو عام فہم کے قریب لے آتی ہے ،
ذیل میں اس کے کچھ افسانوں کا کچھ سطور میں مختصر جائزہ لینا اہم سمجھوں گا جو درحقیقت بطور افسانہ نگار نور العین ساحرہ کا درست تعارف ہوگا ، اور میری پہلے کی گئی بات کا جواز اور ثبوت بھی ۔
ابتدائی کچھ افسانوں کا مذکور ہونا ضروری نہیں ، مگر وہ نور کے تخلیقی سفر میں ایک اہمیت ضرور رکھتے
اس کے افسانہ پارکنگ لاٹ میں برف یا انجماد کے ساتھ ہی ایک ابتری اور کرب کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے ، جو نئے ہمسائیوں کے سرد مہر رویے سے براہ ِ راست متناسب ہے ۔ علامات کے ساتھ وہ اس افسانہ کو عالمی تناظر کے ساتھ جوڑتے ہوئے باہمی ملاقات کے دوران ویٹو ، ( اقوام ِ متحدہ) پارکنگ ٹائم میٹنگ ، انتہائی مصروف زندگی کے ساتھ تمام کرداروں کو ایسی کردار سے ایک جڑت میں سموتی ہے جو کہ فطرت سے انس رکھتی ہے ، گویا اپنی زندگی میں مگن تمام کردار اس کے ذریعے فطرت کو دیکھتے اور خود میں بنیادی فطرت جو سب کو جوڑنے کا باعث ہے کو کھوج لیتے ہیں حتٰی کہ منحرف سرد مہر مکان میں موجود انسانی شکل کی برف بھی پگھلنے لگتی ہے ۔
ردِ تشکیل کے حوالہ سے اس کا مرکز اقوامی اتحاد ، فطرت سے قربت اور محبت ہیں اور امیجری پیسٹورل ۔
یوں سمبولزم (علامات ) ابرف باری ۔۔ سرد مہری ، ابتری ، المیہ ، بہار ۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی ، محبت خلوص اور ریزرکشن کے معنی لیتے ہوئے دونوں فلیش فاروڈ ڈیوائس کے طور پر سامنے اتے ہیں ۔ اور ایک علاقہ جو یونیورسل سمبل کی ایک کوشش کے طور پر ایک خیالی واحد وطن کا روپ دھارے ہوئے ہے ، مثالی تصور لے لیتا ہے ۔ سب سے اہم بات اس کا رجائی اختتام ہے ۔ جو امید بندھاتا ہے کہ تمام اقوام ایک دن اس دھرتی کو اپنا وطن سمجھ کر ایک ہو جائیں گی ۔ یوں یہ افسانہ ایک مثالی ( Utopian ) جہت بھی اختیار کر لیتا ہے_
آخری کہانی میں مزاحمتی ادب واضح ہے جو ایک کونفرمٹی اور انحراف کی ( Conflict between Conformity and deviance
From macro to micro according to male chauvinism ) کو بنتا ہوا ، سفاکیت کے ساتھ بہت سے سوالات کے جواب دیتا اور نئے سوال سامنے رکھ جاتا ہے ۔ یہاں ایک عورت علامتی (سیمیوٹک ) طور پر عورت طقہ کی نمائندگی کرتے ہوئے اختتام پر واحد کی طرف لوٹ آتی ہے ۔
ردِ تشکیل کے حوالہ سے اس کا مرکز عورت کا صدیوں پرانا استحصال اور وہ کشمکش ہے ، جو معاشرہ اور اس کے مقام کے درمیان جاری ہے۔ یہی رد ِ تشکیل جب سوشل ماڈرنزم پر کی جائے تو پیٹریارکل آرکیوڈ سٹیٹس کے بوجھ تلے دبی تمام عورتوں کی کتھا ہے ۔ چاہے وہ دیوانگی کی اس سطح پر پہنچیں یا نہ پہنچیں ۔
امیجری زیادہ استعمال نہیں ہوئی ، علامات میکرو لیول کی ہیں ، جیسے عورت بحیثیت گھائل نصف آبجیکٹو کو ریلیٹو کے اعتبار سے ایک بہترین مثال ہے جسے انفرادی صلاحیت سے دور ِ حآضر کی کیفیات کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔
فیمینزم ۔۔۔ طربیہ اور المیہ ایک ساتھ سامنے آتے ہیں ، ایک قید عورت کی کہانی جس کی منزل آزادی ہے ۔ جس کا سفر آزادی نہیں مگر خواہش اور مقصد آزادی ہے ۔ جو کامیابی کا اعلان سن کر کیا محسوس کرے جب وہ اس کی ہو اور اسے حاصل نہ ہو سکے ۔ ایک مختصر افسانہ کی ایسی عمدہ مثالیں بہت کم دیکھنے میں آتی ہیں ۔ جس کا گراؤنڈ سوشلسٹ فیمینسٹ ہے ۔ ایک ہاؤس وائف کبھی اپنا مقام حاصل نہیں کر سکے گی ، جب تک وہ فیلڈ میں مرد کے برابر نہ آ سکے۔
تشکیک میں بہت سہولت اور آسانی کے ساتھ وہ ایک عام سوشل ڈسکورس کی شکار کردار کے ذریعے سمجھا جاتی ہے کہ ایسی آزادی کا تصور کتنے بڑے مغالطہ پر قائم ہے ، اور کیسے آئیڈیالوجی کے ذریعے معاشرے کے ہر فرد کو غلام بنا لیا جاتا ہے ( پسِ ساختیات )۔ یہ افسانہ مکمل طور پر ایک فلسفہ اور سوکریٹک ڈائیلکٹکس کی عمدہ عملی مثال ہے ۔
ایک گاؤں کی کہانی قاری کو مذہب کے منفی استعمال اس کی وجہ سے ہونے والے عظیم نقصانات ، افراد کی منفی خواہشات اور برہنگی کا لبادہ بنتے اور زمین و فضا کو سرخ ہوتے دکھاتی ہے۔ اس افسانے کو (Social Psychological ) گراؤنڈ پر پرکھنا بہت اہم ہے ، معمولات ( Norms ) مذہبی ہوں یا غیر مذہبی ان میں اندھی تقلید اور عدم تجزیاتی رجحان بہت سی سٹیریو ٹائپس کو جنم دیتا ہے ۔ حاکم ، بارسوخ اور منفی رجحانات کا حامل مگر طاقتور طبقہ انہی کے زیر ِ اثر نسلوں کے ذہن نگل جاتا ہے ۔ ایسی جہالت جنم لیتی ہے جو علم کو زمیں بوس کر دیتی ہے ، قبائلی نظام کے ساتھ اس کی جڑت ، ( Pastoral ) گراؤنڈ اور ( Imagery ) کے ساتھ اسے معاشرتی عمرانیات کے ایک نمونے کی طرح لیا جا سکتا ہے ۔ جو ہماری موجود معاشرتی حالت کی نہ صرف عکاسی کرتا ہے بلکہ وجوہات تلک لے جاتا ہے۔ رد ِ تشکیل کے حوالہ سے اس کا مرکز بلوؤں کا جنم اور مظلوم طبقات کا معاشی و جانی زیاں و استحصال ہے ۔
تیری ذات کے حوالہ میں اگرچہ مذہبی عنصر کسی حد تک وکیلانہ رنگ میں ہے مگر واضح بیانیہ انسان دوستی اور محبت کا درس لیے ہوئے ہے اور مرکزی کردار کی خوبصورتی مذہب بدلنے سے پہلے بھی وہی تھی ، اور بدلنے کے بعد بھی ۔ یعنی عظمت مذہب بدلنے سے نہیں انسان سے محبت کرنے میں ہے ۔ ردِ تشکیل میں اس کا مرکز مذہب یا اسلام سمجھنے سے میں قطعاً متفق نہیں اور میرے رائے میں یہ انسانیت اور باہمی محبت ہے ، جو روشنی کی علامت سے واضح ہوتا ہے ۔
دیس ملکی اور ڈیاسپورا کا حسین سنگم اور ایک مکمل حزنیہ ہے جو ثقافتی تغیر ، رشتوں کو خواہشات اور زر کی بھینٹ چڑھانے سے انسان خود اپنے ہاتھوں مرتب کرتا ہے ۔ اس افسانہ کی خوبی اس کا دوسری زمینوں سے متعلق افراد کا اس میں انجذاب ہونے کا ناممکن عمل ، اپنی جڑوں میں کسی بھی شجر کے پیوست رہنے کی منطق کو واضح کرتا ہے ۔ دوسری طرف ( Conflict ) نمایاں ہے جو مارکسی معاشرتی تناظر میں انتہائی اہم ہے ، اور اس سے زیادہ اہم اس کا زر ، پرائمری گروپس ، فیملی اور پوسٹ ماڈرنزم سے متعلق ہونا ہے ( عمرانی طور پر ) ۔
سنو مین ڈیاسپورا کی ایک خوبصورت مثال ہے ، اور جنسی خواہشات کی بے لگامی پر ایک کاری وار بھی ۔ جس کو بہت عمدہ افسانوی ترکیب سے سامنے لایا گیا ہے۔ نور العین ساحرہ کے ایسے تمام افسانے ان رنگین خوابوں کو بے وقعت ثابت کرتے ہیں جو یہاں سے بہتر زندگی کے طور پر دیکھے جاتے ہیں ، اور ان تمام مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ جو پردیس میں سامنے آتے ہیں انفرادی اور اجتماعی ذہنی زبوں حالی کی عکاسی بھی کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ ایک سچی لبرل ، اور سوشلسٹ فیمینسٹ کےٓ روپ میں سامنے آتی ہے ، جس کے سامنے صرف حقیقت ہے ، شہرت کا کوئی سستا خواب ، پاپولر فکشن یا اس حوالے سے ( Pornographic lust ) نہیں ، جس کو وہ مشہور ہونے کا ذریعہ بنائے ۔ صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ سچی لکھاری ہے ، اور وہ سچ لکھنا چاہتی ہے ، حقیقت کو رقم کرتی ہے ۔
شبانہ کا شوہر عورت کے گرد مصنوعی دیوار کی نشاندہی ہے ، جو معاشرتی کلامیہ کا ہی عکس ہے ، عورت کا المیہ جسے کوئی عورت ہی سمجھ سکتی تھی ۔
لبرل جڑیں اپنے اختتام پر پلٹتے ہوئے ایک ایسی حقیقت سامنے لاتا ہے جو انسان میں کسی وجہ سے ایک لمحہ میں رونما ہونیوالا ایسا تغیر ہے جو اس کو یکسر بدل کر رکھ دے ۔ اور ہر محبت ہر گمان پل بھر میں قصہؑ پارینہ محسوس ہو ۔ ایک خوبصورت ( Paradoxical creative work ).
دو اور دو بائیس ۔۔۔ ظاہر اور مخفی انسان کو بیک وقت سامنے لاتی ہے جو ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں ، اور افسوس کہ کامیاب بھی ، ایک المیہ جو ہمیشہ خلوص اور محبت کے لہو سے لکھا جاتا ہے ، مخلص اور سچے کردار (افراد) جس کی بھینٹ آسانی سے چڑھ جاتے ہیں . یہ افسانہ
(True bad and false good conscious dual personality ) کی عمدہ مثال ہے ۔
ہولی گھوسٹ کی تکنیک پور فول ( دوستووسکی) کی تکنیک کے مشابہہ ہے جس میں انتہائی حساس موضوع اپنی جزئیات سمیت رقم ہے ۔ اس کو بجا طور پر ایک بہترین سائبر افسانہ کہا جا سکتا ہے۔
ان نمایاں افسانوں میں جو انڈو پاک کے مختلف اہم ادبی رسائل کی زینت بن چکے ہیں ، نور مکمل طور پر اپنے پہلے زمینی مقام سے جڑی ہوئی نظر آتی ہے ۔ اور اسی زبان سے بھی جو اس زمینی مقام پر اس نے سیکھی ، ہجرت نے اسے ڈیا سپورا مسائل پر جو گرفت اور اوریجنیلیٹی عطا کی ہے وہ شاید کسی اور لکھاری (خصوصاً خواتین ) میں نظر نہیں آتی ۔ اس کی نمایاں خصوصیات میں عمرانی پہلوؤں پر اچھی گرفت ، ادبی اور تنقیدی مطالعہ اور سب سے اہم بات ایک اچھا مشاہدہ موجود ہے جس کے ساتھ تجزیاتی صلاحیت اس کے تخلیق کو انفرادیت اور نمایاں قوت عطا کرتے ہیں ۔ جیسا کہ پارکنگ لاٹ ، آخری کہانی ، ایک گاؤں کی کہانی اور دوسرے افسانوں میں نمایاں ہے ۔
پیچیدہ معاشرتی اور عالمی مسائل کو کلامیہ میں سادگی سے بیان کرنے سے لے کر ، علامات کے استعمال ، متنی پیچیدہ بنت ، نفسیاتی عوال اور وجوہات تک رسائی ، جزئیات نگاری پر گرفت ، انفرادی ، گروہی ، اجتماعی تناظر کو فرد ِ واحد میں سموتے ہوئے بیان کرنا ، تاریخی جبر کا ادراک اور تخلیق اظہار ، مرکز مائل اور مرکز گریز تخلیق کو خاص ترتیب سے کرافٹ میں لانا ، یہ تمام صلاحیتیں اس کے افسانوں میں نمایاں نظر آتی ہیں ۔ اور یقین کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل کے سفر میں وہ اس میں اضافہ اور مزید نکھار لاتی جائے گی اور ہم کئی شہکار پڑھ کر حظ اٹھا سکیں گے۔
افسانے کے ساتھ ساتھ مجھے خوشگوار حیرت کا سامنا اس وقت ہوا جب میں نے ایسے مضامین پڑھ کر افسوس کرنا شروع کیا تھا ، جو خصوصا ساختیاتی اور پسِ ساختیاتی حوالوں سے لکھے جاتے ہیں اور ترجمہ شدہ یا جگالی زدہ مواد اپنے نام سے شائع کروایا جا رہا ہے ۔ گوپی چند نارنگ نے منٹو اور فیض پر کام کیا جس کو پڑھ کر تسلی ہوئی کہ کچھ ( Original ) سامنے آ رہا ہے ،پھر کچھ عرصہ پہلے نورالعین ساحرہ کا ثالث اور اس کے بعد انقلاب میں اداریہ " اردوافسانے کا مستقبل ۔۔ عالمی تناظر میں " پڑھنے کو ملا جس میں اس نے اردو ادب اور افسانہ نگاری کا جائزہ ( Colonial and postcolonial ) حوالہ سے لیا ۔ اگرچہ نئے لکھاریوں سے ایسا مواد نہیں مل سکا مگر امید ہے ایسے تنقیدی اور تعمیری اداریے اور کاوشیں ایک مہمیز کا کام کریں گی ۔ پرانے لکھاریوں جن میں احمد ندیم قاسمی ، منشی پریم چند اور قراۃ العین حیدر کا جائزہ سرسری بھی جتنا معنویت اور استدلال سے بھرپور ہے ۔ وہ گہری بصیرت کی کی طرف توجہ دلاتا ہے ۔
یہی گہری بصیرت اور تجزیاتی صلاحیت نور کے کافکا اور اس کے فکشن پر لکھے گئے مضمون میں اس سے بھی نمایاں نظر آئی ، کافکا جس کا جنم عظیم جرمن فلسفی مارکس ی وفات کے قریب قریب ہوا ،اسی دور کا شاہد اور اسی نظام کا مخالف ایک پیچیدہ ترین شخصیت اور پیچیدہ ترین مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے جس پر قلم اٹھانا بھی حوصلے کی دلیل ہے ۔ اس مضمون میں میٹامورفوسز سے لے کر ٹرائیل اور دوسری تخلیقات کے بارے سرسری جائزہ اور تجزیہ لیا گیا وہ اپنی ایک الگ اہمیت رکھتا ہے ، مضمون کیونکہ مصنف کے کام اور اس کی زندگی دونوں سے متعلق تھا اس لیے تخلیقات کے ساتھ اس کے دور اور اس ذہن کا تجزیہ لازم تھا جو آپسی تفاعل کے بعد ایسی تخلیقات کا سبب بنے ۔
نور بحیثیت نقاد اسی گروہ میں شامل کی جا سکتی ہے جس میں ٹی ایس ایلیٹ سب سے اہم ہیں یعنی تخلیق کار اور نقاد ۔ یہ دونوں اوصاف اسے تخلیقی کام کے متن کو سمجھنے میں بہترین معاون ثابت ہوتے ہیں ، جیسا کہ اسکے اہم مضمون" منٹو کے افسانہ بو کے متنی جائزہ میں نمایاں ہے ، اگر وہ ہمارے ناقدین کے تنقیدی عمل سے مطمئن نہیں تو میں اسے بہر طور اس معاملہ میں حق پر سمجھتا ہوں ۔ کیونکہ وہ ماضی اور تخلیق کار کی ذات سے ہٹ کر فردا اور تخلیقی کام پر توجہ مبذول کرنے کی خواہشمند ہے ۔ بو کے متنی جائزہ میں منٹو پر پہلے سے کی گئی تنقید کو کسی حد تک نشانہ بنانے میں نور کامیاب نظر آتی ہے ۔ نسوانی کردار کا خاموش کٹھ پتلی بنے رہنا شاید ہی کوئی جائز قرار دے سکے ( میں خود منٹو کا قدردان ہوں ) ۔ گوپی چند نارنگ کے بقول اگر منٹو معاشرہ کو ماں کی نظر سے دیکھتا ہے ، تو بو کے معاملہ میں واقعی ایسا نظر نہیں آتا ۔
اپنی تنقید میں پروگریسو ایپروچ کے ساتھ پسِ ساختیات تک رسائی کی وجہ سے اس میں ایک بہت اچھی ابھرتی ہوئی نقاد کی جھلک نمایاں ہے ۔ جس کے ایک بہترین افسانہ نگار ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔
(باسط آزر)