جرمنی میں اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے متعدد ادبی تنظیمیں سر گرم عمل ہیں: عارف نقوی
شعبہ اردو،سی سی ایس یونیورسٹی میں ”جرمنی میں اردو کی صورت حال“پر خطبہ اور تین کتابوں کی رسمِ اجراء
میرٹھ8/اپریل2017ء(پریس ریلیز)
شعبہ اردو، چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی، میرٹھ کے پریم چند سیمینار ہال میں شعبہ اردو کے دو سابق طالب علموں کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں،چاندنی عباسی کی کتاب ”ڈاکٹر ودیا ساگر آنند: حیات و خدمات“ اور پشپیندر کمار نم کے مضامین کا مجموعہ”زاویہئ نظر“ کا اجراء عمل میں آیا۔جس میں مہمان خصوصی کے بطور جرمنی سے تشریف لائے اردو کے معروف اسکالر محترم عارف نقوی شریک ہو ئے اور صدارت کے فرائض صدر شعبہ اردوڈاکٹراسلم جمشید پوریؔ نے انجام دیے۔ اس موقع پر عارف نقوی کی کتاب ”راہِ الفت میں گامزن“ کا اجرا بھی عمل میں آیا۔ جلسے میں بطورمہمانان ذی وقار یو نیورسٹی کے کار گذار رجسٹرار ڈا کٹر دنیش کمار،سابق وزیر حکو مت اتر پردیش ڈاکٹر معراج الدین احمد اور عرشیہ پبلی کیشنز، نئی دہلی کے منیجرمحترم اظہار ندیم نے شر کت کی۔ استقبالیہ کلمات ڈا کٹر شاداب علیم، نظا مت ڈا کٹر آ صف علی اور شکریے کی رسم ڈا کٹر الکا وششٹھ نے ادا کی۔
اس سے قبل پروگرام کا آ غاز مولانا نجم الدین نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔ ہدیہئ نعت محمد وصی نے پیش کیااورمہمانوں کا پھولوں کے ذریعے استقبال کیا گیاجب کہ پشپیندر کمار نم کوبزم اردو کے سیکریٹری شاکر مطلوب اور چاندنی عباسی کو بزم اردو کی صدر شبستاں پروین نے بکے پیش کیا۔
کتابوں اور مصنفین پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مفتی راحت علی نے کہا کہ ابھی ان کی کتابوں میں شمس الرحمن فاروقی اورگوپی چند نارنگ جیسی سنجیدگی تلاش کرنا ان کے ساتھ نا انصا فی ہو گی۔البتہ ان کی محنت،لگن،ایمانداری،سے قائل ہونا پڑتا ہے اور ان کا مستقبل تابناک نظر آتا ہے۔کافی حد تک دونوں نے اپنے موضوع سے انصاف کر نے کی بہترین سعی کی ہے جو یقینا قابل تحسین ہے۔
اس موقع پر مہمان خصوصی محترم عارف نقوی نے”جرمنی میں اردو کی صورت حال“ پر ایک خوبصورت لیکچر پیش کیا۔انہوں نے بتایا کہ جرمن میں مقبول ترین زبان سنسکرت تھی۔ ٹیگور کے جانے کے بعد بنگالی زبان کا چلن ہوا۔ 1961ء میں میرے جرمنی جانے کے بعد لوگ اردو سے متعارف ہونے لگے۔ کئی انسٹی ٹیوٹ میں اردو زبان میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا۔ہندو پاک سے اردو کے ادیب و شاعر آنے جانے لگے، ادبی انجمنیں قائم ہو نے لگیں۔ مختلف ورکشاپ اور کانفرنسیں منعقد ہونے لگیں اور انہی چیزوں کے ذریعے جرمنی باشندوں نے اردو زبان و ادب کی اہمیت کو بخوبی سمجھنا شروع کردیا اور اردو ادب کے تراجم کا فروغ ہونے لگا۔ اس وقت جرمن میں اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے متعدد ادبی تنظیمیں سر گرم عمل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اپنی زبان، اپنے ملک اور انسانی اقدار کو اعلی سمجھتا ہوں اور یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ہما را ملک اور ادب انسانی اقدار کے تعلق سے دیگر مما لک کے لیے مثال قائم کر سکتا ہے۔
ڈا کٹر دنیش کمار نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح پیڑ کی جڑیں دکھائی نہیں دیتیں لیکن پیڑ کو تھا مے رکھتی ہیں اسی طرح ادیب بھی اپنے فن سے معاشرے میں انسانی بقا کے کام انجام دیتے ہیں۔
اس مو قع پر ڈا کٹر اسلم جمشید پوری ؔنے اپنے صدارتی خطبے میں کہا ”شعبہ اردو کا مشن میرٹھ کو ادب کی مین اسٹریم میں لانا ہے۔اسی مشن کی ایک کڑی آج کا یہ جلسہ ہے۔جس میں شعبے کے دو سابق طالب علموں کی کتابون کا اجرا عمل میں آیا۔یہ دونوں کتابیں چاندنی عباسی اور پشپیندر کمار نم کی طالب علمانہ کوشش ہیں،جن کی ہمت افزائی ہونی چاہیے۔اور محترم عارف نقوی صاحب کی کتاب”راہِ الفت میں گامزن“ در اصل ان کے سفر ناموں کا مجموعہ ہے۔یہ اردو میں نئی پہل ہے۔اس میں چھوٹے چھوٹے سفر نامے ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے افسانے کا لطف بھی آتا ہے اور سفر کے حالات کا علم بھی ہوتا ہے۔
ڈا کٹر معراج الدین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے میرٹھ کے لئے فخر کی بات ہے کہ یہاں ملک اور بیرونِ ملک کی معزز ادبی اور سماجی شخصیات تشریف لاتی رہتی ہیں۔
پروگرام میں ڈاکٹر فوزیہ بانو، ڈا کٹر ہما مسعود، ڈا کٹر راجکمار ساگوان، ڈاکٹر ایشور چندر گمبھیر،سید معراج الدین، ڈا کٹر فرقا ن سردھنوی،، محمد آصف، آفاق احمد خاں،چاند میاں عباسی،کنور ویر چودھری، تسلیم احمد، سنیل کمار نم، راہل گو جر، وسیم خان، نذیر میرٹھی، سمیع خان، اکرام بالیان، ظہیر انور، تسلیم جہاں،اسما پروین، عامر نظیر ڈار،سمنیش سمن، بھارت بھو شن شرما،انل شرما،سید جاوید اختر،تفضل کریم سمیت کثیر تعداد میں طلبہ طالبات اور عمائدین شہر نے شرکت کی۔