شعبہ اردو،سی سی ایس یو میں چہار روزہ کثیر لسانی عالمی سیمینار(اردو،ہندی،انگریزی)جاری
دوسرے روزدرجنوں مقالات کے علاوء بک فیئر، آرٹ گیلری اور شام افسانہ کا انعقاد
(پریس ریلیز)
9/دسمبر2018
شعبہ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ اور اتر پردیش اردو اکادمی کے اشتراک سے’موجودہ سماجی تغیرات کے فکشن پر اثرات“ عنوان سے منعقدہ چہار روزہ کثیر لسانی عالمی سیمینار(اردو،ہندی،انگریزی) کے دوسرے دن اردو کے دو اجلاس،ہندی کا ایک اجلاس اور شام افسانہ کی محفل منعقد کی گئی۔ساتھ ہی اس مو قع پریونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس کی طالبات اور معروف آرٹسٹ ڈاکٹر عابد زیدی کی پینٹنگ سے سجی آرٹ گیلری اوربک فیئر کا بھی اہتمام کیا گیا۔شام میں عالمی مشاعرہ منعقد ہوا۔
سیمینار کے پہلے اور دوسرے اجلاس کی محفل صدارت پرپرو فیسر غلام ربا نی بنگلہ دیش، سر دار علی،امریکا، پروفیسر صا لحہ رشید، الہ آ باد، پرو فیسر ارادھنا، ڈاکٹر فو زیہ بانو،عارف نقوی، جرمنی، مقصود انور قطر، ڈاکٹروضاحت حسین رضوی،ڈاکٹر نعیم فلاحی، طالب زیدی رونق افروز رہے۔ان اجلاس میں ڈاکٹر حسن البنا، بنگلہ دیش،ڈا کٹر نعیم فلا حی راجستھان، ڈا کٹر عابد حسین حیدری، سنبھل، بشیر مالیر کو ٹلوی، پنجاب،پروفیسر غلام ربانی،پروفیسر صا لحہ رشید، ڈا کٹر اختر آزاد، جاوید انورنے اپنے مقالے پیش کیے۔ جب کہ ہندی سیشن کی مجلس صدارت پر رام گو پال بھارتیہ،ڈا کٹر کویتا تیاگی، امیش بھا ردواج، ڈا کٹر پرگیہ پا ٹھک، ڈا کٹر دیپا تیا گی،ڈا کٹر بینا شرما، نیرج شرما اور بھا رت بھوشن شرما رونق افروز رہے۔ اس اجلاس میں ڈا کٹر ودیا ساگر سنگھ،ڈاکٹر اسلم صدیقی، آشو، ممتا وغیرہ نے اپنے مقالے پیش کیے۔ ان تینوں اجلاس کی نظامت باالترتیب ڈا کٹر آصف علی، ڈاکٹر ارشاد سیانوی اور ڈاکٹر الکا وششٹھ نے کی۔
ان اجلا س میں پڑھے گئے مقالوں کا خلاصہ یہی تھا کہ ادب سماج کا آئینہ ہو تا ہے۔ ادب میں جو کچھ بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں فکشن پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔منشی پریم چند سے لے کر موجو دہ عہد تک سبھی فکشن نگاروں نے اپنے اپنے سماج کی بہترین عکاسی کی ہے۔ کچھ مقالوں میں اس بات پر بھی رو شنی ڈالی گئی کہ پریم چند کے عہد کے پس ماندہ طبقات، عورتوں اور مزدوروں،کسانوں کا استحصال جیسی معاشرتی برائیاں سماج میں اس لیے با قی ہیں کہ انسان نے خود کو ظا ہری طور پر تو سنوارا ہے جب کہ انسان کو انسان بننے کے لیے اس کے باطن کا صاف و شفاف ہونا نہایت ضروری ہے۔ موجودہ عہد میں تغیرات کی شدت نے سب کچھ یکسر بدل دیا ہے۔ کمپیوٹر عہد، آئی ٹی کا بے حد استعمال، سوشل میڈیا، نئی نئی سماجی اصطلاحات سے ایک نیا ما حول سامنے آ یا ہے۔ قدریں ختم ہو رہی ہیں۔ رشتوں کا احساس ٹوٹ رہا ہے۔ ایسے میں ہمارے ادب خصوصا فکشن نے ان سب کو عمدگی سے اپنے اندر اتارا ہے۔
شام افسا نہ کی محفل شام 5/ بجے منعقد کی گئی جس میں ایم اے حق، رانچی، طالب زیدی، میرٹھ، مسعود اختر، میرٹھ، ڈا کٹر نگار عظیم،دہلی اشتیاق سعید، ممبئی، پرو فیسر اسلم جمشید پوری، اسرار گاندھی، الہ آ باد، ارشد منیم، پنجاب اور عارف نقوی،جرمنی نے اپنے افسانوں کی قرأت کی۔جن پر حقانی القاسمی نے تبصرہ کیا۔
اس موقع پرڈا کٹر اسلم صدیقی، ڈا کٹر جمال احمد صدیقی،ڈا کٹر شاداب علیم، ڈاکٹر آصف علی،ڈاکٹر ارشاد سیانوی،ڈا کٹر اختر آ زاد، محمد بشیر مالیر کوٹلوی،فر زانہ بنت عاصم، سلیم سیفی، حاجی مشتاق سیفی،ڈا کٹر فر حت جہاں،شبستاں،اسرار گاندھی،مدیحہ اسلم،امیر عالم، اسرار احمد، آفتاب انصاری،فیضان انصاری،محمد شمشاد،اشتیاق سعید،عبدالباری، ناصر آزاد،ارشد منیم،جاوید انور،احمد حسنین،نیاز اختر،نذیر میرٹھی، رفیق،ریوانی،عمائدین شہر اورکثیر تعداد میں طلبہ و طالبات نے شر کت کی۔