الأربعاء, 08 أيار 2019 09:55

زخمی احساس کا شاعر مشتاق احزن : ڈاکٹر معصوم رضا امرتھوی

Rate this item
(0 votes)

 

زخمی احساس کا شاعر:مشتاق احزن

صبح ہونے تک کے آئینے میں

ڈاکٹر معصوم رضا امرتھوی

سابق صدر شعبہ اردو، مہیلا کالج،جموئی،بہار

09934664444, 093408186380

 

 

                         مشتاق کا زخمی احساس مسلسل زخموں کی چوٹ کھا کر سکون محسوس کرتا ہوا زخمی احساس سے پیدا شدہ حالات کے تحت حزن وملال کی تاریکی میں ڈوب کر نئے حوصلے کے ساتھ ”صبح ہونے تک“ کے انتظار میں اپنا ذہنی سفر جاری رکھتاہے۔ موصوف اپنے اس ذہنی کرب کے اظہار کے لئے جو شعری Patternاختیار کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے جو معنویت اور اثر انگیزی میں جواب نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے علامہ ناوک حمزہ پوری جیسے بزرگ استاذ شاعر نے ان کے شعری فکر کو بے داغ اورتہذیب ِغزل کی شان کہا ہے   ؎

فنکار غزل حضرت مشتاق احزن

پاکیزہ ہے ہر فن تو بے داغ ہے فن

تہذیب غرل کے یہ نقوش ذی شان

تاریخ سخن کے یہ طبرناک بیان

                احزن کے شعری محاسن سے پھر پور اشعار نے مجھے بے حد متاثر کیا   ؎

نہ پوچھ ساتھ گزرا ہوا وہ اک لمحہ

جو یاد آئے تو کتنا سکوں دیتا ہے

                مجموعہ کلام ”صبح ہونے تک“ علامتی اہمیت سے لبریز ہے۔ جناب اسلم بدر نے ٹھیک ہی کہا کہ مشتاق احزن کی شاعری میں مشتاق پر احزن غالب ہے۔ چونکہ ان کے زیادہ تر اشعار پر حزن و ملال کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ میرے خیال میں یہی ان کی شاعری کی جان ہے۔ بقول انگریزی زبان کے مشہور شاعر P.B.Shelley

Our sweetest song are those which are full of pathos

                چونکہ حزنیہ شاعری میں دردوغم اور سوزوگداز ہوتاہے جو رنگِ تغزل کو نکھارتاہے۔ میر تقی میر اپنی حزنیہ شاعری کے دلکش انداز اور سوزو گداز کے سبب شہنشاہِ تغزل کہلاتے ہیں۔مشتاق احزن کی شاعری اسم بامسمیٰ جو قابلِ تحسین اور منفردہے۔

                موصوف ہر جگہ شکایتِ زمانہ، بے بسی، مایوسی اور بے حسی کا رونا روتے نظر آتے ہیں مگر یہ رونا بے سبب نہیں ہے   ؎

اپنے اشکوں کو یہی سوچ کر پی لیتا ہوں

 چند قطرے کبھی یہ سیلاب نہیں لاسکتے

                یہ Pessimisticقنوطی فکر کو واضح کرتی ہے مگر اس کے باوجود موصوف شاعری کی عام روش اور شاعروں کی عام صف سے الگ نظر آتے ہیں۔ ان کے تخلص کے مطابقت سے ان کے کلام میں حزن وملال، کرب و انتشار کی فراوانی انہیں قنوطیت کے قریب بے شک لے جاتی ہے۔

خوشی کا کوئی پل مجھ پر کبھی غالب نہیں آتا

یہ وہ دل ہے، جو بس محرومیوں سے پیار کرتا ہے

دامن کو آنسوؤں سے بھگونا پڑا مجھے

خواہش تھی مسکرانے کی رونا پڑا مجھے

                یہ رنگ اور بھی گہرا ہوجاتاہے جب کہتے ہیں   ؎

درد کل کو چھپاتے ہوئے جی لیتا ہوں

ٹوٹتے رہتے ہیں منظر مرے اندر کتنے

                مایوسی اور بے بسی کا درد ابھر کر سامنے آجاتا ہے جب شاعر یہ کہتا ہے   ؎

آج کی رسوائیوں پہ کیوں ہے تو احزن اداس

تجھ پر سیمینار ہوں گے دم نکل جانے کے بعد

                ہر زمانہ کے ہر شاعر کا وطیرہ یہی رہا ہے۔میر بھی شاکی رہے غالب کو بھی گلہ رہا۔ مایوسی اور بے بسی میں گھرے مندرجہ بالا اشعار میر تقی میر کا انداز لئے ہوئے ہیں۔ ان کے حزنیہ کلام ناقدری،گلہ شکوہ سے بھرپور اشعار سے متاثر ہوکر اسلم بدر جیسے شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ”مشتاق کی شاعری میں جذبوں کی لطافت پر کثافتِ حزن وملال غالب آچکا ہے۔“

                ایسا کہنا بجا ہے۔ چونکہ فنکار اپنے ماحول کا پروردہ ہوتاہے، حالات و حوادث سے متاثر ہونا ناگزیر ہے اور یہ احساس حیاتِ انسانی کا عظیم سرمایہ ہوتاہے۔ موجودہ دور کے مادیت پرست ماحول نے انسان کو اس قدر بے مروت اور بے حس بنادیا ہے کہ رشتوں کی پہچان مٹ گئی ہے۔ آج کا انسان انسانیت کی سطح سے کافی نیچے گر گیا ہے، جس کا احساس شاعر کو بے چین کردیتاہے   ؎

کھڑاہوا ہے جو تن کر قطار انساں میں

وہ شخص مجھ کو تو انساں عمر بھر نہ لگا

خزاں چشیدہ ہوئے کیوں سبھی پرانے پیڑ

جو سایہ دار ہو ایسا کوئی شجر نہ لگا

                اکثر شعرا کو ان کی بے جا انانیت نے انہیں گمراہ کیا بدنام کیا مگر احزنؔنے بے جا ”انانیت“ سے اپنے دامن کو بچائے رکھا ہے، جو ان کے ایک اچھے شاعر کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان ہونے کی غماز ہے جو ان کی خاکساری کو اجاگر کرتی ہے   ؎

ہم غزل کہتے ہیں احزن پھر بھی اپنے ہاتھ میں

ہے کہاں الفاظ کی جادوگری کا آئینہ

                شاعر اس قدر حساس ہے کہ اسے دوسروں کے احساس و جذبات کی پاسداری کا احساس بے چین کردیتاہے۔

احزنؔ وہ میرے سامے کچھ اتنا جھک گیا

رسوا خود اپنے آپ سے ہونا پڑا مجھے

                احزن جتنے اچھے شاعر ہیں اتنے اچھے انسان بھی ہیں ورنہ اردو کے اکثر شعرا بڑے ہونے کے باوجود ان میں کہیں بڑا پن دکھائی نہیں پڑتاہے۔ ان کے کردار و گفتار میں کافی تضاد پایا جاتا ہے۔ عمران پرتاپ گڑھی کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے اردو زبان وادب کے سہارے مشاعرے کو توسط سے مسلمانوں اور اردو داں حضرات کا جذباتی استحصال کرکے سستی شہرت اور دولت کمانے کے لئے شاعری کو وسیلہ بنایا۔ اللہ کا شکر ہے کہ مشتاق احزن گروپ بازی سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اردو زبان وادب کی خدمت کررہے ہیں۔ جہاں تک ان کی حزنیہ اور بے حسی و بے بسی، مایوسی اور حزن وملال سے بھر پور شاعری کا سوال ہے تو انہیں مکمل طو ر پر زخمی احساس کا شاعر کہنا بجا نہ ہوگا۔ چونکہ ان کے مجموعہ کلام میں ہمیں جابجا حوصلہ مندی،عزم، جوش و ولولہ اور امید کی جھلک بھی ملتی ہے   ؎

اسی کے ہاتھ خزانہ لگے سمندر کے

وہ آدمی جسے گہرائیوں سے ڈر نہ لگا

ہوا میں دیپ جلانے کا حوصلہ کرنا

نئی لکیر نیا ہی شگون دیتا ہے

عزم ہی سے آدمی پاتاہے منزل کا سراغ

ٹھوکریں کھاکھا کے گر کے سنبھل جانے کے بعد

چلاؤ جتنا چلا پاؤ اس پہ تم پتھر

سنبھل نہ پاؤگے جب ہوگا وار شیشے کا

ہزار بار یہ بکھری ہے اور سمٹی ہے

ہماری ذات ہے اردو زباں کی صورت

                شاعر موصوف نے زندگی کے نشیب و فراز، تغیراتِ زمانہ سے پیدا شدہ انتشار، تباہی وبربادی، حزن وملال، شرافت وانسانیت کی پامالی،زندگی کے ہر شعبہ حیات کی گراوٹ اور مختلف موضوعات ومضامین کو شعری پیکر میں بڑے والہانہ اوردلکش انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں خلوص کا مخلصانہ اظہار ملتاہے   ؎

فرعون وقت کوئی بھی ہو سرکشی کرو

یارو میری طرح بسر زندگی کرو

                اس میں شک نہیں کہ احزنؔ کی شاعری میں زمانے ناقدری اور گلہ شکوہ کے سبب تلخی اور بے رخی نے احتجاجی صورت اختیارکرلی ہے مگر یہی احتجاج تو نئی توانائی پیداکرتی ہے جو حوصلہ مندی کی علامت ظاہر کرتی ہے اور اس کے جواز میں علامہ ڈاکٹر محمداقبال کا یہ شعر پیش کیا جاسکتا ہے   ؎

گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا

جب روح کے اندرمتلاطم ہوں خیالات

                موصوف کی شاعری سیدھا سادہ انداز بیان ہے۔ ان کی شاعری میں زلفوں کے پیچ و خم نہیں بلکہ سادگی کا حسن ملتاہے۔ ان کی شاعری میں جدید نظریات و خیالات کے ساتھ ساتھ روایت کی پاسداری بھی ملتی ہے۔ حقیقت پسندی اور ترقی پسندی نے ان کے کلام کو اوربھی نکھار دیا ہے۔

                کسی بھی فن سے تعلق رکھنے والا شخص عام اور نارمل انسان نہیں ہوتا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ابنارمل ہوتاہے بلکہ اس کا لا شعور اس کی تحریروں میں نمایاں ہوجاتا ہے۔فنکار اپنے لاشعور کی بھول بھلیوں میں نہ جانے کہاں کہاں بھٹکتاہے۔ وہ کبھی احساسِ کمتری کا شکار ہوکر قنوطیت کی وادیوں میں گم ہوجاتاہے اور کبھی احساس برتری میں رجائیت کے پہلو سے گزرکر بے جا انانیت کامظاہرہ کرنے لگتاہے۔ احزنؔ ان دونوں پہلوؤں کے سماجی اور طبقاتی کشمکش پر بھی غوروفکر کرتے نظر آتے ہیں   ؎

امیر شہر کے لاشے پہ خلقت ٹوٹ پڑتی ہے

کسی مفلس کی میت پر کبھی ماتم نہیں ہوتا

جس دن سے خود کو پیکر الفت بنالیا

احزن کو آئینے کی ضرورت نہیں رہی

                موصوف کی شاعری میں زندگی کا کوئی پہلو مخفی نہیں ہے۔ موصوف بیٹی کے جوان ہونے پر باپ کے دل پہ کیا گزرتی ہے کا ذکر اس طرح کیا ہے   ؎

اک باپ غمزدہ ہے قسطوں میں مررہاہے

احساس ہے کہ گھر میں بیٹی بڑی ہوئی ہے

                حالانکہ مذکورہ شعر میں تکرار الفاظ اور آورد نے شعر کی دلکشی کو گھن لگا دیا ہے۔

                ملت کے ہونہار،پڑھے لکھے،باصلاحیت نوجوانوں کی بے روزگاری سے تنگ آکر دیارِ غیر میں ہجرت اور مختلف اقسام کی اذیت کا درد محسوس کرتے ہوئے شاعر کا درد مند دل تڑپ اٹھتاہے   ؎

آسرا جن کا نہیں ہوتا یہاں

آس رکھتے ہیں سمندر پار سے

ان سے ہجرت کی اذیت پوچھئے

دور ہوجاتے ہیں جو گھر بار سے

                ملک کی موجودہ فرقہ پرستی اور انسانیت سوز واقعات کی طرف شاعر توجہ مبذول کراتے ہوئے کہتاہے   ؎

کبھی وقار وطن ہم بنائے جاتے ہیں

کبھی گھروں میں زندہ جلائے جاتے ہیں

ہے جن کے خون میں شامل وطن سے غداری

سبق وفا کا وہ ہم کو پڑھائے جاتے ہیں

                سچائی کا علم بلند کرنے والے فنکار کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ فریبی، عیارو مکار، خوشامدی، مبالغہ آرائی کرنے والے کوتاہ قد فنکاروں کو اہلِ علم نواز رہے ہیں،جو ایک المیہ ہے   ؎

انعام جھوٹ کہنے پہ دیتے ہیں اہل علم

سچائی ہے گناہ ادیبوں کے شہر میں

                اپنوں سے بے مروتی آج کے مسلمانوں کا وطیرہ بن گیا ہے جس کی طرف شاعر بڑے دکھے دل کے ساتھ توجہ مبذول کرتے ہوئے کہتا ہے   ؎

جب کہ اپنوں نے پھیر لیں نظریں

غیر سے بے رخی کا شکوہ کیا

                صفحہ 95 پر مذکور غزل کا ہر شعر معنوی اور صوری حیثیتوں سے قابلِ تحسین ہے۔بالخصوص مطلع کا شعر   ؎

جو مٹتاہے وہی رہتا ہے باقی داستاں ہوکر

نشاں منزل کا ملتاہے جہاں میں بے نشاں ہوکر

                آج کے پر آشوب دور میں کسی گھر میں آگ لگ جانے پر ہمسایہ بجھانے کے بجائے ہوا دے کر چنگاری کو شعلہ بنادیتا ہے۔ یہاں تک کہ باپ اور بیٹے کے درمیان بھی رشتے کی پہچان مٹ رہی ہے جس کی طرف شاعر نے اشارہ کیا ہے   ؎

کیوں کرنہ آنکھ باپ کو بیٹا دکھائے اب

نفرت کا زہر خون میں ملاتے رہے ہیں لوگ

                شاعر موصوف نے نئے استعارہ کا سہارا لے کر کیا عمدہ شعر کہا ہے   ؎

میں تیرے شاخِ بدن پر پھول سا کھل جاؤں گا

جب تیرا اجڑا ہوا گلشن صدا دے گا مجھے

                ہندوستان کی موجودہ حکومت میں جمہوری اقدار کی منصوبہ بند پامالی اور دستور ہند کی خلاف ورزی کی طرف موصوف نے بہت قبل اپنے شعر میں نشاندہی کردی ہے  ؎

جمہوریت کے نام کی مے تو چھلک چکی

خالی ہے جام اور پئے جارہے ہیں لوگ

                مگر عوام کی سادہ لوحی دیکھئے کہ پھر بھی ان سے امید وفا لگائے بیٹھے ہیں جو نہیں جانتے وفا کیا ہے اور رہزن کو رہبر سمجھ کر لٹتے جارہے ہیں   ؎

لٹتے ہی جارہے ہیں ہر اک گام پر مگر

رہزن کا اعتبار کئے جارہے ہیں لوگ

                شاعر موصوف کے کلام میں رجائیت خود اعتمادی اور عزم و حوصلہ مندی کے ساتھ جدوجہد کرنے کے پیغام بھی ملتاہے   ؎

ان آنسوؤں کونہ پوچھو کہ کتنی مشکل سے

چھپا کے پلکوں میں ہم مسکرائے جاتے ہیں

وہ اپنے ہاتھ میں تدبیر کے ہتھیار رکھتاہے

امیدوں کو اسیر بے بسی ہونے نہیں دیتا

                شہر آہن،جمشیدپور جہاں کے صنعتی و تجارتی لوگ لوہے کے،دل لوہے کا،مزاج لوہے کا ذہن اور لوہے کی زبان رکھتے ہیں جہاں معمولی معمولی باتوں پر فرقہ وارانہ تناؤ کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے اس کیفیت کی طرف شاعر نے کیا خوب اشارہ کیا ہے   ؎

ہمارے شہر کی مٹی بہت زرخیز ہے اس میں

فسادی بیج بونے کا کوئی موسم نہیں ہوتا

                موجودہ دور کی مسموم فضا کا موصوف نے باریک بینی سے مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے۔اس کا اندازہ ان کے اشعار سے لگایا جا سکتا ہے   ؎

ہر گام پر بچھی ہیں بارود کی سرنگیں

رستہ سنبھل کے چلئے اکیسویں صدی ہے

شاید کہ ہونہ جائے غرقاب ساری دنیا

مغرب کے بادلوں کی اک موج اٹھی ہے

                چند سالوں قبل گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد ملک میں فرقہ پرستی کا زہر تیزی ے پھیل رہا ہے اور مسلمانوں کی طرح طرح سے دل آزاری کھلے عام کی جارہی ہے فرقہ پرست لیڈران اب کھلے عام ملک کو گجرات بنانے کی دھمکی دے رہے ہیں جس کی طرف شاعر نے بہت قبل نشاندہی کرتے ہوئے سیکولر عوام کو باخبر کرتے ہوئے کہتے ہیں   ؎

رہنمائے ملک کا احزن ہے منصوبہ یہی

ہر جگہ گجرات کی تصویر ہونی چاہئے

امن کی خاطر یہی تدبیر ہونی چاہئے

وحشتوں کے پاؤں میں زنجیر ہونی چاہئے

                موصوف نفرت آمیز سیاست پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں   ؎

جوایک بھائی کی گردن کٹادے بھائی سے

ہمیں نہ چاہئے ایسا نظام رہنے دے

                مختصریہ کہ مشتاق احزن نے شعبہ حیات کے ہر پہلو پر شاعری کے ذریعہ روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے غمِ جاناں کو غمِ دوراں بنا دیا ہے   ؎

ابھی تو قرض زمانے کے ہیں بہت مجھ پر

اجل نہ آئے ابھی تھوڑا انتظار کرے

دیوار تکلف کو اچانک نہ گرائیں

عجلت کا کوئی کام ہی بہتر نہیں ہوتا

بے حسی اوڑھ کے سونے سے تو اچھا ہے یہی

خود کو احساس کی سولی پہ چڑھایا جائے

غمِ حیات غمِ ہجر اور غمِ جاناں

ہمارے حصے میں الجھن تمام رہنے دے

تعلق کی ڈگر پر ذہن کو اپنے کھلا رکھنا

ذراسی بدگمانی سے بھی رشتہ ٹوٹ جاتاہے

خدا ہی جانتا ہے حالِ دل مگر ہم تو

کسی کا ہاتھ اٹھا اور دعا سمجھ بیٹھے

                شاعر سے اردو ادب کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ موصوف نے مشق جاری رکھاتو ان کے فن کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگے گا۔ میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔

٭٭٭٭٭

Read 2334 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com