غزل
ڈاکٹر افسر کاظمی
مجھے پھر قتل کرنے کا تو کوئی فیصلہ لے لے
خزاں آنے کو ہے پھر خوں کا مرے ذائقہ لے لے
میریے چہرے پہ تو جتنا بھی چاہے طنز کر لینا
مگر ہے شرط پہلے ہاتھ میں اک آئینہ لے لے
تری تاریک راہوں میں بھی کرنیں جگمگا ئیں گی
اگر اپنے بزرگوں کی دعائے گمشدہ لے لے
کسی دن دیکھنا منزل ترے قدموں تلے ہو گی
تو اپنے رہنما کے نقش پا کا سلسلہ لے لے
اگر تاریخ کا بھولا سبق اس کو نہ یاد آئے
تو ایسی قوم سے اللہ اس کا حا فظہ لے لے
تجھے دیوار کہتے تھے کبھی اب ڈھیر اینٹوں کا
کبھی اس زاویئے سے کاش اپنا جائزہ لے لے
یہ میدان عمل ہے امتحاں گا ہ جنوں افسر
جسے ہو جان پیا ری مصلحت کا راستہ لے لے
****