افسانہ
محمد حنیف خان
بوڑھا کنواں
یہ بوڑھا کنواں دومعصوم جانوںکی قبر گاہ ہے ،جب زمانہ نے دو دلوں کو دور کرنا چاہاتو اسی بوڑھے کنویں نے انکو اپنی آغوش میں جگہ دی اور اس طرح دی کوئی جان بھی نہ سکا کہ لاش کس طرف ہے ،اور شایدیہ دو دلوں اور دو پیاسی روحوں کی محبت کاہی اثر ہے جو اس کنویں کے پانی میں بھی الفت و محبت اس طرح سرایت کر گئی کہ آج بھی عورتیں اپنے خفا شوہروں کوبلانے کے لئے اس بوڑھے کنویں کے پانی کا استعمال کرتی ہیں اور کامیاب بھی ہوتی ہیں۔
معلوم نہیںکب ،اور کس نے اس کو کھودا یاکھدوایا تھا؟اب اس کے جگت پرلگی اینٹیںبھی گھس چکی ہیں ،بالکل انسان کی زندگی کی طرح ،مگر معلوم نہیںکتنے انسانوںکی زندگی ختم ہوئی اور وہ سیراب ہوئے تب اسکی اینٹیںاتنی گھسی ہیں،اس نے معلوم نہیں کتنے انقلابات دیکھے ،اور کتنی عشق ومحبت کی کہانیوںکا گواہ بنا،لیکن یہ ایسے ہی رہا،ہاں بچے جوان ہوئے جوان بوڑھے اور بوڑھے راہئی ملک عدم ،اوریہ تمام وسعتوں اور گہرائیوںکے ساتھ اپنی بوڑھی آنکھوںسے گردش زمانہ دیکھتااور اندیکھے کیمرے میں قید کرتا رہااس کا یہ عمل معلوم نہیں کب سے جاری ہے ،یہ پیدا بوڑھا تو نہیں ہوا تھا مگر جب سے میں نے آنکھیں کھولی اس کو بوڑھا ہی دیکھا ،میں نہیں پیدا ہواتھا میرے باپ بھی نہیں پیدا ہوئے تھے اور شاید دادابھی، اس سے اوپر کے بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا ،ہر ایک نے یہی بتایا کہ یہ بہت پرانا کنواں ہے ،
درازی عمر سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا معلوم نہیں کتنی ڈولیا ں اس کے پاس سے اٹھ کر سسرال گئیں ،اور معلوم نہیں برسوں سے عورتیں ہولی کے موقع اس کے ارد گرد ہولی کے گیت گاتیںاور اپنے دیوروںکو گالیاں دیتیں ہیں ،اس دن کوئی برا بھی نہیں مانتا ،اور نہ ہی یہ کنواں ،اس نے کبھی شکایت بھی تو نہیں کی ،بچے اور بچیاں ہولی کا انتظار کرتی رہتی ہیں ،اور ا س کنویں کے ارد گرداس خا ص دن گھومنے کے لئے بے قرار رہتی ہیں ،در اصل اس کنویں کے متعلق ایک بات مشہور ہے ،جو صرف بچوں کے درمیان ہے مگر معلوم نہیں کب سے ؟لیکن یہ چیز صرف اسی وقت تک رہتی ہے جب تک کہ بچہ نوجوان نہ ہو جا ے جہاں وہ ایک دو بچوں کا باپ ہوا فورا بھول جاتا ہے ،یا نظر انداز کر دیتا ہے تبھی تو وہ اپنی جوان جہان لڑکیوں کو وہاں جانے سے نہیں روکتے ۔
یہ کنواں صرف کنواں نہیںبلکہ تاریخ کا امین اور اس کا چشم دید گواہ ہے ،عبارت اس کی گھسی ہوئی اینٹوںپر تحریر ہے مگر جلی حروف میں،معلوم نہیںکتنے ننھے ننھے دلوں کی اس نے دھڑکن سنا اور خاموش رہا، معلوم نہیں کتنی آہوں اور کراہوں کو سنا اور انگیز کرتا رہا ،دکھے دلوںکی کتنی صداوئںنے اس کو بےقرارکرنا چاہا مگر اس کے دل میں کوئی طوفان نہ اٹھا،وہ خاموش تما م دکھوں اور غموںکو جذب کرتا رہا بالکل اپنے پانی کیطرح کبھی اس میں اپھان نہیں آیا ،اس کا دل بہت بڑا ہے چپکے چپکے ملتے ہوئے کتنوں کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا مگر حرف شکایت زبان پر نہیں لایا،اس کنویں کا ایک دوست صرف نیم بچا ہے بالکل اسی طرح بوڑھا اس کی داستان پھر کبھی سناﺅنگا۔
یہ کنواں بہت مشہور ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی عورت کا شوہر اس سے خفا ہوجائے اور اس کاپانی اس کو پلا دیا جا ے تووہ خوش ہوجاتا ہے ، اگر وہ غصہ ہو کر گھر سے چلا جاے اور اس کا پانی تانبے کے برتن میںبھر کر دھوپ میں رکھ دیا جاے تو وہ بہت جلد واپس آجاتا ہے ،لیکن یہ مسئلہ مردوں کے ساتھ نہیں کہ وہ اپنی روٹھی ہوئی بیوی کو منالیں معلوم نہیں کیوں ؟ایک بات اور جسکا تجربہ اکژوبیشترنوجوان لڑکے اور لڑکیاں کرتی رہتی ہیں ،شاید کامیاب بھی ہوتی ہوں مگر چپکے چپکے یہ عمل انجام پذیر ہوتا ہے اصل میں مرد و عورت کی طرح یہ بھی تصور کرتے ہیں۔اس کے پیچھے ایک بہت ہی درد ناک واقعہ ہے جس نے لوگوں کے عقائد کو اس طرح متزلزل کیا ہے ۔
آج سے تقریبا دو سو سال قبل اسی گاﺅںمیں ایک زمیندارہیرا سنگھ تھا جسکی طوطی بولتی تھی کسی کو مجال نہ تھی کہ اس کی کسی بات کا انکار کردے، در اصل وہ بہت غنڈہ اور دبنگ قسم کا آدمی تھا،جب جی چاہا اور جس کے گھر میں چاہا شب باشی کرلی شب تو شب تھی وہ دن باشی اور اس میںبھی صبح باشی ،دوپہر باشی،اور شام باشی کرتا رہتا تھا ،یعنی وہ اپنے من کا راجہ تھا ،مگر واہ ری قدرت تو نے اس کو کتنی بڑی سزا دی ؟
عورتیں ،لڑکے لڑکیاں،اور بچے بچیاںسب دو مہینہ سے بہت ہی بے صبری سے ہولی کا انتظار کر رہے تھے ،پچکاریاں اور گلال و عبیر کے بارے میں تبادلئہ خیالات ہو رہا تھا ،راکیش کی بھی عمر انیس بیس برس کی رہی ہوگی وہ بھی اسی کا منتظر تھا اور چنبیلی اس کا تو پوچھنا ہی نہیں،وہ کس چاﺅ سے لڑکوں کو دیکھ رہی تھی ،اور انتخاب کے لیے نظریں دوڑارہی تھی اس نے کسی لڑکے کو دیکھا اور پسند کیا سوچا ہولی میں یہی ہوگامیرے سپنوں کا راجکمار ،مگر چند دنوں کے بعد ہی اس کی تصویر اپنے دل کے نگار خانے سے نکالی اور بڑی بےدردی سے زمین پر پٹخ دیا،اب نظر انتخاب دوسرے پر ،دو دن بھی نہیں گذرے کہ تیسرے اور چوتھے کا نمبر آگیا ،اس نے آخری بیس دنوں میں گاﺅں کے تقریبا نو لڑکوں کا پسند اور ناپسند کیا اب وہ بڑ ے کشمکش میں تھی کہ کیا کرے اور ہولی قریب سے قریب تر ہو تی جارہی تھی،اس کی سہیلی شاردا اور شانتا نے اپنے اپنے من کے راجہ کا انتخاب کر کے بتادیا تھا ،اب اسکو مجال نہ تھی کہ وہ ان پر نظر درازی یا فکر درازی کر سکے ،مگر اب صرف پانچ دن بچے تھے ہولی میں وہ بہت پریشان تھی آخر اس کی نظر راکیش پر پڑ ہی گئی ۔اس نے سوچ لیا کہ کنواں کا پھیرا آے اور چپکے سے اسی درمیان اس سے اپنے دل کی بات کہہ دے ،در اصل اس نے اب کی ساون میں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا ،اب اس کو احساس ہو رہا تھا کہ کوئی اس کے من کے مندر کی مورت بنے ،جس سے اکیلے میں جب کوئی نہ ہو تو باتیں کرے ،تصور میں اس کے چوڑے چکلے سینے پر سر رکھ کر تھوڑی دیر سو جاے پھر خواب آلود آنکھوں سے کہے کیوں تکلیف تو نہیں ہوئی ،حالانکہ اس کے سر کا وزن بمشکل ایک کلورہاہوگا ،مگر وہ سوچتی تھی کہ کیا وہ اس کے بوجھ کو اٹھا لے گا؟اس میں اتنی سکت ہوگی ؟اب اس کے من کا راج دلارا اور راجکماراس کو مل چکا تھا ،اگر چہ اس کو خود نہیں تھا کہ وہ کیا کرنیوالا ہے ،اور اس کے ساتھ کیا ہونیوالا ہے اور ہولی آگئی تھی ،آج رات میں ہولی جلانے کی رسم بھی ادا ہونی تھی اس لئے سارے لڑکے بڑے مست تھے اور خوشیوں میں مگن ، ہولی جل گئی اور صبح کا ستارہ بھی نمودار ہو گیا تھا،لڑکے اپنی اپنی پچکاریاں رنگوں سے بھرے ایک دوسرے کو شرابور کر رہے تھے اور لڑکیاں اپنے الھڑپن کا مظاہرہ کر رہی تھیں خاص طور سے وہ جنکی جوانی کی یہ پہلی سالگرہ تھی وہ تو سر پر وہ طوفان اٹھاے ہوے تھیں کہ خدا کی پناہ ۔خیر دن چڑھے کنویں کا پھیرا بھی آگیا اور بہتوں کے من کی مراد پوری ہوگئی ،ان میں چنبیلی بھی شامل تھی ،راکیش بہت خاموش پسند تھا اس میں تلون مزاجی بالکل نہیں تھی ،وہ جذباتی تو ضرور تھا مگر اس ہیجان کو باہر نہیں نکلنے دیتا تھا ،دن گذرتے رہے اور راتیں جاتی رہیں ،چنبیلی راکیش کے نام کا مالا جپتی رہی ، جس کی بھنک ہیرا سنگھ کو لگ گئی ،اس نے پہلے تو اپنے گرگوں سے راکیش کی خوب مرمت کروائی ،بعد میں چنبیلی کی شادی اپنے ایک قریبی رشتہ دار کے لڑکے سے طے کردی ،عین 148اگنی پھیرے 147کے وقت جب کہ وہ اسی رسم کی ادائیگی کے لئے لائی جارہی تھی ،منٹوں اور سکنڈوں میں اپنی سہیلیوں اور بوڑھیوں کو جھٹکا دیا اور یہ جاوہ جا،یہاں تک کہ وہ کنویں تک پہونچ گئی ،لوگ پیچھے دوڑے مگر ناکام رہے ،اور اس نے اس بوڑھے کنویں میں چھلانگ لگادی جب تک رسی وغیرہ کا انتظام کیا جاتا اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ،اب وہ آزاد تھی اس کو کوئی پکڑ نہیں سکتاتھا، غوطہ خور کنویں میں اترے تلاش بسیار کے بعد بھی لاش نہ ملی،ادھر جب راکیش کو اس حادثہ فاجعہ کی خبر ملی تو وہ چکراسا گیا لیکن اس نے اپنے جذبات کو قابو میں کیا ،اورگاﺅںسے نکل گیا نہ معلوم کہاں کے لئے اس کو خود نہیں پتہ تھا کہ وہ کہاں جارہا ہے ،بس اسکے ذہن پر ایک ہی بات سوار تھی کہ اس نے صرف میرے اپنی جان گنوادی اپنی زندگی کا انت کرلیا پھر وہ اس کنویں کے متعلق سوچنے لگا کہ یہ کنواں نہیں کوئی ناگ ہے جس نے اس کے عشق کو ڈس لیا ہے ،چند دنوں تک وہ ادھر ادھر مارا مارا پھرتا رہا لیکن اس کا دل نہیں لگ رہا تھا ، وہ بہت پریشان تھا آخروہ کب تک باہر رہتا چند دنوں بعد ہی واپس آگیا ، اب وہ سوچ رہا تھا کہ وہ کنواںنہ توناگ ہے اور نہ ہی قبر گاہ بلکہ اس کے عشق کی آرام گاہ ہے تبھی تو وہ بغیر گور وکفن کے اس میں چلی گئی وہ سوچ رہا تھا کہ وہ شادی کے جوڑے میں سکون کی نیند سو رہی ہے ،جب دنیا والوں نے نظریں چرائیں اور اور اس کے عشق کو چنبیلی سے چھیننا چاہا تو وہ اس کو چھاتی سے لگاے ہوے اسی کنویں کے پاس آئی اپنی اور اپنے عشق کی پناہ گاہ کے طور پر اس بوڑھے کنویں کو چن لیا ،اور اس نے بھی انکار نہ کیا،
راکیش گاﺅں لوٹنے کے بعد بہت پریشان رہتا تھا ،روزانہ وہ اس بوڑھے کنویں کے پاس جاتا اور گھنٹوں بیٹھا رہتا، آنسو خشک ہو چکے تھے اس لئے اب اس کے غم اس راستہ سے بھی نہیں نکلتے تھے ،ایک رات وہ کچھ زیادہ ہی پریشان ہوگیا اس لئے تقریبا دو بجے وہ بستر سے اٹھا اور اکیلے اس کنویں کے پاس آ گیا ،وہ بیٹھا تھا پرانی یادوں میں کھویا ہوا رہ رہ کے گذرے ہوے مناظراس کی آنکھوں کے سامنے آرہے تھے ،صبح سے بے نیاز ہوکر یہ مناظراور اس کی یادیں اپنا سفر طے کر رہی تھیں لیکن آج اس کو اپنی پلکوں تلے ہلکی سی تپش کا احساس ہوا اور اس کی انگلیاں آنکھوں کی طرف بڑ ھ گئیںاسے اپنی کیفیت عجیب لگی وہ سوچ رہاتھا کہ آنسو آے کہاں سے ؟اس نے انگلیوں سے آنسو پونچھ لئے مگر ا 177ٓنسو تھے کہ تھمتے ہی نہ تھے اورآنسوﺅں کو روک بھی کون سکتا ہے ؟یہ جذبات کے آنسو تھے زخمی زخمی احساسات کے آنسوں تھے ان پر بندش لگانا کوئی آسان کام نہیں ،اس لئے اس نے انگلیاں ہٹالیں،وہ روتا رہا اور ہچکیاں لیتا رہا ، لمحوں کا کارواں باد صبا کے جھونکوں،روح وجان کو معطرکر دینے والی ٹھنڈی ہواﺅںاور ڈوبتے ہوے ستاروںکی مدھم روشنی ،کے ساتھ اپنے راستے پر گذرتارہا وہ کب سے بیٹھا تھا کچھ پتہ ہی نہ چلا وہ روتارہا اور سسکتارہا اس اپنے زخم خوردہ خوابوںپرراکھ کی موٹی تہہ جمادی مجروح خوابوںکوراکھ کے ڈھیر میںچھپادیا لہو تو رستا ہی رہتا ہے ،وہ اٹھ کرکھڑا ہوگیا اب اس کی بوجھل اورز خمی رو ح کو کچھ سکون مل چکاتھا،جذبات واحساسات کا اپھان کچھ کم پڑچکا تھا شایدیہ رونے کا اثر تھا کہ اس کے اندر کا گرد وغباردھل سا گیا تھا ۔
دن گذرتے رہے راتیں جاتیں رہیں غموں اوردکھوں کے بوجھ تلے خود کو دباتا رہا آخر صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ایک دن اس نے سوچ لیا کہ کیا فائدہ ہے ایسی زندگی سے جس میں صرف دکھ اور غم ہو اور پھر وہ بھی تو اپنے محبوب کو زبان حال سے بلارہی تھی کہ میںکب سے تمہارا انتظار کر ہی ہوں ابھی تک چہرہ دیکھنا نصیب نہ ہوا ، جلدی آو میری آنکھیں پتھرا گئیں ہیں شاید وہ ان سنی باتوں کو اپنے دل کے کانوں سے سن رہا تھا ،اس کے ہاتھ میں آئینہ تھا جو آج ہی بازار سے لایاتھا دفعتہ ہاتھ سے چھوٹا اورچکنا چور ہوگیا وہ بیٹھ گیااور چننے لگامگرشیشے کی کرچوں کو کہاں وہ چن سکتا تھا وہ سوچنے لگا کہ میری زند گی کے خواب اور خوشیاںبالکل اس طرح بکھر گئیں ہیں جن کو اب چنا نہیں جاسکتا،یہی سب سوچ کر شام کے وقت جب سورج کی ٹکیاخون آشام ہورہی تھی وہ کنویں کے پاس گیا اور اس نے بھی اپنی آخری پناہ گاہ کے طور پرچن کے چھلانگ لگادی جب لوگ اس کونکالنے کے لئے کنویں میں اترے تو اس کی بھی لاش نہیں ملی ۔
محمد حنیف خان