الإثنين, 15 تموز/يوليو 2013 13:06

سٹی بس : محمد حنیف خان Featured

Rate this item
(0 votes)

 سٹی بس 
 محمد حنیف خان 
 شعبہ اردو ممتاز پی جی کالج

 

                         میڈم پشپا نے صا ف طور سے فیصلہ کن انداز میں کہا نہیں سریش اب میں سٹی بس سے سفر نہیں کروں گی ،خواہ مجھے یہاں کھڑے ہوکر دو گھنٹہ سواری کا انتظارکیوں نہ کر نا پڑے ،اس نے بڑ بڑاتے ہوئے کہا لوگ اپنی عمر کا بھی لحاظ نہیں رکھتے ،سریش نے تعجب خیز نظروں سے دیکھتے ہو کہا نہیں میڈم وہ کیا تھا بھیڑ بہت تھی اس لئے آپ کو ایسا لگا اور آپ کی عادت بھی نہیں، شاید یہی سب سے بڑی آپ کی پریشانی ہے آپ چلئے تو اور اس نے چہرے پر آثار دیکھنے کے لئے اپنی نگاہیں مر کوز کردیں حالانکہ اس کو سڑک سے دفتر آتے وقت راستے میں ہی اندازا ہو گیا تھا کہ میڈم اب سٹی بس سے تو سفر نہیں کریں گی پھر بھی اس نے سو چا چلو دیکھتے ہیں اس سے’ اندازہ ‘بھی ہو جا ئے گا۔وہ کس بات کا اندازا لگا نا چاہتا تھا یہ نہیں بتایا میں نے پو چھا بھی کہ سریش تم کس بات کا اندازا لگانا چاہتے تھے تو ہنس کر میرا سوال ٹال گیا ۔میں نے اضطرابی کیفیت کے ساتھ پہلو بدلتے ہوئے پو چھا مگر ایسا کیوں ؟تم کو کیسے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اب سٹی بس سے سفر نہیں کریں گی ؟ہزاروں لوگ سٹی بس سے سفر کرتے ہیں پھر ایسی کیا وجہ تھی کہ میڈم پشپا ایسا نہیں کریں گی تو اس نے جواب دیا اصل میں ان کو اندازا نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس بس سے سفر کی عادی تھیں مگر ان کو جلدی تھی اس لئے سوار ہو گئیں اور جب اتریں تو فیصلہ کر لیا کہ اب وہ کبھی اس بس سے سفر نہیں کریں گی خواہ تاخیر کی وجہ سے با س ان کو باہر کا ہی راستہ کیوں نہ دکھا دے ۔میں بڑے کشمکش میں تھا کہ ایسا کیوں ؟مگر وہ مسکرا رہا تھا اور کہہ رہا تھا یا ر ہر کوئی ان بسوں میں نہیں چل سکتا ۔
در اصل تیز رفتار میٹرو سٹی کی زندگی میں اسپورٹ بائک میں اٖضافی اسپیڈ کی طرح تیزی آگئی تھی ۔ہر کوئی اسی رفتار سے اپنی زندگی گذار رہا تھا ،ضروریات کو پوری کرنے کے لئے لوگ مشینوں سے زیا دہ خود میں تیزی لا رہے تھے اسی لئے تو دو دو دفاتر میں ملازمت عام بات تھی ۔اور مو بائل کمپنیوں نے تو کئی شفٹوں میں ملازمت کے زیادہ امکانا ت پیدا کر دئیے تھے ۔سریش بھی پارٹ ٹائم ایک مو بائل کمپنی میں ملازمت کر رہا تھا وہ رو زانہ شام کو پانچ بجے اپنے دفتر سے نکلنے کے بعد موبائل کمپنی میں پارٹ ٹائم ملازمت کے لئے نکل جاتا ،اس کی تیزی دیکھنے کے لائق ہوتی، ایک بار میں اس کو سڑک پر مل گیا مگر سورج غروب ہو نے کی طرح وہ بہت تیزی سے وہاں سے یہ کہتے ہو ئے رفو چکر ہو گیا کہ یار پھر ملیں گے اگر یہ والی چھوٹ گئی تو دوسری کے لئے بہت دیر تک انتظار کر نا پڑے گا ۔اس کے دفتر سے ہو تے ہوئے صرف دو بسیں ہی جاتی تھی اس لئے اس کے لئے بھی پریشانی تھی یہی وجہ تھی کہ میں نے اس کی اس جلدی کا برا نہیں مانا ۔اس نے بتا یا تھا کہ ایک تو 323اور دوسری 420نمبر کی بسیں ہی ادھر سے گذرتی ہیں۔420کا ہندسہ سنتے ہی میں نے ہنستے ہو ئے کہا تھا اماں سریش پھر تو اس کی سواریاں بھی بڑی 420ہو ں گی ۔تو وہ بھی ہنسنے لگا۔ معلوم نہیں سٹی بس کارپوریشن انتظامیہ کے پاس ایسی کون سی مجبوری آگئی تھی کہ انہوں نے آئین کی دفعہ 420کو بس کا نمبر بنا دیا تھا ۔اسی دفعہ کے تحت فریب دہی کر نے والو ں کو سزا دی جاتی ہے ۔سریش کو اتنی جلدی رہا کر تی تھی کہ اس نے کبھی اس جانب تو جہ ہی نہیں دیا تھا ۔اس نے خود بتایا کہ میں نے کبھی اس ہندسہ کی جانب توجہ ہی نہیں دی مگر ایک دن وہ کھڑا بس کا انتظار کر رہا تھا اور پاس ہی کھڑی چند لڑکیاں آپس میں ہنسی چوہل کر رہی تھیں جو روزانہ اسی بس سے آتی جاتی تھیں اور غالبا ایک ہی دفتر میں ملازمت بھی کر تی تھیں ۔یہ لڑکیاں آپس میں بات تو کر رہی رہی تھیں مگر بار بار مڑ مڑ کر پیچھے والی سڑک کی طرف بھی دیکھ رہی تھیں شاید ان کو کسی کاانتظار بھی تھا ۔اتنے میں دبلی پتلی شریر قسم کی ایک لڑ کی نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور زور سے بولی لو 420 آگئی۔سریش خود منتظر تھا اس لئے یہ ہندسہ سنتے ہی فورا جدھر سے بس آتی تھی دیکھنے لگا ۔مگر وہاں تو کچھ نہیں تھا جب اس نے مڑ کر دیکھا تو ان میں ایک اور گول مٹو ل لڑ کی کا اضافہ ہو چکا تھا ۔پکوڑی کی طر ح ناک اور کمر سے نیچے اتر تی ہو ئی جینز دیکھ کر سریش کی طبیعت مکدر ہو گئی اب اس کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ 420یہ کس کو کہہ رہی تھی ،اور وہ آپس میں کہہ بھی رہی تھیں کہ میں سمجھ رہی تھی آج420کی 420چھوٹ جا ئے گی مگر تو آ ہی گئی ۔اتنے میں بس بھی آگئی اور سب اچک اچک کر بیٹھنے لگے ابھی سریش نے دروازے کا کنڈا ہی پکڑا تھا کہ بس چل دی اور اس نے چند قدم کنڈے کو پکڑے پکڑے دوڑ لگائی اور وہ بھی بس کے اندر پہنچ گیا۔بس سواریوں سے بالکل ٹھسا ٹھس بھری ہو ئی تھی ،لوگ جنس کی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کے پیر پر پیر دھرے اس طرٖح کھڑے تھے کہ سانسیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں اور دن بھر کے کام سے نکلا پسینہ ناک میں گھس رہا تھا ۔ڈرائیور بڑے تیزی سے بس چلا رہا تھا کیو نکہ اس کو معلوم تھا کہ یہ میٹرو سٹی ہے جہاں کی زندگی بہت فاسٹ ہے ۔جب اچانک ڈرائیور بریک لگا تا تو تمام سواریا آپس میں مدغم ہو جاتیں ۔اور کسی کو اس بات کی سدھ نہ ہو تی کہ کس کا ہا تھ کہاں پہونچا اور ہاتھ ہی کیا پورا جسم ادھر کا ادھر ہو جا تا بھلا ایسے میں کو ئی کیا سو چتا ۔اسی بریک کا فائدہ اٹھا کر نو جوان ہی کیا بوڑھے منچلے بھی اپنی جھری بھری انگلیوں کو ورزش کرا دیتے ۔اور آپس میں اس طرح باتیں کر تے رہتے گویا ان کو کسی بات کی خود خبر نہیں ۔کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو صرف موڈ فریش کر نے کے لئے شام کو سٹی بس سے سفر کرتے کیونکہ اگر کچھ دفاتر شام پانچ بجے بند ہوتے تو کچھ اسی وقت کھلتے بھی تھے جس کی وجہ سے بسوں میں کافی بھیڑ بھاڑ ہوتی اور لوگوں کو ذوق کی تسکین کا مو قع مل جاتا ۔
سریش نے کھک کھسک کر ایک کو نے میں کھڑے ہو نے کی جگہ بنا لی اور چپ چاپ کھڑا ہو گیا تھا ۔روزانہ سٹی بس میں سفر کی عادت ہو چکی تھی اس لئے اس کو پریشانی نہ ہو تی اور وہ سکون سے کھڑے ہو نے بھر کی جگہ اپنے لئے بنا ہی لیتا ۔مگر وہ لوگ جو پہلی بار سفر کر رہے ہوں اور خاص طور سے شام کے وقت تو ان کا کچو مر نکل آتا اور اگر وہ مضبوط اعصاب کے نہ ہو تے تو بس سے اتر نے کے بعد قسم کھا لیتے کہ اب وہ بھول کر کبھی سٹی بس میں میں نہیں سفر کریں گے ۔ایک دن سریش کا ما مو زاد بھائی گاؤں سے یہاں ٹہلنے آیا تھا اس نے ضد کی کہ وہ مو بائل والا آفس ضرور دیکھے گا کیونکہ اس نے ابھی تک صرف موبائل کسٹمر کیئر آفس میں بیٹھنے والوں سے فون پرہی بات کی تھی جن کو دیکھنے کی خواہش اس کے دل میں رہ رہ کر اٹھ رہی تھی ۔کئی بار سریش نے منع بھی کیا کہ تم میرے ساتھ مت چلو سٹی بس میں پریشا ن ہو جا ؤگے مگر وہ نہیں مانا اس لئے مجبورا اس کو ساتھ میں لا نا پڑا ۔بس پر سوار ہو نے سے پہلے سریش نے اس کو سمجھا دیا تھا کہ دیکھو بس رکتے ہی بہت تیزی سے چڑھنا اور اسی تیزی سے اترنا بھی مگر اس بات کا خیال رہے کہ چڑھتے یا اتر تے وقت چوٹ نہ لگے ۔لیکن اس کو ابھی اس طرح کا کو ئی تجربہ نہیں تھا اس لئے اترتے وقت چوٹ لگ ہی گئی ۔اور اندر جو گردی تھی اس نے پہلے سے ہی اس کو پریشان کر رکھا تھا اس لئے اس نے اتر تے ہی وہیں کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک لگا ئی۔جس پر سریش نے کہا بیٹا میں نے کہا تھا نا کہ مت چلو مگر تم نہیں مانے تو اس نے کہا بھیا مجھے نہیں معلوم تھا مگر اب آج کے بعد کبھی نہیں ۔
سریش پیچھے ایک کونے میں دبکا کھڑا تھا دفعتا اس کی نظر میڈم پشپا پر پڑی جنہوں نے ابھی چنددنوں قبل آفس جوائن کیا تھا ۔نائٹ شفٹ میں ان کی بھی ڈیوٹی تھی حالانکہ اس شفٹ میں ان کو دیکھ کر سریش کو بڑی حیرت ہو ئی تھی مگر بعد میں جب معلوم ہواکہ میڈم کا شوہر سے طلاق ہو چکا ہے کیونکہ ان کو بچے نہیں ہو رہے تھے اس لئے ان کے پتی دیو نے یہ کہہ کر آزاد کر دیا کہ میں کب تک تم کو جھیلوں گا ۔میڈم اپنے بوڑھے ماں باپ پر بو جھ نہیں بننا چاہتی تھیں اور انہوں نے نائٹ میں یہاں جوائن کر لیا تھا اور شہر میں ایک کمرہ کرایہ پر لے کر تنہا رہ رہی تھیں ۔پشپا میڈم بڑی پریشان پریشان سی لگ رہی تھیں ،سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے وہ بھی سیٹوں کی رو کے درمیان خالی جگہ میں کھڑی تھی جہاں لوگ ایک دوسرے کے پیر پر دھرے کھڑے تھے وہ بار بار کسمسا کر اپنا چہرہ باہر نکالتیں مگر بریک لگنے کے ساتھ ہی ان کا توازن بگڑ جاتا ۔ان کا توازن کچھ تو بریک سے بگڑ جاتا اور کچھ چلتے ہو ئے ہا تھ بگاڑ دیتے ۔ان کی پریشانی سریش سمجھ رہا تھا مگر ایسی جگہ تھیں کہ وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا حالانکہ اس پریشانی کی اصل وجہ اس کو نہیں معلوم تھی وہ تو بس سے اتر نے کے بعد اس کو معلوم ہو ئی ۔وہ ان کو اس پریشانی سے نجات دلانے کی ترکیب سوچ ہی رہا تھا کہ ایک نو جوان نے سامنے کھڑے ادھیڑ عمر کی جیب پر ہاتھ صاف کر دیا مگر اس کی شامت اعمال کہ پکڑ لیا گیا ۔پھر کیا تھا پہلے تو ایک شور ہوا اور شروع ہوگئی اس کی دھنائی اب بس کے اند رکا ماحول ہی کچھ اور ہو گیا لیکن بس پانی کی طرح بہے جا رہی تھی ۔اچانک ایک موٹر سائیکل سوار بس کے سامنے آگیا اور ڈرائیور اس کو بچانے کے کے لئے بریک پر پر چڑھ کر کھڑا ہو گیا ۔اور لوگ ایک دوسرے پر آگئے سریش جو ابھی تک دبکا کھڑا تھا اچانک بریک لگنے سے سامنے والی عورت کے اوپر پہونچ گیا اور جھینپ کر ’’سوری‘‘ بولا اور پھر اپنی جگہ کھڑا ہو گیا ۔
بس اپنے منزل کی طرف بڑی تیزی سے جا رہی تھی تھوڑی دیر بعد وہ اسٹاپ بھی آگیا جہاں سریش اور میڈم پشپا کو اتر نا تھا ۔چند سکینڈ کے لئے بس رکی سریش تو جلدی سے نیچے آگیا مگر میڈم پشپا ابھی بھیڑ سے نکل بھی نہ پائی تھی کہ وہ پھر چل دی۔جس سے میڈم کا پارا ساتویں آسمان پر پہنچ گیا اور چلا ئیں ’’روکوروکو‘‘پیچھے سے میڈم کوپکڑ کر ایک صاحب سہارا دیتے ہو ئے بولے ’’ارے بھائی میڈم کو نکلنے دو ‘‘سہارا دینے والے شخص نے میڈ م کی بانہوں کو کچھ اس طرح پکڑ رکھا تھا کہ دونوں ہاتھ کے انگوٹھو کے علا وہ اس کی ساری انگلیاں بانہوں سے نکل کر آگے کی طرف آ گئیں تھیں جس کو میڈم نے بھی محسو س کیا اور جھٹکے سے اس کا ہا تھ اپنے جسم سے دور کر دیا اور نیچے اتر آئیں ۔ میڈ م کا نیچے اترنا تھا کہ بس آگے بڑھ گئی مگر میڈم بس کو جاتے ہوئے وہیں کھڑی دیکھ رہی تھیں اور سریش آگے بڑھ آیا اس نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو میڈم کھڑی تھیں ۔سریش نے کہا آئیے میڈم کیا دیکھ رہی ہیں؟ تو انہوں نے اپنے نتھنوں سے ’’ہونہہ‘‘ کی آواز نکالی اور بڑ بڑاتے ہو ئے کہا بس کے نمبر کی طرح سواریاں بھی 420ہیں اور چل دیں جب وہ سریش کی پاس پہونچیں تو اس نے پو چھا میڈم کھڑی کیا دیکھ رہی تھیں ؟میڈم نے جواب دیا میں کھڑی سوچ رہی تھی کہ جو بس کے باہر لکھا ہے وہ اندر کیوں نہیں ؟سریش نے بڑی تعجب سے ان کی طرف دیکھتے ہو سوال کیا، کیا لکھا تھا میڈم ؟ انہوں نے تاسفانہ انداز میں جواب دیا ’’کرپیا اچت دوری بنائے رکھیں ‘‘اور زمین میں نظریں گڑائے ہو ئے سریش کے ساتھ دفتر کی جانب قدم بڑھا دئیے۔ 

محمد حنیف خان 
شعبہ اردو ممتاز پی جی کالج 
ارادت نگر ڈالی گنج لکھنو
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
9359989581

Read 2115 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com