محمدفرقان سنبھلی
اور سرحد کھو گئی ؟
گلریز تیز تیز قدموں سے دیوانہ وار منزل کی طرف بڑھا چلا جا رہا تھا ۔ فراق یا ر میں اسکی حالت مجنوں سے کسی طور کم نظر نہیں آتی تھی ۔ بڑھی ہوئی داڑھی، پینٹ کے اوپرنیچا کرتا جسکے اوپری بٹن کھلے ہوئے تھے ۔ کافی عرصے سے نہیں تراشے گئے لمبے لمبے با ل جوہوا کے جھونکے سے اُتر کر اس کے ماتھے پر دراز ہو جاتے تو کبھی سائڈوں میں ڈھلک جاتے ۔ انہیں سنبھالنے کی فرصت اور خیال گلریز کے دماغ میں آہی نہیں رہا تھا ۔ چلتے چلتے وہ کتنا فاصلہ طے کر چکا ہے اسکی اسے خبر نہیں تھی لیکن اسے لگ رہا تھا کہ منزل اب دور نہیں ہے ۔
’’اے نوجوان۔رکو۔۔۔کہاں جا رہے ہو ‘‘۔
ایک کڑک آواز نے گلریز کو چونکا دیا تھا ۔ سامنے ایک فوجی اسکی طرف گن تانے کھڑا تھا ۔ ’’میں انار سے ملنے جا رہا ہوں صاحب ۔‘‘ گلریز نے بنا مرعوب ہوئے جواب دیا ۔
’’انار۔۔۔۔کون انار؟‘‘
’’میری منکو حہ ہے صاحب اُدھر‘‘۔ اس نے سامنے کچھ فاصلے پر بنے مکانات کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔
’’کیا ۔۔۔۔۔وہاں ۔۔۔۔۔تم وہا ں نہیں جا سکتے ‘‘۔ کڑک آواز پھر گونجی ۔
’’لیکن کیوں صاحب ۔۔۔۔۔کل تک تو میں یہاں سے وہاں آرام سے جایا کرتا تھا ۔‘‘
’’لیکن اب نہیں جا پاؤ گے ۔۔۔۔چلو واپس جاؤ۔‘‘
’’لیکن ۔۔۔۔وہاں میری انار ۔۔۔۔۔‘‘۔
’’کہا نا واپس جاؤ ۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔جاکر دوسری دلہن بھی ڈھونڈلو ‘‘۔
فوجی کے بھدّے مذاق پر وہ تلملا کر رہ گیا ۔ ابھی وہ واپسی کے لیے مڑ نا ہی چاہتا تھا کہ ایک دو شیزہ سے فوجی کی جھڑپ سن کر رک گیا ۔
’’بھائی ۔۔۔۔۔میری ماں بہت بیمار ہے ۔۔۔۔مجھے ادھر دوا لینے جانا ہے ۔۔۔۔۔مجھے جانے دونہ ۔‘‘
’’لیکن تمہارے محلہ میں بھی تو ڈاکٹر ہیں انہیں کیوں نہیں دکھاتی ہو۔‘‘
’’بھائی ۔۔۔۔۔مجھے جانے دونہ ۔۔۔۔۔ادھر جو ویدھ جی رہتے ہیں انکی جڑی بوٹی میری ماں کو بہت فائدہ کرتی ہیں ۔۔۔۔ انہیں ویدھ جی کی دوائی سے جلد آرام آ جاتا ہے ۔۔۔۔۔مجھے جانے دونہ بھائی ۔‘‘
’’دیکھو ۔۔۔۔۔میری بات مانو ۔۔۔اور وہیں کسی ڈاکٹر سے علاج کرانے کی عادت ڈال لو۔۔۔۔اب تم لوگ اس طرف نہیں جا سکتے ۔‘‘
(۲)
ابھی دو شیزہ پوری طرح مطمئن نہیں ہوئی تھی کہ ایک بڑے میاں آکر فوجی گروپ سے بھِڑ گئے ۔
’ارے فوجی بیٹا۔۔۔۔۔دیکھو ۔۔۔۔ادھر میرا بیٹا شدید بیمار ہے ۔۔۔۔مجھے اسے دیکھنے جانا ہے۔۔۔۔ مجھے کچھ دیر کے لیے ادھر جانے دو نہ ۔۔۔۔۔بھگوان تمہارا بھلا کرے گا بیٹا۔‘‘
’’ارے کہا نا کہ ا ب تم لوگ ادھر کبھی نہیں جا سکتے ۔ چلو واپس جاؤ ۔‘‘ فوجی نے انہیں بھی ٹرکا دیا ۔ لیکن بڑے میاں کہاں ماننے والے تھے ۔
’’میں کیوں نہیں جا سکتا ادھر ۔۔۔۔میرا بیٹا رام سنگھ ادھر بیمار ہے ۔۔۔۔موت زندگی کے بیچ جنگ چل رہی ہے ۔۔۔۔۔تم کیسے نہیں جانے دو گے مجھے ؟۔۔۔۔مجھے اپنے بیٹے سے ملنے سے کوئی نہیں روک سکتا سمجھے۔‘‘ کہتے کہتے بڑے میاں کا گلا رندھ گیا تھا ۔ فوجی بھی کچھ نا دم سا ہو گیا ۔
’’بابا۔۔۔۔میں مجبور ہوں ۔۔۔۔اب آپ دونوں کے درمیان یہ سر حد حائل ہو گئی ہے ۔۔۔میں اگر آپ کو جانے بھی دوں ۔۔۔۔تو ادھر کے فوجی آپ کو مار ڈالیں گے ۔‘‘
’’اچانک یہ سرحد کہاں سے قائم ہو گئی ۔کل تک تو یہاں کچھ بھی نہیں تھا ۔‘‘ گلریز نے فوجی سے پوچھا جواب تک چپ چاپ کھڑا تمام باتیں سن رہا تھا ۔
’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو نوجوان۔۔۔۔۔یہ سرحد آج ہی قائم ہوئی ہے۔‘‘
’’لیکن کیوں۔‘‘ گلریز کا لہجہ احتجاج سے بھر پور تھا ۔
’’اس لیے کہ اب ہم آزاد ملک کے باشندے ہیں ۔۔۔۔۔ہم آزاد ہیں ۔۔۔۔اب ہم سر اٹھا کر جئیں گے اور ہمارا ملک جنت نشاں بنے گا۔‘‘ فوجی کی آنکھوں میں جگنو چمک اٹھے تھے ۔
’’لیکن ایسی آزادی کس کام کی فوجی بیٹا ۔۔۔۔کہ ہم اپنوں سے ہی دور کر دیے جائیں ۔‘‘ بڑے میاں کی کرب زدہ آوازپر فوجی خاموش رہ گیا ۔
’’اور انکل انکل ۔۔۔ہمیں تو آپ وہاں جانے دیں گے نہ ۔۔۔۔ہم وہاں روز کھیلنے جاتے ہیں۔‘‘ ایک 5-4سال کے بچے نے اچانک فوجی کی پینٹ کھینچ کر سوال کیا تو وہ سکتے میں رہ گیا ۔ بچے کو وہ کیا جواب دے اسکی سمجھ میں ہی نہیں آیا ۔
’’اور صاحب جی ۔۔۔۔۔مجھے اپنی بھیڑ بکریاں چرانے بھی جانا ہے وہاں اچھی اچھی گھاس ہوتی ہے نہ ۔‘‘ ایک سات آٹھ سال کے میلے کچیلے کپڑے پہنے بچے نے کہا تو بے اختیار فوجی کی آنکھیں بھی نم ہو اٹھیں ۔
’’نہیں میرے بچوں اب تم بھی وہاں نہیں جا سکتے ۔ یہاں اب سرحد قائم ہو گئی ہے جو تمہیں وہاں جانے سے روک رہی ہے ۔‘‘ نم ہوئی آنکھوں کا راز عیاں نہ ہو اس لیے فوجی نے دوسری طرف منھ گھما لیا ۔
(۳)
’’اللہ اس سرحد کو غارت کر دے ۔‘‘ دو شیزہ نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اونچی آواز میں دعا کی تو بر بس سبھی کی آوازیں اس کے ساتھ ملتی چلی گئی ۔
’’آمین۔۔۔۔۔آمین۔۔۔۔ثم آمین۔‘‘
کہکشاں کا خوبصورت سیارہ ۔ زمین ۔ جو شاید واحد سیارہ ہے جہاں انسانی مخلوق بستی ہے ۔ اسی زمین کے ایک ملک کی کو کھ سے دوسرا ملک پیدا ہوا تھا ۔ ملک کے وجود میں آنے سے قبل ایک خونریز داستان وجود میں آئی تھی جس نے نئے ملک کے قیام کی بنیاد رکھی تھی ۔ قیام ملک سے قبل سوچا یہی گیا تھا کہ اب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ختم ہو گی اور ترقی و خوشحالی کا دور دورا ہو گا ۔ لیکن یہ ممکن کیسے ہوتا ۔ جب ممالک کا قیام فریب ، مکاری، عیاری اور عوام کی خواہشوں کے خلاف ہوا تھا ۔ غیر یقینی کی فضا ، دلوں میں غبار زبان پر شکوے شکایات اور الزام تراشیاں ۔ ایسے میں خوشحال معاشرہ کا تصور چہ معنی دارد ۔ بہر حال دونوں ممالک کے درمیان ایک خط تقسیم قائم کر دی گئی ۔ جس کے قیام نے ایک ہی نسل علاقہ اور ماحول تک کو دو خطوں میں تقسیم کر دیا ۔ خط تقسیم کے ذریعہ قیام پذیر سرحدوں کے پس منظر میں جو خونی تصادم کار فرما تھے اسی کا نتیجہ تھاکہ دونوں طرف کے عوام میں ایک دوسرے کے لیے شدید غصہ تھا ۔ لیکن خونی رشتوں کی مہک بھی کہیں نہ کہیں انہیں ایک دوسرے سے باندھے ہوئے تھی ۔ سرحد کے قیام سے خاندان اور گھرانے تک تقسیم ہو گئے تھے ۔ ایک ہی گھر اور خاندان کے کچھ لوگ ادھر تو کچھ سرحد پار ہو گئے تھے ۔ سرحدی لکیر جہاں سے گذر رہی تھی وہاں وہاں زمین کے ساتھ ساتھ دل بھی ٹوٹ کر بکھرتے جا رہے تھے ۔ اور یہ ٹوٹ محض یہاں تک ہی نہیں رہنے والی تھی بلکہ اس کے اثرات آنے والے دنوں میں مزید بھیانک ہونے والے تھے اس کا اندازہ شاید کسی کو نہیں ہو رہا تھا ۔
خط تقسیم کے دونوں طرف دونوں ممالک کی افواج ہر وقت مستعد رہتی تھیں۔ لیکن ان کے درمیان میں محبت اور دشمنی کی انوکھی جنگ شروع ہو گئی تھی ۔ سرحد پر کھڑے دونوں طرف کے فوجی کسی وقت ایک دوسرے کے دوست بن کر قہقہے لگاتے نظر آتے تو اچانک دوستی دشمنی میں تبدیل ہو جاتی اور نوبت گولی باری تک پہنچ جاتی تھی ۔ ایک شام دو فوجی دوست آپس میں مل رہے تھے ۔
’’یار سردار ے ۔۔۔۔دلوں کے مقابلے سیاست جیت ہی گئی ۔۔۔۔اور ۔۔۔۔ا ب یہ آزادی کے نام پر سرحدہمارے تمہارے درمیان حائل ہو گئی ہے ۔۔۔۔وہ بھی کیا دن تھے جب ہم بے خوف ہو کر ایک دوسرے کے گلے ملتے تھے اور ساتھ بیٹھ کر ۔۔۔۔غم غلط کرتے تھے ۔۔۔۔لیکن اب۔۔۔۔‘‘
’’لیکن اب ۔۔۔۔اب۔۔۔‘‘سردارے محض ہکلا کر رہ گیا ۔
’’چل دل چھوٹا نہ کر یار۔۔۔۔ہم تو فوجی ہیں اور ساتھ ساتھ ہیں ۔ ملنے کے موقع تو نکال ہی لیا کریں گے ‘‘۔
’’اچھا اب اندھیرا ہو چلا ہے تو واپس ہو لے ۔۔۔۔کل پھر ملیں گے ۔‘‘
سردارے جیسے ہی نو مینس لینڈ میں پہنچا اچانک ایک فائر کی آواز نے اسے چونکا دیا ۔
(۴)
’’کون ہے وہاں۔۔۔۔‘‘ سردارے خاموش ہو کر زمین پر لیٹ گیا ۔
’’اپنے ہاتھ اوپر کرکے سامنے آجاؤ ورنہ میں گولی چلا دوں گا۔‘‘
’’ارے یہ تو سالا۔۔۔۔۔‘‘کہتے کہتے سردارے اٹھ کھڑا ہوا ۔
’’دھائیں ‘‘گولی کی آواز نے ادھیرے کو پھر چیر ڈالا تھا۔اور اس مرتبہ ایک چیخ بھی گونجی تھی ۔ سردارے سینا پکڑ کر دوبارہ زمین پر گر پڑا تھا گولی نے اس کے دل کو بھید دیا تھا اسکی روح پرواز کر چکی تھی لیکن اسکی حیرت سے پھٹی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ کسی اپنے کی ہی بے صبر گولی کا شکار ہو گیا تھا۔ نومینس لینڈ میں پڑی اسکی لاش کو اٹھانے بھی کوئی نہیں آیا تھا ۔ تو کیا یہی تھی وہ آزادی جس کے لیے بے شمار قربانیاں دی گئیں تھیں۔
لیکن سردارے کی موت کوئی آخری واقعہ نہیں تھا بلکہ بعد میں تو یہ معمول بن گیا ۔ دونوں طرف کے نہ جانے کتنے فوجی جانے انجانے ایک دوسرے کی گولیوں کا شکار ہوتے گئے ۔ کئی مرتبہ تو وہ اس طرح شکار ہوئے کہ انہیں پتہ ہی نہ تھا کہ وہ سرحد پار کرنے کی وجہ سے مارے گئے یا پھر دوست سے گلے ملنے کے خطا وار ہوئے ۔ خون کی پیاسی سرحد بھی شاید ایسے موقعوں پر کہیں چھپ جاتی تھی ۔ بہت سے عام انسان بھی گولیوں کا شکار ہوئے تھے ۔ یہ وہ لوگ تھے جوکہ جانے انجانے نا سٹیلجیا(Nostelgia) کا شکار ہو کر اپنے رشتہ داروں عاشق و معشوق اور دوست احباب سے ملنے کی غرض سے سرحد پار کرنے کی پاداش میں مجرم ٹھہرے تھے ۔
لیکن تب کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اگر یہ خط تقسیم یا سرحد اچانک غائب ہو جائے تو کیا ہو گا ؟وہ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے تھے بھلا نئے دور میں اس طرح کی بات سوچنا سخت حماقت سمجھی جانی تھی ۔ نہ جانے یہ گلریز یا اس دوشیزہ، بڑے میاں یا پھر عوام کے ایک بڑے طبقے کی دعاؤں کا اثر تھا یا پھرمعجزہ ! کہ اچانک سرحد غائب ہو گئی تھی چونکہ یہ معجزہ رونما ہو ہی چکا تھا اس لیے ٹی وی چینلوں پر مسلسل اسی کی خبریں نشر ہو رہی تھیں۔ خط تقسیم کے غائب ہونے کو اب تک کا سب سے پر اسرار معاملہ بتاتے ہوئے اسکے غائب ہونے کی صورتوں اور غائب کرنے والوں کی فہرست بھی زور شور سے نشر کی جا رہی تھی ۔ سرحد غائب ہونے کی خبر نے دونوں ممالک کی حکومتوں کو حیران کر دیا تھا ۔ لیکن اسے موقع غنیمت جان کر دونوں ہی ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش میں مصروف تھے ۔ ساتھ ہی سرحد کو ڈھونڈ نے کے لیے اور سرحد کے غائب ہونے کی وجوہات تلاشنے کے لیے دو الگ الگ کمیٹیاں تشکیل دے کر فوری طور پر کام شروع کرنے کی ہدایات جاری ہو چکی تھیں۔
سرحد گم ہو جانے سے دونوں حکومتیں اس قدر حواس بانحتہ تھیں کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آگے وہ کیا اقدامات کریں ۔ سرحد غائب ہونے سے دونوں حکومتوں کے سامنے سب سے بڑی مشکل یہ پیش آ رہی تھی کہ دونوں ممالک کے عوام کے مابین تفریق کس بنیاد پر کی جائے ۔ بات دراصل یہ تھی کہ دونوں ممالک کے عوام کی قد کاٹھی ، رنگ روپ سے لے کر رہن سہن بھی کافی حد تک ملتا جلتا تھا دوسری مشکل علاقہ کی پہچان کو لے کر ہو رہی تھی کیو نکہ دونوں ممالک کے علاقوں کی زمین ، ماحول، آسمان، پہاڑ، ندیاں جنگل بھی ایک جیسے ہی تھے ۔ وہ تو
(۵)
سرحدی لکیر ہی تھی جو کہ علاقہ کی پہچان قائم رکھے ہوئے تھی اور اب یہی لکیر غائب ہو گئی تھی ۔
حکومتوں کے ذریعہ تشکیل دی گئی ٹیمیں سرحدی لکیر کی تلاش میں جگہ جگہ دبشیں دے رہی تھیں۔ تلاش کر رہی ٹیم نے تاریخ سے پتہ کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ کچھ سال پہلے تو ایسی کوئی لکیر کہیں تھی ہی نہیں ۔ یہ بھی سوچا گیا کہ سرحد پر مسلسل ہونے والی گولی باری میں تو یہ نازک لکیر غائب نہیں ہو گئی ۔ کچھ کا یہ بھی خیال تھا کہ حساس طبعیت سرحدی لکیر مسلسل گولی باری سے عاجز آکر خود ہی کہیں جاکر چھپ گئی ہے ۔ ٹیم تلاش کرتے کرتے محکمہ آثار قدیمہ بھی پہنچی لیکن یہاں تو حالات اور زیادہ خراب ملے ۔پتہ لگا کہ یہاں ان دو ممالک کے درمیان ہی نہیں بلکہ کسی بھی ملک کے درمیان کوئی خط تقسیم ہے ہی نہیں ۔ خیال کیا گیا کہ اس دور میں سرحدی لکیر اسی طرح تحت الثریٰ میں چلی گئی ہے جیسے مقدس و یدوں کے عہد میں سر سوتی ندی غائب ہو گئی تھی ۔
بہر حال مسئلے کا کوئی واجب حل کسی کو نہیں سوجھ رہا تھا ۔ نہ سرحدی لکیر موجودہ زمانے میں کہیں دکھائی دے رہی تھی نہ تاریخ میں نہ مسقتبل میں ۔ یہاں تک کہ نہ آدمی کی نسل نہ اس کی شکل میں ، نہ ادب میں نہ فنون میں اور نہ ہی جغرافیہ میں ۔ لکیر کیا غائب ہوئی سب کچھ ایک ساہی لگنے لگا تھا جیسے یہ دو ممالک نہ ہو کر ایک ہی ملک ہو اور اس میں رہنے والے ایک ہی ملک کے باشندے ہوں۔ سرحد کے غائب ہونے سے ایک اور پیچیدہ مسئلہ سامنے آیا تھا ۔ صاف طور پر یہ پتہ نہیں لگ پا رہا تھا کہ کون کس کے خلاف ہے یہاں تو سبھی ایک دوسرے کی موافقت میں نظر آ رہے تھے ۔ جب یہ پتہ نہ چلے کہ کون کس کے خلاف ہے تو انسان کی سب سے بڑی شناخت اسکی ہزاروں سال پرانی جنگ جوئی کی روایت کو دھچکا لگتا ہے ۔ ایسے میں جنگ اور جدو جہد جیسے عظیم فرائض کا تقدس ہی مشکل میں پڑ جاتاہے ۔ چونکہ جدو جہد ہی ترقی کی بنیاد ہے اس لیے انسانی ترقی کے التوا میں پڑنے کا خطرہ بھی لا حق تھا ۔ حال یہ تھا کہ جدو جہد اور بے شمار قتل عام کی شکست ناپذیر ترکیبیں تعمیر اور تقسیم کرنے والے تمام ادارے اور کارخانے سب کے لیے مصیبتیں پیدا ہو گئیں تھیں۔ نتیجہ یہ کہ ترقی یافتہ ممالک کے اقتصادی نظام پر بھی منفی اثرات مرتب ہونے شروع ہو گئے تھے ۔ جوکہ ممالک کے لیے چنتا کی بات تھی ۔
سرحد بہر حال گم تھی ۔ ویسے بھی جن گھنے جنگلوں،ویرانوں اور سنگلاخ پہاڑوں سے ہو کر یہ خط تقسیم گذرتی تھی اسے ہر وقت نگاہ میں رکھنا بہت مشکل تھا ۔لیکن اب جبکہ یہ گم ہو گئی تھی تو اسے ڈھونڈنا اور بھی مشکل کام نظر آرہا تھا ۔ سرحد کی گمشدگی کے بعد خط تقسیم ڈھونڈنے والے لوگ اور عوامی بھیڑ دونوں ملکوں کے درمیان اتنی آزادی کے ساتھ آ جا رہی تھی کہ لگتا تھا اب دو ملک نہیں رہ گئے بلکہ دونوں مل کر ایک ملک ہو گئے ہیں ۔ حالات اس قدر تبدیل ہو چکے تھے کہ سرحد کے دونوں طرف کے لوگوں کے مابین میل جول، آمد رفت اتنی فطری ہو گئی تھی کہ شادی بیاہ اور عشق و عاشقی کے معاملات دوبارہ طے ہونے لگے تھے ۔ اب بچے بھیڑ بکریاں چرانے اور کھیلنے کو د نے کے لیے آزادی سے آ جارہے تھے تو بڑے میاں بھی شان کے ساتھ اپنے بیٹے سے ملنے جاتے تھے ۔ وہ دوشیزہ بھی خوش تھی کہ اب وہ ماں کی دوا وید ھ جی سے لا سکتی تھی ۔جس سے اسکی ماں کی طبیعت بھی کچھ سنبھل گئی تھی ۔اور گلریز۔۔۔۔۔وہ کہاں تھا ؟
رات کے گھنے اندھیرے میں ایک سایا تیزی سے چلتے چلتے چوڑی سڑک سے منسلک گلی میں داخل ہو گیا ۔ گلی سنسان تھی ۔ وہ چلتے چلتے یا تو تھک چکا تھا یا پھر احتیاطاً چال سست کرتی تھی ۔ گھپ اندھیرے میں چلتا ہوا سایا بے حد پر اسرار لگ رہا تھا ۔ سایا اچانک ایک شاندار بلڈنگ کے مضبوط گیٹ پر پہنچ کر رک گیا ۔ اس نے اوپر سر اٹھایا تو مکان کی باہری دیوار میں لگے روشن دان پر کچھ روشنی دیکھ کر چونک پڑا۔
(۶)
’’لگتا ہے وہ ابھی سوئی نہیں ہے ۔۔۔۔چلو اچھا ہی ہے۔‘‘
اس نے روشن دان کے آس پاس کی دیوار کا جائزہ لینے کی کوشش کی ۔روشن دان قدر بڑا تھا اور اس میں خالی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔اس کے کافی قریب سے پانی کا پائپ نیچے تک آرہا تھا ۔ سایا اس پائپ کے سہارے اوپر چڑھنے لگا ۔ روشن دان کے پاس پہنچ کر اس نے اندر جھانکا اندر کی طرف کمرے میں روشنی پھیلی ہوئی تھی اور ایک نوجوان خوبصورت لڑکی آرام کرسی پر لیٹی ہوئی دکھائی دی ۔ وہ شاید کسی سوچ میں گم تھی کیو نکہ ایک ٹک خلا میں گھور رہی تھی ۔ سایا روشن دان پار کرکے کمرے کے اندر پہنچ گیا ۔ دبے پاؤں چلتے ہوئے لڑکی کے ٹھیک پیچھے پہنچ کر چند سکنڈ کے لئے سانس رو کے کھڑا رہا ۔ پھر اس نے اپنے ہاتھ بڑھا کر لڑکی کی آنکھیں ڈھک لیں۔
’’ک۔۔۔۔۔ک۔۔۔۔کون‘‘لڑکی کی آواز چیخ میں بدلتی اس سے پہلے ہی اس نے لڑکی کے منھ کو ہاتھ لگا کر بند کر دیا ۔
’’پہچانو۔۔۔تو ذرا ۔۔۔۔کون گستاخ تمہارے کمرے میں گھس آیا ہے ۔‘‘ اس نے منھ سے ہاتھ ہٹا لیا ۔’’گلریز ۔۔۔۔تم ۔۔۔۔تم یہاں‘‘؟ خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات سے لڑکی کا چہرہ دمکنے لگا تھا ۔
’’ہاں۔۔۔۔انار۔۔۔۔۔یہ میں ہوں۔۔۔۔۔تمہارا اور صرف تمہارا گلریز۔‘‘
انار بے ساختہ گلریز سے لپٹ گئی ۔اسکی آنکھیں اشکبار ہو گئیں تھیں۔ کافی دنوں کی جدائی کے بعد ملن کی عجیب و غریب کیفیت سے وہ محظوظ ہو رہی تھی ۔
’’گلریز تم سرحد پار کرکے اس وقت کیسے یہاں آگئے۔۔۔۔۔تمہیں فوجیوں نے یہاں آنے کیسے دیا ۔۔۔۔کہیں تم فوجیوں کی نگاہ سے بچ کر نکلنے میں تو کامیاب نہیں ہو گئے ہو۔‘‘انار اچانک پریشان دکھائی دینے لگی تھی۔
’’نہیں میری جان ۔۔۔۔ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ ’’گلریز مطمئن ہو انار کی نرم و نازک زلفوں سے کھیلنے لگا ۔
’’پھر تم آئے کیسے ۔۔۔خیر آ تو گئے ۔۔۔لیکن۔‘‘
’’خوشی کی خبر یہ ہے انار ہمارے درمیان حائل محبت کی دشمن سرحد اب غائب ہو گئی ہے۔۔۔۔۔اب ہم آزاد ہیں۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔یہ تم کیا کہہ رہے ہوگلریز؟‘‘انار کی آواز میں بے یقینی جھلک رہی تھی۔
’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔۔۔اب ہماری جدائی کے دن ختم سمجھو ۔‘‘ گلریز جذبات کی رو میں بہک کرقدر تیز آواز میں بولنے لگا تھا۔
’’کون ہے ۔۔۔انار ۔۔۔۔انار تمہارے کمرے میں کون ہے۔‘‘ آواز لگاتے لگاتے انار کے والدین اس کے کمرے میں داخل ہو گئے تھے ۔
(۷)
’’اوہ ۔۔۔تو یہ تم ہو برخردار ۔۔۔تم اتنی رات میں یہاں کس طرح پہنچ گئے۔۔۔۔’’یہ انار کے والد کی آواز تھی ۔
’’بیٹا گلریز تم اتنی رات میں سرحد پار کرکے کیسے آگئے ۔ ۔۔۔۔کہیں تم فوجیوں سے چھپ کر تو نہیں آئے ہو کہ وہ تمہیں ڈھونڈتے ہوئے یہاں آنے والے ہوں۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔نہیں اماں ۔۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے ۔‘‘ انار گلریز سے پہلے ہی بول پڑی ۔
’’پھر یہ یہاں کیسے ؟ ‘‘ انار کے والد قدر خفگی سے انار کو گھور تے ہوئے بولے ۔ وہ ابھی تک الجھن کا شکار تھے ۔
’’انکل۔۔۔۔ہمارے درمیان حائل سرحد اچانک گم ہو گئی ہے ۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔میں صبح ہونے کا انتظار نہیں کر سکا ۔۔۔انکل اس سے پہلے کہ سرحددوبارہ واپس آجائے میں چاہتا ہوں کہ آپ انار کی رخصتی طے کر دیں ۔‘‘
گلریز نے بڑی بے باکی اور ہمت کے ساتھ یہ الفاظ ادا کیے تھے ۔ انار کے گھر والے اسکی بیتابی کو سمجھ رہے تھے اور حیران بھی تھے کہ انار کی محبت نے اس کے اندر بلاکی خود اعتمادی بھر دی تھی ۔ انار کے والد نے ایک مرتبہ انار کی طرف دیکھا اور وہ اس کے جذبات کو پہچان گئے ۔ وہ سوچوں میں گم ہو گئے ۔
’’تو انکل۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے جب سرحد گم ہو ہی گئی ہے تو پھر مجھے کیا اعتراض ہے تم کل اپنے والد صاحب کو لے کر آنا تب باقی کی بات کریں گے۔ کاش کہ یہ سرحد ہمیشہ کے لیے ہی غائب ہو جائے ‘‘۔ کہہ کر انار کے والد کمرے سے نکل گئے ۔
’’آمین‘‘ سبھی نے دہرایا۔
*
’’بیٹارامو۔۔۔۔رامو۔۔۔۔کہاں ہے میرا بیٹا ۔‘‘ رام سنگھ کے والد بڑے میاں اب آرام سے ٹہلتے ہوئے اپنے بیٹے کی عیادت کے لیے پہنچ گئے تھے ۔
رامو کی بیوی جلدی سے سر پر دوپٹہ ڈال کر بڑے میاں کے استقبال کے لیے دروازہ پر آئی۔ اور انکی چھڑی پکڑ کر اندر کمرے میں لے آئی جہاں رام سنگھ بستر علالت پر پڑا ہوا تھا ۔
’’بابا۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔۔آپ کیسے آگئے ۔ ‘‘ رام سنگھ بدبدیا۔ وہ غنودگی کے عالم میں تھا ۔
’’ارے بیٹا ۔۔۔۔اوپر والے نے ہماری سن لی ہے ۔ اب ہمارے درمیان حائل سر حدغائب ہو گئی ہے ۔۔۔اور ہم پہلے کی طرح آزاد ہو گئے ہیں ۔‘‘ بڑے میاں کی فرط جذبات میں ڈوبی آواز نے رام سنگھ پر جادو کا سا اثر کیا تھا ۔ اس نے اپنی پوری آنکھیں کھول دیں ۔
’’تو بتا بیٹا ۔۔۔۔اب تیری طبیعت کیسی ہے؟‘‘
’’اب ٹھیک ہوں بابا۔۔۔۔۔بابا۔۔۔۔مجھے معاف کر دو۔۔۔۔کاش میں نے گھر نہ چھوڑا ہوتا تو آج ہم یوں پریشان نہ
(۸)
ہوتے۔‘‘ کہتے کہتے رام سنگھ کی آواز بھّراگئی ۔
’’اب جو ہوا سو ہوا ۔ پہلے تو ٹھیک ہو جا تو ہم ساتھ ساتھ ہی رہیں گے ۔‘‘
بوڑھے باپ کی آنکھیں بھی گیلی ہو گئی تھیں ۔
’’لیکن بابا سرحد اچانک غائب کیسے ہو گئی ۔‘‘ رام سنگھ کی بیوی نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا ۔
’’بھگوان جانے بیٹی ۔۔۔۔لیکن یہ اچھا ہی ہوا۔۔۔۔بھگوان کرے کہ یہ سرحد اب کبھی واپس نہ آئے ۔‘‘
*
’’کیلاش یار کچھ بھی ہو۔۔۔۔۔دل خوش ہو گیا ‘‘ عادل خان نے کیلاش سے گلے ملتے ہوئے کہا ۔
’’ٹھیک کہتے ہو دوست۔۔۔۔اس سرحدنے تو ہم دوستوں کو بھی دشمن بنا رکھا تھا ‘‘
’’ہاں یار۔۔۔۔لیکن اب سرحد نے غائب ہو کرہمارے لیے جشن کا موقع فراہم کر دیا ہے ۔۔۔۔تو ہو جائے ایک ایک پیگ۔‘‘ گلاس میز پر جم گئے ۔
’’یار۔۔۔۔۔آج اگر سردارے زندہ ہوتا تو کتنا خوش ہوتا ۔‘‘ دونوں کی آنکھیں اچانک نم ہو گئیں ۔
’’کاش کہ یہ سرحدکبھی نہ ملے۔‘‘
’’آمین۔‘‘ *
’’ارے ۔۔۔۔ارے ۔۔۔۔رکو بھئی ۔۔۔۔کہاں جا رہے ہو تم۔‘‘
’’جناب ہماری عبادت کا وقت ہو رہا ہے ۔۔۔۔ہمیں ادھر اپنی اولین عبادت گاہ میں عبادت کے لیے جانا ہے ۔‘‘ بزرگوں اور نوجوانوں کی ٹولی کے قائد نے بے حد شائستگی کے ساتھ مدعا بیان کیا۔
جواب میں اتنی ہی بد تمیزی کا مظاہرہ ہوا ۔
’’چپ کر و تم سب کے سب واپس چلے جاؤ ۔۔۔اسی میں تمہاری خیریت ہے ۔‘‘
’’لیکن ہمارا عبادت کا مقدس ماہ چل رہا ہے ۔ ۔۔۔اس میں تو ہمیں ہماری اولین عبادت گاہ تک جانے دو۔۔۔آخر ہم عبادت کے لیے ہی تو وہاں جانا چاہتے ہیں۔‘‘
ٹولی کے قائد نے بد تمیزی کو در گذر کرتے ہوئے اپنے مدعے کی وضاحت کی ۔
’’کہا نہ چپ چاپ واپس چلے جاؤ۔۔۔۔ہمیں حکم ملا ہے کہ تمہیں سرحد پار نہ کرنے دی جائے ۔اس لیے جان کی اماں چاہو تو واپس چلے جاؤ ۔۔۔ورنہ۔۔۔۔‘‘
’’ورنہ کیا ؟‘‘ ابکی نوجوان خون ابل پڑا تھا۔
(۹)
’’زبان لڑاتا ہے ۔۔۔۔تو ہم سے زبان درازی کرتا ہے۔۔۔۔یو باسٹرڈ ۔۔۔‘‘ غصے سے کانپ رہے فوجی نے نوجوان کی طرف اپنی رائفل تان لی ۔
’’سالے۔۔۔گولی بھیجے میں اتار دوں گا۔۔۔‘‘
اپنے ساتھی کو نوجوان سے الجھتا دیکھ اسکے اور ساتھی بھی مقابلے کے لئے آکھڑے ہوئے تھے۔
’’زبان کو لگام دو ورنہ ہم بھی کم نہیں ہیں ۔‘‘نوجوان گھبرایا نہیں اور کالر اونچے کرکے فوجیوں کے سامنے آن کھڑا ہوا اسکے ساتھ اور بھی نوجوان تھے جو اسکی حمایت میں اسکی پشت پر آن کھڑے ہوئے تھے۔دونوں طرف سے تلوار یں کھینچتی دیکھ بزرگوں نے نوجوانوں کو سمجھا بجھا کر واپس لے جانے کی کوشش شروع کی لیکن وہ کہاں ماننے والے تھے ۔ خالی ہاتھ وہ فوجیوں کے سامنے اکڑے کھڑے تھے۔ اچانک فوجی کے ہاتھ سے ٹریگر دبا اور سامنے کھڑے نوجوان کے سینے سے خون کا فوارہ ابل پڑا ۔ یہ دیکھ کر باقی نوجوان غم و غصے سے پاگل اٹھے۔ انہوں نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ زمین پرپڑے ہوئے پتھر اٹھائے اور فوجیوں پر برسانے شروع کر دئیے ۔ غم و غصہ اس قدر شدید تھا کہ فوجی بدحواس ہو گئے ۔ انہوں نے باقائدہ فائرنگ شروع کر دی ۔ اور سرحد کو خون سے رنگ ڈالا ۔
*
برفیلی پہاڑیوں میں ایک خونخار ساد کھنے والا شخص وائرلیس سیٹ پر بات کرنے میں مصروف تھا ۔
’’ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔۔ٹائگر اسپیکنگ ۔۔۔اووَر(Over)۔‘‘
’’انچارج کا لنگ ۔۔۔۔اوور۔‘‘
’’انچارج صاحب یہاں سرحد پر بہت گڑ بڑ ہو گئی ہے۔۔۔۔اوور۔‘‘
’’کیا ؟۔۔۔کیا ہوا۔۔۔۔اوور۔‘‘
’’تمام جدو جہد کے بعد جو سرحد قائم ہوئی تھی وہ اچانک غائب ہو گئی ہے سر ۔‘‘
’’کیا بکتے ہو ۔۔۔ہوش میں تو ہو ۔‘‘
’’میں پورے ہوش میں ہوں سر ۔۔۔ہم سب خود بھی حیران ہیں کہ ۔۔۔۔‘‘
’’ضرور یہ تمہاری کوتا ہی ہے ۔۔۔تم لوگ نازک سی سرحدی لکیر کا تحفظ نہیں کر سکتے ۔آخر ۔۔۔۔تم ہو کس مرض کی دوا۔‘‘
’’سر اس میں ہماری کوئی غلطی نہیں ہے سر ۔۔۔۔وہ بالکل اچانک ہی غائب ہوئی ہے۔‘‘
’’شٹ اپ ۔۔۔۔لگتا ہے تم کو تحریک میں شامل کرنا ہماری بھول تھی ؟‘‘
’’نہیں ۔۔۔نہیں سر ۔۔۔ ایسا مت کہے ہم جی جان سے تحریک کے ساتھ ہیں۔‘‘
’’کس نے غائب کی یہ پتہ لگایا؟‘‘
(۱۰)
’’یہی تو پتہ نہیں لگ رہا سر۔۔۔۔دونوں طرف بھی سب پریشان دکھ رہے ہیں۔‘‘
’’خیر۔۔۔۔پتہ لگاؤ یہ کس کا کام ہے ۔۔۔تحریک کی کامیابی کے لیے سرحدی لکیر کا ملنا اور اس کا قائم رہنا بہت ضروری ہے ۔۔۔۔ڈھونڈو ۔۔۔۔چاہے اس کے لئے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے ۔۔۔۔اوور۔۔۔اووراینڈ آل۔‘‘
*
چودھری ملک کی کانگریس کا اجلاس جاری تھا ۔ صد رنے تالیوں کی گڑگراہٹ کے درمیان ڈائس پر رکھے مائک کو ہاتھ میں پکڑتے ہوئے بولنا شروع کیا:
’’ممالک کے درمیان سے سرحد کا غائب ہو جانا نہ صرف یہ کہ تعجب خیز ہے بلکہ نہایت خطر ناک سازش بھی ہے ۔ سرحد کے غائب ہونے سے جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں یا ہو سکتے ہیں وہ آپکی ذہنی پرواز سے دور نہیں ہیں ۔
اگر اس طرح سرحد یں غائب ہونے لگیں گی تو ہمارا اقتصادی نظام در ہم بر ہم ہو جائے گا ۔ کیوں اور کیسے یہ آپ سب بخوبی سمجھ سکتے ہیں ؟ جن مہلک ہتھیاروں پر ہمارے سائنسدانوں نے کئی سال مہنت کی ہے اور اب جبکہ ان کا کامیاب تجربہ بھی سامنے آچکا ہے ۔ تو ہم ان کا کریں گے کیا ؟ اگر سرحد کی بنا پر ہونے والی جنگیں بند ہو گئیں تو نہ صرف اقتصادی کمزوری پیدا ہو گی بلکہ انسانی ترقی کی راہیں بھی مسدود ہو کر رہ جائیں گی ۔ انسانی ترقی رک جائے گی اور مسلسل دل دہلا دینے والی اڑچنیں پیدا ہو جائیں گی ۔ تو کیا آپ لوگ انسانی تباہی کا منظر دیکھنا پسند کریں گے ؟‘‘
’’نہیں ۔۔۔۔‘‘کئی سینیٹر اچانک ایک آواز ہو کر چیخے ۔
’’لیکن سرحد غائب کیسے ہوئی؟‘‘ ایک مخالف جماعت کے سینیٹر نے سوال کیا ۔
’’اس کا پتہ لگانے کے لیے کمیشن کی تشکیل زیر غور ہے ۔‘‘
’’صدر محترم ۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ یہ حرکت کسی ایلین (دوسرے سیارہ کی مخلوق) کی ہے ۔‘‘ ایک سینیٹر نے بڑے پتے کی جانکاری مہیا کی تھی ۔
’’ممکن ہے یہ ایلین کا ہی کام ہو؟‘‘ صدر محترم نے مشورہ قبول کر لیا ۔
’’لیکن کیا ایلین ایسا کر سکتا ہے؟‘‘ ایک اور مخالف سینیٹر نے کہا ۔
’’کر بھی سکتا ہے؟‘‘ صدر نے گول مول جواب دے کر بات ختم کرنے کی کوشش کی ۔
’’بہر حال انسانی بقا اور اپنے اقتصادی نظام کو تقویت دینے کے لئے کھو گئی سرحد کو ہر حال میں کھو جنا ہوگااور اس کے استحکام پر بھی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہوگا ۔‘‘
اجلاس کے خاتمے کا اعلان ہوتے ہی سینیٹروں میں چہ میگو یاں شروع ہو گئیں ۔
(۱۱)
*
گلریز اور انار بہت خوش تھے ۔ انکی شادی کی تاریخ طے ہو چکی تھی دونوں طرف زور شور کے ساتھ تیاریاں چل رہی تھیں۔ بازاروں میں گھوم گھوم کر خریداری کی جا رہی تھی۔ گلریز نے انار کی پسند کی تمام جویلری اور جوڑے خریدے تھے۔ خود اپنے لیے بہت دل سے کریم کلر کی شیروانی جس پر بے حد نفیس کڑھائی کی گئی تھی خریدی تھی جسے وہ شادی کے دن پہنے والا تھا ۔ گلریز اور انار کو ایک ایک پل بھاری گذر رہا تھا کہ جلد وہ ایک دوسرے کے ہو کیوں نہیں جاتے؟ اللہ اللہ کرتے کرتے آخر وہ دن آہی پہنچا جب انار وداع ہو کر گلریز کے گھر آجانے والی تھی ۔
بارات میں شامل ہونے والے تمام لوگ تیار ہونے میں لگے تھے گلریز بھی بڑے اہتمام کے ساتھ تیار ہو رہا تھا ۔ اس نے بال سیٹ کرانے سے لے کر بلیچنگ کرانے تک کا خصوصی اہتمام کیا تھا ادھر انار کو بھی تیار کرنے کے لیے بیوٹی پارلر سے خاتون بلائی گئی تھیں۔ بارات کی تیاری زور شور سے جاری تھی ۔ سجی ہوئی بگھی بھی دروازے پر آچکی تھی۔ تمام رسوم کی ادائیگی کے بعد دولہے کو بگھی میں سوار کرادیا گیا اور بارات شان کے ساتھ انار کے گھر کی طرف روانہ ہوئی ۔
*
اس سے قبل کہ معاملہ بالکل فطری آسان حل پر قائم ہو کر ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا اور دونوں ممالک کے درمیان فرق واضح کرنے والی لڑائی جھگڑے کی کوئی وجہ نہ باقی رہتی دونوں طرف کے کچھ ’’وطن پرست‘‘لیڈران اور پالیسی سازوں نے آگے بڑھ کر معاملے کو اپنے دست مبارک میں لپک لیا۔ ان لیڈران کا ماننا تھا کہ سرحدی لکیر کے غائب ہونے سے دونوں ممالک اپنی انفرادی شناخت ، امتیازی حیثیت ، اور علاقائی پہچان کھودیں گے اور انسانی ترقی کی راہیں بھی بند ہو جائیں گی اس لیے ہر حالت میں سرحدی لکیر کو تلاش کیا جائے گا۔ کسی وجہ سے اگر یہ نہ ملی تو پھر دوسری لکیر قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
*
بارات دھیرے دھیرے شان کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی بارات دیکھنے کے لیے بھی خوب بھیڑ جٹ رہی تھی آتش بازی کے ساتھ بینڈ باجے نے جو رونق پیدا کی تھی اس میں گلریز کے دوستوں نے سہرے گا کر مزید رونق بخش دی تھی ۔ خوش رنگ لباس پہنے نوجوان چہک رہے تھے اور بزرگوں کی نظر بچا کر ایک آدھ ٹھمکا بھی لگا لے رہے تھے ۔ بارات کے دھیرے دھیرے چلنے سے گلریز بار بار پہلو بدل رہا تھا بہترین نقاشی داربگھی میں بیٹھا گلریز دولہا بن کر واقعی کوئی شہزادہ نظر آ رہا تھا۔ اور یہ شہزادہ اپنی شہزادی سے چلنے کے لیے بیقرار ہوا جا رہا تھا اسے لگ رہا تھا کہ وہ کسی طرح اڑ کر انار کے پاس پہنچ جاتا اور اسے اڑا کر اپنے گھر لے آتا ۔ لیکن گھر کے بزرگوں اور دوستوں کی بات مان کر اسے تمام روایتی کام انجام دینے پڑرہے تھے ۔ بہر حال بارات خراما خراما انار کے گھر کی طرف چل رہی تھی اور اب انار کا گھر تو نہیں لیکن بارات کو ٹھہرانے والا منڈپ دکھائی دینے لگا تھا گلریزکو قدر اطمینان ہوا کہ چلو منزل اب قریب ہے۔تبھی۔۔۔۔۔
’’ٹھہرو۔۔۔آپ لوگ آگے نہیں جا سکتے ۔‘‘ ایک گرج دار آواز نے پوری بارات کو چونکا دیا ۔
(۱۲)
’’ٹھہرجاؤ ۔۔۔۔آگے سرحد ہے ۔۔۔آپ سرحد عبور نہیں کر سکتے۔‘‘
گلریز نے سنا تو اسے لگا کسی نے اس کے سرپر بم پھوڑ دیا ہو ۔ بارات میں کھلبلی مچ گئی ۔ بینڈ باجا بند ہوگیا ۔ سب حیرت سے ایک دوسرے کو تکنے لگے ۔
’’لیکن سرحد تو غائب ہو گئی تھی نا ۔‘‘ گلریز کی آواز دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی ۔
’’ہاں۔۔۔لیکن اب یہ مل گئی ہے ۔۔۔کمبخت ایک نقشے میں چھپی بیٹھی تھی لیکن اب اسے پھر سے قائم کر دیا گیا ہے ۔۔۔۔اس لیے ۔۔۔۔۔آپ لوگ واپس جائیے ۔ بارات سرحد پار نہیں جا سکتی ۔‘‘ فوجی کی دو ٹوک بات نے بارات کے حوصلے پست کر دیے ۔
گلریز کبھی اپنی بارات کی طرف دیکھ رہا تھا تو کبھی سامنے دکھ رہے سجے ہوئے منڈپ کو ۔ وہ حیران تھا پریشان تھا اور حسرتوں کا یہ حشر اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔ اچانک وہ زور سے چیخا اور پھر چیختا ہی چلا گیا۔
’’سرحد کو گم کردو۔۔۔۔میری خوشیاں میرا انتظار کر رہی ہیں ۔۔۔۔جاؤ اس سرحد کو کہیں گم کر دو۔۔۔‘‘
****
(ختم شد)
انجنیئر فرقانؔ سنبھلی
دیپا سرائے چوک ضلع سنبھل
پن:244302(یو.پی)
Mob: 9568860786
9411808585
mail id: عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.