الأحد, 11 آب/أغسطس 2013 13:53

کوکھ کی تلاش : شبنم راہی Featured

Rate this item
(0 votes)

 کوکھ کی تلاش

 شبنم راہی

 


                       ’’ارے ساب یہ لاسیں(لاشیں)کیا ہیں!یہ تو ماس کے ٹکڑے ہیں ٹکڑے ،وہ بھی ایسے کہ جیسے کسائی کی دکان سے لا کے یہاں پھینکے گئے ہوں ۔اور ساب سارے کے سارے چھوریاں لوگوں کے ہیں اس میں چھورا توایک ناہی۔ لاسوں کے نام پہ کچڑا ہے کچڑا ‘‘۔
بھیڑ سے گھرے ایک گڈھے میں اترے سپاہی نے یہ کہتے ہوئے اپنے افسر کو اطلاع دی ۔ اور یہ سنتے ہی صحافی حضرات نے بھی ایک بار پھر بھیڑ کو چیر نا شروع کر دیا ۔وہ بھی اپنا کیمرہ اور بیگ سنبھالتے ہوئے اس گڈھے کے اوپرکھڑاہوکر ایک کے بعد ایک تصویریں اتارنے لگا۔ تصویریں اتارتے ہوے اور وہاں کامنظر دیکھتے ہوے اس کا دماغ چکرانے لگا تھا ۔ اسے لگا کہ جیسے وہ خود سے اپناقابو کھودے گا۔کیونکہ گڈھے میں موجود لاشوں کے نام پر واقعی ادھورے وجود میں لڑکیوں کاکچڑا ہی تھا۔ 
کچھ دیر پہلے جب کسی نے گاؤں میں کچھ بچوں کی لاشیں ملنے کی خبر دی تھی ۔تب وہ ایک عام صحافی کی طرح خبر کی طرف بھاگاتھا۔راستے بھر خبرکے تعلق سے بہت سی باتیں اس کے دماغ میں گھومتی رہی تھیں کہ معصوم بچوں سے کسی کی کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ ان معصوموں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے؟اور بھلا انہیں کوئی کیوں مارے گا؟پھر اس نے خود ہی یہ سوچا تھاکہ ہوسکتاہے کہ ان کے ماں،باپ کی کسی سے کی کوئی رنجش رہی ہو،جس کا بدلا دشمنوں نے ان کی اولاد سے نکالاہو،مگر یہاں حالات کی نوعیت ہی کچھ اور تھی۔
صحافی حضرات افسران سے خبرکی بابت تفصیلی جانکاری حاصل کرنے میں لگے تھے۔افسران کا ماننا تھا کہ گڈھے میں سے برآمد شدہ گوشت کے لوتھڑے ان بچیوں کے ہیں جنہیں انکی پیدائش کے مقرر وقت سے قبل ہی جنس کی جانچ کے بعد حمل میں ہی ختم کردیا گیا تھا۔حمل میں انہیں چند سانیں تو عطاکی گئی تھیں،مگر شاید بیٹی ہونے کے ناتے انہیں دنیا میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اور ان کی وہ ادھوری سانسیں توڑکر کچڑے کی شکل میں گڈھے میں لاکر ڈال دی گئی تھیں۔
ان لوتھڑوں کی تصویریں اتارتے ہوئے وہ اس بے نام سی کیفیت کی زد میں آتا جا رہا تھا جس سے وہ خود خوفزدہ رہتا تھا۔ اور اِس وقت بھی وہ یہ سوچ کے پریشان تھاکہ کہیں کوئی عجیب وغریب حرکت یہاں نہ کر بیٹھیں۔گھبراکر ذہن بٹانے کے لئے اس نے اِدھر اُدھر دیکھا مگر ہر طرف اسے زار وقطار روتی چیختی ان بچیوں کا شور ہی سنائی دے رہا تھا۔ایسا شور جو اس کے کان کے پردے پھاڑتا ہوا اسے الجھاتا ہوااس کے دماغ پر چوٹ کر رہاتھا۔ ایسا شور جو چیختی ہوئی بچیوں کے کرب اور آہوں کا احساس کرا رہا تھا۔ ۔۔۔ایسا شور جو اس کے احساس کو جھنجھوڑ کر شعور کو بیدارکرتا ہوا اسے پاگل بنا رہا تھا۔ایسا شور جو صرف اس کے کانوں تک پہنچ رہاتھا۔ایسا شور جو اسے اس کے وجود کی اہمیت بتارہاتھا۔ایسا شور جو اس کے وجود میں لغزش پیدا کر رہا تھا۔ایسا شور جو آنے والے وقت میں اس کے وجود کے لئے سوالیہ نشان بھی بنا رہاتھا۔
افسران کا بیان رکارڈ کرتے ہوئے بھی وہ اُس ماحول اور اپنے اندر کے شور سے پریشان تھا،اس کا دم گھٹنے لگا تھا،اسے لگا تھا کہ جیسے کو ئی اس کا گلا دبارہاہے۔اور دم بس نکلنے ہی والا ہے۔گھٹن اور خوف سے ایک چیخ اس کے اندر بلند ہوئی۔’’ میری ماں مجھے بچالے‘‘۔اور اُس کی اس پکار کے ساتھ زاروقطارروتی چیختی ان بچیوں نے اور تیز آواز کے ساتھ رونا شروع کردیا تھا۔ شور اب اس قدر بڑھ چکاتھا کہ اسے خود کو سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا۔بمشکل تمام خود کو سنبھالتے ہوئے وہ ایک پتھر پر جا بیٹھا۔او ر گھبراکر اپنے دونوں ہاتھ سختی سے اپنے دونوں کانوں پر رکھ کر لیے۔مگر تب تک شور اس کے کان کے پردوں کو چیر کر دماغ سے ٹکراتا ہوا آنکھوں کے سامنے منظربنانے لگا تھا۔
اُس نے دیکھا گھبرائی ہوئی ایک حاملہ عورت ’’بچاؤ ، بچاؤ‘‘ کہتی ہوئی اپنا پیٹ پکڑے ہوئے چاروں طرف بھاگ رہی ہے اور ہربار اس کے پاس سے ’’بچاؤ ، بچاؤ‘‘ کی دو آوازیں اُبھرتی ہیں۔ایک آواز اس کی ہے اور دوسری اس کی کوکھ میں پل رہی ایک معصوم بچی کی ہے۔ کچھ عورتوں اور مردوں کی بھیڑ یہ کہتے ہوئے اس کے پیچھے ہے۔’’ارے کلموہی ہمیں ونش چلانے والا چاہئے ہے ۔ اس مہنگائی میں کہاں کھپائیں گے اسے۔۔۔۔۔۔چل ختم کر اس جھگڑے کو۔۔۔ ‘‘ تب’’ بچاؤ ،بچاؤ ‘‘کہتی ہوئی وہ عورت دوسری طرف کو بھاگتی ہے۔مگر وہاں سفید اپرن پہنے مرد اور عورت ڈاکٹر اسے گھیر کر ایک کمرے میں لے جاتے ہیں،جہاں ہاتھ میں بڑے بڑ ے قصائی والے چھرے لئے وہ ڈاکٹر کوکھ میں پل رہی بیٹیوں کو ختم کرنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ وہاں اس عورت جیسی اور بھی کئی عورتیں موجود ہیں۔ تب ان سب کوکھوں سے التجا کرتی ہوئی معصوم بچیوں کی پکار سنائی دیتی ہے۔ ’’ ہمیں مت مارےئے ہمیں جنم لینے دیجے۔ ہم بھی دنیا دیکھنا چاہتے ہیں،ہم بھی دنیا میں آنا چاہتے ہیں۔ ‘‘
لیکن وہ ڈاکٹر چاروں طرف کے اس شور سے بے خبر ایکدم شانت ہیں اسپتال میں لگے اس پوسٹر کی طرح جس میں منہ پر انگلی رکھ کر ’’ش۔۔۔ ش۔۔۔ ش۔۔۔ شششش‘‘ کہتے ہوئے خاموش رہنے کا اشارہ کیا گیا ہے ۔ اور وہیں اس کے برابر میں لگے کئی اور پوسٹر کچھ شرمندہ سے ہیں جس میں ایک پہ لکھا تھا ۔’’ بھرون ہتیہ پاپ ہے۔‘‘اوردوسرے پہ لکھا تھا۔ ’’بچّے کے جنم سے پورولنگ کی جانچ قانونا اپرادھ ہے‘‘۔ 
گھبراکر اس نے کانوں کے ساتھ ساتھ اب آنکھیں بھی سختی سے بند کر لیں ۔مگر سکون پھر بھی نہیں ملا۔اب اسے لگا کہ جس زمین پر وہ بیٹھا ہے اُس جگہ کا وزن پہلے سے کچھ زیادہ بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے زمین کا توازن بگڑ رہا ہے اور زمین نیجے کودھسنے لگی ہے۔ اور وہ بھی آہستہ، آہستہ زمین کے ساتھ اند ر کو دھنستا جارہا ہے۔پھر زمین ایک ایسی جگہ جاکر رُک جاتی ہے جہاں صر ف مرد ہی مرد ہیں۔بے نور اور بے رونق جگہ ہے جہاں کائنات کی پری عورت کا نام ونشان تک نہیں ہے۔اور وہ مرد اپنے ادھورے پن سے خونخار ہوکر ایک دوسرے کو نوچ کھسوٹ رہے ہیں۔
غش کھاکر اب وہ پیچھے کو گرتا ہے۔ مگر احساسات اس کے شعور کو جھنجھوڑنا اب بھی نہیں چھوڑتے ہیں۔ پھر ایک ایسے جہان میں لے جاتے ہیں جہاں کا منظر یہاں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ وہاں اُن بچیوں کے شور سے زیادہ بھیانک مردانہ شورہے ۔۔۔ ۔۔۔ اور وہ شور ہے اُن مرد بچوں کی روحوں کا ہے جو اس دنیا میں آنا چاہتی ہیں مگرانہیں جنم دینے والی ایک کوکھ انہیں نصیب نہیں ہے۔اور اُن بچوں کی وہ روحیں بھی بچیوں کی روحوں کی ہی طرح چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں۔’’ہم بھی دنیا دیکھنا چاہتے ہیں‘‘،’’ہم بھی دنیامیں آنا چاہتے ہیں‘‘۔’’ہمیں جنم دینے والی ایک کوکھ چاہئے،ایک ماں چاہئے۔۔۔ہمیں ایک کوکھ دو۔۔۔۔‘‘تب گھبراکے اس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ایسی دلخراش دہاڑلگائی کہ زمین و آسمان دونوں لرزگئے۔اور شور کرتی وہ روحیں سہم کر دہاڑتے اس شخص کے ادھور ے جملے میں الجھ گئی جو کہہ رہا تھا ۔ یا اللہ کیا اب آدم زاد کی پسلی سے ۔۔۔ ۔۔۔ ؟ 

*** 



Shabnam Rahi
R-13, Nafees Road, Batla House
Jamia Nagr, New Delhi- 25
E-mail: عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته. 

Read 2610 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com