الأحد, 01 أيلول/سبتمبر 2013 19:26

گھر لوٹ کے جانے کا تصّور : عذرا نقوی Featured

Rate this item
(0 votes)

  گھر لوٹ کے جانے کا تصّور


 عذرا نقوی


                 آج جمعے کی شام تھی اسلئے بطحیٰ کے بازار میں بہت بھیڑ تھی ۔ہمیشہ کی طرح ٹیکسیوں اور پرائیوٹ کاروں کادریا سا بہہ رہا تھا۔ سار ابازار برقی روشنیوں سے روشن تھا۔ الکٹرونک سامان بنانے والی مشہور کمپنیوں ، سونی ،ایل جی، سنسو ئی ، سیمسنگ کے بڑے بڑے بورڈ وں سے سجی دکانیں ہمیشہ کی طرح پررونق تھیں ۔ فٹ پاتھ پر سستی گھڑیوں کے ڈھیر اور چائنا کے بنے سستے کھلونوں اورکپڑوں کی دکانوں کے سامنے کافی بھیڑ تھی۔ پیدل چلنے والوں کے لئے سڑک پار کرنے والے ُ پل پر مردوں کے غول کے غول لدے ہوئے تھے۔ اکا دکا کوئی عورت کالے برقعے میں چھپی اپنے شوہر کے ہمراہ نظر آجاتی تھی ۔

زبیر نے اپنی ٹیکسی ہرمال دو ریال والی دکان سامنے کھڑی کردی جس کے اندر چائنا اور تائیوان کا سستا مال بھر ا ہوا تھا ۔ حا لانکہ وہاں (ممنوع الوقوف ) نو پارکنگ کا بورڈلگا تھا مگر جمعے کی شامُ پل کے قریب اسی دکان کے سامنے ہی اشتیاق نے مغرب کی اذان سے پہلے ملنے کو کہا تھا... اب بس وہ جلدی آ جائے ورنہ ٹریفک پولس والا آگیا تو مشکل ہوجائے گی... زبیر نے ڈرائیور سیٹ سے سر ٹکا کر پاؤں پھیلا تے ہوئے سوچا۔ تھوڑی ہی دور پر ماڈرن طرز کی بڑے بڑے شیشوں کی کھڑکیوں والی پرنس سلمان بلڈنگ میں نیاشاپنگ سینٹر جمگمگا رہا تھا۔ اسے خیال آیا کہ ابھی چند برس پہلے یہاں اس عالی شان پرنس سلما ن بلڈنگ کی جگہ پر بڑا سا کھلا میدان تھا ،جمعہ کی شام سب یہاں ہی جمع ہوا کرتے تھے۔پاکستانیوں کا زیادہ تر اڈٌا دوسرے محلے شمیسی میں ہوتاتھا۔ یہاں، سوڈانی، یمنی، ترکی، مصری، یوپی والے، ملیالی، حیدرآبادی،،راجستھانی ، بہاری لوگوں کا قبضہ تھا۔ بھانت بھانت کے لوگ بھانت بھانت کی بولیاں۔ یہ لوگ جو مزدور، کاریگر وغیرہ تھے ریاض اور آس پاس کے گاؤں سے اور شہر سے دور فیکٹریوں سے ہر ہفتے آکر یہاں ہی ملتے تھے ۔اب وہ میدان نہیں رہا اور اس کی جگہ یہ بلڈنگ بن گئی تو ان لوگوں نے اپنی اپنی ملنے کی جگہیں پل کے نیچے ، مختلف گلیوں میں یا کسی پارکنگ لاٹ میں مقرر کر لیں ہیں۔
زبیر نے گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے سوچا کہ مغرب کا و قت ہونے والا تھا ... اشتیاق نہ جانے کہاں رہ گیا۔ ابھی اذان ہو جائے گی تو یہاں کھڑے رہنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ اشتیاق پرسوں چھٹی پر انڈیا جا رہا ہے.اس کے ہاتھ کچھ سامان اورخط گھر بھجوانے تھے... پچھلے ہفتے گھر سے اماں کاخط آیا تھا پھپی کے دیور کا بیٹااشتیاق جو برتنوں کی ایک دکان پر سیلز مین ہے چھٹی پر انڈیا آنے والا ہے اس کے ہاتھ خط اور سامان بھجوا دینا۔
اماں کی فرمائشوں کی ایک لمبی لسٹ تھی ... اب دوسری بہن کی شادی کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ،تکئے کے غلاف اورچادریں اگر ابھی سے نہ تیار کی ہوئیں تو مشکل ہوجائے گی اس لئے ایک تھان اچھی والی کیٹی کے کپڑے کاھیج دینا...اور پروین کی شادی کے بعد سسرال میں پہلی عید ہے اس کو عیدی کا جوڑا، اور کچھ برتن اور میوہ مٹھائی تو بھیجنی ہی ہے اس کے لیے بھی ایک اچھا جوڑا بھجوا دینا ... زرینہ کو عید پر سعودیہ عرب سے آیاہو جوڑا نہ ملا تو وہ لوگوں میں شان سے کیا دکھائے گی لہذا زبیر نے خود ہی اسکے لئے بھی ایک جوڑا کپڑا لے لیا۔ دونوں بچوں کے لیے کپڑے تو لینے ہی تھے ۔اما ں کوکچھ نہ بھیجوں تو زن مریدی کا طعنہ مل جاتا ہے ، اس لیے ان کے برقعے کا کپڑا بھی خریدلیا ...رمضان شروع ہونے والے ہیں اس لیے بادام اورکھجوریں تو بھیجنی ہی ہیں... زبیر نے فرمائشوں کے علاوہ خود ہی سوچ کرسارا سامان خریدکر پیکٹ بنا کر تیار کرلیاتھا۔ اماں کہتی ہیں کہ سحری میں سعودیہ کے بادام کی ترٌی (حیریرہ ) اچھی بنتی ہے ،ادھر انڈیا کے بادام بہت چھوٹے چھوٹے ہو تے ہیں۔ زبیر نے سوچ کر ہنسی بھی آئی اور غصہ بھی...

’’اب خدا جانے اشتیاق کے پاس سامان لے جانے کی کی جگہ ہوگی کہ نہیں.‘‘زبیر نے سوچا۔اشتیاق خریداری کے سامان سے لد پھندا پُل سے اترتا نظر آیا۔ قریب کی کئی مسجدوں سے اذان کی آواز آئی تو اس نے گاڑی اسٹارٹ کردی، اور جلدی سے دروازہ کھول کر اشتیاق کو اندر بٹھا کر چلدیا ۔اشتیاق کو چنو بھائی کے روم پرجا کر بھی ا ن سے بھی کچھ سامان لینا تھا۔ 
’’بھیا بہت راہ دکھائی، ہم تو تہرے انتظار میں کبو سے کھڑے ہیں ‘‘۔ جب اپنی طرف کا کوئی آدمی مل جاتا ہے تو نہ جانے کیوں ادبدا کر زبیر اپنی ہی بولی میں بات کرنے لگتا تھا۔ 
’’ کا بتائی زبیر بھائی ، دو سال بعد چھٹی جا رہے ہیں تو سامان کھریدے کا تو پڑی نا‘‘۔
’’کتنے دن کی چھٹی پر جارہے ہو؟‘‘ زبیر نے اس کے خریداری کئے ہوئے تھیلوں اور کارٹنوں پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ 
’’اب دیکھو، تین مہینے کی اکزٹ ری اینٹری لگی ہے۔ کفیل تو ہمارا بھلا آدمی ہے، لیکن اگر اگر زیادہ دن غائب رہے تو فرنٹ نہ ہوجائے ۔اور پھر چھٹی پر زیادہ دن گھر رہیں تو وہاں بھی اماں ابا اور سب گھر والوں کا دم پھولنے لگتا ہے کہ کہیں واپس سعودیہ نہ گئے تو کیا ہوگا ۔‘‘ اشتیاق نے کہا ۔
’’ہم سے کیا کہتے ہو بھائی ۔دس برس سے یہی کہانی چل رہی ہے ‘‘ ۔
زبیر نے تیزی سے یو ٹرن بناتے ہوئے کہا ۔
بازار میں جگمگاتی دکانوں کے پیچھے پتلی سی گلی میں ایک پرانی بلڈنگ میں چنو بھائی کا گھر تھا۔ گلی کے اندر داخل ہوتے ہی باسی مچھلی کو بو نے بتا دیا کہ یہا ں پر بنگلہ دیشیوں کا ڈیرا ہے۔ چنو بھائی کے چھوٹے سے خستہ حال فلیٹ میں حسب عادت بھیڑ لگی تھی۔یہ ہی وقت ہوتا ہے جب ہندوستان سے ٹیلی فون کی لائن ملتی ہے ۔وہا ں کا آپریٹر جہاں چاہو وہاں کا نمبر ملا دیتا ہے اور لوگوں کے لئے پچاس ریال میں آدھے گھنٹے گھر پر فون کرلینا گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔ یوں عام فون سے کرو تو اس سے دگنے پیسے لگتے ہیں۔ دوسرے کمرے میں فون پر کوئی چیخ چیخ کر باتیں کر رہا تھا۔
’’ اماں! سلام علیکم ۔ خیریت ہے...کیا؟ ...اب دیکھئے زیادہ دماغ خراب نہ ہو شکیل کا...سار ا دن آوارہ گردی ہی تو کرتا ہے ہیرو بن کر ۔سارا دن پھول پور کے بازار میں چائے کی دکان پر بیٹھنے سے فرصت ہو توکچھ کرے گا نا۔ ارے کیایہاں ویز ا پیڑ پر لٹکتے ہیں اماں جو بھیج دوں۔ کاہے نہیں کھیتی باری دیکھتا۔ کوئی لاٹ صاحب ہو گیا ہے ہائی اسکول کرکے ، کیا کہیں گورنر لگ جائے گاکیا... ہاں ! ہاں ! بھیجے تو تھے پیسے پچھلے مہینے، مل گیا ڈرافٹ ‘‘۔
ایک صاحب چنو بھائی سے پوچھ ہے تھے۔ 
’’ ایک پیٹی کتنے کی پڑ رہی ہے آجکل ...اور کتنے دن میں پہنچیں گے پیسے گھر پر ، ذرا ایمرجنسی ہے، اور بھیا گارنٹی ہے نا پہنچے کی ؟‘‘۔
چنو بھائی کو غصہ آگیا۔
’’ تم کاہے نہیں اپنا پیسوا بنک سے بھجوا دیتے اگر اتنی ہی پریشانی ہے تو۔ ہم تو لاکھوں ریال روز ادھر سے ادھر کرتے ہیں‘‘۔
اسی دوران دوسر ے فون پر چنو بھائی ا ن لوگوں کے نام اور فون نمبر لکھ رہے تھے جو اپنے گھروں سے ہی انڈیا کے آپریٹر کے ذریعے فون پربات کرنا چاہتے تھے۔ 

’’کہوچنو بھائی، بہت مال توڑ رہے ہو‘‘ ۔زبیر نے پرانے صوفے پر سے الم غلم سامان سمیٹ کر اس پرنیم دراز ہوتے ہوئے کہا، اس کی کمر دکھ رہی تھی ۔ 
’’ارے کہاں کا مال۔ اب تو یہ سالے کیرالا والے پندرہ پندرہ ریال میں موبائل سے فون کراتے پھر رہے ہیں بازار میں.. .اب تو اس دھندے میں کچھ نہیں رکھا ہے۔ ہٹاؤ ان باتوں کو ،آج بہت بڑھیا نہاری پکائی ہے کھا کر جانا‘‘۔چنو بھائی نے چائے کا پانی گیس کے چولہے پر چڑھاتے ہوئے کہا۔ چھوٹے سے کچن میں نہاری کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
’’ ارے بھیا ! ہم پوریبا ارہر کی دال کھانے والے کب سے نہاری ، پائے کھانے لگے‘‘۔زبیر نے ہنس کر کہا۔
اشتیاق بول پڑا ۔’’ اب سعودیہ میں آکر بھی ارہر کی دال کھائیں تو پھر یہاں آئے کا فائدہ۔ ‘‘
کھانے کے دوران چنوبھائی گاؤں کی باتیں کرتے رہے۔ پرانی اسکول کے زمانے کی باتیں، چھپ کر گاؤں میں نوٹنکی دیکھنے کی باتیں ، گھر کے مسائل ، وغیرہ۔کھا نا کھاکر جب وہ فارغ ہوئے تو رات کے نو بج گئے تھے۔چنو بھائی کے گھر سے نکل کر کوئی سواری لینے کے لئے وہ گاڑی مین سڑک پر لے آیا ۔ بازار کی بھیڑاور رونق کچھ اور بڑھ گئی تھی،مگر اس کے دل میں جیسے زیرو واٹ کا بلب سا جل رہا تھا۔ وہ یوں ہی بے دھیانی سے شہر کی چکنی چمکتی سڑکوں پر گاڑی چلاتا رہا۔
’’ اب ایسا لگتا تھا کہ اس شہر کی سڑکوں پر گاڑی خود بخود مڑ جاتی ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے کتنی نئی بلڈنگیں ریاض میں بن گئی ہیں‘‘..کنگڈم ٹاور کی بلند وبالا عمارت پر جلتی بجھتی روشنیوں پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے سوچا۔اس کے سامنے ہی یہ عمارت بننی شروع ہوئی تھی۔ دن رات نہ جانے کتنے ہندوستانی اور پاکستانی مزدو ر اس کے بنانے میں لگے ہوئے تھے۔علیا کے فیشن ایبل بازار سے گذر کر وہ شہر سے باہر نکل آیا ... اس نے گاڑی بے ارادہ ہی ٰئر پورٹ والی ہائی وے پر موڑدی .. . رات میں صحرا کا سناٹا اسے اچھا لگ رہا تھا۔
’’ چلو ٹھیک ہے‘‘ ...اس نے سوچا ... ایک کوئی سواری ائر پورٹ سے اٹھا کر روم پر جاکر جلدی سو جایا جائے،آج کے ڈیڑھ سو ریال تو ٹیکسی کمپنی کو دینے کے ہو ہی گئے ہیں۔ ایئر پورٹ کے ٹرپ سے کچھ اور کمائی ہوجائے گی... بس کافی ہے ...آج وہ کچھ زیادہ ہی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔آج کا فی وقت گھر سامان بھیجنے کی خریدارسی میں نکل گیا تھا ۔
وہ ایئر پورٹ والی سٹرک پر چل رہا تھااور سوچوں کاسفر بھی جاری تھا... تین سال ہو گئے گھر گئے ہوئے ...پچھلے مہینے کسی کے ہاتھ زر ینہ کا خط آیا تھا کہ اب مجھے اپنے بچوں کے لئے بھی سوچنا چاہئے...۔ ابھی تو میری ہی دو بہنیں شادی لائق ہیں۔ چھوٹا بھائی نہ جانے کتنے سال سے بی ا ے میں فیل ہورہا ہے کچھ نہیں کرتا ... چھ بیگھا زمین ہے اپنے پاس، اس میں کتنا غلہ پیدا ہو سکتا ہے.. ریڈلائٹ پر کھڑا وہ سوچ رہا تھا ...
لائٹ ہری ہوئی تو جیسے خود بخود گاڑی چل پڑی ۔ ائیر پورٹ سے ایک مصری فیملی کو بٹھا کر ان کی منزل پر پہنچایا اور پھر سیدھا اپنے روم پر چلا گیا ۔الیا س اور اعظم ابھی نہیں آئے تھے۔ الیاس درزی کی دکان پر کام کرتا تھا اور اعظم اس کی طرح ٹیکسی چلاتا تھا۔ اعظم کا معمول تھاکہ رات کو بارہ بجے کے بعد آتا تھا اور ساتھ میں کوئی نہ کوئی ویڈیو فکم کا کے کر آتا تھا۔ فلم دیکھ کر ہی سوتا تھا۔زبیر اس کی اس عادت سے بہت بیزار تھا، لیکن آج وہ خود ہی ایک دیڈیو کیسٹ وی سی آر پر لگا کر آرام سے لیٹ گیا۔بھاڑ میں جائے سورایاں اور ٹیکسی ... اس نے سوچا۔
اسکرین پر شلپا شیٹھی برائے نام کپڑے پہنے ٹھمکا لگارہی تھی۔’’ جوانی کا عالم بڑا بے خبر ہے، دوپٹے کا پلو کدھر کا کدھر ہے‘‘ ۔’’ لاحول ولاقوۃ، ‘‘ وہ بے ارادہ کہا اٹھا، لیکن ویڈیو بند نہیں کیا۔ اس کی آنکھیں مندنے لگیں۔ شلپا کے چہرے میں اسے اپنی بیوی زر ینہ کا چہرہ نظر آنے لگا۔ تین برس ہوگئے گھر گئے ہوئے ۔ چھوٹے والے بچے کی تو شکل بھی ابھی میں نے نہیں دیکھی ہے... زرینہ سے تنہائی میں ملنے کے لئے بھی اپنے ہی گھر میں کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ اماٌں کابس نہیں چلتا کہ مجھے اپنے کولھے سے لگائے بیٹھی رہیں ۔ رات کو بہت مشکل سے چھت پراپنے کمر ے میں جانے کا وقت ملتا تھا ۔ اماں کا خیال تھاکہ بیوی کہیں پٹی نہ پڑھا دے کہ میں ڈرافٹ اس کے نام بھیجنے لگوں... شلپاشیٹھی کے پتلی کمر جھٹکے کھا رہی تھی۔ دیڈیو چلتا رہا اور وہ سو گیا۔
رات بھر خواب میں دھان کے کھیت ، گاؤں کی گلیاں ، زرینہ ، ریاض کی سڑکیں، ہوائی جہاز، جانے کیا کیا گڈ مڈ ہوتا رہا۔ صبح اٹھا تو بالکل باہر جانے کو دل نہیں چا ہ رہا تھالیکن سات بجے صبح اسکول کے کئی بچوں کو اسکول لے جا کر چھوڑنا ہے ورنہ گڑ بڑ ہوجائے گی۔ اس کام کے اچھے پیسے مل جاتے ہیں اس لئے اٹھنا تو پڑے گا ہی زبیر میاں .. . اس نے خود سے باآواز بلندکہا
’’ اٹھ چندا تیرا وہ ہی دھندا ‘‘ 
جلد ی سے منہ دھوکر ، کپڑے بدل کر نکل کھٹر ا ہوا۔ چارگھروں سے بچوں کو لیا او راسکول چھوڑنے کے بعدناشتہ کرنے اپنے مخصوص بوفیہ(چھوٹا ہوٹل ) پہنچ گیا۔ وہ ناشتہ اسی وقت اسی جگہ کیا کرتا تھا۔ کڑک چائے پیتے ہوئے اس نے سگریٹ سلگایا۔آج فاروق بھٹی بھائی کاؤنٹر پر نہیں تھے ۔ ان کے ساتھی بشیر بھائی نے بتایا ۔

’’ وہ ، وہ تو جی قصیم گئے ہوئے ہیں ۔پرسوں ان کے رشتے کے چچا فوت ہوگئے ۔ وہی چا چا جو قصیم کے ایک گراج میں پچھلے بیس برس سے کام کر رہے تھے ‘‘۔بشیر بھائی پتیلے سے چھولے مرغ کا سالن پتیلے پلیٹ میں ڈالتے ہوئے بولے۔
’’جی! بندے نے اپنے خاندان کو کیاسے کیا بنا دیا پاکستان میں .. بیٹیوں کی شادیاں دھوم سے بڑے بڑ ے گھروں میں کردیں۔ اب بڑے لڑکے کوبھی بلوا نے والے تھے...ویزا نکلوانے والے تھے بیٹے کے لئے ....بس یوں ہی چپ چپاتے رات کو سوتے میں ہی گذر گئے...اللہ کی مرضی....ان کی میت پاکستان بھجوانے کا انتظام کرنا تھا.... اسی کے لئے فاروق ریاض بھائی گئے ہیں. ..میت بھجوانے میں بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑ تی ہے...اب دیکھو کتنے دن لگتے ہیں‘‘
’’یوں ہی چپ چپاتے رات کو سوتے میں گذر گئے ‘‘۔
زبیر ہوٹل سے نکلا تو دن بھر یہ جملہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔وہ سواریوں کو ان کی منزلوں پر چھوڑتا رہا۔ سڑکوں کے چکر لگاتا رہا......سوچوں کا لامتناہی سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا...وہ گویا خود سے ہی دل ہی دل میں الجھتا چلا جارہا تھا.۔اب کچھ زیادہ سواریاں بھی نہیں ملتیں ... ایک سواری کے لئے تین تین ٹکیسیاں لپکتی ہیں ... کیوں؟ ...، کب تک ، میں اس چکر میں لگار ہوں... 
وہ خود سے الجھتا رہا ... ہائی اسکول پاس کرکے یہاں آگیا تھا سوچا تھاکہ دو چار سال یہاں رہ کر کچھ پیسے جمع کرکے ایک دکا ن گاؤں میں کھول کر بیٹھ جاؤں گا۔ ۔پہلے سال یہاں کی کمائی سے وہ ادھار چکایا جو سعودیہ کے ویز ے اور ٹکٹ کیلئے ایجنٹ کو دینے کے لئے لیا تھا۔ اس کے بعد ... لیکن اس کے بعد ...سارے گھر کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کا بوجھ اور سعودیہ سے گئے ڈرافٹوں کاکچھ ایسا جاد و کہ واپس جانے کی بات ہی نہیںآتی تھی۔ گھر والے بھی میرے واپس آنے کی بات کرنا بھول گئے... 
بہنوں کو اچھے جہیز او ر کھاتے پیتے گھرانوں کی تمنا... اماں کویہ فکر کہ چھوٹے بھائی کے لئے یاتو وہاں سے ویزا خریدکر بھیجویا انڈیا میں ہی کسی دھندے کے لیے رقم مہیا کرو ...او ر وہ لاٹ صاحب ہیں کہ ٹیری کاٹ کے پتلون او ر شرٹ پہن کر ، ہاتھ میں سیکو گھڑی لگا کر گھومنے سے فرصت نہیں۔ ٹوان ون، دیڈیو سے دل بہلاتے ہوئے چھ سال سے بی اے کر رہے ہیں . . اور اب تو موبائل کا خرچہ بھی ان کا دینا پڑتا ہے.....اور اباٌ ....وہ تو دروازے کے باہر چارپائی ڈالے سعودیہ والے ہونہا ر بیٹے کی تعریف کرتے ہوئے ملنے والوں کی چائے پلاتے رہتے ہیں ۔ ان کو یہ ارمان کے اب دروازے پر بیٹھک کا ایک پکا کمرہ بن جائے ... .
میری بیوی زرینہ کو یہ فکر کہ اب تک تو بھائی بہنوں کے لئے کمایا اب اپنے بال بچوں کا بھی تو سوچو۔ ابھی واپس آنے کی بات مت کرنا... .یہ سلسلہ دس برس سے ہے... کیوں ... کب تک؟ زبیر احمد کون ہے وہاں تمہار ا منتظر ...کیا جب لوگ سعودی عرب نہیں آتے تھے تو کیا زندہ نہیں رہتے تھے...وہ بڑبڑانے لگا۔
دوپہر کی دھوپ بہت تیز ہوگئی تھی اس کی آنکھوں میں چبھنے لگی تھی۔ اسکول کے بچوں کو اسکول سے لے کران کے گھروں کو پہنچاکر وہ جلدی سے کھانے کے لئے مدینہ ہوٹل بھاگا۔ ورنہ ٖعصر کی اذان ہوجاتی ہے تو ہوٹل بند ہوجاتا ہے۔ ہوٹل میں جہاں بہت سے ٹیکسی ڈرائیور روز کھانا کھانے آتے تھے وہیں زبیر کا بھی مہینے بھر کا دو نوں وقت کا کھانا بندھا ہوا تھا۔ کون اپنے آپ پکانے کے چکر میں پڑے۔ شروع شروع میں روم پر پکایاجاتا تھا۔ مگر دن بھر تھکنے کے بعد کھانا پکانے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔ آج مدینہ ہوٹل میں کچھ عجب سا ماحول تھا۔ کئی ٹیکسی ڈرائیور اردو نیوز اخبار پر جھکے ہوئے تھے۔اس نے پشاور والے خان بھائی سے ہنس کر پوچھا۔
’’ کیاہو ا گل محمد خاں ؟ کیا آج تمہارا نام ہے لاٹری کے انعام میں ؟ ‘‘
’’ نئیں جی ، لاٹری نہیں نکلی، اب ہم سب یہاں سے نکلنے والا ہے‘ ‘۔ اس نے اخبار زبیر کی طرف بڑھا کر کہا۔ 
اخبار میں بڑی سی سرخی تھی کہ’’ سعودی عرب میں غیر ملکی لوگوں کے ٹیکسی چلانے پر پابندی، چھ ماہ کے بعد صرف سعودی شہری ہی ٹیکسی چلائیں گے۔‘‘ 
زبیر کا دل دھک سے رہ گیا۔......اگر ئی خبر سچ ہوئی تو کیا ہوگا ...گھر والوں کو کیسے بتاؤں گا ......دل نے چپکے سے کہا.....کاش یہ خبر سچ ہوتو کتنا مزہ آئے... گھر کے باہر نیم کی چھاؤں میں چارپائی ڈال کر گرمی کی دوپہریں کاٹی جائیں....سردیوں میں چارپائی دھوپ میں ڈال کر محلے پڑوس والوں سے باتیں کروں....ہاں اگر یہ خبر سچ ہوجائے تو ....اس کے دل میں ایک ترنگ سی لہرائی۔
زبیر نے کھانے میں آج اسپیشل قورمے کا آرڈر دیا۔ جو اس کے روز والے کھانے کے پیسوں میں شامل نہیں تھا ۔جم کر کھاناکھایا اور کھانے کے بعد سیدھا روم پر آکرآرام سے پلنگ پر لیٹ گیا ...’’.اب جو ہو سو ہو‘‘... اس نے خود سے کہا...اور منہ تک چادر تان لی۔بہت دنوں بعد وہ بالکل بے خبر سویا تھا۔
***

عذرا نقوی


Read 2265 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com