الإثنين, 14 تشرين1/أكتوير 2013 16:48

آہ ...... گلفشاں شبیر AAH...... GULFASHAN SHABBIR

Rate this item
(0 votes)


 آہ ...... 
 گلفشاں شبّیر
 کبیر نگر ، جمشیدپور

                سنسان سڑ ک تھی ۔میں وہاں تنہا کھڑی تھی بارش کا موسم تھا بجلی کڑک رہی تھی میں اپنی سواری ’’ بس ‘‘ کا انتظار کر رہی تھی۔ شاید کہ میر ی بس بھی چھوٹ چکی تھی میں بہت پریشان حال پیدل سڑک پر چلنے لگی ، بارش کا فی تیز تھی سڑک پر دور ، دور تک کو ئی مسافر نظر نہیں آرہا تھا ، میں ڈری سہمی چل رہی تھی تھوڑی دورچلنے کے بعد سڑک کے کنارے ایک چھوٹی سی کٹیا دکھائی دی ، میں بہت حیر ان وپریشان تھی کہ سنسان جگہ پر یہ کٹیا جس سے کسی کے کراہنے کی آواز آرہی تھی میں یہ آواز سن کر کافی بے چین ہو گئی اور میر ے قدم خو د بخود اس کٹیا کی طرف چل پڑے ، لیکن کٹیا کے قریب جاکر میں کشمکش میں پڑ گئی کہ اندر جاؤں یانہ جاؤں ، کافی ہمت کر کے میں اندر گئی تو دیکھاکہ ایک بوڑھی سی عورت اللہ تعالیٰ سے اپنی اولاد کی بہتری کی فریاد کر رہی ہے ، شا ید وہ عورت بے ہوشی کے عالم میں ایک ہی رٹ لگا رہی تھی اور میری بے چینی بھی بڑھ گئی اور ان کے قریب جاکر میں نے کہاکہ ماں کیا بات ہے۔ ؟
وہ پانی پانی کہہ رہی تھی اور ان کی حالت بہت خراب تھی بخار بھی کافی تیز تھا مجھے بہت حیر ت ہوئی کہ وہ اکیلی یہاں رہتی ہے۔؟ اور ان کے گھر میں کو ئی نہیں ہے ۔؟
بہرحال میں نے اس بوڑھی عورت کو اٹھاکر پانی پلایا ، پانی پی کربوڑھی عورت نے کہا کہ میں اب ٹھیک ہوں ، دوادے دو، میں نے دوادیا اور کہا کہ آپ اکیلے یہاں کیا کر رہی ہیں ؟ جواب دئے بغیر وہ لیٹ گئی ، میں ان کو پریشان کر نا نہیں چاہتی تھی پھر میں واپس اپنے گھر کو لوٹ گئی ،لیکن میر اذہن ودل اور دماغ اس کٹیا میں لگارہا آخر یہ عورت اس سنسان جگہ پر اکیلے کیا کر رہی ہے ۔؟ کسی طرح رات گذری ،صبح ہوتے ہی میں پھر اس بوڑھی عورت کے گھر پہنچی تو کیا دیکھتی ہوں کہ اس عورت کی حالت میں کافی سد ھار ہے ، میں نے کہا کہ آپ مجھے پہچانتی ہیں۔؟ 
ہاں ، رات میں تم آئی تھی ، شکر یہ ،میری حالت کے پوچھنے کا ۔
میں وہاں بیٹھ گئی اور بوڑھی ماں سے پوچھنے لگی کہ ماں ! آپ یہاں اکیلی رہتی ہیں۔ ؟ 
بس وہ عورت زار و قطار رونے لگی ۔
مجھے تعجب ہو ا اور کہا کہ میں آپ کا دل دکھانا نہیں چاہتی ، آپ نہیں بتانا چاہتی ہیں تومت بتائیے۔
پھر اس نے کہا کہ نہیں ......تم بیٹھو ۔
میں بیٹھ گئی ۔
اور کہنے لگی ، مجھ بدنصیب کی داستان کیا سنو گی ......؟ 
میں دو بیٹوں کی ماں ہوں ، دونوں بچوں کو میں نے بہت ہی دلار وپیار سے پالا ، ابھی بچے چھوٹے تھے کہ میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ، دونوں بچوں کی ذمہ داری مجھ پر تھی ایک بیٹامیراپالاہو اہے جب چار سال کی عمر اس کے ماں باپ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا ، میں نے اس کی سرپرستی اپنے ذمہ لے لی تھی، اس طرح میرے دو بیٹے ہوگئے ، دونوں کو بہت ہی پیار سے پالا ، محنت ومشقت سے ان دونوں کوپڑھایا ،لکھایا اور پھر دونوں کی شادی کر ائی۔
میری عمر کے چند سال اور بیت گئے ،میں نے محسوس کی کہ اب ان دونوں کے اندر اپنی ذمہ داری سمجھنے کی صلاحیت ہوگئی ہے ، میں نے اپنے دونوں بیٹے اکبر واسلم کو بلایا اور کہاکہ میری زندگی کے چند لمحے رہ گئے ہیں ، میں اپنی جائیداد ( گھر وکھیت وغیر ہ )تم دونوں بھائیوں میں تقسیم کر دیناچاہتی ہوں ، تاکہ تم دونوں میرے بعد اپنی زندگی اچھی طرح گذار سکو، یہ سن کر اکبر واسلم نے انکار کردیا ، اور کہا نہیں ماں اس کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن میں نے ان دونوں کی بات پر توجہ نہیں دی ، اپنی جائیداد دونوں میں تقسیم کردی ، چنددنوں بعد میرے بیٹے اکبر کی حرکتوں پر مجھے حیرانی ہونے لگی ، وہ اپنی بیوی کے بہکاوے میں آکر مجھ سے کہتاکہ ماں آپ کب تک یہا ں رہیں گی ، کچھ دن چھوٹے بیٹے اسلم کے پاس گھوم آئیے، میں نے کہا کہ نہیں میں یہاں ٹھیک ہوں ،۔
بلاآخر مجھے زبردستی اسلم کے گھر چھوڑ آیا ، جب میں اسلم کے گھر گئی ، تووہاں کی حالت اتنی اچھی نہیں تھی ان کی آمدنی کم تھی ، لیکن اسلم نے مجھے کافی عزت دی اور کہا کہ ماں اب آپ یہیں رہیںِ ، میں ان لوگوں کی تنگدستی دیکھ کر وہاں نہیں رہناچاہتی تھی ،اور دودن کے بعد پھر میں اکبر کے پاس آگئی ، مجھے دیکھتے ہی میری بہوکا مزاج خراب ہوگیا ، میرے بیٹے اکبر نے مجھ سے کہا کہ ماں آپ پندرہ دن میرے پاس اور پندرہ دن اسلم کے پاس رہیں ، یہ سن کر حیران ہوئی اپنی پرورش پر ، شاید میری پرورش میں کوئی کمی رہ گئی ہے ۔
خیر پندرہ دن اکبر کے گھر اور پندرہ دن اسلم کے گھر باری ، باری میری زندگی گذرتی گئی ، اسلم کے گھر مجھے کافی عزت ملتی ،میں اسے ڈھیرساری دعائیں دیتیں ، اسلم بیٹا میرابہت خیال رکھتا ، شام جب وہ گھر آتاتو کہتا کہ ماں کو میں اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاؤں گا ، جب میں سونے لگتی توبیٹا میرا پیر دباتا اور میں آرام سے سو جاتی ، اور دل میں یہ خیال کرتی کہ کسی نیک کام کااجر مجھے مل رہاہے ، میرے پندرہ دن پورے ہوچکے تھے ، میں اکبر کے گھر آگئی جس نے میری زندگی کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے ، آج اس کے گھر میرا پہلا دن شروع ہوا ، میر ی بہو نہایت ہی ذلت کے ساتھ پیش آتی ،کھانے کو نہیں دیتی ، اکبر جب شام کو گھر واپس آتا تو مجھ سے خیر یت پوچھنے کے بجائے اپنی بیوی سے کہتا کہ ماں نے تمہیں پریشان تو نہیں کیا ؟یہ سن کر میراکلیجہ کٹ جاتا، مجھے اکبر کبھی کھانا کھانے کے لئے نہیں پوچھتا ، ان کے بچے مجھے دادی نہیں کہتے، بوڑھیا، بوڑھیاکہہ کر پکارا کرتے، ان کے گھر میرے رہنے کے لئے کوئی کمرہ نہ تھا ،باہر سہن میں ٹین کے شیڈ کے نیچے چارپائی لگا کر سوجاتی جب ان لوگوں کو میری یاد آتی تو مجھے روکھاسوکھا کھانا دے دیاکرتے، اس طرح میری زندگی کٹتی رہی ، اور میں خون کی آنسو روتی کہ یاخدامجھ سے کیا غلطی ہوئی جو ایسی سزامل رہی ہے اپنی اولاد کے ہاتھوں،اسی درمیان ایک دن اسلم مجھ سے ملنے آیا اور کہا ماں ! مجھے اپنے کاروبار میں کافی فائد ہ ہو ا اور یہ آپ کی دعاؤں کاہی اثر ہے، ماں! آپ میرے ساتھ ہی رہیں ، لیکن ماں نے اسلم کے ساتھ جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں اکبر سے مل کر ہی جاؤں گی ، تم جاؤ میں ایک دو دن میں آجاؤں گی ، جب شام کو اکبر گھر آیا تو ماں نے کہا کہ میں اسلم کے گھر جاناچاہتی ہوں ، اکبر نے کہا جاؤ آج سے وہیں رہنا ، یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے ،یہ سنکر میرادل رونے لگا مگر میں برداشت کیا اور اسلم کے گھر چلی گئی اسلم کے گھر پر میں بہت ہی آرام وسکون کی زندگی گذارہی تھی، کیوں کہ اسلم اپنی ماں کا خا ص خیال رکھتا،جاڑے کے موسم میں رات کے وقت اسلم ماں کے کمرہ میں لکڑی جلاکر ماں کو آرام پہونچاتا۔
کچھ دنوں بعد ماں نے اسلم سے کہا کہ بیٹا میں اکبرکے گھر جانا چاہتی ہوں مجھے ان لوگوں کی یاد آرہی ہے ، بے چاری بوڑھی امّاں آخر ماں ہی توتھی میں اکبر کے گھر چلی گئی لیکن وہ مجھے دیکھ کر خوش نہیں ہو ا پھر بھی میں نے خیر یت پوچھی ، اور کہاکہ بیٹا میں تم
لوگوں کے پاس رہنا چاہتی ہوں اکبر نے اجازت تودیدی مگر اس نے بے رکھی ظاہر کی ، جاڑے کے موسم میں وہ مجھے باہر سونے کے لئے کہتا، سوتے وقت میں کہتی بیٹا میں اندر آجاؤں، بیٹا کہتا ہے اندر روم میں جگہ نہیں ہے آدھی رات کو اچانک چارپائی ٹوٹ جاتی ہے ، میں نے پھر آواز لگائی بیٹا میں اندر آجاؤں میری چارپائی ٹوٹ گئی ، تو بیٹا نے کہا کہ چٹائی لو اور باہر سو جاؤ، بیٹے کا یہ جملہ سن کر میرے دل سے ایک آہ نکلی کہ کاش میرے نصیب میں ایسی کو ئی اولاد نہ ہوتی ۔
اس رات میں نے کڑاکے کی ٹھنڈک برداشت کی اور بڑی مشکل سے رات گذاری ، صبح ہوئی تو میں نے دیکھا میری بہو اپنے بستر سے نہیں اٹھ پارہی ہے اسے فالج کا اٹیک ہواتھا وہ بہت بری حالت میں تھی ، اس کے تھوڑی ہی دیر بعد یہ خبر ملی کہ میرے پوتے کااکسیڈینٹ ہوگیا ہے اور اسپتال میں موت و حیات کے بیچ کھڑاہے اور یہ خبر میرے اکبر پر پہاڑ کی طرح ٹوٹی ، پھر کچھ ہی دیر بعد میری بڑی پوتی اپنے میکے لوٹ آئی اس کے شوہر نے اس کو اپنے گھر سے نکال دیایہ سن کرمیرا لڑکا گھبرایا یہ ڈھیر ساری مصیبتیں مجھ سے دیکھی نہیں جارہی تھی میں خود پریشان تھی کہ میں کیاکروں ، اتنے میں ایک شخص آیا اور کہا کہ اکبر کوکمپنی والے نے نوکری سے برخاست کر دیا، ان سارے غموں کو دیکھ کر میرے بیٹے پر توقیامت آپڑی تھی آخر وجہ کیا تھی مجھے خود سمجھ میں نہیں آرہاتھا ایک ہی رات میں یہ ساری مصیبتیں آپڑی ، میرے بیٹے کی حالت مجھ سے برداشت نہیں ہورہی تھی ۔
اتنے میں اچانک اکبر نے کہا کہ .......م .....مم ......ماں ......ا ے ماں مجھے معاف کردو،قسم خداکی مجھے تیر ی بددعا لگ گئی ،معاف کر دوماں ، ماں نے کہا نہیں بیٹا ہرگز میں نے تمہیں بددعانہیں دی ، بلکہ رات کڑاکے کی سردی میں میرے دل سے ایک آہ نکلی تھی شاید اسی آہ نے میرے بچے کو بربادکر دیا ،میں اپنے بیٹے کی پریشانی کو برداشت نہیں کر سکتی ، میں نے اکبر بیٹاسے کہا کہ بیٹا میں معاف کر تی ہوں اور اللہ تعالیٰ بھی تمہیں معاف کر ے گااور بخداجب تک میں اپنے کانوں سے تمہاری بہتری وبھلائی کی خبر نہ سن لوں مجھے موت نہیں آئے گی اسی لئے آج میں اس سنسان کٹیا میں ہر روز اور ہروقت اپنے بیٹے اور ان کے آل واولاد کی سلامتی کے لئے دعاکرتی ہوں میراخداضرور میری فریاد سنے گا۔
پھر میں نے دیکھا کہ دروازے کے راستے سے کوئی اندر آیا اور وہ شخص ماں کہتا ہوا داخل ہو ا......
اور خوش ہوکر کہا کہ ماں تیری دعا قبول ہوگئی ، تمہاری بہوٹھیک ہوگئی ، تمہارا پوتا بھی سلامت ہے ،پوتی اپنی سسرال چلی گئی اور آپ کی دعاسے میری نوکر ی بھی لگ گئی ،اب ہم سب ساتھ رہیں گے ماں ،چلو ماں گھرچلیں ، پھر میں نے اس بوڑھی ماں کے منہ سے یہ الفاظ سنے..... اللہ تیر اشکر ہے ، اس کے بعد میں نے ان کو اٹھایا کہ ماں اٹھو ،اٹھو ماں ،لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
شایدان کی روح پرواز کر چکی تھی۔

*****
گلفشاں شبّیر
کبیر نگر ، جمشیدپور



Read 2999 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com