میں کیا کروں ؟
خطیب الرحمان پرویز
دربھنگہ ہا ؤس،شاہین باغ،ابوالفضل انکلیو
جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔25
دفتر سے گھر لوٹتے وقت اچانک ایک آواز میرے کانوں سے ٹکرائی .......’’ اشتیاق رکو میرے یار .......‘‘ آواز کچھ جانی پہچانی لگی اس لئے میرے قدم خود بخودرک گئے ۔نظریں ادھر ادھر دوڑائیں تو دنگ رہ گیا ۔ سلطانہ ایک بیوٹی پارلر کی پر کھڑی مسکرا رہی تھی ۔میں بھی مسکراتا ہوا اس کے قریب جا پہنچا ۔علیک سلیک سے فارغ ہو کر میں نے ایک ہی سانس میں کئی سوالات اس سے کر ڈالے۔اس نے جواب میں صرف اتنا کہا کہ ۔’’اشتیاق تمہیں معلوم ہے کہ ہم لوگ کتنے سالوں کے بعدمل رہے ہیں ........‘‘؟
’’یہی کوئی بارہ سالوں کے بعد ........‘‘!! میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد اس سے کہا ۔
’’اور اتنے سالوں کی باتیں چندمنٹوں میں ہی جان لینا چارہے ہو....... ‘‘؟اس نے اپنے پرس سے قلم اور کاغذکا ایک ٹکڑا نکالتے ہوئے کہا ۔
تمہیں بتا نہیں سکتا ہوں میں کتنا خوش ہوں تم سے مل کر ،اتنے سالوں کے بعدجو ملاقات ہوئی ہے ۔بہت ساری باتیں کرنے کو دل چاہ رہا ہے.......میں جذباتی ہوتے ہوئے اس سے کہا ۔
’’چلو بتاؤ ‘‘....
’’کیا۔‘‘
’’ارے با با اپنا فون نمبر بتاؤ گے اور کیا......اس نے شوخی سے دیدے گھوماتے ہوئے کہا ۔ اس کے اس شوخی کے لئے میں بالکل تیار نہیں تھا ۔ چھپ سا گیا۔ مگر فورا ہی سنبھل کر اسے اپنا سیل اور گھر کا فون نمبر دیا اور رسمی ملاقات کے بعد اپنے منزل کی جانب چل پڑا۔
پورے راستے میں سلطانہ کے متعلق ہی سوچتا رہا۔ کتنی تبدیلی آگئی ہے آج کے سلطانہ اور کل کی سلطانہ میں ۔ کل تک جس سلطانہ کی آنکھوں میں ڈوب جا نے کو دل چاہتا تھا آج اسی آنکھوں میں ویرانی چھائی ہوئی تھی،چہرے کی رنگت ،لوگوں کے لئے مر کوز نظر ہوا کرتی تھیںآج اس کی رنگت سانولے پن میں بدل چکی تھی ، کل تک جس جسم کی سڈول پن نوجوانوں کے لئے قیامت ڈھا نے کے لئے کافی تھے آج وہی جسم لاغر وکمزور نظر آرہا تھا ۔ ان سب سے جد ا جو تبدیلی سلطانہ میں دیکھنے کو ملی وہ یہ کہ جس سلطانہ کو میں نے ہمیشہ نقاب میں دیکھا تھا آج وہ پوری طرح بے نقاب تھی ۔اس نے گہرا میک اپ کر رکھا تھا ،چھوٹے آستین کے کپڑے اور بالکل ٹانگوں سے چپکا ہوا ٹائٹس زیب تن کر رکھا تھا ۔اس کی آواز میں پہلے جیسی کھنک بھی نہیں تھی البتہ اس کے مزاج میں اب بھی شوخی باقی تھی ۔اس سے ملاقات کے وقت میں ایک بات نوٹس کر رکھا تھا کہ آس پاس کے دکاندار اوررا ہگیربڑے غور سے اسے دیکھ رہے تھے اور وہ پریشان سی نظر آرہی تھی ۔میں ان تمام باتوں کو سوچتا ہوا اپنے گھر پر آگیا اور پھر روز کی طرح لوگوں سے ملاقات میں مصروف ہوگیا۔اس طرح کئی روز گزر گئے میں سلطانہ سے نہ ہی مل سکا اور نہ ہی بات کرسکا ۔کیونکہ میں نے اس کے گھر کا نہ ہی پتہ پوچھا تھا اور نہ ہی اس کے گھر کا فون نمبر مانگا تھا ۔سوائے اس کے فون کے انتظار کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
ایک دن اچانک میرے سیل پر سلطانہ نے فون کیا ۔’’آج شام سٹی کافی ہاوس میں ملوگے....... ‘‘؟
’’ ہاں ! مگر ان لڑکوں میں اور مجھ میں ایک بات کا فرق ہے ۔ اس کی زندگی میں خوشیاں آئیں اور ابھی بھی بر قرار ہیں اور میری زندگی میں خوشیاں چند دنوں کے لئے آئیں اور چلی گئیں۔ ’’ سلطانہ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔ میں نے آہستہ سے اس کے آنکھوں پر اپنی ہتھیلی رکھ کر اس کو دلاسہ دیا ۔ اس نے آنسوؤں کو خٰشک کرتے ہوئے کہا ......’’ تحسین کو پتنگ اڑانے کا جنون کی حد تک شوق تھا ۔ایک شام وہ پتنگ اڑاتے ہوئے چھت سے گر پڑے۔ان کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ۔ چہرے کے علاوہ تمام بدن چور ہو گیا ۔وہ نہ اب بول سکتے ہیں اور نہ ہی مسکراسکتے ہیں ۔بالکل زندہ لاش ہیں ........‘‘
اتنا سننا تھا کہ میرا سارا وجود پسینے سے شرابور ہو گیا ، ہاتھ پیر میں کپکپی طاری ہو گئی،دماغ میں عجب قسم کے ٹیس کا احساس ہو نے لگا ۔ میں نے چند منٹوں کے لئے آنکھیں بند کر لیں ۔جب تک اس نے اپنے آنسوؤں کو خشک کر لیا تھا۔ میں نے بیرے کو بلایا ۔ بل اور ٹپس کی رقم اداکیااور کافی ہاؤس سے باہر آگیا۔ سلطانہ کو جلدی تھی میں نے صرف اتنا کہامیں تمہارے شوہر سے ملنا چاہوں گا........!!
’’ مل لو مگر کوئی فائدہ نہیں ۔ نہ ہی تم ان سے پوچھ سکتے ہو اور نہ ہی وہ کچھ بتا پائیں گے.......‘‘.!! اس نے افسردہ ہو کر کہا ۔اور اپنے گھر کا پتہ بتاکر چلی گئی۔
دفتر میں میں کافی مصروف تھا ۔ صبح سے رات گئے میٹنگ ، لوگوں سے رابطہ قائم کرنا ، سالانہ رپورٹ تیار کرنا ،ریجنل سنٹر پر فورمنس کو آخری شکل دینے میں وقت گزرتا گیا ۔اس بیچ نہ ہی سلطانہ سے بات ہو سکی اور نہ ہی ملاقات۔جب بھی اس سے ملنے کی کوشش کرتا تو کوئی نہ کوئی کام سر پر آدھمکتا۔ اس طرح کئی مہینے گزر گئے۔ایک دن وقت نکال کر میں اسکے بتائے ہو ئے پتے پر جا پہنچا۔دروازے پر دستک دینے پر ایک بچی نے دروازہ کھولا۔اس نے نہ ہی میرا نام پوچھا اور نہ ہی وجہ، صرف اتنا کہا آئیے بیٹھئے ،ابھی ممی بزی ہیں ۔ میں نے اس بچی کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جاؤ بیٹے اپنی ممی سے کہنا اشتیاق انکل آئے ہیں .........‘‘
’’جی اچھا ۔!‘‘اس لڑکی نے بڑے روکھے انداز میں مجھ سے کہا .......میں نے ٹیبل پر مٹھائی کا پیکٹ رکھ کر گھر کا معائنہ کیا ۔کافی سلیقے سے سلطانہ نے اپنے گھر کو سجا رکھا تھا۔اس کے یہاں کافر نیچر ،سازوسامان ،رہن سہن اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ میں جو کچھ سوچ رہا ہو ں وہ غلط تھا ۔ سلطانہ بہت خوش ہے اسے کسی چیز کی کمی نہیں ہے ۔وہ اپنے دونوں بچوں کو مزے میں پال پوس کر بڑا کر لے گی ۔میں تو خواہ مخواہ پریشان ہو رہا تھا ۔سلطانہ کسی طریقے سے اپنے بیمار شوہر اور بچوں کی پرور ش کر رہی ہوگی وغیرہ وغیرہ ۔مگر یہاں تو بالکل الگ ماحول تھا ،آرام وآرائش کی تمام چیزیں اس کے یہاں میسر تھیں ۔مجھے کچھ حد تک سکون ملا چلو یہ خوش ہے ،اس کے سسرال والے اس کی مدد کر رہے ہیں ،تحسین کمرے کے ایک کونے میں لیٹا ہوا تھا ۔اس کا جسم لکڑے کے مانند سوکھ گیا تھا ۔اس نے آنکھوں کے اشارے سے کچھ پوچھنا چاہا میں نے اشارے میں ہی اسے پریشان نہ ہونے کو کہا ۔اسی درمیان دوسرے کمرے سے سلطانہ نمودار ہوئی اس کے ساتھ ایک اور شخص تھا۔مجھے دیکھ کر وہ ٹھٹھک سی گئی ۔مگر وہ شخص بڑے شوخ اندازمیں بائی بائی کہتاہو ا چلا گیا ۔اور سلطانہ میرے پاس والے صوفے پر آبیٹھی ۔
تم آنے سے پہلے فون توکر لیتے کہیں بہت زیادہ انتظار تو نہیں کر نا پڑا .......اس نے کہا۔
’’نہیں کوئی بات نہیں ہے میں اچانک ہی آکر سب کچھ دیکھنا چاہتا تھا ۔‘‘میں نے بالکل روکھے انداز میں اس سے کہا ۔
’’تحسین کو دیکھا تم نے ۔ بس یہی ہے میری زندگی ۔بیوٹی پارلر جانا ،دونوں بچوں کی پرورش کرنا اور تحسین کی خدمت کرنا ۔اس نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا ۔
میں نے اسے بیٹھنے کے لئے کہا اور پوچھا ‘ وہ شخص کو ن تھا ۔جو تمہارے ساتھ کمرے سے ابھی باہر نکلا ......
’’ او!وہ ٹی وی میکنک تھا ......‘‘ اس نے لا پرواہی سے جواب دیا۔
’’جھوٹ وہ کوئی میکنک شیکنک نہیں تھا ۔ مجھے تمہارے متعلق تمام باتیں معلوم ہو چکی ہیں ۔لوگوں نے اشارے سے بتایا تھا ۔میں نے اسے بکواس سمجھ کر ٹال دیاتھا ۔مگر آج خود اپنی نگاہوں سے دیکھ لیا ہے تو مجھے شرم آتی ہے تمہیں اپنا دوست کہنے پر ۔یہ ٹھاٹ باٹ ،آرام وآرائش اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ تم کسی پریشانی میں مبتلا نہیں ہو ۔تمہیں کسی کی ضرورت نہیں ہے ۔تم تو پہلے سے اچھے پوزیشن میں ہو ۔اور ہو گی بھی کیوں نہیں آخرکو تمہارا دھندا جو زوروں پر چل رہا ہے ........‘‘
’ اشتیاق! اب چپ بھی ہو جاؤ۔تم میرے دوست ہو اس لئے میں نے سارا غم تم سے شیئرکر لیا، ورنہ میں کسی کے سامنے اپنا دکھ درد نہیں بانٹتی۔ تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تم اس طرح میرے گھر میں آکر مجھے ذلیل کرو .......‘‘اس نے میری بات کو کاٹتے ہوئے کہا ۔
’’ سچائی کڑوی لگی نا..............‘‘میں نے اس سے کہا۔ وہ کچھ دیر تک خاموش آنکھیں بند کئے بیٹھی رہی تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں ، اس آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں ، آنکھو ں میں آنسوڈبڈبا گئے تھے ۔اس نے آنسوؤں کو خشک کر تے ہو ئے بڑے افسردگی کے ساتھ کہا ۔‘‘آخر تم بھی مرد ہو نہ ۔ عورتو ں کی مجبوریاں تمہیں کیا معلوم .........‘‘ میں نے کہا۔
’’سوال اٹھتا ہے ۔تم نے جو کچھ سنا اور کہا وہ سچ ہے ۔میں دھنداکر رہی ہوں ۔روزانہ ایک دو مردوں کو سنبھالتی ہوں ۔اپنے ملنے والوں سے جھوٹ بولتی ہوں ،مگر اس دھندے میں تم مردوں نے ہی پہنچایا ہے ۔مردوں کو چھوڑو تم جیسے دوستوں نے ہی میری عصمت کو پامال کیا ہے ۔تمہیں میرے متعلق کیا معلوم ہے ؟کچھ نہیں صرف سنی سنائی باتوں میں آگئے ۔ سچائی یہ ہے کہ تحسین ایک پرائیویٹ فرم میں ملازم تھے ۔حادثہ کے بعد کمپنی نے سرے سے ہی پلڑا جھاڑ لیا ۔بچے بچائے رقموں سے کام چلتا رہا ۔میرے والدین بھی اس قابل نہیں تھے کہ میری مدد کرتے۔تحسین کے والدین پہلے ہی اس دنیا سے کوچ کر چکے تھے،انکے ایک بڑے بھائی ہیں اچھے عہدے پر فائز ہیں مگر ان کے پاس وقت نہیں ہے وہ مہینے دو مہینے میں دو چار گھنٹوں کے لئے آتے ہیں ۔کئی مرتبہ ان سے مدد کی درخواست کی مگروہ ٹال گئے ۔ایسے میں گھر کے اخراجات کے لئے مجھے ہی کچھ کر نا تھا ۔پڑھائی کام آئی میں نے بیوٹی پارلر کا کورس کر رکھا تھا ۔ایک دن تحسین کے ایک خاص دوست نے مجھے بیوٹی پارلر جوائن کرنے کے لئے کہا،میں نے حا می بھر لی ۔ایک دو ماہ تو ٹھیک ٹھاک کام چلتا رہا مگر ایک دن اچانک میر ے ساتھ ایک ایسا حادثہ ہواکہ بتا نہیں سکتی ۔کیونکہ اس بیوٹی پارلر کی آڑ میں جسم فروشی کا دھنداچل رہا تھا ۔میں بھی اس دلدل میں جا پھنسی۔کافی اذیتیں دی گئیں ،مارا پیٹا گیا،عریاں تصویریں اتار کر بلیک میل کیا گیا ،اس طرح میں اس دھندے میں جکڑ کر رہ گئی ۔ تنگ ہاتھ اچانک کھل گیا ،پیسوں کی فراوانی ہو گئی ،تحسین کے علاج کے لئے اب مجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ،بچوں کی تعلیم کیلئے بھی مجھے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں تھی ۔دنیا والے صرف اتنا جانتے ہیں کہ میں ایک بیوٹی پارلر میں کام کرتی ہوں اورگھر کا خرچ چلاتی ہو ں ۔اور ہاں میں تنہااس دھندے میں نہیں ہوں اونچے معاشرے کی کئی ایسی لڑکیاں اور عورتیں ہیں جن کی لوگ عزت کرتے ہیں مگر ان کی حقیقت سے لوگ واقف نہیں ہیں ۔میں ان خوش قسمت عورتوں میں نہیں ہوں ۔لوگوں کو میرے متعلق آہستہ آہستہ سب کچھ معلوم ہوگیا ۔اس طرح جو کام بیوٹی پارلر میں ہوا کرتا تھا وہ کام میرے گھروں پر بھی چوری چھپے ہو نے لگا ۔ابھی ابھی جس شخص کے متعلق تم پوچھ رہے تھے وہ میرا کلائنٹ تھا ۔میں کیا کرتی ۔میرے سامنے صرف دو ہی راستے تھے ایک خود کشی اور دوسرا اپنے حالات سے سمجھوتہ ......‘‘ اس نے ایک ہی سانس میں تمام باتوں سے مجھے آگاہ کیا ۔مجھے اس کی باتیں سن کرکچھ عجیب سا لگا ۔
پھر بھی میں نے اس سے کہا ۔’’سلطانہ جاب کو چھوڑ سکتی تھی ۔‘‘
’’جاب چھوڑکر کہا ں جاتی ،کیا کرتی ،میں جو کچھ بھی کررہی ہوں کوئی اپنی مرضی سے تو نہیں کر رہی ہوں، میرے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔میں ہر مر تبہ خون کے آنسو روتی ہو ں ۔میں اس مجبور شخص کو چھوڑ کیسے سکتی ہوں ؟دو کم سن اور نابالغ لڑکی کو اس وحشی دنیا کے حوالے کیسے چھوڑدیتی ؟ کیا تم یہ چاہتے ہو ے میرے ساتھ جو کچھ ہوا اسی قسم کا کام میرے بچوں کے ساتھ بھی ........؟ ہر گز نہیں ۔میں ایسا کسی بھی قیمت پر ہونے نہیں دوں گی۔میں مجبور ہوں میری مجبوری سمجھو۔ اس نے دردبھرے انداز میں کہا تو میں خاموش ہو گیا ۔اپنے شوہر اور دو بچوں کے لئے مرتے جیتے سلطانہ کو دیکھ رہا تھا ۔میرے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ۔میں جلد از جلداس کی مجبور زندگی سے نکل جانا چاہتاتھا ۔تبھی سلطانہ نے کہا ۔’’اشتیاق زبانی جمع خرچ تو سبھی کرتے ہیں مگر
پہل کوئی نہیں کرتا ۔تم نے بھی نہیں کیا ۔کیا اتنا کچھ جان لینے کے بعد تم مجھے اور ان دو معصوم بچوں کو اپناؤگے ۔؟تحسین کی زندگی کے لئے میری مددکروگے۔؟
’’سلطانہ ۔۔۔۔۔!!!‘‘میں نے چیختے ہوئے کہا۔
’’ بس ہو گئی نہ ساری ہمدردیاں ،آگئے نہ اوقات پر ۔۔۔!!!سوچو اگر میں تحسین کی جگہ پر ہوتی تو وہ کیا کرتے، سماج والے ، گھر والے ،دوست واحباب اور خود تحسین فورا دوسری شادی کر لیتے او ر مجھے اپنی زندگی سے نکال دیتے ۔کیونکہ وہ مرد ہیں انھیں اس کی اجازت ہے مگر میں ایک عورت ہوں مجھے ایک شوہر کے زندہ رہتے دوسری شادی کرنے کا حق نہیں ہے۔ تو پھر میں کیا کروں ۔؟تحسین کو کتوں کی طرح مرنے کے لئے چھوڑدوں ، یا پھر بچیوں کو سڑکو ں پر لٹنے کے لئے چھوڑ دوں ۔ تم ہی بتاؤ میں کیا کروں ۔ ‘‘؟
وہ میرے کندھے پر اپنے سر رکھ کر رورہی تھی۔ اور میں لاجواب ہو کر خلاء میں گھور رہا تھا........
*****