الثلاثاء, 10 كانون1/ديسمبر 2013 18:20

ماہنامہ : اُردو آپریشن جھارکھنڈ MONTHLY URDU OPERATION , DEC - 2013

Rate this item
(0 votes)

 بسم اللہ الرحمن الرحیم 
    عالمی پرواز کی ایک نئی اُڑان

    بین الاقوامی اُردو ادب کا اُردوپورٹل
فکشن 


کا


نیا

 
آسمان


ماہنامہ اُردو آپریشن (جھارکھنڈ)

شمارہ-3
دسمبر-2013
* سرپرست ڈاکٹراسلم جمشیدپوری

* مدیر خصوصی رضوان واسطی
* مدیر اعزازی جہانگیر محمد
* مدیرہ نغمہ نازمکتومیؔ 
* ترتیب مہتاب عالم پرویزؔ 


* زیرِاہتمام ’’ عالمی پرواز .کوم ‘‘
www.aalamiparwaz.com
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.      عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.

 

ایک تحریک


اُردو آپریشن

افسانوں اور ناولوں کا آئینہ


اردو آپریشن میں ہر ماہ تین افسانے شائع ہوں گے۔ 
ہر افسانے کا آپریشن ماہرین کے ساتھ ساتھ قارئین بھی کریں گے۔ 
ہر سال دس بہترین افسانوں کو ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔ 
آپریشن کے نکات
۱۔افسانے کا عنوان خراب ، اچھا ، نیا، بہت خوب 
۲۔افسانے کا موضوع خراب ، اچھا ، نیا، بہت خوب 
۳۔ افسانے کا بیان نیا ہے ، پرانا ہے، بالکل الگ ہے۔
۴۔افسانے کی زبان بہت خوب ہے۔ماحول کے مطابق ہے، بہت خراب ہے۔
۵۔کیا اس سے پہلے بھی آپ نے ایسا افسانہ پڑھا ہے۔دونوں میں فرق واضح کریں۔ ۶۔افسانے کی پانچ خوبیاں 
۷۔افسانے کی تین خرابیاں 
۸۔کوئی خاص بات(مثبت یا منفی ) جس نے آپ کو بہت متاثر کیا ہو۔


قارئین سے گذارش ہے کہ وہ کہانی پڑھ کر ’’ اُردو وآپریشن ‘‘ کے درج بالانکات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اپنے طور پر آپریشن کریں، کہانی کی خوبی اور خامی کو بے جھجھک لکھیں........

ادارہ

 

 ہندوستان کے مشہور ومعروف افسانہ نگار جہانگیر محمد کا  افسانہ ’’ آقا ‘‘ قارئین کی نذر ہے .........


 افسانہ 
 آقا
 جہانگیر محمد 

 
             * وہ ایک خاردار جھاڑ تھا اس کی نشود نما یوں ہوئی تھی، نہ پھل نہ پھول اور نہ چھاؤں ہیبت ناک اُس کے تنے پر کانٹے ہی کانٹے تھے ہیبت کریہہ اُس کے تمام پتّے، تنے اور جڑ کانٹے سے بھرے ہوئے تھے۔
              بن موسم بن برسات اور بن کھیتی اُگ آئے تھے یہ پودے.........
              جب میں نے اُس کی باغبانی اور حُسن ترتیب کے لئے چھوا تو حیران رہ گیاپھر میرا ہاتھ زخمی ہوا اور بہت دیر تک ہمارا قلم لہو لہان ہوا.......
              اُس کا نام حَکم آزاد تھا۔ اس کی ریشہ دوانیاں اورنکتہ چینیاں دل آزاری کا سبب تھیں اور جس کا وہ ایک مکمل باب تھا۔ سارے کرتوت اولجلول حرکتیں اس کی عادت میں شمار تھیں اکثر نا مناسب جملے گڑھنا اُس کا شیوہ تھا۔اُس کی جاہلانہ حر کت سے پڑھے لکھے لوگ بھی نالاں تھے ایسی اُچھی حرکتوں پر بھی وہ خوش فہمی کا شکار رہتاتھا۔ دراصل وہ عُجب کا مریض تھا۔
             وہ اپنی آبادی کا نہایت ہی ظالم اور بد دماغ شخص تصورکیا جاتا تھا کوئی بھی اُس سے خوش نہیں تھا۔ کبھی اُس کی زبان سے سماج نے نرم کلام اور خوبصورت جملے نہیں سُنے تھے۔ اُس کی زبان پر ہمیشہ کانٹے دار جھاڑیاں ہی اُگ آیا کرتی تھیں وہ گرگٹ کی طرح ہمیشہ رنگ بدلتا رہتا تھا مغروریت میں ڈوبا کبر اور غرور کا جاہلانہ قصیدہ خوانی کیا کرتا تھا۔ آبادی کے ذہین لوگ اُس سے کترانے لگے تھے جب اُسے کوئی ٹوک دیتا تو وہ فوراکہتا ۔
             سوئے ہوئے شیر، سوئے ہوئے سانپ، اور سوئے ہوئے راجا کو کبھی جگانا نہیں چاہیے۔
             مریل گھوڑے پر وہ اکڑ کر سوار ہوتاتھا جو اُس کو جہیز میں ملے تھے۔
             جب اُس کی بے حیائی ڈھیٹ پن اور ہٹ دھرمی اپنے منتہا پر پہنچنے لگی تو اُس کی طرح بیانی سے کچھ لوگ مرغوب ہو کر اُس کی نازبرداری کرنے لگے اور اس کی عقل فلک شگاف نعروں کی بلندی پر براجمان ہونے لگی حقیقت میں کبر میں ڈوبی ہوئی مونچھ کا جنم اُس کے اندرہونے لگا تھا اور یہ اپنے آپ کو میاں مٹھو کی طرح خود کوآقا سمجھنے لگا تھا۔
             ایک دن اُس کا مریل گھوڑا جس پر وہ اکثر سواری کیا کرتا ایک فقیر سے ٹکرا گیا۔
             فقیر نے اُس کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی وہ بہت چیخا اور چلایا سب وشتم پر اُتر آیا اہانت بھرے الفاظ میں بولا تو جانتا ہے۔ ’’ میں کون ہوں......؟‘‘
             ’’ میں آقا ہوں۔‘‘
             فقیر نے کہا ۔ ’’ میں اور تجھے نہ پہچانوں اے حَکم آزاد تو جاہل کا باپ ہے اور خود کو آقا کہہ رہا ہے ۔ ‘‘
             ’’پہلے مجھے پہچان کہ میں کون ہوں.....؟ میں ملک الموت ہوں اور تجھے لینے آیا ہوں......‘‘
             اس جملے کی ہیبت سے وہ چکرا یا پھر مریل گھوڑے سے گرا اور وہیں مر گیا۔
             دھیرے دھیرے اُس کامردہ وجودسانپ میں تبدیل ہو گیا.......
             محلے کے بچے شور مچا رہے تھے۔
             اب سوئے ہوئے سانپ کو کون جگائے گا.....؟
                                    ۔۔۔۔




 افسانہ ’’ آقا ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ
  مہتاب عالم پرویزؔ 



     
                   *جہانگیر محمد کا شمار عصر حاضر کے ممتاز ادیبوں میں ہوتا ہے ۔ جمشید پور میں آپ کو بہت ہی عزّت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ افسانے کے بہترین اُستاد ہیں اور اُن کے تمام شاگردوں کے اندر وہی جلالت شان، فن کمالات بدرجہ اُتم موجود ہے اور یہ آپ کی درسی خدمت کا ثمرہ ہے ۔تیس بتّیس سالوں کے بعد غیر دانستہ طور پرآپ کا افسانہ ’’ حقائق ‘‘ میں پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی ویسے آپ کے افسانے کی ابتدا ۱۹۷۷ء تا ۱۹۷۸ء میں ہو چکی تھی اور آپ کی پہلی کہانی ’’ ایک سفید گلاب ‘‘ جواز میں شائع ہوئی تھی پھر کئی کہانیاں جیسے ’’ لا کا سفر ‘‘ ’’ سُرخ گلاب ‘‘ اور آج کل میں ’’ ممی ‘‘ جیسے مقبول افسانے۱۹۸۳ء میں شائع ہوئے ۔ اور ان دنوں بہت ساری کہانیاں، غزلیں، نظمیں اور آزاد نظمیں میں نے سُنی ہیں جو غیر مطبوعہ ہیں۔
                         شہر آہن کے ہی بہت سارے ادیبوں کی نشود نما آپ کے ہی ہاتھوں ہوئی جن میں ،میں بھی شامل ہوں۔
یہ الگ سی بات ہے کہ تصوف کی طرف آپ کا قلمی ملان بہت زیادہ تھا اور آخر میں اپنی زندگی کا بیش تر حصہ آپ نے اُسی میں صرف کر دیا۔آپ کی زندگی کا مقصد دین کی سرفرازی ہے۔ 
                        اور آج میں نے مجبوری میں اپنا یہ قلم اُٹھایا ہے اور یہ نئی مراجعت ہے کہ آپ کے افسانے ’’ آقا ‘‘ پر اپنے خیالات اور اپنے تصورات کا اظہار کر سکوں۔ویسے مجھے احساس ہوتا کہ کہانیاں تو اسی سماج کی دین ہیں، اسی معاشرے میں جنم لیتی ہیں۔ کہانی کار بھلا کیا کرسکتا ہے، ایک بہاؤ ہے جو اندر کی سبھی چٹانوں کو توڑ کر باہر نکل پڑتا ہے۔ اور قلم دوڑنے لگتا ہے۔
                       حَکم اپنے پس منظر میں مکّے کا ابوجہل تھا جو ’’ آقا ‘‘ کا مرکزی کردار ہے۔ مکّے کا یہ سردار اپنے آپ کو سب سے زیادہ عقل مند سمجھتا تھا اسی تاریخی پس منظر میں یہ کہانی وجود میں آئی ہے ۔ سارے معجزے اُسی عقل مند ابوجہل کے سامنے ہوئے۔ کنکری کا کلمہ پڑھنا ، چاند کا دو ٹکڑے ہونا، اور ان سارے معجزوں کو دیکھنے کے بعد بھی حکم ( ابوجہل )ایمان نہیں لاسکا۔ ایسے ہی حالات آج کے معاشرے میں بھی موجود ہیں اور اُس کے ذرّیات ہم لوگوں کو چاروں طرف سے اپنے حصار میں لئے ہوئے ہیں۔ ہمارے سماج کی بھی آج نا گفتہ حالات ہیں ، علم کی انتہا کبر پر ہوگئی ۔ دربار ملکوت کے معلم کو لعنت کا طوق ڈال کراللہ نے راندہ درگاہ کردیا ، حالانکہ علم کی ابتدا اور انتہا طلب ہے اور شیطان کو اُس کے علم کے غرور نے کھا لیاکیونکہ اس پورے روئے زمین پر شیطان لفظ کا نام ونشان نہیں تھا جو بہکا دیتا اُس کو اپنی عبادت ، علم اور معرفت کا غرور کھا گیا جس طرح حَکم آزاد کو اس افسانے میں ملک الموت کھا گیا یہی ہے وقت کا تقاضہ جس پر ہماری نظر ہونی چاہیے اور یہ کہانی اُسی پس منظر میں لکھی گئی ہے۔کہانی علامتی ہے اور ترسیل و ابلاغ کے دروازے کھولتی ہے۔ آ پ بھی سمجھ جائیں گے اگر غور کریں گے تو یہ کہانی آپ کے آس پاس ہی موجود ہے تفہیم کی رسائی ہو جائے گی تو کہانی کھل جائے گی۔
                    اقتباس کے طور پر ’’ آقا ‘‘ کے چند خوبصورت باب ملاحظہ فرمائیں .........
                    وہ ایک خاردار جھاڑ تھا اس کی نشود نما یوں ہوئی تھی، نہ پھل نہ پھول اور نہ چھاؤں ہیبت ناک اُس کے تنے پر کانٹے ہی کانٹے تھے ہیبت کریہہ اُس کے تمام پتّے، تنے اور جڑ کانٹے سے بھرے ہوئے تھے۔
                    بن موسم، بن برسات اور بن کھیتی اُگ آئے تھے یہ پودے.........
                    یہ کتنا خوبصورت استعارہ ہے جو علامتی انداز میں منظر کشی میں کردار کے اردگرد تمام مناظر کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ جیسے کوئی نطفہ نا تحقیق کا لاوارث سا پودا نہ علم ،نہ عمل ،نہ کوئی تربیت اور نہ ہی ادب ، بے ادب ، بد نصیب کی روایت اس کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ جب اس کی ریشہ دوانیاں اورنکتہ چینیاں دل آزاری کا سبب بننے لگیں تو کہانی کار اُس کی اصلاح کرنا چاہتا تھا مگر اُس نے تواُس قلم کارکے ہاتھوں کو بھی زخمی کر دیا اورڈس لیا پھر قلم لہولہان ہو اُٹھا اور پھر ایک ایسی کہانی وجود میں آئی جس کا جنم نطفہ نا تحقیق سے ہوا تھا اور جس پر تمام عقل ختم ہو جاتی ہے بلکہ یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا ختم العقل آقانے کبھی سچائی اور حق کو تسلیم ہی نہیں کیا اور کبر میں ڈوبی ہوئی اُس کی عقل کی مونچھیں فلک شگاف نعروں کی بلندیوں پر براجمان ہونے لگیں اور وہیں سے ابتدا ہوئی اس کہانی کی، سارے کرتوت اولجلول حرکتیں اس کی عادت میں شمار تھیں اکثر نا مناسب جملے گڑھنا اُس کا شیوہ تھا۔اُس کی جاہلانہ حر کت سے پڑھے لکھے لوگ بھی نالاں رہتے تھے ایسی اُچھی حرکتوں پر بھی وہ خوش فہمی کا شکار رہتاتھا۔ دراصل وہ عُجب کا مریض تھا۔
                   ویسے بھی آج کا افسانہ انسانیت کا زوال ،انسانی قدروں کی پامالی اور انفرادیت کی گمشدگی اور بے چہرگی کی شناخت بن گیا ہے یہ انسان کا سب سے بڑا المیہ ہے اس عظیم انسانی المیے کا شاہد اگر کوئی زمین پر موجودہے تو وہ صرف مخلص اور حساس فنکار ہے جو افسانہ ’’ آقا ‘‘ میں روشن خیالات کی آرا سے صاف اور شفاف دکھائی دیتا ہے ۔ یعنی وہ انسان صرف آدم کا لیدر پہنے ہوئے ہے لیکن فطرتا سانپ کی طرح ڈسنے والا اور اپنے بھائیوں کو ایذا پہچانے والا زہریلا سانپ ہے۔ اُس کی پیش کش اور تکیہ کلام کے اس ایک جملے میں عیاں ہوتی ہے کہ سوئے ہوئے سانپ کو جگانا نہیں چاہیے۔
                   افسانے کی اصل روح اُس کا کلا ئمکس جس پر تمام لوگوں اور قاری کی نظر نہیں پڑسکی کہ جب کبر و غرور کے نعرے فلک شگاف بلندیوں پر براجمان ہونے لگے، تو وہ ایک چنگھاڑ آتشی تھی جو بجلی کی طرح حکم پر گر گئی اور اُس کی بصارت کو موت کے وقت بھی اُچک کرلے گئی اور اُس کے وجودکو بھی پاش پاش کر گئی قارئین بھی ششدر رہ گئے اور ایک بہاؤ تھا قارئین بھی ان لفظوں کے بہاؤ میں تیرنے لگے۔
                  دراصل یہی وہ بصارت تھی جو بہت سارے مبصرین کو اپنے ابہام میں بہا لے گئی، سوال یہ ہے کہ کیوں ایسا ہوا کہ بچے سارے شور مچا رہے تھے کہ سوئے ہوئے سانپ کو اب کون جگائے گا.......؟ یہ کیوں .......؟یہ کافی گہرا سوال ہے جو گنجینہ معنی میں اپنے اندر تفہیم کی پوری وسعت رکھتا ہے ۔ کہانی کا علامتی پیرایہ یہ ہے جو شور مچاتے ہوئے بچوں کی شکل میں نئی نسل کے طور پر افسانے کی معراج پر پہنچ گیا۔ جس سے معنی کا طلسم خود ظاہر ہونے لگتا ہے لیکن قارئین اس گہرے رمز کو چھو نہیں سکے یہی کہانی کا کلائمکس ہے جو بہت عبرت ناک ہے۔ موت کے پہلے آدمی کی اصلاح ہو سکتی ہے لیکن موت کے بعد کچھ بھی نہیں اور انجام کے اعتبار سے یہی حَکم کی موت کا بہانا بن گئی اور’’ آقا ‘‘ کے تمام غرور کا خاتمہ ہوگیا ۔ویسے یہ افسانہ کافی عبرت ناک ہے .......


*****
مہتاب عالم پرویز ؔ

 مکان نمبر ۱۱ ، کراس روڈ نمبر ۶۔ بی 
 آزاد نگر ، مانگو جمشید پور۔ ۸۳۲۱۱۰
 جھار کھنڈ ۔ انڈیا
E- mail عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته. 

 

       معروف افسانہ نگار مہتاب عالم پرویزؔ کا افسانہ  " کہانی کا دوسرا رُخ " قارئین کی نذر ہے۔

 

 

  کہانی کا دوسرا رُخ
   مہتاب عالم پرویزؔ 
   مکان نمبر ۱۱ ، کراس روڈ نمبر ۶۔ بی 
   آزاد نگر ، مانگو جمشید پور۔ ۸۳۲۱۱۰
   جھار کھنڈ انڈیا
 E- mail عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته. 

               ’’تم کہانیاں لکھتے ہو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہر لڑکی کو اپنی کہانی کا کردار بنالو۔۔۔ ‘‘
                ’’آخر سنبل نے تمھارا کیا بگاڑا ہے کہ تم اُسے بدنام کرنے پر تلے ہو۔‘‘
                ’’تم اُسے حاصل نہ کرسکے تو، اُسے پانے کا اب یہ راستہ اختیار کیا ہے۔‘‘
                ’’میں تمھیں اپنے خاندان کا سب سے اچھا لڑکا سمجھتی تھی، پر تم اتنے ذلیل بھی ہوسکتے ہو۔ یہ میرے وہم و گماں میں نہ تھا۔‘‘
                 یہ ساری باتیں اتنی تلخ تھیں کہ ایک لمحے کے لیے میں مبہوت ساہو کر رہ گیا۔۔۔
                 میں ایک دم ہی پھٹ پڑا۔۔۔ 
                ’’دیکھئے میری خاموشی کا یہ مطلب نہیں کہ آپ میرے وجود سے میرا آخری لباس بھی نوچ لیں۔۔۔آخر آپ کہنا کیا چاہتی ہیں۔۔۔ ؟‘‘
                ’’وہی جو تمھیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جانتے ہو تمھاری وجہ سے اُس نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے۔‘‘
               ’’میں نے ایسا کون سا گناہ کردیا کہ اسے اتنی زحمتیں اٹھانی پڑیں، یہ ساری باتیں کسی کی پھیلائی ہوئی افواہ ہے، جس کا ہم شکار ہورہے ہیں۔‘‘
               ’’مانا یہ ساری باتیں جھوٹی ہیں تو حقیقت پر اب زیادہ دِنوں تک پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔‘‘
               ’’ہاں میں سنبل سے پیار کرتا ہوں، اور یہ افسانہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے، اب مجھے اپنی تباہیوں کا کوئی غم نہیں، بلکہ ڈرتا ہوں اس کی رُسوائیوں سے۔۔۔ اور صرف اسی لیے تو اب تک خاموش ہوں۔‘‘
                  اور اُس شام جب سنبل سے ملاقات ہوئی تو میں اسے دیکھ کرچونکا تھا۔ اس کی خوبصورت آنکھوں میں روز کی طرح کاجل کی لکیریں تھیں جو اس کی خوبصورت آنکھوں کے اسرار کو وسعت بخشتی تھیں۔۔۔ چہرے پر ہلکے میک اپ کاٹچ دیا گیا تھا جس سے اس کے سانولے سلونے چہرے پر نکھار آگیا تھا۔ اُس کے یا قوتی ہونٹ جو مجھے بے حد پسند تھے، اس وقت مجھ سے مخاطب تھے، پر نہ جانے کیوں ان یا قوتی ہونٹوں پر گلے شکوؤں کا ایک جال تھا جس کے ایک ایک لفظ کی گتھی کو سلجھاتے سلجھاتے میرا ذہن خود ہی اُلجھ کر رہ گیا تھا۔۔۔ جیسے کہیں کچھ غلط تھا۔۔۔ کوئی بھرم۔۔۔ کوئی سراب۔۔۔ 
                لیکن اس سے پہلے کہ میں اُس سے ان جملوں کی وضاحت طلب کرتا، وہ جاچکی تھی۔ اور میرا وجود اس کے ان جملوں میں اٹک کر رہ گیا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے اندر کوئی شیشہ ٹوٹ کر بکھر گیا ہو۔۔۔ اور اندر۔۔۔ بہت اندر سے غیر مطمئن تھا میں۔۔۔ یہ سب جیسے میرے زوال کا آغاز تھا۔
                مجھے لگا کہ پودا اب ثمر آور ہوچکا ہے۔ جہاں محبت کے نہیں، بلکہ نفرت کے زہریلے اور کریہہ، بدہیئت، پھول اُگ آئے ہیں اور یہ پودے ان ہاتھوں کے تھے جنھیں میں کل تک اپنا ہم راز سمجھتا تھا۔
                  اور تب مجھے احساس ہوا کہ یہ سب ہمارے ساتھ کتنی بڑی سارش ہے۔
                  لیکن۔۔۔ !
                  لیکن۔۔۔ کاش تم بھی تو سمجھ پاتیں۔۔۔ 
                  اب ہر طرف جدائی کا موسم ہے۔۔۔ شاید ہماری قسمت میں وصال کے اتنے ہی لمحے آئے تھے۔ ہر طرف خوابوں کی برسات ہورہی ہے۔ شاید اب آنسوؤں سے چراغ جلیں گے۔۔۔ اور۔۔۔ 
                 اور۔۔۔ اُس رات کتنا رویا تھا میں، نہ جانے کیوں؟
                 باتیں ہوئیں، اور ختم بھی ہوگئیں۔۔۔ اور لوگ باگ پرانے قصّے، کہانیوں کی طرح اس سانحے کو بھی اپنے اندر کسی گوشے میں گم کرکے نئے قصّوں کی تلاش کرنے لگے۔
                 لیکن میرے اندر لمحہ لمحہ اندھیرا بڑھتا رہا۔۔۔ جیسے میں یوں ہی یادوں کے شور میں راتیں کاٹنے کا عادی ہوگیا تھا۔
                 کمرے کے اس تاریک ماحول میں جہاں ہماری محبت کے نقوش آویزاں تھے، جہاں زندگی کی ساری علامتیں موجود تھیں، اب وہاں زندگی کا چراغ گہری سیاہی کے گھیرے میں تھا۔ اور یہ سب کچھ تو صرف اس کی بدولت تھا۔ اُس دن کے بعد سے میری ویران زندگی میں وہ بہار دو بارہ لوٹ کر نہ آسکی اور میں سرابوں کا اسیر خوابوں کے جزیرے میں تنہا رہ گیا۔ اپنی بے گناہی کی لاش اپنی ہی کاندھوں پر اٹھائے آنسو بہاتا ہوا، بے سمت، نامعلوم منزلوں کی طرف گامزن۔۔۔ 
                سامنے کارنس پر سنبل کی تصویر رکھی ہوئی ہے۔
                وہی خوبصورت آنکھیں۔۔۔ وہی یاقوتی ہونٹ اور سوالوں کا وہی سلسلہ۔۔۔ 
                کاش۔۔۔ سنبل میں تمھیں یقین دلاسکتا پر تم نے اس کا موقع ہی نہیں دیا اور جب تمھاری ناراضگی کا راز معلوم ہوا اُس وقت تک کافی دیر ہوچکی تھی۔
                 ایشٹرے میں سگریٹ سلگ رہی تھی لیکن اُسے اٹھاکر ہونٹوں تک لے جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔۔۔ ان یاقوتی ہونٹوں ۔۔۔ ان خوبصورت سی کجلائی آنکھوں، اور اس سانولے سلونے چہرے کو اپنی ویراں آنکھوں سے لگانے کی خواہش اب میرے اندر کسی برساتی گڈھے کی طرح خشک ہوچکی تھی۔۔۔ خوشبوؤں میں ڈوبی ہوئی تمھاری تحریر کے بے شمار حروف لفظ بہ لفظ نہ جانے کتنی بار پڑھ چکا ہوں، لیکن ایک بھی لفظ میرے ذہن کے آئینے پر اپنا پیکرنہیں بنا سکا۔۔۔ زندگی ایک سوال بن کر رہ گئی۔ 
اکثر رات گئے تمھاری یادوں کا ہالہ اُس وقت ٹوٹ ٹوٹ کر منتشر ہونے لگتا ہے جب اُس بے باک عورت کی تیکھی باتیں میرے وجود کو کچوکے لگاتی ہیں۔
                ’تم کہانیاں لکھتے ہو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہر لڑکی کو اپنی کہانی کا کردار بنالو۔۔۔ ‘
                اُس وقت نہ جانے کتنی ہی کرچیاں میرے سینے میں پیوست ہوجاتیں اور میرے کاندھے پہ میری بے گناہی کی لاش احتجاج کرنے لگتی ہے۔
                مجھے احساس ہوتا کہ کہانیاں تو اسی سماج کی دین ہیں، اسی معاشرے میں جنم لیتی ہیں۔ کہانی کار بھلا کیا کرسکتا ہے، ایک بہاؤ ہے جو اندر کی سبھی چٹانوں کو توڑ کر باہر نکل پڑتا ہے۔ اور قلم دوڑنے لگتا ہے۔
                اُس بے باک عورت کی تیکھی باتیں آج بھی میرے وجود کوکچوکے لگارہی ہیں اور میں غیر مطمئن، جیسے میری کوئی بڑی ہی قیمتی شے مجھ سے چھین لی گئی ہو یا کھوگئی ہو۔
                سنبل سے بچھڑ جانے کے بعد اس کا سب کچھ میرے پاس ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں تھا۔ آج ایک دم سب کچھ ویسا نہیں جیسا پہلے کبھی ہوا کرتا تھا ۔
                اب میری زندگی کا دائرہ بے حد محدود ہوگیا تھا۔
                گھر کا مذہبی ماحول۔۔۔ پابندیاں۔۔۔ سماج کا پھیلا ہوا خوفناک جبڑا۔۔۔ زندگی اور۔۔۔ موت۔۔۔ اورسبھوں کے اپنے اپنے فلسفے ۔۔۔نشیب و فراز۔۔۔ تضادوں کی دنیا۔۔۔ امّی کی آدرش وادی باتیں۔۔۔ حق اور باطل کے وہی پرانے قصّے۔
                میں پھر لوٹ آیا اپنی کتابوں کی دنیا میں جو مجھے کبھی بے حد عزیز تھیں۔
                اب زندگی کو اپنے ڈھنگ سے سمجھنا ضروری تھا۔
                آدمی اس پوری بھیڑ میں اپنی پہچان کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔ بھیڑ موجود ہے لیکن اس کا چہرہ ۔۔۔ گردنوں کے اوپر جانوروں کے خوفناک چہرے ٹکائے لوگ ایک دوسرے کو بھنبھوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔
                واقعی زندگی کو اب اپنے طور پر ہی دیکھنا ہوگا۔
                کتنی گہرائیاں تھیں ان کتابوں میں، اُن دِنوں کی یادیں اب بھی میرے اندر محفوظ تھیں۔ جنھوں نے مجھے آہستہ آہستہ سمیٹ لیا تھا اور میں ساری باتیں بھلاکر صرف کہانیاں لکھنے میں مصروف ہوگیا۔ یہی ایک سبیل تھی جہاں اپنے شناخت کے گم ہوجانے کا کوئی خوف نہ تھا۔ کیونکہ سفید کاغذ پر بکھرے ہوئے سیاہ حروف میری شناخت کا المیہ نہیں تھے۔
                تیکھے ناک نقشے والی وہ عورت جسے لگاتار بچّوں کی پیدائش نے ایک ایسی دہلیز پر لاکھڑا کیا تھا۔ جہاں سے فرار کی کوئی صورت نہ تھی۔
                اس کی کرنجی آنکھیں جس پر بیتی زندگی کے آثار۔ گلاب کی پنکھڑیوں سے عنابی ہونٹ اور جسم کے نشیب و فراز آج بھی اس بات کا اعلان کررہے تھے کہ یہ عورت جوانی میں کافی خوبصورت رہی ہوگی۔
                اور آج اس کی چھاتی سے لپٹا اس کا ڈیڑھ سالہ بیٹا اُس کے وجود سے اپنے حصّے کا آخری قطرہ بھی چوس لینے کی کوشش کررہا تھا۔
                گھر کی ساری چیزیں بے ترتیبی سے پھیلی ہوئی تھیں اور بچیّ کھیل کود میں مصروف تھے۔
                اس کا شوہر، جسے ہر لمحہ اپنی بڑھتی عمر کا احساس تھا، اندر ہی اندر اپنے آپ سے ڈرا ڈرا سا رہتا تھا۔ ویسے بھی اس کے بالوں کی گاڑھی سیاہی اب ملگجے اندھیروں میں بدل رہی تھی۔
                ذہن کو تھکادینے والی دن بھر کی مصروفیت نے اُس کے اندر عجیب چڑچڑاپن پیدا کردیا تھا۔ دفتر سے لوٹتے ہیں بیوی پر برس پڑا۔
               ’’تم نے کبھی بّچوں کی طرف توجہ دی ہے۔۔۔ تم ماں ہو۔۔۔ اور۔۔۔ ماں۔۔۔ ‘‘
               ’’تو میں کیا کروں۔۔۔ ؟ تم تو دفتر کے بعد بھی سیر سپاٹے میں مصروف رہتے ہو اور چھوڑ جاتے ہو مجھے اس قید خانے میں، جہاں ان حرامزادوں کی دیکھ بھال اور تمھاری ضرورتوں کو پورا کرتے کرتے میں خود ہی تھک سی جاتی ہوں اور یہ پلّہ تو میری گود چھوڑتا ہی نہیں، جب دیکھو میری چھاتی سے منہ لگائے رہتا ہے۔۔۔ ایک پل کے لیے اگر اسے ہٹالوں تو اس گھر میں قیامت آجائے گی۔‘‘
                ’’بچیّ آخر بچیّ ہیں اور وہ اتنے باشعور نہیں کہ انھیں سمجھایا جاسکے۔‘‘
                ’’کیا تم ان کے باپ نہیں۔۔۔ ؟ جب یہ تم سے نہیں ڈرتے تو میرا احترام خاک کریں گے۔ یہ مانا کہ میں نے ان پلّوں کو جنم دیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ان کو پیدا کرنے میں سارا قصور میرا ہی ہے۔ اور ویسے بھی تم نے آج تک مجھے ان پلّوں کو نام کے سوا دیا ہی کیا ہے۔ ایک پھول سی بچی مانگتے مانگتے تھک گئی ہوں۔ اس سے تو کہیں اچھا ہوتا کہ میں بانجھ ہوتی۔‘‘
                ’’میں جانتا تھا تم یہی کہو گی۔‘‘ پھر وہ خاموش ہوگیا اور بجھا بجھا سا نہ جانے کن خیالوں میں گم ہوگیا۔۔۔ 
ہر شام ایسا ہی ہوتا۔۔۔ 

                دن بھر کی تھکا دینے والی محنت سے تھک ہار کر جب وہ دونوں بستر پر ہوتے تو بیٹی کی خواہش اس کے وجود میں انگڑائیاں لینے لگتی۔ اور اس شخص کا ہاتھ اُس عورت کی چھاتی کی طرف بڑھنے لگتا، جہاں پہلے ہی سے اس کا ڈیڑھ سالہ بیٹا اپنا حق جمانے کے لیے موجود ہوتا۔
               رات کی تاریکی میں اس کی کنپٹیوں کے سفید بال واضح ہوجاتے لیکن نہ جانے کن جذبوں کے تحت وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوجاتا۔۔۔ اور خواہشوں کی گرفت مضبوط ہوتی چلی جاتی۔
               اچانک بچّے کے رونے کی آوازنے اس کی خواہشوں میں ایک ٹھہراؤ سا پیدا کردیا۔۔۔ لیکن خواہشیں تھیں کہ اپنی تکمیل کی سعی میں مصروف تھیں۔
               بچے رو رہے تھے۔
               ’’اب چھوڑو بھی، دیکھتے نہیں بچے رو رہے ہیں۔‘‘
               ’’تو میں کیا کروں۔۔۔ حرامزادے بے وقت ہی روتے رہتے ہیں۔‘‘
               ’’میں کہتی ہوں نا۔۔۔ چھوڑو میں اُسے دودھ پلاتی ہوں۔‘‘
               ’’تم بھی کیسی باتیں کرتی ہو، ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔‘‘
               ’’کیا کبھی تم نے سوچا ہے۔ دن بھر کی تھکادینے والی محنت کے باوجود جب تم اپنے وجود کا سارا بھار میرے وجود پر ڈالتے ہوتو مجھے ایسا لگتا ہے کہ اب میں                     کافی کمزور ہوگئی ہوں اور جب تم ڈھیر ہوجاتے ہو اور تمھاری ساری تھکن میری شریانوں میں اُترتی چلی جاتی ہے تو پھر انھی سوالوں کی بازگشت مجھے ایسا سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ اگر اس بار بھی لڑکی پیدا نہ ہوئی تو؟‘‘
               ’’اب چھوڑو بھی اِن روز روز کی باتوں کو۔‘‘
               اور وہ معصوم بچہ اب بھی روئے جارہا تھا۔
               ’’ارے اس حرامزادے کو چپ بھی کراؤ، نہیں تو اٹھاکر باہر پھینک دوں گا۔ مجھے کل صبح دفتر بھی جانا ہے خواہ مخواہ میری نیند خراب ہورہی ہے۔‘‘
                اور اُس عورت نے نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے اپنی چھاتی سے لگالیا۔
               اس عورت کی زیادہ تر راتیں ایسی ہی گزرتی تھیں، جیسے وہ ان راتوں کی عادی ہوگئی ہو۔
               پھر وہی معمول۔۔۔ وہی زندگی۔۔۔ اور ۔۔۔ وہی سب کچھ۔۔۔ !
               اور آج وہ شخص وقت سے پہلے لوٹ آیا ہے۔
               یہ پہلا اتفاق ہے کہ گھر میں مکمل سناٹا ہے۔ اندر بچوں کے شور اور ہنگامے کی جگہ خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ اُسے حیرت ہوئی۔
              لیکن بیڈ روم سے آتی ہوئی سرگوشیوں نے اُس کے وجود کو جھنجھوڑکر رکھ دیا۔

              ’’ڈارلنگ۔۔۔ ! تمھیں لڑکی چاہیے بس اتنی سی بات۔‘‘
                اُس سے اور وہاں رُکا نہیں گیا جیسے اندر کہیں زلزلہ آگیا ہو، لیکن وہیں پھر سوچ کی دنیا آباد ہوگئی۔
                وہ سوچنے لگا۔۔۔ مجھے اس عذاب کو جھیلنا ہی ہے تاکہ آنے والی نسل کی حوّا وجود میں آسکے۔
                وہ واپس لوٹ آیا اجنبی راستے کی طرف، اور فخر محسوس کرنے لگا کہ یہ سارے بچے میرے ہی وجود کا حصّہ ہیں۔


                                                                                    ***
مہتاب عالم پرویزؔ 
مکان نمبر ۔ ۱۱ کراس روڈ نمبر ۶ ۔ بی
آزاد نگر، مانگو ، جمشید پور ۔832110
E  mail  عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته. 

 

 

 مہتاب عالم پرویزؔ کی کہانی اور ’’ کہانی کا دوسرا رُخ ‘‘ 

   (  MAHTAB ALAM PERVEZ KI KAHANI AUR ( KAHANI KA DOOSRA RUKH 


ڈاکٹر شاداب علیم 
شعبۂ اردو 
سی .سی. ایس. یونیورسٹی ،میرٹھ


        اردو افسانے کا کارواں خرا ماں خراماں دس دہا ئیاں طے کرچکا ہے۔ اس مختصر مدت میں اس کو اپنی بقا کے لیے مختلف چو لے بدلنے پڑے ۔کبھی رومان پسندی کی ردا اوڑھی، تو کبھی سماجی حقیقت نگاری کا جبہ پہنا، کبھی ترقی پسندی کا عمامہ سر پر رکھا ،تو کبھی جدیدیت کے دو شالے میں پناہ لی۔ اس طرح ہمارا افسا نہ کبھی تخلیق کا مرہون منت نہیں رہا بلکہ اس میں عہد بہ عہد فنی و فکری سطح پر بہت سی تبدیلیاں ہو تی رہیں۔شاید انہی کے باعث وہ آج بھی ترو تازہ اورسرسبز و شاداب ہے۔
اردو افسا نے کی تاریخ میں وہی افسانہ نگار اہم تصور کئے گئے جنہوں نے تازہ ہواؤں کا خیر مقدم کیا اور تقلید سے انحراف برتتے ہو ئے نئی نئی فضا ؤں سے اکتساب فیض کیا۔یہ سلسلہ ہر دور میں جاری رہا اور آج بھی مہتاب عالم پرویز ؔ جیسے افسانہ نگار ہمارے افسا نوی ادب کو اپنی تازہ کا ری کے باعث صرف نئے رجحان ہی سے نہیں بلکہ نئے امکانات سے بھی آ شنا کرارہے ہیں۔
        مہتاب عالم پرویزؔ اپنی کہا نیوں کا مواد اپنے گردو پیش سے منتخب کرتے ہیں اور پھر ان افسا نوں کو اپنی زبان کی چاشنی سے شیرینی عطا کرتے ہیں۔ ان کی کہا نیوں میں جدیدیت کا رنگ وا ضح نظر آ تا ہے۔زیر نظر افسا نہ ’’کہانی کا دوسرا رُخ ‘‘ ایک معمہ یا ایک پہیلی نظر آتا ہے ۔عام قاری کہانی مکمل ہونے کے بعد کہانی کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہوجاتا ہے اور کہانی میں جدیدیت کی چیستانی تکنیک قاری کے دماغ کو الجھادیتی ہے۔مہتاب عالم پرویزؔ نے کہانی میں ماضی اور حال کو اس طرح پرودیا ہے کہ ایک سے دوسرے کو الگ کرنا ایک مشکل مرحلہ بن گیا ہے ۔
        کہانی کا آغاز الزام تراشی سے ہوتا ہے۔افسانہ نگار پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے کہانی کی ہیروئن ’سنبل ‘ کو اپنی کہانی کا کردار بناکر سماج میں بدنام کردیا ہے۔یہی الزام سنبلؔ اور افسانہ نگار کے بیچ جدائی کی وجہ بن جاتا ہے۔اس سے قبل کہ افسانہ نگار الزامات کا جواب دے پاتا سنبلؔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کی زندگی سے دور ہوجاتی ہے ۔جس کا اظہار افسانہ نگار ان الفاظ میں کرتا ہے:
        ’’میں سرابوں کا اسیر خوابوں کے جزیرے میں تنہا رہ گیا ۔اپنی بے گناہی کی لاش اپنے ہی کاندھوں پر اٹھائے آنسوبہاتا ہوابے سمت،نامعلوم منزلوں کی طرف گامزن۔‘‘
        افسانہ نگار اپنی کہانی کے جواز میں ایک آفاقی حقیقت بیان کرکے اپنی بے گناہی ان الفاظ میں ثا بت کرتا ہے:
        ’’مجھے احساس ہوتا ہے کہ کہانیاں تو اسی سماج کی دین ہیں ، اسی معاشرے میں جنم لیتی ہیں ۔کہانی کار بھلا کیاکرسکتا ہے ،ایک بہاؤ ہے جو اندر کی سبھی چٹانوں کو توڑ کر باہر نکل پڑتا ہے اور قلم دوڑنے لگتاہے۔‘‘
        افسانہ نگار کی خود کلامی کے دوران مہتاب عالم پرویز ؔ بلا کسی تمہید ایک نئی کہانی کا آغاز کردیتے ہیں ۔ایک مڈل کلاس اوسط ہندوستانی جوڑے کی کہانی دفتر میں کام کرنے والا ایک ادھیڑ مرد اور گھر کی چہار دیواری میں قید ایک ادھیڑ عمر عورت کی کہا نی ،جو کئی لڑکوں کی ماں ہے ،گھر کی نوکرانی ہے ۔بچوں کی آیا ہے۔اور مرد کی جنسی تسکین کا ذریعہ بھی۔ لیکن جو ایک لڑکی کی پیدائش کی شدید خواہش رکھتی ہے۔وہ اپنے شوہر سے بے حد نالاں ہے کیوں کہ:
        ’’ایک پھول سی بچی مانگتے مانگتے تھک گئی ہوں۔ اس سے تو کہیں اچھا ہوتا کہ میں بانجھ ہوتی‘‘
        یہ مسئلہ دونوں کے درمیان مستقل موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ عورت کو یقین ہے کہ اس کا شوہربیٹی پیدا کر نے کے قابل نہیں ہے۔ایک روز جب شوہر وقت سے قبل گھر لوٹتا ہے ،تو گھر میں بچوں کا شور و ہنگاموں کانہ ہونا اسے حیرت میں ڈال دیتا ہے لیکن جلد ہی اس کو خاموشی کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے جب وہ بیڈ روم سے آتی ہوئی آواز سنتا ہے ۔
        ’’ڈارلنگ تمہیں لڑکی چاہیے ۔بس اتنی سی بات ‘‘
         یہ سن کر وہ چپ چاپ واپس لوٹ جاتا ہے اور کہانی ختم ہوجاتی ہے ۔ قاری کو حیران چھوڑ کر ۔کہانی کے اس حصے میں کہی گئی کئی باتیں تسلیم کر نے کے لیے ذہن تیار نہیں ہو تا۔ایک مڈل کلاس عورت کی لڑکی کے لیے اس قدر شدید خواہش کہ وہ اس خواہش کی تکمیل کے لیے اپنا جسم غیر مرد کے حوالے کردے بعید از قیاس ہے ۔آج کے سماج میں جب کہ مرد عورت پر مکمل طور پر حاوی ہے اور لڑکیاں رحم مادر ی میں قتل کی جارہی ہیں، ایک لڑکی کی خواہش کے لیے ایک گھریلو عورت کا اس حد تک گر جانا حقیقت سے دورہے ۔ایک لڑکے کے لیے اگر کوئی عورت ایسا قدم اٹھائے تو کسی حد تک مانا جاسکتا ہے۔لیکن شاید حقیقت اور افسانے میں یہی فرق ہے کہ نا ممکن حقیقت ،افسانہ بن جاتی ہے۔
         اگر مذکورہ بالا حقیقت کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی عورت کا کردار قابلِ یقین نہیں ۔بد ترین عورت کے لیے بھی اس کی اولاد تذکیر و تانیث کی قید کے بغیر اس کے وجود کا حصہ ہوتی ہے۔عورت کا ماں بننا اس کے وجود کی تکمیل ہے۔کہانی کار نے ماں کی زبان سے........
           ’’یہ پِلّا تو میری گود چھوڑ تا ہی نہیں ۔‘‘
           ’’یہ مانا کہ میں نے ان پلّوں کو جنم دیا ہے۔‘‘ 
           یا
           ’’ویسے بھی تم نے آج تک ان پلّوں کے نام کے سوا دیا ہی کیا ہے۔‘‘ 
          جیسے جملے قبول کرنے سے ذہن انکار کر دیتا ہے ۔بیٹی کی خواہش کتنی بھی شدید سہی مگر ماں کے لیے بیٹے پلّے ہوجائیں یہ ممکن نہیں۔
          حیران قاری جب کہانی کو سمجھنے کے لیے باریک بینی سے کہانی کا دوبارہ مطالعہ کر کے کہانی کی گتھی سلجھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر کہانی کی اول اور آخری حصے کے تسلسل کی حقیقت کھلتی ہے ۔ وہ یہ کہ کہانی کاآخری حصہ یعنی مرد و عورت کی کہانی در اصل سنبل ؔ کی کہانی کا ’’ فلیش بیک ‘‘ ہے۔
          مہتاب عالم پرویز ؔ نے آج کے پیچیدہ سماج کی ایک پیچیدہ کہانی تحریر کی ہے۔اگر وہ کہانی کے حال اور ماضی کی جانب ذراسا اشارہ کردیتے تو کہانی گنجلک نہ ہوکر ایک واضح کہانی بن جاتی۔اس پیچید گی کو مہتاب عالم پرویز ؔ نے ایک تکنیک کے طور پر استعمال کیا ہے لیکن اس تکنیک نے کہانی کی ترسیل کو دشوار بنا دیا ہے۔
          ہر فن کار اپنے اظہار میں خوش شگفتگی اور حسن کارانہ فنی رویوں کو سب سے زیا دہ اہمیت دیتا ہے۔کیوں کہ مواد اور خیال قاری کے لیے ثا نوی حیثیت رکھتے ہیں۔ فن کار اپنے خیالات و احساسات کو قاری یا سامع تک پہنچا نے کے لیے لفظوں کا سہا را لیتا ہے۔ لفظ یا اظہار بیان خوبصورت نہ ہوں تو بہتر خیال بھی اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔مہتاب عالم پرویزؔ صا حب اس فن سے بخو بی وا قف ہیں۔
        کہانی میں اول تا آخر مہتاب عالم پرویز ؔ کی زبان کی چاشنی بر قرار رہتی ہے۔کہیں کہیں تو ان کی نثر نثری نظموں کا مزہ دیتی ہے۔ملاحظہ ہو:
          ’’دیکھیے میری خاموشی کا یہ مطلب نہیں کہ آپ میرے وجود سے میرا آخری لباس بھی نوچ لیں۔‘‘ 
          ایک جگہ ان کے جملے کا نوں میں اس طرح شہد گھول دیتے ہیں:
          ’’ اس کی خوب صورت آنکھوں میں روز کی طرح کا جل کی لکیریں تھیں جو اس کی آنکھوں کے اسرار کو وسعت بخشتی تھیں۔‘‘
          یا یہ:
          ’’اب ہر طرف جدائی کا موسم ہے۔شاید ہماری قسمت میں وصال کے اتنے ہی لمحے آئے تھے ۔ہر طرف خوابوں کی برسات ہو رہی ہے ۔شاید اب آنسوؤں سے چراغ جلیں گے۔‘‘ 
         کہا نی کے بیا نیہ کے دوران مہتاب عالم پرویز ؔ چپکے سے تلخ حقائق اور کام کی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں۔جیسے’’باتیں ہوئیں اور ختم بھی ہوگئیں ۔اور لوگ باگ پرانے قصے ،کہانیوں کی طرح اس سانحہ کو بھی اپنے اندر کسی گوشے میں گم کرکے نئے قصوں کی تلاش کرنے لگے۔‘‘
         یا
         ’’ گھر کا مذہبی ماحول ،پابندیاں ، سماج کا پھیلاہوا خوفناک جبڑا ،زندگی اور موت اور سبھوں کے اپنے اپنے فلسفے ،نشیب و فراز ، تضادوں کی دنیا ،امی کی آدرش وادی باتیں حق اور باطل کے وہی پرانے قصے ۔‘‘
         مہتاب صاحب آج کی تیز رفتار اور پیچیدہ زندگی میں بے چہرگی کو بھی خو بصورتی سے بیان کرتے ہیں جو کہ جدیدیت کی خاص پہچان ہیں:
         ’’آدمی اس پوری بھیڑ میں اپنی پہچان کی تلاش میں بھٹک رہا ہے ۔بھیڑ موجود ہے لیکن اس کا چہرہ ،گردنوں کے اوپر جانوروں کے چہرے لگائے لوگ ایک دوسرے کو بھنبھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔‘‘ 
         مہتاب عالم پرویز ؔ کی یہ کہانی پلاٹ کی پیچیدگی اورزبان کی شیرینی کے بہا ؤ میں بہتی چلی جاتی ہے۔قاری کہا نی کو لطف لے لے کر آخر تک پڑھتا ہے۔دیکھا جائے تویہ کہانی آج کی پیچیدہ سماج کی ایک پیچیدہ کہا نی ہے۔جہاں حقائق بعید از فہم ضرور لگتے ہیں مگر کیا آج کا سماج بعید از فہم نہیں؟ 

***

ڈاکٹر شاداب علیم 
شعبۂ اردو 
سی .سی. ایس. یونیورسٹی ،میرٹھ

 

 

 

Read 4302 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com