الإثنين, 02 كانون1/ديسمبر 2013 19:08

گمشدہ قبرستان : ڈاکٹرریاض توحیدیؔ ۔وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر

Rate this item
(0 votes)

 گمشدہ قبرستان
 ڈاکٹرریاض توحیدیؔ ۔وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر193221.


                غروب آفتاب کے ساتھ ہی اُس کی نظر یں مشرقی پہاڑی والے درّے پر جم جاتی تھیں ۔ کالی رات کے سیاہ سائے پھیلنے کے ساتھ ساتھ اُس کی نظروں کے سامنے مایوسی کا غبارہ چھا جاتا اور وہ کھڑکی بند کرکے فریم میں مقید مسکراتے فوٹو کو اپنے سینے سے لگا کر زارو قطار رونا شروع کردیتی ۔ جدائی کے کر بناک لمحوں کے درمیان ، رات کے سناٹے میں پہاڑی درّے سے صرف ایک ہی در دناک آوازاُس کے کانوں سے ٹکراتی رہتی ۔۔۔ میں واپس آونگا ۔۔۔ میں واپس آوں گا ۔۔۔
واپس آنے والی یہ پُر اُمید آواز اب نا اُمید ی کا صحرا بن کر سلطانہ کی روح میں سراب بن کر اُتر چکی تھی کیونکہ لمحوں نے اب برسوں کا روپ دھارلیا تھا ۔ وہ بیوہ کے خوفناک لفظ سے ایسے ڈرتی تھی جیسے کوئی تندرست انسان زہر یلے سانپ کے ڈسنے سے ادھ مرا پڑا ہو۔ اُس کے زخمی دل کا مرہم صرف ماں کی ایک دُعا تھی۔۔۔سدا سہاگن رہو بیٹی ۔۔۔ لیکن جب جدائی کے غمگین جذبات کی تیز و تند لہر یں دل سے اُٹھ کر اس کی سوچ پر اثر انداز ہوجاتی تو اعتماد کے پہاڑ میں وسواس کا آتش فشاں گرم ہوجاتا اور وہ اُمید کے بھنور میں پھنس کر سوچتی کہ وہ بیوہ ہیں یا سہاگن ۔۔۔؟
سلطانہ کا مسکن سلطان پورتھا۔ سلطان پور، وادی کا ایک خوب صورت گاؤں تھا۔ فلک بوس پہاڑوں کے درمیاں واقع یہ گاؤں ایک تابناک تاریخ کا حصّہ رہا تھا۔ اس کی اپنی ایک شاندار تہذیب تھی، اپنا ایک شاندار تمدن تھا۔ زندگی کی سانسیں خوشگوار ماحول میں چلتی تھیں۔ گاؤں کے لوگ خوشبودار فضاؤں کے آزاد پنچھی معلوم ہوتے تھے ، لیکن ان آزاد پنچھیوں کی آزادی اس وقت چھن گئی جب خوشبودار فضاؤں پر سیاہ بادلوں کی کڑکتی بجلیوں نے آگ کے شُعلے برسانا شروع کردیئے ۔ ہر طرف کالا دھواں پھیل گیا اور گھر گھر سے ماتم کی دھنیں بجنے لگیں۔
برسوں پہلے سلطان پور کے بلند پہاڑوں سے کالی بلاؤں کا ظہور ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان خوفناک بلاؤں نے طاقت کے بل پر سلطان پور کو اپنے خونین شکنجے میں اس طرح سے کَس لیا کہ ہنستے مسکراتے چہرے مر جھے مرجھے سے نظر آنے لگے ۔ دہشت کی وجہ سے ہر انسان نفسیاتی مریض بنتا گیا اور گلستان قبر ستان بنتے گئے۔ 
گاؤں کے اسی پُر آشوب ماحول میں سلطانہ جوان ہوگئی ۔ رشتے آنے لگے، مشورے ہوتے رہے اور آخر کار سلطانہ کا رشتہ گاؤں کے ایک ایسے خوب روبہادر نوجوان سے طے ہوا جو نام کا ہی نہیں بلکہ دل کابھی سلطان تھا۔ بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ صالح فطرت بھی تھا اور ہر کسی کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتا تھا۔ ایک دفعہ جب گاؤں کے ایک غریب کسان کی گائے مرگئی تو غریب کسان کے گھر سے آہیں اور سسکیاں اُٹھنے لگیں۔ سلطان سے غریب کا یہ صدمہ برداشت نہ ہوا اور اُس نے گھر کی گائے بلا معاوضہ غریب کسان کو دے دی۔ کُشتی میں اُسے کوئی بھی پچھاڑ نہیں سکتا تھا اور کبڈی کے کھیل کاتو وہ چمپئن ہی تھا۔ کھیتی باڑی اُس کا پیشہ تھا۔ وہ سال بھر اپنے ہی کھیت کھلیانوں میں محنت مزدوری کرکے روزی روٹی کماتا تھا ۔ گاؤں کی اکثریت بھی زراعت کے پیشے سے ہی وابستہ تھی۔ پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد اگر چہ کم تھی تاہم گاؤں کے اکثر بچے اب اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔
ایک صبح تمام گاؤں والوں کو کڑکتی سردی میں گھروں سے باہر نکالا گیا اور ایک بڑے میدان میں یخ بستہ برف کے اوپر بٹھا یا گیا۔ چارجانب ہتھیار بند پھیلے ہوئے تھے ۔ خوف و دہشت کی بلاؤں نے ہا ہا کار مچاتے ہوئے نوجوانوں کو چن چن کر اپنی گرفت میں لینا شروع کردیا ۔ ان کے کپڑے اُتا ر اُتار کر انہیں ننگے بدن پیڑوں سے باندھا گیا ۔ ٹارچر شروع ہو گیا ۔چیخ و پکار سے پیڑوں پر بیٹھے پرندے بھی سہم گئے۔ سلطان کو بھی پیڑ پر اُلٹا لٹکایا گیا اور درجن بھر بندوق بردار اُس پر ٹوٹ پڑے۔ گاؤں کے بے گناہ نوجوانوں کو بے رحمی سے مارتے مارتے دیکھ کر گاؤں والے شور مچانے لگے ۔جرأت کا مظاہرہ کرکے سلطانہ اندھی بندوقکے سامنے کھڑی ہوگئی اور ظالموں کے ہاتھوں سے سلطان کو چھڑوا نے کی کوشش کرنے لگی۔ کمانڈر نے پر رُعب آواز میں اسے پیچھے ہٹنے کو کہا۔
’’آپ لوگ بندوق کا رعب جما کر انہیں کیوں ظلم کا نشانہ بنارہے ہو۔‘‘ سلطانہ احتجاج کرتے ہوئے بول پڑی۔
’’ہمیں اطلاع ملی ہے کہ گاؤں کے نوجوان دہشت گردوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔‘‘
’’دہشت گرد ۔۔۔ کون۔۔۔؟‘‘ سلطانہ کا پارا چڑھنے لگا’’جنہوں نے طاقت کے بل بوتے پر گھسیٹ کر ہمیں یہاں لایا۔‘‘
’’ہمارے کام میں دخل مت دو ۔‘‘ کمانڈر نے گالی دیتے ہوئے اُسے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔
سلطانہ نے بھی جذبات میں آکر اُس کے منہ پر کراراتھپڑ مارا۔ لوگ بھی زور دار احتجاج کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے اور بندوق بردار گرم ماحول دیکھ کر وہاں سے فرار ہوگئے۔
شادی کا دن تھا ۔ سلطانہ کو بڑے دھوم دھام سے سُسرال لایاگیا۔ نصف رات کے وقت اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور آناً فاناً نقاب پوش افراد کی ایک ٹولی گھر کے اندر گُھس گئی۔ سلطان کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد خانہ کو بھی بندوق کی نوک پر گھر سے باہر نکالا گیا۔ سلطانہ کو کمرے میں ہی بند کیا گیا۔ سلطان کے ہاتھ رسیوں سے باندھے گئے۔ ہر طرف خوف کے سائے منڈلانے لگے۔ سیاہ بادلوں کی کڑکتی بجلی نے پھولوں کی سیج کو بھسم کر ڈالا۔ جمہوریت کے ایوان ہلنے لگے۔ وحشی کی جھپٹ سے مظلوم ہر ن کی پُردرد چیخ اندھیرے میں گونج اُٹھی۔ سلطان ظالموں کے شکنجے کو توڑ کر کمرے کی طرف دوڑ پڑا۔ سلطانہ بستر پر بے حس پڑی تھی۔ سلطان نے درندے کے ہاتھ سے بندوق چھینی اور گردن پکڑ کر اُسے گھسیٹتے ہوئے مکان سے باہر لایا۔ نقاب پوش سلطان پر ٹوٹ پڑے اور اسے زنجیروں میں جھکڑ کر پہاڑی کے او ر چل پڑے۔ سلطانہ ٹوٹے قدموں سے کھڑکی پر کھڑی ہوگئی۔ اندھیرے کی وجہ سے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ پہاڑی درّے سے صرف ایک آواز آرہی تھی ، سلطانہ میں واپس آونگا ۔۔۔ میں واپس آونگا۔
گزرتے وقت کے کرب انگیز لمحوں نے سلطانہ کے دل و دماغ کو شل کر کے رکھ دیا تھا۔ امید کے ہر ے بھرے پتے زرد ہوتے جارہے تھے۔ عید کا چاند نکل آیا تھا۔ خوشی کے ان لمحات میں بھی سلطانہ کی سوچ پر مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ رات کا کھانا کھانے کے ساتھ ہی وہ بستر پر لیٹ گئی۔ آنکھ لگتے ہی اُسے خواب میں سطان نظر آیا جو باہیں پھیلا پھیلا کر کہہ رہا تھا:
’’سطانہ کل مجھ سے ملنے آنا ، ہم پھر سے ملیں گے ۔ اب ہمیں کوئی ظالم جُدا نہیں کرسکتا۔‘‘
سلطانہ کی نیند اچانک ٹوٹ گئی۔ وہ کھڑکی کھول کر پہاڑ کی طرف دیکھنے لگی۔ وہاں صرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ وہ مایوس ہو کر دوبارہ بستر پر لیٹ گئی۔ اس نے آنکھیں تو بند کر لی لیکن نیند کوسوں دور بھاگ چکی تھی۔ صبح تک اس کی آنکھوں میں عجیب وغریب مناظر آتے رہے۔ عید کی گہما گہمی چار سو پھیلی ہوئی تھی ۔ سلطانہ کے قدم نا چاہتے ہوئے بھی قبرستان کی جانب بڑھنے لگے ۔ قبرستان پچھلی دو دہائیوں سے سینکڑوں مظلوموں کو اپنی گو دمیں سُلاتا آیا تھا۔ قبرستان میں پہنچ کر سلطانہ کو ایک سبزر نگ کا کتبہ نظر آیا۔ کتبے پر ’’گمشدہ قبرستان ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ یہاں کشمیر کی گمشدہ نسل دفن تھی۔ گمشدہ قبرستان ایسی ہزاروں گمنام قبروں کا مسکن تھا جس میں عدمِ تشدد کا فلسفہ جمہوریت کا کفن اوڑھے ہوئے دفن تھا۔ قبرستان مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں سے ماتم کدہ بنا ہوا تھا ۔ کوئی ماں اپنے گمشدہ بیٹے کو ڈھونڈ رہی تھی اور کوئی معصوم بچہ اپنے گمشدہ باپ کی قبر تلاش کررہا تھا، لیکن کسی کے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ بھی نہ آتا تھا ۔ چار سو حشر کا سماں بپا تھا ۔ا س حشر نما عالم میں سلطانہ کے ٹوٹے قدم ایک گمنام قبر کے نزدیک خود بہ خود رُک گئے۔ وہ قبر کو غور سے دیکھنے لگی۔ اُسے ایسامحسوس ہو رہا تھا کہ قبر اسے کہہ رہی ہے کہ سلطانہ تیرا سلطان میری گود میں سو رہا ہے۔ ظالموں نے اُسے ٹکڑ ے ٹکڑے کرکے میرے حوالے کر دیا تھا۔ سلطانہ لرزتے وجود کے ساتھ وہاں سے چیختی چلاتی گھر کی جانب دوڑپڑی ، نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔ !کمرے میں داخل ہوتے ہی اُس نے سلطان کا فوٹو
سینے سے لگا یا اور خون کے آنسوں بہانے لگے۔
رات کے سیاہ سائے دن کے اُجالے پر چھاجانے لگے۔ ہتھیاروں سے لیس درجن بھر نقاب پوش گھر کے اندر نمودار ہوگئے۔ گھر کے اندر سناٹا چھا گیا ۔ خوف کے مارے سلطانہ کا دل بیٹھنے لگا۔
’’تم نے ہمارے خلاف کیوں ہیومن رائٹس کمیشن میں کیس دائر کر دیا ہے؟‘‘ کا لاافسر دانت دکھاتے ہوئے پوچھ بیٹھا ۔ 
’’کہاں ہے میر اسلطان؟‘‘ سلطانہ سہمی سہمی آواز میں بول پڑی’’مجھے میرا سلطان لوٹا دو۔‘‘
’’وہ دہشت گردوں کے ساتھ کام کرتا ہے۔‘‘ وہ پھنکارتے ہوئے بول پڑا۔’’ تم اس کاغذ پر انگوٹھا لگاؤ۔‘‘
’’مجھے میر اسلطان واپس لا کر دو ۔‘‘ سلطانہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار نکل پڑی ’’تو ہی میں سفید کاغذ پر انگوٹھا مارونگی۔‘‘
ظلم کی ننگی تلوار ہوا میں رقص کرنے لگی۔ سلطانہ کے دل سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ سر خ خون سے سفید کاغذپر انگوٹھا لگ گیا۔ جدائی کی آخری سانسیں دم توڑ نے لگیں ۔ ہوا کے ایک تیز جھونکے سے کھڑکی کے پٹ کُھل گئے۔ سلطان پور کے گھر گھر سے ماتم کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ کالی بلاؤں کے خونین پنجوں نے گلستان کے رنگ برنگے پھولوں کو ریزہ ریزہ کرکے رکھ چھوڑا تھا۔ سلطانہ کی آس بھری نظریں پہاڑی کے اُس درّے پر جم چکی تھیں جہاں بھیانک اندھیرا تھا۔۔۔ صرف بھیانک اندھیرا!

عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته. 
mob.9906834877

Read 2164 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com