بھول
افسانہ نگار: بیان اسعد مصطفیٰ
مترجم: ابو فہد، نئی دہلی
ہردن کی طرح آج بھی وہ اپنے مرحوم خاوند کی زیارت کے لیے جارہی ہے، عطر میں رچی بسی اور سفیدخوبصورت پھولوں کا گلدستہ اٹھائے ہوئے۔ جیسے وہ اس کے انتظار میں ہمیشہ کی طرح باہیں پسارے کھڑے ہونگے۔ اسے اپنے خاوند کا یہ انداز بڑا اچھا لگتا تھا حالانکہ زندگی کی طویل رفاقت میں انہوں نے کبھی بھی اسطرح باہیں پھیلاکراس کا استقبال نہیں کیا تھا۔ اوروہ خودبھی یہی پسند کرتی تھی کہ وہ بھی اسی طرح باہیں پھیلا کر ان کا استقبال کیا کرے گرچہ اسے اپنے خاوند سے بہت زیادہ محبت کبھی نہیں رہی کیونکہ وہ ہروقت غصہ میں رہتے تھے، اول فول بکتے تھے اور معمولی باتوں پر ہتھے سے اکھڑ جاتے تھے۔وہ ہمیشہ اسے الزام دیاکرتے تھے کہ وہ اپنی حماقتوں اور نادانیوں کے باعث ان کے لیے پریشانیوں اور مسلسل سردردی کی بڑی وجہ ہے۔
وہ جب جب بھی اپنے مرحوم خاوند کی زیارت کے لئے گھر سے نکلاکرتی تو محبت اورشوق کی ایک انجانی کیفیت سے سرشار ہوجاتی، اور اِس وقت جب وہ گھر سے نکل رہی تھی تو وفورِ شوق اور جوش محبت سے اس کے جسم کا ہربن مو جیسے غش کھارہا تھا۔اس نے سب سے قیمتی لباس زیب تن کیا ، اتنا مہنگا لباس اس سے پہلے اس نے کبھی نہیں پہنا تھا۔اس کے پاس بے حساب قیمتی جوڑے تھے جو اس کی اپنی الماری میں بھرے رہتے تھے،اس کے خاوند نے ان میں سے کسی جوڑے میں اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔جب وہ زندگی کی بساط پر اس کے ساتھ تھے تو اس نے کبھی اپنے آپ پر کچھ خاص توجہ نہیں دی تھی، ان کے لیے حسین نظر آنے کے لئے اس نے کبھی کچھ اہتمام نہیں کیا تھا، حتی کہ وہ اپنے چہرے پرکسی قسم کا پاؤڈر تک بھی نہیں لگاتی تھی اور نہ ہی کسی طرح کی خوشبو استعمال کرتی تھی۔۔۔۔۔ مگر ان کے گزرجانے کے بعد نہ جانے کیوں اسے یہ سب کچھ بہت اچھا لگنے لگا تھا۔آج وہ ان کے پاس سولہ سنگارکے ساتھ اور سب سے قیمتی جوڑے میں جانا چاہتی تھی۔جیسے وہ زندگی کی بساط پر آج بھی اس کے ساتھ ہوں اور وہ پہلے سے طے شدہ تفریحی پروگرام پر جارہے ہوں۔
تروتازہ سفید پھولوں کا گلدستہ ، جسے اس نے گرد وغبار سے محفوظ رکھنے کی غرض سے خوبصورت کاغذی لفافے میں لپیٹ لیا تھا، اپنے دونوں ہاتھوں میں مضبوطی کے ساتھ تھام رکھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں کہیں سے کہیں تک بھی غم کی پرچھائیاں نہیں تھیں بلکہ ان کی جگہ شوق کا نقرئی عکس جھلک رہا تھا۔اس کی نظریں اس کی نازک کلائی پر بندھی ہوئی خوبصورت گھڑی کی طرف بار بار اٹھ رہی تھیں۔جیسے اسے دھڑکا لگا ہوا ہوکہ وہ دیر کردے گی۔
مقبرہ کے قریب پہنچ کر اس نے اپنے بالوں کو درست کیا جنہیں تند ہواؤں نے پریشاں کردیا تھا۔اورسفید پھولوں کے گلدستے کو سینے سے چمٹالیا۔
دوسری طرف فٹ پاتھ پر ایک آدمی سست رفتار سے چل رہا تھا۔ اْس کے بر عکس اْ س آدمی کے کپڑے میلے تھے، بال پریشاں تھے اور اس نے عجیب سی پراگندہ سی ہیئت بنا رکھی تھی۔اور تو اوراس کی کلائی پر گھڑی بھی نہیں تھی۔جیسے اسے اس بات کی پرواہ ہی نہ ہو کہ وہ دیر کردے گا۔اس نے قبرستان کے ٹھیک محاذات میں آکر سڑک کو عبور کیا۔۔۔ اور اس طرح دونوں ایک ساتھ قبرستان میں داخل ہوئے۔
’’تم کس کے لئے آئے ہو ؟‘‘ عورت نے پوچھا۔
’’اپنی بیوی کے لیے۔‘‘
عورت نے اجنبیت اور حقارت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اْس کے سراپا کا جائزہ لیا۔اسے یہ سب بہت عجیب سا لگا۔اور حیران کن بھی۔
’’اور تم ؟ ‘‘ آدمی نے بھی وہی سوال دہرایا۔
’’ اپنے خاوندکے لئے۔‘‘
’’خاوندکے لئے۔۔؟ ‘‘وہ جیسے حیرانیوں کے سمندر میں سرتاپا غرقاب تھا۔ اس نے اس کے لپِے پتے چہرے اور شوخ لباس پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اوراٹکتے اٹکتے پوچھا۔’’کیا تم ان کی موت سے خوش ہو۔؟‘‘
’’اس قدر نہیں جس قدر میں ان سے ملنے کی مشتاق ہوں۔ ‘‘
’’جب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو تمہارے اس شوق پر غم کی اور خود تمہاری اپنی ذات پر غم خواری کی کیفیت کا طاری ہونا ضروری تھا۔مگر اس کے برعکس تم تو وفورشوق سے سرشار نظر آرہی ہو۔‘‘
یقینا! لیکن میں چاہتی ہوں کہ وہ مجھے اچھی حالت میں دیکھیں، اور اس سے انہیں خوشی ملے۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ مجھے کالے کپڑوں میں دیکھیں اور اس سے انہیں تکلیف پہنچے۔۔۔۔کالے کپڑے بے وقوف عورتیں پہنا کرتی ہیں۔کالا رنگ محبت کی علامت نہیں ہوسکتا، کسی اور چیز کی علامت ہو تو ہو۔۔۔۔۔ مجھے ان سے محبت ہے۔‘‘
’’ مجھے بھی اس کی موت کا بہت دکھ ہے۔ میں اس کے وجود کے علاوہ دوسری ہر چیز سے بے پرواہ ہوں، اس کے بعد میری اپنی ذات بے معنیٰ ہے۔ یقیناًمیں اپنی بیوی سے بے حد پیار کرتا ہوں۔‘‘
دونوں ایک دوسرے کے مقابل دو الگ الگ قبروں پر بیٹھ گئے۔عورت نے پہلے قبر کو بوسہ دیا اور پھرتازہ سفید پھولوں کا گلدستہ قبر پر رکھا۔۔۔ دوسری قبر پر آدمی کی ہچکیاں جو لمحہ بہ لمحہ تیز تر ہوتی جارہی تھیں ، قبرستان کی گھری خاموشیوں میں گہرائی تک اترتی چلی جارہی تھیں، گرم اور نمکین آنسوؤں کے قطرے قبر کی مٹی میں جذب ہورہے تھے۔وہ بہت غم زدہ دکھائی دے رہا تھا ، اس کے ہونٹوں پر دعائیہ کلمات جاری تھے اور اس کے ہاتھ قبر کی مٹی کو بار بارچھو رہے تھے۔
عورت نے آدمی کی طرف دیکھا اور زیر لب مسکرائی۔ پھر اس کے قریب گئی اور اس کو سفید تازہ پھولوں کے گلدستے سے نکالا ہوا ایک پھول عنایت کیا اورکہا: ’’ شاید میں انہیں کھودوں ! لیکن حقیقت یہ ہے کہ مرے ہوئے لوگوں سے زیادہ محبت نہیں کی جاسکتی۔ لو یہ لو۔۔۔ اس کو سنبھال کر رکھو۔اس نے شادی شدہ زندگی کے طویل عرصے میں مجھے کبھی کچھ اہمیت نہیں دی۔۔ آدمی نے اس کے ہاتھ سے پھول لیا ، اپنی بیوی کی قبر پر رکھا اور دونوں ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے دور جاتی ہوئی ایک ہی سڑک پر چل دئیے۔