افسانہ
سل فش
عروج فاطمہ
آفرین تم سل فش ہو ۔۔۔۔ آفرین اک لمبا سانس لیتے ہوئے خاموش ہوگئی اور مونیب
اپنی باتوں میں مگن رہا میرے ماں باپ نے بچپن سے میرے لیے بہت کچھ کیا ہے ُان
کی مجھ سے بہت ُامیدیں وابستہ ہیں آج جب وہ پڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں تو کیا
میں ُان کی ُامیدیں توڑ کر تم سے کیسے شادی کر لو ۔ جبکہ وہ تمہیں پسند نہیں
کرتے جب تم میرے گھر میں چلتی پھرتی ُانہیں نظر آؤ گئی تو ُانہیں بہت ُدکھ ہو
گا ۔ میں ُانہیں ُدکھ نہیں دے سکتا ۔ انہوں نے اب تک جو کچھ میرے لیے کیا ہے
آج ُاس سب کا احسان لوٹانے کا وقت ہے ۔ تم نے تو میرے لیے کچھ نہیں کیا ؟ تو
پھر میں تمہارے لیے تم سے کیسے شادی کر لوں ۔ آفرین تم بہت اچھی لڑکی ہو تم
اپنا گھر بسا لو ۔ مجھے بھول جاؤ ۔ضروری تو نہیں کہ جو ہم سوچیں قسمت ہمیں وہی
دے ۔ آفرین فون پر خاموشی توڑتے ہوئے بولی مونیب آپ کو جو بھی کرنا ہے آپ کرو
۔۔۔ مجھے آپ سے کوئی مطلب نہیں میں آپ کو اب کبھی دوبارہ فون نہیں کروں گئی
اگر آپ کو کوئی کام ہو تو مجھے مسیج کر دینا ۔ مگر مونیب اپنے ذہین سے یہ بات
نکال دے کہ میں کہیں اور شادی کروں گی اور اپنا گھر بسا لو گی ۔ میری زندگی آپ
سے آپ تک ہی محدود ہے ۔ اتنا کہنا ہی تھا کہ آفرین کی بولنے کی سکت آخر ختم
ہوگی وہ آنسوؤں کے سمندر میں ڈوب چکی تھی اور شاید مونیب بھی سمجھ چکا تھا کہ
وہ کیوں نہیں بول رہی ۔ ۔ ۔ ۔ سل فش کا لفظ آفرین کی روح تک کو گھائل کر چکا
تھا اور وہ اس ُپرانے زمانے میں جا چکی تھی اور یاد کر رہی تھی کہ ُاس نے کتنی
قربانیاں دی ہیں مونیب کے لیے ۔ اور آج مونیب نے اک لمحے میں ُاسے سل فش بول
دیا ۔
آفرین آج سے چار سال پہلے کی سوچ میں گم تھی جب وہ مونیب سے پہلی بار ملی تھی
۔ اور کب دوستی ہوئی اور کب دوستی نے پیار کا روپ دھار لیا دنوں کو خبر نہ
ہوئی ۔ دنوں بس پیار میں بہتے چلے گے اور تین سال گزر گے اب آفرین نے مونیب کو
کہنا شروع کر دیا تھا کہ شادی کرو ۔ میرے گھر والے میری شادی کرنا چاہتے ہیں ۔
مگر مونیب کے خواب بہت زیادہ تھے شاید ُاسے ُان خوابوں کو پورا کرنے کیلئے
مزید وقت درکار تھا ۔ مگر آفرین اپنے گھر سے بھی مجبور تھی ۔ آفرین نے مونیب
کو کہا کیا ہم منگنی کر لیں ؟ اس طرح دونوں کی مشکل آسان ہو جائے گی ۔ اور
مونیب بھی آفرین کو کھونا نہیں چاہتا تھا ُاس نے بھی ہاں کر دی ۔ مونیب نے کہا
تم اپنے گھر میں بات کرو اور میرے بارے میں بتاؤ ۔ اور کہو کہ میری فمیلی رشتہ
لے کر آئی گئی تمہارے لیے ۔
آفرین جو بہت ہی خاموش طبعیت کی مالک سب سے دور ہی رہتی تھی ۔ اور آفرین کے
گھر کا ماحول اتنا ایڈونس بھی نہیں تھا ۔ آفرین نے سب سے پہلے دو نفل پڑھیں
اور رو رو کر خدا کی بار گاہ میں دعا کی کہ یا الله میں بہت بڑا قدم ُاٹھانے
جا رہی ہوں میرا ساتھ دینا آفرین مونیب سے اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتی
تھی ُاس نے بہت حوصلہ کر کے اپنے گھر میں بات کی ۔ بات کا منہ سے نکلنا تھا کہ
جو قیامت آئی وہ شاید ایک لڑکی ہی سمجھ سکتی تھی کہ ُاسے کس کس طرح کی سوالات
کا سامنا کرنا پڑا ۔
ماں آفرین سے سخت ناراض تھی ماں نے کہا کیا تمہیں ہم پر بھروسہ نہیں تھا کے
ہم تمہارا اچھی جگہ پر رشتہ کریں گے ؟ بھائی تم کسی سے پیار کرتی ہو ؟ اوہ آج
کل کے لڑکے ٹائم پاس کرتے ہیں وہ شادی وغیرہ کے چکر میں نہیں آتے ۔ تم کس کی
باتوں میں آ گئی ہو ؟ آفرین بھائی کی بات ٹوکتے ہوئے مونیب مجھ سے پیار کرتا
ہے وہ ٹائم پاس نہیں کر رہا وہ مجھ سے شادی کرئے گا ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں بھائی
وہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا یہ کا وہم ہے وہ ایسا نہیں ہے ۔ بھائی نے کہا تم
جیسی لڑکی کو تو اندھیرے کمرے میں قید کر دینا چایئں جہاں تم سورج کی اک کرن
کو بھی ترسو ۔ اور باپ نے کہا ایسی بیٹی کو تو قتل ہی کر دینا چاہیں جس کو
اپنے ماں و باپ کی عزت کا پاس نہ ہو ۔
آفرین ایک مجرموں کی طرح گھر والوں کی عدالت میں بس خاموشی سے سزایئں سن رہی
تھی اور دل میں اپنے رب کی تسبیح کر رہی تھی کہ میرے لیے میرا الله ہی کافی ہے
۔ ۔ ۔ یہ ایسی تسبیح تھی جو آفرین کو بہت حوصلہ اور مضبوتی بخش رہی تھی ۔ وہ
تنہا ہو کر بھی تنہا نہیں تھی ۔ خیر جب سزایئں سنانا ختم ہوا تو بھائی نے
مونیب کا نمبر طلب کیا آفرین نے نمبر دینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ مونیب کو
کھونا نہیں چاہتی تھی ۔ کیونکہ ُاس وقت کچھ بھی ہو سکتا تھا ۔ آفرین نے کہا کہ
اس کے گھر سے رشتہ آئے گا ۔ آپ لوگ پھر بات کرنا ۔ گھر والوں نے آفرین کو
بولانا چھوڑ دیا ۔ آفرین تنہا اپنے کمرے میں گھنٹوں روتی رہتی یا جانماز پر
بیٹھ کر خدا سے باتیں کرتی رہتی جب آفرین کو اس کا موبائیل واپس ملا تو ُاس نے
سب سے پہلے مونیب سے رابطہ کیا اور ُاسے خود پر گزری ہر قیامت کا بتایا ۔۔۔۔۔
اتنا بتانا تھا کہ مونیب نے کہا جو گھر والے کہتے ہیں آفرین وہ کر لو مجھے
بھول جاؤ ۔ مونیب کے منہ سے یہ بول نکلنے تھے کہ آفرین کی تو جیسے ہستی ہی مٹ
گئی ہو ۔۔۔۔ آفرین بہت روئی مگر ُاس نے اس بات کا علم اپنے گھر میں نہیں ہونے
دیا کہ اب وہ بلکل بکھر چکی ہے آفرین یہی کہتی رہی آپ لوگ اجازت دے تو مونیب
کے گھر والے آئے ۔ مگر دل میں کہیں نا کہیں یہ خلش تھی کہ جس کی خاطر ُاس نے
یہ سب کیا ُاس نے بھی تنہا چھوڑ دیا ۔ آفرین تو بس جیسے خدا کی ہی ہو گئی تھی
اسے دنیا سے کوئی مطلب ہی نہیں رہا ۔
وقت گزرتا رہا اور آہستہ آہستہ گھر والوں کے روایوں میں کچھ بہتری آتی گی ۔۔
اور ادھر آفرین کی دعایئں بھی رنگ لے آئی ایک دن اچانک سے مونیب کا میسج آیا ۔
پہلے دونوں میں لڑائی ہوئی پھر آہستہ آہستہ شکوئے اور شکایات کہاں گم ہو گئے
کہ آفرین کو کچھ یاد ہی نہ رہا ۔ کہ مونیب نے ُاسے کس وقت تنہا کیا تھا ۔
آفرین مونیب کو پھر کھونا نہیں چاہتی تھی شاید اس لیے وہ اچھے دوستوں کی طرح
رہنے لگے آفرین مونیب سے کسی بھی بات کا ذکر نہیں کرتی تھی ۔ اور دیکھتے
دیکھتے پھر ایک سال گزر گیا ۔ آج آفرین جو مونیب کی آس میں اپنے گھر والوں کے
لائے کافی رشتے ٹھکرا چکی تھی ۔ وہ دل سے مونیب کو بس اپنا مان چکی تھی اور آج
پھر جب کافی عرصے بعد آفرین نے مونیب کو شادی کا کہا تو مونیب نے کہا تم سل فش
ہو ۔
بتاؤں آفرین تم نے میرے لیے کیا.... کیا ہے جو میں تمہارے لیے اپنے ماں باپ
کی مرضی کے خلاف تم سے شادی کر لوں آفرین مونیب کو یہ سب باتیں یاد کرانا
چاہتی تھی مگر نہیں آفرین نے کہا ٹھیک ہے مونیب آپ کو جو کرنا ہے آپ کرو مگر
یاد رکھنا میرے لیے خدا کا معجزہ ضرور ہو گا ۔ ہم ملے گے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔
آفرین کا دل ُاسے مجبور کر رہا تھا کہ وہ مونیب کو روک لے مگر پھر ُاس کا خدا
پر یقین کہتا تھا کہ کیا تم مونیب کی منیت کرو گی جبکہ وہ فیصلہ کر چکا ہے
جانے کا ۔ اور جانے والے کب رکتے ہیں ؟ شاید آفرین کو اپنا خاموش رہنا ہی
بہتر لگا اور اپنا ہر معاملہ خدا کے سپر کر دیا . کیونکہ آفرین اگر کہتی بھی
تو کیا کہتی کہ ُاس نے مونیب کے لیے کیا کیا ہے ؟ شاید آفرین کے لیے مونیب کی
خوشیاں آج بھی بہت معنی رکھتی تهی اپنی خوشیوں سے بھی زیادہ ۔ لیکن مونیب آج
بھی آفرین کو سل فش سمجھتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ُاسے صرف اپنے ُسکون کے لیے مونیب
سے شادی کرنی ہے .پهر آفرین بہت روئی اور مونیب جو اس کا رونا سن نہیں سکتا
تھا ُاس نے کال بند کر دی ۔ آفرین آج پھر اپنے خدا پر ُامید لگا کر خاموشی سے
بیٹھ گئی ہے ۔
اور دیکھو تو خدا کی قدرت ابھی ایک ماہ نہیں گزرا تھا کہ مونیب اپنی فیملی کے
ساتھ آفرین کے گھر آگیا اور خوش اسلوبی سے دونوں کا رشتہ طے پایا ۔ اور چند ہی
دنوں ہی دنوں کی شادی ہو گی ۔ اور آج آفرین اپنے گھر میں بہت خوشی سے زندگی
گزار رہی ہے ۔ اور کیوں نہ گزارتی اس نے تو خدا پر چھوڑا تھا ۔ تو خدا کیسے
کسی کو اپنے گھر سے مایوس کر سکتا تھا ۔ خدا تو خدا ہے اور وہ بڑا ہی کریم و
رحیم ہے آفرین کو معجزے کا انتظار تھا اور آفرین کے لیے ُاس کے خدا نے آخر
معجزہ کر ہی دیا ....
ختم ُشد
Email address : عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.