افسانہ
جمیلہ کا وجود
پیغام آفاقی
جمیلہ نے کب خواب دیکھا تھا کہ اس کی آوازریڈیو اور ٹی۔وی۔ پر نہ صرف اپنا سکہ جمالے گی بلکہ کروڑوں سامعین اور زندہ خبروں کے درمیان کھڑی اپنے لہجے کا بامعنی استعمال کرکے جدید ترین دنیا کے سب سے طاقتور ذریعہ تر سیل کو اپنی شخصیت کا اس طرح حصہ بنا لے گی کہ اس کی آواز کے بغیر نیوز پھیکی دکھنے لگے گی۔ بہار کے اس دور دراز گاؤں میں پیدا ہونے والی اس آواز اور پروقار چہرے کی صلاحیت کو تو در اصل اس نوجوان نے ہی پہچانا تھا۔
وہ نوجوان خود بھی کم نہ تھا۔کامرس کی کون سی کتاب تھی جو اس کے أے مشکل تھی۔ کتابوں کو تو اس نے کبھی کوئی مسئلہ ہی نہ سمجھا۔اور آسمانوں پر کمند ڈالنے کا خواب اس کی گھٹی میں تھا۔ میڈیا پر اس کی نظر تھی۔جمیلہ کو دیکھتے ہی اس کو خیال آیا تھا کی اپنی اور جمیلہ کی جوڑی کو وہ ایک بہت بڑی طاقت میں تبدیل کرسکتا ہے ۔بینک میں ایک بڑی ملازمت ملتے ہی اس نے جمیلہ سے شادی کرلی ۔
جمیلہ سے شادی طے ہوتے ہی اس نے پلان کرنا شروع کردیا تھاکہ وہ کیا کیا کرے گا۔ جمیلہ ذہین تھی، خوبصورت تھی۔اور سب سے بڑھ کر خود اعتمادی سے بھر پور تھی۔اس نے جب جمیلہ کو بی۔اے۔ اور ایم۔اے۔ کا امتحان دینے کے لئے کہا تو جمیلہ کے اندر انکور پھوٹنے لگے۔ایک ایسا شوہر ملنا اس کے أے قسمت کی بات تھی جو شوہر اس کے ماحول کی قدامت پرستی سے اس کو ہاتھ پکڑ کر باہر لے جانے کے لئے تیار تھا۔ جمیلہ نے اپنے گھر کے اندر سے ہی کتابوں کے زور پر بی۔اے۔ کا امتحان دیا۔نتیجہ چونکانے والا تھا ۔ وہ کالج میں اول آئی تھی۔
شہاب کو اندازہ ہوگیا کہ اس نے جو سوچا تھا وہ سچ تھا۔ایم۔اے۔ کے امتحان میں بھی جمیلہ اول آئی۔ یہ شہاب کے لئے کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔اس کو تو اب یہ فکر لگی تھی کہ پٹنہ سے دلی کب پہنچے ۔وہ اپنے پٹنہ سے دلی کے تبادلے کی کوشش میں لگ گیا۔اور اس دوران اس نے گھر میں ناولوں اور کہانیوں کی ڈھیر لگادی۔
ایک دن وہ جمیلہ کو ریڈیو اسٹیشن لے گیا۔ وہاں وہ پروڈیوسر سے بات کر کے آیا تھا۔وہاں جمیلہ کا آڈیشن ہوا۔ریڈیو پر جمیلہ کی خوبصورت آواز نے فورا ہی اپنی جگہ بنالی۔وہاں کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر نے شہاب کو مبارکباد دی اور اس بات کا اعتراف کیا کہ جمیلہ کی آواز نے وہاں کے ریڈیو اسٹیشن کے ماحول میں ایک نیا رنگ گھول دیا ہے۔لیکن جس وقت وہ شہاب کو مبارکباد دے رہے تھے ، شہاب کے کانوں میں جمیلہ کی آواز دور درشن ٹی۔وی۔ سے ابھرتی سنائی دے رہی تھی ۔اور پھر اس آواز کے ساتھ ہی جمیلہ کا چہرہ اسکرین پر ابھرااور ملک کی کروڑوں نظریں خبروں کے سلوٹ کے دوران جمیلہ پر مرکوز ہوگئیں اور جمیلہ کے ساتھ دور درشن کو وہ چہرہ مل گیا جس کی اس میں کمی تھی۔
دہلی کا تبادلہ ہوتے ہی شہاب اس کو لے کر منڈیہ ہاؤس پہنچا۔ جمیلہ کے ساتھ پٹنہ ریڈیو پر نیوز پڑھنے کے سرٹیفیکٹ تھے جو صرف اس کی فائل میں نہیں تھے بلکہ اس کے چہرے پر بھی دکھ رہے تھے۔دہلی میں دریا کی طغیانی سمندر میں اتر چکی تھی۔جمیلہ کو اندازہ ہونے لگا کہ یہاں کامیابی کے لئے صرف آواز اور چہرہ کافی نہیں تھے۔لیکن اسے اپنی شخصیت کی طاقت کا بھی اندازہ تھا۔اس نے ٹھان لیا کہ وہ کسی اور چیز کا سہارا نہیں لے گی۔
شہاب کو جو کامرس کا طالب علم رہ چکا تھااور بنک میں ملازمت کرتا تھایہ محسوس کرتے دیر نہیں لگی کہ عارضی طور پر نیوز پڑھنے کا کام ایک مزدوری جیسا تھا۔اور جمیلہ جہاں پہنچی تھی وہاں مزید کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔اصل پیسہ تو سیریل اور دوسرے پروگرام بنانے میں تھا۔اس پیسے کے سامنے تو بنک سے ملنے والی تنخواہ بھی کچھ نہیں تھی۔اب اس کو اپنی نوکری اور جمیلہ کی نیوز ریڈنگ دونوں میں کمی دکھنے لگی۔وہ دور درشن پر سیریل پاس کروانے کے خواب دیکھنے لگا لیکن تجربے کی کمی کی وجہ سے اسے سیریل پاس کروانے میں کامیابی نہیں ملی۔اس نے دوسروں کے سیریلوں میں جمیلہ کے لئے اینکر کا کام ڈھونڈ لیا۔
دہلی کی سیڑھیاں ذرا اونچی اونچی، دشوار اور پیچیدہ تھیں ۔لیکن چڑھنے والے چڑھ رہے تھے۔شہاب نے جمیلہ کا داخلہ جے۔این۔یو۔ میں ایم فل میں کروایا۔اور کتابوں ا اور رسالوں کی ڈھیر لگادی۔ جمیلہ کو اپنے کیریر میں شہاب کا اس طرح ہاتھ پکڑ کر آگے لے جانا ، جگہ جگہ اہم لوگوں سے اس کا تعارف کروانا، دشوار گز ار راہوں سے آسانی سے لے کر گزر جانا، ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کی صلاحیت کے اظہار کے لئے مواقع پیدا کرنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔وہ اپنی قسمت پر نازاں تھی ۔اس کو اتنا اچھا شوہر ملا۔اس نے شہاب کے بازوؤں میں وہ سب کچھ پالیا تھا جس کی وہ تمنا کرسکتی تھی۔
شہاب نے اب بلندی کی دوسری گلیاں اور سیڑھیاں بھی دیکھ لی تھیں ۔ بلند و بالا عمارتیں، قیمتی فلیٹس،کاریں ، ہوٹلوں کے کھانے۔ یہ سب گویا اس کا انتظار کر رہے تھے۔اس کے گھر میں ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی آمد بھی ہوچکی تھی۔ایک مکمل خوبصورت فیملی بن چکی تھی۔اب صرف ادھورے خوابوں کو پورا کرنا تھا۔ جمیلہ دل و جان سے شہاب پر فدا تھی۔شہاب کی فکر پرور آنکھوں سے اسے بے حد پیار تھا۔وہ کیا کیا نہیں سوچتا تھا۔کہاں کہاں نہیں جاتا۔روز ایک نئے ارادے سے گھر سے نکلتا۔اور شام تک کچھ نہ کچھ لے کر لوٹتا۔
ادھر جمیلہ نے بھی گھر کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں اور شہاب کے مالی منصوبوں میں حتی ا لامکان شرکت کرنے کی ٹھان لی تھی۔مالی ضرورتیں کئی طرف سے سر اٹھا رہی تھیں۔بچوں کے اخراجات، مکان کا کرایہ، کوئی اپنا مکان لینے کے لئے پیسوں کی ضرورت ، گھر میں کام کرنے کے لئے کمپیوٹر، ٹیبل، ساتھ آنے جانے کے لئے کار۔ جمیلہ آمدنی والے کسی بھی کام سے انکار کرنا نہیں چاہتی تھی۔ریڈیو اور ٹی۔وی۔ پر زیادہ سے زیادہ کام، سیریلوں میں اینکرنگ، اس کے لئے جگہ جگہ انٹرویو کے لئے جانا،بچوں کے لئے کھانا بنا کر جانا، اپنا کھانا ساتھ لے کر جانا۔ادھر شہاب نے بھی جمیلہ کو ہر طرح سے آگے بڑھانے کی ٹھان لی تھی۔اس کی پڑھنے میں مدد کرنا، لکھنے میں مدد کرنا۔ کبھی اسے یونیورسٹی چھوڑنا یا اسے لانا۔کبھی ریڈیو اسٹیشن چھوڑنا یا اسے وہاں سے لانا۔
شہاب نے جمیلہ کے نام سے دور درشن میں ایک دوسراپروجکٹ بھی ڈال رکھا تھا۔مل ملا کر سیریل پاس ہوگیا۔پانچ دس لاکھ کا فایدہ کہیں نہیں گیا تھا۔ جمیلہ اینکرنگ کرلے گی۔وہ کسی ٹیکنیشین کو لے کر شوٹ کر لے گا۔پندرہ بیس دنوں کا کام تھا۔باقی ایڈیٹنگ تو وہ خود دن رات محنت کر کرا کے کر لے گا۔لیکن جب یہ سیریل بننے لگا تو جمیلہ کو اس میں مزہ نہیں آیا۔وہ مشہور لوگوں سے خوبصورتی کے ساتھ بات تو کرلیتی تھی لیکن اس میں وہ شان کہاں تھی جو کروڑوں لوگوں کی ٹکی ہوئی نگاہوں کو اسکرین پر مخاطب کرنے اور ان کی توجہ کو اپنی شخصیت کی کشش سے باندے رکھنے میں تھی۔اس کو اپنے چہرے اور لہجے اور آواز کی طاقت کا پورا احساس تھا اور جب وہ نیوز پڑھتی تھی تو اسے اپنے بام عروج پر ہونے کا احساس ہوتا تھا۔ اس کو اپنے وجود کو دنیا کے ذریعے تسلیم کئے جانے پر ناز تھا۔ یہ سب کچھ اس کا اپنا تھا۔ اس میں کسی کا شیئر نہیں تھا۔ اس مرتبے کی وہ تن تنہا مالک تھی ۔ جو چیزیں اس کو پیدائشی طور پر ملی تھیں اس کا یہ خالص مظاہرہ تھا۔ اور یہ سب سچ تھا، ایک ایسا سچ جس میں کسی ملاوٹ کا شبہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ وہ تھی۔ صرف وہ۔ صرف جمیلہ۔ یہ سب کچھ ایک نام سے پہچانا جاتا تھا اور وہ نام تھا جمیلہ۔ اس اظہار سے جو مسرت کے چشمے اس کے اندر پھوٹے وہ اسے مزید نکھارنے لگے اور اس کے اس نئے کنفیڈنس نے اس کی شخصیت کو ایک سیلیبریٹی میں تبدیل کردیا۔ وہ جہاں جاتی، جہاں بیٹھتی لوگ اس کا احترام کرتے۔ زندگی میں حاصل کئے ہوئے اس مقام سے وہ مکمل طور پر مطمئن تھی۔ اس کے مقابلے میں ان انٹرویوز میں کیا تھا جہاں صرف کیمرے اور تیکنی شینوں کی موجود گی میں لوگوں سے سوال کرکے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہؤے مائکروفون پر ان کی آواز ریکارڈ کرتی تھی اور کیمرے پر اس کا چہرہ بھی نہیں آتا تھا۔ وہاں نیوز میں وہ دنیا کو بتاتی تھی اور دنیا سنتی تھی۔ ایسی بڑی بڑی خبریں کہ لوگ سناٹے میں آکر اس کے چہرے سے نظریں تک نہیں ہٹاتے تھے۔
نیوز کے چند منٹ جمیلہ کی زندگی کا وہ جنون بن گئے تھے کہ نیوز پر جانے کا ایک موقع بھی وہ چھوڑنا نہیں برداشت کرسکتی تھی۔ وہ اس کا ایک پر سرور نشہ بن چکا تھا۔ یہ ٹی۔وی۔ کا وہ مقبول اسکرین ہی تھا جس کی وجہ سے اسکے نام سے کروڑوں لوگ واقف تھے۔ اور وہ گمنامی کے اندھیرے میں جینے والوں کی طرح نہیں تھی۔ اور بات صرف نیوز کی نہیں تھی کہ نیوز تو اور بھی لوگ پڑھتے تھے، بات اس کی دلنشیں آواز اور دلکش چہرے کی تھی جس کا دنیا بغیر کچھ بولے معترف تھی۔
شہاب کی سوچ مختلف تھی۔وہ سوچتا تھا کہ وہاں نیوز میں جمیلہ کو ایک نیوز پڑھنے کے صرف پانچ سو روپئے ملتے تھے۔ اور یہاں اتنی دیر میں جمیلہ تیس ہزار کا کام کرتی تھی۔اونچی اونچی عمارتوں کے درمیان کوئی فلیٹ لینے کے لئے پانچ سو روپئے سے کیا ہونے والا تھا۔صرف پانچ سو روپئے ۔ اور چھوڑنے کون جاتا ہے ؟ بینک کا ایک سینیئر منیجر۔ٹھیک ٹھاک پیسہ آتو گیا تھا۔ اب کیا ضروت تھی وہاں کام کرنے کی پانچ سو روپئے کے لئے ۔
حسین و جمیل جمیلہ اپنی بہت ساری خانگی معاملات میں الجھ ضرور گئی تھی لیکن یہ سب اسے بہت آسان لگ رہا تھا۔کیونکہ وہ جو سب سے بڑا خواب دیکھ سکتی تھی، اور جو خواب دوسروں کے لئے ایک ناقابل حصول خواب ہو سکتا تھا ، وہ پورا ہوچکا تھا، کروڑوں انسانوں کی نظروں میں ماہ کامل کی طرح دکھائی دینے کا۔ وہ کسی ایسی لڑکی سے زیادہ الگ نہیں تھی جو کسی سپرہٹ فلم کی ہیروئن بن گئی ہو۔ یہ اطمیان اس سے مشکل سے مشکل خانگی مشغولیات کو برداشت کروانے کے لئے کافی تھا۔
سیریل بننے کے بعد جب پیسہ آیا تو شہاب نے ایک بار پھر اپنے گھریلو معاملات سے لیکر نوکری اور جمیلہ کی مصروفیات پراز سرنو غور کیا۔ جمیلہ لکچرر ہوجاتی تو بہتر تھا۔ اچھی تنخواہ، یونیورسٹی کا مکان، یہ سب کچھ بہت ٹھوس بنیاد بن سکتا تھا مزید آگے بڑھنے کے لئے ۔ اور اس بنیاد کے مضبوط ہوتے ہی وہ اپنی نوکری سے آزاد ہوکر سیریل اور فلمیں بنانے کے اپنے نجی خواب بھی پورا کر سکتا تھا۔ اسے بھی نام کا شوق تھا۔ ایک افسر کو کتنے لوگ جانتے ہیں ۔ سیریل کا ڈائرکٹر اور فلم پروڈیوسر ہونے کی بات ہی اور تھی۔ نہ جانے کتنی تمنائیں ابھی تک اس کے اندر چھپی ہوئی کروٹیں لے رہی تھیں ۔ اب منزل بس تھوڑی ہی دوری پر دکھ رہی تھی۔ جمیلہ کے لکچرر بننے کے لئے کچھ ریسرچ اور کچھ لکھنا پڑھنا ضروری تھا۔ اگر وہ چند ادبی کتابیں لکھ دیتی تو یہ اس کو لکچرر کے پوسٹ کی مستحق بنا سکتی تھیں ۔ پانچ سو روپئے کے لئے نیوز پڑھنا تضیع اوقات کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس نے سوچا۔جمیلہ نے ان دنوں میں کچھ بہت اچھے مضامین لکھے تھے جب ابھی شاہد اور رفیعہ کی پیدائش نہیں ہوئی تھی۔ بچوں کی پیدائش کے بعد پانچ چھ سال یوں ہی ضائع ہوگئے ۔لیکن اگر وہ دوبارہ پڑھنا لکھنا شروع کردیتی ہے تو ریسرچ بھی آسانی سے کرلے گی اور کچھ کتابیں بھی تیار ہوجائیں گی۔
اور اب جمیلہ کی ٹی۔وی۔ اور ریڈیو کی مشغولیت کی وجہ سے یہی کام نہیں ہوپارہا تھا۔ جمیلہ کی مقبولیت کی وجہ سے اسے زیادہ سے زیادہ کام ملنے لگا تھا۔ شروع میں ہفتے میں ایک بار موقع ملتا تھا۔ اس کے بعد تین بار ملنے لگا اور اب پانچ بار ملنے لگا تھا۔آفس کے اندر مقابلہ آرائی بھی شروع ہوگئی تھی کیونکہ اب عارضی طور پر کام کرنے والوں کو مستقل کرنے کے احکامات بھی آگئے تھے۔ اور اب اچھی نیوز پڑھنے والی لڑکیوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ جمیلہ با اخلاق اور ذمہ دار سمجھی جاتی تھی۔ دن ہو یا رات کسی بھی وقت نیوز کے سلسلے میں ڈیوٹی لگنے پر وہ آجاتی تھی۔ آفس کے ذمہ داران اس کے اوپر مکمل بھروسہ کرسکتے تھے۔جمیلہ کی مقبولیت اور آفس میں اس کی برتری میں اس کے اس امیج کا بڑا دخل تھا۔ جمیلہ کے لئے اپنے اس امیج کو برقرار رکھنا ضروری تھا اور کام سے انکار کرنے کو اس کے اندر پیدا ہوتے ہوئے غرور کی پہچان سمجھا جا سکتا تھا۔
جمیلہ جب سے یہاں دور درشن میں آئی تھی ایک شہزادی کی طرح رہی تھی۔ اس نے جو کچھ حاصل کیا تھا اپنی محنت سے کیا تھا۔ اس نے کبھی بھی اس کے لئے نیٹ ورکنگ نہیں کی تھی۔شہاب سے اسے بے حد محبت تھی اور وہ کہیں بھی شہاب کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں چاہتی تھی۔جو لوگ دور سے ہی اس کی بے حد قدر کرتے تھے اور اسے نیوز کا سپر سٹار مانتے تھے ان کی خوشامد کرنا اسے نہ زیب دے سکتا تھا نہ اس کی ضرورت تھی۔ دلی شہر میں رہتے رہتے اس کو یہاں کے اونچ نیچ کا بہت کچھ اندازہ ہوگیا تھا۔نئی نئی لڑکیوں کے بارے میں وہ طرح طرح کے قصے سن چکی تھی ۔ افسروں کی چاپلوسی کرنا، ان کے ساتھ شام میں خالی وقت میں ریستوراں وغیرہ میں گھومنے پھرنے جانا۔ اور اس کے عوض میں ایک آدھ کام لے لینا۔لیکن ان تمام داؤ پیچ کے باوجود وہ لڑکیاں جمیلہ کے سامنے ابھر نہیں پائی تھیں ۔اور جمیلہ کو ویسا کچھ بھی نہیں کرنا پڑا تھا۔ وہ سیدھے گھر سے دفتر آتی تھی اور سیدھے دفتر سے گھر جاتی تھی۔ دفتر جانے کے دوران وہ اپنا موبائل بھی شہاب کے پاس ہی چھوڑ جاتی تھی۔گھر میں جب فون کی گھنٹی بجتی تو وہ اکثر شہاب کو ہی فون اٹھانے کا اشارہ کردیتی۔
جو ایک بات اس کو پریشان کر نے لگے تھی وہ اس کی مسلسل بڑھتی ہوئی ذمہ داریاں تھیں ۔ جمیلہ کو اس بات کا مکمل احساس ہو چکا تھا کہ اس کی ذمہ داریاں اس کی گرفت سے باہر ہوچکی تھیں ۔ لیکن وہ ہار ماننے کے لئے تیار نہیں تھی۔ ہار ماننا تو اس نے نہ کبھی قبول کیا تھا اور نہ وہ ہار کو تسلیم کرنا چاہتی تھی۔وہ اپنی ذمہ داریوں سے اپنی بھرپور قوت کے ساتھ نبرد آزما تھی کہ اسی دوران شہاب کا تبادلہ شملہ ہوگیا۔جمیلہ نے اس صورتحال کا مقابلہ ڈٹ کر کیا۔اس نے بچوں کی دیکھ ریکھ سے لے کر یونیورسٹی اور ٹی۔وی۔ اسٹیشن تک ہر چیز کو مانو دھاگے میں پروکر ایک مالا بنا لیا اور اسے اپنے گلے میں ڈال لیا۔
جاڑے اور گرمی کے موسموں کی طغیانی سے لے کر جاگنے اور سونے کے اوقات تک تمام چیزوں کو اس نے اپنے دام ہمت میں جکڑ لیا اور جسم و روح کی تمام تر قوتوں کو جمع کر وہ اپنے انگ انگ کو ایندھن کی طرح جلانے لگی۔وہ ایک ایسی کامیاب ماڈرن عورت کا نمونہ پیش کرنا چاہتی تھی جو اپنی زندگی کو انتہائی خوب صورتی سے چلاتے ہوئے جدید زندگی میں اپنے کو ڈھال سکتی تھی۔اس کی روح کی یہ چمک اس کے دو معصوم بچوں کے دلوں تک میں اتر گئی تھی جو اس کے پیار اور ایثار سے اس قدر متاثر تھے کہ انہیں وقت بے وقت ماں کا چھوڑ کر چلے جانا بالکل ہی تکلیف دہ نہیں محسوس ہوتا۔ وہ خوشی خوشی ماں کا انتظار کرتے اور اس کی غیر موجودگی میں بھی اس کے سائے کو محسوس کرتے تھے۔
اگر اس ماحول میں بچوں کو کوئی اجنبی چہرہ دکھتا تھا تو وہ شہاب کا چہرہ تھا جو حد درجہ غیر جذباتی تھا۔ہمیشہ کوئی اونچی بات سوچتا رہتا، بڑی بڑی باتیں کرنا، جمیلہ کو مختلف طرح کے سجھاؤ دینا، کبھی کاغذوں پر کچھ لکھتا، کبھی کمپیوٹر پر بیٹھ جاتا، جمیلہ کو جو بھی وقت بچوں کے لئے ملتا اس کا بیشتر حصہ شہاب ضائع کر دیتا۔جب بھی شہاب چھٹی لے کر گھر آجاتا بچوں کو ایسا لگنے لگتا جیسے ماں ان سے چھن گئی ہو۔ وہ ماں جو تنہائی میں ہر لمحہ بچوں پر ہی دھیان لگائے ہوئے گھر کا ہر کام کرتی رہتی، اس کا ذہن شہاب کی بتائی ہوئی اسکیموں میں الجھ جاتا، وہ کبھی کوئی اسکرپٹ لکھنے بیٹھ جاتی، کبھی شہاب کی دی ہوئی کوئی کتاب جلدی جلدی پڑھنے لگتی، ان دنوں وہ عموما بچوں کی تفریح کے سارے پروگرام کینسل کردیتی تھی۔
گھر کے اندر کی اس کمی کو شہاب بھی محسوس کرنے لگا تھا۔اس نے اس کا پوری توجہ سے بھرپور تجزیہ کیا۔اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر جمیلہ نیوز کے لئے جانا بند کردے تو گھر کے معمولات نارمل پر آجائیں گے۔نیوز کے پیسوں کی اب کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔اور سب سے زیادہ وقت اسی میں صرف ہورہا تھا۔نیوز کے اوقات غیر متعین ہونے کی وجہ سے گھر کے تمام معمولات بگڑ گئے تھے۔جمیلہ بہت مشکل سے سب کچھ سنبھالے ہوئی تھی ۔ْ ْشاید اس لئے، شہاب نے سوچا ، کہ اس راستے پر اسے شہاب نے ہی لگایا ہوا تھا۔اور ابھی تک اس نے خود کبھی جمیلہ کو منع نہیں کیا تھا۔ وہ تو برسوں سے، جب سے ان کی شادی ہوئی تھی، اس کے بنائے ہوئے اسکیموں پر ، اسی کی رہنمائی میں ہر کام کرتی آئی تھی۔یہ تو اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ فیصلہ کرے کہ جمیلہ کو کیا کرنا ہے ۔ اسے ریڈیو پر نیوز پڑھنے کے لئے اسی نے کہا۔ اس کو ٹی۔وی۔ نیوز کے لئے وہی لے گیا تھا۔ اس نے جمیلہ کو بی۔اے۔، ایم۔اے۔، اور ایم۔فل ۔ کرنے کے لئے کہا۔ جمیلہ نے ہر قدم پر اس کی بات
مانی اور اسی سے جمیلہ وہ سب کچھ کرپائی اور وہ سب کچھ حاصل کر پائی جو اس نے پلان کیا تھا۔ جمیلہ کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے یہ تو اسی کو سمجھ میں آتا ہے ۔ یہ فیصلہ اگر وہ جمیلہ پر چھوڑے ہوا ہے تو یہ تو اسی کی لاپرواہی ہے ۔ اور اس کے نتائج اس کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔ اس میں جمیلہ کا تو کوئی رول نہیں ۔ اب گاڑی کو اس پٹری سے نئی پٹری پر لے جانا ضروری تھا۔جمیلہ کبھی کبھی بیمار پڑنے لگی تھی۔ یہ شاید اس کے بنائے ہوئے نقوش پر اندھا دھند ، آنکھ بند کرکے پوری جفا کشی کے ساتھ عمل کرنے کا نتیجہ تھا۔کہیں نا کہیں کچھ غلط ہوگیا تھا۔
شہاب کو سوچتے سوچتے جمیلہ پر ترس آگیا۔ وہ اٹھا۔جمیلہ کچن میں چپاتیاں بنا رہی تھی۔وہ وہیں پہنچ گیا۔ جمیلہ کو آدھے گھنٹے کے لئے ریڈیو اسٹیشن جانا تھا۔ اس لئے وہ بجلی کی طرح کیچن کا کام ختم کرنے میں لگی ہوئی تھی۔اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی نوکرانی اس کی ہدایت پر جلدی جلدی برتن صاف کر رہی تھی۔
شہاب نے جمیلہ کے قریب پہنچ کر اس سے کہا۔
میں سوچ رہا ہوں، تم یہ نیوز والا کام بند کردو۔
کیوں ۔ جمیلہ چپاتیاں سینکتی ہوئی بولی۔
تمہاری مشغولیت بہت بڑھ گئی ہے۔مجھے لگتا ہے تم اتنا سب کچھ نہیں کر پاؤگی۔
ارے نہیں ۔ جمیلہ اس طرح مسکراکر بولی جیسے اس کا خوبصورت چہرہ شہاب کے اظہار شفقت سے پھول کی طرح کھل گیا ہو۔
تم کتنا کام کرلوگی۔
میں سب کرلوں گی۔ آپ فکر نہ کریں ۔
صبح کی نیوز پڑھنے کا شیڈول آگیا تو جمیلہ کو پانچ بجے صبح جانا پڑا۔ اس نے بچوں کو چار بجے صبح اٹھا کر تیار کردیا۔ کتابیں دیں ۔ ناشتہ رکھ دیا۔ کپڑے پریس کئے۔ہاتھ منھ دھلایا۔ یہ سب کچھ وہ اتنے پیار سے مسکراتے ہوئے ، اپنی میٹھی آواز کا جادو جگاتے ہوئے کرتی کہ بچے نیند کی راحت کو بھول جاتے۔جمیلہ کے جانے کے بعد وہ دیر تک اس کی موجودگی کے سحر میں گرفتار رہتے۔ تب تک جبتک اسکول کی گاڑی کا ہارن نہیں سنائی دیتا اور پھر اسکول چلے جاتے۔
آخر کار ایک دن جمیلہ بری طرح بیمار ہو ہی گئی۔ جو کچھ اس نے پچھلے دو تین برسوں میں نیوز پڑھ کر کمایا ہوگا اس سے زیادہ ایک ہفتے میں دواؤں اور الٹراساؤنڈ پر خرچ ہوگیا۔ شہاب کو ایک مہینے کی چھٹی لیکر آنا پڑا۔ یہ دن شہاب کے لئے بہت آزمائش کے تھے کیونکہ ان دنوں بیوی کی تیمارداری سے لے کر بچوں کو اسکول بھیجنے تک ہر بات پر اسے ہی دھیان دینا پڑتا۔ رفتہ رفتہ جمیلہ کی صحت بحال ہوگئی۔ چھٹی سے واپس جاتے ہوئے شہاب اسے نیوز کے لئے جانے سے منع کرگیا۔
چند دنوں بعد ٹی۔ وی۔ اسٹیشن سے فون آیا۔ جمیلہ سے رہا نہیں گیا۔اس نے ہاں کردی۔اور پھر وہی معمول شروع ہوگیا۔ لیکن بیماری کے آرام کے بعد ذہنی طور پر وہ دوبارہ تازہ دم ہو گئی تھی۔ دوبارہ نیوز اسکرین کے سامنے جاتے ہی اس کے اندر جیسے تازہ قوت بھر گئی۔
شہاب کو اپنے ذرائع سے معلوم ہو کہ دوردرشن پر کمیشن اسکیم کے تحت نئے سیریل پاس ہونے والے ہیں ۔وہ فورا چھٹی لے کر گھر آگیا۔ اس بار وہ جمیلہ کو کچھ کہنے سے پہلے اپنا نیا سیریل پاس کرا لینا چاہتا تھا۔ سیریل کے لئے اسکرپٹ لکھنی تھی۔ بازار میں اسکرپٹ لکھنے والے موجود تھے۔ لیکن اس نے سوچا کہ جب یہ کام گھر میں ہی کیا جاسکتا ہے تو باہر پیسہ کیوں دیا جائے۔ اس نے جمیلہ کو موضوع بتادیا۔ جمیلہ اسکرپٹ لکھنے پر لگ گئی۔
ادھر جمیلہ اسکرپٹ لکھنے پر لگی تھی ادھر شہاب کو بار بار خیال آتا کہ اگر وہ پی۔ایچ۔ڈی۔ کرلیتی تو بہت جلد لکچرر شپ کے لئے دروازے وا ہوسکتے تھے۔
شہاب نے دیکھا، جمیلہ کہیں جانے کے لئے تیار ہورہی تھی۔
کہاں جارہی ہو۔
دور درشن۔
مجھے بتایا نہیں کہ جانے والی ہو۔تمہیں بتانا چاہئے تھا۔ تمہیں کب کہاں جانا ہے یہ تو فیصلہ مجھے کرنا ہوتا ہے ۔ یہ میری سردردی ہے۔
میں نے سوچا آپ منع کریں گے۔
میں نے تو تمہیں پہلے ہی منع کیا تھا۔کب سے جارہی ہو ؟
دو مہینوں سے۔
تم نے فون پر بھی کبھی نہیں بتایا۔
بتانے کی کیا بات تھی ۔ سوچا کوشش کرکے خود ہی دیکھ لوں کہ ہوپاتا ہے کہ نہیں ۔ کرنا تو مجھے ہی ہے نا۔ میں نے دیکھا کہ کر سکتی ہوں اس لئے کر رہی ہوں ۔
بتانے کی بات تھی ۔ تم بتاتی تو میں تم کو بتاتا کہ میرا منع کرنا تمہاری بیماری کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ میں نے پکا فیصلہ کرلیا ہے کہ تم اب نیوز پڑھنے نہیں جاؤگی۔ تم نے ذکر کیا ہوتا تو میں تم کو بتا دیتا۔ سیریل میں بہت پیسہ مل جاتا ہے ۔ دو مہینے کی کمائی میں پانچ سال کے لئے سکون ہوجائے گا۔ تم یہ اسکرپٹ مکمل کرو۔
میں آکر کرلوں گی۔
میں اسے جلدی سے تیار کر کے جمع کرنا چاہتا ہوں ۔
میں بات کرکے آجاؤں گی۔ دو چار دن کے لئے منع کردوں گی۔
ریڈیو اسٹیشن پر جمیلہ نے بات کی لیکن شیڈول بدلا نہیں جاسکا۔ صبح کی شفٹ کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔ شہاب کو یہ خبر بہت ناگوار گذری۔
تم انہیں آج سے ہی منع کردو۔ کہ دو کہ بیمار ہو گئی ہو۔
ایسا کرنا مناسب نہیں ہے ۔ وہ سمجھ جائیں گے کہ بہانہ کر رہی ہوں ۔
سمجھنے دو۔ کیا کرنا ہے ۔ تمہیں یہ کرنا ہی نہیں ہے ۔
کرنا کیوں نہیں ہے ۔اتنا پیسہ کما تو لیا۔ اب پیسے کے لئے نیوز کے کام کو چھوڑنا کیا ضروری ہے ۔ جیسے اب تک سب کچھ آگے بڑھا ہے ہم لوگ اور بھی آگے بڑھیں گے۔ کچھ کام پیسے دے کر بھی تو کرائے جاسکتے ہیں ۔ میرا نیوز کا کام چھوڑنا ضروری نہیں لگتا۔
تم کو نہیں لگتا ہوگا لیکن مجھے لگتا ہے ۔ تمہارے بارے میں ساری پلاننگ میں کرتا ہوں ۔
جمیلہ کے ذہن میں یہ جملہ کانٹے کی طرح چبھ گیا۔ لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تمہیں جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم اسکرپٹ لکھو۔ ریسرچ پورا کرو۔
میں وہ بھی کر لوں گی ۔آپ جانتے ہیں میں کتنا کام کرلیتی ہوں ۔ آپ کو میری محنت کرنے کی صلاحیت کا اندازہ نہیں ۔
مجھے پورا اندازہ ہے اور میں اسی اندازے کی روشنی میں سارے فیصلے کرتا ہوں ۔اب تم یہ کام نہیں کرو گی۔
ایسا کیوں ؟ میں بھی تو سمجھوں ۔
اب تم نے سوال کرنا شروع کردیا۔
اچانک شہاب کے تیور بدل گئے۔
اب تمہارا سمجھنا بھی ضروری ہوگیا۔
اس میں کیا حرج ہے ۔
تمہیں میرے فیصلے پر بھروسہ نہیں ۔ تم سمجھتی ہو کہ میں غلط فیصلے کر سکتا ہوں ۔ اور تم اس کو درست کرسکتی ہو۔ دیکھتی نہیں یہ بہت سارے کام اٹھانے سے تمہاری اور تمہارے اس گھر کی کیا حالت ہورہی ہے ۔
لیکن میں نیوز پڑھنے جانا چاہتی ہوں ۔ اسکرپٹ کسی اور رائٹر سے بھی تو لکھوا لیا جاسکتا ہے ۔
کیا ملتا ہے وہاں کبھی جوڑا ہے ۔
صرف پیسے نہیں دیکھنا چاہئے۔
مجھے اس سے اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔اس سے میری ایک پہچان بنی ہوئی ہے ۔ اس کام کو چھوڑنے کا مطلب میری پہچان کی موت۔ اور دنیا یہ سمجھے گی کہ وہاں مجھ سے بہتر لوگ آگئے ہیں اور میں ہٹا دی گئی۔
تمہاری پہچان ۔ تمہاری اس پہچان کی قیمت ہے پانچ سو رپئے ۔
یہ اس لئے کہ وہاں لوگ پہچان کے لئے ہی کام کرتے ہیں ۔ کئی پیسے والے گھروں کی لڑکیاں صرف اسی وجہ سے یہ کام کرتی ہیں ۔ اور شاید اسی لئے دور درشن کو اس کام کے لئے زیادہ پیسے نہیں دینے پڑتے۔
تو تمہیں اپنی آواز سنانے اور چہرہ دکھانے کا بڑا شوق ہے پوری دنیا کو اور ان دیکھنے والوں کے لئے میری بات کاٹی جارہی ہے ۔
جی نہیں، میں آپ کی بات کاٹ نہیں رہی ہوں ۔ میں سمجھا رہی ہوں ۔ آخر میں بھی سماج کا ایک حصہ ہوں ۔ اور اپنی ایک پہچان بنا رکھی ہے ۔ اس طرح تو میرے وجود کا قتل ہو جائے گا۔
یہ جو تمہارا وجود ہے نا اسے میں نے پیدا کیا ہے۔ اور جو پیدا کرتا ہے اسے مارنے کا بھی اختیار ہوتا ہے کیونکہ وہی بہتر جانتا ہے کہ کب کیا ہونا بہتر ہے ۔ مجھے معلوم ہے اس وجود میں کیا دھرا ہے ۔
اس وجود میں میری روح کی حرارت ہے بلکہ میں جو اتنا کام کرلیتی ہوں یہ انرجی یہیں سے آتی ہے ۔
اس کے شعلے کچھ زیادہ ہی تیز ہورہے ہیں ۔ میں ابھی بجھادیتا ہوں اس آگ کو۔مجھے پتہ ہے کہ میں جس گاڑی کو چلا رہا ہوں اس میں کیسے بریک لگانا ہے۔
جمیلہ خاموش ہوگئی۔
تم نہیں جاؤ گی۔
مجھے مت روکئے ۔ آپ سمجھئے۔
شہاب خاموشی سے جمیلہ کو گھورتا رہا۔
جمیلہ نے اپنا پرس اٹھایا۔ اپنا چہرہ ایک بار آئینہ میں دیکھا۔ شہاب کی طرف دیکھنے کی اس کی ہمت نہیں پڑی۔ وہ پرس لیکر چلتی ہوئی بچوں کے پاس گئی اور انہیں پیار کرکے دروازے تک گئی اور دروازہ کھولنے کے لئے کنڈی پر ہاتھ رکھا کہ شہاب کی آواز گونجی۔
اگر دراوازے سے قدم باہر نکلا تو سمجھو وہیں طلاق۔
جمیلہ وہیں کھڑے کھڑے سرد ہوگئی جیسے اس کی روح کھینچ لی گئی۔ وہ کھڑی نہ رہ پائی تووہیں نیچے فرش پر بیٹھ کر برف ہوگئی۔ اب اس کا چہرہ نہ دروازے کی طرف تھا نہ اندر کی طرف۔ اس کی بے جان آنکھیں بغل کی دیوار پر ٹک گئی تھیں ۔ اس کو گرتے دیکھ کر اس کے بچے دوڑ کر آئے اور اس پر جھک گئے اور اور پھر انہوں نے گھوم کر شہاب کو انتہائی نفرت بھری نظروں سے دیکھا جیسے وہاں جمیلہ کی لاش پڑی ہو اور وہ اپنی ماں کے قاتل کو دیکھ رہے ہوں ۔
ختم شد