الإثنين, 16 كانون1/ديسمبر 2013 13:39

فن پارہ : غزل اسلام نورؔ

Rate this item
(0 votes)
 
 فن پارہ
 غزل اسلام نورؔ

                ''ہیلو۔ہمم،اچھا؟۔کیا پیشنٹ پوزیشن میں آ چکی ہے؟۔اوکے ۔آتی ہوں۔۔'' 
               ''اُف حد ہے ان بچوں کو اتنی سردی میں بھی چین نہیں ہے۔ ارے انہیں اس ٹھنڈک میں رات کو باہر آکر آنکھ مچولی کھینیے ہے کیا؟ ''۔میں نے موبائل اپنے ایک طرف بستر پر پھینکا اور لحاف میں لپٹی ہوئی خفگی سے بڑبڑانے لگی۔اور اٹھنے کے بجائے خود میں سمٹتی ہوئی لحاف کو مضبوطی سے اپنے پورے وجود پر یوں جکڑ لیا جیسے کہ اگر گرفت ذرا سی بھی ڈھیلی ہوئی تو کوئی کھینچ کر مجھے ہاسپٹل نا پہنچا دے۔مگر میری آنکھوں کے کاسے میں نیند ٹھہرنے کے بجائے رہ رہ کر باہر چھلکنے لگی تھی۔کئی دفعہ کروٹوں کا تبادلہ کرکے نیند کو پھر سے سمیٹنے کی کاوش کی مگر ناکام رہی سو لامحالہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔بالاآخر لحاف کو روہانسی آنکھوں سے الوداع کہا۔جلد از جلد فجر کی نماز ادا کی ۔ایک نظر کھڑکیوں سے دبیز پردے ہٹا کر باہر کے موسم کا جائزہ لیا۔پو پھٹ چکی تھی۔نئی صبح کے ساتھ زندگی چائے کی چسکیاں لے رہی تھی۔فضاء کثیف دھند کا کمبل لپیٹے سورج کی نرم خفیف شعاعوں میں ہاتھ سینک رہی تھی۔میں نا ں جانے کتنے لمحے یونہی محو رہتی کہ میرے موبائل نے اپنا مخصوص ساز چھیڑ دیا۔۔ٹڑن ٹڑن ٹڑن۔۔ہسپتال کے اسٹاف کی دوبارہ کال تھی۔۔''میڈم گاڑی آپکے گھر کے سامنے لگی ہوئی ہے''۔۔اوہ ہ گاڑی اتنی جلدی آ بھی گئی۔۔میں نے خود کو متحرک کیا اورجلد از جلد خود کو حجاب میں ملبوس کرکے اوور کوٹ پہنا اور دروازے کی جانب رُخ کر گئی۔
                                                                                           ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
                       دس منٹ بعد میں ہسپتال میں موجود تھی۔ہسپتال کے بجائے اسے میٹرنیٹی ہوم کہنا زیادہ مناسب ہوگا گو کہ یہاں دیگر شعبے میں بھی علالج معالجہ کا انتظام تھا مگر امراضِ نسواں اور تولیدگی کے عمل میں یہ مخصوص طور پر متحرک تھا۔ڈاکٹر روم زیریں منزل پر ہی تھاسو میں تیز رفتاری سے راہ داری سے گزرتی ہوئی اپنے چیمبر تک پہنچی۔گہرے سبز رنگ کا دبیز پردہ دروازے پر جھول رہا تھا۔میں اندر داخل ہوئی اور ٹیبل پر اپنا پرس بےنیازی سے رکھتے ہوئے لیبر روم کی جانب بھاگی ۔میں نے جلد اپنی سینڈل تبدیل کرکے چپل پہنی ۔ہاتھوں کو کہنی کے حصے تک جراثیم سے پاک کیا ۔پھر نرس تیزی سے میری جانب لپکی اور مجھے ایپرن پہنانے لگی۔۔زچگی کے باعث اس حاملہ عورت ریحانہ کے کراہنے اور چیخنے کی آواز مجھ تک مسلسل پہنچ رہی تھی جو کہ وقفے وقفے پر کبھی مدھم کبھی تیز ہو رہی تھی۔لیبر روم میں داخل ہوتے ہی میں نے گلوز پہنتے ہوئے نرس سے دریافت کیا۔۔آپنے فیٹل ہاڑٹ ساؤنڈ چیک کیا؟
                  "جی میم۔۔آدھے گھنٹے پہلے چیک کیا تھا ۔۔بالکل ٹھیک ہے۔۔'' نرس نے بچے کے دل کی دھڑکن نارمل ہونے کی تصدیق کی ۔
                  ''ہممم ۔۔بی پی اور پلس کتنا ہے پیشنٹ کا؟؟'' میری نگاہ ''رِنگر لیکٹیٹ '' ڈریپ پر پڑی جو تقریباً پچیس بوند فی منٹ کی رفتار سے مریضہ کی نسوں میں سرایت کر رہی تھی۔۔اور اب عنقریب ختم ہونے کو تھی۔
                '' ون تھڑٹی بائی نائینٹی ہے بی پی میم۔۔اور پلس ہنڈریڈ ہے'' نرس پونم نے ریحانہ کی کلائی کو اپنی مضطوط گرفت میں لیے ہوئے کہا۔۔
               ''اوکے ۔دوبارہ فیٹل ہاڑٹ ساؤنڈ چیک کیجیے۔ڈریپ چینج کرکے فائیو پرسینٹ ڈیکسٹروز لگائیے اور اس میں ون یونٹ آکسیٹوسن ملا دیجیے۔'' میرے ذہن اور جسم میں اب جیسے حرارت سی کوند رہی تھی۔''سسٹر آکسیجن ماسک لگائیے مریض کو جلدی۔'' ۔''سسٹر ٹویونٹ آکسیٹوسن اور ون یونٹ میتھارجین لوڈ کرکے ریڈی رکھیے۔۔۔''۔۔۔نرس ریتا بےبی ٹرے لیے تیار کھڑی تھی۔۔
              ہر کوئی متحرک تھا گو کہ کوئی بےمقصد بھی اور کوئی با مقصد بھی۔لیبر روم کے اندر بھی اور باہر بھی۔ہسپتال کا کارکن بھی اور مریض کے قرابت دار بھی۔اور ان سب میں ریحانہ کی بلند ہوتی ہوئی درد آمیز چیخیں لیبر روم کی دیواروں میں جیسے شگاف لگانے کی سعی کر رہی ہوں۔ عملِ تخلیق کا آخری مرحلہ شاید ہر نوعیت میں ہمیشہ ایسے ہی کربناک اور مضطرب کن ہو تا ہے۔۔بالا آخر کچھ ساعتوں کی ریاضت کے بعد زندگی کی کوکھ سے زندگی کی آفرینش ہوئی۔۔ایک لمحے کو وقت بھی جیسے ساکن ہوگیا۔۔ریحانہ کی آہ و الم بھری چیخ کو ٹھہراؤ آگیا تھا ۔۔۔ٹھیک ویسا ہی سکون آمیز ٹھہراؤ جیسا ایک تخلیق کار کو اپنی تخلیق کے آخری جملے تحریر کرنے بعد ''ختم شد'' لکھ کر آتاہے۔۔لہو میں غسل کی ہوئی                   اس گلابی رنگت والی بچی کو نرس کے حوالے کرکے میں پھر سے ریحانہ کی جانب منہمک ہوگئی۔۔
              ریحانہ سے فارغ ہو کر میں اپنے چیمبر میں آؤٹ ڈور پیشنٹ میں مصروف تھی کہ۔۔تبھی میرے ہسپتال کے مختار کی کال آئی کہ ایک پیشنٹ بھیج رہا ہوں جسکا چیک اپ کرنا ہے کہ وہ پریگنینٹ ہے یا نہیں۔۔اگر ہے تو کتنے ماہ چڑھ چکے ہیں۔۔'' مجھے ساتھ میں یہ بھی ہدایت دی گئی کہ اس سے کوئی مزید تفصیلات نہ اخذ کی جائیں۔۔کچھ لمحے کے بعد تقریباپچیس چھبیس سال کے لڑکے کے ساتھ سراپا حجاب میں ملبوس ایک عورت اند ر داخل ہوئی۔۔میں نے اسے ایگزامینیشن بیڈ پر لیٹنے کا اشارہ کیا۔۔عام طور پر حمل کی متوقع مریضہ سے کافی علامات کے متعلق دریافت کرنا ضروری ہوتا ہے یورین ٹیسٹ وغیرہ سے ان علامات کی تصدیق کی جاتی ہے مگر اسکا معائنہ کرتے وقت مجھے یہ لوازمات غیر ضروری محسوس ہوئے کیونکہ اب وہ اس مرحلے میں آچکی تھی جہاں ظاہری طور پر معائنہ کرنے سے ہی واضح ہوچکا تھا کہ وہ چھ ماہ کے حمل سے تھی۔۔معائنے کے بعد بغیر کوئی سوال کیے وہ دونوں کمرے سے باہر چلے گئے۔۔مگ بحیثیت ڈاکٹر میرے لیے یہ ہرگز حیران کن سانحہ نہیں تھا سو میں نے بغیر کسی تجسس کے ہسپتال کے مختارکو ساری تفصیلات سے آشنا کر دیا۔اور پھر سے اپنے مریضوں کے ساتھ مصروف ہوگئی۔۔اسی اثناء میں ریحانہ کا دوبارا معائینہ کرنے کے لیے میں اسکے کمرے میں داخل ہوئی ۔نقاہت سے پُر ریحانہ اپنی بچی کو سینے سے چمٹائے اپنی سانسوں کا عرق پلا رہی تھی۔۔یہ نظارہ ہمیشہ ہی میرے لیے مسرور کن حیرانی کا باعث ہوتا کہ بھلا بےپناہ درد کا موجب بےپناہ محبت کا مستحق کیسے ہو سکتا ہے۔میں پھر سےیکلخت اپنے خیالوں کے سمندر میں رموزِ نفسیات کے سیپ تلاشنے لگی۔پھر میرے لاشعور میں مجھ پر یہ راز افشا ہوا کہ جاندار مخلوقات کے توسط سے یہ خاص کیفیت محض عملِ تخلیق کے لیے مستشنیٰ ہے۔تخلیقیت کے ساتھ کرب اور حب کو لاگ ہے۔اور ہر نوعیت کی تخلیق میں کرب کا تناسب جتنے افراط سے ہوگا ،تخلیق کار کو اس تخلیق سے حُب بھی اتنی ہی فراوانی سے ہوگا۔آہ کتنا خوبصورت اور پُر اسرار سچ تھا۔اس حقیقت کے گہر کو مٹھی میں دبائے میں دبے پاؤں ریحانہ کے کمرے سے باہر نکل آئی۔
                      فلک کا خورشید آدھی مسافت طئے کر چکا تھا۔اپنی جیب سے دھوپ کی مونگ پھلیاں نکال کر زمین کی جانب گرا رہا تھا۔میں نے اوور کوٹ نکال کر کرسی کی پشت پر ڈال دیا اور اپنی پشت کرسی سے ٹکا کر پلکوں کے در بند ہی کیے تھے کہ سینیر نرس امینہ بی کی آواز کی دستک ہوئی ۔
                  ''توبہ توبہ۔۔گندگی پھیلا رکھی ہے۔بےشرمی کی تو حد ہی ہو گئی۔ارے لعنت ہے ایسی خوبصورتی پر ۔'' 
                   اس سے قبل کہ میں امینہ بی سے کچھ دریافت کرتی کہ دوسری نرس پونم بھی انکی تائید کرتی ہوئی مزید کتھا سنانے بیٹھ گئی۔
                  ''ہاں میڈم جی ۔غضب کی سندر ہے۔اٹھارہ یا انیس کی ہوگی۔۔مگر لاج شرم چھو کے بھی نہیں گزرا اسے۔۔اتنا بڑا پاپ کرکے اب بچہ گرانے آئی ہے مگر چہرے پر ذرا سا پچھتاوا نہیں۔الٹا لڑکوں کے ساتھ ٹھٹھکے لگا رہی ہے۔چھی چھی۔'' امینہ بی اور پونم دونوں روایتی زنانہ انداز میں اسی چھ ماہ کے حمل والی لڑکی کے متعلق تھو تھو چھی چھی۔۔کے ساز پر چغلی اور لعنت کے گیت گائے جا رہی تھیں ۔اور میری ذات میں الگ ہی اضطراب کی غزل سرائی تھی۔میں ہمیشہ سے ہی اسقاطِ حمل جیسے ناروا فعل میں معاون کا کردار نبھانے سے گریز کرتی آئی تھی کہ بھلا میں خود ایک فن شناس ہو کر ایک ادھوری تخلیق کے قرطاس پر سیاہی کیسے انڈیل دیتی۔ اسلیے اس بےنام لڑکی کا کیس بھی دوسری ڈاکٹر کے زیرنگرانی پایہ تکمیل کو پہنچایا جا رہا تھا۔
                فلک کا خورشید اپنی منزل کو پہنچ چکا تھا۔شبنمی شام نے برفیلا نشتر فضاء کے سینے میں پیوست کر دیا تھا۔زمین سردی کی دہشت سے اکڑی جا رہی تھی ۔میں شام کی شفٹ کے لیے جب ہسپتال پہنچی تو خبر ہوئی کہ اس ادھوری تحریر کے قرطاس کو لہو سے رنگ دیا گیا ہے۔تخلیق کار انچاہے کرب سے آزاد ہوچکا ہے۔مگر ایک سکون انگیز حیران کن خبر یہ بھی ملی کہ لہو کے پھیکے رنگ قرطاس پر نقش نامکمل تخلیق کے گہرے الفاظ کو زائل نا کر پائے۔۔ہر ایک حرف کی انگشت اپنے تخلیق کار کی شناخت میں اُٹھی ہوئی تھی۔مگر وہ ڈرا ہوا تصنیف کار اپنے گناہوں کے ثبوت کو یعنی اس زندہ عبارت کے ہر زیر و زبر کو مٹا دینا چاہتا تھا۔اور انسانیت پر تھوکتی ہوئی یہ کاوش جاری تھی۔میں بلا توقف لیبر روم پہنچی۔سرد اسٹیل کے ٹرے میں وہ نوزائیدہ کپکپاتی ہوئی برہنہ بچی جینے کی جہت میں سانسوں کی ڈور کو تھامے ہوئے تھی مگر آہستہ آہستہ اسکی گرفت ڈھیلی ہو رہی تھی۔۔اسکی رنگت نیلگوں ہوتی جا رہی تھی۔۔وقفے وقفے پرسانس کا ایک گولا جیسا اسکے سینے پر ابھرتا اس میں ذرا سی حرکت ہوتی اور پھر تھم جاتی ۔۔اسکے ننھے ننھے ہاتھ اور پاؤں برسات کی بھیگی لکڑی کی طرح اکڑ تے جا رہے تھے۔۔میں نے اسے بغور دیکھا تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے کسی بوسیدہ سے ورق پر کوئی لاشعوری طور پر ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچے اور اتفاق سے وہ لکیریں غیر ارادی طور پر مل کر کسی فن پارے کی شکل اختیار کر لیں۔۔آہ ہ ہ۔۔میری روح سے ایک المناک چیخ نکلی۔کیا یہ فن پارہ اپنے ناسمجھ فنکار کی بےاعتنائی کا شکار ہو کر شاہکار بننے سے محروم رہ جائےگا۔؟
                 نہیں۔۔نہیں۔۔میری نگاہیں دیدہ و دانستہ اس ہیچ عمل کی گواہ نہیں ہو سکتیں۔۔میں نے فوراً پاس میں رکھی ہوئی اسٹینڈ پر سے روئی کا بنڈل اُٹھایا اور اسے ممکنہ لمبائی میں پھیلا کر اس بچی کو اس میں ملبوس کر دیا۔؎۔اور نرس کو اسے بےبی ہیٹر کے نیچے ڈالنے کو کہا۔۔
              ''ارے میڈم یہ کیا کر رہی ہیں ؟اس بچی کو جان بوجھ کر ان لوگوں نے اس طرح ٹھنڈے کمرے میں رکھا ہے کہ یہ جلدی سے مر جائے تو وہ لوگ پھر تسلی کے ساتھ یہاں سےروانہ ہوں۔''
              ''نہیں نہیں ۔میرا خون پانی نہیں ہوا ابھی۔''۔میں نے فوراً اپنی مما کو کال کیا اور سارا ماجرا بیان کیا۔انہیں بھی اس فن پارے کے ضائع کرنے کا بہت دکھ ہو رہا تھا۔''مما۔میں اس بچی کو گھر لے آؤں پلیز۔ورنہ یہ سب اس بےگناہ معصوم کو مار ڈالینگے۔''
             ''ہوش میں تو ہو تم۔۔کیا بکے جا رہی ہو۔۔تم غیر شادی شدہ ہو کر ایک نوزائیدہ بچی کو گھر لاؤگی؟۔لوگ کیا کہینگے۔۔'' مما نے صاف لفظوں میں انکار کر دیا تھا آخر وہ بھی تو ایک تخلیق کار ہی تھیں کسی اور فن پارے کے لیے اپنی تخلیق کو داغدار کیسے ہونے دیتیں۔
             بےبسی کے تلاطم میں میری انسانیت غرق ہو رہی تھی۔میں لاحاصل گردش کر رہی تھی ۔کبھی لیبر روم میں جاتی کبھی چیمبر میں آکر بےسکون بیٹھ جاتی۔۔کیا کروں۔اف کیا کروں میں؟۔
           ''میڈم آپ بھلا کیوں اتنا ٹینشن لے رہی ہیں۔وہ ناجائز بچی ہے۔مر جائے تو ہی اچھا ہوگا اس کے لیے۔۔''
میرا پورا وجود لرز اُٹھا ۔''آہ ہ ہ۔کیا اس فن پارہ کو محض اس لیے فنا کر دیا جائے گا کہ جس ورق پر یہ نقش ہے وہ ورق بدنما ہے۔اس کی تخلیق میں مستعمل سیاہی گناہوں کے غلیظ ذرات کا محلول ہے۔؟۔''
           میں نے اپنی مٹھی کھول کر حقیقت کے اس گُہر کو بغور دیکھا جو میں ریحانہ کے کمرے سے لے کر آئی تھی۔ریحانہ اور وہ بےنام لڑکی دونوں تو ایک ہی قسم کے شدیدکرب کے ساتھ عملِ تخلیق کے مرحلوں سے گزری تھیں۔مگر۔۔مگر ایک تلخ مستشنیٰ حقیقت میں فراموش کر گئی تھی کہ سانپ نامی مخلوق اپنے بچوں کو پیدا کر کے خود ہی نگل جاتی ہے۔مجھے لیبر روم کے باہر وہی سانپ نظر آرہے تھے جو گھات لگائے دروازے پر رینگ رہے تھے ۔میں نے بالاآخر کسی طرح ہسپتال کے مختارکو خدا کا اور انسانیت کا واسطہ دے کر اس کانپتی ہوئی بچی کو بےبی ہیٹر کے نیچے رکھوا دیا۔مجھے ذرا اطمینان ہوا مگر میرے چیمبر کے باہر سانپوں کے پھنکارنے کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی۔۔پھر جانے کس سپیرے نے کون سا منتر پھونکا۔۔اپنی بین سے کیسی دھن بجائی کہ اچانک ہی کچھ لمحے کے بعد ان سانپوں کے پھنکار نے کی آواز بالکل بند ہوگئی۔۔عجیب وحشتناک سناٹہ ساچھا گیا۔کیا ہوا تھا آخر ؟ کیا وہ بچی۔؟ میرے حلق میں جیسے خدشات کے لعاب دار گولے بننے اور جذب ہونےلگے تھے۔
           ''وہ لوگ اسے اپنے ساتھ لے گئے۔کسی اچھے ہسپتال میں آئی سی یو میں بھرتی کروا کر بہتر علاج کروانے کے لیے۔'' نرس نے جیسے مجھے تسلی دی تھی۔میں نے بےتائثر آنکھوں سے نرس کی جانب دیکھا۔۔
             ''میڈم گاڑی لگی ہوئی ہے۔۔گھر جانا ہے ناں۔۔''
              ''ہاں جانا تو ہے۔۔''
                                                                                          ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
               نئی صبح۔۔فلک کا خورشید آنکھیں میچتا ہوا جاگا ۔آج میں جلدی نیند سے بیدار ہو کر لحاف کو الوداع کہہ آئی تھی۔گزشتہ دن کے اضطراب نے ہاتھوں میں قلم تھما دیا تھا۔اور تخیل کاغذ پر بکھرنے لگا تھا۔
              ادھر ہال میں ابو اخبار پڑھنے میں منہمک تھے۔۔مما چائے کا پیالہ لے کر ابو کے ساتھ ہی بیٹھی خاص خبروں سے باخبر ہو رہی تھیں۔۔
             ''اکھاڑا گھاٹ پل کے نیچےایک بھری ہوئی مشکوک کالی تھیلی بر آمد ہوئی۔'' اخبار کی تازہ خبر میری بھی سماعت تک پہنچی۔اور پھر جانے کیا ہوا کہ پانی کا گلاس اچانک سے میری ادھوری تحریر پر پھسل گیا۔۔
ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 غزل اسلام نورؔ 
 
Read 2981 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com