الأربعاء, 01 كانون2/يناير 2014 11:26

ماہنامہ : اُردو آپریشن جھارکھنڈ MONTHLY URDU OPERATION , JAN - 2014

Rate this item
(0 votes)

 بسم اللہ الرحمن الرحیم 
    عالمی پرواز کی ایک نئی اُڑان

    بین الاقوامی اُردو ادب کا اُردوپورٹل
فکشن 


کا


نیا

 
آسمان


ماہنامہ اُردو آپریشن (جھارکھنڈ)

شمارہ-1
جنوری - 2014
* سرپرست ڈاکٹراسلم جمشیدپوری

* مدیر خصوصی رضوان واسطی
* مدیر اعزازی جہانگیر محمد
* مدیرہ نغمہ نازمکتومیؔ 
* ترتیب مہتاب عالم پرویزؔ 


* زیرِاہتمام ’’ عالمی پرواز .کوم ‘‘
www.aalamiparwaz.com
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.       عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.

 ڈاکٹر اسلم جمشید پو ری


اکیسویں صدی کا افسانوی منظر نامہ : ایک جائزہ

بیسویں صدی :
صدی کا تبدیل ہو نا ایک بڑی بات ہے۔ ہر شے تبدیلی کی طرف گامزن ہو جا تی ہے۔ بیسویں صدی یوں بھی تبدیلیوں کے نقطۂ نظر سے خا صی اہم ہے۔ اس صدی میں سیا سی، سماجی،معا شی اور ادبی تغیرات کے گراف میں خا صے نشیب و فراز آئے ہیں۔ سیا سی اعتبار سے پہلی عالمی جنگ، روس کا انقلاب، جر من اور ہمنوا ؤں کی شکست فاش، دوسری عالمی جنگ، دنیا میں پہلی بار ایٹم بم کا استعمال، جا پان کے کئی شہروں کی خطر ناک تبا ہی، امن کی کوششوں کے درمیان یو این او کا قیام، دنیا کا دو قطبوں روس اور اور امریکہ میں تقسیم ہو نا،سو ویت یونین روس کا زوال، امریکہ کا دنیا کی بڑی طا قت بننا۔ اتحا دی افواج کا عراق پر حملہ اور اسے نیست و نابود کر نا جیسے معا ملات وواقعات نے بیسویں صدی کو تاریخ میں ایک الگ مقام عطا کیا۔ قومی سطح پر بھی بیسویں صدی میں بنگال کی تقسیم، مسلم لیگ کا قیام، جلیان وا لا باغ کا قتلِ عام، گاندھی کی تحریکات، تقسیمِ ہند، پاکستان کا قیام،چین سے جنگ، بنگلہ دیش کا قیام،ایمر جنسی، کانگریس کا زوال، غیر کانگریسی سر کار کا قیام، اندرا گاندھی اور را جیو گا ندھی کا اندوہناک انجام، پنجاب میں دہشت گردی کا عروج و زوال،کشمیر میں ہندوستانی فوجیوں اور دہشت گردوں کے مابین تصا دمات کا طویل سلسلہ، آسام مسئلہ، بنگلہ دیشی در اندازی، بابری مسجد کا انہدام، ممبئی میں سیریل بم دھماکے، ہندوستان کے متعدد شہروں میں فرقہ وارا نہ فسادات ایسے اہم وا قعات ہیں جن کی بنا پر بیسوی صدی ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں تلخ یاد کے طور پر زندہ رہے گی۔
سماجی اعتبار سے بھی قومی سطح پر حیرت انگیز تغیرات سامنے آ ئے۔ ذات پات کی تفریق میں دن بہ دن اضا فہ۔ پسماندہ ذاتوں کے ساتھ نا روا سلوک،ایس سی ،ایس ٹی ریزرویشن کے بعد حا لات میں تیزی سے تبدیلی، ایس سی،ایس ٹی کی حمایت سے سر کا روں کا قیام، ہندو مسلم کے درمیان کشید گی، مسلمانوں میں بھی براد ری واد کا زور، منڈل کمیشن، ہندؤں میں اعلی اور پسماندہ طبقات کے درمیان وسیع ہو تی خلیج.......معا شی اعتبار سے صدی کی ابتدا سے تقسیمِ ہند اور بعد کے دو تین عشروں تک فی کس آ مدنی کا بے حد کم ہو نا، آ خری عشروں میں حالات کا بہتر ہو نا، ترقی و خوش حالی کا وسیع ہو تا دا ئرہ، سائیکل کی جگہ، اسکوٹر ،موٹر سائیکل ، کار،پھر قیمتی کا رو ں تک کا سلسلہ اور بلندو بالا عمارتیں بیسوی صدی کا معاشی منظر نامہ ہے۔
ادبی منظر نا مے پر ابتدا ئے صدی میں حقیقت پسندی، رو مان پسندی، اقبال کے فلسفہ، ترقی پسندی، حلقۂ ارباب ذوق، جدیدیت، مابعد جدیدیت، ساختیات وغیرہ کے جھولوں میں اونچی نیچی پینگیں بڑھاتا ادب انسا نی عروج و زوال کی داستان رقم کرتا رہا۔ کبھی نظم کا سکہ چلا تو کبھی غزل نے بین الاقوامی اور بین لسا نی مقبو لیت حا صل کی۔ کبھی ناول کا زمانہ رہا تو کبھی افسا نے کا دبدبہ قائم ہوا۔ متعدد اصناف مرثیہ، مثنوی، قصیدہ، داستان، اسٹیج ڈرا مہ اپنے وجود کے تحفظ کی جنگ لڑتی رہیں۔ کچھ دم توڑ چکی ہیں اور کچھ ابھی ہاتھ پیر ماررہی ہیں۔ افسا نے کے سا تھ ساتھ افسا نچے کا وجود بھی سا منے آ گیا ہے۔ متعدد تجربات سا منے آ ئے لیکن ایک آدھ کے علا وہ کسی کو ثبات حا صل نہ ہوا۔
بیسویں صدی میں افسا نہ :
اردو افسا نے کے تعلق سے کہا جا سکتا ہے کہ بیسوی صدی اردو افسا نے کی صدی رہی ہے۔ یہ الگ بات کہ انیسویں صدی کے اوا خر میں افسا نے کے نقوش ملنے لگتے ہیں۔لیکن وا ضح طور پر اردو افسا نے کا آغاز بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ساتھ ہوا۔ ابتدا ہی میں پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم جیسے ادبی مجا ہدین نے افسا نے کو حقیقت پسندی اور رومان پرور فضا ؤں میں خوب کھلایا۔ انگارے کی اشا عت سے ترقی پسند افسا نے کے نقوش وا ضح ہو نے لگے اور 1936 ء میں ترقی پسند تحریک کے تخم نے انگڑا ئی لے کراپنے وجود کا اعلان کیا۔افسانے کو عروج حا صل ہوا۔1936 سے1955ء تک کے زمانے کو اردو افسا نے کا عہدِ زریں کہا جائے توبے جا نہ ہو گا۔1960ء سے جدیدیت نے روایت سے نہ صرف انحراف کیا بلکہ بعض روا یتوں کی تردید کرتے ہو ئے اردو افسا نے کونیا منظر نامہ عطا کیا۔ اس منظر نے بہت جلد اپنی شناخت کے رنگ کھونے شروع کر دیے اور70ء کے بعد نئی نسل کا ورود ہوا۔ پھر80ء کے بعد ایک نسل سامنے آ ئی اور افسا نے نے پھر سے کھو یا ہوا وقار اور قا ری کا پیار حا صل کیا۔ نام رکھنے کے ماہرین نے اسے مابعد جدید افسانے کا نام دیا۔ بعض نے مانا اور بہتوں نے انکار کیا۔ اسی دوران افسانہ آ ہستگی سے اکیسویں صدی میں داخل ہو گیا۔

اکیسویں صدی :
اکیسویں صدی آ نے کا شور ہوا۔خدشات اور شبہات قوی ہو نے لگے۔ افسا نہ اکیسویں صدی میں دم توڑ دے گا؟اکیسویں صدی انفارمیشن ٹکنا لوجی کا عہد ہو گا۔افسا نے کا کیا ہوگا؟ انٹر نیٹ، ویب سائٹ اورپورٹل کے عہد میں کیا افسا نہ خود کو ثا بت قدم رکھ پا ئے گا؟یہ اور اس طرح کے بہت سے سوال ہمارے بزرگوں کے ذہنوں میں تھے۔ اکیسویں صدی آ ئی، نئے تغیرات ساتھ لائی۔آئی ٹی کا ہر طرف دور دورہ ہو گیا۔ ای میل اور ایس ایم ایس نے مکتوب نکاری کے فن کو خا صی ضرب پہنچائی اور اس کے وجود کو خطرہ در پیش ہوا۔اب محبت بھرے خطوط کا زمانہ ہوا ہو گیا۔جب خطوط کا رواج ختم ہواتو خطوط پر مبنی افسا نوں کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا۔ اب خط ملنے کے انتظار کا کرب بھی ختم، پلک جھپکتے ہی خط موصول ہو جائے یہ تو خواب و خیال کی باتیں تھیں۔لیکن ای میل اور میسج نے اسے سچ کر دکھایا۔ فیس بک، آرکٹ، ٹوئیٹر ، گو گل،یا ہو، گو گل پلس اور دیگر سوشل سائٹس اور یو ٹوب جیسی سائٹس نے انسا نی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ گوگل سرچ اور وی کی پیڈیا نے معلومات کا دھماکہ کردیا۔ اب ٹیلیفون ہی نہیں موبائل اور انٹر نیٹ سے زندگی کے بہت سے معاملات طے ہو نے لگے۔ نکاح اور طلاق میں بھی ان کا دخل بڑھ گیا۔ای۔کتابیں،ای۔رسالے ، ای۔لائبریری، آن لائن اخبارات، رسائل اور سبھی قسم کے ضروری فارم آن لائن ہونا......زندگی میں یکسر انقلاب آگیا۔ اسکول، کالج، یو نیورسٹی، ڈاک خانہ، آفسز، بینک....ہر جگہ کمپیوٹر، اسکرین، ماؤس، میمو ری، ہارڈ ڈسک، سوفٹ وئیر، ہارڈ وئیر، پین ڈرائیو، سی ڈی، ڈی وی ڈی وغیرہ کے استعمال نے زندگی کو اتنا متاثر کیا کہ کسان کی کھیتی بھی کمپیوٹرائزڈ ہونے لگی۔ ایسے میں انسانی زندگی میں انقلاب آفریں تغیرات کا آنا ناگزیر تھا۔
اکیسویں صدی میں افسانہ :
اکیسویں صدی میں افسانے کو بھی نئے چیلنجز کا سامنا تھا۔ موضو عات تبدیل ہو رہے تھے۔ انسا نی زندگی نشیب و فراز کے نئے ریکارڈ بنا رہی تھی۔ کمپیوٹر اور آ ئی ٹی کے عہد نے جہاں ترقی اور خوش حالی کو عام کیا، بڑے بڑے مکانات، لمبی لمبی کا ریں، چو ڑے چوڑے مو بائل، لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ،اسٹیٹس سمبل ہو تے ہو تے عام ہو گئے۔ وہیں انسان اخلاقی زوال کا شکار ہو تا چلا گیا۔رشتے ناطے کمزور پڑتے گئے۔فحا شی، جسم فرو شی، غیر اخلاقی افعال، قتل و غارت گری، دہشت گردی، فرقہ وارانہ فسادات، فسادات میں قومِ مخصوص کی نسل کشی، انسانیت کا قتل، بر بریت کا ننگا ناچ، وحشت، درندگی اور دولت کے حصول کے لیے ہر طرح کے طریقے استعمال میں آ نے لگے۔ انسا نی زوال کا گراف اتنا نیچے آ گیا کہ اب ماں۔بیٹے ۔باپ ۔ بیٹے۔ باپ ۔بیٹی ۔بھا ئی ۔بہن۔ بہو۔ سسر۔دا ماد۔ ساس۔ جیٹھ۔ دیور۔ تا ؤ۔ تائی۔بھابھی۔ سالی۔ جیسے رشتوں کا تقدس نہ صرف ختم ہوا بلکہ اکثر یہ رشتے خود پر ہنستے اور رو تے نظر آ تے ہیں۔ بیسویں صدی سے اکیسویں صدی کے سفر میں افسا نے کے مو ضو عات یکسر بدل گئے۔ سماج میں کرداروں کا فقدان ہو گیا۔ کرداروں کو زندہ رکھنے وا لے افراد کہاں گئے؟برا اور برا ئی کی علامت اب اپنی حدود ہی بھول گئی۔ پہلے جھوٹ بولنا بھی ایک برا ئی تھی۔اب یہ بزنس کا ایک حصہ ہو گیا۔ کمیشن، دلالی کی بدلی ہو ئی شکل ہو گئی،جسے اب نہ صرف بُرانہیں سمجھا جاتا ہے بلکہ زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ گر دانا جاتا۔زندگی کا ہر شعبہ اس کی گرفت میں آ گیا ہے۔ اس کا لینا اور دینا دو نوں معیوب نہیں.....اس پس منظر اور منظر میں اکیسویں صدی کے اردو افسا نے کا جائزہ پیش ہے۔
ادب میں کوئی خط کھینچنا آسان نہیں ہو تا۔حد فاصل کو سائنس یا ریاضی کی طرح قائم رکھنا بہت مشکل ہو تا ہے یوں بھی ادب کبھی فارمولوں میں قید نہیں ہوتا۔اکیسویں صدی کے افسا نے کے لیے بھی یہی مشکل ہے۔ یہاں دو طرح کے افسا نہ نگار ہیں۔ ایک تو وہ جنہوں نے اکیسویں صدی میں لکھنا شروع کیا، دوسرے وہ افسا نہ نگار جو بیسویں صدی کی آخری دہا ئیوں سے ہی لکھتے آ رہے ہیں اور انہوں نے اکیسویں صدی میں بھی تحریر ی سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ آخر الذکر افسانہ نگاروں میں زیا دہ تر وہ افسا نہ نگارہیں جنہوں نے ۷۰ اور ۸۰ء کے بعد اردو افسا نے میں قدم رکھا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں،جنہیں گذشتہ تین۔چار دہا ئیوں سے نئی نسل کے نام سے مو سوم کیا جاتا رہا ہے۔گرا ن کے افسا نوں کی بات کی جائے تو پھر وہی پرا نا قصہ شامل ہو گا۔جب کہ میرا مقصد نئے افسا نے اور نئے افسا نہ نگاروں اور ان کے افسا نوں پر گفتگو کر نا ہے جنہوں نے اکیسویں صدی میں اپنی شناخت قائم کی ہو۔ اپنی مشکل آسان کر نے کے لیے میں نے ایک پیمانہ یہ بنایا کہ اکیسویں صدی یعنی2000 اور اس کے بعد شا ئع ہو نے وا لے افسا نہ نگاروں کے افسا نوں پر گفتگو کی جائے۔ اس میں ایسے تمام افسا نہ نگاروں کو بھی شامل کیا جائے گا جن کا پہلا افسا نہ یا پہلا افسا نوی مجمو عہ2000ء اور اس کے بعد شا ئع ہوا ہو۔ اس سے دو فائدے حا صل ہو ں گے۔ایک تو اکیسویں صدی کے افسا نہ نگاروں کافن سامنے آ ئے گا ،دوسرے بیسویں صدی کے اوا خر میں افسا نہ نگاروں کے یہاں ہونے وا لے تغیرات کا عکس بھی سامنے آ جائے گا۔ یہاں یہ بھی خیال رکھا جائے گا کہ صرف ایسے ہی افسا نہ نگار شامل ہو ں جنہوں نے اکیسویں صدی سے کچھ برس قبل ہی افسانہ نگاری کا آغاز کیا ہو۔کیوں کہ ہمارے یہاں کئی افسانہ نگار ایسے ہیں جو کافی زمانے سے لکھ رہے ہیں لیکن ان کی مجمو عے بہت تاخیر سے آئے۔مثلاً شمس الرحمن فاروقی، شو کت حیات، ابرا ہیم علوی، انور امام وغیرہ۔
اکیسویں صدی، نئی صدی ہے اور یہ بہت سے معنوں میں نئی ہے۔ متعدد افسا نہ نگار اس صدی میں سامنے آئے ہیں۔کچھ تو وہ ہیں جنہوں نے اس صدی میں افسانے لکھنا شروع کیا ہے اور کچھ ایسے ہیں جو کچھ قبل سے لکھ رہے تھے لیکن ان کے افسا نوی مجمو عے اس صدی میں منظر عام پر آ ئے۔ یہاں میرا مقصد فہرست سازی قطعی نہیں ہے بلکہ ہر اس افسا نہ نگار کا مطالعہ پیش کرنا ہے جس کے یہاں موضوع یا ہےئت کے اعتبار سے نیا پن موجود ہو۔ایسے افسا نہ نگار جن کا پہلا افسا نوی مجمو عہ اکیسویں صدی میں شا ئع ہوا ہے لیکن یہ لوگ قبل سے لکھ رہے ہیں ان میں قمر قدیر ارم، سیدہ نفیس بانو شمع، ایم اے حق، اشتیاق سعید، ایم مبین، غزال ضیغم، مبینہ امام،شا ہد اختر، پرویز شہر یار، رضا امام، خو رشید حیات، عبد العزیز خاں، مجید سلیم، وسیم حیدر ہاشمی،رفعت جمال، تبسم فاطمہ،اشرف جہاں، ساحر کلیم، طاہر انجم صدیقی، اختر آزاد، مہتاب عالم پرویز ؔ وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح اکیسویں صدی سے اپنا افسا نوی سفر شروع کرنے وا لوں میں شائستہ فاخری، تسنیم فاطمہ، سراج فاروقی، قیصر عزیز، نیاز اختر، نصرت شمسی، افشاں ملک، شبانہ رضوی،نشاں زیدی، غزالہ قمر اعجاز، فرقان سنبھلی، محمد رفیع الدین مجاہد، نسیم محمد جان، ارشد نیاز، شبنم راہی، سالک جمیل براڑ، عابد علی خان، مشتاق احمد وا نی، مہ جبیں نجم، یحیٰ ابراہیم، پونم،زیب النساء، وغیرہ کے اسما ئے گرا می شامل ہیں۔
ماحولیات کا تحفظ :
نئی صدی میں متعدد افسا نہ نگاروں نے با لکل نئے مسائل پر توجہ صرف کی ہے۔ آج کے ترقی یا فتہ عہد میں آلودگیPolltionایک بڑے مسئلے کے طور پر سا منے آ یا ہے۔ ہوا ،پانی، مٹی دن بہ دن آ لو دہ ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا کی ترقی، آ لودگی کا سبب بن رہی ہے۔بموں کے دھماکے، کمپنیوں سے نکلنے وا لا کثیف دھواں اور زہریلی گیس۔ ٹریفک سے اُ گلتا ہوا ڈیزل اور پٹرول کا فضلا، نالی اور نالوں کے گندے پانی سے، پانی کی آ لود گی اور طرح طرح کے کھاد سے مٹی کی آ لودگی، دن بہ دن انسان کے لیے مضر ہو تی جا رہی ہے۔ ایسے میں انسان ہی نہیں، جا نوروں، درختوں اور پانی کے لیے خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ پانی کی سطح، روز بروز کم ہو تی جا رہی ہے۔ درختوں کے کٹان سے با رشوں کی کمی اور مٹی کے کٹا ؤ میں اضا فہ ہو نے لگا ہے۔ ایک طرف جہاں یہ مسائل ہیں تو دوسری طرف ان سے نبرد آزما ہو نے کی کو ششیں بھی ہیں۔ بہت ساریNGO اور سر کار شجر کاری، پانی کی تقطیرWater،سولر لائٹس،CNG کا استعمال بھی بڑھا ہے۔ ہما رے نئے افسا نہ نگاروں نے اس مسئلہ کی طرف مثبت اقدام کیا ہے۔ مہتاب عالم پرویزؔ کا تازہ افسا نوی مجموعہ’’کارواں‘‘ اسی سال منظر عام پر آ یا ہے۔ یوں تو عمومی طور پر مہتاب جدید لب و لہجے کے افسانہ نگار ہیں اور علا متوں اور تشبیہات میں افسا نہ بیان کرتے ہیں۔ لیکن ان کے یہاں بعض سہل ممتنع کے افسا نے بھی ملتے ہیں۔ ان کا افسا نہ ’ کارواں‘ ما حولیات کو پیش خطرات کو عمدگی سے پیش کرتا ہے۔ مہتاب عالم پرویزؔ خود سعو دی عرب میں اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ گذار چکے ہیں۔ انہوں نے پرندوں کی زندگی، ہجرت، ہوم سِکنیسHome Sicknes وغیرہ کو عمدگی سے افسا نہ کیا ہے’کارواں‘ان کا بے حد خو بصورت افسا نہ ہے،جس میں مرکزی کردار سعودی عرب کے سنگلاخ ریگستان میں اونٹوں کی دیکھ ریکھ کا کام کرنا ہے۔ جہاں اچانک زہریلی گیس کا رسا ؤ ہو تا ہے۔ ایسے میں کمپنی کے مالکان اونٹوں کی حفاظت کے لیے ماسک کا استعمال کروا تے ہیں۔ حیوا نوں کی زندگی اتنی قیمتی ہے جب کہ انسانی زندگی اُ سی تعفن میں دم گھٹنے کا شکار ہوجاتی ہے:
’’ہر طرف زہریلی گیس نے اونٹوں کے دل کی دھڑکنوں میں اپنے اثرات پیوست کر دیے تھے جب کہSafetyکا پورا خیال رکھا گیا تھا۔ خون کی الٹیاں اپنا اثر دکھا رہی تھیں۔ اونٹوں کے بلبلانے کی آوازیں ما حول کی نحو ست میں اور بھی اضا فہ کررہی تھیں.....اونٹوں کو اس طرح بلبلانے اور خون کی الٹیاں کرتے دیکھ کر میں بھی پریشان تھا.....‘‘ 
( کارواں، افسا نوی مجمو عہ کارواں، مہتاب عالم پرویزؔ ،2012ء)
’کارواں‘ میں مہتاب عالم پرویز نے ما حو لیات کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کی آ لودگی کو بھی پیش کیا ہے۔ مصنف کی موت ایک سوال چھوڑ جاتی ہے۔ مہینوں سردخانے میں پڑی اس کی لاش، ذہنوں کی آ لود گی کو پیش کرتی ہے۔ کہانی حکو مت ہند کے طریقۂ کار پر بھی سوال اٹھا تی ہے کہ وہ غیر ممالک میں کام کرنے والے اپنے لوگوں کی بقا اور تحفظ کے لیے کیا اقدام کررہی ہے؟
پانی اور درختوں کے تحفظ کو مہ جبیں نجم اپنے افسا نے’’ بے جڑ کا پو دا‘‘ میں فنی مہا رت سے پیش کرتی ہیں۔ کہا نی میں ایک درخت اور اس کا نگہبان ، دو کردار ہیں۔ دو نوں ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ آ ہستہ آ ہستہ یہ لگن اور محبت کم ہو تی جا تی ہے۔ درخت سو کھنے لگتا ہے۔ کوئی اُ سے پانی سے سیراب کر نے وا لا نہیں ہے۔ کہانی علا متی انداز میں بیان کی گئی ہے اور کہا نی میں دو وا ضح سطحیں سامنے آ تی ہیں۔ پیڑ کی شکل میں ایک عورت کی پیاس بھی موجزن ہے جب کہ ظاہری اعتبار سے کہانی پیڑ کے سوکھنے کا بیان ہے۔ کہانی آج کے تحفظ ما حو لیات مشن Save Envirment Mission کو عمدگی سے پیش کر تی ہے۔ ہمیں سبق دیتی ہے کہ ہمیں پانی کا تحفظ کر نا چا ہیے تا کہ پیڑ پو دوں، سب کو پانی دستیاب ہو سکے۔ دوسرے ہمیں یہ بھی سبق دیتی ہے کہ ہم کو اپنی زندگی کے لیے بھی پیڑوں اور درختوں کو زندہ رکھنا ہے، ان کی رکھوا لی کر نی ہے،ان کو محفوظ رکھ کر اور صحیح استعمال کرتے ہو ئے ہم پیڑ پو دوں کو بھی زندگی دے سکتے ہیں اور پیڑ پو دے ہماری زندگی کے ضا من بن سکیں گے۔ کہا نی کے اختتام پر پیڑ کا نگہبان اپنی غلطی محسوس کر کے رو پڑ تا ہے اور پیڑ کے لیے پا نی کی تلاش میں نکل پڑ تا ہے :
’’نہیں، نہیں......‘‘ نگہبان پھوٹ پھوٹ کر رو یا۔ ’’ میں ایسا ظلم نہیں ہو نے دوں گا۔ میں تم کو ہمیشہ ہرا بھرا رکھوں گا۔‘‘پھر وہ کچھ سنبھل کر بو لا
’’ تمہا رے لیے سب سے زیا دہ ضرورت تو پانی کی ہے۔‘‘
نگہبان مجھے دلا سہ دے کر پانی کی تلاش میں نکل پڑا۔
دن ڈھل گیا، وہ نہیں لوٹا تو مجھے تشویش ہو نے لگی۔مگر رات کے پر پھیلانے سے پہلے وہ لوٹ آ یا۔بد حال....تھکا ماندہ...مگر اس کے ہاتھوں میں پانی دیکھ کر میرے نا زک وجود میں سرور کی لہریں دوڑ گئیں۔ اس نے وہ پانی مجھ پر چھڑ کا تو مجھے لگا جیسے میرے تن سے جڑیں پھوٹ رہی ہوں۔‘‘ 
( بے جڑ کا پو دا، افسانوی مجمو عہ پیاس، مہ جبیں نجم،2004ء)
پانی کی ضرورت اور اس کے تحفظ کی اہمیت بتاتے ہو ئے افسا نہ بے جڑ کا پو دا ہمیں ہماری ذمہ داری کا احساس کراتا ہے اور ہمیں ما حو لیات کے تحفظ پر آ مادہ کر تاہے۔ پا نی آ ج ہماری زندگی میں بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ عام زندگی میں پا نی کا بے جا استعمال کرتے ہیں۔ بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔جب کہ آج بھی بہت سے ایسے علا قے ہیں جہاں پانی کی بوند بوند کو انسان ترستا ہے۔ میلوں فا صلے سے پانی ڈھو کر لانے وا لوں سے پانی کی اہمیت دریافت کی جائے۔ پانی کے بے جا استعمال سے پانی کے بحران کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سو چا ہے کہ اگر زمین پر پانی نہ ہو تو کیا ہوگا؟ انسا نی زندگی کہاں جائے گی؟ درخت، چرند، پرند کیا کریں گے؟ پانی کے ایسے ہی مسئلے کی طرف فرقان سنبھلی نے ہماری توجہ مبذول کرا ئی ہے۔
’’آب حیات‘‘ ایک نئے موضوع پر لکھا گیا اچھا افسا نہ ہے۔ افسا نہ کا مرکزی کردار عادل ہے جسے سیاروں پر جانے کا بڑا شوق ہے۔ اس کا شوق پو را ہو تا ہے اور وہ ایک سیا رہ پر پہنچ جاتا ہے ۔وہاں اس کی ملا قات عدینہ سے ہو تی ہے جو اس سیارے کی راج کماری ہے۔ سیا رہ زمین کی طرح آباد ہے۔ سب کچھ زمین جیسا ہی ہے۔ لیکن رو نق اور کشش ہر جگہ غا ئب ہے۔ عادل عدینہ کا سر کاری مہمان بن جاتا ہے۔ سیا رہ پر عادل کو پیاس لگتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں سب کچھ ہے پر پانی نہیں، نہ نہا نے کے لیے، نہ پینے کے لیے۔ عادل بہت پریشان ہو جاتا ہے:
’’پلیز مجھے ایک گلاس پانی دے دو‘‘ عا دل نے عدینہ سے ونتی کی۔
’’ کاش کہ میں تمہارے لیے پا نی لا سکتی۔‘‘ عدینہ نے عا دل کا ہاتھ پکڑ کر بڑے مایوس انداز میں کہا:
’’ کیا تمہا رے سیا رے پر پانی نہیں ہے۔‘‘ عادل نے پو چھا، پانی کی طلب سے اس کا برا حال تھا اور اس کا گلا خشک ہو رہا تھا۔
’’ ہمارا سیا رہ بھی تمہا ری زمین کی طرح کبھی بڑا ہرا بھرا تھا۔ یہاں جھیلیں، تالاب اور ندیاں بھی تھیں اور سمندر بھی۔ زمین کی طرح یہاں بھی حسین مو سم ہو تے تھے۔‘‘ 
( آب حیات،افسانوی مجمو عہ آب حیات، فرقان سنبھلی،2010ء)
عادل کو پانی ،کی جگہ شربت پینے کو دیا جاتا ہے جس کے کئی گلاس ختم کر نے پر بھی اس کی پیاس ختم نہیں ہو تی اور وہ ہر پل پانی کے لیے بے چین رہتا ہے۔ عدینہ اس کو چاہتی ہے۔ اس کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے لیکن پانی دستیاب کر نا اس کے لیے مشکل ہی نہیں نا ممکنات میں سے ہے۔ جب عادل کی پانی کی خوا ہش شدید ہو جاتی ہے تو وہ اسے لے کر ایک اسٹیڈیم میں آ جاتی ہے جہاں 5کلو میٹر کی ایک ریس کا اہتمام ہو رہا ہے۔ عدینہ کے جوش دلانے پر عادل بھی اس دوڑ میں حصہ لیتا ہے کہ دوڑ کے فاتح کو ایک خاص انعام ملنے وا لا ہے’’ آب حیات‘‘۔ عادل پو ری طاقت، ہمت اور جرأت سے ریس جیت لیتا ہے لیکن گر پڑ تا ہے اور پانی طلب کرتا ہے جب کہ اس کو فاتح کے انعام کے طور پر آب حیات کا جار دیا جاتا ہے۔ وہ منہ لگا دیتا ہے۔آ ب حیات کی شکل میں پانی اس کے حلق میں پہنچتا ہے اور اس کی پیاس بجھاتا ہے۔ عادل سوچتا ہے کہ تو یہ مقابلہ آب حیات یعنی پانی کے لیے ہے جو ہماری زمین پر یوں ہی بے کار بہتا رہتا ہے۔ کہانی پانی کی اہمیت و افا دیت اور ما حولیات کے تحفظ کی طرف بلیغ اشا رہ کرتی ہے۔ ایک جگہ عدینہ اپنے سیارے کے بارے میں بتاتی ہے:
’’ہمارے سیا رے پر ہر سہولت اور ہر اشیا موجود ہے جو کسی بھی آ کاش گنگا میں پائی جاتی ہو گی۔ لیکن ہماترے بزرگوں نے ترقی کی اندھی خوا ہش میں نہ صرف کنکریٹ کے جنگل کھڑے کیے بلکہ تا لاب پاٹ ڈا لے، ہرے بھرے پیڑ کاٹ ڈالے اور یہاں تک قدرت کے ساتھ دشمنی کی کہ سیارے کی آ ب و ہوا آ لودہ ہو گئی،پانی سو کھ گیا۔ ندی نا لے ختم ہو گئے۔ یہاں کی مخلوق پانی کی قلت سے تِل تِل مرنے لگی۔‘‘ ( آب حیات،افسانوی مجمو عہ آب حیات، فرقان سنبھلی،2010ء)
فرقان سنبھلی نے پانی کے مسئلے کو بخو بی افسا نوی رنگ عطا کیا ہے۔ اختر آزاد پانی کے مسئلے کو نئے سیا ق و سباق میں کہانی’’ پانی‘‘ میں پیش کرتے ہیں۔ یہاں بھی پانی ایک مسئلہ ہے۔ اختر نے جنوب کی دو ریا ستوں کے مابین ندی کے پانی کی تقسیم کے مسئلے کو افسا نہ کر کے پانی کی اہمیت و افا دیت اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے اور یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پانی قدرت کا عطیہ ہے۔ اس پر کسی خاص قوم، مذہب، ریاست، ملک کا قبضہ نہیں ہو نا چاہیے۔ یہ تو عالم انسانیت کے لیے ہے کہا نی کی شروعات ہی قاری کو جھنجھوڑ دیتی ہے:
’’ہماری زندگی پانی کے بغیر عذاب بن گئی ہے۔
’’ دنیا کے تین چو تھا ئی حصے میں پانی ہو نے کے با وجود ہم سب پانی کی ایک ایک بوند کے لیے تڑپ رہے ہیں...نہ ہمارے نلوں میں ٹھیک سے پانی پہنچتا ہے اور نہ ہی ہمارے کھیت سیراب ہو پاتے ہیں۔ نہ ہم بجلی پیدا کرسکتے ہیں اور نہ فیکٹری لگا سکتے ہیں۔‘‘
اپنے گھر آ ئے پڑوسی مہمان’بے‘ کے سامنے آ دھا گلاس پانی پیش کرتے ہو ئے’الگ‘ کی آ نکھیں اشک بار ہو گئیں۔‘‘ 
(پانی، افسا نوی مجمو عہ ایک سمپورن انسان کی گا تھا،اختر آزاد،2005ء)
کہانی دو ریاستوں کے مابین ندی کے پانی کے بٹوارے کے مسئلے سے شروع ہو تی ہے اور طے پاتا ہے کہ باندھ بنا کر دو نوں پانی جمع کریں اور پھر مسا وی طور پر پانی تقسیم ہو۔ باندھ کی تعمیر ہو تی ہے۔ باندھ مکمل ہونے پرافتتاح ہو نا ہے۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں کہ اچا نک مو سم خراب ہو جا تا ہے۔ زبر دست طوفان، بارش ، ہوا......خو شیاں پہلے غم اور بعد میں تبا ہیوں میں بدلنے لگتی ہیں۔ تبا ہی کا دور کئی دن چلتا ہے۔پھر ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ مدد اور تعاون کو سرکا ری اور غیر سرکا ری امداد آ نی شروع ہو جاتی ہے۔ ہر طرح کا سا مان مظلوموں اور تباہ حال لوگوں کو تقسیم کیا جا رہا ہے لیکن پینے کا پانی لا نا سب بھول جاتے ہیں۔ ایسے میں مخالف گروہ ،گندے پانی کو فلٹر کر کے بوتلوں میں بھر کر جائے واردات پر بھیجتا ہے۔ پانی کی بوتلوں پر لکھا ہے’’واٹر از یوز فل فور آل‘‘ یعنی پانی سب کی ضرورت کے لیے ہے۔ کہانی ہمیں پانی کے تحفظ کا سبق دیتی ہو ئی ختم ہو جا تی ہے۔
افسا نے میں مذہبی رنگ :اکیسویں صدی میں لکھے جانے وا لے افسا نوں میں مذہبی رنگ بھی کثیف ہو تا نظر آ رہا ہے۔ ادا رہ ادب اسلامی، اس طرف منصوبہ بند طریقے سے پیش قدمی کررہا ہے۔ ادا رہ ہذا کی افسا نوی نشست میں ایسے ہی افسا نے پیش کیے جاتے ہیں جو اصلاحی نقطۂ نظر کی حمایت کرتے ہیں یا جن میں فحاشی یا جنسی مسائل کا ذکر نہ ہو۔ اس ادب پر تبصرہ یا را ئے بعد میں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمارے بعض افسا نہ نگاروں کے یہاں یہ رجحان بڑھ رہا ہے۔ متعدد ایسے افسا نے شائع ہو رہے ہیں جن میں اصلاحی پہلو تو ہے ہی، لیکن وہ اسلامی اقدار کی پاسداری بھی کرتے نظر آ رہے ہیں۔اذان کو موضوع بنا کر لکھا گیا قیصر عزیز کا افسا نہ’’ مجنوں چچا کی اذان‘‘قابل توجہ افسا نہ ہے۔ افسا نے کا مرکزی کردار مجنوں چچا ہے جس کی اذان میں حد درجے کی جاذبیت اور کشش ہے:
’’ حی عل الصلوٰۃ.......حی عل الصلوٰۃ.......اس صدا کو سن کر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے سچ مچ کوئی میری حِس کو جھنجھوڑ رہا تھا کہ آ ؤ نماز کی طرف...... آ ؤ نماز کی طرف....... میرے رو نگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ پورے جسم میں ایک عجیب سی کپکپاہٹ ہونے لگی۔‘‘ 
(مجنوں چچا کی اذان،افسانوی مجمو عہ ایمن، قیصر عزیز،2010ء)
پو رے افسا نے میں اذان کا سحر چھایا ہوا ہے۔ مجنوں چچا کا ایسا کردار پیش کیا گیا ہے جو بعض مقام پر مصنو عی لگتا ہے۔ایسا ہی ایک افسانہ شکیل افروز کا ہے’’آ مین‘‘ جس میں شکیل افروز نے جنت اور جہنم کی منظر کشی عمدگی سے کی ہے۔ ساتھ ہی جنت کے مکینوں کے درمیان کی تفریق اور پھر اس کو ختم کر نے کی کا وشوں کو بھی قلمبند کیا ہے۔ جنت کی تصویر دیکھیں:
’’ تھو ڑے تھو ڑے فاصلے پر دودھ کی نہریں رواں دواں ہیں۔ بر فیلی جھیلیں بھی ہیں،خوش رنگ جھرنے بھی ہیں جن میں ٹھنڈا ٹھنڈا زلال بھی ہے۔
دلآویز پہا ڑوں کا سلسلہ ہے، خوبصورت وا دیوں کا منظر ہے۔ بے شمار شجر و حجر ہر دم اپنے رب کی عاجزی میں سجدہ ریز ہیں۔ ان پر خوبصورت پھول اُ گتے ہیں، پھل آ تے ہیں، سرخ سرخ سیب، سفید سفید جامن، بڑے بڑے انار، پکے پپیتے، دلفریب سنترے، کیلے ، انگور،انناس ، شریفے۔
حوضِ کوثر کا پانی اتنا میٹھا، ٹھنڈا اور روح افزا ہے کہ بس دل کیے جاتا ہے کہ پیتا ہی رہوں۔‘‘   

          (آمین،افسانوی مجمو عہ گرم تتلی،شکیل افروز،2011ء)
نہال آڑھوی اپنے افسا نے’’ عبادت‘‘ میں ابو بکر نام کا ایک ایسا کردار پیش کرتے ہیں جسے اللہ کی عبادت کا شوق اس طور سوار ہو تا ہے کہ وہ اللہ کو راضی کرنے اورسکون سے عبادت کر نے کے لیے گھر بار چھوڑ کر پہاڑی کے ایک غار کو اپنا ٹھکانہ بنا تا ہے اور دن رات اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاتا ہے:
’’اب وہ مستقل طور پر لمبا کرتہ اور سفید تہبند پہننے لگے تھے۔داڑھی لمبی ہو گئی تھی اور سر کے بال بھی زلف کی صورت میں شانے پر جھولتے دکھائی دینے لگے تھے
اگر وہ آ بادی میں جاتے بھی تو نظر جھکا ئے ہوئے آگے قدم بڑھا تے جاتے۔ لوگ ان کے تقدس بھرے چہرے کو دیکھ کر نظریں بچھانے لگتے ۔لیکن انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہو تا کہ لو گ اسے کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
انہیں تو بس ایک ہی فکر تھی کہ خدا ان سے را ضی ہو جائے۔‘‘
(عبادت، افسا نوی مجمو عہ شا ہکار، نہال آ ڑھوی2011ء)
نہال آ ڑھوی نے افسا نے کو اصلاحی رنگ دیتے ہو ئے یہ دکھایا ہے کہ صرف پہاڑوں کی تنہائی میں خدا کو یاد کرنا ہی عبادت نہیں بلکہ انسا نی خدمات ہی در اصل اللہ کی عبادت ہے یعنی حقوق العباد کی طرف توجہ مبذول کرا تا ہوا یہ افسانہ قا ری کو خدمت خلق کی طرف مائل کرتا ہے۔
’’ہجرت‘‘ میں سراج فا روقی نے دیو بندی اور بریلوی مسلک کے ماننے وا لوں کے درمیان شدید نفرت کو اس طرح پیش کیا ہے کہ قاری حیران و پریشان سا مذہب کی طرف سوا لیہ نظروں سے دیکھتا رہ جاتا ہے۔ ایک شخص کو مسجد سے دھکے مار کر اس لیے نکال دیا جاتا ہے کہ وہ وہا بی ہے اور حضور ﷺ کو نہیں مانتا۔ جب کہ وہ شخص بار بار کہہ رہا ہے کہ میں حضورؐ کو مانتا ہوں، پوجتا نہیں:
’’ اگلے دن جب وہ نماز پڑھنے گیا تو دیکھا مسجد دھو ئی جا رہی ہے، اس نے 
تفتیش کی۔
’’کیا ہوا؟آخر مسجد کیوں دھوئی جارہی ہے.........؟‘‘
ایک صا حب نے کہا۔’’ ایک وہا بی یہاں آ گیا تھا، مسجد نا پاک ہو گئی ہے...‘‘
’’ وہابی آ گیا تھا......اور مسجد نا پاک ہو گئی......‘‘وہ چونک پڑا
’’ یہ کیا تما شہ ہے؟ مسجد میں وہا بی کے آ نے سے مسجد نا پاک ہو جاتی ہے، سب فضول باتیں ہیں۔؟
مسجد میں موجود حضرات اس کو خونخوار نظروں سے دیکھتے رہے، مگر کسی نے کچھ کہا نہیں۔اس نے وضا حت طلب نظروں سے دیکھ کر آ گے کہا۔
’’ کیا کہتے ہیں آپ لوگ؟کہیں ایسا ہو تا ہے کیا..آں؟ ایک کا فر آ تا ہے مسجد کی تعمیر کر کے جاتا ہے تو مسجد نا پاک نہیں ہوتی۔ مسجد میں الیکٹریشن اور پلمبر غیر مسلم آ تا ہے تو مسجد نا پاک نہیں ہو تی اور ایک کلمہ گو بھا ئی آ تا ہے تو مسجد نا پاک ہو جاتی ہے.......کمال ہے آپ لوگوں کی سوچ پر......؟
(ہجرت، افسا نوی مجمو عہ’’ تم اب بھی‘‘ سراج فاروقی،2013ء)
سراج فاروقی نے ایک اہم مو ضوع کی طرف توجہ مبذول کرا ئی ہے۔ مسجد میں نہ صرف اسے دھکے دے کر نکال دیا جاتا ہے بلکہ محلے میں اس کا اور اس کے گھر کے لوگوں کا بائکاٹ کیا جاتا ہے بالآخر وہ محلہ چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
وا قعہ کربلا، دنیا کی تاریخ کا ایسا اہم واقعہ ہے کہ اس نے ادب کی بہت سی اصناف کو متا ثر کیا ہے۔ آج بھی اس واقعے کو ادیب و شاعر اپنے اپنے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وسیم حیدر ہا شمی نے اپنے افسا نے’’ فتح نامہ‘‘ میں کر بلا کے مناظر کو زندہ کر دیا ہے۔انہوں نے افسا نے میں با طل طا قتوں کی عارضی فتح کو پیش کیا ہے۔ حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی شہا دت اور یزید کے ساتھیوں کی سازشیں، خبا ثتیں اور ظلم و زیا دتیوں کو افسا نہ کیا ہے۔ یزید حکم صادر فر ما رہا ہے:
’’ مجھے تم بہا دروں سے یہی امید تھی۔ میرا اگلا حکم یہ ہے کہ مخا لف کے بچے ہو ئے تمام افراد کو گرفتار کر لیا جائے۔ ان کا تمام مال و اسباب ضبط کر لیا جائے۔ عورتوں کے سروں پر چادریں تک نہ چھو ڑی جائیں۔ تمام عورتوں اور بچوں کو بے محل اور کجا وا اونٹوں پر بٹھا کر مرحوم سردار کے بیمار بیٹے کے ہا تھوں میں ہتھکڑی، پیروں میں بیڑیاں،کمر میں لنگر اور گلے میں خا ر دار طوق ڈال کر پا پیادہ ما بدو لت کے حضور پیش کیا جائے۔‘‘
سر دار اپنے بیان کے اختتام پر فر ماتا ہے:
’’اس بات کا خیال رہے کہ یہ جنگ میں نے کسی معمولی بادشاہ یا سردار کے خلاف نہیں جیتی بلکہ ایک مستحکم نظام پر فتح پائی ہے۔ آنے وا لا کل رسول ؐ کی نہیں بلکہ میری سنت پر عمل کرے گا۔‘‘
(فتح نامہ، افسا نوی مجمو عہ’کرچیاں‘ ،وسیم حیدر ہاشمی،2007ء)
با طل کے بلند و بانگ دعوے کھو کھلے ثا بت ہو ئے اور شکست خو ردہ ہی اصل فاتح رہے۔ فتح خود پر شرسار ہوئی۔
دہشت گردی اور فرقہ پرستی:
باطل کی سر پرستی کر نے وا لے شیطانِ اعظم ابلیس کو مرکزی کردار بنا کر طا ہر انجم صدیقی نے’’ ابلیس اعظم‘‘ تخلیق کیا۔ طا ہر انجم نے فنی مہا رت کے ساتھ گجرات کے فساد کے منظر کو پیش کیا ہے۔ فسادات میں ظلم و زیا دتی کر نے وا لے جب’’ جے بھوا نی‘‘،’’ ہر ہر مہا دیو‘‘،’’ رام راج زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں تو ابلیسِ اعظم اپنے تخت پر بیٹھا مسکراتا ہے اور اپنے سا تھیوں سے اس بابت دریافت کرتا ہے کہ آخر یہ کیسا جلوس ہے، کیسی ریلی ہے؟ تو اسے بتایا جاتا ہے:
’’ یہ جلوس گورو یاترا ہے......فخریہ ریلی؟‘‘
گو رو یاترا؟....فخریہ ریلی.....کس بات پر فخر؟‘‘
ابلیس نے بھنویں سکیڑتے ہو ئے پو چھا:
کالے لباس وا لے نے سینہ تان کر جوا ب دیا
’’ فساد.... دنگے......لوٹ مار.....قتل......غارت گری اور بلاتکار پر فخر...‘‘
’’ نہیں......‘‘
ابلیس نے اپنی پو ری شیطا نی قوت سے چلاتے ہوئے نفی میں سر ہلا یا۔‘‘
( ابلیس اعظم، افسا نوی مجمو عہ، بلیک اینڈ وہائٹ، طا ہر انجم صدیقی،2007ء)
ابلیس کا رد عمل اتنا سخت ہو تا ہے کہ وہ بتا نے وا لے کی گردن اُ ڑا دیتا ہے۔ افسا نہ نگار نے عمدگی سے افسا نے کو ختم کیا ہے۔ ابلیں کے یہ جملے خصوصاً ملا حظہ ہوں:
’’فخر......اور وہ بھی بدی پر.....کبھی نہیں...... میں مانتا ہوں میرا وجود بدی پھیلا نے کے لیے ہے....میں مانتا ہوں کہ میں بدی کا پیغامبر ہوں.....مگر برا ئی کو فخر کے قابل نہیں سمجھتا.... بلکہ خود میں نے آج تک اپنی بدی پر کبھی فخر نہیں کیا... معلوم ہے کیوں.... کیوں کہ شا ید خدا کو میری یہی ادا پسند آ جائے اور وہ مجھے معاف کردے..... مگر یہ انسان.......‘‘
طا ہر انجم صدیقی نے خو بصورتی سے بلیک سے وہائٹ کو بر آ مد کیا ہے۔ یعنی اندھیرے سے رو شنی کی کرنیں...ایک اچھا اصلا حی افسانہ ہے۔
رضا امام نے’’ العطش العطش.....‘‘ میں مذہبی جنون کو تجارت اور غنڈہ گر دی کے لبا دے میں پیش کیا ہے۔ العطش...العطش میں رضا امام نے ایک ایسا کردار پیش کیا ہے جو رمضان کے مہینے میں بازار کی سب دکا نوں کے بند ہونے کے سبب غیر مسلم مسا فروں کو ہو نے وا لی پریشا نیوں سے پریشان ہو جاتا ہے۔ پانی کی تلاش میں ایسے ہی دو لوگوں کو وہ دو پہر کے وقت اپنے گھر لا کر پانی پلا تا ہے اور اگلے دن سبیل لگا کر بیٹھ جاتا ہے جس پر بینر لگا ہے’’ پانی پیو تو یاد کرو پیاس حسین کی‘‘
در اصل مدو میاں ایک ایسا کردار ہے جو یہ مانتا ہے کہ رو زہ تو مشکلات میں، پیاس میں، دھو پ میں ہی اچھا ہو تا ہے۔ کچھ دن بعد ہی ان کی سبیل کی مخا لفت شروع ہو جاتی ہے اور آ خر کار اس کی دکان کو غنڈے توڑ کر آگ لگا دیتے ہیں۔ رضا امام نے افسا نے میں مذہبی شنا خت کے پس پشت کا ر فر ما جذ بات اور اس سے پھیلتے شر کو عمدگی سے افسا نہ کیاہے۔
مذہبی شدت پسندی نے ہی ہمیشہ ظلم ڈھائے ہیں۔ بد امنی، فرقہ وا ریت اور فسادات کا سبب بنی ہے۔ خواہ معاملہ گو دھرا کا ہو، گجرات فساد ہوں، با بری مسجد کا انہدام ہو یا پھر فلسطین پر دہشت گردا نہ حملے ہوں اور ان سب حا لات میں ایک چہرہ اور اُبھرا ہے وہ ہے ’’دہشت گردی خا تمہ مہم‘‘ یہ مہم وہ لوگ چلا رہے ہیں جو اس مہم کی آ ڑ میں اپنے دشمنوں کو ٹھکانے لگا رہے ہیں، وہ گجرات ہو یا فلسطین.......نئی صدی کا یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اسی کو موضوع بنا کر ایم مبین نے ایک خو بصورت افسا نہ’’ نئی صدی کا عذاب‘‘ قلم بند کیا۔ یہ افسا نہ ہےئت میں بھی ایک تجر بہ ہے۔ اس میں کہانی اپنی روایتی انداز میں نہیں ہے، نہ کوئی مرکزی کردار، نہ وا قعاتی تسلسل اور نہ ہی عروج....در اصل دہشت گردی، فسادات وغیرہ کے قومی اور بین الاقوامی وا قعات کو’کو لاژ‘ کی شکل میں پیش کردیا گیا ہے۔ افسا نے میں موضوع کی زبردست گردان ہے اور موضوع ہی یہاں کردار کے طور پر سامنے آ تا ہے۔ یہ افسا نہ نہ صرف دہشت گردی اور فرقہ واریت کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ امن و شانتی اور دہشت گردی خا تمہ مہم کی آ ڑ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو بھی دلیری سے بے نقاب کرتا ہے۔ میڈیا کے ذریعے پھیلا ئی جانے وا لی دہشت کی طرف بھی بلیغ اشا رے جا بجا ملتے ہیں:
’’ داڑھی وا لا...‘‘
’’ پکڑو! اسے بچ کے جانے نہ پائے‘‘
’’ مارو اسے ما رو...... یہ دہشت گرد ہے۔اس سا ری تبا ہی کا ذمہ دار ہے۔
ایک اور تصویر دیکھیں۔
’’ اے رک جا.......کیا نام ہے؟‘‘
’’ عبد الرحیم! ‘‘
’’پکڑ لو اسے، یہ کوئی دہشت گرد لگتا ہے۔اس کی داڑھی اس بات کا ثبوت ہے۔‘‘
اپنے کالے کا رناموں پر جشن منائے جا رہے ہیں۔ گورو یاترا نکا لی جا رہی ہے۔
’’گورو یاترا جاری ہے۔
لوگ یاترا میں شامل اشتعال انگیز نعرے لگا رہے ہیں۔
یاترا کا میر کارواں اشتعال انگیز اور نفرت آ میز تقریر کررہا ہے۔‘‘
عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف مہم کے پس پردہ کیا ہو رہا ہے۔اس کا بھی نظا رہ کریں۔ ایک تصویر۔
’’ ہم دنیا سے دہشت گردی کو اکھاڑ پھینکنا چا ہتے ہیں۔ ہماری جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے۔ ہم جس ملک کو دہشت گرد قرار دے دیں، دنیا کو ماننا ہو گا کہ وہ ملک دہشت گرد ہے۔‘‘
( نئی صدی کا عذاب،ایم مبین،افسانوی مجمو عہ، نئی صدی کا عذاب، ایم مبین،2003ء)
دہشت گردی کو نئے معنوں میں پیش کرتے ہو ئے خورشید حیات نے’’ انسا نیت کے دشمن‘‘ میں دو ہندو ۔مسلم دوستوں را کیش اور رحیم کے ذریعہ طنزیہ انداز میں افسا نہ رقم کیا ہے۔ ہر طرف دہشت گردی کا ما حول ہے۔ آگ زنی، قتل و خون، انسا نی رشتوں کی لا شیں ہیں۔ دو نوں دوست حیران وپریشان ہیں:
’’رحیم میرے بھا ئی، ابھی کوئی ہندو نہیں، کوئی مسلمان نہیں، سبھی انسا نیت کے دشمن ہیں۔ چلو ہم دو نوں اس شہر؍ جنگل سے دور چلیں۔غموں سے لدے ہو ئے دو نوں را کیش اور رحیم ایک دوسرے کو سہا را دیتے ہو ئے آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے معصوم ذہن میں طرح طرح کے سوا لات ابھر رہے تھے مگر وہ اپنے سوا لوں کا جواب کس سے پو چھیں، کس سے مانگیں؟‘‘
( انسا نیت کے دشمن، افسا نوی مجمو عہ’ایڈز‘ خورشید حیات2000ء)
خورشید حیات نے بڑی فنی مہا رت سے افسا نہ کے ذریعہ معصوم ذہنوں میں چلنے وا لے سوالات کو آواز دی ہے۔ نئی نسل جو یہ سب نہیں جانتی، انہیں اس میں ملوث کیا جا رہا ہے۔ در اصل یہ سب سے بڑا جرم ہے اور ایسا کر نے والے سب سے بڑے انسا نیت کے دشمن ہیں۔ افسا نے کے آخر میں دو نوں معصوم دوست بھی پو لس کی گو لی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ارشد نیاز نے’’ یہ جہاد نہیں انتقام ہے‘‘ میں فلسطین پر اسرائیل کی جا رحیت کی تصویر کشی کی ہے۔کہانی کا مرکزی کردار حشیم ہے جو فلسطینی عوام پر گذر رہے حا لات کو جہاد کا متقا ضی سمجھتا ہے جب کہ اس کی بہن اُ سے کہتی ہے۔ یہ جہاد نہیں انتقام ہے۔ ارشد نیاز نے افسا نے میں جہاد اور انتقام کی تفریق کو وا ضح کیا ہے۔
عورت کا نیا چہرہ :
اکیسویں صدی میں جہاں بہت سا رے تغیرات سا منے آ ئے وہیں تا نیثیتFeminismپر خا صی گفتگو ہوئی۔نئے نئے مفا ہیم سامنے آ ئے ۔اردو افسا نے میں بھی عورت کے مسا ئل، عورت کی زندگی اور مرد کے ساتھ اس کا رویہ بھی تبدیل ہوا۔ اب عورت بیسویں صدی کی عورت کی طرح بے بس، مجبور اور مرد کی غلام نہیں رہی۔ اس کے اندر خود اعتمادی، حوصلہ، ہمت و جرأت اور حا لات کا سامنا کر نے کی قوت میں شدت آ ئی ہے۔ وہ اپنے مسا ئل خود حل کررہی ہے۔ یہ ا لگ بات ہے کہ وہ آزاد ہو کر بے راہ رو بھی ہو ئی ہے اور اس نے بعض معاملات میں ایسے اقدام کیے ہیں جو معاشرے میں قابل قبول نہیں ہیں اور اسے سماج اچھا نہیں سمجھتا، لیکن بعض خوا تین کا خیال ہے کہ یہ عورت کی ذہنی آزادی کا عہد ہے اور اب اسے اس کی مرضی سے زندگی گذار نے دی جائے۔ اردو افسا نے میں ایسے متعدد کردار سا منے آ ئے ہیں پھر حیرت اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے کردار خواتین افسا نہ نگاروں کے یہاں زیا دہ دیکھنے کو مل 
رہے ہیں۔
’’اکیسویں صدی کی نرملا‘‘ اشرف جہاں کا ایسا افسا نہ ہے جس کی مرکزی کردار مریم نامی ایک مو ڈرن لڑ کی ہے۔ اسے شروع ہی سے مظلوم اور بے بس عورت سے شدید نفرت ہے۔ وہ ہر اس لڑ کی سے نفرت کر تی ہے جو مرد کے ہاتھوں ستا ئی جا تی ہے۔ ڈرا مے میں لڑ کی کا کردار عمدگی سے ادا کر نے پر جب اس کے دوست فراز نے اس کی تعریف کرتے ہو ئے اسے پریم چند کی نر ملا کہہ دیا تو وہ غصے میں لال ہو جاتی ہے اور یوں گویا ہو تی ہے :
’’خبر دار جو مجھے نر ملا کہا۔ نفرت ہے مجھے ایسی جا ہل گنوار عورتوں سے جو سماج کے بنا ئے ہو ئے اصو لوں کی چتا پر جل جا تی ہیں۔ نفرت ہے مجھے نر ملا کے کردار سے......‘‘
(اکیسویں صدی کی نرملا، افسا نوی مجموعہ:اکیسویں صدی کی نرملا، اشرف جہاں2009ء)
لیکن یہی مریم جب ہمیشہ کے لیے ہندو ستان چھوڑ کر جا رہی ہو تی ہے تو اس سے قبل کی رات فراز کے ساتھ بسر کرتی ہے اور فراز کی نشا نی کو لندن میں بھی نہ صرف دنیا میں لا نے کا ذریعہ بنتی ہے بلکہ اس کی پرورش مشرق انداز سے کرتی ہے اور اتفاق ایسا کہ وہ لڑ کی فراز کے بیٹے کی بہو بنتی ہے۔ مریم سا ری زندگی یوں ہی گزار دیتی ہے۔ عمر کے آخری حصے میں اس کے خیالات کچھ یوں ہو تے ہیں:
’’عورت سماج کی نہیں....مذہب کی نہیں.....اصو لوں کی نہیں.....اپنے احساس کی قیدی ہو تی ہے۔ یہ اس کا احساس ہے کبھی تمنا بن کر کبھی پیار بن کر اسے پا بند کر دیتا ہے۔ وہ آزاد کہاں ہو سکتی ہے۔ نقاب اتارو تو جسم ننگا ہو تا ہے۔روح کو دیکھا نہیں جا سکتا۔ عورت کی آزادی اور پا بندی بھی ایسی ہی ہے۔‘‘
بظا ہر وہ سماج سے لڑ تی رہی لیکن آ خر کیا ہوا؟ اس کا انجام کیا ہوا؟ وہ موت کو گلے لگا لیتی ہے ۔ یہ بھی ہمارے سماج کی ایک تصویر ہے۔ کچھ ایسی ہی ایک تصویر دیکھئے سیدہ نفیس با نو شمع کے افسا نے’’برف کا آ دمی‘‘ میں یہاں شہاب نامی مرد کردار ہے جو بچپن ہی سے عورت کا رسیا ہے۔ گا ؤں سے شہر آ کر بہت بڑا آدمی بن جا تا ہے۔ عورت کی بھوک، رو ز بروز بڑھتی جا تی ہے۔ ہر طرح کی عورت کا وہ استعمال کرتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اُ سے عورت سے، عورت کے جسم سے نفرت ہو جاتی ہے اور وہ مذہب کی طرف مائل ہو جا تا ہے۔ روزہ، نماز، حج......عبا دتوں میں مصروف ومشغول....ایسے میں ایک بار پھر اس کی زندگی میں ایک بہت شائستہ، مہذب، مذہبی اور سلیقہ مند لڑ کی آتی ہے اور اب وہ مذہبی نقطۂ نگاہ سے بغیر نکاح کے اسے ہاتھ بھی لگانا پسند نہیں کرتا۔ وہ دونوں ایک بستر پر ہو تے ہیں لیکن شہاب کے اندر کا پا کیزہ مرد اسے نکاح کے بعد ہی حاصل کر نا چا ہتا ہے۔ منگنی بہت دھوم دھام سے ہو تی ہے اور اسی محفل کا یہ وا قعہ دیکھئے جب حِنا کی ایک سہیلی اس سے اپنے بوا ئے فرینڈ کے بارے میں دریافت کر تی ہے: انکل نہیں ہیں.....مگر میں بھی تو آ نٹی نہیں بن سکتی۔‘‘
( کھو کھلے رشتے، افسا نوی مجمو عہ، چا ند میرا ہے، غزالہ قمر اعجاز،2011ء)
غزالہ قمر نے بڑی خو بصورتی سے آ ج کی جاب کر نے والی لڑ کی کے کرب کو پیش کیا ہے۔
روایتی عورت :
عورت ایثار کی دیوی ہو تی ہے۔ اس میں دوسروں کے لیے کام کر نے کا جذبہ زیا دہ ہو تا ہے۔ آج کے افسا نے میں عورت کے ایسے روپ بھی پیش ہو رہے ہیں۔ شبا نہ رضوی نے’’ زندگی کی تلاش میں‘‘ ایسی ہی لڑ کی کا کردار پیش کیا ہے جو وا لد کی موت کے بعد اپنی تعلیم ترک کر کے چھوٹے بھا ئی بہن کے لیے خود کو وقف کردیتی ہے۔ دوسروں کے لیے جیتے جیتے اسے اپنا خیال، اپنی شا دی کی بات۔ وہ یہ سب بھول گئی۔ بھا ئی کی شا دی کروا ئی تو وہ کچھ دن بعد ہی بیوی کو لے کر الگ ہو گیا:
’’دن تو دفتر میں گذر جاتا تھا، اکیلے ٹھنڈا کھانا دیکھ کر ہی اس کی بھوک مر جاتی تھی۔ بس سکون تھا تو صرف اس بات کا کہ اس نے اپنے فرا ئض کو بخو بی انجام دیا تھا اور خود کو قسمت کے بھرو سے نہیں چھو ڑا تھا،نا ہی کسی پر بو جھ بنی تھی ۔ایک لڑ کی ہونے کے با وجود اس نے جہاں تک ممکن تھا اپنی فیملی کے لیے بہت کچھ کیا تھا۔ بس اس بھاگ دوڑ میں اسے اپنے بارے میں سو چنے کی فرصت نہیں مل سکی تھی۔‘‘
( زندگی کی تلاش میں،افسانوی مجمو عہ، زندگی کی تلاش میں،شبا نہ رضوی2010,ء)
رفعت جمال نے اپنے افسا نے’ بیسا کھی‘ میں عورت کے تعلق سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ سماج کی کڑوی سچا ئی ہیں۔ شو ہر ٖحا دثے میں ایک ٹا نگ گنوا بیٹھتا ہے۔ اسپتال میں بیٹھے بیٹھے کلپنا، نجا نے کیا کیا کلپنا کر لیتی ہے۔ اس کا ذہن سو چوں کی چو پال بنا ہوا ہے:
’’عورت کو اعلیٰ مقام دینے، سماج میں اس کے یکساں حقوق کی بات آج بین الاقوامی مدعا بن گئی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی بڑے بڑے پلان بن رہے ہیں۔ سو سا ئٹیاں چل رہی ہیں مگر اس کا جو جائز حق بھگوا ن نے عطا کیا تھا وہ بھی اس سے چھین لیا گیا۔ خاص طور سے عورت نے جب گھر چھوڑ کر مرد کے مانند کام کر نے کی ٹھان لی۔ وہ خو شی کی تلاش میں گھر سے نکلی مگر غم راہ میں کھڑے تھے وہی ساتھ ہو لیے۔ اس کا وجود خطرہ میں پڑ گیا۔ اس کام کاجی عورت کی زندگی اس لکڑی کی بیساکھی کے مانند ہو گئی ہے جس کے ٹوٹنے، گھن لگنے پر پھینک دیا جاتا ہے اور با زار سے ایک نئی بیسا کھی آ جاتی ہے۔‘‘
( بیسا کھی، افسا نوی مجمو عہ شکستِ ساز، رفعت جمال،2005ء)
رفعت جمال نے عورت کو بیساکھی کے طور پر دکھایا ہے کہ وہ مرد کے بے سہا را ہو جانے کے بعد بھی اس کی بیساکھی بنی ہو ئی ہے جب کہ اسے ایسی بیساکھی سمجھا جاتا ہے جو بے وقعت لکڑی کے علاوہ کچھ نہیں۔ نگار سلطا نہ بدا یونی کے افسا نہ ’’ عورت‘‘ میں بھی عورت کی اہمیت کو پیش کیا گیا ہے۔ وہ عورت کو کائنات کا حسن ثا بت کرتی ہیں جس کے بغیر کائنات بے رنگ ہے مگر اس عورت کو اس کا شو ہر بات بے بات مارتا پیٹاتا ہے پھر بھی عورت خاموش رہتی ہے۔ شا ید اس لیے کہ وہ آج بھی ایثار کی مو رتی ہے۔ لیکن جب ظلم و ستم اور بے وقعت کر نے کی حد پا ر ہوجاتی ہے تو یہی عورت فیصلہ کن رخ اختیار کر لیتی ہے۔ مبینہ امام اپنے افسا نے’ پیا س کا صحرا‘ میں یہی دکھا تی ہیں کہ کس طرح ایک لڑ کی خود کو اپنی سسرال میں کھپا دیتی ہے اور ایسے میں اس کو، اس کے شوہر کی بے اعتنا ئی کا سامنا کر نا پڑے تو وہ ایک دن ایسا ہی قدم اٹھاتی ہے۔ وہ گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور جب اس کے شو ہر کا خط اسے ملتا ہے ، جس میں اسے وا پس بلایا جاتا ہے تو وہ سخت ہو جا تی ہے :
’’اب میں اس کے پاس جانا نہیں چا ہتی، میری ویران، چٹیل اور ٹوٹی ہو ئی زندگی میں میرے ماضی کے کچھ لمحات یہاں دفن ہیں، میں اس دفنائی ہوئی یاد کو زندگی دینا چا ہتی ہوں۔ یہی سہا را میری آگے کی زندگی ہے،اس لیے میں پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں چا ہتی۔‘‘
( پیا س کا صحرا،افسانوی مجمو عہ :پیاس کا صحرا، مبینہ امام2001ء)
عورت کی ممتا :
سروشہ نسرین قا ضی اپنے افسا نے’ بیمار غم‘ میں عورت کی ممتا کا خوبصورت مرقع پیش کرتی ہیں۔ ایک بے اولاد وملا کا کردار ہے جو قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتا ہے۔ جنگل میں ملنے وا لے۵۔۶ سا ل کے بچے کی دیکھ بھال اور تربیت میں ایک ماں کی ایسی ممتا جاگتی ہے کہ جب اس کے اصل والدین آتے ہیں تو نہ تو وہ خود اور نہ ہی بچہ، دو نوں سے جدا ہونے کو تیار ہیں:
’’وہ بے تحا شا اپنے بچے اپنی گود میں لینے کے لیے مچلنے لگی تھی۔ گا ؤں کی عورتیں اور مرد جو پولیس کے تعا قب میں وہاں تک چلے آ ئے تھے،اسے سنبھالنے کی کوشش میں جٹے ہو ئے تھے۔ ادھر بچہ اپنی ماں کی گود میں بے قا بو ہو کر وملا کے لیے تڑپ رہا تھا۔ پولس نے بچے کے ما تا پتا کو سمجھا یا اور ان دو نوں کو اپنی جیب میں بٹھا کر بچے کو ساتھ لے کر روا نہ ہو گئے ۔ ادھر وملا کی جگر خراش چیخیں، اُ دھر بچے کا بلک بلک کر ممی ممی پکار نا، ایک کہرام مچ گیا تھا۔‘‘
( بیمارِ غم، مجمو عہ نشیب و فرازسروشہ نسرین قا ضی2008ء )
ماں کی ممتا رنگ لائی۔ بچے کو جب اس کے وا لدین گھر لے گئے تو وہ اپنی ماں کے غم میں شدید بیمار پڑ گیا اور ڈاکٹر کے مشورے سے وملا کو بیٹے کے سا تھ رہنے کا مو قع مل گیا۔ کچھ ماہ بعد وملا کو پھر اس کے گا ؤں بھیج دیا گیا۔ ممتا بے قابو ہو تی رہی اور بالآ خر وملا اپنے بیٹے کی جدا ئی بر داشت نہیں کر پا تی ہے اور موت کو گلے لگا لیتی ہے۔ ایک ماں کی بچوں کے لیے ممتا کی ایک اور عمدہ کہا نی ’’رین چیک‘‘ ہے جسے عذ را نقوی نے تحریر کیا ہے۔ یہاں ایک عورت اپنے بچوں عا مر اور ثنا کے مستقبل کے لیے فکر مند ہے، در اصل یہ کہا نی کنا ڈا کی ہے۔ کنا ڈا کا ما حول، بچوں کا آزاد خیال ہو نا، دوستوں کو ماں باپ سے زیا دہ اہمیت دینا، فیشن پرستی، دوستوں سے ہر وقت فون پر بات کرنا، فلم اور لانگ ڈرا ئیو اور ڈیٹنگ پر جانا۔ایک مشرقی عورت کی ممتا اپنی بیٹی کو بے راہ رو ہو تی دیکھ رہی ہے۔ غصہ ہو تی ہے چا ہتے ہو ئے بھی کچھ نہیں کر پا رہی ہے۔ ایک مجبور، مشرقی عورت کی ممتا کی عمدہ کہا نی ہے۔ ممتا کی ایسی ہی ایک کہا نی عروج فا طمہ نے تحریر کی ہے’اعتبار‘ یہاں ایک ایسی ماں کی کہا نی ہے جس کی بڑی بیٹی ریشماں زیا دہ لکھ پڑھ نہیں پا ئی اور اس کی شادی ایک وارڈ بوا ئے سے کر دی گئی۔ ریشماں کے سا تھ اس کے سسرا ل میں بہت برا سلوک ہو تا ہے، اسے جاہل گنوار کہہ کر مارا پیٹا جا تا ہے۔ یہ سب ماں کے سامنے ہو تا ہے تو وہ اپنی چھوٹی بیٹی نجمہ کو پڑھا نے کی ٹھان لیتی ہے، وہ باپ سے چھپا کر نجمہ کو اسکول میں داخل کرا دیتی ہے تو اس کا باپ اسے اسکول سے کھینچ لا تا ہے۔ بیوی بیٹی کو پڑھا نا چا ہتی ہے لیکن شو ہر کے کچھ اور ہی منصوبے ہیں۔ وہ ایک دن نجمہ کو پڑھا نے کا بہا نہ بنا کر شہر میں کسی کے ہا تھوں بیچ دیتا ہے۔ ماں بے بس تڑپ کر رہ جاتی ہے۔کہانی جہاں ممتا کی ہے وہیں ایک انسان کی بے ضمیری کو بھی پیش کرتی ہے۔
ماں کے جذ بات اور اولاد کے لیے ایثار و قربانی کی ایک عمدہ کہا نی شرافت حسین کی’ اماں‘ ہے جس کی اپنی کوئی اولاد نہیں ہے لیکن جو محلے کے سبھی بچوں کو اپنی اولاد سمجھتی ہے اور فرقہ وارا نہ فسادات سے پریشان ہے کہ اس کے بچوں کا کیا ہو گا۔
بے ضمیری اور خود غرضی :
انسان کی بے ضمیری کو نشاں زیدی نے اپنے افسا نے’’ اصلی وا رث‘‘ میں خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ایک شخص اپنی چھو ڑی ہو ئی بیوی اور بچوں سے اس لیے محبت کا ڈھونگ کرتا ہے کہ میلے میں آگ لگنے سے اس کی بیٹی جل کر مر گئی تھی اور دوسری بیٹی اور بیوی معمو لی طور پر جلے تھے، کہ سر کار نے جو معا وضہ دینے کا اعلان کیا ہے وہ اسے ملے گا۔ کیونکہ اس کی بیوی، بیٹی کا اصلی وا رث کوئی اور نہیں تھا۔ کیا انسان اتنا بے ضمیر بھی ہو سکتا ہے؟
آج کی برق رفتار زندگی نے انسان کو کتنا خود غرض اور بے ضمیر بنا دیا ہے کہ وہ اپنے سگے رشتوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔’’ آخری پڑاؤ کا کرب‘‘ میں پرویز اشرف نے ایک ایسے ہی شخص کی کہا نی قلم بند کی ہے جس کی بیوی اس سے لڑ جھگڑ کر چلی جاتی ہے وہ بیٹے کی پرورش کرتا ہے، لکھا تا پڑھا تا ہے اور اچھی جاب لگنے پر بیٹا دوسرے شہر میں چلا جاتا ہے وہیں شادی کر لیتا ہے۔ پو تا ہو تا ہے۔ اِ دھر دادا خوشی سے بے قا بو ہے، پو تے کو دیکھنا چا ہتا ہے اُ دھر بیٹے بہو، باپ کے پاس آ نے کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔ جذ بات کی عکاسی کی اچھی کہا نی ہے۔
جب بو ڑھے ماں باپ کے ساتھ بچے برا سلوک کرتے ہیں اور یہ بات عام ہو نے لگتی ہے تو پھر بٹوا رہ جیسی کہانی جنم لیتی ہے۔جس میں ایک ماں باپ اپنی جا ئیداد کی تقسیم کی وصیت کرا کے اسے اپنے وکیل کے پاس رکھوا دیتے ہیں اور تینوں بیٹوں کو یقین دلا تے ہیں کہ سب کو بہت کچھ ملے گا۔ بچے لالچ میں خد مت کرتے رہتے ہیں اور بالآخر ان کی موت کے بعد بٹوارے کی وصیت پڑھی جاتی ہے جس میں آ دھی سے زیا دہ جائیداد رفا عی ادا روں کو اور با قی بچوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔نصرت شمسی کی تحریر کردہ ’’بٹوا رہ‘‘ آج کے حا لات کی ایک عمدہ کہا نی ہے۔
منٹو کے اثرات :
بیسویں صدی کا ایک اہم افسا نہ نگار سعادت حسن منٹو ہے۔ منٹو نے اردو افسا نے کو جس طرح بلند معیار عطا کیا اور کچھ لا زوال افسا نے اردو کو عطا کیے، وہ انہیں کا حصہ ہے۔ منٹو جیسے کم ہی افسا نہ نگار ہیں ، جن کے اثرات بعد کی نسلوں پر مرتسم ہو ئے ہوں۔منٹو کی تقلید بیسویں صدی میں بھی ہو تی رہی ہے۔ اکیسویں صدی کے کئی افسا نہ نگار شا ہد اختر، قمر قدیر ارم، اختر آزاد، ابرار مجیب،تسنیم فاطمہ، مہتاب عا لم پرویز وغیرہ نے جنسی نفسیات پر کامیاب افسا نے قلم بند کیے ہیں۔ شا ہد اختر کا ایک عمدہ افسا نہ’’ سمار‘‘ جنسی نفسیات کا اچھا افسا نہ ہے۔ افسا نے میں نئی نسل کی بے راہ رویاں ہیں۔موج مستی، ایک دوسرے کو فلرٹ کرنا، بی ایف دیکھنا اور وہ سب کچھ جو آج کل مغرب میں عام ہے۔ سیف کہا نی کا مرکزی کردار ہے جو آ وارہ اور عیاش ہے۔ آوارگی اور عیا شی میں ایک لڑ کی ذکریٰ اسے اتنی پسند آ تی ہے کہ وہ اس سے شادی کر نا چاہتا ہے۔ذکریٰ حسن و جمال کا خوبصورت نمونہ ہے،اس کی صرف وا لدہ ہیں۔ دو نوں بڑے گھر کے فرد ہیں۔ ذکریٰ کی شادی ہو جا تی ہے۔ ذکریٰ کی ماں درمیانہ عمر کی ایک خوبصورت بدن کی عورت ہے جو اپنے جسم کو صحیح رکھنے کے لیے ہر طرح کی کثرت اور دوا ؤں کا استعمال کرتی ہے۔ سیف اور ذکریٰ کے بیٹے کی آ مد ہے۔ سیف کو انگلینڈ وا پس جانا ہے۔ ذکریٰ کی ماں اور سیف اکثر ساتھ رہتے ہیں۔ ذکریٰ کی ماں کھلے دل کی عورت ہے۔ جنسی مسائل پر اکثر کھل کر گفتگو کر تی ہے۔ وہ دا ماد سے کوئی شرم نہیں کرتی اور اسی کھلے ما حول میں وہ سب کچھ ہو جاتا ہے جو صرف ذکریٰ کا حق ہے۔ سیف، ایک خط ذکریٰ کے نام لکھ کر شرمندہ سا انگلینڈ آ جا تا ہے۔ ذکریٰ کو کچھ بعد میں آ نا تھا۔ سیف وہاں ذکریٰ کا انتظار کرتا ہے اور ایک دن اسے پتہ چلتا ہے کہ میڈم آ رہی ہیں تو وہ ائیر پورٹ جاتا ہے۔ وہاں ذکریٰ کی جگہ اس کی ساس ہو تی ہے۔ وہ بار بار ذکریٰ کے بارے میں پو چھتا ہے:
’’ ذکریٰ کے نہ آ نے کی وجہ آپ کیوں نہیں بتا رہی ہیں۔‘‘
’’ ذکریٰ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ ‘‘ان کا لہجہ بالکل سپاٹ تھا۔ سیف نے اتنے زور سے بریک لگایا کہ کار کا رخ دوسری طرف کو ہو گیا۔ کسی طرح خود پر قا بو رکھتے ہو ئے گا ڑی کنارے کھڑی کی۔ اس کے بعد اسٹیرنگ پر سر رکھ کر زار و قطار رو نے لگا۔ موم کی آواز اب گہرے کنویں سے آ تی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔‘‘ تمہا را خط پڑھنے کے بعد وہ بے ہوش ہوگئی تھی۔ دو گھنٹے بعد اسے ہوش آ یا تھا۔ اسی شام اس نے زہریلی گو لیاں کھا لیں۔ یہ کام وہ اپنے باپ کی موت کے بعد کر نے وا لی تھی مگر لو گوں نے سمجھا بجھا کر روک لیا تھا۔ اسے سب کچھ بتا نے کی کیا ضرورت تھی؟ تمہیں تو معلوم تھا کہ وہ کتنیSentimetal لڑکی تھی اور ایسے لوگوں کا انجام یہی سب ہو تا ہے۔ وہ موم کی طرف دیکھ تو نہیں پایا پر یہ سوچ رہا تھا کہ ایسی بھی مائیں
ہو تی ہیں۔
(سمار، افسا نوی مجمو عہ برف پر ننگے پا ؤں، شا ہد اختر2001ء)
شا ہد اختر نے بڑی فن کا ری سے ایسا کردار پیش کیا ہے جو آج کے عہد کا کردار ہے۔ شا ہد اختر کی کہانی پڑھتے ہوئے ا چا نک وا جدہ تبسم کی یاد تازہ ہو گئی۔ ان کا افسا نہ’’ نو لکھا ہار‘‘ اسی طرح کا ایک کامیاب افسا نہ تھا۔ جنسی نفسیات کی عکاسی کرتے ہو ئے ابرار مجیب کا افسا نہ’’ پیاس‘‘ بھی ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی عورت کی پیاس کی کہانی ہے جو اپنے شو ہر سے غیر مطمئن ہو کر شو ہر کے دوست کی طرف نہ صرف دیکھتی ہے بلکہ اسے حا صل بھی کر لیتی ہے۔ پیاس میں دو نوں برا بر کے شریک ہیں۔ لیکن کہانی کا انجام قاری کو’پیاس‘ کے بعد کا منظر دکھا کر، آ ئینہ دکھاتا ہے:
’’ شا ید اسی لمحے ان کی دلچسپی اپنی شدت کھو چکی تھی اور انہیں میرے اس بدن کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی۔ خود میں نے محسوس کیا تھا کہ تجسس کا وہ پر اسرار جذبہ جو مجھے خود سے دو ہاتھ کی دوری پر کھڑے ہو ئے پریم کے بدن کے را زوں کو بے نقاب کر نے کے لیے بے چین کردیا کرتا تھا، وہ جذبہ اب تقریباً فنا ہو چکا تھا۔
پریم اب بھی ہمارے یہاں آ تے ہیں لیکن اب وہ مجھے بالکل اجنبی اور پرا ئے لگتے ہیں جیسے ہمارے درمیان کبھی کوئی تعلق ہی نہ رہا ہو۔‘‘
(پیاس، جہات، نئی صدی کا افسا نوی ادب، اقبال وا جد2001ء)
’’ حلالہ‘‘ قمر قدیر ارم کا جنسی نفسیات کا ایک عمدہ افسا نہ ہے۔ اس میں حلالہ کے ماہر ایک مولوی کا ایسا کردار پیش کیا گیا ہے جو پو رے محلے کے حلا لے انجام دیتے ہیں اور وہ یہ کام خو شی خو شی کرتے ہیں۔ انہیں دس سال کا تجر بہ ہے۔ ایک مرزا صا حب اپنی بیوی کو طلاق دے بیٹھتے ہیں بعد میں پچھتا تے ہیں تو مو لوی رحمت اللہ انہیں حلالہ کر کے معا ملے کو ٹھیک کروا نے کا وعدہ کرتے ہیں۔ مرزا صا حب لا ولد ہیں اور انہیں احساس ہے کہ خود ان کے اندر کمی ہے اس لیے وہ مولا نا سے شرط رکھتے ہیں کہ آپ مطلقہ کو اس وقت تک طلاق نہیں دیں گے جب تک وہ حا ملہ نہ ہو جائے۔ مولوی گھبرا جاتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ بیوی کی شکل میں گلے پڑ جائے۔ دو دو بیویوں کا خرچ ان کے بس میں نہ تھا۔ پر ان کی یہ مشکل مرزا صا حب حل کردیتے ہیں تو مو لا نا خوش ہو جاتے ہیں:
’’آپ فکر نہ کریں نکاح یہیں ہو گا۔ حلالہ یہیں ہو گا اور عدت بھی یہیں ہو گی۔ استقرارِ حمل تک وہ بلا شرکتِ غیر بیوی بھی رہے گی۔بوجھ تو آپ کو اٹھا نا ہی نہیں ہے۔‘‘ اور جب مولوی بر کت اللہ بات کو سمجھتے سمجھتے اچھی طرح سمجھ گئے تو جیسے بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گئے’’کیا سچ‘‘؟ ایک عجیب سے سرور میں بھر کر مولوی صا حب کی زبان نے چٹخا رہ لیا۔’’ بالکل سچ‘‘ کہہ کر مرزا صا حب نے حقہ کی ٹھنڈی نے ہونٹوں سے لگا لی۔مو لوی صا حب جب بہکے بہکے قدموں سے ملحقہ اپنے گھر کی طرف جارہے تھے تو سوچ رہے تھے ایسا معاملہ تو آج تک نہیں آ یا تھا۔ اے اللہ اس طرح دوسروں کے گھروں میں چراغ رو شن کر نے کا مو قع ہمیشہ عطا کیجیو.... تو وا قعی بڑا فضل وا لا ہے مولا۔‘‘
( حلالہ، افسا نوی مجمو عہ پا ؤں جلتے ہیں مرے، قمر قدیر ارم،2005ء)
قمر قدیر ارم کی کہانی حلالہ عمدہ کہا نی ہے اور مولوی رحمت اللہ کا کردار زندہ جا وید ہے جو حلالہ جیسے عمل کو اپنے لیے خوشی کا باعث سمجھتا ہے اور مرزا جیسے لوگ بھی حلالہ کی آڑ میں اپنی مردا نگی کا بھرم قائم رکھے ہو ئے ہیں۔
متن پر متن :
تسنیم فاطمہ اکیسویں صدی میں ابھرنے وا لی ایک اچھی افسا نہ نگار ہے۔ منٹو کے اثرات ان کی کہانیوں پر بہت واضح ہیں۔’’ آدھا چاند‘‘ ان کا خوبصورت افسا نہ ہے۔ افسانے میں سمرن مرکزی کردار ہے۔ وہ ظہیر احمد ایڈ وکیٹ کی بیوی ہے۔ ظہیر سمرن کو ازدوا جی خوشی دینے میں ناکام ہے۔ ظہیر کا دوست امت گھر آ تا جا تا ہے۔ وہ سمرن کے قریب آ نا چاہتا ہے۔ سمرن کی غربت گوا را نہیں کرتی،لیکن ظہیر کی غیرت ،بے ضمیری کی قبر میں دفن ہے۔ امت کے جذ بوں اور اظہار کے بارے میں سمرن ظہیر کو بتا دیتی ہے پھر ظہیر کے رویے میں تبدیلی نہیں آ تی۔ شاہد ظہیر اپنی کمزوری کو دو ستی کا لبا دہ پہنانا چا ہتا ہے۔ سمرن کو یہ نا قابل قبول ہے اور وہ بالآ خر ظہیر کی بے ضمیری اور امت کی بھو کی نگاہ دونوں کو ٹھو کر مار کر ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاتی ہے۔ وہ آدھا چا ند جو جو بمشکل تمام اس کی زندگی کے اندھیروں کو دور نہیں کر پا رہا تھا، سمرن نے اب اسے اندھیروں میں ہی دھکیل دیا تھا۔ ظہیر کی بے ضمیری کی تصویر ملا حظہ ہو۔ ظہیر کا دوست امت سمرن سے مخاطب ہے:
’’سمرن تم بہت خو بصورت ہو۔ جی چا ہتا ہے۔ تمہیں بو سہ دوں۔
’’نہیں۔‘‘ وہ سہم گئی۔
’’گا لوں پر نہیں، ہونٹوں پر بھی نہیں،تمہارے سنگ مر مریں سینے پر جہاں تمہا را نازک دل دھڑکتا ہے۔‘‘
سمرن کے جسم میں بجلی دوڑ گئی۔ اس نے امت کو زور سے دھکا دیا اور پھر اپنے آ پ کو سنبھالا اور پھر پارٹی ختم ہونے کے بعد اس نے ظہیر سے ساری بات بتائی اور کہا’’ آج کے بعد میں اپنے گھر میں امت کی موجود گی برداشت نہیں کروں گی۔ سنا تم نے۔ اگر تمہارے ضمیر میں رتی بھر بھی غیرت ہے۔ تو اس سے دوستی توڑ ڈا لو اور اگر وہ اس گھر میں، آ یا تو میں یہاں نہیں رہوں گی....‘‘
’’تم خواہ مخواہ نا راض ہو رہی ہو۔ ہو سکتا ہے وہ مذاق کررہا ہو‘‘
(آدھا چاند، ہما ری آواز، میرٹھ2006ء) 
متن پر متن :
کہا نی پر کہا نی لکھنا، یا کہا نی کو آ گے بڑھانے کا رواج بہت پرا نا تو نہیں لیکن شا ید آٹھویں دہے میں عا بد سہیل نے’’ عید گاہ‘‘ پر کہا نی لکھ کر اس کی ابتدا کی تھی۔ بعد میں یہ فیشن سا ہو گیا تھا۔ سریندر پر کاش نے’’ بجو کا‘‘ لکھی تو وہ بھی پریم چند کے ہو ری کی تو سیع تھی’کابلی وا لا کی وا پسی‘ انور قمر نے تحریر کی۔ شو کت حیات نے ما دھو، سلام بن رزاق، سا جد رشید نے بجو کا پر کہا نی لکھی۔راقم نے عید گاہ سے وا پسی، بشیر مالیر کوٹلوی نے پر میشر سنگھ2 تحریر کی۔ نئے افسا نہ نگاروں کے یہاں بجو کا کو لے کر عجیب سا اضطراب ہے۔ اشتیاق سعید نے بجو کا، عبد العزیز خاں نے’’ اور بجو کا ننگا ہو گیا‘‘ محمد رفیع الدین مجا ہد نے بجو کا پر کئی افسا نچے قلم بند کیے۔ اشتیاق سعید نے بجو کا لکھتے وقت ایک ایسا کردار پیش کیا جو گاؤں کی سر زمین سے تعلق رکھتا ہے اور بستی کے ٹھا کر رام پال سنگھ سے مشا بہ ہے۔ ٹھا کر رام پال سنگھ جو زمین دار ہے۔ بجو کا آ خر میں رام پال سنگھ کا روپ دھار لیتا ہے۔ یہ اشتیاق سعید کا فن ہے کہ وہ بجو کا جسے گاؤں کے غریب منگرو نے بنایا تھا، جس کے کپڑے، ٹوپ کا انتظام منگرو اور اس کے پتا نے کیا تھا، وہ وجود میں آ نے کے بعد رام پال بن گیا تھا۔ یعنی اب کسی پر اعتبار نہیں۔ اپنا سا یہ بھی کسی وقت مخالف ہو سکتا ہے۔وہ بجو کا جسے فصل کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا، وہ ہی رام پال سنگھ کی شکل میں ساہو کار کے طور پر سامنے آگیا۔اشتیاق سعید نے بڑی فنی مہارت سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ خارجی دنیا کے اثرات کسی طور کسی کو یکسر بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح عبد العزیز خاں کی کہا نی’’ اور بجو کا ننگا ہو گیا‘‘ ایک اچھی نفسیاتی کہا نی ہے۔ ایک لڑ کی کی عصمت تین چار نو جوان، بجو کا کی موجود گی میں لو ٹتے ہیں اور لڑ کی کو بے لباس چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ ہوش آ نے پر لڑ کی کپڑے تلاش کرتی ہے جو نظر نہیں آتے، وہ سامنے بجو کا کو دیکھ کر اس سے لپٹ جاتی ہے اور اس کے کپڑے اتار کر پہن لیتی ہے۔ ایک اچھی کہا نی ہے۔ بظا ہر بجو کا ننگا ہو جاتا ہے کہ لڑ کی اس کے کپڑے اتار کر پہن لیتی ہے مگر بجو کا جو اس کی عزت کو تار تار ہو تا دیکھتا ہے مگر کچھ کر نہیں پاتا اور شرمندہ ہو تا رہتا ہے۔ لیکن خود ننگا ہوکر لڑکی کی بے لبا سی کو لباس عطا کر دیتا ہے۔یعنی بجو کا نے ننگا ہو نے کے بعد بھی کسی اور کو ننگا ہو نے سے بچا لیا۔
مٹی سے محبت :
اپنی مٹی، اپنے وطن سے ہر کسی کو محبت ہو تی ہے۔ اِ دھر نئے افسا نے میں وطن سے محبت اور جڑا ؤ کی بھی کئی کامیاب کہا نیاں شا ئع ہو ئی ہیں۔عارف رضوی نے ’ سرحدیں‘ میں ایک انتہائی بزرگ آ منہ بیگم کی کہانی قلم بند کی ہے جو تقسیم کے وقت لکھنؤ سے پاکستان چلی جاتی ہیں۔
پاکستان میں بہو، بیٹوں کے رویے سے پریشان۸۸ سالہ بزرگ ہندوستان آ تی ہے۔ یہاں اس کی زندگی کی یادیں زندہ ہو جاتی ہیں۔ ان کے بھا ئی، بھا ئی کے بچے، بچوں کے بچے، سبھی خوشی خو شی استقبال کرتے ہیں۔ پہلے تین مہینے کا ویزا جب ختم ہو جا تا ہے تو اسے بڑھوا کر چھ ماہ تک کرا لیا جاتا ہے لیکن چھ ماہ کے گذرنے کے بعد وا پس پاکستان جانے کا وقت آ جاتا ہے ،تو کسی کا دل انہیں پاکستان بھیجنے کا نہیں ہے ۔خود وہ اپنی زمین کو چھوڑ کر بالکل جانا نہیں چاہ رہی ہیں،باہر گاڑیاں تیار ہیں، سب انتظار کررہے ہیں۔اُدھر آ منہ بیگم نماز میں مصروف ہیں اور روح، قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے۔اب کوئی انہیں ان کے شہر اور وطن سے نکالنے وا لا نہیں ہے۔ وہ اپنے ہی شہر میں پیوند زمین ہو جاتی ہیں۔ وطن کی محبت کی اچھی کہا نی ہے۔
’’اپنی مٹی کی مہک‘‘ میں اشفاق برادر نے بھی اپنے گاؤں سے محبت کی ایسی ہی داستان رقم کی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہے جس کا کبھی کاکوری میں ایک مقام و مرتبہ تھا۔ حا لات بدلے، معا شی معاملات خراب ہو تے گئے، ہجرت کرکے کانپور آ گئے۔ پھر حا لات بہتر ہو گئے۔ اب کا کو ری آ کر اپنوں سے مل کر دو بارہ وا پس جانے کا خیال ڈسنے لگتا ہے۔
فقیروں کے معاملات بھی عجیب ہو تے ہیں۔ بچوں سے بھیک منگوا نے کے لیے فقیر ماں باپ اپنے بچوں کو بیمار کر نے کے انجکشن دلواتے ہیں۔ انہیں بیمار رکھتے ہیں حتیٰ کہ کئی بار بچے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں لیکن ماں باپ اتنے مادیت پرست اور سخت دل ہو جاتے ہیں کہ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسی ہی کہانیاں ’جیون گھٹی‘(ساحر کلیم)بے نام رشتہ (عابد علی خاں) ہیں۔ سالک جمیل براڑ کی کہانی’لفٹ‘ ایک پو لس وا لے کی رشوت ستا نی کا خوبصورت مرقع ہے۔
اِ دھر گذشتہ کئی برسوں سے بیٹیوں کو رحمِ مادر میں مارنے کے واقعات سماج میں عام ہوتے جارہے ہیں۔ سرکار اس پر سختی بھی کررہی ہے ۔الٹرا ساؤنڈ اور خاص کر سونو گرافی پر پابندی لگائی جارہی ہے ۔شبنم راہی نے اس کو مو ضوع بنا کر’’ کوکھ کی تلاش‘‘ کہا نی تحریر کی ہے۔ جس میں انہوں نے دکھایا ہے کہ بیٹیا ں رحم مادر میں اپنی التجائیں لیے آواز لگا رہی ہیں جنہیں پیدا ہو نے سے قبل ہی ختم کیا جا رہا ہے۔ آخر کار ایسا ہو جاتا ہے کہ اب دنیا میں کوئی عورت نہیں بچی ہے۔ ایسے میں عالمِ ارواح میں بیٹوں کی روحیں، ماں کی کوکھ کی تلاش میں ہیں،جن کے ذریعہ وہ دنیا میں آ سکیں۔ ایک عمدہ کہانی ہے۔
انٹر نیٹ اور اردو افسانہ :
اکیسویں صدی کا بڑا کا رنامہ انٹر نیٹ کے استعمال کا عام ہو نا ہے۔ در اصل اکیسویں صدی آئی ٹی کی صدی ہے۔ہر طرف کمپیوٹر کا دور دورہ ہے۔ جہاں تک انٹر نیٹ اور اردو افسا نے کا تعلق ہے تو یہ بات بڑی خوش آ ئند ہے کہ عالمی سطح پر اس وقت اردو کی مختلف اردو سائٹس ہیں، جن پر اردو کے افسا نے اپ لوڈ کیے جاتے ہیں اور خوب پڑھے جاتے ہیں۔ اردو سخن ڈاٹ کام، پاکستان، شعر و سخن ڈاٹ کام،کنا ڈا، اردو لائف ڈاٹ کام،امریکہ،اردو دوست ڈاٹ کام، کلکتہ، عالمی پرواز ڈاٹ کام، جمشید پور، لن ترانی ڈاٹ کام، ممبئی انٹر نیٹ کی ایسی سائٹس ہیں جن پر اردو افسا نے کے الگ الگ کالم ہیں۔ ان میں ہر ماہ افسا نے شا ئع ہو تے ہیں اور پڑھنے وا لوں کی آ راء بھی لوڈ ہو تی ہیں۔ اردو نیٹ جاپان، اردو کی وا حد ایسی سائٹ ہے جو رو زانہ اپ لوڈ ہو تی ہے۔ اس میں سیا سی، سماجی، مذہبی مضا مین کے ساتھ ادبی مضا مین اور خبریں بھی ہو تی ہیں۔ ساتھ ہی تقریباً رو زانہ ایک افسا نہ بھی اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔ عنقریب ’’عالمی افسا نوی کارواں‘‘ نام کی ایک سائٹ بھی جمشید پور سے شروع ہونے وا لی ہے۔
فیس بک اور اردو افسا نہ :
فیس بک آج کل Social Sitesمیں سب سے آ گے ہے۔ ہندوستان میں اس کا استعمال کرو ڑوں کی تعداد میں ہو تا ہے۔ فیس بک پر بھی افسا نے لوڈ کیے جاتے ہیں۔ فیس بک پر کئی گروپ ہیں جو ادبی تحریریں پابندی سے لوڈ کرتے ہیں۔ ان میں اردو افسا نہ گروپ، ادب ڈاٹ کام، سخن شناس، باز گشت وغیرہ ایسے گروپ ہیں جو افسا نے پا بندی سے لوڈ کرتے ہیں۔ ان میں اردو افسا نہ گروپ لائق مبا رک باد ہے کہ اس نے فیس بک پر اردو افسا نے کے فروغ میں خا صا کردار ادا کیا ہے۔ ابھی ۱۵ ؍ اگست سے ۳۱ اگست؍ ۲۰۱۳ء تک اسی گروپ نے فیس بک پر’’ عالمی افسا نہ میلہ‘‘ کا انعقاد کیا ہے جو اردو میں اپنی نو عیت کا پہلا انٹر نیٹ افسا نوی میلہ ہے، ’’عالمی افسا نہ میلہ ‘‘ کی مقبو لیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ منتظمین نے طے کیا تھا کہ ہر روز ایک یا دو افسا نے لوڈ کیے جائیں گے لیکن افسا نوں کی تعداد کو دیکھتے ہو ئے انہیں لوڈ کر نے کی تعداد کو بڑھانا پڑا۔ آج کل رو زا نہ۱۵۔ ۱۰ افسا نے’’عالمی افسا نہ میلہ‘‘ میں شریک ہو رہے ہیں اور ہر افسانے پر ۲۵۔۲۰ لو گوں کی آراء بھی آرہی ہیں۔


اردو افسا نے کا پہلا آ ڈیو البم :
اکیسویں صدی میں کمپیوٹر کے بڑھتے رجحان کے پیشِ نظر اردو افسا نے میں بھی ایک زبردست انقلاب آ یا ہے۔ اردو افسا نے کا پہلا آڈیو البم’’ کہا نی ندی‘‘ گذشتہ سال دسمبر میں بازار میں آ یا۔ اس آڈیو البم میں اسلم جمشید پو ری کے تین افسا نے اور تین افسا نچے، ان کی اپنی آواز میں ہیں جب کہ افسا نہ نگار کا تعارف خور شید حیات نے تحریر کیا ہے اور مصنف کے تعارف کو ڈا کٹر شکیل اختر نے اپنی آواز عطا کی ہے۔ اسی طرز پر اب کئی آ ڈیو البم معروف افسا نہ نگاروں کے سا منے آنے والے ہیں۔
افسا نہ کلب :
اکیسویں صدی کا ہی کمال ہے کہ اب افسا نہ کلب بھی وجود میں آ نے لگے ہیں۔ مالیر کو ٹلہ میں معروف افسا نہ
نگار بشیر ما لیر کو ٹلوی کی محنت سے یہ ’’افسا نہ کلب‘‘ قا ئم ہوا ہے۔ اس کی ما ہا نہ نشستیں ہو تی ہیں اور ہر نشست میں صرف افسا نے سنائے جاتے ہیں۔ سا معین میں افسا نہ نگار، شعرا اور با ذوق حضرات ہو تے ہیں۔ افسا نے کی قرأت کے بعد افسا نے کا آپریشن کیا جاتا ہے۔ اس کو شش نے ما لیر کو ٹلہ کو کئی افسا نہ نگار عطا کیے ہیں۔ نئی نسل میں افسا نے کے تئیں رجحان پیدا ہوا ہے۔
اکیسویں صدی میں اردو افسا نے کے فروغ کو دیکھتے ہو ئے کہا جاسکتا ہے کہ افسا نے کا مستقبل تاریک نہیں ہے۔
*** 
Dr. Aslam Jamshedpuri
HOD, Urdu, CCS University, Meerut
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
09456259850

Read 3026 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com