الأربعاء, 01 كانون2/يناير 2014 11:16

آقا : جہانگیر محمد

Rate this item
(0 votes)

افسانہ 
(آقا)
جہانگیر محمد 


                   * وہ ایک خاردار جھاڑ تھا اس کی نشود نما یوں ہوئی تھی، نہ پھل نہ پھول اور نہ چھاؤں ہیبت ناک اُس کے تنے پر کانٹے ہی کانٹے تھے ہیبت کریہہ اُس کے تمام پتّے، تنے اور جڑ کانٹے سے بھرے ہوئے تھے۔
بن موسم بن برسات اور بن کھیتی اُگ آئے تھے یہ پودے.........
جب میں نے اُس کی باغبانی اور حُسن ترتیب کے لئے چھوا تو حیران رہ گیاپھر میرا ہاتھ زخمی ہوا اور بہت دیر تک ہمارا قلم لہو لہان ہوا.......
اُس کا نام حَکم آزاد تھا۔ اس کی ریشہ دوانیاں اورنکتہ چینیاں دل آزاری کا سبب تھیں اور جس کا وہ ایک مکمل باب تھا۔ سارے کرتوت اولجلول حرکتیں اس کی عادت میں شمار تھیں اکثر نا مناسب جملے گڑھنا اُس کا شیوہ تھا۔اُس کی جاہلانہ حر کت سے پڑھے لکھے لوگ بھی نالاں تھے ایسی اُچھی حرکتوں پر بھی وہ خوش فہمی کا شکار رہتاتھا۔ دراصل وہ عُجب کا مریض تھا۔
وہ اپنی آبادی کا نہایت ہی ظالم اور بد دماغ شخص تصورکیا جاتا تھا کوئی بھی اُس سے خوش نہیں تھا۔ کبھی اُس کی زبان سے سماج نے نرم کلام اور خوبصورت جملے نہیں سُنے تھے۔ اُس کی زبان پر ہمیشہ کانٹے دار جھاڑیاں ہی اُگ آیا کرتی تھیں وہ گرگٹ کی طرح ہمیشہ رنگ بدلتا رہتا تھا مغروریت میں ڈوبا کبر اور غرور کا جاہلانہ قصیدہ خوانی کیا کرتا تھا۔ آبادی کے ذہین لوگ اُس سے کترانے لگے تھے جب اُسے کوئی ٹوک دیتا تو وہ فوراکہتا ۔
سوئے ہوئے شیر، سوئے ہوئے سانپ، اور سوئے ہوئے راجا کو کبھی جگانا نہیں چاہیے۔
مریل گھوڑے پر وہ اکڑ کر سوار ہوتاتھا جو اُس کو جہیز میں ملے تھے۔
جب اُس کی بے حیائی ڈھیٹ پن اور ہٹ دھرمی اپنے منتہا پر پہنچنے لگی تو اُس کی طرح بیانی سے کچھ لوگ مرغوب ہو کر اُس کی نازبرداری کرنے لگے اور اس کی عقل فلک شگاف نعروں کی بلندی پر براجمان ہونے لگی حقیقت میں کبر میں ڈوبی ہوئی مونچھ کا جنم اُس کے اندرہونے لگا تھا اور یہ اپنے آپ کو میاں مٹھو کی طرح خود کوآقا سمجھنے لگا تھا۔
ایک دن اُس کا مریل گھوڑا جس پر وہ اکثر سواری کیا کرتا ایک فقیر سے ٹکرا گیا۔
فقیر نے اُس کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی وہ بہت چیخا اور چلایا سب وشتم پر اُتر آیا اہانت بھرے الفاظ میں بولا تو جانتا ہے۔ ’’ میں کون ہوں......؟‘‘
’’ میں آقا ہوں۔‘‘
فقیر نے کہا ۔ ’’ میں اور تجھے نہ پہچانوں اے حَکم آزاد تو جاہل کا باپ ہے اور خود کو آقا کہہ رہا ہے ۔ ‘‘
’’پہلے مجھے پہچان کہ میں کون ہوں.....؟ میں ملک الموت ہوں اور تجھے لینے آیا ہوں......‘‘
اس جملے کی ہیبت سے وہ چکرا یا پھر مریل گھوڑے سے گرا اور وہیں مر گیا۔
دھیرے دھیرے اُس کامردہ وجودسانپ میں تبدیل ہو گیا.......
محلے کے بچے شور مچا رہے تھے۔
اب سوئے ہوئے سانپ کو کون جگائے گا.....؟
۔۔۔۔

Read 3084 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com