الأحد, 10 آب/أغسطس 2014 20:25

ایک زندہ کہانی : نورالحسنین

Rate this item
(0 votes)

  ایک زندہ کہانی

                                                                         نورالحسنین

 

                وہ آج بھی اسی طرح میرے کمرے میں میرے مقابل بیٹھا ہوا ہے۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا،  تاریکی آسمانوں سے اُتر رہی تھی اور ٹریفک کا شور کم ہوتا جارہا تھا۔ میں پلنگ پر نیم دراز ہوگیا تو وہ اپنی کرسی کھسکا کر میرے اور بھی قریب آگیا اور پھر حسب معمول اُس کے ہاتھ میرے پیروں کو دبانے لگے۔ میں نے اُس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔ وہ اب بھی اسی طرح بھولا بھالا اور معصوم نظر آرہا تھا لیکن میں نے اُسے کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ اُن دنوں جب وہ بہت چھوٹا تھا وہ ہمک ہمک کر میری طرف بڑھتا اور میں اُسے دانٹ ڈپٹ کر دور کر دیتا وہ چاہتا تھا کہ میں اُس سے باتیں کروں .......لیکن  اس سے باتیں کرنا تو کُجا میں نے تو کھلے دل سے لپٹا کر کبھی اُسے پیار بھی نہیں کیا۔ وہ مچلتا، بلبلاتا  اور میں اُسے اُسی طرح چھوڑ کر اپنے بلڈاگ کی زنجیر تھامے نکل جاتا،سچ پوچھو تو وہ میرے لیے کبھی اہم رہا ہی نہیں لیکن وہ آج بھی اُسی طرح مجھے پیار کرتا ہے ......ہمک ہمک کر ......

                ایک سرد آہ میرے وجود سے نکلی اور میں نے اپنے آپ کو بہلانے کی خاطر ریکٹ میں سے ایک تازہ رسالہ اُٹھایا اور ورق گردانی کرنے لگا۔

                ” بابوجی ..... آپ نے کئی برسوں سے کوئی کہانی نہیں لکھی۔؟“

                  میں نے رسالہ واپس ریکٹ میں پھینک دیا اور اس کی طرف دیکھا۔

                ایک زندہ کہانی اُس کی آنکھوں میں کسی پکے ہوئے پھل کی طرح جھول رہی تھی ......میں نے نظریں نیچی کر لیں۔

                ” بابوجی .......کیا آپ بھی کہانی پر اُٹھائے گئے سوالات سے خوف زدہ ہیں۔ اور اس لیے آپ نے بھی .....؟“

                ” میں نے ہمیشہ کہانی لکھی ہے ......“میری آواز قدرے اونچی ہوگئی  اور وہ گھبرا گیا،  ” آج جن مسلوں پر بحث ہورہی ہے وہ میرے لیے بے سود ہیں۔“

                ”تو پھر .......؟“ 

                میں خاموش ہوگیا۔ اس نے ایک لمحہ میرے چہرے کی طرف دیکھا اور پھر چپ چاپ پاؤں دبانے لگ گیا۔

                میں نے ایک بار پھر ریکٹ میں رکھی ہوئی اپنی بے شمار کتابوں کی طرف دیکھا اور سوچنے لگا۔ اتنی جلدی بھلادیا کم بختوں  نے مجھے، صرف دس برسوں کی غیر حاضری نے میرا نام، میری شہرت، میری عظمت، سب کچھ فراموش کر دیا۔؟  یہاں تک کہ اب کسی تنقید کے حوالے میں میرا نام تک ٹانکا نہیں جاتا۔ اتنا غیر اہم تو نہیں ہوں میں۔؟  اور وہ ...... وہ نومولود افسانہ نگار میرے سامنے سینہ پھلا کر چلنے لگے ہیں۔ کم بخت ایسی کہانیوں پر اتراتے ہیں جنھیں اگر نا بھی لکھا جاتا تو ادب کا کوئی نقصان نہ ہوتا۔ارے میں آج بھی کہانی لکھوں گا تو اُن سے دس

برس آگے کی کہانی لکھوں گا ..... لیکن میں محض ضد میں کیوں لکھوں۔؟  جس شخص نے ساری زندگی اپنے ہی طئے کردہ موضوعات پر کہانیاں لکھی ہوں وہ  بھلا طیش میں آکر کیوں قلم اُٹھائے گا .......؟  میں اپنے آپ سے اُلجھنے لگا .......کتنا اطمینان تھا مجھے کہ ادب میں اب میری عظمت کو کوئی چیلینج نہیں کر سکتا۔ میں نے دیا بھی تو بہت کچھ ........ اور شاید یہی وہ اطمینان تھا جس نے ایک روز مجھے مشورہ دیا تھا کہ اب اگر میں ایک حرف بھی نہ لکھوں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ چنانچہ میں نے ادب سے ریٹائرٹمنٹ کا اعلان کردیا۔کتنی بڑی غلط فہمی تھی مجھے ...... میں سمجھتا تھا کہ میرا یہ اعلان موضوعِ بحث بن جائے گا۔ ادبی حلقوں میں ہنگامہ بر پا ہوجائے گا۔ احتجاجی خطوط آئیں گے۔ رسائل وہ اخبارات میرے ریٹائرٹمنٹ پر واویلا مچائیں گے،  لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ اُلٹا یار دوستوں نے میرے اس اقدام کو سراہا، تعریفیں کیں، اور مجھے مبارک بادی کے تار بھیجے ......تب مجھے پتہ چلا کہ ادب کا سفر اور اُس کا مسافر کیا ہوتا ہے۔ اس احساس کے ساتھ ہی میں اندر سے ٹوٹ پھوٹ گیا۔ کئی بار طبیعت چاہی کہ اپنی قسم واپس لے لوں، لیکن ہمت نہ کر سکا اور آج اپنی ہی قید اپنی زندگی کاٹ رہا ہوں۔

                میں اپنی ہی سوچوں میں اُلجھ رہا تھا اور وہ چپ چاپ میرے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ اچانک مجھے ہوش آیا کہ رات بہت زیادہ ہوچکی ہے۔ میں نے اس کی طرف دیکھا، وہ بڑے خلوص سے میری خدمت کیے جارہا تھا۔

                ” اب بس بھی کرو......اور جاؤ ......تمہاری بیوی تمہارا انتظار کر رہی ہوگی۔؟“

                ” وہ فورااُٹھ کھڑا ہوا جیسے اسے بھی اسی جملے کا انتظار تھا۔ اُس نے میرے پائنتی سے کمبل کھینچی اور پھر اُسے میرے جسم پر ڈالتے ہوئے بولا، ” بابوجی ......لائٹ بھی آف کردوں .......؟“

                ” نہیں .......آج میں نئی نسل کو پڑھوں گا۔“   لیکن یہ جملہ میری زبان سے نہ نکل سکا اس کے بجائے میں نے کہا، ”تم جاؤ ...... میں خود ہی آف کرلوں گا۔“

                وہ فوراکمرے سے باہر نکل گیا۔ دروازے کھلے ہوئے تھے۔ اس کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ اچانک مجھے احساس ہوا  جیسے وہ مجھ سے دور نہیں بلکہ اور بھی قریب ہوتا جارہا ہے۔ میں تڑپ کر اُٹھ بیٹھا اور فورااپنے کمرے دروازے اور کھڑکیاں بند کرنے لگا۔ مجھے اس کے قدموں کی دھمک میں اپنی شکست کا احساس ہونے لگا اُس کے قدم جیسے  جیسے مجھ سے دور ہوتے جارہے تھے اُن کی چاپ لفظوں کا جامہ پہن کر مجھ سے سرگوشیاں کرنے لگیں تھیں۔ میں فوراپلنگ پر دراز ہو گیا۔ آنکھیں بند کرلیں اور کانوں پر ہاتھ رکھ لیے ...... اب میری آنکھوں میں وہی گھنا اندھیرا تھا اور اوپر اُسی تیز روشنی کے ساتھ بلب جل رہا تھا۔ 

                ” یہ لائٹ کس نے آف کر دی .....؟“ 

                میں غصّے سے پلٹا تو اندھیرے نے سرگوشی کی ، ” میں نے ....... اس گھر میں میں بھی رہتی ہوں ...... ایک زندہ کہانی ...... لیکن کبھی تم نے پوچھا کہ مجھے کیا چاہیے۔؟“

                ” دیکھو          .......اس وقت میں ایک بہت ہی اہم کہانی لکھ رہا ہوں       ......!“   میں نے دوبارہ لائٹ آن کیا۔ وہ شب خوابی کے  لباس میں بال کھولے کھڑی تھی۔ نیند سے بوجھل اُس کی آنکھوں میں عجیب خمار تھا۔ ایک لمحے کے لیے میرے بدن میں بھی ہلچل پیدا ہوئی

اور ممکن تھا کہ میں اپنے سامنے بکھرے ہوئے کاغذات کو سمیٹ لیتا لیکن کہانی کا کلائمکس بیچ میں آگیا اور میں نے اپنی نظریں پھر ایک بار اُن بے جان کاغذوں پر مرکوز کر دیں اور قلم کو تیزی سے چلانے لگا۔

                وہ قہقہہ مار کر ہنسی۔

                میں نے قلم کی رفتار اور تیز کردی.......

                ” میں کہتی ہوں ..........اب بس بھی کرو۔ میں اس دو ٹکے کی کہانی سے کہیں زیادہ اہم ہوں۔“

                ” تم ........؟“  میرے چہرے پر طنز اُبھر آیا، ” میری کہانی عورت کی کمزور شخصیت نہیں بلکہ اس کائنات میں اُلجھی فکری بساط کا وہ رزمیہ ہے۔ جس کا اور اور چھور کوئی نہیں جانتا ............“

                ” اچھا...........؟“  وہ میرے مقابل آکر بیٹھ گئی اور میری آنکھوں سے میرے دماغ میں رینگنے والی کہانی کا جائزہ لینے لگی۔ میری کہانی شرماکر ذہن کے پردوں میں کہیں چھپ گئی۔ اُس کے چہرے پر بھی طنز اُبھر آیا اور میں جلدی جلدی اس کہانی کو سمیٹنے لگا لیکن سرا ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ میں اپنے آپ میں اُلجھنے لگا اور وہ مجھے بُری طرح گھورنے لگی۔ میں نے قلم کو ایک بار پھر کاغذ کی سطح پر رکھا لیکن وہ کسی ذبح کیے ہوئے مرغ کی طرح گردن لٹکا کر میری اُنگلیوں میں جھول گیا۔ میں نے بیزاری سے نظریں اوپر کیں۔ اُس کی زلفیں شانوں سے ڈھل کر زمین پر آچکی تھیں۔ اُس نے میری طرف نیم باز نظروں سے دیکھا ........ ” کیوں زندگی کے قیمتی لمحات ضائع کر رہے ہو .........؟ مجھے اب نیند آنے لگی ہے۔“

                میں نے غصّے سے قلم کو دھکا دیا تو وہ بے معنی جملوں کو جنم دینے لگا۔

                ” کوئی فائدہ نہیں ...... کب تک یونہی لکھ لکھ کر کاٹتے رہوگے۔؟“

                ” تم خدا کے لیے جاؤ یہاں سے ........ اور سوجاؤ ........“

                ” اور تم۔؟“  اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے نظریں چرالیں اور اپنی لکھی ہوئی تحریر کو دوبارہ پڑھنے لگا اور وہ ناراضگی سے بڑبڑاتی ہوئی واپس چلی گئی۔

                میں پھر ایک بار اپنی کہانی کے تانوں بانوں میں اُلجھ گیا۔

                صبح کہانی کے ادھورے کلائمکس کے ساتھ جب میں بیدار ہوا تو میرا بیٹا میرے لکھے ہوئے کاغذات سے ایک زبردست بحری بیڑہ آنگن کے حوض تیار کر چکا تھا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنگی مشقیں کر رہا تھا۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میں غصّے سے دھاڑا تو میری بیوی میرے مقابل آکر کھڑی ہوگئی۔ اُس نے ایک لمحہ میری کیفیت کا جائزہ لیا اور پھر اس کے لبوں پرطنز پھیل گیا۔، ”تمہاری کہانی کے ذریعہ کوئی سماجی بیداری تو پیدا ہونے والی نہیں تھی ........شکر کرو کہ کم از کم ایک معصوم کے چہرے پر مسکراہٹ تو کِھل اُٹھی۔“

                میرا دل بے اختیار چاہا کہ بِلّو کو خوب سزا دوں، لیکن میں بیوی سے اُلجھ گیا، ” سماجی مقصدیت کا عامیانہ اظہار تو عام انسان یا صحافی یا پھر سیاسی لیڈران کرتے ہیں۔ میں ایک ادیب ہوں۔“

                ” اور تمہارے ادب کا مقصد ........؟

                ”کم از کم تم جیسے جاہلوں کی نمائندگی نہ کرے۔“

                ” جو ادب سماج سے کٹ کر لکھا جاتا ہے وہ محض لفاظی ہوتا ہے۔“

                ” اور جو ادب تمہاری طرح کے جمِ غفیر کے لیے لکھا جاتا ہے وہ ادب نہیں ہوتا بلکہ ادب کے نام پر مذاق ہوتا ہے۔“

                ” کاش ایسا مذاق  کبھی تم بھی کرتے۔“

                ” میں اپنے عہد کا ایک ذمّہ دار افسانہ نگار ہوں۔ میرا مذاق بھی سمجھنے کے لیے تمہیں دوسرا جنم لینا پڑے گا۔“

                ”تمہارے ادب کو کوئی ایک بار ہی پڑھ لے یہی بہت ہوگا۔ اس خوش فہمی میں مت رہنا کہ اسے سمجھنے کی حاطر کوئی دوسرا جنم بھی لے گا۔“  اور پھر وہ ہمیشہ کی طرح پیر پٹختی ہوئی میرے سامنے سے نکل گئی۔ میں نے ٹیلی وژن کا بٹن آن کیا۔ چھوٹے اسکرین پر بھی ھنگامہ تھا

                ”ارے بھی کیوں ہنگامہ کر رہے ہو۔؟  اٹھ گیا ہوں .........“ میں نے سر سے کمبل کھینچا لائٹ ابھی تک اُسی طرح جل رہی تھی۔ میں نے فورااُسے آف کیا اور دروازہ کھول دیا ....... میرے سامنے میرا بیٹا نہایت مودب کھڑا تھا۔

                ” بابوجی آج آپ نے اُٹھنے میں بڑی دیر کردی ........ انجنا کے اسکول کو دیر ہو رہی تھی۔ وہ تو چلی گئی اور......“

                ” تو تم بھی چلے جاؤ.......میرا کیا ہے .......؟ “  میں نے بہت ہی دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ وہ سٹپٹا گیا، ” آپ کا ناشتہ میز پر لگا دیا ہے .......“

                ” بہت بہت شکریہ۔“  میرا لہجہ معمول کے مطابق ہو گیا۔ وہ صدر دروازے کی طرف بڑھا اور میں ماچس اور سگریٹ کی ڈبیا کو تلاش کرنے لگا۔

                میرے بدن پر شاور سے گرم پانی گر رہا تھا۔ مجھے عجیب سی لذّت محسوس ہو رہی تھی۔ طبعیت بے احتیار چاہی کہ اسی طرح بیٹھا رہوں ......... اور پھر شاید میں بہت دیر تک یونہی بیٹھا رہا۔

                ” آپ آخر جھاواں کیوں نہیں رگڑتے۔؟“

                ” تم اگر رگڑ دوگی تو ........؟“

                جھاواں میری پیٹھ پر گدگُدیاں کرنے لگا۔

                ” کیسا لگتا ہے .........؟“

                ” بہت اچھا .........تم رگڑتی ہو مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔“

                ” لیکن تمہاری کسی کہانی میں ایسی گد گدی نظر نہیں آتی۔؟ آخر تم کب تک کاغذ کی سطح کو عقاب کی چونچوں سے زخمی کرتے رہوگے .........،“  اور پھر وہ کھلکھلاکر ہنس پڑی۔

                میں نے کچھ کہنا چاہا، لیکن گرم پانی کے شاور کے نیچے میرے سارے ہی الفاظ گونگے ہوگئے ......

                ناشتے سے فارغ ہوکر میں باہر نکلا تو چوراہے پر مجھے نومولود افسانہ نگاروں کی ٹولی نظر آئی۔ میں نے اپنا راستہ بدل دیا لیکن دوسرے ہی لمحے مجھے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میں رُک گیا۔ پلٹ کر دیکھا۔ وہی لوگ تھے۔ میرے چہرے پر بیزارگی چھاگئی۔

                ” جناب ادب سے ریٹائرٹمنٹ کے بعد بھی آپ کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی .......؟“

                ” ارے کمال کرتے ہو تم بھی .....بھیّا جب تک یہ لکھتے تھے آدم بیزار تھے اور اب لکھنا چھوڑ دیا تو ادب بیزار ہوگئے۔“

                میں نے اُنھیں اور ان کے سوالوں کی طرف حقارت سے دیکھا اور  جونہی قدم اُٹھایا قہقہے گونج اُٹھے۔

                ” ضائع ہو گیا بیچارہ ...... اتنا کچھ لکھا، لیکن ادب کے بدلتے ہوئے رُجحانات نے سب پر پانی پھیر دیا ....... اب گمنامی کی زندگی گزار رہا ہے۔“  پتہ نہیں کس نے بھپتی کسی تھی ........ آواز میرے اندر سے اُٹھی تھی یا میرے کانوں میں اوپر سے پہنچی تھی، میں فیصلہ نہ کر سکا۔اور تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا قریبی ہوٹل میں داخل ہوگیا ....... وہاں بھی کچھ نئے ادیب و شاعر بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن کے سامنے  تازہ اخبار پھیلا ہوا تھا، اور غالبا اس میں چھپی کسی نظم پر زبردست بحث ہو رہی تھی۔ میرے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ دوڑ گئی....... جو نسل اخبارات میں چھپ کر ہی اپنے آپ کو عہد آفرین سمجھنے لگتی ہے اور مقامی تبصروں پر ایمان لے آتی ہے۔ وہ ادب کے کون سے نئے گوشے وا کر سکتی ہے۔؟ ادب کتنی ٹیڑی کھیر ہے اس کا اُنھیں اندازہ ہی نہیں ہے۔ میں نے ادب کے ساتھ ایک لمبی عمر تک نباہ کیا ہے۔ کیسے کیسے تجربے کیے ہیں۔۔ زبان کی سطح پر، اسلوب کی سطح پر کرداروں کی سطح پر ....... وہ میں ہی جانتا ہوں۔ لس نے کہانی کو روایت سے نکال کر جدیدیت کے مزاج سے آشنا کیا۔ لفظوں کی معنوی سطح قائم کی، علامت، تمثیل، استعاروں کے دروازے کھولے۔ اپنی راتوں کی نیندوں کو حرام کیا۔ فرحت بخش لمحات کا گلا گھونٹا۔ فن کے اعتبار کو حاصل کرنے کی خاطر اپنے اور بیگانوں کے اعتبار سے ہاتھ دھویا۔ بیوی کے طنز کے نشتر برداشت کیے۔ اپنے سکون کو غارت کیا۔ حد یہ کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی داؤ پر لگادیا ....... لیکن ادب نے مجھے پھر بھی کیا دیا .........؟ البتہ آج بھی میرا بیٹا میری خدمت اُسی خلوص اور محبت سے کرتا ہے ......... لیکن میں نے اُسے کیا دیا؟ کچھ بھی نہیں ........ کتنی بار ایسا ہوا کہ وہ اپنی توتلی زبان سے مجھے رجھانا چاہتا تھا اور میں نے اُسے ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش کر دیا۔ اُسے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا باپ جو گھر کی چار دیواری میں اس کی خاطر محبت کے دو بول نہیں کہہ سکتا تھا کاغذ پر کس فراغ دلی سے امرت بانٹتا ہے۔ وہ ہمک ہمک کر میری طرف آتا اور میری پھٹکار سن کر لوٹ جاتا۔ رفتہ رفتہ اس کے اور میرے درمیان اجنبیت کی ایک دیوار کھڑی ہوگئی اور وہ زیادہ تر اپنی ماں کے پاس ہی رہنے لگ 

۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ وہ اپنی کوئی بات کہنے کی خاطر بے تابانہ دوڑتا ہوا میری طرف آتا اور جونہی ہماری نظریں چار ہوتیں وہ سب کچھ بھول جاتا۔ ایسے وقت اس کی حالت دیکھنے کے لائق ہوتی ....... وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگتا اور پھر ملول سا لوٹ جاتا۔

                میرے روئیے نے میری بیوی کو بھی میرا شاکی کر دیا تھا۔ وہ بات بات پر مجھ سے اُلجھنے لگتی۔ طنز کے تیر چلاتی۔ بد زبانی کرتی۔ میرا مذاق اُڑاتی۔ بار بار مائیکے جاکر بیٹھ جاتی۔ میرے دوستوں اور رشتہ داروں میں میری برائیاں کرتی لیکن میں نے پرواہ ہی نہیں کی ..... میں سمجھتا تھا کہ میں ان سب باتوں سے بہت بلند ہوں۔ میرا ادب میرے لیے آبِ حیات ثابت ہوگا  اور آبِ حیات کی خاطر مجھے سب کچھ تیاگ دینا چاہیے۔

                اور میں نے بہت کچھ تیاگا بھی ...... لیکن یہ نئی نسل، سہل پسند، ناقدین کے طئے کردہ راستوں پر سفر کرکے اپنے آپ کو بڑا فنکار سمجھنے لگی ہے۔ کہانی پن کو صرف بیانیہ سمجھ رہی ہے اور بیانیے کو افسانہ کا اصلی جوہر ......بھلا سپاٹ بیانیہ کبھی اپنی وقعت حاصل کر سکے گا۔؟  میں نے اپنے آپ کو تسلی دی اور چائے کے گھونٹ حلق سے نیچے اُتارنے لگا۔ میرے چاروں طرف گرم گرم بھاپ پھیل رہی تھی۔

                حسب معمول شام کو میں اپنے کمرے میں تھا۔ تاریکی آسمانوں سے اُترنے لگی تھی۔ میرے کمرے کے سارے ہی دروازے اور کھڑکیاں کھلے ہوئے تھے۔ میں چپ چاپ بیٹھا دور تک جاتی ہوئی سڑک کی اُداسیوں کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک میرے کانوں سے بِلو کی آوازیں ٹکرائیں، ” نہیں انجنا ......میرا باپ اس قابل نہیں ہے کہ اُس سے محبت کا برتاؤ کیا جائے ...... تم نہیں جانتیں .....میری ماں نے اپنی زندگی کا ایک ایک پل کیسے بتایا ہے، لیکن بحیثیت ادیب اُن کا مقام بہت بلند ہے۔ ممکن ہے یہ دھائی اُنھیں فراموش کر رہی ہو۔۔ لیکن تم دیکھنا جب بھی ادب کا کوئی صحیح ناقد پیدا ہوگا، میرے باپ پر زبان بھی فخر کرے گی ........“

                ” اور تم .......؟“

                ” میں .......میں تو اپنے بابوجی کے نزدیک ہمیشہ ہی وہ بے معنی لفظ رہا ہوں جسے ان کے قلم نے یونہی لکھ دیا تھا ......“  اس کی آواز بھراگئی تھی ........ نہیں شاید میں بھرا گیا تھا۔ مندگی میں پہلی بار کسی بے معنی تحریر کے بامعنی ہونے پر مجھے سوچنا پڑا تھا۔ بے اختیار میری طبعیت چاہی کہ اپنی ساری ہی کتابوں کو آگ لگا دوں اور دوڑتا ہوا جاکر اُسے اپنے سینے سے لگالوں ....... اُسے اتنا چوموں کہ ماضی تا حال سارے ہی فاصلے طئے ہوجائیں ....... میری آنکھیں بھیگ گئیں ......اور میں بے چینی کے عالم میں ٹہلنے لگا ......

                وہ حسب معمول میرے کمرے میں داخل ہوا۔ میں نے فورااپنی آنکھیں خشک کر لیں اور چپ چاپ پلنگ پر لیٹ گیا۔ وہ کرسی کھسکا کر میرے قریب آگیا اور پھر ہمیشہ کی طرح اس کے ہاتھ میرے پیروں کو دبانے لگے۔ میں نے اس سے کچھ نہیں کہا اور چپ چاپ اس کے چہرے کو تکنے لگا۔ اُس نے گردن اُٹھائی تو مجھے پھر ایک بار اُس کی آنکھوں میں وہی بے چین زندہ کہانی کسی پکے ہوئے پھل کی طرح جھولتی ہوئی نظر آئی۔ اچانک میرے تخلیقی سوتے جاگ اُٹھے اور میں اُٹھ بیٹھا اور اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔ اُس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا تو میں بولا، ” بِلو........ ٹیبل پر کاغذات اور قلم رکھ دو۔میں آج اس کہانی کو لکھنا چاہتا ہوں جس کی خاطر یہ کائنات پیدا کی گئی ہے۔ میں اُ سے دیوانوں کی طرح آفاق میں ڈھونڈھتا رہا اور وہ زمین پر بکھری ہوئی تھی۔ میرے قدموں سے لپٹی ہوئی تھی لیکن میں اُسے پہچان نہ سکا .........آج جب میں نے اپنے درد سے بلند ہوکر اور اپنے وجود کو سمیٹ کرتمہاری آنکھوں میں جھانکا تو وہ مجھے نظر آگئی۔وہ تو تمہاری آنکھوں میں چھپی بیٹھی تھی۔۔۔ میں پھر سے لکھنا چاہتا ہوں ......... کم از کم ایک زندہ کہانی .........“

                بِلو کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور اس کے ہاتھ پہلی بار میرے پیروں سے بلند ہوکر میرے گلے میں حائل ہوگئے اور میں بے احتیار اُس کے ماتھے کو چومنے لگا۔

                                          ٭٭٭٭٭

                                                         تمام شد  

Read 2397 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com