افسانہ نگار: انجینیرفرقان سنبھلی
طلسم
فتح اندلس سے قبل بادشاہ راڈرک اپنے گساروں کے ساتھ گھوڑے دوڑاتے ہوئے تیزی سے قلعہ کی طرف چلا جا رہا تھا۔ جسے اس نے حال ہی میں فتح کیا تھا۔ فتح کی چمک چہرے پر صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اچانک اس نے گھوڑے کی باگیں کھینچ لیں گھوڑے بھیانک ہنہناہٹ کے ساتھ رکتے چلے گیے۔
”سپہ سالار۔۔۔۔۔۔یہ پہاڑیوں کی اوٹ میں کون سی عمارت دکھائی دے رہی ہے“
”حضور۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو وہی طلسماتی عمارت نظر آتی ہے جسکی اطلاع ہمارے مخبروں نے دی تھی“
”اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم یہ عمارت دیکھنا چاہتے ہیں“
”میری درخواست ہے حضور۔۔۔۔۔۔۔کہ پہلے دربار سے فارغ ہو لیں“
”ٹھیک ہے۔۔۔۔۔لیکن ہم جلد از جلد اس عمارت کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں یہ عمارت ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی ہے“
بادشاہ راڈرک کا د ربار لگا ہوا تھا۔ بادشاہ نے ضروری احکام صادر بھی نہیں کیے تھے کہ اچانک دو نہایت بوڑھے شخص نمودار ہوئے۔ انہوں نے زمانہ قدیم کے لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ وہ اپنی سفید قباؤں کے ساتھ کمر پر پُراسرار قسم کی چوڑی بیلٹ باندھے ہوئے تھے جس پر بارہ برجوں کے نشان بنے ہوئے تھے۔ ہر برج کے نشان کے ساتھ کئی کئی چابیوں کے گچھے لٹکے ہوئے تھے۔ ان بوڑھوں میں سے ایک نے بادشاہ کو بتانا شروع کیا۔
”ہرقل اعظم نے قدیم شہر کے قریب ایک قلعہ نما شاندار عمارت تعمیر کرائی تھی جس میں ایک طلسم بند ہے۔ عمارت کا راستہ بڑے وزنی پھاٹکوں سے بند کیا گیا ہے اور اس پھاٹک میں قفل بڑھے ہوئے ہیں۔ ہر نئے تخت نشین کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان میں اپنے قفل کا اضافہ کرے۔“
”اس کا کیا مطلب ہے“ راڈرک حیران ہوا۔
بوڑھے نے کہنا جاری رکھا۔
”جو بادشاہ اس طلسم کو کھولنے کی کوشش کریگا وہ تباہ و برباد ہو جائیگا“
اتنا کہہ کر بوڑھا خاموش ہو گیا۔ دربار میں سناٹا پَسرا ہوا تھا۔ اب دوسرے بوڑھے نے بولنا شروع کیا۔
”ہم نسل در نسل اس طلسم کے محافظ ہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ جس نے بھی اس طلسم کو افشا کرنے کی کوشش کی ہے وہ برباد ہو گیا۔۔۔ تو۔۔۔۔اے بادشاہ آپ سے ہماری التجا ہے کہ آپ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح اس طلسم پر اپنا کفل ڈال دیں۔“
بوڑھے ان مفروضات کو بیان کرکے غائب ہو گئے۔ لیکن بادشاہ راڈرک سمیت تمام درباریوں کو اشتیاق میں مبتلا کر گئے۔ ان میں سے کچھ خائف تھے تو کچھ اس طلسم کا راز دریافت کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ راڈرک بھی اسی گروہ میں شامل تھا۔
دربار برخواست ہو گیا تو راڈرک نے اپنے حجرۂ خاص میں شاہی مشیروں اور عہدے داران کا اجلاس منعقد کیا۔
”میں اس طلسم کا راز دریافت کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہوں“
”حضور۔۔۔۔۔بوڑھوں نے جو کچھ بیان کیا ہے اسکی روشنی میں آپکی یہ کوشش خطرناک ہو سکتی ہے“ ایک مشیر نے کہا۔
”مجھے خطروں سے کھیلنے کا شوق ہے“
”پھر بھی آپ کو وہاں نہیں جانا چاہئے۔ اور اگر جانا ہی ہے تو پیش روؤں کی طرح اس طلسم پر اپنا قفل ڈال کر واپس آجاناچاہئے“وزیر نے صلاح دی۔
”ہاں۔۔۔۔۔۔اس میں کوئی حرج نہیں“۔ وزیر کی صلاح پر اجلاس میں عام رائے قائم ہو گئی تو بادشاہ کو ضد چھوڑنی پڑی۔ طے پایا کہ بادشاہ کے ساتھ وزیر اور چند معتمد خاص قفل ڈالنے کی مہم پر جائیں گے۔
اگلے ہی دن راڈرک کا قافلہ پہاڑی کی طرف روانہ ہو گیا۔ راڈرک نے دیکھا کہ بہت اونچی پہاڑی پر ز مرد اور سنگ مرمر سے بنا پرانا لیکن خوبصورت برج قائم ہے۔ اس پہاڑی کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھیں جنہوں نے اس برج کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ گویا اس کی حفاظت پر مامور ہیں۔ راڈرک کا قافلہ جب برج والی پہاڑی کے نزدیک پہنچا تو اس نے دیکھا کہ برج پر بڑی کاریگری سے طرح طرح کے نقش کندہ کیے گئے ہیں۔ یہ نقش سورج کی کرنوں کے پڑنے سے ہیرے کی طرح چمک رہے تھے۔ برج والی اس عمارت تک پہنچنے کے لئے پہاڑیوں کو کاٹ کر راستہ بنایا گیا تھا۔ راستہ جہاں ختم ہو رہا تھا وہاں ایک بڑا سا پھاٹک لگا ہوا تھا جس کے بیچ و بیچ بہت سے تالے (قفل)لٹکے ہوئے تھے راڈرک کو بوڑھوں کی بات پر اب یقین ہو چلا تھا۔ یہ وہی تالے تھے جو اپنے اپنے دور حکومت میں اس سے پہلے گذر چکے بادشاہوں نے پھاٹک پر لگائے تھے۔ راڈرک کا قافلہ اب پھاٹک کے بالکل نزدیک پہنچ چکا تھا۔ راڈرک نے دیکھا کہ تمام تالے بالکل ایک جیسے ہی تھے اور ان پر سابقہ بادشاہوں کے نام کندہ تھے۔ پھاٹک پر راڈرک کے پہلے کے آخری بادشاہ کا تالا بھی لگا ہوا تھا۔ اچانک چار ہاتھوں نے ایک بڑا سا تالا راڈرک کی طرف بڑھایا جس پر راڈرک کا نام کندہ تھا راڈرک نے حیران ہو کرادھر ادھر نظریں گھمائیں تو اسے دائیں بائیں کھڑے وہی دو بوڑھے دکھائی دیے جو اس کے دربار میں آئے تھے۔انہوں نے ہی راڈرک کے نام والا تالا پکڑ رکھا تھا۔ بوڑھوں نے بادشاہ سے پھر التجا کی۔
”حضور۔۔۔۔۔۔آگے بڑھیے اور اپنے نام کا قفل ڈال دیجئے“
”نہیں۔۔۔۔۔۔“بادشاہ کی گرجدار آواز سن کر بوڑھے اور اس کے ساتھ آئے درباری بھی اچھل پڑے۔
”نہیں۔۔۔۔۔۔ہم یہ تالا بعد میں لگائیں گے پہلے اس طلسم کا راز دریافت کریں گے“
بادشاہ کی بات نے دھماکہ کیا تھا جس کے اثر سے پورا قافلہ ہل گیا۔
”یہ کیا کہہ رہے ہیں بادشاہ حضور۔۔۔۔۔۔۔۔طے تو یہ ہوا تھا کہ آپ قفل ڈال کر واپس ہوجائیں گے“ وزیر نے ہمت کرکے منھ کھولا۔
”ہاں۔۔۔۔۔۔لیکن اب ہمارا ارادہ بدل گیا ہے۔ ہم اس طلسم کا راز دریافت کرکے ہی پھاٹک پر قفل ڈالیں گے۔
”لیکن تب آپ قفل ڈالنے لائق نہ رہیں گے حضور“۔ بوڑھوں نے بے خوف ہوکر ایک سر میں جملہ ادا کیا۔
”دیکھا جائے گا۔۔۔۔۔۔“ راڈرک نے انہیں تالے کھولنے کا حکم دیا۔
شاہی حکم سے مجبور ہو بوڑھوں نے تالے کھولنے شروع کیے۔ ایک ایک کر جب سارے تالے کھل گئے تو راڈرک نے کہا۔
”میں اندر جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔اگر تم میں سے کوئی واپس جانا چاہے تو جا سکتا ہے“
کہتے کہتے راڈرک نے قدم پھاٹک کے اندر رکھ دیئے۔ اس کے پیچھے اس کا پورا قافلہ بھی اندر داخل ہو گیا۔ اندر گھپ اندھیرا تھا۔ کچھ دیر بعد جب انکی آنکھیں ذرا دیکھنے لائق ہو ئیں تو راڈرک کو محسوس ہوا کہ یہ ایک کمرہ ہے جس کے دو طرف دروازے ہیں۔ جس طرف کے دروازے پر ہلکی روشنی دکھائی دے رہی تھی راڈرک اور اس کا قافلہ اسی طرف بڑھ چلا۔ ابھی وہ دروازے سے کچھ دور تھا کہ ایک دم کمرہ روشنی سے نہا اٹھا۔ سبھی حواس باختہ ہو کر دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔
راڈرک کی نگاہ اچانک دروازے کی طرف اٹھی تو اس کی چیخ نکلتے نکلتے بچی۔ دروازے پر ایک گرز بردار مجسمہ نصب تھا۔ جس کے منھ سے بار بار یہ تنبیہ ہو رہی تھی۔
”خبردار۔۔۔۔۔۔۔اندر جانے والا تباہ و برباد ہو گا۔۔۔۔۔۔۔میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں“
اس مجسمہ کے ہاتھ میں بڑا سا فولادی گرز تھا۔ راڈرک اور اس کے قافلے نے نہایت خوف کے عالم میں دیکھا کہ مجسمہ کے ہاتھ میں تھما گرز بار بار زمین پر گررہا تھا جس سے ہیبت ناک آواز نکل رہی تھی راڈرک نے بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہویے زور سے کہا۔
”میں کسی بری نیت سے اندر نہیں جا رہا ہوں۔۔۔۔میں یہاں کا بادشاہ ہوں۔مجھے اندر جانے دو۔“
راڈرک کی آواز نے جادو کا سا اثر کیا۔ مجسمہ کے ہاتھ کا اوپر نیچے ہوتا گرز ٹھہر گیا۔ خبردار کی آوازیں بھی آنی بند ہو گیں۔ مجسمہ میں گھر گھر اہٹ ہوئی اور وہ اپنے پیروں پر ہی گھوم کر ٹھیک راڈرک کے سامنے رک گیا۔ اسکی دہشت ناک آنکھیں راڈرک پر مرکوز تھیں جسیے کہ وہ راڈرک کے بادشاہ ہونے کی تصدیق کرنا چاہتی ہوں۔ اچانک مجسمہ نے راستہ خالی کر دیا۔
راڈرک کا قافلہ دروازہ پار کر گیا۔ اندر پر طرف جادو بکھرا پڑاتھا۔ سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ہیرے جواہرات کے ڈھیر لگے تھے۔ ان کی آنکھیں ہیروں کی چکا چوندھ سے چندھیاگئیں۔ راڈرک کے قافلے میں شامل لوگ ہیرے جواہرات پر للچائی نگاہیں ڈالنے لگے۔ ان ہیرے جواہرات کے ڈھیروں کے بیچ و بیچ ہر قل اعظم کی نصب کردہ میز رکھی تھی۔ میز پر ہیرے جڑاؤ ایک صندوق پہ رکھا تھا۔ راڈرک ڈرتے ڈراتے اس صندوقچے کے قریب پہنچا۔ اس نے صندوقچہ کا قفل کھولا اور ڈھکن اٹھا دیا۔ یہاں ایک اور حیرت انکی منتظر تھی۔ صندوقچے کے اندر ایک گڈے نما بت کھڑا تھا۔ اچانک اس بت کے اندر سے آواز آئی۔
”اس صندوقچہ میں طلسم کا راز ہے اسے بادشاہ کے علاوہ کوئی اور تلاش نہیں کر سکتا۔۔۔اور بادشاہ بھی سن لے۔۔۔۔۔۔۔اسے خبردار رہنا چاہیے کہ جو کچھ اس پر ظاہر ہوگا وہ اس کی موت سے پہلے پہلے ضرور ہو کر رہے گا“
راڈرک کے وزیر اور دوسرے لوگوں نے جب یہ سنا تو انکے چہرے فق ہو گئے۔ انہوں نے بادشاہ سے لوٹ چلنے کا اصرار کیا۔ مگر بادشاہ کہاں ماننے والا تھا۔ اس نے صندوقچے کے اندرہاتھ ڈالا ایک قدیم پیپرس کا غذ اس کے ہاتھ میں آگیا۔ اس پر چندگساروں اور جلی ہوئی کشتیوں کی تصویریں نقش تھیں۔
بت کے اندر سے پھر آواز آئی۔
”اونا فرمان بادشاہ۔۔۔۔۔۔۔دیکھ۔۔۔۔۔۔۔غور سے دیکھ۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی وحدانیت کا اقرار کر چکے ہیں اور ظالموں کا صفایاکر نے سر سے کفن باندھ کر نکل چکے ہیں۔
راڈرک کی نگاہیں پیپرس کاغذ پر جم گئیں۔ اس نے بہ غور تصویروں کودیکھا اور انہیں پہچاننے کی کوشش کی۔تبھی یوں لگا جیسے وہ تصویریں نہیں کوئی چلتی پھرتی دنیا دیکھ رہا ہے۔ تبھی روشنی دھند لانے لگی اور اس دھند لکے میں اسے مدھم سا منظر نظر آنے لگا۔جو دھیرے دھیرے صاف ہونے لگا۔تصویر وں میں نقش لوگ حرکت میں آچکے تھے۔ پیپرس کاغذ جنگ کے میدان میں تبدیل ہو گیا تھا۔ ایک طرف صافہ باندھے لوگوں کی جماعت تھی تو دوسرے فریقین کے گلوں میں کراس لٹک رہے تھے پھر گھوڑوں کے دوڑنے اور ہتھاروں کے چلنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ تلواریں اور گرز چمکنے لگے ہر طرف حشر برپا دکھائی دے رہا تھا۔منظر بدلتے رہے کب تک یہ سلسلہ جاری رہا کوئی نہیں جان سکا سارا قافلہ مبہوت تھا اور اب جو منظر سامنے تھا اس میں صافہ باندھے لوگوں کے لشکر نے طارق ؔ زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دئے تھے۔ دوسرالشکر منتشر ہو گیا تھا۔ ان کا سردار جس نے سر پر شاہی تاج پہن رکھا تھا گھوڑے کو تیز تیز بھگائے لئے جا رہا تھا۔ طارقؔ کا لشکر اس کے پیچھے تھا۔ بھاگتے بھاگتے وہ گھوڑے کی پیٹھ سے گر پڑا اور تبھی سارے منظر غائب ہو گئے۔
بادشاہ راڈرک اور اس کے کافلے پر اس بری طرح خوف طاری ہوا کہ وہ وہاں سے اندھا دھند باہر کی طرف بھاگے کسی نے بھی ہیرے جواہرات کی طرف نہیں دیکھا جو کہ اب سلگتے انگارے بن گئے تھے۔ وہ جیسے ہی کمرے کے اندر داخل ہوئے تو ایک اور حیرت ان کی منتظر تھی۔ گرز بردار پہریدار غائب تھا۔بدحواسی کے عالم میں وہ یہاں سے بھاگ کر پھاٹک کے باہر آئے جہاں انکے گھوڑے کھڑے ہوئے تھے۔ یہاں ایک دوسری حیرت سے ان کا سامنا ہوا۔ اس پر اسرار عمارت کے رکھوالے دونوں بوڑھوں کی لاشیں پھاٹک پر پڑی ہوئی تھیں۔ بادشاہ نے وقت گنوانا بہتر نہیں سمجھا اور فوراً گھوڑے پر سوار ہوکر گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ وہ بھاگتا چلا جا رہا تھا بھاگتا چلا جا رہا تھا۔بھاگتے بھاگتے جب اسے احساس ہوا کہ قافلے کے گھوڑوں کی ٹاپیں اس کے پیچھے نہیں آرہی ہیں۔ تو اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔۔۔۔۔۔اس نے دیکھا پہاڑی پر ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔پتھر آگ کی شدت سے چٹخ رہے ہیں اور اوچھل اوچھل کر اِدھر اُدھر لڑھک رہے ہیں۔ اسکا قافلہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔مارِخوف راڈرک کے ماتھے پر پسینہ چھلک آیا۔ اس نے گھوڑے کو مزید ایڑ لگائی اور گھوڑا سرپٹ دوڑنے لگا۔۔۔۔۔بھاگتے بھاگتے وہ میلوں کا سفر طے کر چکا تھا لیکن اس کا محل اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا وہ دوڑتا رہا دوڑتا رہا۔۔۔۔۔۔اور اچانک اس کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی۔۔۔۔۔۔۔راڈرک ایک چیخ مارتا ہوا زمین پر گر پڑا۔
(ختم)
انجینیر محمد فرقان سنبھلی
دیپا سرائے چوک سنبھل
یو پی۔244302
موبائل:09568860786
ای میل:عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.